تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78184
ڈاؤنلوڈ: 5021


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78184 / ڈاؤنلوڈ: 5021
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

( ۵) خدا نے شیطان کو کیو ں پیدا کیا ہے :

بہت سے لوگ پو چھتے ہیں کہ شیطان جس کا کا م ہی گمرا ہی کر نا ہے آخر اسے کیو ں پیدا کیا گیا اور اس کے وجود کا فلسفہ کیاہے ۔اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں ۔

اول تو خدانے شیطان کو شیطان نہیں پیدا کیا یہی وجہ ہے سالہاسال تک وہ ملائکہ کا ہم نشین رہا اور پاک فطرت پر رہا لیکن پھر اس نے اپنی آز اد ی سے غلط فائد ہ اٹھا یااور بغاوت وسرکشی کی بنیا د ر کھی لہٰذ ا وہ ابتداء میں پاک وپاکیزہ پیدا کیاگیا اس کی کجروی اس کی اپنی خواہش پر ہوئی ۔

دوم یہ کہ نظام خلقت کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صاحبان ایمان اور وہ لوگ جو راہ حق پر گامزن رہنا چاہتے ہیں ان کے لئے نہ صرف یہ کہ شیطان کا وجود مضر اور نقصان دہ نہیں بلکہ ان کی پیش رفت اور تکامل کاذریعہ ہے ۔کیو نکہ ترقی اور کمال ہمیشہ متضاد چیزوں کے درمیان ہی صورت پذیر ہو تے ہیں ۔

زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک انسا ن طاقت ور دشمن کے مقابلے میں کھڑا نہ ہوکبھی بھی اپنی قوت واستعداد اور مہارت کو پیش نہیں کرسکتا اور نہ اسے کا م میں لا سکتا ہے یہی طا قت ور دشمن کا وجود انسان کے زیادہ تحرک اور جنبش کا سبب بنتا ہے اوراس کے نتیجے میں اسے ترقی اور کمال نصیب ہو تا ہے

معاصرین میں سے ایک بہت بڑا فلسفی “ٹو آئن بی “کہتاہے

”دنیا میں کو ئی رو شن تمدن اس وقت تک پیدانہیں ہوا جب تک کو ئی ملت کسی خارجی طاقت کے حملے کا شکار نہیں ہوئی ۔اس حملے اور یلغا ر کے مقابلے میں وہ اپنی مہارت اور ااستعداد کو بروئے کار لائی اور پھر کسی درخشاں تمدن کی د ا غ بیل پڑی ۔“

آیات ۳۷،۳۸،۳۹

( فتلقی یاٰآدم من ربه کلمٰت فتاب علیه ط انه هواتواب الرحیم ) ۳۷ ۔

( قلنااهبطوامنهاجمیعاََ فاما یا تینکم منی هدی فمن تبع هدای فلا خوف علیهم ولاهم یحزنون ) ۳۶ ۔

( والذین کفرو اوکذبواباٰیاٰتنااولٰئک اصحٰب النار جهم فیها خٰلدون ) ۳۹ ۔

ترجمہ

۳۷ ۔پھر آدم نے اپنے پر ودگا ر سے کچھ کلمات حا صل کئے اور (ان کے ذریعہ)توبہ کی اور خدا وندعالم نے ان توبہ قبو ل کرلی ،خداوند عالم تواب اور رحیم ہے ۔

۳۸ ۔ہم نے کہا سب کے سب(زمین کی طرف )اتر جاو ۔جس وقت میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے گی اس وقت جولوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے ۔

۳۹ ۔اورجو لوگ کافر ہو جائیں گے اور ہمار ی آیات کی تکذیب کریں وہ اہل دوزخ ہیں اور ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔

خدا کی طرف آدم کی بازگشت

وسوسہ ابلیس اور آدم کے جنت سے نکلنے کے حکم جیسے و اقعات کے بعدآدم متوجہ ہوئے کہ واقعاََ انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور اس اطمینان بخش اور نعمتوں سے مالامال جنت سے شیطانی فریب کی وجہ سے نکلنا پڑ ااور اب زحمت اور مشقت سے بھری ہوئی زمین میں رہیں گے ۔اس وقت آدم اپنی غلطی کی تلافی کی فکر میں پڑے اور مکمل جا ن ودل سے پروردگار کی طرف متوجہ ہوئے ا یسی توجہ جو ندامت وحسرت کاایک پہاڑ ساتھ لئے ہوئے تھی ۔اس وقت خداکا لطف وکرم بھی ان کی مدد کے لئے آگے بڑھا اور جیسا کہ قرآن مندرجہ بالا آیات میں کہتا ہے : آدم نے اپنے پرور دگار سے کچھ کلمات حاصل کئے جو بہت مو‌ ثر اور انقلاب خیز ان کے ساتھ توبہ کی اور خدا نے بھی ان کی توبہ قبول کرلی( فتلقیٰ آدم من ربه کلمات فتاب علیه ) کیونکہ وہ تواب اور رحیم ہے

” توبہ“کے اصلی معنی ہیں ”باز گشت “اور قر آن کی زبان میں گناہ سے واپسی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔یہ اس صورت میں ہے جب توبہ کا لفظ کسی شخص گنہگار کے لئے استعمال کیا جائے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ اللہ کی طرف بھی منسوب ہوتاہے وہاں اس کا مفہو م ہے رحمت کی طرف بازگشت ،یعنی وہ رحمت جو ارتکاب گناہ کی وجہ سے بندے سے سلب کرلی گئی تھی ۔اب اطاعت وبندگی کے راستے کی طرف اس کی واپسی کی وجہ سے اسے لوٹا دی جاتی ہے ا سی لئے خدا کے لئے تواب (بہت زیادہ رحمت کی طرف لوٹنے والا )کا لفظ استعمال کیا جا تا ہے ۔

بہ الفاط دیگر توبہ خدا اور بندے کے درمیان ایک لفظ مشترک ہے ۔جب یہ صفت بندوں کے لئے ہو تو اس کامفہو م ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف پلٹتے ہیں کیونکہ ہر گنا ہ کرنے والا در اصل اپنے پر وردگار سے بھا گتا ہے اور پھر جب وہ توبہ کرتا ہے تو اس کی طرف لوٹ آتا ہے ۔گناہ کے وقت خدا بھی ان سے منہ موڑ لیتا ہے اور جب یہ صفت خد اکے لئے استعمال ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ وہ ا پنے لطف ، ورحمت اور محبت کی نظر ان کی طرف لوٹادیتا ہے(۱)

یہ صحیح ہے کہ حضرت آدم نے حقیقت میں کوئی فعل حرا انجام نہیں دیاتھا لیکن یہی ترک ِاولی ٰان کے لئے نافرمانی شمار ہوتا ہے ۔وہ حضرت فوراََاپنی کیفیت وحالت کی طرف متوجہ ہوئے اور اپنے پروردگار کی طرف پلٹے ۔

”کلمات“سے کیا مراد ہے ،اس کے بارے میں اس بحث کے اختتام پر گفتگو کریں گے۔

بہر حال جو کچھ نہیں ہونا چاہیئے تھا وہ ہوا اور با وجودیکہ آدم کی تو بہ قبو ل ہوگئی لیکن اس کا اثر وضعی یعنی زمین کی طرف اتر نایہ متغیر نہ ہوا ۔جیسا کہ مندر جہ بالا آیا ت کہتی ہیں :ہم نے ان سے کہا کہ تم سب (آدم وحوا )زمین کی طرف اتر جاو ۔جب تمہیں ہماری طرف سے ہدایت پہنچے اس وقت جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے لئے خوف ہے نہ وہ غمگین ہو ں گے( وقلنا اهبطوامنها جمیعاِِ فاما یا تینکم منی هدی فمن اتبع هدای ولا خوف علیهم فلا هم یحزنون ) ۔

لیکن جو لوگ کافر ہو گئے اور انہونے ہماری آیات کی تکذیب کی وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہیں گے( والذین کفرواوکذبوا باٰیاٰتنااولٰئک اصحاب النارهم فیها خٰلدون )

____________________

(۱) یہی وجہ ہے کہ لفظ توبہ جب بندے کی طرف منسوب ہوتو لفظ ”الی “آتا ہے اور خدا کی طرف منسو ب ہو تو ”علی “آتا ہے ۔پہلی صورت میں ” تاب الیہ“اور دوسری صورت میں ”تاب علیہ “کہا جا تا ہے (تفسیر کبیر اور تفسیر صافی زیر نظر آیت کے ذیل میں )

( ۱) خدانے جو کلما ت آدم پر القا کئے وہ کیا تھے :

توبہ کے لئے جو کلمات خدا نے آدم کو تعلیم فرمائے تھے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان ا ختلا ف ہے

مشہور ہے کہ وہ جملے یہ تھے جو سورہ اعراف آیہ ۲۳ میں ہیں :

( قالا ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنالنکونن من الخاسرین )

ان دونو ں نے کہا خدایا!ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ا گر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم زیاکاروں اور خسارے میں رہنے والو ں میں سے ہو جائیں گے ۔

بعض کہتے ہیں کلمات سے مراد یہ دعا وزاری تھی :

اللهم لاالٰه الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفر لی انک خیر الغافرین

اللهم لاالٰه الا انت سبحٰنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین

اللهم لاالٰه الا انت سبحنک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم ۔

پرور دگارا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں ،تو پاک ومنزہ ہے میں تیری تعریف کرتا ہوں میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے کہ تو بہترین بخشنے والا ہے

خدایا !تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ، توپاک ومنزہ ہے ،میں تیری تعریف کر تا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ،تو مجھ پر رحم فرما کہ تو بہترین رحم کر نے والاہے

بارالٰہا !تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ومنزہ ہے میں تیری حمد کرتا ہوں ،میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اپنی رحمت کو میرے شامل حال قرار دے اور میری توبہ قبول کرلے کہ تواب ورحیم ہے ۔

امام محمد باقر سے منقول ایک روایت میں بھی یہ موضوع اسی طر ح وارد ہو اہے، ۱

اسی قسم کی تعبیرات قرآن کی دوسری آیات میں حضرت یونس وموسی کے بارے میں بھی ہیں :

حضرت یونس خدا سے بخشش کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیںسبحٰنک انی کنت من الظالمین

خدایا !تو پاک ہے ،میں ان میں سے ہوں جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے ۔(انبیاء ۔ ۸۷)

حضرت موسٰی کے بارے میں ہے :قال رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی فغفرله

انہو ں (حضرت موسٰی) نے عرض کیا :پروردگارا!میں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے مجھے بخش دے اور خدا نے انہیں بخش دیا (القصص۔ ۱۶)

کئی ایک روایا ت جو طرق اہل بیت سے منقول ہیں میں ہے کہ کلمات سے مراد خداکی بہترین مخلوق کے ناموں کی تعلیم تھی (یعنی محمد ،علی فاطمہ ،حسن ،حسین علیھم السلام اور آدم نے ان کلمات کے وسیلے سے درسگاہ الٰہی سے بخشش چاہی اور خدانے انہیں بخش دیا ۔

یہ تین قسم کی تفاسیر ایک دوسرے سے اختلاف نہیں رکھتیں کیونکہ ممکن ہے کہ حضرت آدم کو ان سب کلمات کی تعلیم دی گئی ہو تاکہ ان کلمات کی حقیقت اور باطنی گہر ائی پر غو ر کر نے سے آدم میں مکمل طور پر انقلاب روحانی پیدا ہو اور خدا انہیں اپنے لطف وہدایت سے نوازے ۔

( ۲) لفظ اھبتوا کاتکرار کیوں :

زیر بحث اور ان سے پہلی آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ توبہ سے پہلے اوربعد بھی حضرت آدم اور ان کی زوجہ حوا کو خطاب ہوا کہ زمین کی طرف اتر جاو ۔یہ تکرار آیا تا کید کے لئے ہے یا کسی اور مقصد کی طرف اشارہ ہے ۔اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے

لیکن ظاہر ہے کہ دوسری مرتبہ یہ لفظ اس واقعیت وحقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کہیں آدم یہ گمان نہ کریں کہ ان کی توبہ قبول ہو جانے کے بعد زمین کی طرف اتر نے کا حکم بھی واپس لے لیا گیا ہے بلکہ انہیں اس راستے کی طرف ہر حال میں جانا ہے یا اس لحاظ سے کہ در اصل وہ پیدا ہی اس مقصد کے لئے ہوئے تھے یاپھر اس نظر سے کہ یہ اترنااس عمل کا وضعی ہے اور یہ توبہ سے نہیں بدلا۔

( ۳)” اھبتوا“ میں کون مخاطب ہیں

”اھبتوا“صیغہ جمع کے ساتھ آیا ہے جب کہ آدم وحوا جو اس گفتگو کے اصلی مخاطب ہیں وہ دو سے زیادہ نہیں ہیں لہٰذا انکے لئے تثنیہ کا صیغہ آنا چاہیئے تھا لیکن اس بناء پر جمع کا صیغہ آیا کہ آدم وحواکے زمین پر اتر نے کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی نسل کو بھی زمین میں رہنا تھا لہٰذا جمع کا صیغہ لایا گیا ہے۔

____________________

۱مجمع البیان ،آیات زیر بحث کے ذیل میں ۔

آیت ۴۰

( یٰبنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوابعهدی اوف بعهدکم وایای فارهبون ) ۴۰ ۔

ترجمہ

۴۰ ۔اے اولاد اسرئیل !جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں انہیں یا درکھو اور میرے ساتھ جو تم نے عہد وپیما ن با ندھا ہے ۔اسے پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ کئے ہو ئے عہد و پیما ن کو پو را کروں (اور ذمہ داری کی انجام دہی نیز عہد وپیمان کی پابندی میں )صرف مجھ سے ڈراکرو۔

خدا کی نعمتوں کو یاد کرو

زمین پر خلافت آدم کی داستان ۔ملائکہ کی طرف سے ان کی تعظیم کا واقعہ ،آدم کا عہدوپیما ن الٰہی کو بھول جانے کا ذکر اور پھر ان کی توبہ کا تذکرہ یہ سب کچھ ہم گذشتہ آیا ت میں پڑھ چکے ہیں ۔

اس و اقعے سے یہ حقیقت و اضح ہوئی کہ اس دنیا میں ہمیشہ دو مختلف طاقتیں ،حق و باطل ایک دوسرے سے بر سر پیکا ر ہیں جس شخص نے شیطان کی پیروی کی اس نے باطل کی راہ کو انتخاب کیا جس کا انجام ہے جنت اور جہنم سے دوری اور رنج وتکلیف میں مبتلا ہو نااوراس کے بعد پشیمانی ہے ۔اس کے خلاف جو فرمان خداوندی کی راہ پر چلتا رہا اور اس نے شیاطین اور باطل پرستوں کے وسوسوں کی پرواہ نہ کی وہ پا ک وپاکیزہ اور رنج وغم سے آسودہ زندگی بسرکرے گا ۔ بنی اسرئیل نے فر عونیوں کے چنگل سے نجات پائی ، زمین میں خلیفہ ہوئے پھر پیمان الٰہی کو بھو ل گئے اور دوبارہ رنج وبد بختی میں پھنس گئے چونکہ یہ واقعہ حضر ت آدم کے واقعے سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے اسی اصل کی ایک فرع شمار ہو تا ہے لہٰذ اخداوند عالم زیر بحث اور اسکے بعد دسویں آیت میں بنی اسرائل کے مختلف نشیب وفراز اور ان کی سر نوشت بیان کرتا ہے تاکہ وہ ترتیبی درس جو سر نوشت آدم سے شروع ہو اتھاان مباحث میں مکمل ہوجائے ۔ بنی اسرایل کی طرف ا س طرح ر وئے سخن ہے :اے بنی اسرائیل !ہماری ان نعمتون کو یاد کروجو ہم نے تمہیں بخشی ہیں اورمجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کئے ہوئے عہد سے وفا کروں اور صرف مجھ سے ڈرو( یابنی اسرائیل اذکروانعمتی التی انعمت علیکم واوفوبعهدی اوف بعهدکم وایای فارهبون ) ۔

در حقیقت یہ تین دستور او راحکا م کی (خداکی عظیم نعمتوں کو یاد کرنا ،عہد پرور دگار کو پورا کرنااور اس کی نافرمانی سے ڈرنا )خدا کے تمام پروگر ا موں کی تشکیل کرتے ہیں ۔

اس کی نعمتوں کو یاد کرنا ۔انسا ن کو اس کی معرفت کی دعوت دیتا ہے اور انسان میں شکر گزاری کا احساس ابھار تا ہے اس کے بعد اس نکتے کی طرف توجہ کی یہ نعمتیں بغیر کسی شر ط و قید کے نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ خدانے عہد وپیمان لیا ہے یہ انسا ن اس کی الٰہی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتاہے اور اس کا انجام یہ ہے کہ انسان ذمہ داری کی راہ میں کسی شخص یا ہستی سے نہ ڈرے ۔یہ سبب بنتا ہے کہ انسان اس راستے کی تمام رکا وٹوں کو دور کر دے اور اپنی ذمہ داریوں اور عہد وپیمان کو پوراکرے کیونکہ اس راستے کی اہم رکاوٹوں میں سے ایک بلا وجہ اِس سے اور اس سے ڈرنا ہے خصوصا بنی سرئیل جو سالہاسال تک فرعون کے زیر تسلط رہے تھے ۔خوف ان کے بدن کا جزء بن چکا تھا۔

( ۱) یہودی مدینہ میں :

یہ بات قابل غور ہے کہ بعض مئورخین ِ قرآن کی تصریح یہ ہے کہ سورہ بقرہ پہلی سورت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی ۔ اس کا اہم حصہ یہودیوں کے بارے میں ہے کیونکہ اہل کتا ب کے پیروکاروں کی زیادہ مشہور جماعت وہاں پر یہودیوں ہی کی تھی ۔ وہ ظہور پیغمبر سے پہلے اپنی مذہبی کتب کی روشنی میں اس قسم کے ظہور کے منتظر تھے اور دوسرں کو بھی اس کی بشارت دیتے تھے ۔ اقتصادی حالت بھی ان کی بہت ااچھی تھی خلاصہ یہ کہ مدینہ میں ان کا گہرا اثر ورسوخ تھا ۔

جب اسلام کا ظہور ہوا تو اسلام ان کے غیر شرعی منافع کے راستون کو بند کرتا تھا اور ان کے غلط رویوں او ر خود سری کو روکتا تھا ۔ان میں اکثر نے نہ صرف یہ اکہ اسلا م کی دعوت کو قبول کیا بلکہ علی الاعلان اور پوشیدہ طور پر اس کے خلا ف صف آراء ہوگئے ۔چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام سے ان کا یہ مقابلہ ابھی تک جاری ہے

مندرجہ بالا اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں اورسخت ترین سر زنشوں کے تیر یہودیو ں پر چلائے گئے اور ان کی تاریخ کے حساس حصو ں کو اس باریکی کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس نے ان کو ہلاکررکھ دیا ان میں سے جو بھی تھو ڑی سی حق جوئی کی روح رکھتا تھا وہ بیدار ہو کر اسلام کی طرف آگیا علاوہ ازیں مسلمانوں کے لئے بھی یہ ایک ترتیبی درس تھا ۔

انشاء اللہ آنے والی آیات میں آپ بنی اسرائیل کے نشیب وفرازپڑھیں گے جس میں ان کافرعون کے چنگل سے نجات پانا ،دریا کا شق ہونا،فرعون اور فرعونیون کا غرق ہو نا ،کوہِ طور حضرت موسی ٰکی وعدہ گاہ ،حضرت موسیٰ کی غیبت کے زمانے میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی ،خونی توبہ کاحکم ،خداکی مخصوص نعمتو ں کاان پر نزول اور اس کے دیگر واقعات جن میں سے ہرایک واقعہ اپنے اندر ایک یا کئی عبر تناک درس لئے ہو ئے ہے ۔

( ۲) یہودیوں سے خدا کے بارہ معاہدے:

جس طرح آیات قر آنی سے ظاہرہوتا ہے :وہ معاہد ے یہ تھے :ایک اکیلئے خدا کی عبادت کرنا،ماں باپ ،عزیز واقارب ،یتیموں اور مدد طلب کرنے والوں سے نیکی کر نا ،لوگو ں سے اچھا سلوک کرنا ،نماز قائم کرنا ،زکوٰةدینا اور اذ یت وآزاری اور خون ریزی سے دور رہنا ۔

اس با ت کی شاہد اسی سورہ کی آیت ۸۳ اور ۸۴ ہے ۔

( واذاخذنامیثاق بنی اسرائیل لاتعبدون الاالله وباالٰولدین احسان وذی القربی ٰوالیتٰمی ٰوالمساکین وقولوا للناس حسناواقیموالصلٰوة واٰتوالزکٰوةواذااخذنامیثا قکم لا تسفکون دماء کم ولاتخرجون انفسکم من دیارکم ثم اقرتم وانتم تشهدون )

در اصل یہ دو آیات د س معاہدو ں کی نشان دہی کرتی ہیں جو خدا نے یہودیوں سے کئے تھے اورسو رہ مائدہ کی آیت ۱۲ جو یہ ہے :

( ولقد اخذالله میثاق بنی اسرائیل وقال الله انی معکم لئن اقمتم الصلٰوة واٰتیتم الزکٰوةواٰمنتم برسلی وعزرتموهم ) ۔

اس میں سے دوسرے عہد وپیمان جن میں انبیاء پر ایمان لانا اور انہیں تقویت پہنچانا شامل ہیں ظاہر ہو تے ہیں ۔

اس سے واضح ہو تا ہے کہ انہو ں نے خدا کی بڑی بڑ ی نعمتیں کچھ معاہدو ں کی بنیا د پر حاصل کی تھیں اور ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ان معاہدوں کے وفادار ہوگے تو تمہیں جنت کے با غوں میں بھی جگہ دی جا ئے گی جس کی نہریں اس کے قصروں اور درختوں کے نیچے جا ری ہوں گی :( لادخلنکم جنا ت تجری من تحتها الانهٰر )

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے آخر کار یہ عہد وپیمان پاؤں تلے روند ڈالے اور اب اس زمانے میں بھی اپنی پیمان شکنی جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ منتشر و پرو گندہ ہیں اور در در کی ٹھوکریں کھا تے پھرتے ہیں اور جب تک ان کی یہ پیمان شکنیاں جاری رہیں گی ، ان کی یہ کیفیت بھی جاری رہے گی یہ جو ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ دوسروں کی پناہ میں نشو نما پارہے ہیں تو یہ ہرگز ان کی کامیابی کی دلیل نہیں اور ہم اچھی طرح سے دیکھ رہے ہیں کہ جس دن اسلام کے غیور بیٹے اور قومی رجحانات و میلانات سے دور ہو کر صرف قرآن کے سائے میں اٹھ کھڑاے ہوئے وہ اس شور اور ہنگامے کو ختم کرکے رکھ دیں گے۔

( ۴) خدا بھی اپنے عہد کو پورا کرے گا :

خدا کی نعمتیں کبھی قید اور شرط کے بغیر نہیں ہوتیں اور ہر نعمت کے پہلو میں ایک ذمہ دار ی اور شرط پنہاں ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں :

( اوف بعهدکم ) سے مراد یہ ہے کہ اپنے عہد کو پورا کروں گا اور تمہیں جنت میں لے جاؤں گا ۔ ۱

اس حدیث کے ایک حصے میں ولایت علی پر ایمان لانا بھی اس عہد کا حصہ قرار دیا گیا ہے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کے عہد وپیمان کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ انبیاء خدا کی رسالت پر ایمان لائیں گے اور ان کو تقویت پہنچائیں گے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ان کے جانشینوں کو بھی ماننا اسی مسئلہ رہبری و ولایت کا ضمیمہ ہے جو ہر زمانے میں اس کی مناسبت سے تحقیق پذیر ہوتا رہا ہے ۔ حضرت مو سیٰ کے زمانے میں اس منصب پر فائز خود حضرت موسیٰ تھے ۔ اور نبی اکرم کے زمانے میں خود آنحضرت ہی تھے اور بعد والے زمانے میں حضرت علی ۔

ضمنی طور پر جملہ ایای فارھبون ( صرف میری سزا سے ڈرو ) اس امر کی تاکید ہے کہ خدا سے ایفائے عہد اور اطاعت ِ احکام کی راہ میں میں کسی چیز اور کسی شخص سے خوف و وحشت نہیں ہونی چاہیئے ۔ لفظ ایای فارھبون سے مقدم ہے سے یہ مطلب حاصل ہوتا ہے۔

____________________

۱ نورالثقلین ج ،۱ ص۷۲

( ۵) حضرت یعقوب کی اولاد کو بنی اسرائیل کیوں کہتے ہیں :

حضرت یعقوب جو حضرت یوسف کے والد تھے ان کا ایک نام ” اسرائیل “ بھی ہے ۔حضرت یعقوب نے اپنا یہ نام کیوں رکھا تھا ۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم مئورخین نے ایسی باتیں لکھی ہیں جو خرافات کا پلندہ ہیں جیسے ” کتاب مقدس “ میں لکھا ہے :

”اسرائیل کا معنی وہ شخص ہے جو خدا پر غالب اور کامیاب ہو گیا ہو “

وہ مزید لکھتا ہے :

” یہ لفط یعقوب بن اسحاق کا لقب ہے جنہیں خدا کے فرشتوں نے کشتی لڑتے وقت یہ لقب ملا تھا “

اسی کتاب میں یہ لفظ یعقوب کے نیچے لکھا ہے :

” جب انہوں نے اپنے اثبات و استقا مت ایمان کو ظاہر کیا تو خدا وند نے اس کا نام بدل کر اسرائیل رکھ دیا اور وعدہ کیا کہ وہ عوام کے گروہوں کے باپ ہوں گے ۔ خلاصہ یہ کہ وہ انتہائی کمال کے ساتھ اس دنیا سے گئے اور دنیا کے کسی بادشاہ کی طرح دفن نہ ہوئے اور اسم یعقوب و اسرائیل ان کی پوری قوم کے لئے بولا جاتا ہے “

لفظ ”اسرائیل “ کے ذیل میں لکھتاہے :

اس نام کے بہت سے موارد ہیں چنانچہ کبھی اس سے مراد نسل اسرائیل و نسل یعقوب بھی ہوتی ہے۔(۱)

علماء اسلام اس سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں مثلاََ مشہور طبرسی مجمع البیان میں لکھتے ہیں :

”اسرائیل وہی فرزند اسحاق بن ابراہیم ہیں “

وہ لکھتے ہیں :’

’اس ، کے معنی عبد ، اور ئیل ، کے معنی ، اللہ ، لہذا ، اسرائیل ، کے معنی ، عبداللہ ، یعنی اللہ کا بندہ “

واضح ہے کہ اسرائیل کی فرشتوں سے کشتی لڑنے کی داستان جیسے کہ تحر یف شدہ تورات میں اب بھی موجود ہے ایک خود ساختہ اور بچگانہ کہانی ہے جو آسمانی کتاب کی شان سے بعید ہے اور یہی داستان موجودہ تورات کے تحریف شدہ ہونے کی دلیل و مدرک ہے۔

____________________

(۱) قاموس کتاب مقدس ص ۵۳، و ۹۵۷

آیات ۴۱،۴۲،۴۳

( وآمنو ابما انزلت مصد قا لما معکم ولاتکو نوآاول کافر به ولاتشترواباٰیٰتی ثمناقلیلاوایای فاتقون ) ۴۱ ۔

( ولاتلبسواالحق باالباطل وتکتمواالحق وانتم تعلمون ) ۴۲ ۔

( واقیموا الصلاةواتوالزکٰوةوارکعوا مع الرٰکعین ) ۴۳ ۔

ترجمہ

۴۱ ۔جو کچھ میں نے نازل کیا ہے (قرآن)اس پر ایما ن لے آو جب کہ اس کی پیش کر دہ نشانیاں جو کچھ تمہاری کتابوں میں ہے اس سے مکمل مطابقت رکھتی ہیں اور اب تم اس کے پہلے منکر نہ بنو اور میری آیا ت کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو ،تھوڑ ی سی آمدنی کے لئے ان نشانیوں کو مت چھپاو(جو قرآن اور پیغمبر اسلام کے متعلق تمہاری کتابوں میں مو جود ہیں ) اور (لوگوں سے ڈرنے کے بجائے )صرف مجھ سے (میرے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے )ڈرو ۔

۴۲ ۔اور حق کو باطل سے نہ ملاو اور حقیقت جاننے کے باجود نہ چھپاو۔

۴۳ ۔اور نماز قائم کرو زکٰوة ادا کرو اور رکوع کرنے والوں ساتھ رکوع کرو( یعنی نماز جماعت کے ساتھ پڑھو )۔

شان نزول

زیرنظرآیات میں سے شروع کی آیتوں کے بارے میں بعض بزرگ مفسرین نے امام محمدباقرسے یوں نقل کیا ہے:

حی بن احطب ، کعب بن اشرف اوور یہودیوں کی ایک جماعت کے لئے یہودیوں کی طرف سے ہر سال ایک زرق برق دعوت کا احتمام کیا جاتا تھا ۔ یہ لوگ خوف زدہ تھے کہ کہیں رسول اسلام کے قیام کی وجہ سے یہ چھوٹا سا فائدہ جاتا نہ رہے اس وجہ سے او ر کچھ دیگر وجوہ کی بنا ء پر ) انہوں نے تورات کی ان آیات میں تحریف کردی جو اوصاف پیغمبر کے بارے میں تھیں یہ وہی ”ثمن قلیل “ اور کم قیمت ہے جس کی طرف قرآن نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے

یہودیوں کی دولت پرستی

خدا نے یہودیوں سے جو پیمان لئے تھے ان میں انبیاء الٰہی پر ایمان لانا اور ان کے فرامین کی اطاعت کرنا بھی شامل تھا ۔

زیر نظر تین آیات میں ان احکام و قوانین کے نو حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو یہودیوں کو دیئے گئے تھے ۔

پہلا یہ کہ ان آیات پر ایمان لاؤ جو پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی ہیں جب کہ یہ آیات ان اوصاف سے ہم آہنگ ہیں جو تمہاری توریت میں موجود ہیں( وآمنو بما انذلت مصدقالما معکم )

قرآن اس کتاب کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس موجود ہے یعنی وہی بشارتیں جو تورات اور گذشتہ انبیاء نے اپنے پیروکار کو دی ہیں اور بتایا ہے کہ ان اوصاف کا نبی ظہور کرے گا اور اس کی آسمانی کتاب ان خصوصیات کی حامل ہوگی ۔ اب تم دیکھ رہے ہو کہ اس پیغمبر کی صفات اور قرآن پاک کی خصوصیات ان بشارتوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں جو تمہاری کتب میں موجود ہیں ۔ اس ہر قسم کی مطابقت کے بعد اب تم کیوں اس پر ایمان نہیں لاتے ۔

پھر کہا گیا ہے کہ تم آسمانی کتاب کا انکار کرنے والوں میں پہل نہ کرو( ولا تکونو اول کافر به ) ۔

اگر مشرک اور عرب کے بت پرست کافر ہوجائیں تو زیادہ تعجب کی بات نہیں تعجب تو تمہارے کفر و انکار پر ہے اور مخالفت میں پہل کے لحاظ سے تم پیش پیش بھی ہو جب کہ تم ان کی زیادہ اطلاعات رکھتے ہو اور اہل کتاب بھی ہو ۔اس قسم کے پیغمبر کے بارے میں تمہاری آسمانی کتب میں سب بشار تیں دی جاچکی ہیں ۔ اسی بناء پر تو تم ان کے ظہور سے پہلے ان کے بارے میں منادی کیا کرتے تھے ۔ اب کیا ہو گیا ہے کہ بجائے اس کے کہ ان کے ظہور کے بعد تم ان پر ایمان لانے والوں میں پہل کرتے تم نے کفر میں پہل کی ہے ۔ بہت سے یہودی اصولی طور پر لیچڑ قسم کے تھے اور اگر ان میں یہ ضدی پن نہ ہوتا تو بظاہر انہیں دوسروں کی نسبت پہلے ایمان لانا چاہیئے تھا ۔

تیسری بات یہ ہے کہ تم میری آیات کو کم قیمت پر فروخت نہ کرو اور ایک سالانہ دعوت سے اس کا تقابل نہ کرو( ولا تشتروا با ٰیتیٰ ثمنا قلیلا ) ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا کی آیات کو کسی قیمت پر بھی نہیں بیچنا چاہیئے چاہے کم ہو یا زیادہ لیکن یہ جملہ حقیقت میں ان یہودیوں کی کم ظرفی کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے چھوٹے چھوٹ منافع کے لئے ہر چیز کو بھلا دیا اور وہ لوگ جو پیغمبر اسلام کے قیام اور ان کی آسمانی کتا ب کے بارے میں بشارت دیا کرتا تھے جب اپنے منافع کو خطرے میں دیکھا تو سب بشارتوں کا انکار کرنے لگے اور آیات تورات میں تحریف کردی کیونکہ وہ سمجھنے لگے تھے کہ اگر لوگوں کو حقیقت حال کا علم ہوگیا تو ان کی سرداری کا محل زمین بوس ہوجائے گا ۔

اصولا یہ پوری دنیا بھی اگر کسی کو ایک آیت الہٰی کے انکار کے بدلے دے دی جائے تو واقعا یہ قیمت بہت تھوڑی ہے ۔

کیونکہ یہ زندگی تو بہر حال نابود ہونے والی ہے اور آخرت ابدی اور دائمی ہے لہذا ایک انسان کس طرح ان آیات الہٰی کو حقیر فوائد پر قربان کردے۔

چوتھا حکم ہے کہ صرف مجھ سے ڈرو( و ایای فاتقون ) ۔

اس بات سے نہ ڈرو کہ تمہاری روزی منقطع ہوجائے گی اور اس سے بھی نہ ڈرو کہ یہودیوں کی متعصب جماعت تم سرداروں کے خلاف قیام کرے گی بلکہ صرف مجھ سے یعنی میرے حکم کی مخالفت سے ڈرو ۔

پانچواں حکم ہے کہ حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو تاکہ کہیں لوگ اشتباہ میں نہ پڑ جائیں( ولاتلبسو الحق بالباطل ) ۔

چھٹے فرمان میں حق کو چھپانے سے منع کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حق کو نہ چھپاؤ جب کہ تم اسے جانتے اور اس سے آگاہ ہو( وتکتمو ا الحق و انتم تعلمون ) ۔

جس طرح حق کو چھپانا جرم اور گناہ ہے اسی طرح حق کو باطل سے ملانا اور ایک دوسرے سے مخلوط کرنا بھی حرام اور گناہ ہے کیونکہ نتیجے کے اعتبار سے دونوں عمل برابر ہیں ۔ حق بات کرو چاہے تمہارے لئے نقصان دہ ہو اور باطل کو حق سے نہ ملاؤ چاہے تمہارے جلد ضائع ہوجانے والے منافع خطرے میں پڑ جائیں ۔

آخر میں ساتویں ، آٹھویں اور نویں حکم کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے : نماز قائم کرو ، زکوٰة ادا کرو اور خصوصاََ اجتماعی عبادت کو فراموش نہ کرتے ہوئے رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو( وا اقیمو ا الصلوٰة و آتو الذکوٰة وارکعو ا مع الراکعین ) ۔

آخری حکم اگرچہ با جماعت نماز کے بارے میں ہے لیکن نماز کے تمام افعال میں سے صرف رکوع کو بیان کرتے ہوئے کہنا کہ رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ ، شاید اس بناء پر کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع بالکل نہیں یہ صرف مسلمانوں کی نماز ہے جس کے بنیادی ارکان میں رکوع شامل ہے ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہ نہیں کہا گیا کہ نماز پڑھو بلکہ :( اقیموا لصلوٰة ) ( نماز قائم کرو ) یعنی فقط یہ نہ ہو کہ تم نماز پڑھتے رہو بلکہ ایسا کرو کہ آئین نماز معاشرے میں قائم ہوجائے اور لوگ عشق و وارفتگی کے ساتھ اس کی طرف جائیں ۔

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ” اقیموا “اس طرف اشارہ ہے کہ تمہاری نماز صرف اذکار و اوراد ہی نہ ہو بلکہ اسے پورے طور پر قائم کرو جس میں سے سب سے اہم قلبی توجہ ، دل کا بارگاہ خدا میں حاضر ہونا اور نماز کا انسان کی روح اور جان پر اثر انداز ہونا ہے(۱)

در حقیقت ان آخری تین احکام کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ پہلا فرد کا خالق سے رشتہ بیان کرتا ہے ، ( یعنی نماز ) دوسرا مخلوق کا مخلوق سے ناتا قائم کرتا ہے ( یعنی زکٰوة )اور تیسرا سب لوگوں کا خدا سے تعلق ظاہر کرتا ہے ۔

____________________

۱ المنار ج، ۲ ص ۲۹۳ و مفردات ِ راغب ، مادہ ” قوم “