وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ 0%

وہابی افکار کا ردّ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے
صفحے: 179

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی
زمرہ جات:

صفحے: 179
مشاہدے: 95143
ڈاؤنلوڈ: 4458

تبصرے:

وہابی افکار کا ردّ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 179 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 95143 / ڈاؤنلوڈ: 4458
سائز سائز سائز
وہابی افکار کا ردّ

وہابی افکار کا ردّ

مؤلف:
اردو

میں ادا کرتا اور پھر ضریح مبارک امام حسین علیہ السلام کی طرف منہ کر کے کہتا : اے میرے مولا ! میں آپ کا ہمسایہ ہوں نابینا ہو چکا ہوں ،خداوند متعال سے آپ کے وسیلہ سے طلب کرتا ہوں کہ میری بینائی پلٹا دے اگرچہ ایک ہی آنکھ کی ہو

ایک رات خواب میں دیکھتا ہے کہ ایک گروہ اس بارگاہ کی طرف آرہا ہے .اس نے جاکر پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟

تو جواب میں کہا گیا : یہ شخص رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آتے ہیں .یہ شخص بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور وہی درخواست جو عالم بیداری میں کرتا تھا اب بھی امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں کی

امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ گرامی کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے عرض کیا:

اس شخص کی شفاعت فرمائیں

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی !اس کی آنکھ میں سرمہ لگا دو

انہوں نے اطاعت کرتے ہوئے سرمہ دانی نکالی اور اس شخص سے فرمایا :میرے نزدیک آتاکہ تمہاری آنکھ میں سرمہ لگاؤں

وہ شخص پاس آیاتو اس کی دائیں آنکھ میں سرمہ لگادیا.اس نے جلن کا احساس کیاتو زور سے چیخ ماری اورنیند سے اٹھ گیا جبکہ ابھی تک جلن کا احساس ہو رہا تھا .اسی کرامت سے اس کی دائیں آنکھ کی بینائی واپس پلٹ آئی اور جب تک زند ہ رہا اسی آنکھ سے دیکھتا رہا( ۱ )

____________________

۱۔ الاتحاف بحبّ الاشراف : ۷۵سے ۱۰۱؛ الغدیر ۵: ۱۸۷.

۸۱

۳۔ ابن حبّان کا قبر امام رضا علیہ السلام سے استغاثہ :

علمائے اہل سنّت میں سے ایک عالم دین جس نے اہل بیت علیہم السلام سے توسّل کیاابن حبّان ہیں اس کرامت کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس بزرگوار کی شخصیت اوراہل سنّت کے ہاں اس کے مقام کوبیان کر رہے ہیں

اہل سنّت کے علمائے علم رجال نے ابن حبّان کے بارے میں یوں لکھا ہے :

وہ امام ، علاّمہ، حافظ( ۱) اور خراسان کی بزرگ شخصیت تھے .وہ مشہور کتب کے مؤلف ہیں ۲۷۰ھ میں پیداہوئے ، کچھ مدّت سمر قند کے قاضی بھی رہے .وہ فقہاء اورسلف کے دینی آثار کی حفاظت کرنے والے تھے انہوں نے مسند صحیح کو الأنواع والتقاسیم کے نام سے تحریر کیا اور کتاب التاریخ اور الضعفائ بھی انہی کے آثار میں سے ہے.سمر قند کے لوگ ان سے علمی استفادہ کیا کرتے...

ابوبکر خطیب بغدادی نے انہیں قابل اعتماد اور ثقہ علماء میں سے شمار کرتے ہوئے کہا ہے: ابن حبّان قابل اعتماد ، برجستہ، سمجھ دار اورباریک بین انسان تھے

حاکم نیشاپوری ان کی تعریف میں لکھتے ہیں :

ابن حبّان علوم فقہ ولغت اور حدیث ووعظ سے سر شار اور صاحب فکر وسر شناس بزرگ افراد میں سے تھے اور ہمارے پاس نیشاپور میں مقیم رہے( ۲ )

ان تمام خصوصیات کے مالک ابن حبّان کئی بار امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے گئے

____________________

۱۔حافظ ایسے شخص کو کہاجاتا ہے جسے ایک لاکھ سے بھی زیادہ احادیث زبانی یاد ہوں

۲۔سیر أعلام النبلاء ۱۶: ۹۲؛ میزان الاعتدال : ۶: ۹۸؛ طبقات سبکی ۳: ۱۳۱؛ الأنساب ۲: ۱۶۴.

۸۲

اور ان سے استغاثہ کیا .کیا ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں میں یہ جرأت ہے کہ وہ ایسے شخص کی طرف کفر وشرک یا نادانی کی نسبت دیں ؟

وہ اما م علی بن موسٰٰٰی رضا علیہ السلام کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :

علی بن موسٰی رضا علیہ السلام مامون کی جانب سے زہریلا شربت پلانے کے سبب وہیں طوس میں شہادت پا گئے .ان کی قبر سناباد نوقان سے باہر اور مشہور زیارت گاہ ہے میں نے کئی بار وہاں پر ان کی قبر کی زیارت کی .جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو میں علی بن موسٰٰی رضا۔ خدا کا درود وسلام ہو ان پر اور ان کے جدّ پر۔ کی زیارت کے لئے جایا کرتا اور وہاں پہ اپنی مشکل کے برطرف ہونے کے لئے خدا سے دعا کرتااور میری دعا مستجاب ہو جاتی.جب تک طوس میں رہا میں نے اسے بارہا تجربہ کیا .خدا وند متعال ہمیں محبت مصطفٰی اور ان کے اہل بیت ۔ ان پر اور ان کے اہل بیت پر خداکا درود ہو ۔پر موت دے( ۱ )

۴۔ ابن خزیمہ کا قبر امام رضا علیہ السلام پر التماس کرنا:

محمد بن مؤمّل ( ۲)کہتے ہیں : میں امام اہل حدیث ابوبکر بن خزیمہ ، ان کے دوست ابن علی ثقفی اوراساتیذ و علماء کے ایک گروہ کے ہمراہ طوس میں علی بن موسٰی الرّضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت پر گیا.تواس زیارتی سفر میں دیکھا کہ ابن خزیمہ اس مقام کاخاص احترام.اور تواضع کر رہا

____________________

۱۔ کتاب الثقات ۸: ۴۵۶؛ الانساب سمعانی ۱: ۵۱۷.

۲۔ان کی شخصیت کو پہچاننے کے لئے سیر اعلام النبلاء ۱۶: ۲۳ کا مطالعہ کریں

۸۳

ہے اور اس کے نزدیک خاص طریقے سے التماس کررہا تھا جس سے ہمیں بہت تعجب ہوا( ۱)

ذہبی ابن خزیمہ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

ابن خزیمہ شیخ الاسلام ، امام الآئمہ ، حافظ ، حجّت ، فقیہ اورعلمی آثار کے مالک ہیں. وہ ۲۲۳ہجری میں پیدا ہوئے اور علم حدیث وفقہ میں اس قدر تجربہ حاصل کیا کہ علم وفن میں ضرب المثل بن گئے

امام بخاری اورامام مسلم نے اپنی صحیح کے علاوہ باقی کتب میں ان سے احادیث نقل کی ہیں(۲ )

ان کے بارے میں کہا گیا ہے : خداوند متعال ابو بکر بن خزیمہ کے مقام و عظمت کی وجہ سے اس شہر سے بلاؤں کو دور کرتا ہے

دار قطنی نے بھی ان کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے :

ابن خزیمہ ایسے پیشوا تھے جو علم کے اعتبار سے باریک بین اور بے نظیر تھے

باقی رجال شناس علماء نے ابن خزیمہ کے بارے میں کہا ہے : وہ سنّت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ کرنے والے ہیں احادیث پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ظریف نکات کونکالتے وہ ایسے علماء میں سے تھے جو اعتراض کی نگاہ سے احادیث کو دیکھتے اور احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے .وہ علم ودینداری ، نیز سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان عزّت ومقام رکھتے تھے( ۳ )

ابن ابی حاتم ،ابن خزیمہ کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی پیروی کی جاتی

____________________

۱۔تہذیب التہذیب ۷: ۳۳۹؛ فرائد السمطین ۲:۱۹۸.

۲۔سیر اعلام النبلائ۱۴: ۳۶۵.

۳۔ سیراعلام النبلائ۱۴: ۳۷۴۔۳۷۷.

۸۴

ہے ایسا شخص جس کا اہل سنّت کے ہاں اتنا بلند مرتبہ ہے وہ امام رضاعلیہ السلام سے استغاثہ بھی کر رہے ہیں اور ان کی قبر پرعاجزی والتماس بھی کر رہے ہیں. کیا ایسے شخص کے بارے میں ابن تیمیہ یا اس کے پیروکار یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرک یا کافر تھے ؟

کیاوہ ابن خزیمہ یاان جیسے دوسرے افراد کے بارے میں منفی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں؟! !

بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور سے استغاثہ

گزشتہ مطالب کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں کی سیرت میں استغاثے کی اہمیت معلوم ہو گئی کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے .اب ہم ان بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور کی طرف اشارہ کریں گے جن سے استغاثہ کیا گیا:

۸۵

۱۔قبر ابوایوب انصاری ( م۵۲ھ روم ):

حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں : لوگ ابو ایّوب انصاری کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور خشک سالی وقحط میں ان کی قبر پر جا کر باران رحمت کی التماس کرتے( ۱ )

۲۔ قبر ابوحنیفہ :

ابن حجر لکھتے ہیں : امام شافعی جب تک بغداد میں رہے ابوحنیفہ کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور ان سے توسّل کرتے ان کی ضریح کے پاس جاکر زیارت کیاکرتے،ان پر سلام بھیجتے اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجات کی برآوری کے لئے خدا سے متوسّل ہوتے

وہ آگے چل کر لکھتے ہیں : نقل معتبر کے مطابق امام احمد بن حنبل امام شافعی سے توسّل کیا

کرتے .یہاں تک کہ ایک دن ان کے بیٹے اپنے باپ کے اس عمل سے تعجب کرنے لگے

____________________

۱۔ المستدرک علی الصحیحین ۳: ۵۱۸، حدیث ۵۹۲۹؛ صفة الصفوة ۱: ۴۷۰،ح۴۰.

۸۶

.احمد نے اس کے تعجب کو دیکھ کر کہا : شافعی لوگوں کے لیے خورشید کی مانند ہیں اور ان کا مقام وہی ہے جو بدن کے لئے سلامتی کا ہوتا ہے

اور جب امام شافعی کو یہ خبر دی گئی کہ مغرب کے لوگ امام مالک سے توسّل کرتے ہیں تو انہوں نے ان کے اس عمل کو برا بھلا نہیںکہا

شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ہر روز ان کی قبر پر جا تا ہوں اور اگر کوئی حاجت ہوتو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاکر خدا سے حاجت کی برآوری کی التماس کرتا ہوں.( ۱ )

۳۔ قبر احمد بن حنبل :

ا بن جوزی مناقب احمد میں لکھتے ہیں:

عبداللہ بن موسٰی کہتے ہیں : ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ احمد کی قبر کی زیارت کے لیے باہر نکلا تو آسمان پر سخت تاریکی چھا گئی میرے باپ نے مجھ سے کہا : آئیں ابن حنبل کے وسیلے سے خدا سے متوسّل ہوں تاکہ وہ ہم پر راستے کو روشن کردے .اس لئے کہ اسّی سال سے جب بھی میں نے ان سے توسّل کیا ہے تو میری حاجت پوری ہو تی رہی ہے( ۱ )

۴ ۔ قبرابن فورک اصفہانی( م ۴۰۶ھ) :

ابن فورک محمد بن حسن متکلمین کے استاد اور اشعری مذہب تھے .وہ حیرہ ( نیشاپور کے اطرف میں )دفن ہوئے ،انکی بارگاہ معروف اور ایک زیارتی مکان ہے .لوگ ان سے بارش طلب کرتے

____________________

۱۔ خلاصة الکلام : ۲۵۲؛ تاریخ بغداد ۱: ۱۲۳؛ اخبار أبی حنیفہ : ۹۴.

۲۔ مناقب احمد : ۲۹۷.

۸۷

ہیں اور ان کی قبر پر دعاقبول ہوتی ہے( ۱ )

۵۔ قبر شیخ احمد بن علوان ( ت ۷۵۰ھ) :

یافعی کہتے ہیں : شیخ احمد بن علوان کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ جوفقہاء ان کے نظریے کے مخالف تھے وہ بھی مشکلات میں ان سے توسّل کرتے اور بادشاہ کے خوف سے ان کے ہاں پناہ لیتے( ۲ )

خاتمہ

ہم نے اس تحریر میں استغاثہ ، توسّل اور دعا کے بارے میں اختصار کے ساتھ تاریخی شواہدکوبیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور صحابہ کرام کی قبور پر مسلمان انجام دیتے آئے ہیں جیساکہ حنبلیوں کے امام ابوعلی خلال ہر مشکل میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسّل ہواکرتے.( ۳ )

ابن خزیمہ اور ابن حبّان امام رضا علیہ السلام سے توسّل کیا کرتے اور اپنی حاجات کی برآوری کے لئے امام عالی مقام سے استغاثہ کرتے

۔ احمد بن حنبل شافعی سے متوسّل ہواکرتے.

۔شافعی اپنی حاجات پوری کروانے کے لئے ابو حنیفہ سے متوسّل ہوتے ؛

۔اہل سمرقندبخاری کی قبر پر بارش کی دعا کیا کرتے

۔حضرت عائشہ مسلمانوںکو یہ حکم دیتیں کہ بارش کے لئے قبر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جاکر توسّل اور

____________________

۱۔وفیات الأعیان ۴: ۲۷۲؛ سیراعلام النبلاء ۱۷: ۲۱۵.

۲۔مرآة الجنان ۴: ۳۵۷.

۳۔تاریخ بغداد۱: ۱۲۰.

۸۸

ان سے استغاثہ کریں

صحابہ کرام اور اہل سنّت کے بزرگ علماء اور عوام الناس ؛ انبیاء وصحابہ اور صالح افراد کی قبور پر جاکر استغاثہ کیا کرتے

کیا واقعا ان تمام تر تاریخی دلا ئل و شواہد کے باوجود ابن تیمیہ میں اتنی جرأت ہے کہ وہ ان افراد پر شرک وکفر کی مہرلگائے ؟

شیخ سلامہ عزامی نے ابن تیمیہ کے افکار کے بارے میں بہت زیبا جملہ بیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں:

یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ذات کے بارے میں بھی جسارت کی،جہاں وہ کہتا ہے : جو شخص پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کی نیّت سے سفر کرے تو اس نے گناہ کیا ہے اور جوکوئی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان کی وفات کے بعدپکارے اوران سے استغاثہ کرے تو اس نے شرک کیا

ابن تیمیہ نے ایک مقام پر اسے شرک اصغر اور دوسرے مقام پر شرک اکبر قرار دیاہے جبکہ استغاثہ کرنے والا شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خالق حقیقی اور مؤثر واقعی خداوند متعال کی ذات ہے اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صرف واسطہ ہیں حاجات کی بر آوری کے لئے .اس لئے کہ خدا نے انہیں بھلائی کا چشمہ قرار دیا ہے اور وہ ان کی شفاعت اور دعا کو قبول کرتا ہے .اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے.( ۱ )

ہاں ! ابن تیمیہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد انہیںپکارنے کو شرک سمجھتا ہے جبکہ ابوبکر کے

زمانہ میں مسیلمہ کذّاب کے ساتھ جنگ میں لشکراسلام کانعرہ یا محمداہ! تھا

____________________

۱۔ فرقان القرآن : ۱۳۳؛ الغدیر ۵: ۱۵۵.

۲۔ البدایة والنھایة ۶: ۳۲۶.

۸۹

۵۔زیارت قبور

وہابیوں کے نزدیک زیارت رسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

اس میں شک نہیں ہے کہ قرآن وسنت کی رو سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت ایک شرعی اور پسندیدہ عمل ہے پوری تاریخ اسلام میں مسلمان اسی پر عمل پیرا رہے ہیں اور اس طرح مادی ومعنوی کمالات سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں

جبکہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی نیت سے سفر کرناحرا م ہے اور باقی قبور کی زیارت بدرجہ اولیٰ حرام ہوگی .ابن تیمیہ نے اس فتوٰی کے لئے حدیث( شدّ الرّحال)کو دلیل قراردیا ہے.یہ حدیث قسطلانی نے ارشاد الساری( ۱ ) اور ابن حجر عسقلانی نے الجوہر المنظّم میں نقل کی ہے

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲: ۳۲۹.

۹۰

اس نظریے کا جواب

ہم سب سے پہلے حکم شرعی کی چار دلیلوں ( قرآن ،سنت، صحابہ کرام کی سیرت اور عقل) کے ذریعہ سے ابن تیمیہ کے نظریہ کے باطل ہونے کو ثابت کریں گے اور پھر حدیث شدّ الرّحال ) ) کی تحقیق اور اس پر اشکال کرتے ہوئے اس سے لئے جانے والے مفہوم کے نادرست ہونے کو بیان کریں گے .اور یہ ثابت کریں گے کہ چار دلیلوں کی رو سے زیارت ایک شرعی عمل ہے

۱۔قرآن کی نظر میں

خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے :( ولو أنّهم اذ ظلموا أنفسهم جاؤوک فاستغفروا الله واستغفر لهم الرّسول لوجدوا الله توّابا رحیما )

ترجمہ:اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفارکرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتاتو یہ خداکو بڑاہی توبہ کرنے والااو ر مہربان پاتے.( ۱ )

اس آیت کریمہ کی رو سے زیارت کا معنی جس کی زیارت کی جارہی اس کے پاس حاضر ہونا ہے ؛چاہے استغفار کی خاطر ہو یا کسی اور قصد سے جب حیات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اس عمل کا پسندیدہ ہونا ثابت ہوگیا تو ان کی رحلت کے بعد بھی اسی طرح پسندیدہ ہوگا جیسا کہ ہم شفاعت کی بحث میں دلائل وشواہد کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رحلت کے بعد بھی عالم برزخ میں زندہ ہیں اور زائر کے سلام کو سنتے ہیں اور اس کے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں

۲۔ احادیث کی نظر میں

خود پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان کی قبر مطہّر کی زیارت اور اس کی تعظیم کے بارے میں بہت زیادہ روایات بیان ہوئی ہیںاور اہل سنت کے علمائے رجال نے ان تمام راویوں کی تائید کی ہے ان معتبر احادیث سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ زیارت کے بارے میں نقل کی گئی تمام تر روایات واحادیث کو جعلی قرار دینا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پربہت بڑی جھوٹی نسبت دینے کے مترادف ہے.اب ہم ان احادیث میں سے چند ایک کو بطورنمونہ پیش کر رہے ہیں :

۹۱

پہلی حدیث :

اہل سنت کی متعدد کتابوں میں بیان ہوا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

من زار قبری وجبت له شفاعتی

جوشخص میری قبر کی زیارت کرے تو مجھ پر واجب ہے کہ اس کی شفاعت کروں

بہت سے حفاظ و محدثین نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جن میں سے ابن ابی الدنیا ، ابن خزیمہ ، دار قطنی ، دولابی ، ابن عساکر اور تقی الدین سبکی و... ہیں.( ۱ )

دوسری حدیث :

عبد اللہ بن عمر ایک مرفوع روایت( اہل سنت کے ہاں مرفوع روایت سے مراد صحیح اور معتبر روایت ہے.) میں بیان کرتے ہیںکہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

( (من جائنی زائرا لا تعمله لا تحمله الاّ زیارتی کا ن حقّا علیّ أن أکون له شفیعا یوم القیامة

جو شخص فقط میری زیارت کی نیت سے میرے پاس آئے تو میرے لئے ضروری ہے کہ روز قیامت اس کی شفاعت کروں

یہ حدیث اہل سنت کی سولہ کتب میں بیان کی گئی ہے اور اسکے راویوں میں سے طبرانی ، حافظ بن سکن بغدادی،دار قطنی اور ابونعیم اصفہانی کا نام لیا جاسکتا ہے( ۲ )

۹۲

تیسری حدیث :

عبداللہ بن عمر ایک اور مرفوع روایت میں بیانکرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

من حجّ فزار قبری بعد وفاتی کان کمن زارنی فی حیاتی

جس نے حانہ کعبہ کا حج کیا اور میری رحلت کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہے جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہو

یہ حدیث اہل سنت کی پچیس کتب میں نقل ہوئی ہے جس کے راویوں میں سے شیبانی ، ابویعلی ، بغوی ، ابن عدی و... ہیں( ۱ )

چوتھی حدیث :

عبد اللہ بن عمر مزید ایک مرفوع روایت میں بیان کرتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

من حجّ البیت ولم یزرنی فقد جفانی

جو شخص خانہ کعبہ کا حجّ کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے مجھ پر جفا کی

اس حدیث کو بہت سے حفاظ و محدثین نے نقل کیا ہے جن میں سے سمہودی ، دارقطنی اور قسطلانی اور دیگر مؤلفین ہیں( ۲)

____________________

۱۔المعجم الکبیر ۱۲: ۴۰۶؛ سنن دار قطنی ۲: ۲۷۸.

۲۔نیل الأوطار ۵: ۱۸۰؛ المصنف عبدالرزاق ۳: ۵۶۹؛ المواہب اللدنیة ۳: ۴۰۴.

۹۳

۳۔ صحابہ کرام کی سیرت

زیارت کے جائز ہونے کی تیسری دلیل پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ کرام کی سیرت اوران کا کردار ہے ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ جب عمر بن خطاب فتوحات شام سے مدینہ منورہ واپس پلٹے توسب سے پہلے مسجد میں گئے اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا( ۱)

اس واقعہ کو فتوح الشام میں یوں نقل کیا گیا ہے : جب عمر نے اہالیان بیت المقدس کے ساتھ صلح کی تو کعب الأحبار ان کے پاس آیا اور اسلام قبول کرلیا عمر اس کے اسلام لانے سے خوش ہوئے اور اس سے کہا: کیا تم میرے ساتھ مدینہ جاناپسند کرو گے تاکہ وہاں قبر پیغمبر کی زیارت کرکے اس سے فیضیاب ہو سکو ؟.

کعب الأحبار نے اسے قبول کرلیا اور جب عمر مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر ان پر سلام کیا( ۲ )

مزید ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ عبداللہ بن عمر جب بھی سفر سے واپس آتے تو قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جا کر کہتے : السلام علیک یا رسول اللہ .( ۳ )

عبداللہ بن عمر ہمیشہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کنارے کھڑے ہو کر آنحضرت پر سلام بھیجا کرتے.(۴ )

____________________

۱۔شفاء السقام : ۱۴۴؛ یاد ر ہے کہ یہاں پر ہماری بحث جدلی ہے جبکہ ہمارے نزدیک فقط سیرت معصوم حجت ہے چاہے وہ صحابی ہو یا نہ ہو

۲۔فتوح الشام ۱: ۲۴۴.

۳۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۴۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۹۴

ایک اورروایت میں پڑھتے ہیں کہ ابن عون کہتے ہیں: ایک شخص نے نافع سے پوچھا : کیا عبداللہ بن عمر قبر پیغمبر پر کھڑے ہو کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام بھیجا کرتے ؟ تو نافع نے کہا: ہاں ، میں نے اسے ایک سو یااس سے بھی زیادہ مرتبہ دیکھا کہ قبر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کنارے کھڑے ہو کر کہتے : سلام ہو اللہ کے رسول پر( ۱ )

حافظ عبدالغنی اور دیگر نے کہا ہے : حضرت بلال نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد فقط ایک بار اذان کہی اور وہ بھی اس وقت جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر کی زیارت کے لئے مدینہ گئے تھے( ۲ )

تقی الدین سبکی کہتے ہیں: پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت کے جائز ہونے پر ہماری دلیل حضرت بلال کا خواب نہیں ہے بلکہ ان کا عمل ہے یہ عمل حضرت عمر کے دور خلافت میں اتنے سارے صحابہ کرام کی موجودگی میں انجام پایا. اور یہ امر ان پر پوشیدہ بھی نہیں تھا .اسی لئے انہوں نے حضرت بلال پر کوئی اعتراض نہیں کیا( ۳)

____________________

۱۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ۴: ۱۳۴۰.

۲۔ قاموس الرجال ۲: ۳۹۸. البتہ تاریخ میں جو چیز ثابت ہے وہ یہ کہ حضرت بلال نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد دو بار مدینہ میں اور ایک بار شام میں اذان کہی

۳۔شفاء السقام : ۱۴۲، باب سوم

۹۵

۴ ۔ عقل کی رو سے

زیارت کے جواز کے لئے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جسے خداوند متعال نے عظمت و بزرگی عطا کی ہے اس کی تعظیم کی جائے اور زیارت بھی ایک طرح کی تعظیم ہے پس پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زیارت جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا احترام شمار ہوتا ہے یہ شعائر الھی میں سے اور ایک پسندیدہ عمل ہے اگرچہ دشمنان اسلام اسے پسند نہیں کرتے.

وہابیوں کی دلیل کے بارے میں تحقیق

اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہابی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے حرام ہونے پر بخاری و مسلم میں منقول حدیث سے استدلال کرتے ہیںکہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :لا تشد ّالرّحال الاّ الی ثلاثة : المسجد الحرام ومسجدی ومسجد الأقصیٰ

تین مکانوں کے علاوہ سفرکرنا حرام ہے : مسجد الحرام ، مسجد النبی ، مسجد الأقصیٰ( ۱ )

محمد بن عبدالوہاب اس حدیث سے غلط مفہوم لیتے ہوئے کہتا ہے :

پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت مستحب ہے لیکن مسجد کی زیارت اور اس میں نماز کے قصد سے سفر کیا جائے نہ کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے قصد سے

محمد بن عبد الوہاب نے اس حدیث سے استنا د کرتے ہوئے زیارت قبور کو حرام قرار دیا ہے

ہم اس حدیث کی تحقیق کے بارے میں کہیںگے کہ عربی قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کے صحیح معنیٰ کو سمجھنے کے لئے کلمہ حصر (الاّ) سے پہلے ایک لفظ کو محذوف قرار دینا ہو گا اور ایسی صورت میں دو احتمال سامنے آئیں گے :

۱۔ لفظ محذوف مسجد ہے اور ایسی صورت میں اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ نماز ادا کرنے کے لئے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر مت کریں

۲۔ لفظ محذوف مکان ہے کہ ایسی صورت میں حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ ان تین مساجد

____________________

۱۔صحیح بخاری ۱: ۳۹۸،ح ۱۱۳۲؛ صحیح مسلم ۲: ۱۰۱۴.

۹۶

کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف سفر مت کریں

پہلے احتمال کے مطابق کلمہ حصر الاّ سے جومعنٰی سمجھا جا رہا ہے وہ حصر اضافی ہے یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام مبارک میں نفی واثبات کا محور مسجد ہے اور قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ابتداء ہی سے اس حدیث کے موضوع سے خارج ہے .اس لئے کہ حدیث شریف یہ کہہ رہی ہے کہ جس شہر میں جامع مسجد موجود ہو تو وہاں سے سفر کر کے دوسرے شہر جانا اور وہاں کی جامع مسجد یا غیر جامع میں نماز پڑھنے پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ دونوںجگہ مسجد کی اہمیت اور اس میں نمازادا کرنا برابر ثواب رکھتا ہے .لیکن مذکورہ بالا تین مسجدیں اس موضوع سے خارج ہیں اس لئے کہ وہاں پہ نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا حامل ہے

دوسری جانب تبادر عرفی ( عرف عام میں کسی لفظ کے سننے سے خاص معنٰی کا ذہن میں آنا ) اور حکم ( شدّ الرّحال )وموضوع کے درمیان تناسب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لفظ (مسجد ) ہی کو محذوف سمجھا جائے لہذا یہی احتمال درست ہوگا

جبکہ دوسرے احتمال کے مطابق ۔جوابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروںکے نظریہ سے مطابقت رکھتا ہے ۔ کلمہ الاّ سے جو حصر سمجھا جا رہا ہے وہ حصر حقیقی ہے یعنی ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف مت سفر کریں جبکہ تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ تجارت ، طلب علم ، جہاد، علماء کی زیارت یا سیر وسیاحت کے قصد سے سفر کرنا کوئی ممانعت نہیں رکھتا

اس لحاظ سے لفظ مکان کو محذوف ماننا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ سفر کرنا جائز نہ ہواور بدیہی ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجماع و اتفاق کے خلاف ہے.

۹۷

پس اس حدیث میں الاّ سے پہلے لفظ (مسجد ) کو محذوف ماننا پڑے گا یعنیلا یقصد بالسفر الی المسجد الاّ المساجد الثلاثة .اورا س صورت میں حدیث شریف میں کہیں بھی مقامات مقدّسہ اور خاص طور پر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے حرام ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا

قسطلانی نے بھی (ارشاد الساری)میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے.( ۱ )

علاوہ ازیں اگر لفظ محذوف مسجد ہو تو پھر بھی اس حدیث مبارکہ کے مضمون پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ پہلے احتمال کے مطابق حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ فقط انہی تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے اور ان کے علاوہ نماز ادا کرنے کے لئے کہیں سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے جبکہ روایات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا جایا کرتے تھے جبکہ یہ مسجد ان تین مساجد میں سے نہیں ہے .لہذا اس اعتبار سے مسجد قبا کی طرف سفر کرنا بھی حرام ہونا چاہئے جبکہ کوئی بھی مسلمان ایسی بات کرنے کو تیار نہیں.

ایک ورایت میں بیان ہوا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں:

رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ہفتہ کے دن پید ل یا سوار ہوکر مسجد قبا جایا کرتے

اسی طرح عبد اللہ بن عمر خود بھی اس پر عمل کیا کرتے( ۲ )

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲:۳۳۲.

۲۔ صحیح بخاری ۲: ۳۹۹،ح ۱۱۳۵.

۹۸

ابن تیمیہ کے توہمات اور علمائے اہل سنت کا موقف

گذشتہ مطالب سے یہ روشن ہو گیا کہ ادلّہ اربعہ کی بناء پر زیارت ایک شرعی عمل ہے اور اس بارے میں ابن تیمیہ کے افکار کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے البتہ علمائے اہل سنت نے اس فاسد عقیدے کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے :

۱۔ قسطلانی کہتے ہیں : ابن تیمیہ سے جو مسائل نقل ہوئے ہیں ان میں سے بدترین مسئلہ اس کا قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کرنا ہے( ۱ )

۲۔ نابلسی کہتے ہیں : یہ پہلی مصیبت نہیں ہے کہ جس میں ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کار گرفتا رہوئے ہوں اس لئے کہ اس نے بیت المقدس کی زیارت کے لئے سفر کرنے کو بھی گناہ قرار دیا ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیا ئے الہی میں سے کسی کے وسیلے سے خدا وند متعال سے توسّل کرنے سے بھی منع کیا ہے

اس طرح کے فتوے جو اس کی کج فہمی کی دلیل ہیں یہ باعث بنے ہیں کہ علماء ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کے سامنے قاطعانہ قیام کریں .یہاں تک کہ حصنی دمشقی نے مستقل طور پر ایک کتاب لکھ کر اسے ردّ کیا اور اس کے کفرکو صراحتا بیان کیا( ۲)

____________________

۱۔ارشاد الساری ۲: ۳۲۹.

۲۔الحضرة الانسیة فی الرحلة القدسیة : ۱۲۹.

۹۹

۳۔ غزالی کہتے ہیں : جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں انہیں دیکھ کر تبرک حاصل کیا کرتا اسے چا ہئے کہ ان کی رحلت کے بعد ان کی زیارت کرکے تبرّک حاصل کرے .( اسی طرح ) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیلئے سفر کرنا جائز ہے اور حدیث لا تشدّ الرحال اس کے لئے مانع نہیں بن سکتی(۱)

۴۔عزامی شافعی کہتے ہیں : ابن تیمیہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر بھی جسارت کی ہے اور کہا ہے کہ آنحضرت کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے( ۲ )

۵۔ ہیثمی شافعی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے جواز کو ادلّہ کے ساتھ ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے اور اعتراض کرے کہ تم نے کس طرح زیارت کے جواز پر علماء کے اتفاق کو دلیل قرار دیا ہے جبکہ ابن تیمیہ اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ابن تیمیہ کون ہے؟ اور اسکی کیا اہمیت ہے کہ اسے اتنا مقام دیا جائے یا دینی و اسلامی مسائل میں اسے مرجع کے طور پر پہچانا جائے تاکہ اس کے افکار علماء کے اجماع میں خلل ڈال سکیں .کئی ایک مسلمان دانشوروں نے اس کے ضعیف دلائل پر اعتراض کیا ہے اور اس کی احمقانہ لغزشوں اور نامناسب تخیّلات کو آشکار کیا ہے( ۳ )

مختصر یہ کہ اس بارے میں اہل سنت کے حفاظ ومحدثین نے جو روایات نقل کی ہیں وہ استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں علاوہ ازیں صحابہ کرام کا عمل اور ان کی سیرت نیز حضرت بلال کا رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قبرمبارک کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا جو تمام صحابہ کی موجودگی میں انجام پایا اور اگر صحابہ کرام نے نہ بھی دیکھا ہوتا پھر بھی ان تک یہ بات پہنچ جاتی لیکن اس کے باوجود کسی ایک نے بھی انکے اس عمل پر اعتراض نہیں کیا

____________________

۱۔احیاء علوم الدین ۲: ۲۴۷.

۲۔ فرقان القرآن : ۱۳۳؛الغدیر ۵: ۱۵۵.

۳۔الجوہر المنظم فی زیارة القبر المکرّم : ۱۲؛ الغدیر ۵: ۱۱۶؛ کشف الارتیاب : ۳۶۹.

۱۰۰