• ابتداء
  • پچھلا
  • 6 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4298 / ڈاؤنلوڈ: 2947
سائز سائز سائز
ابدی زندگی اور اخروی زندگی

ابدی زندگی اور اخروی زندگی

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

كتاب:ابدی زندگی اور اخروی زندگی

مؤلف:آیۃ اللہ شهید مرتضيٰ مطہرى

معاد

اسلامی تصور کائنات کے اصولوں میں سے ایک اصول جو دین اسلام کے ایمانی و اعتقادی ارکان میں سے ایک رکن بھی ہے‘ جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان ہے۔ عالم آخرت پر ایمان مسلمان کی شرط ہے‘ جو شخص اس ایمان سے محروم ہو جائے یا اس کا انکار کر دے‘ تو وہ مسلمانوں کی صف سے خارج ہے۔

اصول توحید کے بعد جس اہم ترین اصول کی طرف اللہ کے نبیوں نے (بلااستثناء) متوجہ کیا ہے اور اس پر ایمان لانے کا کہا ہے‘ یہی اصول ہے‘ جو مسلمان متکلمین کے نزدیک "اصول معاد" کے نام سے مشہور ہے۔

قرآن کریم میں سینکڑوں آیات ایسی ہیں‘ جن میں کسی نہ کسی طرح سے موت کے بعد والے عالم اور روز قیامت‘ حشر و نشر کی کیفیت‘ میزان‘ حساب‘ ضبط اعمال‘ بہشت‘ جہنم اخروی‘ حیات کی جاودانی اور بعد از موت کے باقی مسائل کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔

لیکن ۱۲ آیات میں صراحتاً خدا پر ایمان لانے کے بعد روز قیامت پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے۔

قیامت کے بارے میں قرآن میں مختلف عبارتیں ہیں اور ہر عبارت معرفت کا ایک باب ہے۔ ایک عبارت "الیوم الاخر" ہے‘ اس عبارت سے قرآن ہمیں دو نکات کی یاددہانی کرا رہا ہے:

(الف) اول یہ کہ حیات انسان بلکہ دنیا کی زندگی دو ادوار میں تقسیم ہوتی ہے‘ ہر دور کو ایک روز کہا جا سکتا ہے۔ ایک وہ دن اور دور ہے‘ جو اول اور ابتداء ہے۔ جس نے ختم ہو جانا ہے‘ یعنی دنیا کا دور‘ دوسرا وہ دن اور دور ہے‘ جو آخر ہے‘ جس کی کوئی انتہا نہیں یعنی آخرت کا دور۔

(ب) دوم یہ کہ چونکہ اس وقت ہم حیات کے پہلے دور کو طے کر رہے ہیں اور دوسرے دور اور دوسرے دن تک نہیں پہنچے اور وہ ہم سے پوشیدہ ہے‘ لہٰذا اس دن اور اس دن میں ہماری سعادت و خوش بختی اسی میں ہے کہ آج ہم اس آنے والے دن پر ایمان لے آئیں۔

اس دور اور اس دن میں ہماری سعادت اس لئے ایمان پر منحصر ہے کہ ایمان ہمیں اعمال کے نتیجے کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے خیالات‘ اعمال‘ اقوال‘ رفتار و کردار‘ اخلاق اور عادات بلکہ تمام صفات کا اور خود ہمارا بھی ایک روز اول ہے اور ایک روز آخر‘ ایسا نہیں کہ روز اول میں یہ سب ختم ہو جائیں اور معدم ہوں‘ بلکہ باقی رہیں گے اور روز آخر میں ان کا حساب ہو گا۔

لہٰذا ہمیں اپنے آپ اور اپنے اعمال اور نیتوں کو نیک کرنا چاہئے اور برے کاموں اور غلط خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس طرح ہمیشہ ہمیں نیکی‘ نیک خوئی و نیک چال چلن کی راہوں پر گامزن رہنا چاہئے۔

ہماری سعادت روز آخر میں اس لئے ایمان پر منحصر ہے کہ عالم آخر میں انسان کی نیک اور سعادت مند زندگی یا بری اور شقاوت آلود زندگی کا باعث اس دنیا میں اس کے انجام دیئے ہوئے اعمال اور کردار ہیں۔

اسی لئے قرآن کریم روز آخر یا آخرت پر ایمان کو سعادت بشر کے لئے لازم و حتمی قرار دیتا ہے۔

حیات اخروی پر ایمان کی بنیاد

جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان کا مآخذ دوسری ہر چیز سے پہلے اللہ کی طرف سے وحی ہے جو انبیاء کے توسط سے انسان تک پہنچی ہے۔ جب انسان نے معرفت خدا کے بعد پیغمبران خدا کی سچائی کا یقین کر لیا اور یہ جان لیا کہ پیغمبر جو کچھ قطعی کے طور پر کہتے ہیں‘ وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے‘ اس کا خلاف واقع ہونا ممکن نہیں‘ تو وہ قیامت اور اخروی جاوداں حیات پر ایمان لے آتا ہے‘ کیونکہ تمام انبیاء و رسل کے نزدیک اس پر ایمان لانا توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین اصول ہے‘ لہٰذا حیات اخروی پر ہر فرد کے ایمان کے درجہ کا تعلق ایک طرف تو اس بات سے ہے کہ اس کا ایمان نبوت کے اصول پر کس قدر ہے اور وہ کس قدر نبی کی سچائی اور صدق گفتار کا قائل ہے۔ دوسری طرف اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ اس کی معرفت کی سطح کس قدر بلند ہے۔ معاد اور آخرت کے متعلق اس کا تصور کس قدر صحیح‘ معقول اور عقل کے نزدیک پسندیدہ ہے اور کہیں جاہلانہ تصورات اور عامیانہ خیالات نے اسے متاثر تو نہیں کیا؟ البتہ وحی الٰہی کے علاوہ بھی جس کی خبر انسان کو انبیاء کے ذریعے سے ہوئی ہے‘ کچھ راہیں قرائن اور علامات کی ہیں‘ جن کی وجہ سے معاد کے وجود کا اعتقاد اور اس پر ایمان پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ راہیں اور قرائن انسان کی فکری‘ عقلی اور عملی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور ان راہوں اور قرائن کو کم از کم انبیاءکے فرامین کا موید قرار دیا جا سکتا ہے‘ جو یہ ہیں:

۱ ۔ خدا شناسی کا طریقہ

۲ ۔ انسانی روح اور نفس کی شناخت کا راستہ

فی الحال ہم ان قرائن سے معترض نہیں ہونا چاہتے کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ کچھ خاص قسم کی علمی و فلسفی بحثیں سامنے آئیں گی‘ لہٰذا ہم صرف وحی اور نبوت کے ذریعے معاد کے بارے میں گفتگو کریں گے‘ لیکن چونکہ خود قرآن میں ان راہوں کے بارے میں صراحت یا اشارے پائے جاتے ہیں‘ لہٰذا ہم ان کا ذکر بعد میں "اخروی دنیا کے متعلق قرآن کا استدلال" کے عنوان کے تحت کریں گے۔ وہ مسائل جن کے بارے میں بحث ضروری ہے تاکہ معاد اور جاوداں زندگی کا مسئلہ اسلامی نقطہ گاہ سے واضح ہو جائے‘ درج ذیل ہیں:

موت کی ماہیت

موت کے بعد کی زندگی

عالم برزخ

قیامت کبریٰ

دنیوی زندگی کا اخروی زندگی سے رابطہ

انسانی اعمال کا مجسم اور جاوداں ہونا

دنیوی زندگی اور اخروی زندگی میں مشترکہ اور مختلفہ امور

اخروی دنیا کے متعلق قرآنی استدلات

عدلِ الٰہی

حکمتِ الٰہی

موت کی ماہیت

موت کیا ہے؟ کیا موت نیستی‘ نابودی‘ فنا اور انہدام کا نام ہے یا تحول و تغیر اور ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال اور ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقلی کو موت کہتے ہیں؟

یہ سوال شروع سے بشر کے سامنے تھا اور ہے‘ ہر شخص اس کا براہ راست جواب جاننا چاہتا ہے یا دیئے گئے جوابات پر ایمان اور اعتقاد پیدا کرنا چاہتا ہے۔

ہم مسلمان قرآن پر ایمان اور اعتقاد رکھتے ہیں‘ اس لئے اس سوال کا جواب بھی قرآن ہی سے حاصل کرتے ہیں اور جو کچھ اس نے اس بارے میں کہا ہے‘ اس پر ایمان رکھتے ہیں۔

قرآن کریم نے موت کی ماہیت سے متعلق ایک خاص عبارت میں خصوصی جواب دیا ہے۔

قرآن کریم نے موت کے بارے میں لفظ توفیٰ استعمال کیا ہے اور موت کو "توفیٰ" قرار دیا ہے۔

توفیٰ اور استیفاء دونوں کا مادہ "وفاء" ہے۔

جب کوئی کسی چیز کو پورا پورا اور کامل طور پر بغیر کم و کاست کے حاصل کر لے‘ تو عربی میں اس کے لئے لفظ توفیٰ استعمال کیا جاتا ہے۔

عربی میں "توفیت المال" کا مطلب ہے کہ میں نے تمام مال بغیر کمی بیشی کے پا لیا۔

قرآن کریم کی چودہ آیات میں موت کے لئے لفظ توفیٰ استعمال ہوا ہے‘ ان تمام آیات سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ موت قرآن کی نظر میں قبضے میں لینا ہے‘ یعنی انسان موت کے وقت اپنی تمام شخصیت اور حقیقت سمیت اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتوں کی تحویل میں چلا جاتا ہے اور وہ انسان کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔

قرآن کے اس بیان سے ذیل کے مطالب اخذ ہوتے ہیں:

(الف) مرگ‘ نیستی‘ نابودی اور فنا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے اور ایک زندگی سے دوسری زندگی کی طرف منتقلی ہے‘ جس سے حیات انسانی ایک اور شکل میں جاری رہتی ہے۔

(ب) وہ چیز جو انسان کی حقیقی شخصیت کو تشکیل دیتی ہے اور اس کی حقیقی "میں" (خودی) شمار ہوتی ہے‘ وہ بدن اور اس کے مختلف حصے وغیرہ نہیں کیونکہ بدن اور اس کے اعضاء کسی اور جگہ منتقل نہیں ہوتے بلکہ رفتہ رفتہ اسی دنیا میں گل سڑ جاتے ہیں۔ جو چیز ہماری حقیقی شخصیت کو بناتی ہے اور ہماری حقیقی "میں" سمجھی جاتی ہے‘ وہی ہے جسے قرآن میں کبھی نفس اور کبھی روح سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(ج) روح یا نفس انسانی جسے انسان کی شخصیت کا حقیقی معیار قرار دیا گیا ہے اور جس کی جاودانی ہی سے انسان جاوداں ہے۔ مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مادہ اور مادیات کے افق سے بہت بالا ہے۔ روح یا نفس اگرچہ طبیعت کے کمال جوہری کا ماحصل ہے‘ لیکن چونکہ طبیعت‘ جوہری تکامل کے نتیجے میں روح یا نفس میں تبدیل ہوتی ہے‘ لہٰذا اس کا مرتبہ اور حقیقی مقام تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ ایک اعلیٰ سطح پر قرار پاتی ہے‘ یعنی اس کی جنس کو ماوراء طبیعت عالم سے شمار کیا جاتا ہے‘ موت کی وجہ سے روح یا نفس عالم مادی سے عالم روح کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں موت کے وقت اس ماوراء مادہ حقیقت کو واپس اپنی تحویل میں لے لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کی بعض ایسی آیتیں جن میں انسانی خلقت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور وہ معاد اور اخروی زندگی سے متعلق نہیں‘ اس چیز کی نشاندہی کی ہے کہ انسان میں آب و گل کی جنس سے ماوراء ایک اور حقیقت موجود ہے۔ آدم اول کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( ونفخت فیه من روحی ) (سورئہ حجر‘ آیت ۲۹)

"ہم نے اپنی روح سے اس میں پھونکا۔"

روح‘ نفس اور موت کے بعد روح کی بقاء کا مسئلہ معارف اسلامی کے بنیادی مسائل سے ہے۔

ناقابل انکار معارف اسلامی کا تقریباً نصف حصہ‘ روح کی اصالت‘ بدن سے اس کا استقلال اور موت کے بعد روح کی بقاء پر ہے‘ جس طرح سے انسانیت اور حقیقی انسانی قدریں بھی اسی حقیقت پر استوار ہیں اور اس کے بغیر یہ سب چیزیں وہم محض ہی ہیں۔ تمام ایسی قرآنی آیات جو موت کے فوراً بعد زندگی پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں‘ سب اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن روح کو بدن سے مستقل اور فناء بدن کے بعد اسے باقی تصور کرتا ہے۔ ان میں سے بعض آیات کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔ بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ قرآن کی رو سے روح یا نفس کچھ بھی نہیں‘ انسان مرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے‘ یعنی موت کے بعد شعور‘ ادراک‘ خوشی و تکلیف نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی‘ البتہ جب قیامت کبریٰ کا وقوع ہو گا اور انسان کو نئی زندگی ملے گی‘ تب انسان اپنا اور دنیا کا شعور پائے گا۔

لیکن وہ آیات جو صراحتاً موت کے فوراً بعد کی زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ اس نظریے کے باطل ہونے پر قطعی دلیل ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ روح کے قائلین کی دلیل صرف "قل الروح من امر ربی" والی آیت ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں کئی جگہ لفظ روح استعمال ہوا ہے‘ اس سے مراد کچھ اور ہے۔ یہ آیت بھی اسی معنی پر دلالت کر رہی ہے۔

یہ لوگ نہیں جانتے کہ قائلین روح کی دلیل یہ آیت نہیں بلکہ تقریباً ۲۰ دوسری آیات ہیں‘ البتہ یہ آیت دوسری آیات کی مدد سے جن میں روح کا ذکر مطلق آیا ہے یا روح کے ساتھ اور کوئی قید جیسے "روحنا"، "روح القدس"، "روحی"، "روح من امرنا" وغیرہ‘ لیکن اسی طرح سے انسان کے بارے میں نازل شدہ آیات "ونفخت فیہ من روحی" بھی نشاندہی کر رہی ہے کہ قرآن کی نظر میں ایک حقیقت ایسی موجود ہے جو ملائکہ اور انسان سے اعلیٰ و ارفع ہے‘ جسے روح کہتے ہیں۔ ملائکہ اور انسان کی واقفیت امری یعنی روح اسی کے فیض اور اذن کا نتیجہ ہے۔

روح سے متعلق تمام آیات اور آیت "و نفخت فیہ من روحی" جو انسان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں‘ نشان دہی کر رہی ہیں کہ انسانی روح ایک غیر معمولی حقیقت ہے۔(تفسیرالمیزان‘ جلد ۱۳‘ ص ۱۹۵‘ آیت: وقل الروح من امر ربی اور جلد ۳‘ ص ۲۷۵‘ آیت: یوم یقوم الروح و الملائکة صفا کی تفسیر دیکھئے)

فقط قرآن ہی متعدد آیات میں اصالت روح پر دلالت نہیں کرتا بلکہ کتب حدیث‘ دعا اور نہج البلاغہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہم السلام نے بھی متواتراً اس بات کی تائید کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ روح کا انکار مغرب کا ایک متعفن اور کثیف خیال ہے‘ جس کا سرچشمہ ان کی مادیت اور محسوسات کی طرف میلان ہے۔

افسوس ہے کہ قرآن کریم کے بعض حسن نیت رکھنے والے پیروکاروں کو بھی یہ خیال دامن گیر ہو چکا ہے۔

اب ہم نمونہ کے طور پر ان چند آیات کا ذکر کریں گے‘ جن میں موت کو توفیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ ان میں سے بعض آیات میں بلافاصلہ موت کے بعد کچھ بنیادی اعمال کو انساں سے نسبت دی گئی ہے (جیسے مکالمہ‘ تمنا اور تقاضے) ان چار آیات میں سے تین کا ہم ذکر کریں گے‘ جن میں "توفیٰ" استعمال کیا گیا ہے:

( ۱)( ان الذین توفهم الملائکة ظالمی انفسهم قالوا فیم کنتم قالوا کنا مستضعفین فی الارض‘ قالو الم تکن ارض الله واسعة فتها جروا فیها فا اولئک ماوا هم جهنم وساء ت مصیراً ) (سورئہ نساء‘ آیت ۹۸)

"بیشک ان لوگوں کو جو اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے‘ فرشتوں (خدا کے بھیجے ہوئے مامورین) نے کامل طور پر اپنے قبضے میں لیا۔ فرشتوں نے ان سے پوچھا: یہ تم کس حال میں مبتلا تھے‘ وہ کہیں گے کہ ہم زبوں حال لوگ محیط اور معاشرے کے زیردست اور محکوم تھے‘ فرشتوں نے ان سے پوچھا: کیا خدا کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم اور ان کا انجام برا ہے۔"

یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جو کہ نامساعد حالات میں زندگی گذار رہے تھے۔ جب کہ کچھ لوگ ان حالات اور معاشرے کو اپنی مرضی سے چلا رہے تھے اور یہ کمزور لوگ اپنے محیط اور معاشرے کے محکوم تھے۔ اب اسی بات کو بطور عذر پیش کر رہے ہیں کہ حالات نامساعد تھے‘ معاشرہ فاسد تھا اور ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ یہ لوگ بجائے اس کے کہ اپنے معاشرے اور محیط کو تبدیل کریں اور اگر تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے‘ تو خود کو ایسے فاسد معاشرے کی دلدل سے بچانے کی کوشش کریں اور کسی بہتر اور اچھے محیط و معاشرہ میں چلے جائیں‘ جبکہ وہ اسی معاشرے میں رہے اور اپنے آپ کو اسی معاشرے کے حالات کے سپرد کر دیا اور معاشرے کی برائیوں میں غرق ہو گئے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ان کو اپنی تحویل میں لینے کے بعد ان سے گفتگو کر رہے ہیں اور ان کے عذر کو ناقابل قبول قرار دے رہے ہیں‘ کیونکہ انہوں نے کم از کم وہ کام بھی انجام نہ دیا‘ جو ان کے بس میں تھا‘ یعنی کسی بہتر معاشرے کی طرف ہجرت نہیں کی‘ فرشتے انہیں سمجھا رہے ہیں کہ جو ظلم تم پر ہوا اس کے ذمہ دار خود تمہی ہو‘ یعنی اپنے گناہوں کے مسئول تم خود ہو۔

قرآن کریم اس آیت میں ہمیں یاد دلا رہا ہے کہ (کسی معاشرے میں) بیچارگی اور ناتوانی قابل قبول عذر نہیں بن سکتی‘ مگر یہ کہ ہجرت اور کسی اور علاقے میں چلے جانے کے دروازے بھی بند ہوں‘ جیسا کہ نظر آ رہا ہے‘ اس آیت کریمہ میں موت کو کہ جو ظاہر میں نیستی‘ نابودی اور ختم ہونا ہے۔

توفیٰ یعنی تحویل میں لینے اور مکمل طور پر پا لینے سے تعبیر کیا گیا ہے اور نہ صرف یہ تعبیر بلکہ باقاعدہ طور پر موت کے فرشتوں اور انسان کے درمیان مکالمہ‘ گفتگو اور احتجاج کے بارے میں بات ہو رہی ہے۔ واضح ہے کہ اگر انسان کی حقیقت باقی نہ ہو اور انسان کی تمام تر حقیقت لاشہ بے حس و شعور سے عبارت ہو‘ تو مکالمہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

یہ آیت ہمیں سمجھا رہی ہے کہ انسان جب اس جہان اور اس عالم سے چلا جاتا ہے‘ تو ایک اور طرح کی آنکھ‘ کان اور زبان کے ذریعے سے ایک نامرئی مخلوق یعنی فرشتوں سے گفت و شنید کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔

( ۲)( وقالوا اذا ضللنا فی الارض ائنالفی خلق جدید بل هم بلقاء ربهم کافرون‘ قل یتوفا کم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم ترجعون ) (سورئہ سجدہ‘ آیت ۱۱)

"انہوں نے کہا کہ جب ہم مٹی میں مل چکے ہوں گے‘ تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کئے جائیں گے؟ (یہ باتیں بہانہ ہیں) حقیقت یہ ہے یہ (ازروئے عناد) اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔ کہہ دو موت کا وہ فرشتہ جو تم پر مقرر کیا گیا ہے‘ تم کو پورے کا پورا اپنے قبضے میں لے لے گا‘ پھر تم اپنے رب کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے۔"

اس آیت میں قرآن کریم‘ معاد اور حیات اخروی کے منکرین کے ایک اعتراض اور اشکال کو ذکر کر کے اس کا جواب دے رہا ہے۔

اشکال یہ ہے کہ "موت کے بعد ہمارا ہر ذرہ نابود ہو گا اور ہمارا کوئی نشان باقی نہیں رہے گا" تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نئے سرے سے پیدا کئے جائیں۔

قرآن ان اعتراضات کو از روئے عناد اور انکار‘ بہانہ بازی قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارے مدعا کے برعکس تمہاری حقیقت اور واقعیت وہ نہیں‘ جسے تم سمجھتے ہو کہ مٹ جاتا ہے‘ بلکہ تم تو اپنی تمام تر حقیقت اور واقعیت کے ساتھ اللہ کے فرشتے کی تحویل میں چلے جاتے ہو۔

معترضین کے "فنا اور نابود" ہونے سے مراد یہ ہے کہ ہمارے بدن کا ہر ذرہ اس طرح بکھر جاتا ہے کہ اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا‘ پھر ایسے بدن کو دوبارہ کیسے زندہ کیا جا سکتا ہے؟

عیناً یہی اعتراض یعنی اجزائے بدن کا متفرق اور گم ہو جانا قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی مذکور ہے اور اس کا دوسرا جواب بھی دیا گیا ہے‘ وہ یہ کہ اس طرح کا گم ہونا آپ کی نظر میں گم ہونا ہے‘ بشر کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ان ذرات کو جمع کر لے‘ مگر خدا کے لئے مشکل نہیں‘ جس کا علم قدرت لامتناہی ہے۔

مذکورہ آیات میں منکرین کی گفتگو براہ راست اجزائے بدن کے بارے میں ہے کہ کیسے اور کہاں سے جمع ہو سکیں گے؟ لیکن یہاں اور جواب دیا ہے کیونکہ یہاں سوال صرف یہ نہیں کہ اجزائے بدن نابود ہوں گے اور ان کا کوئی نام و نشان نہیں ملے گا‘ بلکہ یہ بھی ہے کہ اجزائے بدن کے گم ہو جانے سے "ہم" گم ہو جائیں گے اور پھر "میں" اور "ہم" کا وجود کہیں نہیں رہے گا۔ دوسرے لفظوں میں معترضین کا اشکال یہ ہے کہ اجزائے بدن کے نابود ہونے سے ہماری حقیقت واقعیہ معدوم ہو جائے گی۔

قرآن جواب میں یوں فرما رہا ہے "تمہارے گمان کے برخلاف" تمہاری حقیقی اور واقعی شخصیت کبھی گم ہی نہیں ہوتی‘ جو تلاش کی ضرورت پڑے‘ وہ تو پہلے ہی سے اللہ کے فرشتوں کے قبضے میں ہوتی ہے۔

اس آیت میں بھی کمال صراحت کے ساتھ انسان کے اجزائے بدن کے فنا ہونے کے باوجود اس کی حقیقت واقعیہ یعنی روح کی موت کے بعد بقاء کا تذکرہ ہے۔

( ۳)( الله یتوفی الانفس حین موتها والتی لم تمت فی منا مها فیمسک التی قضیٰ علیها الموت و یرسل الاخری الیٰ اجل مسمیٰ ان فی ذالک لآیات لقوم یتفکرون )

(سورئہ زمر‘ آیت ۴۲)

"خداوند عالم نفسوں کو موت کے وقت اور جو ابھی نہیں مرا‘ اسے نیند کے موقع پر مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیتا ہے‘ پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے‘ اسے روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک معین وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ اس میں فکر کرنے والی قوم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔"

یہ آیت نیند اور موت میں مشابہت کو بیان کر رہی ہے۔ ضمنی طور پر بیداری اور اخروی حیات میں مشابہت کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔

نیند‘ خفیف اور چھوٹی موت ہے اور موت‘ شدید اور بڑی موت ہے‘ دونوں مراحل میں انسانی روح اور نفس کا ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف انتقال ہے۔

اس فرق کے ساتھ کہ نیند کی حالت میں انسان غالباً غفلت میں ہوتا ہے اور بیداری کے بعد اسے نہیں معلوم ہوتا کہ حقیقتاً وہ ایک سفر سے لوٹا ہے‘ موت کی حالت کے برعکس کہ جس میں ہر چیز اس پر واضح ہوتی ہے۔

تینوں آیات میں سے کاملاً سمجھا جا سکتا ہے کہ موت کی حقیقت قرآن کی رو سے نیستی‘ نابودی اور فنا ہونا نہیں بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف انتقال ہے۔ ضمنی طور پر نیند کی ماہیت اور حقیقت بھی قرآنی نکتہ نگاہ سے واضح ہو گئی ہے کہ نیند اگرچہ جسمی و ظاہری لحاظ سے طبیعت کی قوتوں کی تعطیل کا نام ہے‘ لیکن روحانی اور نفس کے لحاظ سے باطن و ملکوت کی طرف ایک طرح کا رجوع اور گریز ہے۔

سائنس کی نظر میں نیند کا مسئلہ بھی موت کے مسئلہ کی طرح مجہول الحقیقت ہے‘ اس سلسلے میں سائنس صرف یہ کہتی ہے کہ نیند جسمانی انفعالات کا نام ہے‘ جو بدن کے قلمرو میں متشکل ہوتے ہیں۔

موت کے بعد کی زندگی

کیا انسان موت کے بعد ایک دم عالم قیامت میں داخل ہو گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا یا موت اور قیامت کے مابین ایک خاص عالم کو طے کرے گا اور جب قیامت کبریٰ برپا ہو گی‘ تو عالم قیامت میں داخل ہو گا؟

اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ قیامت کبریٰ کب برپا ہو گی؟ انبیاء اور رسل نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

قرآن کریم کے نصوص‘ حضرت رسول اعظم اور آئمہ اطہار علیہم السلام سے منقول متواتر اور ناقابل انکار احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی موت کے فوراً بعد قیامت کبریٰ میں داخل نہیں ہو گا‘ کیونکہ قیامت کبریٰ تمام ذہنی‘ زمینی اور آسمانی موجودات جیسے پہاڑ‘ دریا‘ چاند‘ سورج‘ ستارے اور کہکشاں میں ایک کلی انقلاب اور مکمل تبدیلی کے ہمراہ ہو گی‘ یعنی قیامت کبریٰ کے موقع پر کوئی چیز بھی اپنی موجودہ حالت پر برقرار نہیں رہے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے‘ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابھی نظام عالم برقرار ہے اور شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں سال قائم رہے اور اربوں انسان ایک دوسرے کے بعد اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی رو سے (جیسے بعض آیات سے معلوم ہوا‘ جن کا ذکر بعد میں ہو گا) کوئی بھی شخص ایسا نہیں‘ جس کی عمر قیامت کبریٰ اور موت کے درمیانی فاصلے میں سکوت اور بے حسی میں گذر جائے۔ یعنی ایسا نہیں کہ مرنے کے بعد انسان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہو‘ کسی چیز کو محسوس کرے اور نہ لذت ہو نہ الم نہ اسے سرور حاصل ہو سکے‘ نہ ہی غم و اندوہ بلکہ مرنے کے بعد انسان فوراً حیات کے ایسے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے اور کچھ سے تکلیف‘ البتہ اس لذت و الم کا ربط اس کے دنیوی افکار‘ اعمال اور اخلاق سے ہے۔ قیامت کبریٰ تک یہ مرحلہ جاری رہتا ہے‘ لیکن جب آن واحد میں ایک کلی انقلاب اور تبدیلی تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور دور ترین ستاروں سے لے کر ہماری زمین تک ہر چیز اس انقلاب اور تبدیلی کی زد میں ہو گی‘ تب یہ مرحلہ یا یہ عالم جو سب کے لئے دنیا و قیامت کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا‘ اختتام پذیر ہو گا‘ لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں موت کے بعد کے عالم میں دو مرحلے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں مرنے کے بعد انسان دو مراحل طے کرے گا۔

ایک عالم برزخ جو عالم دنیا کی طرح ختم ہو جائے گا اور دوسرا عالم قیامت کبریٰ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔

اب ہم برزخ اور عالم قیامت کے بارے میں مختصر سی گفتگو کریں گے۔

عالم برزخ

اگر دو چیزوں کے درمیان کوئی چیز حائل ہو جائے‘ تو اسے برزخ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے موت اور قیامت کے درمیان کی زندگی کو عالم برزخ سے تعبیر کیا ہے۔

حتی اذا جاء احدهم الموت قال رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فی ماترکت کلا انها کلمة هو قآئلها و من و رائهم برزخ الی یوم یبعثون

(سورئہ مومنون‘ آیت ۱۰۰)

"جب ان میں سے کسی ایک کے پاس موت آئے گی‘ تو وہ عرض کرے گا بار الہا! مجھے پلٹا دے تاکہ جو اعمال صالح ترک کئے ہیں‘ ان کو بجا لاؤں ہرگز نہیں یہ تو وہ زبانی گفتگو ہے‘ جس کا قائل وہ ہے اور اس کے پیچھے برزخ اور فاصلہ ہے‘ اس دن تک جب یہ اٹھائے جائیں گے۔"

قرآن کریم میں یہی ایک آیت ہے‘ جس میں موت اور قیامت کے درمیانی فاصلہ کو برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے‘ اسی آیت سے استفادہ کرتے ہوئے علماء اسلام نے دنیا اور قیامت کبریٰ کے درمیانی عالم کا نام برزخ رکھا ہے۔ اس آیت میں موت کے بعد زندگی کے دوام کا ذکر بس اتنا ہی ہے کہ کچھ انسان مرنے کے بعد اظہار پشیمانی کرتے ہوئے درخواست کریں گے کہ ایک دفعہ دنیا میں پھر لوٹائے جائیں‘ لیکن انکار کر دیا جائے گا۔

یہ آیت صراحتاً بتا رہی ہے کہ موت کے بعد انسان کی ایک خاص قسم کی زندگی ہوتی ہے‘ جس میں رہتے ہوئے وہ واپسی کی خواہش کرتا ہے‘ لیکن اسے رد کر دیا جاتا ہے۔

قرآن کریم میں ایسی آیتیں زیادہ ہیں‘ جو دلالت کرتی ہیں کہ موت اور قیامت کے درمیانی فاصلے میں انسان ایک خاص قسم کی زندگی رکھتا ہے‘ جس میں اس کے محسوس کرنے کی قوت میں شدت آ جاتی ہے‘ وہ گفت و شنید کرتا ہے‘ اسے لذت‘ رنج‘ سرور اور غم بھی ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسے ایسی زندگی نصیب ہوتی ہے‘ جس میں سعادت کی آمیزش ہوتی ہے‘ قرآن کریم میں مجموعی طور پر تقریباً ۱۵ آیتیں ایسی ہیں‘ جو زندگی کی کسی نہ کسی صورت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انسان قیامت اور موت کے درمیانی عرصے میں ایک مکمل زندگی رکھتا ہے۔

ان آیتوں کی کئی اقسام ہیں:

۱ ۔ وہ آیات جن میں صالح اور نیک انسانوں یا بدکار اور فاسد انسانوں کی اللہ کے فرشتوں سے بات چیت کا ذکر ہے‘ جو مرنے کے فوراً بعد ہو گی‘ اس قسم کی آیات کی تعداد کافی ہے‘ سورئہ نساء کی آیہ نمبر ۹۷ اور سورئہ مومنون کی آیت نمبر ۱۰۰ جن کا ذکر مع ترجمہ پہلے ہو چکا ہے‘ اسی قسم میں سے ہیں۔

۲ ۔ ایسی آیات جو مندرجہ بالا مفہوم کے علاوہ کہتی ہیں کہ فرشتے نیک اور صالح انسانوں سے اس گفتگو کے بعد کہیں گے کہ بعدازیں الٰہی نعمتوں سے فائدہ اٹھاؤ یعنی انہیں قیامت کبریٰ کی آمد تک منتظر نہیں رکھا جاتا‘ ذیل کی دو آیات اسی مطلب پر مشتمل ہیں:

(الف)( الذین تتوفا هم الملائکة طیبین یقولون سلام علیکم ادخلوا الجنة بما کنتم تعملون )

(سورئہ نحل‘ آیت ۳۲)

"وہ لوگ جنہیں پاکیزگی کی حالت میں فرشتے اپنی تحویل میں لیتے ہیں‘ فرشتے ان سے کہیں گے آپ پر سلام ہو‘ بے شک اپنے اچھے کردار کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جایئے۔"

(ب)( قیل ادخل الجنه قال یالیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی و جعلنی من المکرمین )

(سورئہ یس‘ آیات ۲۶ ۔ ۲۷)

"(مرنے کے بعد) اس سے کہا جائے گا‘ بہشت میں داخل ہو جاؤ وہ کہے گا‘ اے کاش! جن لوگوں نے میری بات نہیں سنی‘ اب جان لیتے کہ میرے پروردگار نے مجھے کیسے بخش دیا اور اپنے معزز بندوں میں سے قرار دیا ہے۔"

اس سے پہلے کی آیات میں مومن آل یسن کی اپنی قوم کے ساتھ گفتگو کا ذکر ہے۔

جس میں وہ لوگوں کو شہر انطاکیہ میں ان انبیاءکا کہہ رہا ہے‘ جو عوام الناس کو غیر خدا کی عبادت سے منع کرتے اور خدا کی مخلصانہ عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے‘ اس کے بعد یہ مومن اپنے ایمان و اعتقاد کا اظہار کر کے کہہ رہا ہے کہ میری بات سنو اور میرے راستے پر عمل کرو۔ ان آیات میں ارشاد ہوتا ہے کہ لوگوں نے اس کی بات کو نہ سنا‘ حتیٰ کہ وہ اگلے جہان میں چلا گیا۔ اگلے جہاں میں اپنے بارے میں مغفرت و کرامات الٰہی کے مشاہدہ کے بعد اس نے آرزو کی کہ

"اے کاش! میری قوم جو اس وقت دار دنیا میں ہے‘ میری یہاں کی سعادت مند کیفیت کا مشاہدہ کر سکتی۔"

واضح رہے کہ یہ تمام حالات قیامت کبریٰ سے قبل کے ہیں کیونکہ قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے اور روئے زمین پر کوئی بھی باقی نہیں ہو گا۔

ضمناً اس نکتہ کو سمجھ لیں کہ مرنے کے بعد نیک اور باسعادت لوگوں کے لئے بہشتیں مہیا ہیں نہ ایک بہشت‘ یعنی مختلف اقسام کی بہشتیں۔

عالم آخرت میں بہشت کے مدارج قرب الٰہی کے مدارج و مراتب کے لحاظ سے مختلف ہوں گے‘ جیسا کہ اہل بیت اطہارکی احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے۔ ان بہشتوں میں سے بعض عالم برزخ سے مربوط ہیں نہ کہ عالم قیامت سے‘ بنابرایں اوپر والی دو آیات میں بہشت کے ذکر سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ عالم قیامت سے مربوط ہیں۔

۳ ۔ تیسری قسم ان آیات کی ہے‘ جن میں فرشتوں کی انسانوں کے ساتھ گفتگو کا کوئی ذکر نہیں بلکہ سعادت مند اور نیک انسانوں یا بے سعادت اور بدکار انسانوں کی زندگی کا ذکر ہے‘ پہلی قسم کے لئے موت کے فوراً بعد نعمات الٰہی اور دوسری صنف کے لئے عذاب و رنج ہو گا۔

ذیل کی دو آیتیں اسی قسم سے متعلق ہیں:

( ۱)( ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتا بل احیاء عند ربهم یرزقون فرحین بما اتهم الله من فضله و یستبشرون بالذین لم یلحقو ابهم من خلفهم الا خوف علیهم ولا هم یحزنون )

(سورئہ آل عمران‘ آیات ۱۲۹ ۔ ۱۷۰)

"آپ یہ گمان نہ کریں کہ راہ خدا میں مقتول مردہ ہیں‘ بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور روزی دیئے جا رہے ہیں۔ اپنے فضل و رحمت سے خدا نے جو کچھ انہیں دیا ہے‘ اس پر وہ خوش ہیں‘ ان کی آرزو ہے کہ ان کے دنیا والے دوستوں کی شہادت کی بشارت ان تک پہنچے تاکہ انہیں بھی اپنے ساتھ اس شہادت میں شریک دیکھیں۔"

( ۲)( وحاق بال فرعون سوء العذاب النار یعرضون علیها غدواً و عشیا و یوم تقوم الساعة ادخلوا آل فرعون اشد العذاب ) (سورئہ مومن‘ آیات ۴۵ ۔ ۴۶)

"آگ کے تکلیف دہ عذاب نے آل فرعون کا احاطہ کر رکھا ہے‘ ہر صبح و شام آگ ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے‘ جب قیامت ہو گی (کہا جائے گا) آل فرعون کو اب شدید ترین عذاب میں داخل کر دو۔"

اس آیت میں آل فرعون کے لئے دو قسم کے عذاب کا ذکر ہے۔ ایک قیامت سے پہلے جس کو سوء العذاب سے تعبیر کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ ہر روز دو بار آگ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں‘ بغیر اس کے کہ اس میں ڈال دیئے جائیں۔ دوسرا بعد از قیامت جس کو اشدالعذاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حکم ہو گا انہیں جہنم میں داخل کیا جائے۔ پہلے عذاب کے بارے میں صبح و شام کا تذکرہ ہے‘ دوسرے عذاب میں نہیں۔

جیسا کہ اس آیت کی توضیح اور تفسیر میں امیرالمومنین علیہ السلام کا فرمان ہے کہ پہلا عذاب چونکہ عالم برزخ سے مربوط ہے‘ اسی لئے صبح و شام کا ذکر ہے کیونکہ عالم برزخ میں عالم دنیا کی طرح صبح و شام‘ ہفتہ‘ ماہ اور سال ہیں۔ اس کے برعکس دوسرا عذاب عالم قیامت سے متعلق ہے اور وہاں صبح و شام اور ہفتہ وغیرہ کا وجود نہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘ امیرالمومنین علی علیہ السلام اور باقی آئمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث روایات میں عالم برزخ کا ذکر ہے‘ نیز اہل ایمان و اہل معصیت کی حیات کا بھی بہت تذکرہ ہے‘ جنگ بدر میں جب مسلمانوں کو فتح ہوئی اور سرداران قریش کو ہلاکت کے بعد ایک کنویں میں ڈال دیا گیا‘ تو رسول اللہ نے اپنا روئے مبارک کنویں میں کر کے فرمایا:

"خدا نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا‘ اسے ہم نے سچا پایا‘ تمہارے ساتھ جو وعدہ کیا گیا تھا‘ کیا وہ تم نے پا لیا؟"

بعض اصحاب نے کہا یا رسول اللہ آپ مردوں سے باتیں کر رہے ہیں‘ کیا یہ آپ کی بات سمجھ رہے ہیں؟ فرمایا:

"اس وقت یہ تم سے بھی زیادہ سنتے ہیں۔"

اس حدیث میں اس جیسی دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ جسم و جان کا رشتہ موت کی وجہ سے منقطع ہو جاتا ہے‘ لیکن روح جو سالہا سال تک جسم کے ساتھ متحد رہی اور وقت گذارا‘ کلی طور پر بدن سے اپنا تعلق منقطع نہیں کرتی۔

امام حسین علیہ السلام روز عاشور نماز صبح باجماعت پڑھنے کے بعد اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک مختصر سے خطبہ میں ارشاد فرمایا:

"تھوڑا سا صبر و استقامت سے کام لو‘ موت ایک پل کے سوا کچھ نہیں‘ جو آپ ۱ کو درد و رنج کے ساحل سے سعادت و خوش بختی اور وسیع جنتوں کے ساحل پر پہنچا دے گی۔"

حدیث میں آیا ہے کہ لوگ سوئے ہوئے ہیں‘ جب مریں گے‘ تب بیدار ہو جائیں گے‘ مراد یہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کا درجہ اور رتبہ دنیوی زندگی سے زیادہ کامل اور بلند ہے۔ جس طرح سے انسان نیند کی حالت میں احساس کے ایک ضعیف درجہ کا حامل ہوتا ہے‘ یعنی اس کی حالت نیم مردہ اور نیم زندہ ہوتی ہے۔

بیداری کے بعد اس کی حیات کامل ہو جاتی ہے‘ اسی طرح عالم دنیا میں عالم برزخ کی نسبت زندگی ضعیف تر اور زیادہ کمزور ہوتی ہے‘ جو عالم برزخ میں منتقل ہونے کے بعد کامل تر ہو جاتی ہے‘ یہاں پر دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:

(الف)رہبران دین کی روایات و احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں فقط ان مسائل کے متعلق سوال ہو گا‘ جن کا تعلق اعتقاد و ایمان سے ہے۔ باقی مسائل کا سوال قیامت کبریٰ میں ہو گا۔

(ب) ثواب و اجر کی نیت سے مرحومین کے لواحقین کی طرف سے جو نیک کام کئے جاتے ہیں‘ وہ مردہ کے لئے آسانی‘ خیر اور سعادت کا باعث ہوں گے‘ مثلاً صدقات‘ خواہ صدقات جاریہ ہوں‘ جیسے ان اداروں کی تشکیل جن کا نفع خلق خدا کو حاصل ہو‘ یا صدقات غیر جاریہ جو ایسا عمل ہے کہ جلد ختم ہو جاتا ہے‘ یہ عمل اگر اس نیت سے ہو کہ اس کا اجر و ثواب‘ ماں‘ باپ‘ دوست‘ معلم و استاد یا کسی اور مردہ کو نصیب ہو‘ تو یہ مرنے والے کے لئے تحفہ شمار کیا جائے گا اور اس کے لئے خوشی اور سرور کا باعث ہو گا۔ اسی طرح سے ان مرحومین کی نیابت میں دعا‘ طلب مغفرت‘ حج‘ طواف اور زیارات یہی فائدہ رکھتی ہیں‘ ممکن ہے اولاد نے والدین کو اپنی زندگی میں خدانخواستہ ناراض کیا ہو اور مرنے کے بعد اس طرح کے کام کر لے کہ والدین کی رضامندی کا مستحق ہو جائے‘ اسی طرح اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔