وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 95175
ڈاؤنلوڈ: 4458

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95175 / ڈاؤنلوڈ: 4458
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

وہ قبور اور جنازے جن سے تبرّک حاصل کیا گیا

روایت میں بیان ہوا ہے : ایک شخص نے سعد ( صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم )کی قبر کی مٹی اٹھائی اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ا س سے مُشک کی خوشبو آرہی ہے.( ۱ )

عبداللہ بن غالب حدانی روز ترویہ( ماہ ذیحجہ کی آٹھویں تاریخ کو روز ترویہ کہا جاتا ہے .مترجم) قتل کر دئیے گئے،ان کی قبر کی مٹی سے مُشک کی خوشبو آتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے کپڑوں پر ملا کرتے.( ۲ )

حنبلیوں کے امام احمد بن حنبل نے ۲۴۱ہجری میں وفات پائی ، ان کی قبر مشہور زیارت گاہ ہے اور لوگ وہاں سے تبرک حاصل کرتے ہیں.( ۳ )

سبکی نے امام بخاری کی وفات اور اس کے دفن کے بارے میں یوں لکھا ہے:

جب بخاری کو دفن کر دیا گیا تو لوگ ا س کی قبر کی مٹی اٹھا کر لے جایا کرتے یہاں تک کہ خود قبر ظاہر ہونے لگی اور قبر کو بچانا بھی مشکل ہوگیا تھا لہذا قبر کے اوپر ایک جالی لگا دی گئی جو مربع یا مستطیل نما تھی اور اس میں سوراخ تھے اور پھر کسی کا ہاتھ قبر تک نہیں پہنچتا تھا( ۴ )

____________________

۱۔ الطبقات الکبرٰی ۳: ۴۳۱؛ سیر أعلام النبلائ۱: ۲۸۹.

۲۔ حلیة الأولیا ء ۲: ۲۵۸.

۳۔ طبقات حنابلہ ،ابویعلی ۲: ۲۵۱؛ قابل ذکر ہے کہ بغداد میں اب اس قبر کا کوئی نشان نہیں ہے

۴۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی ۲: ۲۳۳؛ سیر أعلام النبلاء ۱۲: ۴۶۷.

۶۱

دوسری جانب ابن تیمیہ کے پیروکار اس کے جنازے اور اس کے غسل کے پانی سے تبرّک حاصل کیا کرتے .سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کیا ابن تیمیہ کے پیروکار مشرک اور اہل بدعت تھے ؟ کیا یہ فتوٰی اس کے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہیں ہے ؟

کیا تبرّک اور مس کرنے کا جائز ہونا ایک عقلی امر اور مسلمانوں میں عام نہیں تھااور اس کے حرام ہونے کا فتوٰی دینا ایک غیرمعقول اور غیر شرعی کام نہیں ہے؟

ہاں ابن تیمیہ کے تشییع جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی وہ تبرّک حاصل کرنے کے لئے اپنے رومال اور پگڑیاں اس کے جنازے پرپھینک رہے تھے اور اس کے جنازے کے تختہ کی لکڑیاں توڑ کر تبرّک سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے انہوں نے بچ جانے والے سدر کو خرید کر آپس میں بانٹا نقل ہوا ہے : وہ رسّی جو سیماب میں تر تھی اور ابن تیمیہ جوؤں کو دور کرنے کے لئے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ،وہ ایک سو پچاس درہم میں خریدی گئی.( ۱ )

ابن تیمیہ اور وہابی فکر کے مطابق تو یہ سب کام شرک کے واضح نمونے ہیں بنا بر ایں اس کے جنازے میں شریک تمام لوگ مشرک تھے

تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک یحیٰی بن مجاہد (م ۳۶۶ھ) سے تبرّک حاصل کرنا ہے ابن بشکوال کہتے ہیں وہ زاہدعصر اور اپنے شہر کے عابد شخص تھے،لوگ اس سے تبرّک حاصل کرتے اور اس کی دعا کا سہارا لیتے ۔( ۲ )

____________________

۱۔البدایة والنھایة ۱۴: ۱۳۶؛الکنی والالقاب۱:۲۳۷.

۲۔سیر أعلام النبلائ۱۶:۲۴۵.

۶۲

باعظمت چیزوں سے تبرّک حاصل کرنا

مسلمان باعظمت چیزوں سے بھی تبرّک حاصل کیا کرتے ، سبکی کہتے ہیں :۶۴۲ہجری میں میرے والد دارالحدیث اشرفیہ میں ساکن ہوئے تو وہ ہر شب اس کے برآمدہ میں جاکر فرش پر عبادت کیا کرتے اور اپنی صورت کو اس پر ملتے یہ فرش اشرف ( وقف کرنے والے) کے زمانہ سے وہا ں پر موجود تھا اور نووی درس پڑھاتے وقت اس پر بیٹھا کرتے تھے ۔( ۱ )

امام غزالی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے آداب میں لکھتے ہیں :

زائر کو چاہیئے کہ وہ اریس نامی کنویں کے پا س جائے اس لئے کہ کہا گیا ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس میں آب دہن پھینکا تھا .یہ کنواں مسجد کے قریب ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پانی پیا اور اس کے پانی سے وضو کیا.البتہ مدینہ منوّرہ میں تیس مکان مساجد و زیارت کے عنوان سے معروف ہیں اور شہر کے لوگ ان سے آشنا ہیں اور زائر کو چاہیے کہ و ہ اپنی طاقت کے مطابق وہاں جائے ،نیز شفاو تبرّ ک حاصل کرنے کے لئے اس کنویں کے پاس جائے جس سے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پانی پیااوروضو وغسل کیا ۔( ۲ )

امام احمد بن حنبل کے بیٹے کے پاس اپنے باپ کی نشانی ایک کرتہ تھا وہ کہتے تھے : میں اس میں نماز پڑھتا ہوںاور اس سے تبرّک حاصل کرتا ہوں.( ۳)

____________________

۱۔الطّبقات الشافعیة الکبرٰی ۸: ۳۹۶.

۲۔ احیاء العلوم ۱: ۲۶۰.

۳۔سیر أعلام النبلاء ۱۱: ۲۳۰.

۶۳

مختلف صدیوں اور زمانوں میں تبرّک کے بارے میں جو مسلمانوں کی سیرت بیان کی گئی ہے اسے مدّ نظر رکھتے ہوئے کیا یہ وہابیوں کے اسلام او ر توحید سے انحراف کی دلیل نہیں ہے؟

محمد بن اسماعیل بخاری ۲۵۶ ہجری میں فوت ہوئے ، سمر قند کے لوگوں نے اسے دفن کیا اور اس کی قبر کی مٹی سے تبرّک حاصل کیا کیا وہ کافر تھے ؟

آپ کس بناء پر مسلمانوں پر حملہ آور ہو تے ہیںاور ان کی طرف ناروا نسبت دیتے ہیں ؟

پس کہاں ہے تمہارے کلام میں تقوٰی و عفت ؟

اسلام اور سنت نبوی میں کہاں تمہارے یہ افکار وفتاوٰی موجود ہیں ؟ ہم تبرّک کے بارے میں اسی قدرنصوص پر اکتفاء کرتے ہیں ایسی نصوص جن میں قبور سے تبرّک کو مسلمانوں کے درمیان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے لے کر آج تک ایک رائج امر بیان کیاگیا اور پھر کسی فقیہ نے نہ یہ کہ اس کے حرام ہونے کا فتوٰی نہیں دیا بلکہ اس کے جواز ، رجحان اور استحباب کی بھی تصریح کی ہے .ہم اس بحث کو ذہبی کے کلام پرتمام کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں :

عبداللہ بن احمد کہتے ہیں : میں نے اپنے باپ احمد بن حنبل کو دیکھا انہوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بال مبارک اپنے ہا تھ میں لیا ہوا تھا اسے کپڑوں سے مس کرتے اور چومتے ، میرے خیال کے مطابق وہ اسے اپنی آنکھوں پر بھی لگایا کرتے اسی طرح اسے پانی میں ڈال کر اس پانی کو شفاکے طور پر پیا کرتے ایک دن میں نے دیکھاکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتن کو پانی میں دھو کر اس پانی کو پی رہے تھے

ذہبی کہتے ہیں : کہاں ہے وہ ضدی انسان جو احمد کے ا س عمل کاانکار کرے ؟ جبکہ ایسا عمل ثابت ہے

عبداللہ نے اپنے باپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو منبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دستے کو مس کر رہا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا : ایسے عمل میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی .میں خوارج اوراہل بدعت کے انحرافی افکار سے خدا کی بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں.( ۱ )

____________________

۱۔ سیر أعلام النبلاء ۱۱: ۲۱۲.

۶۴

۴۔استغاثہ

حاجت کی درخواست

وہ موضوعات جو طول تاریخ میں مسلمانوں کے درمیان رائج رہے ہیں ان میں سے ایک استغاثہ اور غیرخداسے مدد طلب کرنا ہے اس موضوع میں بھی وہابیوں کانظریہ تمام مسلمانوں کے نظریے کے مخالف ہے

ابن تیمیہ کہتا ہے :

اگر کوئی شخص ایسے مردے سے جو عالم برزخ میں موجود ہے یہ کہے : میری مدد کو پہنچ ، میری مدد کر یا میری شفاعت کر ،دشمن کے مقابلہ میں میری نصرت فرما اور اسی طرح کے دیگر کلمات جبکہ ان کاموں کو خدا کے سوا کوئی انجام نہیں دے سکتا تو وہ مشرک ہے اور اس کا یہ عمل شرک کی اقسام میں سے شمار ہو گا .( ۱)

وہ اپنے رسالہزیارة القبور والاستنجاد بالمقبور میں لکھتا ہے:( ۲ )

اگر کوئی شخص کسی نبی یا ولی کی قبر پر جا کر اس سے مدد طلب کرے .مثال کے طور پر اس سے درخواست کرے کہ مجھے بیماری سے شفا دے و... تو وہ واضح طور پر شرک کا مرتکب ہوا ہے ایسا جملہ کہنے والے کو چاہیے کہ توبہ کرے اور توبہ نہیں کرتا تو اس کی گردن اڑا دی جائے.( ۳ )

____________________

۱۔الھدیة السّنیة : ۴۰.

۲۔ رسالہ زیارة القبور : ۱۸،۲۱و ۱۵۶.

۳۔قابل ذکر ہے کہ وہابی آج بھی اپنی فقہی کتب میں اس طرح کے خرافات لکھتے رہتے ہیں مثال کے طور پر کتاب فتاوٰی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ۸:۳۱۵

۶۵

نیز محمد بن عبدالوہاب کہتا ہے:

غیر خدا سے حاجت کی درخواست اور ان کو پکارنا دین سے خروج اور مشرکین کے دائرہ میں شامل ہونے کا باعث بنتا ہے ایسے شخص کا مال وجان مباح ہے مگر یہ کہ توبہ کر لے .( ۱)

وہابی مردے سے دعا طلب کرنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے:

( ان المساجد لله فلا تدعوا مع الله أحدا ) ۲ )

اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کو مت پکارو.

وہابی نظریہ کی تحقیق اور اس پر اعتراض

جیسا کہ عرض کرچکے کہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا مسلمانوں کے درمیان رائج امور میں سے ہے .اب وہابیوں کے نظریہ کی گہری تحقیق اور اس پر اعتراض کو بیان کریں گے .ہم ان کے جواب

پر یہ لکھا ہے:

اہل سنت کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیاں شیعہ یا کیمونسٹ بچوں کو مت دیں اور اگر ایسا عقد واقع ہو جائے تو وہ باطل ہے اس لئے کہ شیعوں میں اہل بیت کو پکارنا اور استغاثہ رائج ہے جو شرک اکبر ہے. اسی کتاب کا مؤلف ایک اور مقام پر لکھتا ہے :

وہ ( شیعہ)ایسے مشرک ہیںجو شرک اکبر کاارتکاب کر کے د ین اسلام سے خارج ہو گئے ہیں اس بنا پر ان کو اپنی بیٹی دینا یا ان کی خواتین سے شادی کرنا حرام ہے .اسی طرح ان کے ذبیحے کا کھانا بھی حرام ہے۔

____________________

۱۔کشف الشبہات : ۵۸

۲۔سورہ جن: ۱۸.

۶۶

میں کہتے ہیںغیر خدا سے مدد تین طرح سے ممکن ہے :

۱۔ اس شخص کوفقط نام سے آواز دی جائے .مثال کے طور پر یہ کہیں : یا محمد ! یا عبدالقادر ! یا اہل بیت

۲۔ کبھی یوں مدد طلب کی جاتی ہے : اے فلاں ! میرا قرض ادا کر اور مجھے شفا دے .یا محمد ! اپنے فضل و کرم سے مجھے بے نیاز کردیں

۳۔ اور کبھی اس طرح ندادی جاتی ہے : اے فلاں ! میری شفاعت کر .اے فلاں! خدا سے میری حاجت برآوری کی دعا کریں.

واضح ہے کہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے کہ ہر مسلمان موحّدکا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو مستقل طور پر کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہو یا کسی سے ضرر کو دفع کر سکتی ہو

بنابر ایں ایسا شخص جسے خداوند متعال نے منتخب کرلیا اور اسے دوسروں پر برتری دی ہے اس کی طرف رجوع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص ( نبی و...)واسطہ بنے اوردعا کرے تاکہ جلد حاجت روائی ہو.

اگر کوئی یہ کہے : یامحمد ! خداسے میری حاجت پوری ہونے کی دعاکریں تو اس کا حقیقی مقصد خدا وند متعال ہے جس کے ہاتھ میں پوری قدرت ہے اور یہ فعل کو سبب کی طرف نسبت دینے کے باب سے ہے اوریہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ بہار نے سبزہ ہی سبزہ کردیا.

۶۷

قرآن مجید میں بھی اس طرح کے بہت سے مواردپائے جاتے ہیں جہاں بظاہر فعل کی نسبت بندوں کی طرف دی گئی ہے جن میں سے صرف دو موارد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

۱۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( ولوأنّهم رضوا ما آتا هم الله ورسوله وقالوا حسبنا الله سیؤتینا الله من فضله ورسوله انّا الی الله راغبون ) ) )( ۱ )

ترجمہ: اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دیا ہے اور یہ کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں اپنے فضل سے نوازیں گے بے شک ہم خدا کی طرف راغب ہیں ۔

در حقیقت بے نیاز کرنا صرف خدا ہی کی جانب سے ہے لیکن خداوند متعال نے اس آیت مجیدہ میں اپنے رسول کو بھی رزق دینے میں شریک کیا ہے جبکہ وہابی اس طرح کی گفتگو مجھے رزق دے کو شرک وکفر قرار دیتے ہیں

۲۔ سورہ آل عمران میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زبانی یوں پڑھتے ہیں :

( انّی أخلق لکم من الطین کهیئة الطیر فأنفخ فیه فیکون طیرا باذن الله وأبریء الأکمه والأبرص وأحی الموتی باذن الله... ) ( ۲ )

ترجمہ: میں مٹی سے تمہارے لیے ایک چیز پرندے کی صورت میں بناؤں گا پھر اس میں پھونکوں گا کہ خدا کے ارادہ سے پرندہ بن جائے گا اور میں مادر زاد اندھے اور برص میں مبتلا شخص کو ٹھیک کروں گا اور مردوں کو خدا کے ارادہ سے زندہ کروں گا ۔

اس آیت مجیدہ میں بھی خداوند متعال خلق کرنے ،برص کی بیماری اورپیدائشی نابینوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف دے رہا ہے اگر یہ سب

____________________

۱۔ سورہ توبہ : ۵۹.

۲۔ سورہ آل عمران : ۴۹.

۶۸

جائز ہے کہ یقینا جائز ہے تو پھر رسول گرامی اسلام یا ولی خداسے بیماری کی شفا ، حاجت کی بر آوری اور قرض کے ادا ہونے کی درخواست کرنااور وہ بھی باحکم خدا ،کیسے شرک ہو سکتا ہے

بنا بر ایں استغاثہ وہی کسی شخص سے دعا کی درخواست کرنا ہے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے چاہے مدد کرنے والا مقام ومرتبہ کے اعتبار سے جس کی مدد کر رہا ہے اس سے بلند وبر ترہو یا کمتر .مزے کی بات تو یہ ہے کہ خود ابن تیمیہ لکھتا ہے :

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا :

( مامن رجل یدعوله أخوه بظهر الغیب دعوة الّا وکّل الله بها ملکا ، کلّما دعا لأخیه دعوة ، قال الملک : ولک مثل ذلک ) .

اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرے تو خدا وند متعال فرشتے اس کے بھائی کی جانب سے وکیل معین کرتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعاکرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو( ۱)

اس حدیث شریف کے مطابق ایسا عمل جائز ہے اسی طرح دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے:

ایک مرتبہ جب قحط سالی ہوئی تو لوگوں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے درخواست کی کہ وہ باران رحمت کی دعا کریں .آنحضرت نے خدا وند متعال کی بارگا ہ میں دعا فرمائی تو بارش برس پڑی( ۲ )

____________________

۱۔ْرسالہ زیارة القبور : ۱۲؛ کشف الارتیاب : ۲۲۳.

۲۔ مسند احمد ۳: ۲۴۵،ح ۱۳۵۹۱.

۶۹

جو کچھ بیان کیا گیا اس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سے اپنے پاس بلانے کی درخواست کرے ،یا اس سے مدد طلب کرے یا اس سے کوئی چیز طلب کرے ، یا یہ کہ وہ اس کی حاجت پوری کرے تو نہ تو اس نے اس شخص کی عبادت کی ہے اور نہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے

اسی طرح جو شخص پیغمبر کو پکارتا پے تاکہ وہ اسکی شفاعت کریںتو وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ درحقیقت معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے تو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قبول کرے اور اگر نہ چاہے تو ردّ کر سکتا ہے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف فیض الہی کے پہنچانے میں واسطہ ہیں اور درخواست کرنے والا شخص بھی مستقل سمجھ کر ان سے درخواست نہیں کرتا

دوسری جانب جیسا کہ شفاعت کی بحث میں بیان کرچکے کہ انبیاء الہی موت کے بعد بھی زندہ ہیں بنابر ایں انبیا ء یا اولیاء جو اس دنیا سے منتقل ہو چکے ان سے توسّل کرنے والوں کی آواز سننے میں شرعی طور پر کوئی مانع موجود نہیں ہے ا سلئے کہ وہ زند ہ ہیں .نتیجةََ وہابیوں کے یہ نظریات کہ انبیاء و اولیاء مردہ ہیں اور مردہ کچھ سن نہیں سکتا لہذا ان سے توسّل اور حاجت طلب کرنا درست نہیں ہے ، یہ باطل اور فضول باتیں ہیں۔

فقہاء کی نظر میں استغاثہ اور مددطلب کرنا

جوکچھ بیان کیا گیا اس سے یہ روشن ہوگیا کہ استغاثہ اور غیر خدا سے مدد طلب کرنے کے بارے میں وہابیوں کا نظریہ باطل ہے اور علمائے اہل سنّت نے بھی اس عقیدہ کے باطل ہونے کی تاکید فرمائی ہے جس کے چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں :

۷۰

۱۔ علاّمہ قسطلانی(م ۹۲۳ھ) کہتے ہیں:

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کرنے والے شخص کے لئے سزاواریہ ہے کہ وہ آنحضرت کے روضہ مبارک میں عاجزی ودعا کرے .اسی طرح آنحضرت سے استغاثة کرے ،ان سے شفاعت طلب کرے اور ان سے توسّل کرے.( ۱ )

۲۔ علاّمہ مراغی(م۸۱۶ھ) کہتے ہیں:

پیغمبر کی ولادت سے پہلے یا ولادت کے بعد ، اسی طرح ان کے اس دنیا سے انتقا ل کے بعد جب وہ عالم برزخ میں ہوں تب یاجس دن دوبارہ زندہ کیا جائیگا یعنی بروزقیامت ،ان سے توسّل کرنے اورمددو شفاعت طلب کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے.( ۲ )

۳۔ قیروانی مالکی ( م ۷۳۷ھ ) زیارت قبور کے بارے میں ایک الگ فصل میں لکھتے ہیں:

انبیاء و رسل ۔خدا کا درود وسلام ہو ان پر ۔ کا احترام یہ ہے کہ زائر ان کی قبور پر جائے اوروہیں دور سے ہی ان کی زیارت کا قصد کرلے .اور پھر تواضع وعاجزی ،انکساری ،رازونیاز اور خضوع کے ساتھ ان کی قبر کے کنارے کھڑا ہو کر قلب وفکر کو ان کی طرف متوجہ کرے اور پھر دل کی

____________________

۱۔المواہب اللدنیة ۳: ۴۱۷.

۲۔ تحقیق النضرة : ۱۱۳.

۷۱

آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کرے اس لئے کہ ان کے بدن مبارک نہ تو گلے سڑے ہیں اور نہ ہی پراکندہ ہوئے ہیں

پس اپنے گناہوں کی بخشش اور تمناؤں کی حاجت روائی کے لئے خداوند متعال کے ہاں ان کے وسیلہ سے توسّل کرے.اوران سے استغاثہ اور اپنی حاجت طلب کرے اور یہ یقین اور حسن ظنّ رکھے کہ ان کی برکت سے دعا قبول ہوتی ہے اس لئے کہ وہ خداکے کھلے دروازے ہیںاور سنّت الہی بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کی حاجات کو ان کے وسیلے اور ان کے ہاتھوں سے پورا فرماتا ہے.

اولین وآخرین کے سردار و سرور ،پیغمبراسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کرتے وقت جو کچھ باقی انبیاء کے لئے بیان کیا گیا ہے اس سے کئی برابر زیادہ انجام دے اور زیادہ سے زیادہ عاجزی وتواضع اوردل شکستگی کے ساتھ ان کی قبرپر کھڑا ہو اس لئے کہ وہ ایسے شفیع ہیں کہ جن کی شفاعت ردّ نہیں ہوتی اور جو بھی ان کاارادہ کرکے ان کی قبر مبارک پرجائے، ان سے استغاثہ و فریاد کرے تو ناامید واپس نہیں آئے گا .اور آنحضرت ۔ خداکا درود وسلام ہوان پر ۔ سے توسّل گناہوں اور خطاؤں کے محو ہونے کا باعث بنتا ہے۔( ۱ )

____________________

۱۔المدخل فی فضل زیارة القبور ۱: ۲۵۷؛الغدیر ۵: ۱۱۱.

۷۲

استغاثے کے نمونے

اب ہم صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ کے نمونے پیش کر رہے ہیں :

۱۔نابینا شخص کا پیغمبر سے استغاثہ :

طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ صحابی رسول عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے :

ایک شخص کئی بار اپنی مشکل حل کروانے کی خاطر( خلیفہ سوم )عثمان بن عفّان کے پاس آیا لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی .وہ شخص عثمان بن حنیف سے ملا اور سارا ماجراسنایا.

عثمان بن حنیف نے کہا :وضو کر کے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھو اور پھریوں کہو:

اللّهمّ انّی أسئلک وأتوجّه الیک بنبیّنا محمّد نبیّ الرحمة ّ ،یا محمّد ! انّی أتوجّه بک الی ربّی فتقضی لی حاجتی

اے پروردگار!میں اپنے نبی رحمت حضرت محمّد کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگا ہ میں متوجہ ہوں ،یا محمّد ! میں آپ کو اپنے ربّ کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتا ہوں پس آپ میری حاجت پوری فرمائیں.

۷۳

اس کے بعد اپنی حاجت بیان کر اس شخص نے عثمان بن حنیف کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا اورپھر عثمان بن عفّان کی رہائش گاہ کی طرف گیا جیسے ہی نگہبان نے دیکھا اس کا ہاتھ تھاما اور عثمان کے پا س لے کرپہنچا ،اس نے اسے مخمل کے فرش پر بٹھایا اور کہا بتا کیا کام ہے؟ اس شخص نے اپنی مشکل بیان کی تو عثمان نے حل کردی وہ شخص وہا ں سے نکل کر سیدھا عثمان بن حنیف کے پاس پہنچا اور ان سے کہا: خدا آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے عثمان بن عفّان کو میری سفارش کی .انہوں نے کہا : خدا کی قسم میں نے تو آپ کی کوئی سفارش نہیں کی .البتہ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک نابینا شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ااور اپنی نابینائی کی شکایت کی

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے فرمایا: کیا صبرکر سکتا ہے؟

عرض کرنے لگا :یا رسول اللہ ! میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو میرا عصا پکڑ کرمجھے ادھر ادھر لے جائے اور یہ میرے لئے سخت ہے

آنحضرت نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرو اور یہ دعاپڑھو...

عثمان بن حنیف کہتے ہیں : ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں موجود تھے اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ وہ شخص ہمارے پاس پہنچا اور ا سطرح کہ گویا کبھی نابینا تھا ہی نہیں.( ۱ )

____________________

۱۔ اس حدیث کوان کتب میں نقل کیا گیا ہے : مسند احمد ۴: ۱۳۸؛ سنن ترمذی ۵: ۵۶۹،ح ۳۵۷۸؛ سنن ابن ماجہ ۱: ۴۴۱؛ طبرانی نے اس حدیث کو المعجم الکبیر ۹: ۳۰،ح ۸۳۱۱اور المعجم الصغیر ۱:۳۰۶،ح ۵۰۸میں لکھا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے

۷۴

۲۔ حضرت عائشہ اور عمر کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر سے استغاثے کا حکم دینا :

دارمی نے اپنی سنن میں یوں نقل کیا ہے :

ایک دن اہل مدینہ سخت قحط سالی میں مبتلاہوئے تو حضرت عائشہ سے شکایت کی .انہوں نے کہا : قبر پیغمبر پر جا کراس میں ایک سوراخ کرو تاکہ قبر اور آسمان کے درمیان مانع نہ رہے

راوی کہتا ہے : جب لوگوں نے ایسا کیا تو اتنی بارش برسی کہ سبزہ اُگ آیا اور حیوان موٹے ہوگئے ،یہاں تک کہ دنبوں کی دم چربی کی وجہ سے ظاہر ہونے لگی اور اس میں چیر پڑ گئے اور اس سال کو فتق (موٹاپے سے چیر ا جانا )کا نام دیا گیا ۔( ۱ )

دوسری روایت ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ ابی صالح سمان سے اور اس نے مالک الدار ( خلیفہ ثانی کے گودام کے انچارج )سے نقل کی ہے:

خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت میں جب قحط سالی پڑی تو ایک شخص قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جاکر عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ !آپ کی اُمّت ہلاک ہورہی ہے ان کے لئے باران رحمت کی دعا فرمائیں اسے خواب میں کہا گیا : عمر کے پاس جاؤ

سیف نے الفتوح میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : وہ شخص بلال بن حارث مزنی صحابی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے( ۲)

مسعودی ( م ۳۴۶ھ) مروج الذھب میں لکھتے ہیں :

۵۳ ہجری میں حاکم عراق زیاد بن ابیہ نے معاویہ کو ایک نامہ میں یوں لکھا :

میں نے دائیں ہاتھ سے عراق کو فتح کرلیا ہے اور بایاں ہاتھ خالی ہے معاویہ نے حجاز کی حکومت اس کے سپرد کر دی. جیسے ہی یہ خبر اہل مدینہ تک پہنچی تو تمام اہل مدینہ مسجد نبوی میں جمع ہو کر گریہ و زاری کرنے لگے اور تین دن تک قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پراس کے مظالم سے پناہ مانگتے رہے اس لئے کہ وہ اس کے مظالم سے آگاہ تھے .( ۳)

____________________

۱۔ سنن دارمی ۱: ۵۶؛ سبل الھدی والرشاد ۲ ۱: ۳۴۷؛وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ۴: ۱۳۷۴.

۲۔فتح الباری ۲: ۴۹۵؛ وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ۴: ۳۷۲.

۳۔مروج الذہب ۳: ۳۲.

۷۵

ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ محمد بن منکدر کہتے ہیں :

ایک شخص نے میرے باپ کے پاس اسّی دینا ر امانت کے طور پر رکھے اور کہا کہ اگر ضرورت پڑ جائے تو انہیں خرچ کر کے جہاد پر جانا.

وہ سال لوگوں نے بہت سختی میں گزارا، میرے والد نے بھی وہ پیسے خرچ کر دیئے .پیسوں کا مالک آیا تو میرے باپ نے کہا کہ کل آنا

اسی رات میرے والد مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں گئے کبھی قبر کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی منبر شریف کی طرف صبح کی نماز کے قریب قبر پیغمبر سے استغاثے میں مشغول تھے کہ تاریکی میں ایک شخص نمودار ہوا اور کہا : اے ابو محمد ! یہ لو.

میرے والد نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس سے لے لیا ، جب دیکھا تو ایک تھیلی میں اسّی دینا ر تھے اب جب صبح ہوئی تو وہ شخص اپنے پیسے واپس لینے آیاتو میرے والد نے وہی اسّی دینار اسے دے دیا.( ۱ )

مزید ایک روایت میں پڑ ھتے ہیں ابوبکر بن مقری کہتے ہیں :

ایک دن میں ، ابوالقاسم طبرانی( م۳۶۰ھ) اور ابوالشیخ روضہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت سے مشرّف ہوئے تو وہاں ہمیں بھوک نے شدید پریشان کیا ،ہم نے وہ دن اسی حالت میں گزار دیا جب رات ہوئی تو میں نے قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس جا کر کہا : یا رسول اللہ ! ہم بھوکے ہیں.

اس کے بعد اپنے دوستوں کے پاس پہنچا ، ابوالقاسم طبرانی نے مجھ سے کہا : یہیں پر بیٹھ جاؤ یا آج کھانا آئے گا یا موت

____________________

۱۔ وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ۴: ۱۳۸۰.

۷۶

ابوبکر کہتے ہیں : میں اور ابوالشیخ اٹھے مگر طبرانی وہیں پر کچھ سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک ایک شخص نے مسجد کے دروازے پر دستک دی ،ہم نے دروازہ کھولا تو دیکھا ایک علوی شخص ہے جس کے ہمراہ دو غلام ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھانے سے بھری ہوئی ٹوکریاں ہیں .ہم نے ان سے کھانا لیا اور سیر ہو کر کھایااور یہ سوچاکہ بچاہوا کھانا وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے لیکن وہ اسے وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے. جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس علوی نے کہا : کیا تم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بھوک کی شکایت کی ہے ؟ میں نے خواب میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے مجھے فرمایا کہ تمہارے لئے غذا لے آؤں( ۱ )

سمہودی نے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ ان جلاد کہتے ہیں :

میں مدینہ میں داخل ہوا جبکہ انتہائی فقر و تنگدستی میں مبتلاتھا قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پہنچا اور کہا : یا رسول اللہ ! میں آپ کا مہمان ہوں

اسی عالم میں میری آنکھ لگ گئی ،خواب میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت ہوئی تو آپ نے مجھے ایک روٹی دی جس میں سے میں نے آدھی کھائی. جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ باقی آدھی میرے ہاتھ میں ہے( ۲)

سمہودی نے ایک اور داستان میں یوں لکھا ہے :

ابوعبداللہ محمد بن ابی زرعہ صوفی کہتے ہیں : میں اپنے والد اور عبداللہ بن حنیف کے ہمراہ مکّہ کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں شدید تنگدستی کا شکار ہوگئے .جب مدینہ منوّرہ میں داخل ہوئے تو سخت

____________________

۱۔ حوالہ سابق۴: ۱۳۸۰.

۲۔حوالہ سابق.

۷۷

بھوک لگی تھی .میں جو ابھی سنّ بلوغ تک نہیں پہنچاتھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا : مجھے بھوک لگی ہے

میرے والد ضریح پیغمبر کے پاس گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آ ج کی را ت ہم آپ کے مہمان ہیں!

اور پھر انتظار کرنے بیٹھ گئے تھوڑی دیر کے بعد اچانک سر بلند کیا کبھی روتے تھے اور کبھی ہنستے تھے جب اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا : پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت ہوئی ہے تو انہوں نے مجھے کچھ درہم عنایت کئے ہیں اتنے میں ہتھیلی کھولی تو اس میں درہم موجود تھے ان درہموں میں اتنی برکت تھی کہ شیراز واپس پلٹنے تک ہم ان میں سے خرچ کرتے رہے مگر وہ ختم نہ ہوئے( ۱ )

سمہودی نے اسی بارے میں ایک اور داستان بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

شیخ ابو عبد اللہ محمد بن ابی الامان کہا کرتے : میں مدینہ میں محراب فاطمہ علیہا السلام کے پیچھے موجود تھا اور جناب سید مکثر القاسمی بھی اسی محراب کے پیچھے کھڑے تھے .اچانک قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑ ھے اور پھر واپس پلٹے تو میں نے دیکھا مسکرا رہے ہیں.

شمس الدین صواب ( ضریح مبارک کے خادم) نے ان سے پوچھا : کیوں ہنس رہے ہیں ؟ کہنے لگے : میں سخت تنگدست ہو چکا تھا گھر سے نکلا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پہنچ کر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے استغاثہ کیا اور کہا : میں بھوکا ہوں اس کے بعد سو گیا ، خواب میں پیغمبر کو دیکھا ،انہوں نے دودھ کا ایک جام دیاجسے پی کر میں سیر ہوگیا( ۲ )

____________________

۱۔ حوالہ سابق ۴: ۱۳۸۱.

۲۔ حوالہ سابق ۴: ۱۳۸۳.

۷۸

کتاب وفاء الوفاء کے مؤلف نے ایک اور دلچسپ داستان یوں بیان کی ہے:

جناب ابو محمّد سید عبد السلام بن عبد الرحمان حسینی بیان کیا کرتے : میں نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شہر میں تین دن گزارے اوران تین دنوں میں کھانا نہیںکھایا تھا منبرپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا دو رکعت نماز پڑھ کر کہا : اے جدّ بزرگوار ! میں بھوکا ہوں اور آ پ سے یخنی کا طلبگار ہوں

اتنے میں مجھ پر نیند غالب آگئی ، اچانک ایک شخص نے مجھے نیند سے بیدار کیا جس کے ہاتھ میں یخنی سے بھرا لکڑی کا پیالہ تھااور مجھ سے کہا: اسے پیو

میں نے کہا : یہ غذا کہا ں سے لے آئے ہو ؟

کہنے لگا : تین دن سے میرے بچے اس غذا کی فرمائش کر رہے تھے آج تیسرے دن خدا وند متعال کی رحمت سے مجھے کام ملا تو یہ غذا تیار کر کے کھا کر سوئے تورسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خواب میں فرمایا: تمہارا ایک بھائی اسی غذاکی تمنّا رکھتا ہے اسے جا کر دے آؤ.( ۱ )

اہل بیت کی قبور سے استغاثہ

قابل غور بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں علمائے اہل سنّت ،اہل بیت علیہم السلام کی قبور سے بھی حاجت طلب کرتے رہے ہیںجس کے چند ایک نمونے بیان کر رہے ہیں :

۱۔ قاہرہ میں مقام امام حسین سے استغاثہ :

حمزاوی عدوی (م ۱۳۰۳ھ ) اپنی کتاب مشارق الأنوار میں امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کے محل دفن کے بارے طولانی گفتگو کے بعد لکھتے ہیں:

شایستہ تو یہی ہے کہ اس عظیم زیارت گاہ کی زیادہ سے زیادہ زیارت کی جائے تاکہ

____________________

۱۔حوالہ سابق.

۷۹

انسان اس کے وسیلہ سے خدا وند متعال سے توسّل کرسکے اور اس امام بزرگوار سے جس طرح ان کی زندگی میں طلب کیا جاتا تھا اسی طرح اب بھی درخواست کی جائے ،اس لئے کہ وہ مشکل کشاہیںاوران کی زیارت ہر مصیبت زدہ شخص سے ناخوشگوار حوادث کو دور کر تی ہے. اور انکی نورانیت اور ان کے توسّل سے ہرغافل دل خداسے متصل ہو جاتا ہے.

انہی ناخوشگوار حوادث کا ایک نمونہ وہ حادثہ ہے جو میرے استاد بزرگوار ، عارف باللہ محمد شبلی معروف ابن الست کتاب العزیّة کے شارح کو پیش آیا کہ ان کی تمام تر کتب چوری ہو گئیں .وہ پریشان حال اور مضطرب تھے .آخر ہمارے ولی نعمت حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچے اور مناجات کے ساتھ آنحضرت سے استغاثہ کیا .تھوڑی دیر وہاں رکنے اور زیارت کرنے کے بعد جب واپس گھر پہنچے تو دیکھا ساری کی ساری کتابیںبغیر کسی کمی کے اپنی جگہ پر موجود ہیں( ۱ )

۲۔ نابینا شخص کا بارگاہ امام حسین علیہ السلام سے توسّل :

شبراوی شافعی ( م ۱۱۷۲ھ ) نے اپنی کتاب الاتحاف بحبّ الاشراف میں مصر میں امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے دفن ہونے کے مقام کے بارے میں ایک الگ فصل تحریر کی ہے جس کے ایک حصّہ میں آنحضرت کی زیارت اور ان کی کچھ کرامات کو ذکر کیا .انہی کرامات میں سے ایک کرامت یوں بیان کی ہے :

شمس الدین قعوینی نامی شخص جو ا س بارگاہ کا ہمسایہ اور اس کا خاد م بھی تھا ایک دن آنکھ کے درد میں مبتلا ہوا یہاں تک کہ دونوں آنکھوں کی بینائی بھی دے بیٹھا .وہ ہرروز صبح کی نمازاسی بارگا ہ

____________________

۱۔ مشارق الأنوار ۱: ۱۹۷؛ الغدیر ۵: ۱۹۱.

۸۰