تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78102
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78102 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

شفاعت کی شرئط تعمیری اور اصلاح کنندہ ہیں :

ا س طر ف متوجہ رکھتے ہوئے کہ شفاعت اپنے حقیقی اعتبار سے کئی پہلووں سے متعددوقیود وشرائط کی حامل ہے ،جو اصل وبنیا د کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ مجبور ہیں کہ ان شرائط پر عملدرآمد کریں اور ظلم جیسے گناہوں سے جن کی وجہ سے شفاعت کی امیدختم ہوجاتی ہے پرہیز کریں اور اپنے پرو گرام کو تبدیل کر کے اور جامع تر بناکر شروع کریں ۔ایسے لوگ مقام ارتضی تک رسائی اور عہد الٰہی کی پاسداری کے لئے (جس کی تفسیر بیان کی جاچکی ہے )اپنے گناہوں سے باقاعدہ توبہ کرتے ہیں یا کم از کم توبہ کی منزل پر قیام کرتے ہوئے غلط کاری اور قوانین الٰہی کی بندشوں کو توڑنے سے باز رہتے ہیں یاکم ا ز کم ایسے افعال میں کمی کردےتے ہیں اوراپنے اندر خدا اور بڑی عدالت پر ایمان کو زندہ رکھتے ہیں اور اس کے قوانین اورمقررات کا احترام کر تے ہیں ۔

ایسے افراد اپنے اور شفاعت کرنے والے کے درمیان ا پنے رشتے اور تعلق کو برقرار رکھنے کے لئے ا س کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک قسم کا رابطہ چاہے کمزور ہی کیوں نہ ہو اپنے اور ان کے درمیا ن بر قرار رکھتے ہیں یعنی جس طرح شفاعت تکوینی میں تا ثیر تکامل کے لئے آمادگی ،ربط اور تسلیم ضروری ہے شفاعت تشریعی میں نتیجے تک پہنچنے کے لئے بھی اس قسم کی آمادگی اور تیاری ضروری ہے (غور کیجئے )

اس طرح کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا کہ شفاعت اپنے صحیح مفہوم کے اعتبار سے مجرمین کے حالات کی تبدیلی اور اصلاح کے لئے نقش مو‌ ثر ہے

اعتراضات کے جوابات :

جیسے کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ عرف عام کی شفاعت اور منطق اسلام کی شفاعت میں بہت فرق ہے ایک کی بنیاد اس کی فکر کو تبدیل کرنا ہے جس کے پاس شفاعت ہونی ہے اور دوسرے کی بنیاد اس شخص میں گوناگوں تبدیلیاں پیدا کر نا ہیں جس کی شفاعت ہورہی ہے

واضح ہے کہ پہلے معنٰی والی شفاعت تمام تر ا عتر ا ضات کا مو جب ہے۔ اسی سے سعی وطلب کی رو ح مضمحل ہو تی ہے اور وہی گناہ کی طرف رغبت کا با عث بنتی ہے پسماندہ اور طوائف الملوکی شکار معاشرے کی انعکاسی کرتی ہے نیز ایک قسم کے شرک یاانحراف کاشکار پاتی ہے کیونکہ اگر ہمارااعتقاد ہو کہ خد ا کے علم میں تغیرآسکتاہے اورجس کی شفاعت کی جارہی ہے اس کی کسی ایسی بات کو خداکے سامنے واضح کیا جا سکتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اور اس کے علاوہ کو ئی اور ایسا مبداء ہے جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور اس کے وسیلے سے خد اکے غضب کو ٹھنڈ اکیا جایاسکتا ہے یا اس کی محبت کو اس کے ذریعہ اپنی طرف جذب کیا جاسکتا ہے یا پھر یہ اعتقاد رکھیں کہ خدا کے لئے ممکن ہے وہ ا پنے بعض بندوں کے مقام و اہمیت کا محتاج ہو اور اس اختیار کی وجہ سے کسی مجرم کے بارے میں ان کی شفاعت قبو ل کرے یا پھر ہمارا اعتقاد ہو کہ ممکن ہے و ہ وسائط کے اثر ورسوخ سے ڈر جائے اور ان کی شفاعت قبو ل کر ے تو یہ تمام امو ر ہمیں اصل توحیداور صفات خدا سے دور کر دیتے ہیں اور شرک وبت پرستی کے گڑھے میں پھینک دیتے ہیں ۔یہ سب عرف عام والی شفاعت کی خصوصیات ہیں جو در اصل اس کے غلط معانی ہیں ۔

مگر صحیح شفاعت کہ جس وہ شرائط ،کو ا ئف اور خصوصیات موجود ہیں جن کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیاہے تو اس میں ان عیوب میں سے کسی کی بھی کو ئی گنجائش نہیں ہے وہ شفاعت گناہ کی تر غیب نہیں دلاتی بلکہ تر کہ گناہ کا وسیلہ ہے ۔وہ سستی اور کاہلی کی دعوت نہیں دیتی بلکہ روح امید پیدا کرکے انسانی قویٰ کو گذ شتہ غلطیو ں اور خطاوں کی تلافی کے لئے مجتمع کردیتی ہے ،و ہ گذ شتہ کردار سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھنے دیتی بلکہ مجرموں ،گناہگاروں اور زیادتی کرنے والوں کی اصلاح کا ایک تربیتی وسیلہ ہے ۔نہ صرف یہ کہ ایسی شفاعت شرک نہیں ہے بلکہ عین توحید ہے اور خدا کی طرف اور اس کی صفات کی طرف توجہ کا باعث ہے کیو نکہ یہ در اصل اس کے اذن اور فرمان سے مدد طلب کرنا ہے (پھر بھی غور کیجئے )

شفاعت اور مسئلہ توحید

مسئلہ شفاعت کی غلط تفسیروں کی وجہ سے دو گروہ اس کی مخالفت میں نمایاں ہو ئے اور دونو ں ایک دوسرے سے متضاد رخ پر ہیں

ایک گروہ وہ ہے جو مادیین جیسی فکر رکھتاہے ۔ان لوگو ں کے نزدیک مسئلہ شفاعت پردہ پوشی کا عامل ہے اور طلب وسعی کو ختم کر دیتا ہے ۔ان کا جواب تفصیل سے گذر چکاہے ۔

دوسرا گروہ افراط کے شکار کوتاہ نظر مذہبی لوگوں کا ہے (جیسے وہابی حضرات )اور ان کے کچھ اور ہم فکر لوگ بھی ہیں یہ لوگ شفاعت کے اعتقاد کو ایک قسم کا شرک اور آیین توحید سے انحراف سمجھتے ہیں ۔ باوجودیکہ اس اشکال کو پیش کرنا موضو ع بحث سے خارج ہے (اور اس سے مذ ہبی اشتعال کا اندیشہ ہو سکتا ہے )تا ہم اس بحث کی تکمیل کے لئے ہم اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔

پہلے اس موضو ع کی طرف توجہ ضروری ہے کہ وہابی حضرات جنہوں نے آخری دو صدیو ں میں محمد بن عبدالوہاب بن سلیمان کی رہبری میں سر زمین حجاز کو اپنے افکار کے زیر تسلط کر لیا ہے وہ اپنے تند وتیز عقائد میں جو زیادہ تر توحید کے سلسلہ میں ہیں نہ صرف یہ کہ شیعوں کے مخالف ہیں بلکہ اکثر اہل تسنن مسلمانوں کے بھی سخت مخالف ہیں ۔

محمد بن عبدالوہاب نے ا پنے نظریات بن تیمیہ(احمد بن عبدالحلیم دمشقی متوفی ۷۲۸ ھ،جواس سے تقریبا چارسوسال ہو گزرے)سے لئے ہیں ۔وہ حقیقت میں بن تیمیہ کے افکا ر وعقائد کااجرا کرنے والاتھا ۔

محمد بن عبدالوہاب ۱۱۶۰ سے اپنے سن وفات ۱۲۰۶ تک وہا ں کے حاکموں کا ساتھ دےتے ہو ئے حجاز کے بدوں اور بیابانوں میں گھومنے والی اقوام میں ساکت تعصب کی آگ بڑ کاتارہا ۔توحید کے دفاع اور شرک کے مقابلے کے نام پراپنے مخالفین کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتارہا اور اس طرح کاروبار حکومت اور سیاسی قیادت پر الٹے سید ھے طریقے سے تسلط جمانے میں کامیاب ہوگیا ۔اور اس سلسلے میں حجاز اور حجاز سے باہر بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا ۔

محمدبن عبدالوہاب کے مریدوں کی کشمکش علاقہ حجاز تک محدود نہ تھی بلکہ ۱۲۱۶( یعنی ٹھیک محمد بن عبدالوہاب کے انتقال کے د س سال کے بعد اس کے مرید اور پیروکارحجاز کے بیابانوں کے راستے نکلے اور بے خبری میں اچانک کربلا پر حملہ کردیا عید غدیر کی مناسبت سے شہر میں چھٹی تھی اور کربلا کے اکثر لوگ عید غدیر کے سلسلے میں نجف اشرف گئے ہو ئے تھے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے شہر کی دیوار توڑدی اور شہر میں لوٹ مار مچادی ۔حرم امام حسین اور دوسرے مقدس اسلامی مقامات کوتباہ وبرباد کردیا ۔ان مقامات سے تمام ہیرے جوہرات ،منقش پردے ،نفیس ہدیے اور زینت کی چیزیں (لشکر یزید کی اتباع میں )لوٹ کر لے گئے ۔پچاس مسلما ن ضریح کے قریب ،پانچ سو صحن میں اورکثیر تعداد میں شہر کے دیگر مقامات پر شہید کردیے جب کہ بعض لوگ اس موقع پر شہدائے کربلا کی پچا س ہزار سے زیادہ کی تعداد بیان کرتے ہیں بہت سے گھروں میں غا رت گری کی گئی۔یہاں تک کہ بوڑ ھے بچے اور عورتیں بھی اس ظلم سے محفوظ نہ رہ سکے ۔

۱۳۴۴ میں فقہائے مد ینہ نے جو کاروبار حکومت میں دخل رکھتے تھے فتویٰ دیا کہ حجاز میں تمام بزرگان دین کی قبریں مسمار کردی جائیں اور آٹھ شوال کو(متو کل عباسی کی پیروی میں )یہ حکم نافذ کردیا گیا ۔قبر رسول تو تمام مسلمانوں کی ناراضگی کے خوف سے محفوظ رہ گئی۔

خلاصہ یہ کہ اس مذہب کے پیروکار خود محمد بن عبدالوہاب کی طرف سخت مزاج ، رحمدلی سے عاری ،خود سر ، لکیر کے فقیر اور متعصب ہیں عقل ومنطق کے بجائے شدت وسختی پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔دانستہ یا ندانستہ وہ تمام اسلام چند ایک مسائل کے لئے مقابلہ اور جنگ ہی کر نا سمجھتے ہیں ۔مثلا شفاعت ، زیارت اور توسل ۔عملی طور پر اسلام کے اہم اجتماعی ااور معاشرتی مسائل خصوصا جن کا تعلق عدالت اجتماعی ااور سامراجی آثا ر کو ختم کرنے اور مادہ پرستی اور مذاہب الحادی کے عقل ومنطق کے ساتھ مقابلہ سے لوگوں کو دور رکھے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے فکری دائرہ کار میں ان مسائل کے بارے میں گفتگونہیں ہوتی اور دور حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایک وحشت ناک جہالت اور لاعلمی میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔

بہرحال یہلوگ مسئلہ شفاعت کے بارے میں یوں کہتے ہیں :

کو ئی شخص حق نہیں رکھتا کہ وہ رسول اسلام سے شفاعت طلب کرے ۔مثلاوہ کہے یامحمد اشفع لی عنداللہ(اے محمد !اللہ کے ہاں میری شفاعت کیجئے )”( وان المساجد لله فلاتدعوامع الله احدا ) (جن ، ۱۸)

رسالہ کشف الشہاب ،تالیف محمد بن عبدالوہاب میں یوں ہے :

اگر کوئی کہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ خدانے پیغمبر کو مقام ِشفاعت بخشا ہے اورآپ خدا کے اذن وفرمان سے شفاعت کر سکتے ہیں تو کیا حرج ہے کہ جو کچھ خدا نے انہیں بخشا ہے ہم اس کا تقاضا کریں ۔

تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ درست ہے کہ خدا نے انہیں مقام شفاعت عطاکیا ہے لیکن اس کے باوجود اس نے نہی کی ہے کہ ہم ان سے شفاعت طلب کریں ۔ خدانے کہا ہے --”فلاتدعوامع اللہ احدا“ ( اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو)۔

علاوہ ازیں مقام شفاعت نبی کریم سے مخصوص نہیں ہے فرشتے اور دوستان خدا بھی اس مقام کے حامل ہیں تو کیا ہم ان سے بھی شفاعت طلب کر سکتے ہیں ۔اگر کوئی اس طرح کہے تو اس نے خدا کے صالح بندوں کی پرستش اور عبادت کی ہے ۔ ۱

شرک سے نجات صرف چار قواعد جاننے سے ممکن ہے :

( ۱) وہ کفار جن سے نبی اکرم بر سرے پیکار تھے یہ اقرار کرتے تھے کہ خدا ہی خالق و رازق اور وہی جہان کی تدبیر کرنے والا ہے ”۔( قل من یرزقکم من السماء والارض و من یدبر الامر ط فسیقولون الله ) یعنی ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے اور کون تدبیر امر کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں اللہ ،( یونس ، ۳۱ )

لیکن یہ اقرار ا نہیں ہرگز مسلمانوں کے زمرے میں داخل نہ کرسکا ۔

( ۲) وہ کہتے تھے بتوں کی طرف ہماری توجہ اور ان کی عبادت صرف قرب خدا اور شفاعت کے لئے ہے --” ۔( ویقولون هولاء شفعائنا عندالله ) “یعنی وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے شفیع ہیں ۔

( ۳) پیغمبر نے ا ن تمام لوگوں کی جو غیر خدا کی عبادت کرتے ہیں نفی کردی اور ان کے خلاف حکم دیا چاہے وہ فرشتوں اور انبیاء اور صالحین کی عبادت کرتے تھے یا درختوں ، پتھروں ، سورج اور چاند کی ، آپ ان کے درمیان کسی قسم کے فرق کے قائل نہ تھے ۔

( ۴) ہمارے زمانے کے مشرکین زمانہ جاہلیت کے مشرکوں سے بد تر ہیں کیونکہ وہ اطمینان و راحت کے وقت بتوں کی عبادت کرتے تھے لیکن تنگی و سختی میں وہ صرف خدا کو پکارتے تھے ، جیسا کہ قرآن میں ہے:

( فاذا رکبو فی الفلک دعوالله مخلصین له الدین )

( لہذا جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو خالصتاَ خدا ہی کو پکارتے ہیں ) عنکبوت ۔ ۶۵)

لیکن ہمارے زمانے کے مشرکین راحت و اطمینان اور تنگی و سختی دونون میں غیر خدا سے متوسل ہوتے ہیں ۔

____________________

۱البراہین الجمیلہ،ص ۱۷ ، بحوالہ کشف الشبہات ۔

تعجب کی بات یہ ہے

تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ باقی تمام مسلمانوں کو جو ان کے نظریات سے ہم آہنگ نہیں مشرک قرار دیتے ہیں وہ سنی ہوں یا شیعہ ۔ یہ لوگ اس قدر جبر اور جسارت کے عادی ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کا خون اور مال اپنے لئے مباح اور حلال سمجھتے ہیں ۔ انہیں قتل کرنا بغیر چوں چرا کے جائز سمجھتے ہیں جیسے پیدائش ِ وہابیت سے اب تک انہوں نے بارہا اس کا عملی مظاہرہ کر دکھایا ہے ۔ شیخ سلیمان بن لحمان کتاب ” الہدایہ السنیة “ میں کہتا ہے :

جو شخص فرشتوں ، انبیاء یا مثلا ابن عباس اور ابو طالب یا ان جیسے اشخاص کو اپنے اور خد ا کے درمیان وسیلہ قرار دے کہ وہ خدا کی بارگاہ میں اس کی شفاعت کریں کیونکہ یہ لوگ مقرب بارگاہ خدا ہیں جیسے کہ ( بعض مقربین ) بادشاہوں کے پاس شفاعت کرتے ہیں تو ایسے لوگ کافر اور مشرک ہیں اور ان کا خون اور مال مباح ہے اگرچہ وہ یہ کہتے ہیں ”اشهد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمد اََ رسول الله “ اگر چہ وہ نماز پڑھیں اور روزہ رکھیں(۱)

جو سختی ، سرکشی اور ڈھٹائی اس گفتگو سے برس رہی ہے وہ کسی شخص پر مخفی نہیں ۔

____________________

(۱) البراہین الجلیلہ ص ،۸۳ بحوالہ الہدایة السنیة ص، ۶۶

مسئلہ شفاعت کے بارے میں وہابیوں کی

مسئلہ شفاعت کے بارے میں وہابیوں کی جو منطق ان کے مذہب کے بانی محمد بن عبد الوہاب کے اقوال کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ وہ شفاعت کے طرفدار مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہوئے دو چیزوں کا سہارا لیتے ہیں ۔

۱ انبیاء اور صلحا کی شفاعت پر یقین رکھنے والے مسلمانوں کا قیاس زمانہ جہالت کے مشرکین پر کرتے ہیں ۔

۲ قرآن نے غیر خدا کی عبادت و پرستش کی صریح نفی کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کا نام نہ لیں ”( فلا تدعو مع الله احدا ) “ (سورہ جن ) اور یہ کہ تقاضائے شفاعت ایک قسم کی عبادت ہے ۔

پہلی بات کے بارے میں کہنا چاہئیے کہ اس قیاس میں وہ بہت بڑے اشتباہ کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ قرآن سے نیک اور صالح انبیاء وملائکہ کے لئے مقام شفاعت ثابت ہے جیسا کہ گذشتہ بحثوں میں گذر چکاہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ اسے اذن الٰہی پر موقوف قرار دیا ہے ۔یہ بات انتہائی غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہے کہ خدا نے انہیں یہ مقام تو دیا ہے لیکن ہمیں منع کیا ہے کہ اس حیثیت و مقام کوعمل میں لانے کا مطالبہ کریں وہ اذن خدا ہی سے کیوں نہ ہو ۔

علاوہ از ایں قرآن میں برادران یوسف کا باپ سے رجوع کرنا یا اسی طرح اصحاب پیغمبر کا رجوع اور آپ سے اپنے حق میں استغفار کا مطالبہ کرنا شمار کئے جاچکے ہیں ۔

کیا پیغمبر سے یہ تقاضا کرنا کہ ” اشفع لنا عنداللہ “ اللہ کے حضور ہماری شفاعت کیجئے ) شفاعت کے روشن و واضح مصادیق میں سے نہیں ہے جیسے حضرت یوسف کے بھائیوں نے کہا تھا ۔( یا ابانا استغفرلنا )

اے والد بزرگوار ! ہمارے لئے مغفرت کیجئے) یوسف ۔ ۹۷)

جس چیز کو قرآن صراحت سے جائز سمجھتا ہے یہ لوگ اسے کیونکر شرک شمار کرتے ہیں اور اس کے معتقد کو نیز اس کے خون اور مال کو مباح سمجھتے ہیں اگر یہ چیز شرک ہے تو حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو کیوں منع نہیں کیا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ بت پرستوں اور ان خدا پرستوں میں جو شفاعت باذن اللہ کا اعتقاد رکھتے ہیں کوئی شباہت موجود نہیں ہے کیونکہ بت پرست بتوں کی عبادت کرتے تھے اور انہیں شفیع قرار دیتے تھے جب کہ شفاعت کا عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں میں مسئلہ عبادت کا تعلق شفعاءء سے بالکل نہیں بلکہ وہ فقط ان سے خدا کے بارے میں شفاعت کی د ر خواست کرتے ہیں ۔ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے کہ شفاعت کی درخواست کا مسئلہ عبادت سے کوئی ربط نہیں ۔

بت پرست خدائے یگانہ کی پرستش سے وحشت میں تھے اور کہتے تھے :

( اجعل الالهة الها واحد ان هذا لشییء عجاب )

کیا اس نے کئی خداؤں کو ایک خدا قرار دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۔( ص، ۵

بت پرست عبادت کے لحا ظ سے بتوں کو خدا کے برار سمجھتے تھے :

( تالله ان کنا لفی ضلٰل مبین اذیریکم برب العالمین )

خدا کی قسم ہم واضح گمراہی میں تھے جب کہ تمہیں رب العالمین کے مساوی سمجھتے تھے (شعراء ۹۷ ، ۹۸)

جیسے کہ تاریخ واضح گواہی دیتی ہے پت پرست اپنی خلقت اور تقدیر میں بتوں کے عمل دخل کا عقیدہ رکھتے تھے اور اس عمل دخل کی مبدائیت کے قائل تھے جب کہ شفاعت کا اعتقاد رکھنے والے مسلمان یہ امور صرف خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں اور کسی موجود کے لئے بھی تاثیر میں استقلال کے قائل نہیں ہیں ۔

اب مسلمانو ں کو بت جیسا قراردینا بہت ہی ظالمانہ اور بعید از عقل ومنطق کام ہے

باقی رہا ددوسرا مطلب تو ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ ”عبادت“کیا ہے ۔اگر عبادت کا مفہوم ”ہر قسم کاخضو ع واحترام کر نا “لیا جا ئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کو ئی شخص کسی دوسرے کے لئے کسی قسم کا خشوع واحترا م نہ کرے ۔ظاہرہے کہ یہ مفہوم کسی کے لئے قابل قبو ل نہیں ہوسکتا ۔

اسی طرح اگر عبادت کی تفسیر ”ہرقسم کی درخواست وتقاضا کرنا “کی جائے تو ہر شخص سے درخواست وتقاضا کر نا شرک وبت پرستی قرار پاجائے حالانکہ یہ بھی عقل ودین کی واضح راہنمائی کے خلاف ہے ۔

لہذا عبادت کا مفہوم ان تمام امور سے الگ اورجدا ہے اور وہ آخری حد کا خضوع اور تواضع ہے جو مطلق تعلق اور وابستگی کے ساتھ ،بغیر کسی قیداور شرط کے۔تسلیم کے عنوان سے ”عابد“کی طرف سے معبو د کے سامنے انجام پذیر ہوتا ہے ۔

اس لفظ کی اصل ” عبد“ہے اورا س کا مفہوم لفظ عبد (بندہ )کی طرف توجہ کرنے سے ہو تا ہے ۔در اصل عبا دت کرنے والااپنی عبادت کے ساتھ نشاندہی کر تا ہے کہ معبود کے سامنے تسلیم محض کے لئے حاضر ہے اور اپنی تقدیر اس کے ساتھ میں سمجھتا ہے ۔یہ وہی مفہو م ہے جو عبادت سے عرف اور شرع میں مراد لیا گیا ہے ۔تو کیا شفعاء سے شفاعت کے سوال میں اس مفہوم ِ عبادت کا کوئی اثر موجو د ہے؟

باقی رہا دعا ا ور غیر خدا کو پکار نا ،جس سے کئی ایک بات میں روکا گیاہے ۔اس میں شک نہیں کہ اسکا مفہوم نہیں کہ کسی کو آوا ز دینے سے منع کیا گیا ہے اور کسی کو اس کے نام سے پکارنا ”یاحسن “یامحمد “کہنا ممنوع ہے یا شرک ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کسی کو پکارنا اور اس سے اس کام کی انجام دہی کی درخواست کرنا جو اس کی قد رت وطاقت میں ہو گناہ اور شرک نہیں کیو نکہ تعاون اور ایک دوسرے کی مدد کرنا اجتماعی زندگی کا حصہ ہے ۔تمام انبیاء اور آئمہ بھی یہی کچھ کیا کرتے تھے ( یہا ں تک کے خود وہابی بھی اسے ممنوع نہیں جانتے)۔

قابل اعتراض صورت ممکن ہے وہی جس پر ابن تیمیہ نے رسالہ ”زیارة القبو ر میں اعتراض کیا ہے :

مطلوب العبد ان کان لا یقد رعلیه الاالله فسائله من المخلوق مشرک من جنس عباد اللملائکةوالتماثیل ومن اتخذالمسیح وامه الهین مثل ان یقول لمخلوق حی او میت اغفر ذنبی اوانصر نی علی عدو ی او اشف مریضی وان کا مما یقدر علیه العبد فیجوز طلبه منه فی حا ل دون حال فانه مسئلة المخلوق قد تکون جائزه وقد تکون منهیا عنها قال الله تعال :فاذافرغت فانصب والٰی ربک فارغب واوصی النبی (ص)ابن عباس اذا سئلت فاسئل الله اذااستعنت فاستعن باالله و اوصی طائفة من اصحابه ان لا یسئل الناس شیئاََوکان سوط احدهم یسقط من کفه فلا یقول لاحدنا ولنی ایاه فهٰذاالمنهی عنها والجائزةطلب دعاالمو‌من لاخیه ۔(۱)

بندے کی اگر خواہش ایسی ہے جس پر خدا کے علا وہ کو ئی قدرت نہیں رکھتا تو ایسی حا جت کومخلوق سے سوال کرنے والامشرک ہے اور وہ ملائکہ ،تماثیل ،حضرت مسیح اور ان کی والد کو خدا سمجھنے والوں میں سے ہے ۔مثلا کسی زند ہ یامردہ مخلوق سے کہنا کہ میرا گناہ بخش دو یا میرے دشمن کے خلاف میری مدد کرو ۔۔۔۔۔اور وہ اگر حاجت ایسی ہے جس پر بندہ قد رت رکھتا ہے تو بعض اواقات اس سے طلب کرنا جائز ہو تا ہے اور بعض اوقا ت ناجائز کیونکہ مخلوق سے کبھی سوال جائز ہوتا ہے ا ور کبھی اس سے روکا گیا ہوتا ہے خد اوندعالم فرماتا ہے :جب آپ فارغ ہو جائیں تو نصب کریں اور اپنے رب کی ہی طرف رغبت کریں ۔نبی اکرم نے ابن عباس کو وصیت کی کہ جب تمہیں سوال کرنا ہو تو خدا سے سوال کرو یاجب اعانت طلب کرنی ہو تو تو خدا سے اعانت طلب کرو اور آپ نے اپنے ایک اصحاب کو وصیت کی تھی کہ وہ لوگوں سے کسی بھی چیز کا سوال نہ کریں ۔لہٰذاان میں سے کسی کا کوڑااس کے ہاتھ سے گرجاتا توکسی سے نہ کہتا کہ مجھے اٹھا کر دے دو تویہ منہی عنہ (وہ ہے جس سے روکاگیا )ہے اور جائز یہ ہے کہ ایک مو‌من اپنے مو‌من بھائی سے دعاکی خواہش کرے۔

اس بناء پر اگر واقعا کوئی خدا کا کام غیر خدا سے چاہے اور اسے اس کی انجام دہی میں مستقل سمجھے تو وہ مشرک ہے لیکن اگر اس سے شفاعت چاہے جو اس بندے ہی کا کام ہے اور خدا نے اسے یہ حق دیا ہے تو اس میں کسی قسم کا کو ئی شرک نہیں ہے بلکہ عین ایمان اور تو حید ہے ۔آیت :”( فلا تدعوا معالله احدا ) “میں لفظ ”مع “بھی اس کی واضح گواہی دے رہا ہے کہ یہا ں مقصود ہے کسی کو خدا کے ہم پلہ سمجھ کرمو‌ثر مستقل خیال کرنا ۔

خلا صہ یہ کہ اس بحث پراصرار وتاکید کا مقصد یہ ہے کہ مفہوم شفاعت میں تحریف اور اسے مسخ کرنا نہ صرف مذہب پر اعتراض کرنے والوں کو مذہب پرتنقید کا بہانہ فراہم کرتا ہے بلکہ دوعظیم مذہبی گروہ میں تفرقہ اور اختلاف کا سبب بھی بناہو اہے،

____________________

۱ کشف ارتباب ص۲۶۸بحوالہ زیارةقبور ص۱۵۲

آیت ۴۹

( واذنجیناکم من اٰل فرعو ن یسو مونکم سوء العذاب یذبحون ابناء کم ویستحیون نسائکم ط وفی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم ) ۴۹ ۔

۴۹ نیز ( یاد کرو اس وقت کو) جب ہم نے تمہیں فرعونیو ں کے چنگل سے رہائی بخشی جو مسلسل تمہیں سخت ترین طریقے سے تکلیف وآزار پہنچاتے تھے تمہارے بیٹوں کے سر کاٹ لیتے اور تمہاری عورتوں کو (کنیزی کے لئے )زندہ رہنے دیتے اور اس میں تمہارے پرور دگار کی طرف سے تمہاری سخت آزمائش تھی ۔

عظیم نعمت کی طرف اشارہ

قرآن ا س آیت میں ایک اور عظیم نعمت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے اللہ نے قوم بنی اسرائل کو نوازاتھا وہ ہے ستمگاروں کے چنگل سے آزادی جو خداکی عظیم نعمتوں میں ہے ۔

انہیں یاد لاتاہے :وہ زمانہ یاد کرو جب تمہیں ہم نے فرعونیوں سے آزادی دلائی تھی( واذنجیناکم من اٰل فرعون ) جو ہمیشہ شدید ترین طریقہ سے تمہیں آزار دیتے تھے( یسومونکم سوء العذاب ) ۔

تمہارے بیٹوں کا گلا کاٹ دیتے تھے ا ور تمہاری عورتوں کو کنیزی اور خدمت کے لئے زندہ رکھتے تھے (یذبحو ن ابنائکم ویستحیون نسائکم)اور یہ صور ت حال تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری آزمائش تھی( وفی ذٰلکم بلاء من ربکم عظیم ) ۔قرآن نے خصوصیت سے بنی اسرئیل پر فرعونیوں کے ظلم کی تصویر کشی کر تے ہوئے ”یسومونکم “کالفظ استعمال کیا ہے ،

یسومون فعل مضارع ہے اور مادہ سوم سے ہے جس کا اصلی مقصد کسی چیز کے پیچھے جانا ہے

ہم جانتے ہیں فعل مضارع عموما دوام اوراسمرارہی کے معنی دیتا ہے ۔اس گوسفند اور اونٹ کو ”سائمہ “کہتے ہیں جو ہمیشہ جنگل میں چرتے ہیں اور مالک کے گھر سے کبھی گھاس نہیں کھاتے ۔

یہا ں سے ہم دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل مسلسل فرعونیوں کے شکنجے میں مبتلا تھے وہ اپنی آنکھ سے دیکھتے کہ ان کے بے گناہ بیٹیو ں کو قتل کیا جارہا ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر وہ خود ہمشہ ان کے ظلم میں گرفتا ر رہتے ۔وہ قبتیوں کے غلام ،خدمت گار ،خادم اور ساز ساما ن کا حصہ شمار ہوتے تھے ۔

یہ بات اہم ہے کہ قرآ ن اس کار روائی کو بنی اسرائیل کے لئے ایک سخت اور عظیم آزمائش قرار دیا ہے (بلاء کا ایک معنی آزمائش اور امتحان ہے )اور یہ حقیقت ہے کہ ان نامناسب اورخلاف فطرت امور کو برداشت کرناایک سخت آزمائش تھی

یہ احتما ل بھی ہے لفظ ”بلاء “یہاں مجازات اور سزا کے معنی میں ہو کیو نکہ بنی اسرائیل اس سے پہلے بہت قدرت ونعمت کے حامل تھے اور انہوں نے کفران نعمت کیا لہٰذا خدا نے انہیں سزادی ۔

بعض مفسرین کی طرف سے ایک تیسر ااحتمال بھی ذکرہو ا ہے ۔وہ یہ کہ ”بلا“نعمت کے معنی میں ہے یعنی فرعو نیوں کے چنگل سے نجات تمہارے لئے ایک بہت بڑی نعمت تھی ۔ ۱

بہر حال فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کی آزادی کا دن ایک اہم تاریخی دن تھا جس کا قرآن نے بارہا تذکرہ کیا ہے ۲

____________________

۱”بلا “ کے اصلی معنی ہیں کہنگی اور قدرت آزمانے کو بھی ”بلا“ کہا گیا ہے ۔ کیونکہ جس چیز کی کئی مرتبہ آزمائش کی جائے اس میں کہنگی آجاتی ہے ۔ غم واندوہ کو بھی ”بلا“ کہتے ہیں کیونکہ یہ انسانی جسم و روح کو کہنہ و فرسودہ کردیتا ہے ۔ تکالیف اور مصائب کو بھی بلاء کہتے ہیں کیونکہ یہ انسانی جسم و روح کو کہنہ و فرسودہ کردیتا ہے شرعی اور ذمہ داریوں کو بھی بلاء کہتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے جسم وجان پر سنگین اثرات پیدا کرتی ہیں ۔ آزمائش بعض اوقا ت نعمت کے ساتھ ہوتی ہے اور کبھی مصیبت کے ساتھ لہذا لفظ بلاء بھی کبھی اس معنی میں اور کبھی اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔

۲ مزید توضیح تفسیر نمونہ کی جلد ۵ میں مطالعہ کیجئے ۔

قرآن نے بیٹیوں کو زندہ رکھنے اور بیٹوں کے سر کاٹنے کو عذاب قرار دیا ہے

اور اس ظلم سے آزادی کو اپنی نعمت شمار کیا ہے ۔ گویا وہ انسانوں کو ابھار رہا ہے کہ وہ کوشش کریں کہ ہر قیمت پر اپنی صحیح آزادی حاصل کریں اور اس کی حفاظت کر یں جیسا کہ حضرت علی اس مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔الموت فی حیاتکم مقهورین والحیاة فی موتکم قاهرین (۱)

زندہ رہنا اور زیر سرپرست ومغلوب رہنا موت ہے اور آزاد ی حاصل کرنے کے لئے موت انسان کی زندگی ہے ۔

آج کی دنیا کا گز شتہ زمانے سے فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں فرعون ایک خاص استبداد کے ساتھ مخالف گروہ کے بیٹوں اور مردوں کو قتل کر دیتا تھا اور ان کی بیٹیوں کو چھوڑ دیتا تھا ۔

لیکن آج کی دنیا میں دوسرے طریقوں سے افراد ِ انسانی کی روح ِ مردانگی کو قتل کردیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو گنا ہوں کی میں غرق لوگوں کی شہوات کی قید میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔

آخر کیوں فرعون بنی اسراعیل کے بیٹون کو قتل کرتا اور بیٹیوں کو زندہ رکھتا تھا ؟

یہ ایسا سوال ہے جس کے جواب میں بعض مفسرین اس جرم اور ظلم کا سبب ایک خواب کو قرار دیتے ہیں جو فرعون نے دیکھا تھا لیکن اس کا مفصل جواب سورہ قصص کی آیت ۴ کے تحت پڑھیں گے اور آپ کو پتہ چلے گا کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرنے کا سبب فقط ایک خواب نہ تھا جو فرعون نے دیکھا تھا بلکہ بنی اسرائیل کے طاقت ور ہونے اور حکومت چھین لینے کی وحشت و خوف بھی اس کا م کا مددگار عنصر تھا ۔

____________________

۱- نہج البلاغہ ، خطبہ ۵۱

آیت ۵۰

( و اذ فرقنا بکم البحر فانجیناکم واغرقنا اٰل فرعون و انتم تنظرون ) ۵۰

ترجمہ

اور( اس وقت کو یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لئے دریا شگافتہ کیا اور تمہیں تو نجات دے دی لیکن فرعونیوں کو غرق کر دیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے

فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ

گذشتہ آیت میں فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ موجود تھا اور محل بحث آیت در اصل اس کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ نجات انہیں کس طرح ملی تھی جو خود ایک نشانی ہے اور پروردگا ر کی بنی اسرائیل پر عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔

فرمایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شق کیا( واذ فرقنا بکم البحر ) تمہیں نجات دی اور فرعونیوں کو غرق کیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے( فانجیناکم و اغرقنا اٰل فرعون وانتم تنظرون ) ۔

فرعونیوں کی دریا میں غرقابی اور بنی ا سرائیل کی ان کے چنگل سے نجات کا ماجرا قرآن کی متعدد سورتوں میں ہے منجملہ ان کے اعراف آیہ ۱۳۶ ، انفال آیہ ۵۴ ، اسراء آیہ ۱۰۳ ، شعراء آیہ ۶۶ ، زخرف آیہ ۵۵ اور دخان آیہ ۱۷ سے بعد تک ۔

ان سورتوں میں اس واقعے کی تقریباََ تمام جزئیات کی تشریح کی گئی ہے لیکن مورد بحث آیت میں بنی اسرائیل پر خدا کی نظر رحمت و لطف کے لئے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے جو نیا نجات بخش آئین ہے صرف اشارہ کیا گیا ہے(۱) ۔

جیسا کہ تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو آپ ان سورتوں میں پڑھیں گے کہ حضرت مو سٰی ایک مدت سے تبلیغ کرنے ، فرعون اور فرعونیوں کو دعوت دینے ، قسم قسم کے معجزات دکھانے اور ان کے قبول نہ کرنے پر مامور ہوئے کہ آدھی رات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کر کوچ کر جائیں جب وہ عظیم دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو اچانک دیکھا کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کے پیچھے آرہا ہے ، بنی اسرائیل اضطراب و وحشت میں گھر گئے ۔ ان کے سامنے دریا اور غرقابی تھی اور پشت پر فرعون کا طاقت ور لشکر جس کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ تھی ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی کو حکم ہوتا ہے کہ وہ عصا دریا پر ماریں ۔ دریا میں مختلف راستے پیدا ہوجاتے ہیں اور بنی اسرائیل کی جمعیت دریا کی دوسری طرف پہنچ جاتی ہے ۔ ادھر سے لشکر مخالف جو ان کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا سارے کا سارا دریا میں داخل ہوجاتا ہے دریا کا پا نی مل جاتا ہے اور وہ سب کے سب ہلاک ہوجاتے ہیں لشکر فرعون کے مردوں کے بدن پانی پر تیرنے لگتے ہیں اور بنی اسرائیل اپنی آنکھون سے دیکھتے ہیں کہ دشمن پانی میں غرق ہوگیا

۔ وہ حالت اضطراب و وحشت وہی یہ نجات ہر دو غور و طلب امور ہیں کہ انسان اس راحت و آرام کو جب اضطراب کے بعد دیکھے تو خدا کا شکر ادا کرے ۔

قرآن کہتا ہے کہ یہودیوں سے کہے کہ ہم نے جو تم پر اس قدر لطف وکرم کیا ہے اور تم کو اس وحشت و اضطراب سے رہائی بخشی ہے تو کیوں تم رسول اسلام اور ہمارے دستور احکام کی مخالفت کرتے ہو ۔

اس آیت میں انسانوں کے لئے درس ہے کہ وہ زندگی میں خد ا پر بھروسہ کریں اور اس قوت لازوال پر اعتماد رکھیں اور صراط مستقیم میں کسی سعی و جستجو سے پیچھے نہ رہیں تو سخت ترین مواقع اور مشکلات میں خدا وند عالم ان کا یارومددگار ہوگا اور انہیں نجات دے گا ۔

____________________

۱ مزید شرح تفسیر نمونہ کی جلد ۷ ، سورہ طٰہ اایت ۷۷ کے ذیل میں مطالعہ کریں ۔