تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78117
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78117 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

( ۱) کیا قرآن تورات اور انجیل کے مندرجات کی تصدیق کرتا ہے :

قرآن مجید کی متعدد آیات میں یہ بات نظر سے گزرتی ہے کہ قرآن گذشتہ کتب کے مندرجات کی تصدیق کرتا ہے محل بحث آیات میں ہے ”مصدقا لما معکم “اور سورہ کی آیات ۸۹ اور ۱۰۱ میں ہے :( مصدق لما معهم )

نیز سورہ مائدہ کی آیت ۴۸ میں ہے :( و انزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیه من الکتاب )

ہم نے آپ پر حق کے ساتھ کتاب نازل کی یہ کتاب اپنے سے پہلے والی آسمانی کتب کی تصدیق کرتی ہے ۔

ان آیات کو علماء یہود و نصاریٰ کی ایک جماعت تورات اور انجیل کے عدم تحریف کی سند قرار دیتی ہے ۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے زمانے کی تورات اور انجیل میں اور موجودہ تورات اور انجیل میں مسلماََ کوئی فرق نہیں اگر تورات اور انجیل میں تحریف ہوئی ہوتی تو یہ زمانہ پیغمبر سے پہلے کی بات ہوتی لیکن قرآن نے چونکہ اس تورات اور انجیل کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے جو آنحضرت کے زمانے میں موجود تھی لہذا ہمیں چاہیئے کہ ان کتب کو غیر محرف آسمانی کتب کی حیثیت سے رسمی طور پر قبول کر لیں ۔

اس کا جواب یہ ہے

کہ قرآن مجید کی مختلف آیات گواہی دیتی ہیں کہ انہی تحریف شدہ کتابوں میں جو اس وقت یہود و نصاریٰ کے پاس تھیں پیغمبر اسلام اور ان کے دین کے متعلق نشانیاں موجود تھیں ۔ یہ مسلم ہے کہ ان آسمانی کتب میں تحریف کا مطلب یہ نہیں کہ موجودہ کتب پوری کی پوری باطل اور خلاف واقع ہیں بلکہ یقینی طور پر ان سب میں حقیقی تورات اور انجیل کاکچھ حصہ موجود تھا اور موجود ہے اور پیغمبر اسلام کے بارے میں انہی یا دیگر مذہبی کتب میں نشانیاں موجود تھیں جو یہود و نصاریٰ کے پاس تھیں ( آج بھی ان میں کچھ ایسے ارشادات موجود ہیں ) اس لحاظ سے پیغمبر کا قیام ، آپ کی دعوت اور آپ کی آسمانی کتاب عملی طور ان تمام نشانیوں کی تصدیق کرتے تھے کیونکہ ان کے مطابق تھے ۔

لہذا قرآن کی تورات اور انجیل کی تصدیق کرنا ان معنی میں ہے کہ نبی اکرم کی نشانیاں ، آپ کی دعوت اور آپ کا قیام جو قرآن میں موجود ہے ان نشانیوں کے مطابق ہے جو تورات اور انجیل میں ہیں ۔

تصدیق مطابقت کے معنی میں قرآن مجید کے دیگر مقامات پر بھی استعمال ہوا ہے ۔

مثلاََ سورہ الصٰفٰت ، آیہ ۱۰۵ میں ابراہیم سے فرمایا گیا ہے :( قدصدقت الرء یا ) آپ نے خواب کی تصدیق کردی

یعنی آپ کا عمل اس خواب کے مطابق ہے جو آپ نے دیکھا تھا ۔

سورہ اعراف ، آیہ ۱۵۷ میں ہے :( الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجدونه مکتوبا عند هم فی التوراة والانجییل ) یہاں یہ حقیقت صراحت سے بیان ہوئی ہے یعنی ”جو اوصاف وہ دیکھ رہے ہیں وہ اس کے مطابق ہیں جو انہوں نے تورات انجیل میں پائے ہیں “دوسری آیات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت کی نشانیاں ان گذشتہ کتب میں دیکھی گئی ہیں اور زیر بحث آیت جس کی تفسیر ہم پڑھ چکے ہیں یہ بھی اس حقیقت کی شاہد ہے اور وہاں ہم بتا چکے ہیں کہ تھوڑی سی چیز کی خاطر یہاں تک کہ ایک دعوت کے لئے انہوں نے صفات پیغمبر کے بارے میں تحریف کردی ۔

بہر حال مندرجہ بالا آیات میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ قرآن اور رسول نے عملی طور پر اپنی حقانیت کی ان نشانیوں کی تصدیق کی جو گذشتہ کتب میں موجود تھیں اور اس کے لئے کوئی معمولی سی دلیل بھی موجود نہیں کہ ان آیات نے تورات اور انجیل کے تمام مندرجات کی تصدیق کر دی ہے جبکہ اس کے بر خلاف قرآن مجید کی کئی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان لوگوں نے تورات اور انجیل میں تحریف کردی تھی اور یہ خود ہماری گذشتہ گفتگو کا ایک زندہ شاہد ہے ۔

( ۱) فخر الاسلام جو کتاب انیس الاعلام کے مو‌لف ہیں علماء نصاریٰ میں سے تھے ۔ انہوں نے اپنی تعلیم عیسائی پادریوں اور علماء ہی میں مکمل کی تھی اور ان کے ہاں ایک بلند مقام پیدا کیا تھا وہ اس کتا ب کے مقدمے میں اپنے مسلمان ہونے کے عجیب و غریب واقعے کو اس طرح بیان کرتے ہیں :بڑی جستجو ، زحمتوں اور کئی ایک شہر وں میں گردش کے بعد میں ایک عظیم پادری کے پاس پہنچا جو زہد و تقویٰ میں ممتاز تھا ۔ کیتھولک فرقے کے بادشاہ وغیرہ اپنے مسائل کے لئے اس سے رجوع کرتے تھے ۔ ایک مدت تک میں اس کے پاس نصاری کے مختلف مذاہب کی تعلیم حاصل کرتا رہا ۔ اس کے بہت سے شاگرد تھے لیکن اتفاقا مجھ سے اسے خاص ہی لگاؤ تھا ۔ اس کے گھر کی سب چابیاں میرے ہاتھ میں تھیں صرف ایک صندوق خانے کی چابی اس کے اپنے پاس ہوا کرتی تھی اس دوران میں ایک دن اس پادری کو کوئی بیماری پیش آئی تو مجھ سے کہا کہ شاگردوں سے جاکر کہدو کہ آج میں درس نہیں دے سکتا ۔ جب میں طالب علموں کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہ بحث مباحثہ میں مصروف ہیں یہ بحث سریانی کے لفظ ” فار قلیطا “ اور یونانی زبان کے لفظ ” ہریکلتوس “ کے معنی تک جا پہنچی اور وہ کافی دیر تک جھگڑتے رہے ۔ ہر کسی کی الگ رائے تھی ۔ واپس آنے پر استاد نے مجھ سے پوچھا آج کیا مباحثہ کرتے رہے ہو تو میں نے لفظ فارقلیطا کا اختلاف اس کے سامنے بیان کیا وہ کہنے لگا : تو نے ان میں کس قول کا انتخاب کیا ہے ۔ مین نے کہا فلاں مفسر کے قول کا جس نے اس کا معنی ” مختار “ بیان کیا ہے میں نے پسند کیا ۔استاد پادری کہنے لگا تو نے کوتاہی تو نہیں کی لیکن حق اور واقعہ ان تمام کے خلاف ہے کیونکہ اس کی حقیقت کو راسخون فی العلم کے علاوہ دوسرے لوگ نہیں جانتے اور ان میں سے بھی بہت کم اس حقیقت سے آشنا ہیں ۔ میں نے اصرار کیا کہ اس کے معنی مجھے بتلائیے ۔ وہ بہت رویا اور کہنے لگا : میں کوئی چیز تم سے نہیں چھپاتا ۔لیکن اس نام کے معنی معلوم ہونے کا نتیجہ تو بہت سخت ہوگا کیونکہ اس کے معلوم ہونے کے ساتھ ہی مجھے اور تمہیں قتل کردیا جائے گا ۔ اب اگر تم وعدہ کرو کہ کسی سے نہیں کہو گے تو میں اسے ظاہر کردیتا ہوں ۔ میں نے تمام مقدسات مذہبی کی قسم کھائی کہ اسے فاش نہیں کروں گا تو اس نے کہا کہ مسلمانوں کے پیغمبر کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس کے معنی ”احمد “اور محمد “ ہیں اس کے بعد اس نے اس چھوٹے کمرے کی چابی مجھے دے دی اور کہا کہ فلاں کا دروازہ کھولو اور فلاں فلاں کتاب لے آؤ ۔ میں کتابیں اس کے پاس لے آیا ۔ یہ دونوں کتابیں رسول اسلام کے ظہور سے پہلے کی تھیں اور چمڑے پر لکھی ہوئی تھیں ۔دونوں کتب میں ”فارقلیطا “ کا ترجمہ ”احمد “ اور محمد “ کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد استاد نے مزید کہا کہ آنحضرت کے ظہور سے پہلے علماء نصاریٰ میں کوئی اختلاف نہ تھا کہ فارقلیطا کے معنی احمد اور محمد ہیں لیکن ظہورمحمد کے بعد اپنی سرداری اور مادی فوائد کی بقا کے لئے اس کی تاویل کردی اور اس کے لئے دوسرے معنی گھڑ لئے حالانکہ وہ معنی یقینا صاحب انجیل کی مراد نہیں ۔ میں نے سوال کیا کہ دین نصاریٰ کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ۔ اس نے کہا دین اسلام کے آ نے سے منسوخ ہو گیا ہے اس جملے کا اس نے تین مرتبہ تکرار کیا ۔

پس میں نے کہا کہ اس زمانے میں طریق نجات اور صراط مستقیم کون سا ہے ۔ اس نے کہا منحصر ہے محمد کی پیروی و اتباع میں ۔ میں نے کہا کیا اس کی پیروی کرنے والے اہل نجات ہیں ۔ اس نے کہا ہاں خدا کی قسم ( اور تین مرتبہ قسم کھائی ) پھر استاد نے گریہ کیا اور میں بھی بہت رویا اور اس نے کہا آخرت اور نجات چاہتے ہو تو ضرور دین حق قبول کر لو میں ہمیشہ تمہارے لئے دعا کروں گا اس شرط کے ساتھ کہ قیامت کے دن گواہی دو کہ کہ میں باطن میں مسلمان اور حضرت محمد کا پیرو کار ہوں اور علماء نصاریٰ کے ایک گروہ کی باطن میں مجھ جیسی حالت ہے اور میری طرح ظاہراََ اپنے دنیاوی مقام سے دست کش نہیں ہو سکتے ورنہ کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس وقت روئے زمین پر دین خدا دین اسلام ہی ہے(۱)

آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل کتاب نے پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد اپنے شخصی منافع کی خاطر آنحضرت کے نام اور نشانیوں کی اور توجیہات کر دی ہیں ۔“

____________________

(۱)۔اقتباس و اختصار از ہدایت ِ دوم مقدمہ ”انیس الاعلام “

آیات ۴۴،۴۵،۴۶

( اتامرون الناس بالبر و تنسون انفسکم و انتم تتلون الکتا ب افلا تعقلون ) ( ۴۴) ۔

( واستعینو ا بالصبر والصلوٰة ط و انها لکبیرة الا علی الخاشعین ) ( ۴۵) ۔

( الذین یظنون انهم ملقو ا ربهم و انهم الیه راجعون ) ( ۴۶) ۔

( ۴۴) ۔کیا تم لوگوں کو نیکی کی اور اس پیغمبر پر جس کی صفات واضح طور پر تورات میں آئی ہیں ایمان لانے کی دعوت دیتے ہو لیکن اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ ( آسمانی کتاب پڑھتے ہو ۔ کیا تم عقل و فکر سے کام نہیں لیتے۔

( ۴۵) ۔ صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو ( استقامت اور اندرونی خواہشات پر کنٹرول کرکے پروردگار کی طرف توجہ سے قوت حاصل کرو اور خشوع کرنے والوں کے علاوہ دوسروں پر یہ کام گراں ہے ۔

( ۴۶) ۔ وہ جو ایمان رکھتے ہیں کہ خدا سے ملاقات کریں گے اور اسی کی جانب لوٹ جائیں گے ۔

دوسروں کو نصیحت خود میاں فضیحت

اگرچہ مندرجہ بالا آیات اسی طرح گذشتہ اور آئندہ آیات میں روئے سخن بن اسرائیل کی طرف ہے لیکن مسلماََ اس کا مفہوم وسعت کے اعتبار سے دوسروں کے بھی شامل حال ہے۔

مشہور مفسر ۔ صاحب مجمع البیان ، طبرسی کے بقول یہود کے علماء و فضلاء حضرت محمد کی بعثت سے پہلے آپ پر ایمان لانے کی دعوت اور آپ کے ظہور کی بشارت دیا کرتے تھے لیکن خود انہی نے آنحضرت کے ظہور کے وقت ایمان لانے سے انکار کردیا ۔یہی عظیم مفسر نقل کرتے ہیں کہ علماء یہود اپنے ان وابستگان کو جو اسلام لاچکے تھے نصیحت کیا کرتے تھے کہ اپنے ایمان پر باقی اور ثابت قدم رہنا لیکن خود ایمان نہ لاتے تھے ۔

یہ وجہ ہے کہ زیر بحث آیات میں سے پہلی آیت میں ان کے اس طرز عمل کی مذمت کی گئی ہے کہا گیا ہے :کیا تم لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو بھول جاتے ہو( اتا مرون الناس بالبر وتنسون انفسکم )

باوجود یکہ آسمانی کتاب ( تورات ) کا مطالعہ کرتے ہو لیکن کیا کچھ بھی عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ہو( و انتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ) ۔

اسی طرح قرآن انہیں سرزنش کرتا ہے دوسروں کو ایمان کی وصیت کیوں کرتے ہو جب خود ایمان نہیں لاتے ہو حالانکہ پیغمبر کی نشانیاں اور خوصوصیات توریت میں پڑھ چکے ہو ۔

علماء مبلغین اور راہ حق کی طرف دعوت دینے والون کے لئے خاص طور پر یہ بنیادی بات ہے کہ وہ باقی لوگوں کی نسبت زیادہ تر اپنے عمل سے تبلیغ کریں جیسے کہ حضرت ا،مام صادق سے ایک مشہور روایت ہے :

کونو ا دعاة الناس باعمالکم ولا تکونو ا دعاة بالسنتکم

لوگوں کو عمل سے دعوت دو نہ کہ زبان سے ۔(۱)

عملی دعوت کی گہری تاثیر کا سر چشمہ یہ ہے کہ اگر سننے والے کو معلوم ہوجائے کہ کہنے والا دل سے بات کر رہا ہے اور خود اپنے قول پر سو فی صد ایمان رکھتا ہے ، اس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ خود اس پر دوسروں سے پہلے عمل کرتا ہے جیسے کہ حضرت علی فرماتے ہیں :

ایها الناس انی والله ما احثکم علی طاعة الا و اسبقکم الیها ولا انها کم عن معصیته الا و اتنها ها قبلکم عنها ۔

اے لوگوں ----!خدا کی قسم میں تمہیں کسی اطاعت کا شوق نہیں دلاتا جب تک پہلے خود اسے انجام نہ دے لوں اور کسی غلط کام سے تمہیں منع نہیں کرتا مگر یہ کہ پہلے خود اس سے روکتا ہوں ۔

امام صادق سے ایک روایت میں ہے :من اشد الناس عذابا یوم القیامة من وصف عدلا و عمل بغیره

وہ لوگ جن پر قیامت کے دن سخت عذاب ہوگا ان میں سے ایک وہ ہوگا جو حق اور عدل کی بات کرتا ہے لیکن خود اس کے خلاف عمل کرتا ہے ۔(۲)

یہودی علماء اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر پیغمبر اسلام کی رسالت کا اعتراف کرلیں گے تو ان کی مادی امداد منقطع ہو جائے گی اور یہودی عوام ان کی پرواہ نہیں کریں گے لہذا تورات میں پیغمبر اسلام کی جو صفات آئی تھیں انہوں نے ان میں رد و بدل کردیا اس مقصد کے لئے کہ وہ اپنے دلی میلان کی طرف قدم بڑھا ئیں اور سر براہی و سرداری کو دماغ سے نکال دیں قرآن کہتا ہے :

صبر اور نماز سے استعانت حاصل کرو یعنی استقامت اور اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول کے ذریعہ کامیابی حاصل کرو( واستعینو بالصبر والصلوٰة ) ۔

اس کے بعد کہتا ہے کہ یہ کام خاشعین کے علاوہ دوسروں پر گراں ہے( و انها لکبیرة الا علی الخاشعین ) ۔

زیر بحث آیات میں سے آخری آیت خاشعین کا یوں تعارف کراتا ہے( الذین یظنون انهم ملٰقو ا ربهم و انهم الیه را جعون ) (۳)

یظنون “جس کا مادہ ” ظن “ ہے کبھی ”گمان “اور کبھی یقین کے معنی میں آتا ہے ۔اس مقام پر یقینا ایمان اور قطعی یقین کے معنی میں ہے کیونکہ لقاء اللہ اور اس کی طرف باز گشت پر ایمان رکھناانسان کے دل میں خشوع ، خدا ترسی اور ذمہ داری کا احساس زندہ کردیتا ہے اور یہ ایک ایسے معاد پر ایمان رکھنے کا نتیجہ ہے جو تربیت اور نشو ونما کا باعث ہے جو ہر جگہ انسان کے سامنے اس بڑی عدالت کے دربار کی تصویر کشی کرتا ہے اور یہ ذ مہ داریوں کو ادا کرنے اور حق و عدالت کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔

یہ بھی احتمال ہے کہ یہاں ”ظن “ گمان کے معنی میں ہو اور در حقیقت ایک قسم کا مبالغہ اور تاکید ہو کہ اگر بالفرض انسان اس عدالت عظمٰی پر ایمان نہیں رکھتا اور صرف اس کے ہونے کا گمان رکھتا ہے تو بھی اس کے لئے کافی ہے کہ ہر قسم کی غلط کاری سے پرہیز کرے ۔ در حقیقت یہ علماء یہود کو ایک قسم کی سرزنش ہے کہ تمہارا ایمان صرف ظن و گمان کے درجہ تک بھی ہو پھر بھی تمہیں ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اس قسم کی تحریف سے دست کش ہوجانا چاہیئے ۔

____________________

۱ سفینہ ، مادہ ” عمل “ ۔(۲)نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۵۷

(۲ ) تفسیر نور الثقلین ، ج۱، ص ۷۵

(۳) راغب نے مفردات میں کہا ہے ”ظن “ نام ہے اس اعتقاد کا جو دلیل اور قرینہ سے حاصل ہو یہ اعتقاد کبھی قوی ہوتا ہے اور درجہ یقین تک پہنچ جاتا ہے اور کبھی کمزور ہوتا ہے جو گمان کی حد سے آگے نہیں بڑھتا۔’

( ۱) لقاء اللہ سے کیا مراد ہے

:لقاء اللہ کی تعبیر قرآن میں متعدد بار آئی ہے اور ہر بار اس سے مراد صحن ِقیامت کی حاضری ہے یہ تو واضح ہے کہ خدا سے ملاقات اس طرح سے حسی تو نہیں جیسے افراد بشر ایک دوسرے سے ملتے ہیں کیونکہ خدا جسم ہے نہ رنگ و مکان رکھتا ہے کہ ظاہری آنکھ سے اسے دیکھا جا سکے بلکہ مقصود میدان ِ قیامت میں آثار قدرت ، جزا و سزا ، نعمات اور عذاب الٰہی کا مشاہدہ ہے جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے یا اس کا معنی ایک قسم کا شہود باطنی و قلبی ہے کیونکہ انسان بعض اوقات ایسے مقام و مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ خدا کو دل کی آنکھ سے اپنے سا منے دیکھتا ہے ا س طرح کہ کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا(۱) ۔

دوسری آیت میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ ہے مثلاََ

( فمن کان یرجو لقاء ربه فلیعمل عملاََ صالحاََ ) ۔کہف ۔ ۱۱۰ ، البلاغہ ، خطبہ ۱۷۹

پاکیزگی ، تقویٰ ، عبادت اور تہذیب نفس کے نتیجے میں یہ حالت اس دنیا میں بھی بعض لوگوں کے لئے ممکن ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں ہے کہ ذعلب یمانی نے جو حضرت علی کے دوستوں میں سے ایک دانشمند تھے آپ سے پوچھا :

هل رائیت ربک

کیا آپ نے اپنے خدا کو دیکھا ہے ۔

امام نے فرمایا :افاعبد مالا اری

کیا میں اس کی عبادت کروں گا جسے میں نے دیکھا ہی نہیں ۔اس نے وضاحت چاہی تو امام نے مزید فرمایا :لا تدرکه العیون بمشاهده ولکن تدرکه القلوب بحقائق الایمان ۔

ظاہری آنکھیں تو اسے دیکھ نہیں سکتیں البتہ دل نور ِ ایمان کے وسیلے سے اس کو ادراک کرسکتے ہیں ۔(۲)

باطنی شہود کی طاقت قیامت کے دن سب کو میسر ہوگی کیونکہ خدا کی عظمت و قدرت کے آثار اور نشانیاں اس وقت اس قدر عیاں ہوں گی کہ دل کا اندھا بھی اس پر قطعی ایمان لے آئے گا ۔

____________________

(۱) المنار ، جلد ۱، ص ۳۰۲۔ المیزان جلد ۱، ص ۱۵۴ ۔روح المعانی ، جلد ۱، ص ۲۲۸

مشکلات میں کامیابی کا راستہ :

ترقی کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لئے دو بنیادی ارکان کی ضرورت ہے ایک طاقت ور اور مضبوط اندرونی قلعہ اور دوسرا بیرونی محکم سہارا ، مندرجہ بالا آیات میں ان دونوں اساسی ارکان کو صبر اور صلوٰة سے تعبیر کیا گیا ہے ۔

صبر ، استقامت اور بردباری کے ساتھ مشکلات کے محاظ پر ڈٹ جانے کا نام ہے اور نماز خدا سے رابطے اور تعلق کا وسیلہ ہے جو ا یک محکم اور مضبوط سہارا ہے ۔

بہت سے مفسرین نے اگرچہ صبر سے روزہ مراد لیا ہے لیکن مسلم ہے کہ صبر روزے ہی میں منحصر نہیں بلکہ یہاں روزے کا ذکر ایک واضح اور روشن مصداق کی حیثیت سے ہے کیونکہ یہ وہ عبادت ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اندر قوی ارادہ اور پختہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور ہو سرانیوں پر اس کی عقل کی حاکمیت مسلم ہو جاتی ہے۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ مفسرین اس آیت کے ذیل میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام جب کسی ایسی مشکل سے دو چار ہوتے جو آپ کو بے آرام کردے تو آپ رونے سے مدد لیتے ۔

امام صادق سے ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :

جب دنیا کے غموں میں سے کسی کا سامنا کرو تو وضو کرو اور مسجد میں جاکر نماز پڑھو اور پھر دعا کرو کیونکہ خدا نے خود ہی حکم دیا ہے :( واستعینو بالصبر والصلوٰة ) (۱)

نماز کی طرف توجہ اور پروردگار سے راز و نیاز انسان میں نئی قوت پیدا کردیتا ہے ۔

کتاب کافی میں امام صادق سے روایت ہے:

کان علی اذا اهاله امر فزع قام الی الصلوٰةثم تلامذه الآیةواستعینو بالصبر والصلوٰة ۔

جب حضرت علی کو کوئی سخت مشکل در پیش ہوتی تو نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور پھر اس آیت کی تلاوت فرماتے : واستعینو بالصبر والصلوٰة۔

واقعاََ نماز انسان کو قدرت لایزال سے مر بوط کردیتی ہے جس کے ہاں مشکلات سہل و آسان ہیں اور یہی احساس باعث بنتا ہے کہ انسان حوادث کے مقابلے میں طاقتور اور مضبوط ہوجاتا ہے۔

____________________

(۱) مجمع البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

آیات ۴۷،۴۸

( یٰبنی اسرائیل اذکر و ا نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی الالمین ) ۴۷ ۔

( واتقوا یوماََ لا تجزی نفس عن شئاََ ولا یقبل منها شفاعة ولا یوخذ منها عدل و لا هم ینصرون ) ۴۸ ۔

ترجمہ

۴۷ ۔اے بنی اسرائیل ! جن نعمتون سے میں نے تمہیں نوازا ہے انہیں یاد کرو اور یہ بھی یاد کرو کہ میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت بخشی ہے۔

۴۸ ۔اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص دوسرے کی جگہ جواب دہ نہ ہوگا نہ سفارش قبول کی جائے گی ، نہ ہی تادان و بدلہ قبول ہوگا اور نہ ہی ان کی مدد کی جاسکے گی ۔

یہودیوں کے باطل خیالات

یہودیوں کے باطل خیالات ان آیات میں خدا نے دوبارہ روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف کیا ہے ۔ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے : اے بنی اسرائیل ! جو نعمتیں میں نے تمہیں عطا کی ہیں ان کے بارے میں سوچو ( یا بنی اسرائیل اذکر وا نعمتی التی انعمت علیکم ) ان نعمتوں کا دامن بڑا وسیع ہے ۔ ہدایت و ایمان سے لے کر فرعونیوں کے چنگل سے رہائی اور عظمت و استقلال کے دو بارہ حصوں تک سب نعمتیں اس میں شامل ہیں ۔

پھر یہ نعمت بھی کہ انہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں پر فضیلت حا صل کی جو در اصل مختلف نعمتوں کا مرکب ہے ۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :میں نے تمہیں جہانوں پر فضیلت عطا کی ( و انی فضلتکم علی العالمین )۔

شاید بعض لوگوں کا احتمال ہو کہ ’فضلنکم علی العالمین ‘ کا مقصود یہ ہے کہ انہیں تمام جہانوں اور تمام ادوار میں برتری اور فضیلت دی گئی ہے لیکن قرآن کی دیگر آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں ان سر زمین اور ان کے زمانے کے لوگوں پر فضیلت و برتری مراد ہے کیونکہ قرآن میں ہے:( کنتم خیر امة اخرجت للناس )

تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیے گیے ہو ۔ آل عمران ، ۱۱۰)

اس آیت کے مطابق پیامبر اسلام کی ا مت بہترین اور افضل ترین ہے ۔ ایک اور جگہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے:( و اورثنا القوم الذین کانو ا یستضعفون مشارق الارض و مغاربها )

بنی اسرائیل جو کمزور سمجھے جاتے تھے انہیں ہم نے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا ( اعراف ۔ ۱۳۷)

واضح ہے کہ اس زمانے میں بنی اسرائیل پوری دنیا کے وارث نہ تھے لہذا مقصود یہ ہے کہ اپنے علاقے میں مشرق و مغرب کے وارث ہوئے لہذا عالمین پر ان کی فضیلت بھی اسی علاقہ کے افراد کی مناسبت سے ہے ۔

اگلی آیت میں قرآن نے یہودیوں کے باطل خیالات پر خط بطلان کھینچا ہے۔ ان کا اعتقاد تھا کہ ہمارے آباؤ اجداد چونکہ پیغمبر تھے لہذا وہ ہماری شفاعت کریں گے یا یہ گمان کرتے تھے کہ گناہوں کا معاوضہ ادا کریں گے جیسے اس دنیا کا طریق کار ہے ۔ قرآن کہتا ہے اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص دوسرے کی جگہ جزا نہیں پائے گا( و اتقو ا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ) اور نہ ہی اذن پروردگار کے بغیر ) کوئی سفارش و شفاعت قبول ہوگی( ولا یقبل منها شفاعة ) نہ ہی تادان و بدل قبول ہوگا ( ولا یوخذ منھا عدل ) اور نہ ہی کوئی شخص ان کی مدد کے لئے کھڑا ہوگا( و لا هم ینصرون ) ۔ خلاصہ یہ کہ اس عدالت کا قاضی و حاکم وہ ہوگا جو پاک علم کے سوا کچھ قبول نہیں کرے گا ۔ سورہ شعراء آیت ۸۸ اور ۸۹ میں ہے ۔

( یوم لا ینفع مال و لا بنون الا من اتی الله بقلب سلیم )

وہ دن جب نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد ہاں مگر وہ لوگ جو قلب سلیم لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوں گے ۔

در حقیقت زیر بحث آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس دنیا میں اس طرح معمول ہے کہ مجرم سزا سے نجات پانے کے لئے مختلف طریقہ استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی ایک شخص دوسرے کا جرمانہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور اسے ادا کردیتا ہے کبھی سفارش کو وسیلہ بنایا جاتا ہے اور ایسے شخص کو تیار کیا جاتا ہے جو اس کے گناہ کے سلسلہ میں سفارش کریں اور اگر ایسا بھی نہ ہو سکے تو مجرم کوشش کرتا ہے کہ تادان ادا کر کے اپنے آپ کو سزا سے بچالے کچھ بھی نہ ہو سکے تو دوستوں کی مدد سے دفاع کے لئے تیار ہو جاتا ہے تاکہ سزا کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کر سکے ۔

دنیا میں سزا سے بچنے کے لئے یہ مختلف طریقہ ہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ عالم قیامت میں سزاؤں کے اصول دنیا سے بالکل مختلف ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی وہاں کار آمد نہیں ہوگی ۔راہ نجات صرف یہ ہے کہ انسان تقوی کے سایہ میں پناہ لے اور پھر لطف ِ پروردگار ہے۔بت پرستوں اور اہل کتاب میں سے کجرو لوگوں کے عقاید دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے خرافاتی عقاید ان کے درمیان کم نہیں تھے ۔مثلاََ تفسیر المنار کے مولف نقل کرتے ہیں :

مصر کے بعض علاقوں کے فضول لوگ میت کو غسل دینے والے کو کچھ رقم دیتے تھے اور اسے بہشت میں نقل و انتقال کی اجرت کہتے تھے۔(۱)

یہودیوں کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے قربانی کرتے تھے اور اگر قربانی میسر نہ ہوتی تو کبوتروں کے ایک جوڑے کی قربانی کر دیتے تھے ۔ ۲

گذشتہ قوموں ( احتمالا َ ما قبل تاریخ کی ) کے حالات میں ہے کہ وہ زبور ، آلات اور میت کا اسلحہ اس کے ساتھ دفن کر دیتے تھے تاکہ وہ آیندہ زندگی میں ان سے فائدہ اٹھا سکے ۔ ۳

____________________

(۲)۱ ، و ۲ المنار ،ج ۱ ،ص ۳۰۶۔

(۳)المیزان ،ج ۱، ص ۱۵۶