• ابتداء
  • پچھلا
  • 6 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 4292 / ڈاؤنلوڈ: 2939
سائز سائز سائز
ابدی زندگی اور اخروی زندگی

ابدی زندگی اور اخروی زندگی

مؤلف:
اردو

قیامت کبریٰ

جاوداں زندگی کا دوسرا مرحلہ قیامت کبریٰ ہے۔ قیامت کبریٰ عالم برزخ کے برعکس جس کا تعلق افراد سے ہے اور ہر فرد موت کے بعد بلافاصلہ عالم برزخ میں داخل ہو جاتا ہے‘ اجتماع سے مربوط ہے‘ یعنی تمام افراد اور تمام عالم سے متعلق ہے‘ یہ ایسا حادثہ ہے‘ جو تمام اشیاء اور تمام انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ایسا واقعہ ہے‘ جو تمام جہان کے لئے پیش آئے گا‘ سارا جہاں ایک جدید مرحلے‘ ایک جدید زندگی اور ایک جدید نظام میں داخل ہو گا۔

قرآن کریم جس نے ہمیں اس عظیم حادثہ سے آگاہ کیا ہے‘ اس عظیم واقعہ کو ستاروں کے خاموش ہونے‘ سورج کے بے نور ہونے‘ دریاؤں کے خشک ہو جانے‘ بلندیوں‘ ناہمواریوں کے ہموار ہو جانے‘ پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے‘ زلزلوں اور عالم گیر جھٹکوں‘ تبدیلیوں اور عظیم انقلاب کے ہمراہ قرار دیا ہے۔

قرآن کریم سے جو استفادہ ہوتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمام عالم تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے‘ تمام چیزیں نابود ہوں گی اور ایک بار پھر عالم کی تعمیر نو ہو گی۔ نئے سرے سے عالم پیدا ہو گا‘ جس کا نیا نظام اور نئے قوانین ہوں گے‘ آج کے نظام اور قوانین سے بنیادی طور پر مختلف ہوں گے‘ یہ نظام اور قوانین دائمی ہوں گے اور ہمیشہ رہیں گے۔

قرآن کریم میں قیامت کو کئی ناموں اور عنوانات سے یاد کیا گیا ہے‘ ہر نام ایک مخصوص وضع اور اس پر حاکم خصوصی نظام کی نشاندہی کرتا ہے‘ مثلاً اس لحاظ سے کہ تمام اولین و آخرین ایک سطح پر قرار پائیں گے اور ان کے درمیان ترتیب زمانی ختم ہو جائے گی‘ قیامت کو روز حشر‘ روز جمع اور روز تلافی کہا گیا ہے۔

اس لحاظ سے اسے فنا نہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے ہے‘ اسے یوم "الخلود" کہا گیا ہے اور اس لحاظ سے کہ بعض انسان سخت حسرت و یاس کی حالت میں ہوں گے اور اپنے نقصان کو محسوس کریں گے کہ کیوں انہوں نے اپنے آپ کو اس مرحلے کے لئے تیار نہیں کیا‘ اس کو یوم "الحسر" اور "یوم التغابن" کہا گیا ہے اور چونکہ یہ بہت بڑی خبر اور عظیم ترین واقعہ ہے‘ اس لئے اس کو نباء عظیم بھی کہا گیا ہے۔

دنیوی اور اخروی زندگی کا آپس میں رابطہ

ایک بنیادی اور اہم مسئلہ جس کی طرف آسمانی کتب نے ہمیں متوجہ کیا ہے‘ دونوں زندگیوں میں پیوستگی اور ربط ہے‘ یہ دونوں زندگیاں ایک دوسرے سے جدا نہیں۔

اخروی زندگی کا بیج انسان دنیا میں خود کاشت کرتا ہے‘ حیات اخروی کی تقدیر خود انسان کے وسیلہ سے دنیوی زندگی میں متعین ہو جاتی ہے۔

واقع کے مطابق درست اور پاک ایمان و اعتقاد اور حقیقت پسندانہ تصور کائنات حسد‘ کینہ‘ مکر و فریب اور دھوکہ دہی سے پاک انسان اخلاق اور طاہر عادتیں اور اسی طرح اعمال صالحہ‘ جو فرد اور اجتماع کے کمال کے لئے انجام پاتے ہیں‘ خدمت خلق‘ اخلاص اور اس طرح کی دوسری چیزیں جو انسان کے لئے ایک جاوداں اور سعادت مند زندگی کی تشکیل کا سبب ہیں اور اس کے برعکس بے ایمانی‘ بے اعتقادی‘ غلط فکر‘ پلید اور بری عادتیں‘ خود خواہی‘ خود پرستی‘ خودبینی و تکبر‘ ظلم و ستم‘ ریاکاری‘ سود خوری‘ جھوٹ‘ تہمت‘ خیانت‘ غیبت‘ چغل خوری‘ فتنہ و فساد‘ خالق کی عبادت اور پرستش سے کنارہ کشی وغیرہ حیات اخروی میں انسان کی بے انتہا شقاوت اور بدبختی کا سبب ہیں۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت خوبصورت فرمایا ہے:

الدنیا مزرعة الاخرة

"دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔"

بدی یا نیکی کا جو بیج بھی دنیا میں کاشت کرو گے‘ آخرت میں اسی کا پھل کاٹو گے۔

جس طرح سے یہ محال ہے کہ انسان جو کاشت کرے اور گندم کاٹے‘ کانٹے بوئے اور پھول چنے‘ حنظل کاشت کرے اور کھجور کا درخت اُگے۔ اسی طرح یہ بھی محال ہے کہ دنیا میں انسان برے خیال‘ برے اخلاق اور برے کردار کا حامل ہو اور آخرت میں نفع حاصل کرے۔

انسان کے اعمال کا تجسم اور جاودانگی

قرآن کریم اور رہبران دین کے فرامین اور احادیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ نہ فقط انسان ہمیشہ رہنے والا اور جاوید ہے‘ بلکہ اس کے اعمال و آثار بھی محفوظ ہوتے ہیں اور ختم نہیں ہوتے‘ انسان عالم قیامت میں اپنے تمام اعمال و آثار کو مصور اور مجسم شکل میں دیکھے گا اور مشاہدہ کرے گا۔

اچھے اعمال و آثار نہایت حسین‘ خوبصورت اور لذت بخش شکل میں مجسم ہوں گے اور سرور و لذت کا باعث بنیں گے‘ مگر انسان کے برے اعمال نہایت بدصورت‘ وحشت ناک‘ مہیب و اذیت ناک شکل میں مجسم ہوں گے اور درد و رنج اور عذاب کا باعث بنیں گے۔

(اس سلسلے میں مزید تفصیل کیلئے عدل الٰہی‘ بحث معاد کی طرف رجوع کیجئے گا)

اس سلسلے میں ہم قرآن کریم کی تین آیات اور رسول اکرم ۱ کی احادیث کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں:

( ۱)( یوم تجد کل نفس ماعملت من خیر محضرا و ما عملت من سوء تو دلو ان بینها و بینه امدا بعیداً )

(آل عمران‘ آیت ۳۰)

"وہ دن جب انسان اپنے ہر نیک کام کو اپنے سامنے حاضر دیکھے گا‘ اسی طرح برے کام کو بھی‘ وہ چاہے گا کہ کاش اس کے اور برے کام کے درمیان زیادہ فاصلہ ہوتا۔"

اس آیت میں تصریح ہے کہ انسان عیناً اپنے نیک کام ہی کو مطلوب اور محبوب صورت میں دیکھے گا اور اپنے برے کام کو بعینہ  ایسی صورتوں میں دیکھے گا‘ جن سے اس کو نفرت و وحشت ہو گی‘ چاہے گا کہ اس سے فرار کر جائے یا اس صورت کو اس سے دور کیا جائے‘ لیکن وہ جگہ فرار کر سکنے کی جگہ نہ ہو گی اور نہ ہی انسان کے عمل کو انسان سے جدا کیا جا سکے گا۔

اس عالم میں مجسم شکل میں حاضر ہو جانے والا انسانی عمل اس کے وجود کے ایک حصے اور جزو کی طرح ہو گا‘ جو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔

( ۲)( ووجدو اما عملوا حاضرا )

(سورئہ کہف‘ آیت ۴۹)

"دنیا میں انجام دیئے ہوئے ہر عمل کو اپنے سامنے حاضر پائیں گے۔"

اس آیت کا مفہوم اور معنی بالکل پہلی آیت والا ہے۔

( ۳)( یومئذ یصدر الناس اشتاتا لیرو اعمالهم فمن یعمل مثقال ذرة خیرا یره‘ ومن یعمل مثقال ذرة شرا یره ) (سورئہ زلزال‘ آیات ۶ یا ۸)

"اس دن انسان باہر آئیں گے تاکہ (اعمال کی نمائش گاہ عمل میں) ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں۔ جس نے ذرہ برابر بھی نیک کام انجام دیا ہے‘ اسے قیامت میں دیکھے گا اور جس نے ذرہ برابر برا کام انجام دیا ہو گا‘ اس کو بھی اس جگہ دیکھے گا۔ انسان باقی و دائمی ہے‘ انسان کے اعمال و آثار بھی محفوظ‘ باقی اور جاوداں ہیں‘ عالم آخرت میں انسان دنیوی زندگی میں کمائی ہوئی چیزوں‘ اخلاق اور اعمال کے ساتھ زندگی گذارے گا۔ یہ کمائی‘ اعمال اور اخلاق‘ حیات اخروی میں ہمیشہ کے لئے اس کا اچھا یا برا سرمایہ اور نیک یا برے ساتھی ہوں گے۔

احادیث مبارکہ

مسلمانوں کا ایک گروہ کافی دور سے رسول اللہ ۱ کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور دیگر باتوں کے ضمن میں آپ سے نصیحت کی خواہش کی۔ رسول اکرم نے چند جملات ارشاد فرمائے‘ جن میں سے ایک جملہ یہ ہے کہ

"ابھی سے آخرت کے لئے اچھے رفقاء اور ساتھیوں کا انتخاب کریں‘ اس لئے کہ عالم آخرت میں انسان کا کردار و اعمال ہی بصورت جسم اس کے زندہ ساتھی ہوں گے۔"( ۱)

حیات جاوید کا قائل مومن انسان اپنے خیالات‘ اخلاق و عادات اور اعمال‘ چال چلن میں ہمیشہ پوری توجہ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زود گذر دنیوی امور میں سے نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں انسان کی اپنی اگلی دنیا میں بھیجی ہوئی چیزیں ہیں اور اسے اسی سرمایہ کے ساتھ عالم آخرت میں زندگی گذارنا ہو گی۔

۷ ۔ دنیوی اور اخروی زندگی کی مختلف اور مشترک صورتیں

دنیوی اور اخروی زندگی کی مشترکہ چیزیں یہ ہیں کہ دونوں زندگیاں حقیقی اور واقعی ہیں اور دونوں زندگیوں میں انسان خود سے اور اپنی متعلقہ چیزوں سے آگاہ ہے‘ دونوں زندگیوں میں لذت و تکلیف‘ خوشی و غمی اور سعادت و شقاوت ہے۔

جبلت و سرشت خواہ حیوانی ہو یا انسانی‘ دونوں جگہ کارفرما ہے‘ دونوں زندگیوں میں انسان اپنے بدن قد و قامت اور اعضاء و جوارح کے ساتھ زندگی گذارے گا۔ دونوں زندگیوں میں فضا اور اجرام ہوں گے‘ لیکن ان میں بنیادی فرق بھی موجود ہے‘ یہاں سلسلہ توالد‘ تناسل‘ بچپنا‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت ہے وہاں نہیں‘ یہاں ضروری ہے کہ کام کرے‘ بیج ڈالے اور مناسب اسباب مہیا کرے‘ وہاں بیج کا پھل کاٹے اور دنیوی اسباب کا نفع حاصل کرے۔ یہ جگہ عمل اور کام کی جگہ ہے اور وہ عالم حساب و کتاب کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی جگہ۔

دنیا میں انسان کے لئے عمل اور حرکت کی سمت بدل کر مقدر کو تبدیل کر سکنے کا امکان ہے لیکن آخرت میں نہیں‘ یہاں پر موت و حیات کی آمیزش ہے‘ ہر حیات ایسے مادہ کے ہمراہ ہے‘ جس میں حیات فاقد ہے۔ علاوہ ازیں مردہ سے زندہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ سے مردہ‘ جیسا کہ بے جان مادہ خاص شرائط کے ساتھ جاندار اور جاندار بے جان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر آخرت میں محض زندگی کارفرما ہے‘ وہاں مادی جسم بھی جاندار ہے‘ زمین و آسمان بھی جاندار ہیں‘ وہاں کا باغ اور میوہ انسان کے مجسم اعمال کی طرح سے جاندار ہیں‘ وہاں کی آگ اور عذاب بھی ذی شعور اور آگاہ ہیں۔

دنیا میں اسباب و علل اور خاص زمانی شرائط کی حکمرانی ہے۔ حرکت اور کمال کی طرف سے سفر (تکامل) کا وجود ہے۔ مگر عالم آخرت میں صرف ملکوت الٰہی اور ارادہ الٰہی کا ظہور ہے۔ اس دنیا میں انسان کا ادراک‘ اس کا شعور اور آگاہی اور بطور مطلق دیکھنا اور سننا دنیا سے زیادہ طاقتور ہے‘ دوسرے لفظوں میں پردے اور حجاب عالم آخرت میں انسان کے سامنے سے اٹھا دیئے جائیں گے اور انسان اپنی باطن بین نگاہوں سے حقائق کا ادراک کرے گا‘ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے:

( فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید ) (سورئہ ق‘ آیت ۲۲)

"ہم نے اب پردے تجھ سے اٹھا لئے ہیں‘ پس آج تیری نظر خوب تیز ہے۔"

اس دنیا میں خستگی و ملال خصوصاً یکسانیت کی وجہ سے کارفرما ہے‘ انسان کی حالت کسی شے کو گم کرنے والے کی طرح ہوتی ہے‘ جو ہمیشہ اپنی گم کردہ شے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ جب کوئی چیز مل جائے‘ تو خیال کرتا ہے‘ مقصود مل گیا ہے اور اسی پر خوش ہو جاتا ہے‘ مگر کچھ دیر بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ نہیں جو "مطلوب" تھا تو دل گیر ہو جاتا ہے اور پھر کسی نئی شے کی طلب میں لگ جاتا ہے۔ اسی لئے دنیا میں انسان ہر اس چیز کا طالب ہے‘ جو اس کے پاس نہیں اور اس چیز سے بیزار ہونے لگتا ہے‘ جو اس کے پاس موجود ہے۔

مگر اخروی دنیا میں دل کی گہرائیوں اور فطرت و شعور کی عمق سے جس چیز کو چاہتا تھا اور جسے اپنی گم شدہ متاع حقیقی سمجھتا تھا‘ یعنی "دربار رب العالمین" میں "جاوداں اور ابدی" جانتا تھا‘ اس کو پا لیتا ہے‘ لہٰذا اسے کسی قسم کا ملال و خستگی و پریشانی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے:

( لا یبغون عنها خولا ) (سورئہ کہف‘ آیت ۱۰۸)

"یعنی (دنیا کے برعکس) آخرت میں انسان تبدیلیوں اور جدید ماحول کے طالب نہیں ہوں گے اسی لئے اگرچہ اہل بہشت ہمیشہ بہشت ہی میں رہیں گے‘ لیکن کبھی سیر نہیں ہوں گے۔

علاوہ ازیں وہاں جو چیز چاہیں گے‘ ارادہ الٰہی سے اسی وقت ان کے لئے پیدا ہو جائے گی‘ لہٰذا ایسی چیز کی آرزو انہیں پریشان نہیں کرتی‘ جو ان کے پاس نہیں۔"

قرآنی استدلال

اگرچہ قیامت پر ہمارے ایمان و اعتقاد کا سرچشمہ قرآن کریم اور گفتار انبیاءپر ہمارا ایمان ہے اور ضروری نہیں کہ قیامت کو ثابت کرنے کے لئے استدلال قائم کیا جائے یا علمی شواہد و قرائن بیان کریں‘ لیکن چونکہ قرآن کریم نے خود ہی (مطلب کو اذہان کے قریب کرنے کیلئے) استدلال کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے اور چاہتا ہے کہ ہمارے اذہان از روئے استدلال اور براہ راست بھی قیامت کا اعتقاد پیدا کریں۔ ہم بھی مختصراً ان دلائل کو ذکر کر رہے ہیں۔ قرآنی استدلال درحقیقت منکرین قیامت کے اشکالات کا جواب دیں۔ بعض میں یہ بیان ہوتا ہے کہ قیامت کے آنے میں کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں‘ یہ درحقیقت ان کا جواب ہے‘ جو قیامت کو امرناممکن سمجھتے تھے۔

بعض آیات اس سے بھی ایک درجہ آگے بڑھ کر کہتی ہیں کہ اسی دنیا میں قیامت کے مشابہ چیزوں کا وجود تھا اور ہے اور ایسی چیزوں کو دیکھنے کے بعد انکار کا کوئی جواز نہیں‘ بعض آیات اس سے ایک درجہ اور آگے کی بات کرتی ہیں اور وجود قیامت کو لازم اور ضروری امر اور خلقت حکیمانہ کا ایک قطعی اور یقینی نتیجہ قرار دیتی ہیں۔

بنابرایں قیامت کے بارے میں استدلال کرنے والی تمام آیتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

۱ ۔ سورئہ یٰس آیت ۷۸ و ۷۹ میں ارشاد ہوتا ہے:

و ضرب لنا مثلاً و نسی خلقه قال من یحیی العظام و هی رمیم قل یحیها الذی انشاء ها اول مرة وهوبکل خلق علیم

"اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے۔ اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے‘ کہتا ہے ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اس سے کہو انہیں وہی زندہ کرے گا‘ جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا‘ وہ ہر مخلوق سے آگاہ ہے۔"

یہ آیت اس کافر کے جواب میں ہے‘ جس نے بوسیدہ ہڈی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نرم کر کے پاؤڈر کی صورت بنا کر ہوا میں بکھیر دیا اور پھر کہا ان کے بکھرے ہوئے ذرات کو کون زندہ کرے گا۔ قرآن جواب میں کہتا ہے کہ وہی جس نے پہلی بار اسے پیدا کیا۔ انسان کبھی اپنی قدرت و توانائی کو معیار بنا کر امور کو ممکن اور ناممکن میں تقسیم کرتا ہے۔ جب کسی کام کو اپنی طاقت و تصور سے ماوراء پاتا ہے‘ تو سمجھتا ہے کہ اس کام کا ہو جانا ذاتاً ناممکن ہے۔

قرآن کہہ رہا ہے‘ بشری طاقت کے معیاروں کو دیکھتے ہوئے تو یہ کام ناممکن ہے‘ لیکن قوت اور طاقت کے معیاروں کے پیش نظر جس نے پہلی بار مردہ جسم میں زندگی کو پیدا کیا‘ آپ کیا کہیں گے؟ اس طاقت کے معیارات کے لحاظ سے یہ امر ممکن اور قابل انجام ہے۔

قرآن کریم میں متعدد آیتیں ایسی آئی ہیں‘ جن میں الٰہی طاقت کی بنیاد پر قیامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔

تمام آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خدائے عادل و حکیم کی مشیت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت موجود ہو اور اس کی مشیت کی راہ میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلی بار حیات و خلقت کا معجزہ اس مشیت سے سرزد ہوا اور اس نے عالم‘ انسان اور حیات کو پیدا کیا۔ دوسری مرتبہ بھی قیامت میں انسان کو زندہ کرے گا۔

۲ ۔ وہ آیات جنہوں نے نمونوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ آیات بذات خود دو حصوں میں منقسم ہیں:

(الف)وہ آیات جن میں ماضی کے ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے کہ جس میں ایک مردہ نئے سرے سے زندہ ہوا‘ جیسے وہ آیات جو حضرت ابراہیم کے قصے میں آئی ہیں۔ حضرت ابراہیم نے خدا سے مخاطب ہو کر کہا:

"پروردگار تو مردہ کو کس طرح زندگی دیتا ہے‘ مجھے دکھا دے۔"

جواب میں فرمایا:

"کیا اس پر تیرا ایمان نہیں؟ کہا کیوں نہیں؟ ایمان تو ہے‘ اطمینان قلب کا خواہش مند ہوں۔ ان سے کہا گیا کہ چار پرندے لے کر ان کا سر قلم کر دو‘ بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہر حصہ ایک پہاڑ پر رکھ دو‘ پھر پرندوں کو بلاؤ‘ دیکھو گے کہ خدا کے امر سے پرندے زندہ ہو کر تیرے پاس آئیں گے۔"

(ب) ایسی آیات جن میں کسی استثنائی اور غیر معمولی واقعہ (جیسے واقعہ ابراہیم) کو بنیاد نہیں بنایا گیا‘ بلکہ نظام شہود اور موجود پر استناد کیا گیا ہے‘ جس میں ہمیشہ زمین اور جڑی بوٹیاں موسم خزاں اور سرما میں مردہ ہو جاتی ہیں‘ پھر موسم بہار میں نئی زندگی ملتی ہے۔

قرآن کہتا ہے کہ طول عمر میں بارہا آپ مشاہدہ کر چکے ہیں کہ زمین تر و تازگی و شادابی کے بعد موت کی طرف بڑھتی ہے اور اس پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ پھر موسم کی تبدیلی سے ماحول بدل جاتا ہے اور زمین درخت اور پودے اپنی حیات نو کا جامہ پہن لیتے ہیں۔

عالم کے کلی نظام میں بھی یہ عالم خاموشی اور افسردگی کی طرف چلا جائے گا۔ سورج‘ چاند‘ ستارے سب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔ تمام عالم موت کی آغوش میں ہو گا‘ لیکن یہ موت دائمی نہیں ہو گی‘ دوسری طرف عالم کے تمام موجودات نئی وضع اور جدید کیفیت کے ساتھ زندگی کا آغاز کریں گے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم انسان اس وقت ایسی زمین پر زندگی گذار رہے ہیں جو ۳۶۵ دنوں میں موت و حیات کا ایک دور طے کرتی ہے‘ چونکہ معمولاً ہماری عمر پچاس ساٹھ سال اور زیادہ سے زیادہ ۱۰۰ سال یا کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ ہم درجنوں بار نظام موت و حیات کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ لہٰذا یہ دیکھ کر کہ زمین مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ ہوتی ہے اور نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ ہمیں تعجب اور حیرانگی نہیں ہوتی‘ اگر فرض کریں کہ انسان کی عمر چند ماہ ہوتی‘ جیسے بعض حشرات الارض کی عمر ہے‘ بالفرض ہم ان پڑھ بھی ہوتے اور پڑھنا لکھنا نہ جانتے‘ تاریخ زمین اور گردش سالانہ کے بارے میں آگاہ نہ ہوتے‘ ہم نے زمین کی موت اور تجدید حیات کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا‘ تو ہم کبھی یقین نہ کرتے کہ زمین مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے‘ مسلم امر ہے کہ ایک مچھر جو موسم بہار میں پیدا ہوتا ہے اور خزاں اور سردیوں میں مر جاتا ہے۔ اس کے لئے جدید زندگی کا تصور مفہوم نہیں رکھتا‘ کیا درخت میں رہنے والا کیڑا اور ایک باغ میں رہنے والا مچھر‘ جس کی تمام دنیا وہی درخت اور باغ ہیں‘ تصور کر سکتا ہے‘ یہ درخت اور یہ باغ ایک عظیم تر نظام کے جزو اور تابع ہیں‘ جس کا نام مزرع اور کھیت ہے اور اس کا مقدر کھیت کے مقدر سے وابستہ ہے؟ اور یہ کھیت بھی ایک اور نظام کے تابع ہے‘ جس کا نام شہر ہے‘ یہ شہر بھی ایک بڑے نظام یعنی صوبے کے تابع ہے‘ صوبے کا نظام بھی تابع مملکت ہے اور نظام مملکت زمین کے کلی نظام کے تابع ہے اور نظام زمین سورج کے نظام کے تابع ہے؟

ہمیں کیا معلوم شاید یہ نظام شمسی تمام ستارے اور کہکشاں اور ہر وہ چیز جسے ہم نظام طبیعت سمجھتے ہیں‘ ایک کلی تر اور عظیم تر نظام کے تابع ہو اور فطرت اور طبیعت کے گذشتہ کرداروں اور اربوں سال کی عمر جس کا ہمیں علم ہے‘ صرف ایک موسم یا موسم کے ایک دن کے برابر ہو‘ جو ایک بڑے نظام کا حصہ ہو اور یہ موسم جو کہ حیات و زندگی کا موسم ہے‘ ایک نئے موسم میں تبدیل ہو جائے‘ جو خاموشی و افسردگی کا موسم ہو‘ پھر یہ نظام کلی جس کا ایک جزو نظام شمسی‘ ستارے اور کہکشاں ہیں۔ زندگی کو ایک نئی صورت میں پھر سے شروع کرے۔

انبیاء و رسل نے خدا کی جانب سے ہمیں تمام جہاں کی بربادی و خرابی کے بعد زمین میں ایک جدید نظام کے تحت مردوں کے زندہ ہونے کی خبر دی ہے‘ چونکہ متعدد دلائل سے ہمیں ان کی سچائی کا علم ہو چکا ہے۔ اس لئے تمام عالم کی تباہی کے بعد ایک کلی تجدید حیات اور نئی زندگی کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔

قرآن کریم زمین پر موت و حیات کے نظام کی مثال اس لئے پیش کرتا ہے کہ ہم اسے ایک کلی حیات کا ادنیٰ نمونہ سمجھیں اور قیامت کے امور کو غیر ممکن نہ سمجھیں اور اسے ان نظاموں اور آفرینش کی روایات سے خارج قرار نہ دیں۔

قرآن کریم کا فرمان ہے:

"قیامت نئی زندگی کا نام ہے۔"

تجدید حیات وہ چیز ہے‘ جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ زمین میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:

اذا رأیتم الربیع فاکثروا و اذکروا النشور

"جب موسم بہار کو دیکھو تو قیامت کا ذکر زیادہ کرو۔"

یعنی موسم بہار قیامت کی ایک روشن مثال اور نمونہ ہے۔

مولانا رومی فرماتے ہیں:

این بہار نو ز بعد برگ ریز

ہست برہان بر وجود رست خیز

آتش و باد ابر و آب و آفتاب

رازہا را می بر آرند از سرآب

در بہاراں سر ھا پیدا شود!

ہرچہ خوردہ است این زمین رسوا شود

بردمد آن ازدھان و ازلبش

تا پدید آید ضمیر و مذھبش!

رازھا رامی کند حق آشکار

چون بخواہد رست تخم بدہکار

"پتوں کے جھڑنے کے بعد یہ نئی بہار قیامت کے وجود کی دلیل ہے‘ آگ‘ ہوا‘ پانی‘ بادل اور دھوپ یہ سب چیزیں سرآب میں رازوں کو افشا کر دیتی ہیں۔ بہار میں سر نکلنے لگتے ہیں اور زمین نے جو بھی چیز کھائی تھی‘ نکال دیتی ہے اور رسوائی ہوتی ہے‘ وہ اپنے لبوں اور منہ سے پھونکتی ہے اور اس طرح اس کا مذہب اور اس کا ضمیر وجود میں آتا ہے‘ حق رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے‘ جب برا بیج اگنا چاہتا ہے۔"

دیوان شمس میں مولانا رومی فرماتے ہیں:

فرو شدن چو بدیدی بر آمدن بنگر

غروب شمس و قمر را چرا زیان باشد

کدام دانہ فرو رفت در زمین کہ نرست

چرابہ دانہ انسانت این گمان باشد

"جب تو نے ڈوبنا دیکھ لیا ہے‘ تو پھر ابھرنا بھی دیکھ لے‘ سورج اور چاند کے ڈوبنے میں کیوں کر نقصان ہو سکتا ہے‘ کونسا بیج ایسا ہو سکتا ہے‘ جو زمین میں دفن ہونے کے بعد نہ اگا ہو؟ پھر تو انسان کے بارے میں کیوں کر ایسا سوچتا ہے‘ وہ آیتیں جو موت و حیات کے موجودہ مشہود نظام پر استناد کرتی ہیں‘ بہت ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے":

( ۱)( والله الذی ارسل الریاح فتثیر سحابا فسقناه الی بلد میت فاحینیا به الارض بعد موتها کذلک النشور )

(سورئہ فاطر‘ آیت ۹)

"خدا وہ ہے‘ جس نے ہواؤں کو بھیجا‘ بادل کو پراگندہ اور دگرگوں کیا‘ پس ہم اس بادل کو مردہ زمین کی طرف لے گئے اور مردہ زمین کو زندہ کیا۔ قیامت میں زندہ ہونا بھی اسی طرح سے ہے۔"

( ۲)( وتری الارض هامدة فاذا انزلنا علیها الماء اهتزت و ربت و انبتت من کل زوج بهیج‘ ذلک بان الله هو الحق وانه یحیی الموتی وانه علی کل شئی قدیر و ان الساعة آتیة لاریب فیها و ان الله یبعث من فی القبور ) (سورئہ الحج‘ آیات ۵ تا ۷)

"زمین کو دیکھ رہے ہو کہ افسردہ و مردہ اور ساکن ہے‘ لیکن جیسے ہی ہم نے بارش برسائی پس حرکت میں آتی ہے اور ہر قسم کے نباتات پیدا کرتی ہے‘ یہ اس لئے کہ ذات خدا برحق ہے‘ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر شے پر قادر ہے‘ قیامت بدون شک آنے والی ہے اور قبر یں رہنے والوں کو خدا اٹھائے گا۔"

وہ آیات جن میں اس قیامت کو عالم ہستی کے اس نظام موت و حیات سے خارج نہیں سمجھا گیا‘ جس کے نمونے ہم زمین میں دیکھ رہے ہیں‘ ان کی تعداد زیادہ ہے‘ ہم نے فقط دو پر اکتفا کیا ہے۔

اس قسم کی آیات کا پہلی قسم کی آیات سے فرق یہ ہے کہ ان میں صرف اللہ کے قادر ہونے پر ہی تکیہ نہیں کیا گیا بلکہ اس محسوسات کی دنیا میں اس سے مشابہ نمونوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی محسوسات کی دنیا میں اللہ کی قدرت کا جلوہ ایسی صورت میں بھی ظہور پذیر ہوا ہے۔

(ج) تیسری قسم ان آیتوں کی ہے‘ جو قیامت کو ضروری اور قطعی امر قرار دیتی ہیں اور قیامت کے نہ ہونے کا لازمہ اللہ کی ذات کے بارے میں ایک ناروا اور محال امر سمجھتی ہیں۔ اس مطلب کو دو طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔

ایک طریقہ عدل الٰہی کا ہے‘ یعنی خداوند عالم اپنی ہر مخلوق کو وہی کچھ عنایات کرتا ہے‘ جس کی وہ مستحق ہے۔

دوسرا طریقہ حکمت الٰہی کا ہے‘ یعنی خداوند عالم نے مخلوق کو ایک ہدف و مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ موجودات عالم کو ان کے لائق کمال اور ممکنہ مقصد کی طرف لے جائے۔ قرآن کریم کہتا ہے:

"اگر قیامت ابدی زندگی‘ دائمی سعادت اور اخروی جزا و سزا نہ ہو‘ تو یہ عدل الٰہی کے خلاف ہے اور ایک طرح کا ظلم ہے‘ جو خدا کی نسبت سے محال ہے۔"

اسی طرح کہتا ہے کہ

"اگر جاوداں زندگی اور ابدی انجام موجود نہ ہو‘ تو خلقت عبث اور کھوکھلی ہو گی جبکہ عبث اور بے ہودہ کام خدا کے لئے محال ہے۔"

وہ آیات جو عدل الٰہی اور حکمت خداوندی پر استناد کرتے ہوئے خدا کی جانب بازگشت اور جاوداں زندگی کو حتمی قرار دیتی ہیں‘ تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔

اب ہم قرآن کریم کی دو سورتوں میں سے دو آیات کا ذکر کریں گے‘ جن میں عدل الٰہی اور حکمت خداوندی دونوں پر استناد کیا گیا ہے:

۱ ۔ سورئہ مبارکہ ص میں یہ بیان کرنے کے بعد کہ

"جو لوگ راہ خدا سے منحرف ہو چکے ہیں اور سزا کو بھول چکے ہیں‘ ان کے لئے سخت عذاب ہو گا۔"

آیت ۲۷ اور ۲۸ میں روز قیامت کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

وما خلقنا السماء والارض وما بینهما باطلا ذلک ظن الذین کفروا فویل للذین کفروا من النار ام نجعل الذین آمنوا و عملوا الصالحات کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار

"ہم نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے‘ کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا‘ یہ خیال (کہ خلقت بلا فائدہ ہے) ان لوگوں کا ہے‘ جن کو حقیقت سے عناد ہے‘ پس وائے ہو ان لوگوں پر آتش جہنم سے‘ کیا ہم ان لوگوں کو جو (خدا معاد و انبیاء) پر ایمان لائے اور اچھے کام انجام دیتے ہیں‘ مفسدوں کی طرح قرار دیں گے یا پرہیزگاروں کو بدکاری کی طرح سمجھیں گے؟"

جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ پہلی آیت میں خدا کا حکیم اور خلقت کا حکیمانہ ہونا مذکور ہے اور دوسری آیت میں عدل الٰہی اور خلقت کے عادلانہ ہونے کا بیان ہے۔

۲ ۔ سورہ مبارکہ جاثیہ‘ آیت ۲۱ ۔ ۲۲ میں اس طرح سے آیا ہے:

ام حسب الذین اجتر حوا السیات ان نجعلهم کالذین آمنو و عملوا الصلحات سواء محیاهم و مماتهم ساء مایحکمون وخلق الله السموات والارض بالحق ولتجزی کل نفس بما کسبت وهم لایظلمون

"کیا بدکاروں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ایماندار اور اچھے کام کرنے والوں کی طرح قرار دیں گے جبکہ ان کی زندگی و موت یکساں ہے۔ ان کا یہ حکم برا حکم ہے‘ خدا نے آسمانوں و زمین کو حق پیدا کیا ہے (نہ باطل اور بلا فائدہ) اس لئے کہ ہر شخص اپنے کئے کی (جزا و سزا) تک پہنچ جائے‘ ان پر ظلم کبھی بھی نہیں ہو گا۔"

ان دو آیات میں سے پہلی میں عدل الٰہی اور دوسری میں حکمت خداوندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ دوسری آیت کے ذیل میں دوسری مرتبہ عدل الٰہی کو قیامت کا ہدف اور مقصد قرار دیا گیا ہے۔

وضاحت

ان دو اصولوں کے بارے میں یہاں وضاحت ضروری ہے کہ عدل الٰہی کا تقاضا کیوں جاوداں زندگی ہے؟

اگر ہم فرض کریں کہ اس محدود زندگی کے بعد ابدی زندگی نہ ہو‘ جس میں ہر شخص اپنے اعمال کے دائمی نتیجہ تک پہنچ جائے‘ تو پھر عالم اور انسان کی خلقت عدل الٰہی اور حکمت خداوندی کی رو سے کیوں بے فائدہ ہے؟

ہم عدل الٰہی سے آغاز کرتے ہیں:

عدل الٰہی

عدالت اپنے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے صحبان حق کو ان کا حق بغیر کسی تفریق کے دے دینا ہے‘ اگر کسی حقدار کو بھی حق نہ دیا جائے‘ تو خلاف عدالت ہے اور اگر بعض کو دیا جائے اور بعض کو نہیں‘ تو پھر بھی خلافت عدالت ہے‘ اگر استاد امتحان کے موقع پر سب طلباء کو ان کے حق سے کم نمبر دے‘ تو یہ خلاف عدالت کام ہو گا۔ اگر بعض کو ان کے استحقاق کے مطابق اور بعض کو کم نمبر دے تب بھی خلافت عدالت و انصاف ہو گا۔

عدالت: ایک لحاظ سے مساوات کا لازمہ ہے۔

مساوات: یعنی سب کو ایک نظر سے دیکھنا۔ تفریق و فرق کا قائل نہ ہونا‘ ایسی مساوات کا لازمہ عدالت ہے‘ یعنی جو شخص جتنی مقدار کا استحقاق رکھتا ہے‘ اسے اتنا دیا جائے‘ اگر زیادہ کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو زیادہ دیا جائے۔ کم کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو کم دیا جائے اس میں تفریق و امتیاز بالکل نہ ہو اور اگر مساوات سے ہماری مراد عطا کرنے میں برابری ہو اور استحقاق کو دیکھے بغیر سب کو برابر دیا جائے‘ تو ایسی مساوات خلاف عدالت اور ظلم کے ہمراہ ہو گی۔ اسی طرح سے نہ دینے میں سب میں برابری بھی ظلم ہے‘ یعنی سب کو بلاتفریق برابر طور پر ان کے استحقاق سے محروم کر دیا جائے‘ بنابرایں عدل الٰہی کا معنی یہ ہے کہ عالم کے موجودات میں سے ہر ایک اپنی قابلیت اور ہستی کے مطابق اللہ کے فیض سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ اللہ کی طرف سے بھی کسی بھی مخلوق کو اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق فیض دینے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی موجود کے پاس کوئی چیز نہیں‘ تو اس وجہ سے کہ وہ ان حدود میں ہے کہ اس چیز کے مالک ہونے کی قابلیت اور امکان نہیں رکھتا۔

اب ہم کہتے ہیں کہ اگر بعض موجودات کچھ خاص خصوصیات کے ساتھ وجود میں آئیں‘ لیکن ان کے لائق کمال کے افاضے میں دریغ کیا جائے‘ تو یہ عدل الٰہی کے خلاف ہو گا‘ لہٰذا عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ استحقاق کے مطابق انہیں افاضہ فیض کیا جائے‘ تمام موجودات کے مابین انسان ایسی مخلوق ہے‘ جس میں قابلیت‘ استعداد و صلاحیت اور اہم خصوصیات کا سرمایہ موجود ہے‘ اس میں موجود قوت تحریک جو اسے کام اور فعالیت پر مجبور کرتی ہے‘ صرف اتنی نہیں جتنی حیوان میں ہوتی ہے۔

حیوان میں صرف وہ عزائز موجود ہیں‘ جو اسے صرف طبیعت اور مادی زندگی سے مربوط کرتی ہیں‘ لیکن انسان جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے‘ ایسی سرشت و جبلت کا مالک ہے‘ جو صرف اس دنیا کے مطابق نہیں بلکہ اس کی سطح بالا ہے‘ یعنی وہ جاوداں اور ابدیت کی سطح پر ہے۔

انسان میں عالی فکری تحریکات موجود ہیں‘ یعنی اس میں اخلاقی‘ علمی‘ ذوقی‘ مذہبی اور الٰہی فیض کے محرکات پائے جاتے ہیں‘ بہت سارے کام انسان ان چیزوں سے متاثر ہو کر کرتا ہے اور کبھی اپنی طبیعی‘ مادی اور حیوانی زندگی ان عالی اور انسانی اہداف پر قربان کر دیتا ہے۔

قرآن کی تعبیر کے مطابق انسان اپنے علمی نظام کو ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر قرار دیتا ہے اور اس نظام میں جاوداں زندگی اور خوشنودی خدا کا طالب ہوتا ہے۔

انسان میں جاوداں اور عظیم تصور بھی ہے اور اس کی خواہش و آرزو بھی اور ایسے عزائز بھی جو اس کو اسی طرف لے جاتے ہیں۔

یہ سب چیزیں دائمی اور جاوداں رہنے کی قابلیت اور استعداد کی حکایت کر رہی ہیں۔

دوسرے لفظوں میں یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مجرد اور غیر مادی روح کا مالک ہے۔

یہ سب امور انسان کو اس دنیا میں جنین کے حکم میں قرار دے رہے ہیں‘ جو رحم مادر میں کچھ خاص وسائل اور آلات و نظامات کا مالک ہوتا ہے‘ جیسے نظام تنفس‘ گردش خون‘ نظام اعصاب‘ بصارت و سماعت کا آلہ‘ نظام تناسل وغیرہ‘ یہ سب چیزیں رحم سے خارج ہونے کے بعد حیات دنیوی کے مطابق تو ہیں‘ لیکن رحم کے اندر کی نوماہی زندگی کے مطابق نہیں۔

یہ درست ہے کہ انسان دنیاوی زندگی میں نظام ایمان و عمل صلاح سے فائدہ اٹھاتا ہے‘ لیکن یہ فائدہ طفیلی ہے۔

"نظام ایمان و عمل صالح" ایک بیج کے حکم میں ہیں‘ جو ایک سعادت مندانہ جاوداں زندگی میں پرورش اور رشد کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ یعنی ایک ابدی زندگی کے لئے اور ایک ابدی زندگی میں ہی اس کے صحیح معنی اور مفہوم ہو سکتا ہے۔

انسان نہ صرف ایمان و عمل خیر کے نظام میں طبیعت سے بالاتر فضا میں پرواز کرتا ہے اور مادی تعلقات سے مافوق تخم پاشی کرتا ہے بلکہ نظام ایمان و عمل صالح کے مخالف نظام میں بھی جسے قرآن نظام کفر و فسق کہتا ہے‘ اس کے کام‘ طبیعت اور حیوانیت کے حدود سے ماوراء اور جسمانی ضروریات اور طبیعی تعلقات سے خارج ہوتے ہیں اور اس پر روحانی اور جاودانہ پہلو غالب آنے لگتا ہے‘ لیکن یہ انحراف کی صورت ہوتی ہے‘ اسی لئے وہ ایک قسم کی حیات جاوید کا مستحق تو ہو جاتا ہے‘ لیکن افسوس ہے‘ وہ اپنے لئے درد و رنج جمع کرتا ہے اور دینی اصطلاح میں وہ جہنم کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔

انسان ایسا نہیں کہ اگر ایمان و عمل صالح کے مدار میں حرکت نہ کرے‘ تو اپنے آپ کو حیوان کے مدار میں محدود کر دے بلکہ وہ صفر سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور قرآنی زبان میں "بل ھم اضل" یعنی حیوان سے بھی پست تر اور گمراہ تر ہو جاتا ہے۔

اب اگر ابدی زندگی کا تصور نہ ہو‘ تو پھر وہ انسان جو نظام ایمان و عمل صالح کے تحت چل رہے ہیں اور وہ انسان جو ایمان‘ عمل صالح کے مخالف نظام پر کاربند ہیں‘ ان شاگروں کی طرح ہوں گے کہ جن میں سے بعض نے اپنے کام کو احسن طریقے سے انجام دیا ہو اور بعض نے لہو و لعب میں وقت گذارا ہے‘ اب اگر استاد چاہے کہ سب کو نمبروں سے محروم کر دے‘ تو یہ محرومیت ظلم اور خلاف عدل ہو گی۔

اس مطلب کو سادہ الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ خدا نے لوگوں کو ایمان اور نیکیوں کی دعوت دی ہے‘ لوگ اس دعوت کی قبولیت کے لحاظ سے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ بعض نے اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے فکری‘ اخلاقی نظام اور اپنے عمل کو اس کے مطابق انجام دیا‘ بعض نے قبول نہ کیا اور بدکاری میں پڑ گئے۔

دوسری طرف سے اگر دیکھیں‘ تو اس دنیا کا نظام ایسا نہیں کہ نیک کام کرنے والے کو سو فیصد جزا اور بدکار کو سو فیصد سزا مل جائے‘ بلکہ بعض ایسے نیک کام کرنے والے ہیں‘ جو اس دنیا سے بغیر جزا چلے گئے ہیں‘ ایسے عالم کا وجود ضروری ہے‘ جہاں نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزا کامل طور پر اور بدکاروں کو بدی کی سزا مکمل طور پر ملے ورنہ یہ "عدل الٰہی" کے خلاف ہو گا۔

حکمت الٰہی

انسانوں کے کام دو قسم کے ہیں:

پہلا بلا فائدہ و عبث کام جس کا کوئی نتیجہ نہیں‘ یعنی ان کمالات تک پہنچانے میں جو ہماری استعداد میں ہیں‘ یہ موثر نہیں‘ دوسرے لفظوں میں ہمیں حقیقی سعادت تک پہنچانے میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

دوسرا عاقلانہ کام جس کے نتائج خوب اور مفید ہوتے ہیں اور ہمیں مطلوبہ کمال تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ پہلی قسم کو لغو و باطل و بلافائدہ کام کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کے کام کو حکیمانہ اور عاقلانہ کام کہا جاتا ہے۔

پس انسان کے حکیمانہ کام کا مطلب ایسے امور ہیں‘ جو ہمیں لائق کمال تک پہنچائیں۔ خداوند عالم کے حکیمانہ افعال کیا ہیں؟

کیا خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب وہ کام ہیں‘ جو اس کو کمال لائق تک لے جائیں اور اس کے کارعبث سے مراد وہ کام ہیں‘ جو اسے کمال تک نہ پہنچائیں؟

بالکل نہیں وہ غنی اور بے نیاز ہے‘ جو کام وہ کرتا ہے‘ وہ اس کا فضل‘ جود‘ بخشش اور عطا ہے۔ کوئی کام اس لئے نہیں کرتا کہ اپنی حاجت برطرف کرے یا اپنے آپ کو کمال اور سعادت تک پہنچائے۔

خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو کمال لائق تک پہنچائے۔ عبث کاموں کو خدا کی طرف نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو پیدا کرے‘ لیکن اس کو کمال لائق اور ممکن تک پہنچانے کا بندوبست نہ کرے‘ یہی وجہ ہے کہ حکمت خداوندی اور انسان کے حکیم ہونے کا مطلب جدا جدا ہے‘ انسان کو حکمت و دانائی کا مطلب عقل مندی اور کمال انسانی کے طریق میں قدم اٹھانا اور حکمت خداوندی کا مطلب مخلوقات کو کمال لائق تک پہنچانا ہے۔

دوسرے لفظوں میں حکمت خداوندی یعنی اشیاء کی ایسی خلقت جس کی اساس اور بنیاد انہیں غایت و کمال لائق تک لے جائے‘ چونکہ حکمت انسانی سے مراد انسان کو اس کے کمالات تک پہنچانے کے لئے کوئی کام انجام دینا ہے‘ لہٰذا ضروری نہیں کہ انسان جو کام انجام دے رہا ہے‘ اس کے اور اس کام کے نتیجے کے مابین حقیقی رابطہ موجود ہو‘ یعنی ضروری نہیں کہ اس کام کا فطری رخ اسی نتیجے کی طرف ہو اور وہ نتیجہ اس کام کا کمال شمار کیا جائے‘ جو چیز ضروری ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس کا کام نتیجہ انسان کے لئے کمال اور فائدہ مند شمار ہو‘ مثلاً انسان‘ مٹی‘ لکڑی‘ پتھر‘ دھات‘ کھال‘ روئی اور پشم سے مختلف قسم کے آلات بناتا ہے اور ان سے حکیمانہ نتیجہ حاصل کرتا ہے‘ مثلاً کرسی بناتا ہے‘ یا مکان بناتا ہے یا گاڑی بناتا ہے یا لباس بنتا ہے

کرسی‘ لکڑی کے لئے‘ مکان‘ پتھر‘ اینٹ‘ چونا اور لوہے کے لئے اور گاڑی مختلف دھاتوں کے لئے کمال شمار نہیں کئے جاتے اور یہ تمام مواد اس مخصوص شکل و صورت کے اختیار کرنے کے لئے حرکت نہیں کرتے‘ لیکن جو نتیجہ انسان ان سے حاصل کرتا ہے‘ جیسے کرسی پر بیٹھنا‘ مکان میں رہنا‘ گاڑی میں چلنا‘ لباس کا پہننا وغیرہ‘ انسان کے لئے ایک طرح کا کمال یا کم از کم فائدہ بخش اور مفید امر شمار ہوتا ہے‘ لیکن اللہ کے کاموں اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج میں حقیقی رابطہ ہوتا ہے‘ یعنی ہر کام کا نتیجہ اور آخری مقصد اس کام کے واقعی اور حقیقی کمال سے عبارت ہے۔ خداوند متعال اپنی مخلوق کو جو کہ اسی کا کام اور فعل ہے‘ اسی مخلوق کے کمال کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں‘ ہر بیج اور دانہ اپنے مقصد اور کمال کی جانب محو سفر ہے۔

قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ دنیا اور عالم طبیعت تو تغیر و تبدل اور عدم ثبات کے مساوی ہے‘ یعنی طبیعت میں جس بھی مقصد‘ ہدف اور منزل کو دیکھا جائے‘ وہ غیر ثابت اور تغیر و تبدل کی زد میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر چیز عبوری‘ غیر دائم اور ختم ہونے والی ہے‘ عالم طبیعت کے تمام مراحل "ایک منزل" کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جس کی خصوصیت راستے میں واع ہونا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مرحلہ آخری منزل اور ہدف و مقصد نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خلقت بے مقصد‘ بے ہدف اور عبث ہے‘ وہ کہتے ہیں‘ اس عالم کی مثال ایک قافلے کی مانند ہے‘ جو ہمیشہ حرکت میں ہے اور مختلف منزلیں تبدیل کرتا رہتا ہے اور کبھی اپنی حقیقی اور آخری منزل تک نہیں پہنچتا‘ اس کا ہدف اور مقصد راستے کی ایک منزل ہے‘ جس میں کچھ دیر رہنے کے بعد طبیعت اسے چھوڑ دیتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے‘ واضح امر ہے کہ ایک حرکت اور ایک سفر تبھی معنی اور مفہوم رکھتا ہے‘ جب اس کا کوئی انتہائی ہدف اور آخری مقصد بھی ہو‘ لیکن اگر تمام اہداف اور مقاصد راستے کی منزلیں ہوں اور سفر کر کے انتہائی مقصد تک پہنچنے کا تصور باقی نہ رہے‘ تو یہ سفر بے ہودہ‘ عبث اور بے فائدہ شمار ہو گا۔ اگر یہ قرار پا جائے کہ ہر ہستی کے پیچھے نیستی پوشیدہ ہو اور ہر آبادی اپنے بعد بربادی کا پیغام دے اور ہر منزل پر پہنچنا‘ اسے خالی کر کے دوبارہ آگے بڑھانے کے لئے ہو‘ پھر تو عالم کے نظام پر حاکم چیز مگر رات کے تکرار اور سرگردانی و حیرانی کے سوا کچھ نہیں‘ پس عالم ہستی کی بنیاد ہی کھوکھلی ہے۔

قرآن کا جواب یہ ہے کہ ہاں‘ اگر صرف طبیعت اور دنیا ہی ہوتی اور بس کچھ نہ ہوتا یا اگر پیدائش مرنے کے لئے‘ نشوونماء‘ سرسبز ہونے اور شادابی‘ زرد خشک اور پراگندہ ہونے کے لئے اور تمام نئی چیزیں قدیم ہونے کے لئے ہوتیں‘ تو پھر اعترا ض بجا تھا‘ مگر عالم ہستی کے بارے میں اس قسم کے نقطہ نظر کا سرچشمہ ناقص نظر ہے‘ اس نظریہ کی اساس یہ ہے کہ "ہستی کو دنیا اور طبیعت کے محدود قالب میں محضور سمجھا جائے‘ لیکن "ہستی" دنیا اور طبیعت میں محدود و محصور نہیں۔" دنیا روز اول ہے "روز اول کے بعد روز آخر کی باری ہوتی ہے‘ دنیا "جانا" ہے اور آخرت "پہنچنا"۔

علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

الدنیا دار مجار و الاخرة دار قرار

"دنیا گذرگاہ اور آخرت جائے قرار ہے۔"

آخرت ہی دنیا کو معنی دیتی ہے‘ کیونکہ مقصد ہی وہ چیز ہوتی ہے‘ جو حرکت و جستجو کو معنی اور مفہوم کا لباس پہناتی ہے۔

اگر جہان آخرت جو کہ دائمی عالم ہے‘ نہ ہوتا‘ تو اس دنیا کا کوئی مقصد اور منتہی نہ ہوتا‘ جسے حقیقتاً مقصد کہا جا سکتا‘ نہ منزل اور مرحلہ۔

گردش روزگار ایک قسم کی حیرت و سرگردانی کا نام ہوتا اور قرآن کی اصطلاح میں یہ خلقت و پیدائش "عبث"، "باطل" اور "لعب" ہوتی‘ لیکن انبیاء و مرسلین آئے تاکہ اس بنیادی غلطی سے روکیں اور ہمیں ایسی حقیقت سے آگاہ کریں کہ جس کے نہ جاننے سے "ہستی" ہماری نظر میں بے فائدہ اور بے معنی ہو جاتی ہے اور آفرینش کے بے فائدہ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں راسخ ہو جاتا ہے‘ ایسے تصور کے اثر و رسوخ سے خود ہم بھی ایک بے معنی‘ بے ہدف اور بے ہودہ مخلوق کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

عالم آخرت پر ایمان و اعتقاد کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ یہ ہمیں کھوکھلے پن اور بے معنی ہونے کے تصور سے نجات دیتا ہے۔ ہمیں اور ہمارے خیالات و تصورات اور ہماری "ہستی" کو معنی و مفہوم بخشتا ہے۔