• ابتداء
  • پچھلا
  • 9 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4921 / ڈاؤنلوڈ: 3247
سائز سائز سائز
مکہ اور مدینہ منورہ میں  مناظرات

مکہ اور مدینہ منورہ میں مناظرات

مؤلف:
اردو

نوٹ: اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=205&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

کتاب: مکہ اور مدینہ منورہ میں مناظرات

مؤلف: حجة الاسلام آقای عبد الکریم الحسینی القزوینی

مترجم: عمران سہیل

ناشر: موسسئہ امام علی

طبع: اول

تعداد ۲۰۰۰

سال چاپ: ۱۴۲۷ ھ ق ( ۱۳۸۵ ش)

چاپخانہ : ستارہ

موسسئہ امام علی

مقدمہ

محترم قارئین ، آپ کے ہاتھوں میں موجود کتابچہ اس سلسلہ معارف کی چوتھی کڑی ہے جن کو اب تک ہم نے خدا وند متعال کی توفیق و مدد سے آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا ہے اَور یہ کتابچہ ایک ایسے آزاد مکتب ومنبر کی حیثیت رکھتاہے جو اَپنے نہایت ہی سلیس اورآسان اسلوب بیان سے ایسے افراد سے مخاطب ہے ،جو روشن فکر اور عقل سلیم کے مالک ہیں کیو نکہ اسکے مخاطب امت محمدی (ص) کے ایسے افراد ہیں جو اَپنی وحدت ویگانگت ، روشن فکری،اَور دوراندیشی کی بنا پر خالصانہ فکر کے مالک ہیں اَور ان خصوصیات کی وجہ سے خداوند عالم نے انہیں تمام امتوں کے درمیان حاکم، قاضی اَورزمین و آسمان کے درمیان رسالت وسطیٰ پر فائز قرار دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا:

( وکذالک جعلناکم امةوسطاََ لتکونوا شهداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شهیداََ ) ( ۱ )

ِِ”اس طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول(ص)تمھارے مقابلہ میں گواہ بنیں“

یہ موجودہ کتابچہ اُن شبہات اَور اعتراضات کا جواب ہے جوایسے افراد کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں جو دین و عقل جیسی خدا کی نعمت سے خا لی اورحتی کہ نر و مادہ کے درمیان تفریق سے بھی عاجز ہیں ۔گویا خدا وند عالم نے انہیں اہلبیت(ع) کے مذھب پراعتراضات وشبہات کرنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ان کے اس افتراء و کذب کا کام اس قدر آگے بڑھ چکا ہے کہ اَب اِن شبہات کو علی الاعلان پرٹیلی ویژن،انٹرنیٹ، اور حج عمرہ کے ایام میں بھی پیش کیا جانے لگا ہے۔

اس وجہ سے ہم نے ان حضرات کے شبہات سننے اور ان کا تسلی بخش جواب دینے کے بعد، اس کو اس کتابچہ کی صورت میں نشر کرنے کا اہتمام کیا تاکہ ہم فکری جمود کے شکار اس گروہ کے اعتراضات کا جواب دیںاور بحث و مناظرہ کا ایسا طریقہ اختیار کریں کا جس کا قرآن نے حکم دیا ہے، اُن کے اذھان و ا فکارسے ان شبہات کو زائل کریں شاید یہ لوگ راہ ہدایت کی طرف لوٹ آئیں،

( اٴدع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتی هی احسن ) ( ۲ )

”(اے رسول)تم (لوگوںکو)اپنے پرورگار کے راستہ کی طرف حکمت اَور اَ چھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت دو اوربحث و مباحثہ کرو بھی تو اس طرےقہ سے جو (لوگوںکے نزدیک)سب سے اچھا ہو، “

ا ب یہ تین اعتراضات اور انکے جوابات آپ کی پیش خدمت ہیں ۔

”پہلا اعتراض“

< ۱>

<ستفترق امتی الی ثلاثةوسبعین فرقةََ کلها فی النار الاّفرقة واحدةهی الناجیه ( النبیی الکریم)

”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سب کا ٹھکانہ جھنم ہے سوائے ایک فرقہ کے، وہی فرقہ ناجیہ(نجات پانے والا)ہے

”کون سا فرقہ ، فرقہ ناجیہ( نجات یافتہ)ہے“؟

مکہ مکرمہ اور مدنیہ منورہ میں حج و عمرہ کرنے والے شخص کا سامنا تنگ نظر، جاہل واحمق نیز جھوٹ اوربہتان باندھنے والے ایسے افراد سے ہوتا ہے جن کے نزدیک اسلام کی تعریف صرف لمبی داڑھی، اُونچا پا ئجامہ،اور منہ میں مسواک رکھنا ہے۔جبکہ اسلام کی دوسری اہم و چیدہ تعلیمات و احکام کووہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔اس کے باوجود وہ اپنے خیال خام میں یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ بہت اچھا کام انجام دے رہے ہیں ۔

خدا وند کریم نے ایسے افراد کو قرآن میں ان الفاظ سے یاد کیا ہے:

( الذین ضلّ سعیهم فی الحیوة الدنیا و هم یحسبون انهم یحسنون صنعاََ ) ( ۳ )

”وہ ایسے لوگ (ہیں )جن کی دنیاوی زندگی کی سعی وکو شش سب اکارت ہو گئی اور وہ اس خام خیالی میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں “

لیکن اُن کا یہ عمل اور مومنین کرام پر افتراء و بہتان انہیں ذیل کی آیت کا مصداق بناتا ہے۔

( اَنه کان فاحشةومقتاََ و ساء سبیلاََ ) ( ۴ )

” وہ بد کاری اور( خدا کی) نا خوشی کی بات ضرور تھی اور بہت براطریقہ تھا“

بہتان وافتراء ایسی مذموم صفت ہے جس کے بارے میں قرآن یوں خبر دیتا ہے:

( انما یفتری الکذب الذین لا یومنو ن بآیات الله واولٓئک هم الکاذبون ) ( ۵ )

”جھوٹ و بہتان تو پس وہی لوگ باندھا کرتے ہیں جو خدا کی آےات پرایمان نہیں رکھتے اور (حقیقت امر یہ ہے کہ)یہی لوگ جھوٹے ہیں “

میرے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل کچھ اسطرح ہے کہ جب میں مکہ مکرمہ کے مسجد الحرام میں عبادت میں مصروف تھا،کہ ایک شخص جس کی داڑھی لمبی اواُنچا کرتا ،منہ میں مسواک چباتا ہوا، بغیر سلام کیے میرے پہلو میں آ بیٹھا، جبکہ سلام کرنا تمام مسلمانوں کے نزدیک سنت نبوی ہے اُس کا نفرت آمیزکریہ المنظرچہرہ اُس کے پنہان کینے کی نشاندہی کر رہا تھااس نے مخاطب ہوکر کہا کیا تم شیعہ عالم دین ہو؟

میں نے جواب میں کہا :خداوند متعال نے مجھے اپنے احکام وتعلیمات کا متعلم قرار دیا ہے۔

تو اس نے کہا تم لوگ گمراہی پر ہو۔

میں نے اُس سے استفسار کیا:تم کو یہ کیسے معلوم کہ ہم لوگ گمراہی پر ہیں ؟ تو اُس نے جواب دیاکیونکہ پیغمبر نے فرمایا:

<ستفترق اُمتی الی ثلاثةو سبعین فرقة کلها فی النار الّا واحدة هی الناجیة >( ۶ )

”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گئی،سوائے ایک فرقہ کے سب کا ٹھکانہ جھنم ہے وہی ایک فرقہ ، فرقہ نا جیہ(نجات پانے والا ہے)( ۷ )

پھراس نے کہا ہم ہی وہ فرقہ ناجیہ( نجات پانے والا) ہیں ۔

میں نے اس سے کہا : میں کہتا ہوں وہ فرقہ ناجیہ ہم ہیں ۔ہر فرقہ اورہر گروہ کا یہی دعوی ہے کہ نجات پانے والے گروہ کا تعلق اس سے ہے۔صوفیت، وہابیت،قادیانیت،اہل سنت،اور شیعہ میں ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ فرقہ ناجیہ ہم ہیں لہٰذا یہ کوئی مسئلہ کا حل نہیں ۔جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے:

”کل یدعی وصلاََ بلیلیٰ ولیلیٰ لا تقر لهم بذاکا

”ہرایک کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کی لیلیٰ تک رسائی ہے،درحالانکہ لیلیٰ نے کسی مدعی کے لیے اس بات کا اعتراف نہیں کیا کہ میں اس کی ہوں “

جب آپ ےہ جاننا چاہتے ہیں کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیں تو ضروری ہے کہ اُس قرآن کی طرف رجوع کیا جائے جو ہمارے دین کی اصل ہے،اُس وقت یہ اللہ کی کتاب ہماری اس بات کی طرف رہنمائی کرےگی کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون لوگ ہیں اُس شخص نے پوچھا وہ کےسے؟میں نے کہا قرآن کا یہ ارشاد ہے :

( فاِن تنازعتم فی شیءِ فردوه الی الله والرسول اِن کنتم تومنون بالله والیوم الآخرذلک خیر و احسن تاویلا ) ( ۸ )

ٓٓٓ ”اَگرتم کسی بات پر جھگڑا کروپس اگرتم خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس امر میں خدا اور اُ س کے رسول کی طرف رجوع کرو پس (تمہارے حق میں )بہتر ہے اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے“

اس آیت کریمہ میں ہمیں خدا اور رسول کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے،اس بنا پر ہم خدا وند عالم سے ہی اس چیز کی وضاحت چاہیں گے کہ فرقہ ناجیہ سے مراد کون سا فرقہ ہے؟تو اس وقت ہمیں خدا کی مقدس وغالب کتاب سے یہ جواب ملے گا

( مااٴتاکم الرسول فخذوه وما نهاکم عنه فانتهوا ) ( ۹ )

”جو تم کو رسو ل دیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اُس سے باز رہو“

اس آےت میں خدا ئے تعالیٰ نے رسول اکرم کیطرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ آپ ہی الہٰی بیان کے رسمی اور قانونی نمائندے ہیں ۔اسی وجہ سے آپ وحی خدا کے بغیر اَپنی زبان کو جنبش نہیں دیتے تھا اوراللہ کا ارشاد ہے:

( وما ینطق عن الهویٰ اِن هو الّا وحی یوحی ) ( ۱۰ )

” اَور وہ تو اَپنی خواہشات نفسانی سے کچھ بولتے ہی نہیں وہ تو بس وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے“۔

تو بس اب ہم پیغمبر اکرم کی خدمت اقدس میں دست بستہ یہ عرض کریں گے کہ اے اللہ کے رسول !خدا وند عالم نے ہمیں آپ سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے کہ آ پ ہمارے لئے یہ معین اور واضح فرما دےں کہ نجات پانے والا فرقہ کون سا ہے؟

اس سوال کے جواب میں پیغمبر اپنے متعدد واضح اور روشن فرامین کے ذریعہ ہمارے لئے فرقہ ناجیہ کا تعین فرماتے ہیں ، جیسا کہ آپ کا فرمان ہے:

(حدیث اول)

<مثل اهل بیتی فیکم کمثل سفینة نوح من رکبها نجا و من تخلّف عنها غرق وهوٰی >( ۱۱ )

”تمہارے درمیان میرے اہل بیت (ع) کی مثال حضرت نوح(ع) کی کشتی کے مانند ہے،جو اس پر سوار ہو گیا نجات پا گیا ،اور جس نے اس کشتی پر سوار ہونے سے رو گردانی کی وہ غرق و ہلاک ہو گیا “

پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث مبارک سے درجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:

۱ ۔ فرقہ ناجیہ کا تعلق صرف اہلبیت(ع) کے مذہب کے ساتھ ہے۔کیونکہ پیغمبر نے فرمایا:”من رکبھا نجا“جو اس کشتی اہل بےت (ع) پر سوار ہوگا وہ نجات پا ئے گا ۔لہٰذا نجات کا دارو مداراہلبیت(ع) کی اتباع وپیروی پر ہے۔

۲ ۔ اہلبی(ع)ت کے مذہب سے اختلاف ہونے کی صورت میں بھی اہلبیت (ع)کے علاوہ کسی دوسرے کی اتباع و پیروی کرنا جائز نہیں ،کیونکہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:”ومن تخلّف عنھا غرق وھوٰی“جس نے اس کشتی نجات سے روگردانی کی اور سوار ہونے سے انکار کیا وہ ہلاک ہو گیا“

لہٰذا اختلاف کی صورت میں بھی کسی طرح ان ہستیوں کے علاوہ کسی سے تمسک کرنا جائز نہیں ہے۔اس بنا پر اگر حنفی،شافعی،مالکی،اور حنبلی کا مذہب اہلبیت (ع) کے ساتھ احتلاف ہو جانے کی صورت میں کسی بھی طرح ایک ایسا مسلمان جوخود کوقرآن و سنت رسولکا پیرو کہتاہے اسکے لئے پیغمبر کے اس واضح و روشن فرمان کہ جس کی حقانیت میں اصلاََ کسی کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے، مخالفت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ رسول نے اہلبیت(ع) سے تخلّف و دوری کو ”غرق و ھوٰی “ (غرق وہلاکت ) سے تعبیر فرمایا ہے۔

(دوسری حدیث)

پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا:

<النجوم اَمان لاهل الارض من الغرق واهل بیتی اَمان من الاختلاف فی الدین فاذا خالفتها قبیلة من العرب اختلفوا فصاروا من حزب ابلیس >( ۱۲ )

”(آسمان ) کے ستارے اہل زمین کے لئے ،تباہی وہلاکت سے امان کا سبب ہیں اَور میرے اہلبیت(ع) ان کے لئے دین میں اختلاف سے امان کا سبب ہیں پس جب کوئی عرب کا قبیلہ ان اھلبیت (ع) کی مخالفت کرے گا تو وہ پراگندگی کا شکار ہو کرشیطان کے گروہ کا حصہ بن جائے گا“۔

رسول اعظم کے اس پاک کلام سے درجہ ذیل نکات کا استفادہ ہوتا ہے۔

۱ ۔ اہل بیت(ع) کے قول وگفتار پر عمل اُمت کے درمیان اختلاف سے امان کاسبب ہے۔جب سب لوگ پیغمبر کے اس فرمان”اہل بیتی امان من الاختلاف“ پر عمل پیرا ہو جائیں تویہ وحدت اور اتحاد بین المسلمین کا سبب ہو گا۔

۲ ۔ مذہب اہل بیت (ع) سے دوری اور انکی مخالفت مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اور اختلاف کا سبب ہے کیونکہ پیغمبر اکرم نے خود اس کی طرف ان الفاظ میں ”فاذا خالفتهاقبیلة من العرب اختلفوا “ (جب عرب کا کوئی قبیلہ اہلبیت(ع) رسول کی مخالفت کرے گا وہ پراگندگی واختلاف کا شکار ہو جائے گا) ،ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔

۳ ۔ مذہب اہلبیت(ع) کی مخالفت اور انسے دوری خدا اُور اس کے رسول سے دوری کاسبب ہے ۔ جو شخص خدا اُور اس کے رسول سے دور ہو جائے تو وہ شیطان کا قرین اورساتھی ہے،جیسا کہ خود رسول اکرم نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”فصارو من حزب ابلیس“(اختلاف کی صورت)میں شیطان کے گروہ میں شامل ہو جائے گا“۔

(حدیث سوم)

پیغمبر اکرم (ص) کا فرمان ذیشان ہے۔

<انی مُخلف اَو تارک فیکم الثقلین ،کتاب الله وعترتی اهل بیتی مااِن تمسکتم بهما لن تضلّو بعدی اَبداََ >

”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، اللہ کی کتاب اورمیری عترت جو میرے اہل بیت(ع) ہیں اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔“

کتاب مسند احمد بن حنبل میں یہی حدیث درجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔

<عن ابی السعید الخدری قال:قال رسول الله صلّی الله علیه وآله انی قدترکت فیکم الثقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا بعدی:احدهما اکبر من الآخر، کتاب الله حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی الّا انهما لن یفترقا حتیٰ یردا علیَّ الحوض >( ۱۳ )

(ترجمہ)”حضرت ابو سعید خدری سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں،اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو میرے بعدکبھی گمراہ نہیں ہو گے، ان میں سے ایک دوسرے سے افضل وبرتر ہے،( ایک)اللہ کی کتاب جو اللہ کی رسی ہے اور آسمان سے لیکر زمین تک کھینچی ہوئی ہے (دوسرے)میرے اہل بیت علیہم السلام، یہ دونوں اس وقت تک جدا نہیں ہو ں گے جب تک حوض کوثر پر میرے پاس نہ پہنچ جائیں“۔( ۱۴ )

اس حدیث سے مندرجہ ذیل امور کا استفادہ ہوتا ہے:

۱ ۔ قرآن اور اہلبیت(ع) سے تمسک کی صورت میں گمراہی و ضلالت سے نجات کی ضمانت موجود ہے جیساکہ پیغمبر نے فرمایا: ”ماان تمسکتم بهما لن تضلّوا بعدی ابدا( ۱۵ )

”جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے ہر گز تم میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے“

۲ ۔ قرآن اور اہل بیت (ع) کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اوریہی تعلق اور پیوند ضلالت وگمراہی سے نجات کاذریعہ ہے۔لہٰذا کوئی بھی رسول خدا کے اس قول کی روشنی میں ان دونوں کے درمیان تفرقہ وجدائی نہیں ڈال سکتا:

اَنهمالن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض “ یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں۔

رسول اکرم کی حدیث کے اسی جملہ کو حضرت مہدی(ع) کے وجود اقدس پر دلیل کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اس زمانے میں قرآن کے قرین ا ہلبیت(ع) میں سے حضرت قائم آل محمد(ع) ہیں ،مثلاََ اسی چیز کو پیغمبر اکرم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:

و انهما لن یفترقاحتی یردا علیَّ الحوض “یہ قرآن و اہلبیت(ع) آپس میں کبھی جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے حاضر ہوں گے۔

۳ ۔ رسول کا یہ جملہ”انی مخلف فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی“کہ میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں،ایک قرآن اور دوسرے میری عتر ت جو میرے اہلبیت ہیں “رسول کی زبان سے یہ کلام کسی قلبی میلان یادلی خواہش کی بنا پر جاری نہیں ہوا،کیونکہ آپ تو وحی کے بغیرکلام ہی نہیں کرتے تھے۔( وما ینطق عن الهویٰ ان هو الّا وحی یوحیٰ ) ( ۱۶ )

” اَور وہ تو اَپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ وہی بولتے ہیں جو ان کی طرف وحی ہوتی ہے“

۴ ۔ پیغمبر اکرم کی نظر میں اہل بیت علیھم السلام کے علاوہ قرآ ن کا قرین اور محافظ کوئی اور نہیں تھا ۔اگر کوئی اور ہوتا تو آپ ضرور اُ س کا ہم سے تعارف کراتے۔

۵ ۔ نبی اکرم نے فرقہ ناجیہ کی وضاحت کے سلسلہ میں فقط ا نہیں احادیث پر اکتفا نہیں فرمایا،بلکہ مختلف مقامات پر متعدد احادیث میں نجات پانے والے فرقہ کے متعلق صاف طور پر تاکیدفرمائی ہے۔ جیسا کہ کنز العمال میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر نے فرمایا :

”جب لوگ اختلاف اور تشطّط(تفرقہ) کا شکار ہو جائیںتو ایسی حالت میں یہ(علی) اور ان کے اصحاب حق پر ہو ں گے۔( ۱۷ )

۶ ۔ صاحب کنز العمال نے پیغمبر اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے بعد فتنہ وفساد برپا ہو گا،جب ایسا ہو توعلی ابن ابی طالب سے متمسک رہناکیونکہ وہ حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں ۔( ۱۸ )

۷ ۔ کنز العمال میں یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اے عمار!اَگرتم یہ دیکھوکہ علی(ع) کا راستہ، لوگوں کے راستے سے جدا ہے تو علی(ع) کی پیروی کرتے ہوئے اُن ہی کا راستہ اختیار کرنا اور لوگوں کو چھوڑ دینا،کیونکہ علی کبھی بھی تمہیں گمراہ نہیں کریں گے اور ہدایت سے دور نہیں ہونے دیں گے“۔( ۱۹ )

اس کے علاوہ بھی پیغمبرسے متعدد احادیث منقول ہیں جو فرقہ ناجیہ کی تشخیص و تعیین کی طرف رہنمائی کرتی ہیں ۔

پھر میں نے اس معترض شخص کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ اگرتم نجات پانے والے فرقہ کے راستہ پر گامزن ہونا چاہتے ہو توتجھے اس سلسلہ میں قرآن اور سنت رسول کی پیروی کرناچاہیے،اگر تو نے قرآن و سنت کے مطابق عمل کیا تو نجات کا راستہ اختیارکر لیا ہے ورنہ تیرا شمار اُن افراد میں ہو گا جن کو خداوندعالم نے اس عنوان سے تعبیر فرمایا ہے:

( واذاقیل لهم تعالو الی ما انزل الله و الی الرسول راٴیتَ المنافقین یصدون عنک صدوداََ ) ( ۲۰ )

ترجمہ”اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ کتاب خدا (وہ کتاب جو اللہ نے نازل کی ہے) اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو تو تم منافقین کی طرف دیکھتے ہو کہ جو تم سے منہ پھیرے بیٹھے ہیں “