تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78091
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78091 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۲۸،۲۹

( کیف تکفرون بالله وکنتم اموتاََ فاحیاکم ج ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیه ترجعون ) ۲۸ ۔

( هوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاََ ق چم استویٰ الی السماء فسوهن سبع سموت وهو بکل شیءِِ علیم ) ۲۹ ۔

ترجمہ :

۲۸ ۔ تم خداسے کیونکر کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہ تمہیں مارے گا اور دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا اس کے بعد اسی کی طرف لوٹ جاوگے (اس بناء پر نہ تمہاری زندگی تمہاری طرف سے ہے اور نہ موت جوکچھ تمہارے پاس ہے خداہی کی طرف سے ہے )

۲۹ ۔ وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانو ں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز سے

زندگی ایک اسرار آمیز نعمت ہے

مندر جہ بالا دو آیا ت میں قر آن نے نعمات الہی کے ایک سلسلے اورتعجب انگیز خلقت کا ذکر کے انسان کوپروردگار اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور خدا شناسی کے سلسلے میں جو دلائل گذشتہ آیات ( ۲۱ و ۲۲) میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کر رہاہے ۔

قرآن یہاں وجودخداکے اثبات کو ایسے نکتے سے شروع کر رہا ہے جس کاکو ئی انکار نہیں کرسکتااور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ ۔

پہلے کہتا ہے تم خداکا کس طرح انکار کرتے ہو حالا نکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بد ن پر زندگی کا لباس پہنایا( کیف تکفرون باالله وکنتم امواتاََفاحیاکم ) ۔

قرآن ہم سب کو یاددہانی کرواتا ہے کہ اس سے پہلے تم پتھروں ،لکڑیوں اور بے جا ن موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کاتمہارے کو چے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات وہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں ۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیاہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی ترددکے اعتراف کر تا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء اعالم وقادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموزاور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیں منظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں حیات وہستی بخشنے والے خداکاانکاکرتے ہیں ۔

آج کے زمانے میں تمام علماء ومحققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات وہستی سے زیادہ پیچیدہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجودجو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھو ں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسئلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاََانسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیاکوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہے ،اسرارانگیز ہے اور بہت زیادہ علم وقدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات وزندگی سے عاری ہے ۔

یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات وزندگی کا ظہو ر وجو دخدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس مو ضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔

قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلے کاسہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذرجاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہ موت ،قرآن کہتا ہے :پھر خدا تمہیں مارے گا( ثم یحییکم )

ا نسان دیکھتاہے کہ اس کے اعزاء واقربااور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے ۔یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی توہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیں د ی تھی ۔

زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲ میں ہے :

( الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاََ )

خداوہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیں حسن عمل کے میدان میں آزمائے ۔

قرآن نے وجود خدا پر ان دو و اضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسئلہ معاداور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے :اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا( ثم یحییکم ) ۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا)کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسئلے کو قبو ل کر نامشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل ومشکل کو ئی مفہوم نہیں رکھتا)۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں انسانوں کی زندگی میں شک اور تردد تھا حالانکہ پہلی زندگی جو بے جان مو جو دات سے صورت پذیر ہو ئی ہے اسے جانتے ہیں ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن آغاز سے اختتام تک دفتر حیات کو انسان کے سامنے کھولتاہے اورایک مختصرسے بیان میں زندگی کی ابتداء وانتہا ا ورمسئلہ معاد وقیامت کی اس کے سامنے تصویر کشی کرتا ہے ۔

اس آیت کے آخر میں کہتاہے :پھر اس کی طرف تمہاری باز گشت ہوگی (ثم الیه ترجعون )۔خداکی طرف رجوع کرنے کے معنی وہی خدا کی نعمتو ں کی طرف رجوع کرناہیں یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے والے دن کی نعمتوں کی طرف رجوع کروگے ۔اسکی شاہد سورہ انعام کی آیت ۳۶ ہے جہاں فرماتاہے ۔( والموتی یبعثهم الله ثم الیه یرجعون )

خدامردو ں کو قبروں سے اٹھائے گا اوراسی کی طرف ان کی بازگشت ہوگی ۔

ممکن ہے خداکی طرف رجوع کرنے سے مقصود کو ئی ایسی حقیقت ہو جو اس سے زیادہ دقیق وباریک ہواور وہ یہ کہ تما م مو جودات نے اپنا سفر نقطہ عدم جو نقطہ صفر ہے سے شروع کیاہے اور تمام موجودات سیرتکامل میں ہیں اور لامتناہی کیطر ف بڑھ رہے ہیں جوذات پروردگار ہے لہذا مرنے سے سیر تکامل کا سلسلہ معطل نہیں ہوتا اوردوسری مرتبہ قیامت میں زندگی کی زیادہ بلند سطح کی طرف یہ تکامل جاری وساری رہے گی۔

نعمت حیات اور مسئلہ مبداء و معاد کے ذکر کے بعد خدا ایک وسیع نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا وہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) اس تربیت سے انسانوں کی وجودی قدروقیمت اور زمین کے تمام موجودارت پر ان کی سرداری کو مشخص کیا گیا ہے۔اسی سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بہت بڑے قیمتی اور عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ تمام چیزوں کو تو اس کے لئے پیدا کیا ہے ۔اب اسے کس لئے پیدا کیا ہے۔انسان اس صحن عالم میں عالی ترین وجود ہے اور صحن عالم میں سب سے زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے۔

صرف یہی آیت نہیں جس مین انسان بلند ترین مقام کے بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات ملتی ہیں جو انسان کا تعارف تمامتر مو جودات کا مقصود ہ اصلی کی حیثیت سے کراتی ہیں جیسا کہ سورہ جاثیہ کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے :

( وسخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض )

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر قرار دیا ہے۔

دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل بیان ہوئی ہے :

( وسخرلکم الفلک و سخر لکم الانهار ) (۱) ( وسخر لکم اللیل والنهار ) (۲) ( وسخر البحر ) (۳) ( و سخر الشمس والقمر ) (۴)

کشتیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا دن اور رات کو تمہارے لئے مسخر کیا اور سمندروں کو مسخر کیا اور آفتاب و ماہتاب کو بھی تمہارا فرماں بردار اور خدمت گذار قرار دیا ۔(۵)

دوبارہ توحید کے دلائل کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہے :پھر خدا وند عالم آسمانوں ن کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانون کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے( ثم استوی الی السماء فسواهن سبع سمٰوٰت و هو بکل شیء علیم ) ۔

لفظ” استوی “مادہ “استواء“سے لیا گیا ہے لغت میں اس کے معنی ہیں احاطہ کامل ، تسلط اور خلقت وتدبیر پر مکمل قدرت۔لفظ”ثم“جملہ ”( ثم استوی الی السماء ) “ میں ضروری نہیں کہ تاخیر زمانی کے معنی میں ہو بلکہ ہوسکتا ہے اس کے معنی تاخیر بیان اور حقائق کو ایک دوسرئے کے بعد لانا ہو ۔

____________________

(۱)ابراہیم ، آیہ ۳۲

(۲)و ۴ ، ابراہیم ، آیہ ۳۳

(۳) نحل ، آیہ ۱۴

اس سلسلہ میں زیادہ تر بحث اسی تفسیر میں سورہ رعد آیہ ۲ اور سورہ ابراہیم آیات ۳۲ اور۳۳،میں کی گئی ہے ۔

( ۱) تناسخ ا ور ارواح کا پلٹ آنا

اوپر والی آیت ان میں سے ہے جو عقیدہ تناسخ کی صریحا نفی کرتی ہیں کیونکہ تناسخ کا عقیدہ رکھنے والوں کا خیال ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوسری دفعہ اسی زندگی کی طرف لوٹ آتا ہے البتہ ہوتا یہ ہے کہ اس کی روح دوسرے جسم اور دوسرے نطفے میں حلول کرکے نئے سرے سے اسی دنیا میں زندگی کا آگاز کرتی ہے اور ممکن ہے اسی سلسلہ کا بارہا تکرار ہو ۔اس جہان میں اس مکرر زندگی کو تناسخ یا عود ارواح کہتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیت صراحت سے بیان کرتی ہے کہ موت کے بعد ایک سے زیادہ زندگی نہیں ہے معلوم ہے کہ یہ حیات وہی معاد و قیامت کی حیات ہے ۔بہ الفاظ دیگر آیت کہتی ہے کہ مجموعی طور پر تمہاری دو زندگیاں اور دو اموات تھیں اور ہیں پہلے مردہ تھے ( بے جان عالم موجودات میں تھے ) خدا وندے عالم نے تمہیں زندہ کیا پھر وہ مارے گا اور دو بارہ زندہ کرے گا ۔ اگر تناسخ صحیح ہوتا تو انسان کی حیات اور موت کی تعداد دودو سے زیادہ ہوتی

یہی مضمون قرآن کی اور متعدد آیات میں بھی نظر آتا ہے جن کی طرف اپنی اپنی جگہ اشارہ ہوگا۔(۱)

اس بنا ء پر تناسخ کا عقیدہ جسے عود ارواح بھی کہا جاتا ہے قرآن کی نظر میں باطل اور بے اساس ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس روشن عقلی دلیلیں بھی موجود ہیں جو اس عقیدہ کی نفی کرتی ہیں جن سے یہ ایک قسم کا دقیانوسی اور قانون تکامل کی رجعت قہقری کا عقیدہ ثابت ہوتا ہے ۔ اس کے متعلق اس کی اپنی جگہ گفتگو کی گئی ہے(۲)

اس نکتے کا ذکر کرنابھی ضروری ہے کہ شاید بعض لوگ مندرجہ بالاآیت کوبرزخ کی زندگی کی طرف اشارہ قرار دیں حالانکہ آیت اس پرکسی طرح دلالت نہیں کرتی صرف اتنا کہتی ہے کہ پہلے تم بے جا ن جسم تھے خداوندعالم نے تمہیں پیدا کیادوبارہ وہ تمہیں مارے گا جو اشارہ ہے اس دنیا کی زندگی کے اختتام کی طرف پھر تمہیں زندہ کرے گا (یہ حیات آخرت کی طرف اشارہ ہے ) اور اسی کی طرف تم اپنی سیر تکامل جاری رکھوگے۔

____________________

(۱) موضوع رجعت کی وجہ سے اس مسئلے پر کو ئی اعتر ا ض نہیں ہو سکتا رجعت اول تو ایک مخصوص طبقہ کے لئے ہے اس میں عمومیت نہیں ہے جب کہ زیر نظرآیت ایک حکم کلی بیان کررہی ہے پھر نتائج میں اجسام اور ان کے اجزاء الگ الگ ہوتے ہیں جب کہ رجعت میں ایسا نہیں ہے ۔

(۲) کتاب ”عود ارواح و ارتباط ارواح“کیطرف رجوع فرمائیں

( ۲ ) سات آسمان:

لفظ”سما“لغت میں ”اوپر“کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور ایک جامع مفہوم جس کے مختلف مصادیق ہیں لہذاہم دیکھتے ہیں کہ یہ لفظ قرآن میں گوناگوں موقعوں پر صرف ہوا ہے

( ۱) کبھی زمین کے پڑوس میں ”اوپر “والی جہت پر بولا جاتا ہے جیسے کہ ارشاد ہے :

( الم ترکیف ضرب الله مثلاََکلمة طیبةکشجرةطیبة اصلها ثابت وفرعها فی السمائ )

کیا تو نے دیکھانہیں کہ خد اوندعالم نے پاک گفتگوکوکس طرح ایک ایسے پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے

جس کی جڑیں مضبوط وثابت ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں ۔ ( ابراہیم ۔ ۲۴)

(اا) کبھی لفظ”سماء “سطح زمین سے بہت دور (بادلو ں کی جگہ )کے لئے بولاجاتا ہے ۔جیسے کہ فرمایا:

( ونزلنامن السمآء مآء مبارکا )

ہم آسمان سے برکتوں والاپانی ناز ل کر تے ہیں (ق۔ ۹)

(ااا) کبھی اطراف زمین کی ہوا ئے متراکم کی جلد کو آسمان کہا جاتا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

( وجعلناالسماء سقفا محفوضا ) ہم نے آسمان کو محکم ومضبوط چھت قرار دیاہے (انبیاء ۳۲)

یہ اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین کی فضا جو چھت کی طرح ہمارے سروں پر بر قرار ہے وہ اتنی مضبو ط ہے کہ کرہ ارض کو آسمانی پتھروں کے گرنے سے محفوظ رکھتی ہے ۔یہ پتھر جو مسلسل شب وروز کششِ زمین کے مرکزمیں آتے ہیں اور اس کی طرف کھچے آتے ہیں اگر ہوائے متراکم کی جلدنہ ہوتوہمیشہ ان خطرناک پتھروں کی زدمیں رہیں لیکن اس جلدکاوجود اس بات کاسبب بنتاہے کہ یہ پتھر فضائے زمین ہی میں جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں ۔

اور کبھی اوپر کے کروں کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتاہے :( ثم استوی الی السماء وهی دخان )

پھروہ آسمان کی طرف متوجہ ہو اجب کہ وہ دھواں اوربخارات تھے پہلی گیس سے کرات کو پیدا کیا ۔(فصلت ،اا)(حم سجدہ)اب ا صل بات کی طرف لوٹے ہیں کہ سات آسمانوں سے کیا مراد ہے ۔اس سلسلے میں مفسرین اور علماء اسلام کے گوناگوں بیانات اور مختلف تفاسیر ہیں ۔

( ۱) بعض سات آسمانوں سے وہی سبع سیارات (سات ستارے (یعنی عطارد،زہرہ ،مریخ ،مشتری ،زحل ،چاند اور سورج ) مراد لے تے ہیں ۔علماء ہئیت قدیم کے نزدیک چاند اور سورج بھی سیارات میں داخل تھے۔(۱)

(۲)بعض علماء نے نظام شمسی کے دس کرات (نو سیارے مشہور ہیں ایک اورسیارہ بھی ہے جو مریخ اور مشتری کے درمیان تھا لیکن وہ منتشر ہوگیا اس کا کچھ حصہ اسی طرح اسی مدار زمیں محو گر دش ہے)کو دو حصوں تقسیم کیا ہے ایک گروہ وہ ہے جو مدار زمین میں گردش کر ر ہے ہیں (جن میں عطارد اور زہرہ شامل ہیں )اور ایک گروہ مدار زمین سے باہر اور اس کے اوپر کی طرف ہے ۔شاید اسی تفسیر سے یہی باہر کے سات سیارے مراد ہیں ۔

(ب)بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد زمین کے گرد ہو ائے متراکم کے طبقات ہیں اوروہ مختلف تہیں جو ایک دوسرے کے ا و پر ہیں ۔

(ج)بعض کہتے ہیں یہاں سات کا عدد تعدادی عدد(عدد مخصوص )کے معنی میں نہیں بلکہ عدد تکثیری ہے جس کے معنیٰ ہیں زیادہ اور تعداد فراواں ،کلام عرب اور خود قرآن میں کئی جگہ اس کی نظیریں موجودہیں مثلاََ سورہ لقمان آیت ۲۷ میں ہے :( ولوان ما فی الارض من شجرةاقلام والبحر یمده من بعده سبعةابحر ما نفدت کلمت الله )

اگر زمین کے درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی بن جائیں اور سات سمندر مزید مل جائیں تو بھی کلمات خدا کو لکھا نہیں جاسکتا ۔بالکل واضح ہے کہ سات آیت میں سات سے مراد عدد مخصوص سات نہیں بلکہ اگر ہزار سمندر بھی سیاہی بن جائیں تو اس سے خدا کے لاماتناہی علم کو نہیں لکھا جاسکتا ۔اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ سات آسمانوں سے متعدد آسمان اور عالم بالاکے بہت سے کرات مراد ہیں اوراس سے کو ئی عدد مخصوص مراد نہیں ۔

(د) جو بات زیادہ صحیح دکھا ئی دیتی ہے وہ یہ کہ”سمو ات سبع “سے مرادآسمان ہی ہے جواس کے حقیقی معنی ہیں ۔مختلف آیات ِقرآن میں اس عبارت کاتکرار ظاہر کرتا ہے کہ سات کاعدد یہاں کثرت کے معنی میں نہیں بلکہ کسی خاص عدد کی طرف اشارہ ہے البتہ آیات ِ قرآن سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ تمام کرات ،ثوابت اور سیارات جو ہم دیکھ رہے ہیں پہلے آسمان کا جزء ہیں اور چھ عالم اس کے علاوہ موجود ہیں جو ہماری نگاہ اور آج کے علمی آلات کی دسترس سے باہر ہیں اور مجموعی طور پرسات آسمانوں سے سات عالم تشکیل پذیر ہیں قرآن اس گفتگوکا شاہدہے :( وزیناالسماء الدنیابمصابیح ) ہم نے نچلے آسمان کو ستاروں کے چراغوں سے سجایا۔(فصلت ، ۱۲)

دوسری جگہ پر یوں ہے۔( انا زیناالسماء الدنیابزینة ن الکواکب )

یقناََ ہم نے نچلے آسما ن کو ستاروں سے زینت بخشی(الصفت ۔ ۶) ان آیات سے واضح ہو تا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں ۔جسے ستاروں کی دنیا کہتے ہیں سب آسمان اول ہے اسکے علاوہ چھ آسمان اور موجود ہیں جن کی جزئیات کے متعلق ہمیں کوئی اطلاع نہیں ۔یہ جو کچھ ہم نے کہاہے کہ چھ اور آسمان ہیں جو ہمارے لئے مجہول ہیں اور ممکن ہے کہ آئند ہ علوم ان سے پر دہ اٹھائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے ناقص علوم جتنے آ گے بڑھتے ہیں خلقت کے نئے عجائبات تک دسترس حاصل کر تے ہیں مثلاََ علم ہیئت ابھی وہاں تک پہنچا ہے جہاں سے آگے ٹیلی سکوپ telescope) دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔بڑی بڑی رصد گاہو ں کے انکشافات ایک عرب نوری سال کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں اور سائنس دان معترف ہیں کہ یہ تو آغاز عالم ہے اختتام نہیں لہذا اس میں کیا مانع ہے کہ آئندہ علم ہیئت کی ترقی سے مزید آسمان ،کہکشاں ئیں اور دوسرے عوالم کا انکشاف ہوجائے ۔بہتر ہے کہ گفتگودنیا کی بہت بڑی رصد گا ہ سے سنی جائے ۔

( ۳) عظمت کا ئنات:

پالو مار کی رصدگاہ نے جہانِ بالا کی اس طرح تو صیف کی ہے :

”جب تک پالو مار کی رصد گاہ کی دور بین نہیں بنی تھی دنیا کی وسعت جو ہمیں نظر آتی تھی پانچ سو نوری سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اب اس دوربین نے ہماری دنیا کی وسعت ایک عرب نوری سال تک پہنچا دی ہے اس کے نتیجے میں کئی ملین نئی کہکشاؤں کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے بعض ہم سے ایک عرب نوری سال کے فاصلہ پرواقع ہیں لیکن ایک عرب نوری سال کے فاصلہ کے بعد ایک عظیم مہیب اور تاریک فضا نظر آتی ہے جس کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی یعنی روشنی وہاں سے عبور نہیں کرسکتی کہ رصدگاہ کی دوربین کے صفحہ عکاسی کو متاثر کرے لیکن بلاشک اس مہیب و تاریک فضا میں کئی سو ملین کہکشائیں موجود ہیں لیکن ہماری دنیا ان کہکشاؤں کی کشش سے محفوظ ہے۔

یہ عظیم دنیا جو نظر آرہی ہے جس میں کئی سو ملین کہکشائیں موجود ہیں ایک عظیم تر جہان کا چھوٹا سا ذرہ بے مقدار ہے اور ابھی ہم یقین سے نہیں کہ سکتے کہ اس دوسری دنیا کے اوپر بھی کوئی اور دنیا ہے “(۱)

اس گفتگو سے واضح طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیائے علم آسمانوں کے بارے میں اپنی حیرت انگیز ترقی کے باوجود اپنے انکشافات کو آغاز جہاں سمجھتی ہے نہ کہ اس کا اختتام بلکہ ایک عظیم جہان کے مقابلے میں اسے ایک چھوٹا سا ذرہ خیال کرتی ہے۔

____________________

(۱)مجلہ فضا ”شمارہ فروردین ۲۳۵۱ہجریشمسی

آیات ۳۰،۳۱،۳۲،۳۳

( واذ قال ربک للملائکة انی جاعل فی الار خلیفة ط قا لوااتجعل فیها ویفسد فیها ویسفک الدماء ج ونحن نسبح بحمدک و نقدس لک ط قال انی اعلم مالا تعلمون ) ۳۰ ۔

( وعلم آدم الاسماء کلها ثم عرضهم علی الملائکة فقالا انبئونی باسماء هٰولاء ان کنتم صٰدقین ) ۳۱ ۔(

قالو ا سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا ط انک انت العلیم الحکیم ) ۳۲

( قال یاٰدم انبئهم باسمائهم ج فلما انبائهم باسمائهم قال الم اقل لکم انی اعلم غیب السماوات والارض واعلم ما تبدو ن وماکنتم تکتمون ) ۳ ۳۔

ترجمہ

۳۰ ۔جب آپ کے پروردگار نے فرشتو ں سے کہا کہ میں روئے زمین پرایک جانشین اور حاکم مقرر کر نے لگا ہوں تو فرشتوں نے کہا (پروردگارا ) کیا ایسے شخص کو مقرر کرے گا جو زمین پر فساد اور خونریزی کرے گا ( کیوں آدم سے پہلے زمین کے دوسرے موجودات جو عالم وجود میں آچکے ہیں ان کی طبیعت اور مزاج جہان مادہ کے حکم کا پابند ہے لہذا وہ فساد اور خونریزی کے گناہ ہی میں مبتلا تھے لیکن خلقت انسان کا مقصد اگر عبادت ہے تو ) ہم تیری تسبیح اور حمد بجالا تے ہیں ( اس پر پروردگار عالم نے فرمایا : میں حق کو جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔

۳۱ ۔ پھر علم اسماء ( علم اسرار خلقت اور موجودات کے نام رکھنے کا علم )سب کا سب آدم کو سکھایا پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا : اگر سچ کہتے ہو تو بتاؤ ان کے نام کیا ہیں ۔

۳۲ ۔ فرشتوں نے کہا تو پاک و منزہ ہے جو تو نے ہمیں تعلیم دی ہے ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو حکیم ودانا ہے ۔

۳۳ ۔ فرمایا : اے آدم -انہیں ان ( موجودات ) کے ناموں اور اسرار ) سے آگاہ کردے جب اس نے انہیں آگاہ کردیا تو خدا نے فرمایا : میں نہ کہتا تھا کہ میں آسمان اور زمین کا غیب جانتا ہوں اور تم جن چیزوں کو ظاہر کرتے اور چھپاتے ہو انہیں بھی جانتا ہوں ۔

انسان زمین میں خدا کا نمائندہ

گذشتہ آیات میں پڑھ چکے ہیں کہ خدا نے زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور ان آیات میں رسمی طور پر انسان کی رہبری اور خلا فت کی تشریع کی گئی ہے اور اس روحانی حیثیت کو واضح کیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تمام احسانات کے لائق تھا

ان آیات میں آدم ( پہلے انسان ) کی خلقت کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اور آیات کے اس سلسلہ میں جو آیہ ۳۰ سے شروع ہو کر ۳۹ تک پہنچتا ہے تین بنیادی مسائل کو بیان کیا گیا ہے ؛

( ۱) پروردگار عالم کا فرشتوں کو زمین میں انسان کی خلافت و سرپرستی کے بارے میں خبر دینا اور وہ گفتگو جو فرشتوں نے اس سلسلے میں خدا سے کی ۔

( ۲) پہلے انسان کے لئے فرشتوں کو خضوع و تعظیم کا حکم جس کا ذکر مختلف مناسبات سے قرآن کی مختلف آیات میں کیا گیا ہے ۔

( ۳) بہشت میں آدم کی کیفیت اور رہنے کی تشریع ، وہ حوادث جو جنت سے ان کے نکلنے کا سبب بنے ، آدم کا توبہ کرنا اور پھر آدم اور اولاد آدم کا زمین میں آکر آباد ہونا ۔

زیر بحث آیات ان میں سے پہلی منزل کی بات کرتی ہیں ۔ خدا کی خواہش یہ تھی کہ روئے زمین پر ایک ایسا موجود خلق فرمائے جو اس کا نمائندہ ہو، اس کی صفات صفات خداوندی کاپرتو ہوں اور اس کا مرتبہ و مقام فرشتوں سے بالا تر ہو ،۔ خدا کی خو اہش اور ارادہ یہ تھا کہ ساری زمین اور اس کی نعمتیں ، تمام قوتیں سب خزانے ، تمام کانیں اور سارے وسائل بھی اس کے سپرد کردیئے جائیں ۔ ضروری ہے کہ ایسا شخص عقل وشعور ، ادراک کے وافر حصے استعداد کا حامل ہو جس کی بناء پر موجودات ارضی کی رہبری اور پیشوائی کا منصب سنبھال سکے۔

یہ وجہ ہے کہ پہلی آیت کہتی ہے یاد کریں اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں روئے زمین پر جانشین مقرر کرنے والا ہوں( واذ قال ربک للملٰکة انی جاعل فی الارض خلیفة ) ۔

”خلیفة کے معنی ہیں جانشین ۔ لیکن یہاں اس سے کس کا جانشین مراد ہے اور کس چیز میں جانشین ہے ، مفسرین نے اس کی مختلف تفسیریں کی ہیں :

بعض کہتے ہیں انسان یا اور موجودات کا جانشین جو زمین میں پہلے زندگی گذارتے تھے ۔

بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ انسان کی دوسری نسلیں ایک دوسرے کا جانشین ہوں گی ۔

لیکن انصاف یہ ہے جسے بہت سے محققین نے بھی قبول کیا ہے کہ اس سے مراد خلافت الہی اور زمین میں خدا کی نمائندگی ہے کیونکہ اس کے بعد فرشتوں کا سوال اور ان کا کہنا کہ ممکن ہے نسل آدم مبداء فساد و خونریزی ہو جب کہ ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اسی معنی سے مناسبت رکھتا ہے کیونکہ زمیں میں خداکی نمائندگی ان کاموں کے ساتھ سازگار نہیں ۔

اسی طرح آدم کو ”اسماء“ کی تعلیم دینا جس کی تفصیل بعد میں آئے گی اس دعوے پر ایک او رواضح قرینہ ہے اور آدم کے سامنے سجدہ بھی اسی مقصد کا شاہد ہے۔

بہر حال خد ا چاہتا تھا کہ ایسے وجود کو پیدا کرے جو عالم وجود کا گلدستہ ہو اور خلافت الہی کے مقام کی اہلیت رکھتا ہو اور زمین میں اللہ کا نمائندہ ہو ۔

ان آیات کی تفسیر میں ایک حدیث جو امام صادق سے مروی ہے وہ بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ فرشتے مقام آدم پہچاننے کے بعد سمجھ گئے کہ آدم اور ان کی اولاد زیادہ حقدار ہیں کہ وہ روئے زمین میں خلفاء الہی ہوں اور مخلوق پر ان کی حجت ہوں ۔(۱)

زیر بحث آیت مزید بیان کرتی ہے کہ فرشتوں نے حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے نہ کہ اعتراض کی غرض سے عرض کیا : کیا زمین میں اسے (جانشین ) قرار دے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا( قالو اتجعل فیها من یفسد فیها ویسفک الدماء ) جبکہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں ، تیری تسبیح و حمد کرتے ہیں اور جس چیز کی تیری ذات لائق نہیں اس سے تجھے پاک سمجھتے ہیں( ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک ) ۔

مگر یہاں خدا نے انہیں سربستہ و مجمل جواب دیا جس کی وضاحت کے بعد کے مراحل میں آشکار ہوئی فرمایا : میں ایسی چیزوں کو جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے( قال انی اعلم مالا تعلمون ) ۔

جیسے کہ ان کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے سمجھ گئے تھے کہ یہ انسان سربراہی نہیں بلکہ فساد کرے گا ، خون بہائے گا اور خرابیاں کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کس طرح سمجھے تھے۔

بعض کہتے ہیں خدا نے انسان کے آئندہ حالات بطور اجمال انہیں بتائے تھے جب کہ بعض کا احتمال ہے کہ ملائکہ اس مطلب کو لفظ فی الارض (زمین میں ) سے سمجھ گئے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے انسان مٹی سے پیدا ہوگا اور مادہ اپنی محدودیت کی وجہ سے طبعا مرکز نزاع و تزاحم ہے کیونکہ محدود مادی زمانہ انسانوں کی طبعیت کو سیر و سیراب نہیں کرسکتا جو زیادہ کی طلب رکھتی ہے یہاں تک کہ اگر ساری دنیا ایک فرد کو دے دی جائے تو ممکن ہے وہ پھر بھی سیر نہ ہو اگر کافی احساس ذمہ داری نہ ہو تو یہ کیفیت فساد اور خونریزی کا سبب بنتی ہے۔

بعض دوسر ے مفسرین معتقد ہیں کہ فرشتوں کی پیشین گوئی اس وجہ سے تھی ک آدم روئے زمین کی پہلی مخلوق نہیں تھا بلکہ اس سے قبل بھی دیگر مخلوقات تھیں جنہوں نے نزاع ، جھگڑا اور خونریزی کی تھی ۔ان سے پہلے کی مخلوق کی بری فائل نسل آدم کے بارے میں فرشتوں کی بد گمانی کا باعث بنی۔

یہ تین تفاسیر ایک دوسرے سے کچھ ز یاد ہ اختلاف نہیں رکھتیں یعنی ممکن ہے یہ تمام امور فرشتوں کی اس توجہ کا سبب بنے ہوں اور در اصل یہ ایک حقیقت بھی تھی جسے انہوں نے بیان کیا تھا یہ وجہ ہے کہ خدا نے جواب میں کہیں بھی اس کا انکار نہیں کیا بلکہ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ ایسی مزید حقیقتیں انسان اوراس کے مقام کے بارے میں موجود ہیں جن سے فرشتے آگاہ نہیں تھے

۔فرشتے سمھتے تھے اگر مقصد عبودیت اوربندگی ہے تو ہم اس کے مصداق کامل ہیں ہمیشہ عبادت میں ڈوبے رہتے ہیں لہٰذاسب سے زیادہ ہم خلافت کے لائق ہیں لیکن وہ اس سے بے خبر تھے کہ ان کے وجود میں شہوت و غضب اور قسم قسم کی خواہشات موجود نہیں جب کہ انسان کو میلانات و شہوات نے گھیر رکھا ہے اور شیطان ہر طرف سے اسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے لہذا ان کی عبادت انسان کی عبادت سے بہت زیادہ تفاوت رکھتی ہے ۔ کہاں اطاعت اور فرمانبرداری ایک طوفان زدہ کی اور کہاں عبادت ان ساحل نشینوں کی جو مطمئن ، خالی ہاتھ اور سبک بار ہیں ۔

انہیں کب معلوم تھا کہ آدم کی نسل سے محمد ، ابراہیم ،نوح ، موسیٰ اور عیسی ٰ علیھم السلام جیسے انبیاء اور ائمہ اہل بیت جیسے امام اور صالح بندے اور جانباز شہید مرد اور عورتیں عرصہ وجود میں قدم رکھیں گے جو پروانہ وار اپنے آپ کو خدا کی راہ میں پیش کریں گے ۔ ایسے افراد جن کے غور و فکر کی ایک گھڑی فرشتون کی سالہا سال کی عبادت کے برابر ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ فرشتوں نے اپنی صفات کے بارے میں تین چیزوں کا سہارا لیا تسبیح ، حمد اور تقدیس ۔ اس میں شک نہیں کہ تسبیح اور حمد کے معنی ہیں خدا کو ہر قسم کے نقس سے پاک اور ہر قسم کے کمال کا اہل سمجھنا لیکن کہ تقدیس سے کیا مقصود ہے۔

بعض نے تقدیس کے معنی ” پروردگار کو ہر قسم کے نقصان سے پاک شمار کرنا “ بیان کئے ہیں جو کہ در اصل تسبیح کے معنی کی تاکید ہے ۔

لیکن بعض معتقد ہیں کہ تقدیس مادہ ” قدس “ سے ہے جس کے معنی ہیں روئے زمین کو فاسد اور مفسد لوگوں سے پاک کرنا یا اپنے آپ کو ہر قسم کی بری اور مزموم صفات سے پاک کرنا اور جسم وجان کو خدا کے لئے پاک کرنا لفظ” لک “کو جملہ”نقدس لک “ میں اس مقصود کے لئے شاہد قرار دیتے ہیں کیونکہ فرشتوں نے یہ نہیں کہا کہ ”نقدسک “ یعنی ہم تجھے پاک سمجھیں گے بلکہ انہوں نے کہا ”نقدس لک “ یعنی تیرے لئے معاشرے کو پاک کریں گے ۔

در حقیقت وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ہدف اور غرض ، اطاعت اور بندگی ہے تو ہم فرمانبردار ہیں اور اگر عبادت ہے تو ہم ہر وقت اس میں مشغول ہیں اور اگر اپنے آپ کو پاک رکھنا یا صفحہ ارضی کو پاک رکھنا ہے تو ہم ایسا کریں گے جب کہ یہ مادی انسان خود بھی فاسد ہے اور روئے زمین کو بھی فاسد کردے گا ۔

حقائق کو تفصیل سے ان کے سامنے واضح کرنے کے لئے خدا وندے عالم نے ان کی آزمائش کے لئے اقدام کیا تاکہ وہ خود اعتراف کریں کہ ان کے اور اولاد آدم کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے ۔

____________________

۱معانی الاخبار بحوالہ المیزان ، جلد ۱ ، ص ۱۲۱ ۔ اس حدیث سے اگرچہ زیادہ تر انبیاء اور ائمہ کا مقام ظاہر ہوتا ہے لیکن معلوم ہے کہ یہ انہی میں منحصر نہیں وہ تو اس موضوع کے اتم و اکمل مصداق ہیں ۔