وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 95170
ڈاؤنلوڈ: 4458

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95170 / ڈاؤنلوڈ: 4458
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان سے شفاعت کا طلب کرنا

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں موجود روایات پر نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کیا کرتے تھے جن میں سے دو مورد کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

۱۔انس کی روایت:

انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ روز قیامت میری شفاعت کریں

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میری درخواست کوقبول کرلیا اور فرمایا: میں اسے انجام دوں گا

میں نے عرض کیا : اس دن میں کس مقام پر آپ سے ملاقات کروں ؟

فرمایا : پل صراط کے کنارے. ۔

میں نے عرض کیا : اگر وہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نہ پا سکوں تو پھر ؟( ۱ )

فرمایا : میزان کے کنارے۔

میں نے پھر عرض کیا : اگر وہاں بھی آپ کو نہ پا سکا تو پھر ؟

فرمایا : حوض کے کنارے اس لیے کہ میں ان تین مقامات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوں گا.

____________________

۱۔سنن ترمذی ۴: ۶۲۱ ، ح ۲۴۳۳. اس روایت کا متن یوں ہے : انس بن مالک کہتے ہیں : سألت النبی صلی الله علیه وآله وسلم أن یشفع لی یوم القیامة ؟

فقال : أنا فاعل .......قلت : فأین اطلبک ؟

قال: اولا علی الصراط

قلت : فان لم ألقک ؟

قال : عند المیزان

قلت: فان لم ألقک ؟

قال : عند الحوض ؛ فانّی لا أخطی هذا المواضع

۴۱

۲۔سواد بن قارب کی روایت:

روایت میں آیا ہے کہ ایک دن سواد بن قارب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اشعار کی صورت میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرتے ہوئے کہا :

وکن لی شفیعا یوم لا ذو شفاعة

سواک بمغن فتیلا عن سواد بن قارب ( ۱ )

اے پیغمبر ! روز قیامت میری شفاعت کرنا ، اس روز کہ جب دوسروں کی شفاعت خرما کے برابر بھی میرے کام نہ آئے گی

____________________

۱۔ الاصابة ۲: ۶۷۵،ح ۱۱۰۹؛ الاحادیث الطوال طبرانی : ۲۵۶ ؛ الدّرر السّنیة فی الرد علی الوھابیة: ۲۷

۴۲

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعدان سے شفاعت کی درخواست

ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت صرف ان کی زندگی ہی میں محدود نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام وصال کے بعد بھی پیغمبر رحمتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت کی درخواست کرتے رہتے اس بارے میں چند روایات نقل کر رہے ہیں :

۱۔ حضرت علی علیہ السلام کا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

محمد بن حبیب کہتا ہے : جب حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل وکفن دے چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ مبارک سے کفن کو ہٹاتے ہوئے عرض کیا :

بأبی أنت و امّی طبت حیّاو طبت میّتا بأبی أنت و امّی أذکرنا عند ربّک (۱)

میرے ماں باپ آ پصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں آپ نے پاک و پاکیزہ زندگی کی اور پا ک و پاکیزہ ربّ کی بارگاہ میں منتقل ہوئے .. میرے ماں باپ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر قربان ہوں اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہمیں بھی یاد رکھنا.

۱۔ التمہید ، ابن عبد البر ۲: ۱۶۲؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ۱۳: ۴۲، ح۲۳.

۲۔ ابوبکر کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شفاعت طلب کرنا :

حضرت عائشہ کہتی ہیں : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی خبر ابو بکر تک پہنچی ...تو اس نے اپنے کو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے (بدن مبارک )کے اوپر گرایا ، چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹاکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صورت و پیشانی اور رخساروں پر ہاتھ ملتے ہوئے رو کر کہا :.اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! ہمیں اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں یاد رکھنا( ۱ )

____________________

۱۔ تمہید الأوائل و تلخیص الدلا ئل ، باقلانی ۱: ۴۸۸؛ الدرر السنیّة فی الرد ّ علی الوبابیة : ۳۴؛سبل الھدی والرشاد ۲:۲۹۹، باب ۲۸. اس حدیث کا متن یہ ہے :قالت عائشه وغیرها من الصحابة : انّ الناس أفحموا ودهشوا حیث ارتفعت الرنة حتی جاء الخبر أبا بکر حتی دخل علی رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فأکبّ علیه و کشف عن وجهه و مسحه و قبّل جبینه و خدّیه و جعل یبکی و یقول : بأبی أنت وأمی و نفسی وأهلی طبت حیّا و مشیا أذکرنا یا محمد عند ربّک

۴۳

۳۔ اعرابی کا صحابہ کی موجودگی میں شفاعت طلب کرنا:

احمد زینی دحلان ( امام الحرمین ) نے اس بارے میں ابن حجر عسقلانی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین بعد ایک عر ب بادیہ نشین مدینے میں وار د ہوا اورقبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر اپنے کو اس پر گرایا اور قبر کی خاک کو سر میں ڈال کر کہنے لگا : یا رسول اللہ ! آپ نے اپنی زندگی میں کچھ باتیں بیان فرمائیں ، ہم نے انہیں قبول کیا جس طرح آپ نے دستورات دینی کو خدا سے لیا اسی طرح ہم نے ان دستورات کو آپ سے لیا وہ آیات جو خدا وند متعال نے آپ پر نازل فرمائیں ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے :

( ولو أنهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ۔

اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے لیے استغفار کرتے اور رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.( ۱)

یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ! میں نے اپنے اوپر ستم کیا ہے اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں تا کہ خدا سے میری بخشش کی دعا کریں

اتنے میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آواز آئی کہ خد انے تجھے بخش دیا ہے( ۲ )

____________________

۱۔سورہ نساء : ۶۴

۲۔الدرر السنیّة فی الردّ علی الوہابیة : ۲۱، نقل از جواہر الکلام ؛ تفسیر قرطبی ۵: ۲۶۵، ذیل آیت ۶۴ سورہ نساء ؛ تفسیر بحر المحیط ابو حیّان اندلسی ۴: ۱۸۰، باب ۶۴ ذیل سورہ نساء ان کتب میں یوں نقل ہوا ہے :قال العلاّمة ابن حجر فی جوهر المنّظم : وروی بعض الحفاظ عن أبی سعید السمعانی أنّه روی عن علی رضی الله عنه وکرّم الله وجهه : انّهم بعد دفنه صلی الله علیه وآله وسلم بثلاثة ایّام ، جائهم أعرابی ، فرمی بنفسه علی القبر الشریف و حثی ترابه علی رأسه ، وقال : یا رسول الله ! قلت فسمعنا قولک و وعیت عن الله ما وعینا عنک ، وکان فیما أنزل الله علیک قوله تعالی : ولو أنهم اذ ظلموا وقد ظلمت

۴۴

حیات انبیاء

اس میں شک نہیں ہے کہ انبیائے الہی اور خاص طور پر آخری سفیر الہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی حیات ابدی کے مالک ہیں وہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اور امّت کے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں

ان کی یہ زندگی شہداء کی زندگی سے بالا تر ہے اس لیے کہ یقینا مقام نبوت مقام شہادت سے بلند وبالا ہے اس اعتبار سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ان سے شفاعت طلب کرنا کسی مردے سے شفاعت طلب کرنا نہیں ہے.

اس بارے میں مسلمان علماء و مفکرین نے اپنی آراء بیان کی ہیں جن میں سے چند ایک کو یہاں بیان کر رہے ہیں :

قسطلانی کہتے ہیں :لا شک ّ أنّ حیاة الأنبیاء علیهم الصلاة و السلام ثابتة معلومة مستمرّة و نبیّنا أفضلهم ، و اذا کا ن کذالک فینبغی أن تکون حیاته أکمل و أتمّ من حیاة سائرهم

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انبیاء کا وفات کے بعد بھی زندہ ہونا ایک ثابت، معلوم اور دائمی امر ہے دوسر ی طرف ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم باقی انبیاء سے افضل ہیں تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی بھی رحلت کے بعد ان سے اکمل ہو گی( ۱ )

____________________

۱۔المواھب اللدنیّة ۳: ۴۱۳.

۴۵

شوکانی اپنی کتا ب نیل الأوطار فصل صلا ة المخلوقات علی النبی ّ وهو فی قبره حیّمیں لکھتا هے : وقد ذهب جماعة من المحققین الی انّ رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم حیّ بعد وفاته و أنّه یسرّ بطاعات أمته ، وأنّ الأنبیاء لا بیلون ، مع أنّ مطلق الادراک کالعلم والسماع ثابت لسائر الموتی ، وورد النصّ فی کتاب الله فی حق ّ الشهدا ء أنّهم أحیاء یرزقون و أنّ الحیاة فیهم متعلقة بالجسد ، فکیف بالأنبیاء والمرسلین وقد ثبت فی حدیث : أنّ الأنبیاء أحیاء فی قبورهم و رواه المنذری و صحّحه البیهقی

محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی امّت کی اطاعا ت سے خوش ہوتے ہیں .انبیاء کے بدن قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتے مطلقا ادراک جیسے علم وسماعت تمام مردوں کے لیے ثابت ہے اور قرآ ن کریم کی واضح نص کے مطابق شہدا ء زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے تو ان کی زندگی ان کے بدن سے متعلق ہے پس جب شھداء ایسے ہیں تو انبیاء و رسول تو بدرجہ اولیٰ زندہ ہیں اور ان کی زندگی ان کے جسم سے مربوط ہے

ابن حجرہیثمی اپنی کتاب میں عبد اللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات کے بعد اپنی حیات کے بارے میں یوں فرمایا :حیاتی خیر لکم تحدثون و یحدث لکم ، ووفاتی خیر لکم ، تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت الله علیه وما رأیت من شرّ أستغفرت الله لکم

میری زندگی بھی تمہارے لیے با عث برکت ہے اور میری وفات بھی تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جب تمہارے نیک اعمال کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور جب تمہارے برے اعمال کو دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں

۴۶

ابن حجر اس حدیث کی سند کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اس حدیث کے راوی وہی صحیح بخاری اور صحیح مسلم والے ہیں( ۱ )

مسلم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :مررت علی موسیٰ لیلة اسری بی عند الکثیب الأحمر وهو قائم یصلّی فی قبره

جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنی قبر میں نماز میں مشغول تھے.( ۲ )

____________________

۱۔ مجمع الزوائد ۹ : ۲۴؛ الجامع الصغیر : ۵۸۲؛ کنز العمّال ۱۱: ۴۰۷.

۲۔ صحیح مسلم ۷: ۱۰۲کتاب فضائل موسیٰ علیہ السلام ؛ المصنف عبد الرزّاق ۳:۵۷۷.

۴۷

استغفارآیات کی روشنی میں

اب چونکہ استغفار کی بات آگئی تو مناسب یہی ہے کہ اس موضوع کو آیات و روایات کی روشنی میں پرکھا جائے اس بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کر رہے ہیں :

۱۔ ہم سورہ منافقون میں پڑھتے ہیں :

( واذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رؤسهم و رأیتهم یصّدون وهم مستکبرون ) ( ۱)

ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بناء پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں

خدا وند متعال نے اس آیت مجیدہ میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے سے رو گردانی کرنے کو نفاق کی علامت بیان کیا ہے .تو اس کی ضد یا نقیض وہی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنا ہے جو ایمان کی علامت ہے

۱۔ سورہ نساء میں بیان ہوا ہے :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفرواالله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توّابا رحیما ) ( ۲)

ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے.

نیز یہ آیت بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بخشش کے طلب کرنے کو واضح طور پر بیان کررہی ہے جو حقیقت میں وہی طلب شفاعت ہے

____________________

۱۔سورہ منافقون : ۵.

۲۔سورہ نساء : ۶۴.

۴۸

شفاعت کے بارے میں وہابی نظریہ

وبابی فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا حرام ہے .ابن عبد الوھاب کہتا ہے :(من جعل بینه و بین الله وسائط یدعوهم و یسألهم الشفاعة کفراجماعا )( ۱ )

جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطے قرار دے ، انہیں پکارے اور ان سے شفاعت طلب کرے تو اجماع کے مطابق اس نے کفر کیا ...؛

ہم ان کے اس نظریہ کو ردّ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مدعا پر محکم و قاطع ادلّہ بیان کریں گے اور پھر علمی وعقلی ادلّہ کے ساتھ ان کے نظریہ کو ردّ کریں گے

واضح ہے کہ وہابی دونوں اعتبار سے عاجز و ناتوان ہیں اب ہم فقط ان کی ادلّہ کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے

سب سے پہلی آیت جس سے وہابی استدلال کرتے ہیں وہ یہ آیت مجیدہ ہے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے: (( ویعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم و یقولون هٰؤلاء شفعائنا عند الله قل أتنبئون الله بما لا یعلم فی السماوات ولا فی الأرض سبحانه وتعالی عمّا یشرکون ) )( ۲ )

ترجمہ:اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ا ن کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے زمین و آسمان میں کہیں نہیں ہے وہ پاک وپاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے

محمد بن عبد الوہاب اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتاہے : خدا نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ جو شخص کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دے تو اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی اور اسے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے.

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۳۸۵؛ اور ۶: ۶۸ ،۲۔ سورہ یونس : ۱۸.

۴۹

اس نظریہ کا جواب

ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس آیت سے اس طرح کا مفہوم لینا بہت عجیب اور خدا پر جھوٹ و افتراء کا واضح مصداق ہے اس آیت میں کہاں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دینا شرک ہے؟ کیا اس طرح کا مفہوم لینا اس آیت مجیدہ کا مصداق نہیں ہے :

( آلله أذن لکم أم علی الله تفترون ) ( ۱ )

کیا خدا نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا خدا پر افترا کررہے ہو ؟

اس لیے کہ آیت کا محورغیر خدا کی عبادت ہے نہ کہ کسی کو شفیع و واسطہ قرار دینا .آیت مجیدہ سے اس طرح کا مفہوم لینا اپنے مدعا کے اثبات کی خاطر ایک طرح کا مغالطہ یا کج فہمی ہے چونکہ یقینا جو لوگ انبیاء و آئمہ اطہار اورصالحین کو واسطہ قرار دیتے ہیں وہ ان کی پرستش نہیں کرتے.

اور پھر اس آیت مجیدہ کا شان نزول بھی اس بات کی حکایت کررہا ہے کہ جن کی مذمت کی گئی وہ وہ افراد تھے جو واسطوں کی پرستش کیا کرتے تھے نہ کہ صرف ان کو واسطہ قرار دیتے تھے چند ایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں

جلال الدین سیوطی لکھتاہے: نضر ( جو مشرک تھا ) نے کہا :

روز قیامت لات وعزیٰ میری شفاعت کریں گے .اس وقت خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی :( فمن أظلم ممن افتری علی الله کذبا أو کذب بآیاته انّه لا یفلح المجرمون. و یعبدون من دون الله مالا یضرّهم ولا ینفعهم ..؛ ) ( ۲ )

ترجمہ : اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹا الزام لگائے یا اس کی آیتوں کی تکذیب کرے جب کہ وہ مجرمین کو نجات دینے والا نہیں ہے اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ فائدہ ...؛

____________________

۱۔ سورہ یونس : ۵۹.

۲۔سورہ یونس : ۱۷و ۱۸.

۵۰

ابن کثیر اس آیت کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں لکھتاہے:

خداوند متعال اس آیت میں ان مشرکین کوردّکررہا جو اس کا شریک قرار دیتے اور ان کی پرستش کیا کرتے .وہ یہ گمان کرتے کہ ان کے خیالی خداان کو پروردگار حقیقی کے ہاں نفع پہنچائیں گے لہذا خدا وند متعال نے ان کے اس باطل عقیدے کے مقابلہ میں ان سے فرمایا : بتوں کی شفاعت نہ تو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان کو تم سے دور کر سکتی ہے وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں تمہارا گمان درست واقع ہو گا( ۱ )

ابو حیّان اندلسی نے بھی اس بارے میں یوں اظہار نظر کیا ہے :

فعل یعبدون کی ضمیر کفار کی طرف پلٹ رہی ہے اور( مالا یضرّهم ولا ینفعهم ) سے مراد بت ہیں جو نفع پہنچانے یا ضرر کو دفع کرنے کی قدرت نہیں رکھتے. اہل طائف لات کی پوجا کیا کرتے اور اہل مکہ عزٰی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پرستش کیا کرتے( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر القرّن العظیم ۲:۶۲۴ ذیل آیت سورہ یونس ، اس منبع میں اس طرح سے وارد ہوا ہے ۔ینکر تعالی علی المشرکین الذین عبدوا مع الله غیره ظانین ان تلک الالهة تنفعهم شفاعتها عند الله فأخبر تعالیٰ انها لا تنفع و لا تضر و لا تملک شیئا و لا یقع شیء مما یزعمون فیها و لا یکون هذ ابدا

۲۔ تفسیر البحر المحیط ؛ ج۵ ، ص ۱۳۳ سورہ یونس کی اٹھار ویں آیت کے ضمن میں اس منبع میں اس طرح سے نقل ہوا ہے :الضمیر فی و یعبدون عائد علی کفار قریش الذین تقدمت محاورتهم وما لا یضرهم و لا ینفعهم هو الاصنام ، جماد لا تقدر علی نفع و لا ضرر وکان أهل الطائف یعبدون اللات و أهل مکة العزی و مناة و أسافا و و نائلة وهبل

۵۱

آلوسی مشرکین کی اس طرح کی عبادت کو ظلم شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے:

یہ آیت مشرکین کے ایک اور ظلم کی حکایت کر رہی ہے اور اس جملہ کا عطف آیت نمبر ۱۵ پر ہے جس میں یہ فرمایا :( واذاتتلی علیهم ) کہ یہ آیت بھی مشرکین کے بارے میں تھی اور خدا وند متعال اس آیت کے قصہ کو اس آیت کے قصہ پر عطف کر رہا ہے اور پھر لفظ ما اس آیت میں یا تو موصولہ ہے یا موصوفہ کہ جس سے مراد بت ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے اور اس جملہ نہ تمہیں نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی تم سے ضرر کو دور کر سکتے ہیں کا معنی یہ ہے وہ شفاعت کی قدرت نہیں رکھتے اس لیے وہ جمادات کے سوا کچھ نہیںہیں

اس کے بعد آلوسی نے مزید لکھاہے :

اہل طائف لات کی پوجا کیاکرتے اور اہل مکہ رزی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پوجا کیا کرتے اور کہتے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے شفیع ہیں

ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے یو ں نقل کیا ہے :

نضر بن حارث کہتا ہے : جب روز قیامت آئے گا تو لات و عزٰی ہماری شفاعت کریں گے اس کی اس گفتگو کے بعد یہ آیت نازل ہوئی( ۱ )

____________________

۱۔ تفسر روح المعانی ۱۱: ۸۸، ذیل آیت ۱۸ سورہ یونس اس میں یوں بیان ہوا ہے :ویعبدون من دون الله حکایة لجنایة أخرٰی لهم ، وهی عطف علی قوله سبحانه : واذا تتلی علیهم ، ( یونس : ۱۵) الآیة عطف قصّة علی قصّة وما امّا موصولة أو موصوفة والمراد بها الأصنام و معنی کونها لا تضرّ ولا تنفع أنّها لا تقدر علی ذلک لأنّها جمادات ، وکان أهل الطائف یعبدون اللات ، وأهل مکّة العزٰی ومناة و هبل و أسافا ونائلة و یقولون : هٰؤلاء شفعائنا عند الله ٔخرج ابن أبی حاتم عن عکرمة قال:کان نضر بن الحارث یقول: اذاکان یوم القیامة شفعت لی اللات والعزٰی ، وفیه نزلت الآیة.

۵۲

حرمت شفاعت پردوسری دلیل

وہابیوں نے غیر خداسے شفاعت طلب کرنے کے حرام ہونے کی دوسری دلیل یو ں بیان کی ہے :

المیّت لا یملک لنفسه نفعا و لا ضرّا فضلا لمن سأله أن یشفع له الی الله ؛( ۱ )

میّت نہ تو اپنے نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا چہ جائیکہ وہ سوال کرنے والے کی خدا کے ہاںشفاعت کر سکے

ہم ان کی اس دلیل کے جواب میں کہیں گے : ہم اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے کہ انبیاء ، آئمہ ہدٰی اور شہداء زندہ ہیں اور نعمات الہی سے بہرہ مند ہیںجو ان کی حیات مجدد کی علامت ہے

جبکہ اس فرقے کا اشتباہ اسی مقام پر ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انبیاء کی رحلت کے بعد ان سے شفاعت کی درخواست کرنا ایساہی ہے جیسے کسی مردے سے شفاعت کی درخواست کی جائے گویا انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی ہے یا اس کے معنیٰ میں تدبّر نہیں کیا یا پھر باقی آیات کی مانند اس آیت کی تفسیر بھی اپنی کج فہمی کے ساتھ کی ہے خد اوند متعال فرماتا ہے :

( ولا تحسبنّ الّذین قتلوا فی سبیل الله أمواتا بل أحیاء عند ربّهم یرزقون فرحین بما آتاهم الله من فضله و یستبشرون بالّذین لم یلحقوا بهم من خلفهم ألّا خوف علیهم ولا هم یحزنون یستبشرون بنعمة من الله و فضل و أنّ الله لا یضیع أجر المؤمنین ) ( ۲ )

ترجمہ: او ر خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہو سکے ہیں ان کے بارے میں خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے نہ حزن وہ اپنے پرور دگار کی نعمت ، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا

____________________

۱۔ مجموعة المؤلفات ۱: ۲۹۶؛ اور ۴: ۴۲.

۲۔ سورہ آل عمران : ۱۶۹ تا ۱۷۱.

۵۳

سمھودی نے بھی کتابوفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ میں ان روایات کو نقل کیا ہے جو انبیاء کی رحلت کے بعد بھی ان کے زندہ ہونے پر دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے :

ألأنبیاء أحیاء فی قبورهم یصلّون

انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں.

دوسری روایت یہ ہے :

انّ الله حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیائ ؛( ۱ )

خدا وند متعال نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجساد کو نقصان پہنچائے

اس بارے میں اور بھی روایات وارد ہوئی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی رحلت کے بعد ان کے زندہ و جاوید ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو کچھ بیان کیا گیا اس کی بناء پر اس فرقہ کا عقیدہ مسلمانوں کے ان مسلّمہ عقائد کے خلاف ہے جو انہوں نے دسیوں آیات و روایات سے لیے ہیں

دوسری جانب چونکہ وہابی ان واضح و قاطع ادلّہ کو ردّ یا ان کی توجیہ نہیں کرسکتے لہذا ان کا تفکّر مسلمانوں کے تفکّر کے مقابل قرار پاتا ہے اور عبد الکافی سبکی کے بقول ابن تیمیہ :شذّ عن جماعة المسلمین ؛ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو گیا( ۲ )

ہم انحراف کے شر، شیطان کے وسوسے اورنفاق سے بچنے کے لیے خداوند متعا ل سے پناہ چاہتے ہیں

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ ۴: ۱۳۴۹.

۲۔ طبقات الشافعیة الکبرٰی ۱۰: ۱۴۹؛ مقدمة الدرّة المضیئة فی الردّ علی ابن تیمیہ بحوث فی الملل والنحل سبحانی ۴: ۴۲ ؛ سلفیان در گذر تاریخ : ۲۳.

Internet Download Manager

Internet Download Manager has been registered with a fake Serial Number

OK

۵۴

خاک مدینہ سے علاج

نقل شدہ روایات کے مطابق مسلمان خاک مدینہ کو بطور تبرّک استعمال کیا کرتے سمھودی کہتے ہیں :

ابن نجّار کی کتاب اور ابن جوزی کی کتاب الوفاء سے ہم تک یہ روایت پہنچی ہے:

غبار المدینة شفاء من الجذام (۱)

____________________

۱۔ فیض القدیر ۴: ۴۰۰؛ التیسیر بشرح الجامع الصغیر ۲: ۱۵۹.

۵۵

مناوی فیض القدیر میں لکھتے ہیں: ابوسلمہ کہتے ہیں : مجھ سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : غبارالمدینة شفاء من الجذامیعنی مدینہ منورہ کا غبار جذام کی بیماری کے لئے شفاء کا باعث ہے

وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

ایک شخص جذام کے مرض میں مبتلا تھا ہم نے دیکھا کہ بیماری سے اس کی حالت بہت بری ہوچکی تھی اس نے مدینہ منوّرہ کی خاک شفاء کے طور پر استعمال کی ،ایک دن گھر سے باہر آیا اور ( قبا کے راستہ میں وادی بطحان کے اندر)کومة البیضاء نامی ریت کے ٹیلہ پر جاکر اپنے بدن کو زمین پر ملا جس سے اسے شفا مل گئی ۔( ۱ )

تبرّک اور اہل سنّت فقہاء کا نظریہ

گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ فقہائے اہل سنت نے تبرّک کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے .عبداللہ بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے پوچھا : ایک شخص منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تبرّک کے طور پر مس کررہا تھا اور اسے چوم رہا تھا اور یہی عمل قبر مبارک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر بھی بجا لا رہا تھا ،کیا یہ عمل جائز ہے؟

فرمایا : اس میں کوئی عیب نہیں ہے( ۲ )

یہی روایت کتابالجامع فی العلل و معرفة الرجال میں اس اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ : یہ شخص ان اعمال کو خداوند متعال کی بارگاہ میں تقرّب کا وسیلہ بھی قرار دیتا ہے؟

احمد بن حنبل نے جواب میں کہا : اس میں کوئی مشکل نہیں ہے( ۳ )

____________________

۱۔فیض القدیر ۴: ۴۰۰

۲۔بحوالہ سابق۴: ۱۴۱۴؛سبل الھدی والرشاد ۱۲: ۳۹۸؛ عمدة القاری ۹: ۲۴۱

۵۶

ابن العلا کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کا نظریہ ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اسے دیکھ کر تعجب میں پڑ گیا اور کہنے لگا : مجھے احمد سے تعجب ہو رہا ہے اس لئے کہ میرے نزدیک وہ ایک باعظمت شخص ہیں.کیا واقعا یہ انہی کا جملہ ہے ۔( ۱ )

رملی شافعی نے بھی تبرّک کے بارے میں اسی طرح کا فتوٰی دیا ہے : اگرکوئی شخص کسی نبی یا ولی یاعالم کی قبر پر تبرّک کے قصد سے ہاتھ پھیرے یا اسے چومے تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے.( ۲ )

محب الدین طبری شافعی کہتے ہیں : قبر کو چومنا اور اسے مس کرنا جائز ہے اور علماء وصالحین کی بھی یہی عادت رہی ہے.( ۳ )

آثار پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تبرّک

تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد ان کے باقیماندہ آثار سے تبرّک حاصل کرنا ہے منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کے ہاں ایک خاص عظمت و مقام ر کھتا ہے یہاں تک کہ بعض فقہاء نے اس منبر کی عظمت واحترام کی وجہ سے اس کے پاس قسم کھانے سے منع کیا ہے اور ہمیشہ اس سے تبرّک حاصل کیا کرتے

کتاب آثار النّبوة میں نقل ہوا ہے کہ منبر پیغمبر وصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی جگہ پر موجود تھا کہ آگ کی لپیٹ میں آگیا جس سے اہل مدینہ کو بہت صدمہ پہنچا ؛ اسی آتش سوزی میں منبر کا دستہ جس پر آنحضرت اپنادست مبارک رکھا کرتے اور پاؤں مبارک کے رکھنے کی جگہ بھی جل گئی( ۴ )

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۱۴.

۲۔ کنز المطالب ،حمزاوی :۲۱۹؛یہ فتوی شراملسی نے شیخ ابو ضیاء سے ''مواہب اللدنیہ ''کے حاشیہ میں نقل کیا. ۳۔اسنی المطالب ۱: ۳۳۱؛وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۴۰۷ ۴۔الآثارالنّبویة :

۵۷

سمہودی کہتے ہیں : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے منبر پر غلاف کے مانند ایک کپڑا چڑھا کر روضہ آنحضرت کے پاس محراب میں رکھ دیا گیا ، لوگ اس محراب سے ہاتھ بڑھا کرتبرّک کے طور پر منبر مبارک کو مس کیا کرتے تھے( ۱ )

انہی روایات کی بناء پر فقہاء تبرّک اور منبر کے مس کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا کرتے.امام مالک کے استاد یعنی یحیی بن سعید انصاری ،مالک ، ابن عمر اور مسیب سے نقل ہوا ہے کہ وہ منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستے کو مس کرنا جائز قرار دیتے اور اسی طرح اس کا جائز ہونا اہل بیت علیہم السلام سے بھی نقل ہوا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

واذا فرغت من الدّعا ء عند قبر النبیّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فآت المنبر فامسحه بیدک وخذ برمّانتیه ، وهما السفلان ، وامسح عینیک ووجهک به ، فانّه یقال : انّه شفاء للعین .( ۲ )

جب قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دعا سے فارغ ہوں تو منبر کے پاس جا کر اسے مس کریں اور پھر اسکے دونوں دستوں کو تھام کر اپنی صورت اور آنکھیں اس سے مس کریں ،اس لئے کہ یہ عمل آنکھوں کی شفا کا موجب ہے۔

امام غزالی نے بھی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے: جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زندگی میں ان کو دیکھ کر تبرّک حاصل کر سکتا ہے وہ ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کرکے بھی تبرّک حاصل کر سکتا ہے اوریہی چیز پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے لئے سفر کر نے کے جواز کا باعث بنتی ہے.( ۳ )

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی۲: ۳۹.

۲۔ وسائل الشیعة ۱: ۲۷۰،باب ۷.

۳۔احیا ء العلوم ۱: ۲۵۸.

۵۸

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مس شدہ سکوں سے تبرّک

نقل شدہ روایات کے مطابق صحابہ کرام ان سکوں سے تبرّک حاصل کیا کرتے جنہیں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مس کیا تھا جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: ایک سفر میں میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ تھاتو میرا اونٹ مریض ہو گیا اور میں قافلہ سے پیچھے رہ گیا ،پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھ سے پوچھا : اے جابر ! کیا ہوا ؟

میں نے عرض کیا : میرا اونٹ مریض ہو گیا ہے. آنحضرت نے اسے ہاتھ پھیرا تو وہ اس قدر تندرست ہوگیا کہ پورے قافلے سے آگے آگے چلنے لگا. اور پھر آنحضرت نے اسے خریدنے کا فرمایا : تو میں نے عرض کیا : آپ کے لئے حاضر ہے لیکن آپ نے قبول نہ کیا

اس کے بعد جابر کہتے ہیں : میں اسی اونٹ پر مدینہ گیا تو آنحضرت نے بلال سے فرمایا کہ اسے اونٹ کی قیمت سے کچھ زیادہ پیسے دے دو

جابر کہتے ہیں میں نے ارادہ کیا کہ یہ اضافی پیسے مرتے دم تک اپنے سے جدا نہیں کروں گا .میں نے انہیں اپنے تھیلے میں رکھ لیا یہاں تک کہ واقعہ حرّہ( یہ وہ دن تھا جب سپاہ یزید نے مدینہ منوّرہ پر حملہ کر کے لوگوں کا وحشیانہ طریقہ سے قتل عام کیااوران کا مال لوٹ لیا ) میں شامی فوجیوں نے مجھ سے چھین لئے۔( ۱ )

ایک اور روایت میں ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں : ایک دن حجام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بال تراش رہا تھا تو صحابہ کرام اس کے ارد گرد جمع تھے او رہر ایک نے آنحضرت کا ایک ایک بال پکڑ رکھا تھا۔( ۲ )

نیز ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ احمد بن حنبل ہمیشہ اپنے پاس ایک بال رکھا کرتے اور کہتے کہ یہ پیغمبر کا ہے( ۳ )

____________________

۱۔ مسند احمد بن حنبل ۳: ۳۱۴،ح ۱۴۴۱۶؛ صحیح بخاری ۲: ۸۱۰،ح ۲۱۸۵.

۲. جامع االأصول۴:۱۰۲.

۳۔ سیر أعلام النبلاء ۱۱: ۲۵۶و۲۳۰.

۵۹

نقل ہوا ہے کہ معاویہ نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ مجھے پیغمبر کے پیراہن اور چادر میں دفن کیاجائے اور ساتھ آنحضرت کا بال مبارک رکھا جائے( ۱ )

اگرچہ یہ وصیت ریا کاری کی بناء پر تھی یایہ کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے چونکہ اس کا راوی عبدالاعلی بن میمون ہے جو مجہول الحال اور رجال کی معتبر کتب میں اس کا نام ونشان تک نہیں ہے البتہ تبرّک ایک ایساامر ہے جو مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے

کہا گیاہے کہ تاریخ میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ صحابہ کرام پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آب وضو کے قطرات سے شفاطلب کرنے کی خاطر آپس میں جھگڑا کرتے( ۲ )

حضرت عائشہ کہتی ہیں : لوگ اپنے بچوں کو تبرک کے طور پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لایا کرتے( ۳ )

ابن منکدر تابعی ہمیشہ مسجد نبوی کے صحن میں آکر لیٹ جایا کرتے اور اپنا بدن وہاں پر رگڑاکرتے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہا : میں نے یہاں پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا ہے

البتہ چونکہ وہ تابعی ہیں اور پیغمبر کو درک نہیں کیا لہذا ان کا یہ کہنا کہ میں نے دیکھا ہے اس سے مراد خواب میں دیکھنا ہے.( ۴ )

روایت میں آیا ہے کہ کبشہ نامی عورت کہتی ہیں : ایک دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور لٹکی ہوئی مشک کے دہانے سے پانی پیاتو میں نے اٹھ کر مشک کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا

ابن ماجہ نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : مناسب یہی ہے کہ جس جگہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا دہن مبارک رکھا اس سے تبرّک حاصل کیا جائے .ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور اسے صحیح و معتبر قراردیتے ہوئے کہا ہے : یہ روایت احمد بن حنبل نے انس سے اور اس نے امّ سلیم سے نقل کی ہے ۔( ۵ )

____________________

۱۔ تہذیب الکمال ۱۸: ۵۲۶.

۲۔ تاریخ بخاری ۳: ۳۵،ح ۱۸۷؛تاریخ طبری ۳: ۴۷۵.

۳۔مسند احمد بن حنبل ۶: ۲۱۲؛ح ۲۵۸۱۲؛ صحیح مسلم۱: ۲۳۷،ح ۲۸۶.

۴۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴:۱۴۰۶؛ سیر أعلام النبلاء ۵: ۳۵۹.،

۶۰