تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78119
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78119 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۵۸،۵۹

( وازقلن ا دخلوا هٰذ ه القریةفکلوامنها حیث شئتم رغداوادخلواالباب سجداوقو لو ا حطةنغفر لکم خطٰیٰکم وسنزیدالمحسنین ) ۵۸ ۔

( فبدل الذین ظلملواقولاغیر الذی قیل لهم فانزلناعلی الذین ظلموارجزامن السماء بماکانوایفسقون ) ۵۹ ۔

ترجمہ

۵۸ ۔اور (یاد کرو اس و قت کو )جب ہم نے کہا :اس بستی( بیت المقدس )میں داخل ہوجاو اور اس کی فراواں نعتو ں سے جتنا چاہو کھا واور ( معبد بیت المقدس کے)دروازے سے خضوع وخشوع کے ساتھ داخل ہو جا واو رکہو :خدایا !ہمارے گناہوں کوبخش دے ۔تاکہ ہم تمہیں بخش دیں اورہم نیک لو گو ں کو زیادہ بدلہ دیں گے۔

۵۹ ۔ظالم لوگوں نے اس قول کو بدل دیا اور اس کی جگہ ایک اور (استہزاء آمیز )جملہ کہنے لگے لہذا ہم نے ستمگروں پر اس نافرمانی کے باعث آسمان سے عذاب بھیجا۔

اس مقام پر ہمارا سابقہ بنی اسرائیل

اس مقام پر ہمارا سابقہ بنی اسرائیل کی زندگی کے ایک اور مرحلے سے پڑتا ہے جوسر زمین مقد س میں ان کے داخلے سے مربوط ہے

پہلی آ یت کہتی ہے کہ اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ان سے کہا کہ اس بستی (سر زمین قدس )میں داخل ہو جاو( واذقلناادخلواهٰذه ا لقریه ) ۔

لفظ قریہ اگرچہ روز مرہ میں بستی کے معنی میں ہے لیکن قرآن اور لغت ِ عرب میں ہر اس محل و مقام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جہاں لوگ جمع ہوں چاہے وہ بڑے شہر ہوں یا بستیان یہاں مراد بیت المقدس اور قدس کی سر زمین ہے۔قرآن مزید کہتا ہے : اس کی فراوان نعمتوں میں سے جتنا چاہو کھاؤ( فکلوا منها حیث شئتم رغدا ) اور بیت المقدس کے دروازے سے خضوع و خشوع کے ساتھ گزر جاؤ ( وادخلو الباب سجدا ) اور کہو: خدایا ہمارے گناہوں کو بخش دے( و قولو احطة ) تاکہ ہم تمہاری خطاؤں کو بخش دیں اور ہم نیک لوگوں کو زیا دہ بدلہ دیں گے( نغفر لکم خطٰیٰکم و سنزید المحسنین ) ۔

متوجہ رہنا چاہیئے کہ لفظ حطہ لغوی لحاظ سے جھاڑنے اور نیچے گرانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کا معنی یہ ہوگا کہ خدایا ہم تجھ سے اپنے گناہوں کے گرنے کی خواہش کرتے ہیں ۔

خدا نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کے لئے یہ جملہ سچے دل سے زبان پر جاری کریں اور ان سے وعدہ کیا کہ اس حکم پر عمل در آمد کی صورت میں ان کی غلطیوں سے صرف ِ نظر کیا جائے گا ۔ شاید اسی مناسبت سے بیت المقدس کے ایک درواذے کا نام باب الحطہ رکھا گیا ہے جیسا کہ ابو حیان اندلسی نے بیان کیا ہے :

باب سے مراد بیت المقدس کا ایک دروازہ ہے جو باب حطہ کے نام سے مشہور ہے(۱)

ٓ آ یت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے کہ نیک لوگوں کے لئے مغفرت اور گناہوں کی بخشش کے ساتھ ساتھ ہم اجر میں مزید اضافہ کریں گے و سنز ید المحسنین)۔

بہر حال خدا وند عالم نے انہیں حکم دیا تھا کہ وہ گناہوں سے توبہ کے لئے خدا کی بارگاہ میں خضوع کے طور پر یہ جملہ بھی سچے دل سے زبان پر جاری کریں جو توبہ اور تقاضائے عفو کی دلیل ہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اس حکم پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ان کے گناہوں کو بخش دے گا بلکہ یہاں تک کہ ان کے پاک اور نیک کارلوگوں کو گناہوں کی بخشش کے علاوہ دوسرا اجر بھی دے گا ۔

لیکن جیسا کہ ہم بنی اسرائیل کی ہٹ دھر می اور سر کشی کو جانتے ہیں ، ان میں سے ایک گروہ نے یہ لفظ ادا کرنے کے حکم کی خلاف ورزی کی اور اس کے بجائے استہزا کے طور پر ایک مناسب لفظ کہنے لگے لہذا قرآن کہتا ہے : رہے وہ لوگ جو ظالم و ستمگار تھے انہوں نے اس لفط کو کسی اور لفط سے بدل دیا ۔( فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لهم ) ہم نے بھی ستمگروں پر ان کے فسق و گناہ کی وجہ سے آسمان سے عذاب اتارا( فانز لنا علی الذین ظلموا رجزاََ من السماء بما کانوا یفسقون )

جیسا کہ راغب نے مفردات میں کہا ہے ”رجز “ در اصل ا ضطراب ، انحراف اور بد نظمی کے معنی میں ہے ۔ یہ تعبیر خصوصاََ اونٹ کے لئے اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ اپنے پاؤں کمزور اور ناتوانی کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب نامنظم طور پر رکھے ۔

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں کہتے ہیں :

” رجز “در اصل حجاز کی لغت میں عذاب کے معنی میں ہے ۔

وہ نبی اکرم سے ایک حدیث نقل کرتے ہیں جو طاعون کے موقع پر آپ نے ارشاد فرمائی :

( انه رجز عذب به بعض الامم من قبلکم )

یہ ایک قسم کا عذاب ہے جو تم سے پہلے کی بعض امتو ں پر نازل ہوا(۲)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ بعض رویات میں زیر بحث آیت میں لفظ رجز کو ایک قسم کا طاعون کیوں قرار دیا گیا ہے ، جو تیزی سے بنی اسرائیل میں پھیلا اور اس نے ایک گروہ کو ختم کردیا ۔

ممکن ہے کہا جائے کہ طاعون کی بیماری ایسی چیز نہیں ہے جو آسمان سے نازل ہوسکتا ہے بنی اسرائیل کی طرف طاعون کے جراثیم ان کے گرد چلنے والی ہوا میں موجود غلیظ گرد و غبار میں شامل ہوں ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ طاعون کے درد ناک عوارض میں سے یہ بھی ہے کہ اس بیماری کے عالم میں لوگ گفتگو اور چلنے پھر نے میں بد نظمی اور اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں جو اس لفط کے اصلی معنی کے ساتھ پوری مناسبت رکھتا ہے ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن مندرجہ بالا آیات میں ” فانزلنا علیھم “ کی بجائے ” فانزلنا علی الذین ظلموا “ جنہوں نے ظلم کیا ہم نے ان پر عذاب نازل کیا ) کہ کر یہ واضح کرتا ہے کہ اس عذاب اور خدا ئی سزا نے صرف بنی اسرائیل کے ستمگاروں کو ہی اپنی گرفت میں لیا اور سب خشک و تر اس میں نہیں جکڑے گئے ۔ اس کے علاوہ آخرآیت میں جملہ ” بما کانو ا یفسقون “ آیا ہے تاکہ اس موضوع کی مزید تاکید ہوجائے کہ ان کا ظلم و فسق ہی ان پر سزا اور عذاب کی علت اور سبب ہے ۔

اس طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہ اس جملہ کے مذکورہ حصے نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ برے اعمال میں مصرو ف تھے اور ہمیشہ کے لئے ان پر کار بند تھے ۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ جب عادت کی شکل اختیار کرلیں اور حالت و کیفیت کے طور پر معاشرے میں مرتکز ہوجائے تو اس وقت عذاب الہی نازل ہونے کا احتمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔

____________________

۱ صاحب تفسیر الکاشف نے زیر نظر آیت کے ذیل میں ابو حیان کی یہ عبارت نقل کی ہے ۔

۲ تفسیر نمونہ جلد ۴ میں بھی لفظ رجز کے معنی میں بحث کی گئی ہے ۔

آیت ۶۰

( و اذاستسقٰی موسٰی لقومه فقلنا اضرب بعصاک الحجر ط فانفجرت منه اثنتا عشرة عینا ط قد علم کل اناس مشربهم کلو ا و اشربو ا من رزق الله ولا تعثو ا فی الارض مفسدین ) ۶۰ ۔

ترجمہ

۶۰ ۔ اور وہ زمانہ ) جب موسی ٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنے عصا کو مخصوص پتھر پر مارو اچانک اس سے بارہ چشمے ابلنے لگے ( اس طرح کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کے ) سب لوگ اپنے اپنے مخصوچشمے کو پہچانتے تھے ، ( اور ہم نے کہا خدا کی روزی میں سے کھاؤ پیو اور زمین پر فساد نہ کرو اور نہ ہی فساد پھیلاؤ ۔

بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری ہوئے

اس آیت میں بنی اسرائیل پر کی گئی ایک اور نعمت کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے ( اس خشک اورجلانے والے بیابان میں جس وقت بنی اسرائیل پانی کی وجہ سے سخت تنگی میں مبتلا تھے ) پانی کی درخواست کی و اذ استسقیٰ موسی ٰ لقومہ ) تو خدا نے اس درخواست کو قبول کیا جیسا کہ قرآن کہتا ہے : ہم نے اسے حکم دیا کہ اپنا عصا مخصوص پتھر پر مارو (فقلنا اضرب بعصاک الحجر ) اس پر اچانک پانی ابلنے لگا اور پانی کے بارہ چشمے زور و شور سے جاری ہوگئے فانفجرت منہ اثنتا عشرة عینا )۔

بنی اسرائیل کے قبائیل کی تعداد کے عین مطابق جب یہ چشمے جاری ہوئے تو ایک چشمہ ایک قبیلہ کی طرف جھک جاتا تھا جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں اور قبیلوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے چشمے کو پہچان لیا ، قد علم کل اناس مشربھم )۔

یہ پتھر کس قسم کا تھا حضرت موسیٰ کس طرح اس پر عصا مارتے تھے اور پانی اس میں سے کیسے جاری ہوجاتا تھا ۔ اس سلسلے میں بہت کچھ گفتگو کی گئی ہے جوکچھ قرآن اس بارے میں کہتا ہے وہ اس سے زیادہ نہیں کہ موسیٰ نے اس پر عصا مارا تو اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے ۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ پتھر ایک کو ہستانی علاقہ کے ایک حصے میں واقع تھا جو اس بیابا ن کی طرف جھکا ہوا تھا سورہ اعراف آیہ ۱۶۰ کی تعبیر ” انجست “ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ابتداء میں اس پتھر سے تھوڑا تھوڑا پانی نکلا اور بعد میں زیادہ ہو گیا ۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کا ہر قبیلہ ، ان کے جانور جو ان کے ساتھ تھے اور وہ کھیتی جو انہوں نے احتما لاَ اس بیابا ن کے ایک حصے میں تیار کی تھی سب اس سے سیراب ہوگئے ، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کوہستانی علاقہ میں پتھر کے ایک حصہ سے پانی جاری ہوا البتہ یہ مسلم ہے کہ یہ سب معجزے سے رونما ہوا ۔

خدا نے موسیٰ سے کہا : قوم کے آگے آگے رہو اور اسرائیل کے بعض بزرگوں کو ساتھ لے لو اور وہ عصا جسے نہر پر مارا تھا ہاتھ میں لے کر روانہ ہوجاؤ میں وہاں تمہارے سامنے کوہ حوریب پر کھڑا ہو جاؤں گا اور اسے پتھر پر مارو اس سے پانی جاری ہوجائے گا ۔ تاکہ قوم پی لے اور موسیٰ نے اسرائیل کے مشائخ اور بزرگوں کے سامنے ایسا ی کیا(۱)

بہر حال ایک طرف خدا وندعا لم نے ان پر من و سلویٰ نازل کیا اور دوسری طرف ان پر فراواں پانی عطا کیا اور ان سے فرمایا :

خدا کی دی ہوئی روزی سے کھاؤ پیو لیکن زمین میں خرابی اور فساد نہ کرو( کلو و اشربو من رزق الله ولا تعثوا فی الارض مفسدین ) ۔

گویا یہ آیت انہیں متوجہ کرتی ہے کہ کم از کم ان عظیم نعمتوں کی شکر گزاری کے طور پرضدی پن ، ستمگری انبیاء کو ایذا رسانی اور بہانہ سازی ترک کردو ۔

____________________

۱ فصل ۱۷ سفر خروج ، جملہ ۵ و ۶ ۔

تعثوا“اور مفسدین میں فرق :

تعثوا “کا مادہ ” عثی “ ( بروزن ) مسی ہے ) جس کے معنی ہیں شدید فساد ۔ البتہ یہ لفظ زیادہ تر اخلاقی اور روحانی مفاسد کے لئے استعمال ہوتا ہے جب کہ مادہ ”عیث “ جو معنی کے طور پر اس کے مشابہ ہے زیاد ہ تر حسی مفاسد کے لئے بولا جاتا ہے ۔ لہذا ” لاتعثوا “ کے معنی بھی ” مفسدین“ کے ہیں لیکن تاکید اور زیادہ شدت کے ساتھ۔ یہ بھی احتمال ہے کہ پورا جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہو کہ فساد ابتدا میں ایک چھوٹے سے نقطے سے شروع ہوتا ہے پھر اس میں وسعت اور پھیلاؤ آجاتا ہے اور اس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ ٹھیک وہی چیز ہے جو لفظ ” تعثو ا “ سے معلوم ہوتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ” مفسدین“ فساد انگیز پرو گرام کے آغاز کی طرف اور ” تعثو ا“ اس کے دوام اور استمرار اور اسے وسعت دینے کی طرف اشارہ ہے ۔

بنی اسرائیل کی زندگی میں خلاف معمول واقعات :

بعض لوگ جو منطق اعجاز سے واقف نہیں وہ اتنے پانی اور اتنے چشموں کے ایک پتھر سے ابلنے اور جاری ہونے کو بعید شمار کرتے ہیں حالانکہ اس قسم کے مسائل جن کا اہم تر حصہ معجزات انبیاء پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم ا سے اپنے مقام پر بیان کر چکے ہیں ۔ کوئی امر محال یا علت و معلول کے قانون میں کوئی استثناء نہیں ہے بلکہ یہ صرف خارق عادت چیز ہے یعنی اس علت و معلول کے خلاف ہے جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں ۔خلاصہ یہ کہ عالم ہستی اور نظام علت ومعلول کو پیدا کرنے والا اس پر حاکم ہے نہ کہ اس کا محکوم ۔ خود ہماری روز مرہ کی زندگی میں موجودہ علت و معلول کے نظام کے استثنائی واقعا ت تھو ڑ ے نہیں ہیں(۱) ۔

انفجرت اور انبجست میں فرق:

زیر بحث آیت میں ” انفجرت “ استعمال ہوا ہے جب کہ سورہ اعراف آیہ ۱۶ میں اس کی جگہ ” انبجست “ آیا ہے پہلے کا معنی ہے پانی کا سخت بہاؤ اور دوسرے کا معنی ہیں تھوڑا تھوڑا اور آرام سے جاری ہونا ۔، ممکن ہے دوسری آیت اس پانی کے جاری ہونے کے ابتدائی مرحلہ کی طرف اشارہ ہو تاکہ پریشانی کا سبب نہ بنے اور بنی اسرائیل اسے اپنے کنٹرول میں کر سکیں اور ” انفجرت “ اس کے آخری مرحلہ کی طرف اشارہ ہو جس سے مراد تیز بہاؤ ہے ۔کتاب مفردات راغب میں آیا ہے کہ ” انبجاس “ وہاں بولا جاتا ہے جہاں پانی چھوٹے سے سوراخ سے نکل رہا ہو اور انفجار اس وقت کہتے ہیں جب پانی وسیع جگہ سے باہر آرہا ہو جو کچھ ہم کہ چکے ہیں یہ تعبیر اس سے پوری طرح ساز گا ر ہے ۔

____________________

۱ زیادہ وضاحت کے لئے کتاب ” رہبران بزرگ “ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیت ۶۱

( و اذ قلتم یٰموسٰی ٰلن نصبر علی طعام و احد فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الارض من بقلها و قثائها و فومها وعدسها و بصلها ط قال اتستبدلون الذی هو ادنیٰ بالذی هو خیر ج اهبطو مصرا فان لکم ما سالتم ط و ضربت علیهم الذلة والمسکنة وباء و بغضب من الله ط ذٰلک بانهم کانو ا یکفرون باٰیٰت الله ویقتلون النبیین بغیر الحق ذٰلک بما عصو ا و کانو یعتدون ) ۶۱ ۔

۶۱ ۔ اور یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کہا : اے موسٰی ! ہم اس کے لئے ہر گز تیار نہیں کہ ایک ہی قسم کی غذا پر اکتفا ء کریں اپنے خدا سے دعاء کرو کہ ہمارے لئے زمین سے اگنے والی سبزیوں میں سے اور ککڑی ، لہسن مسور اور پیاز اگائے ۔ موسٰی نے کہا : کیا بہتر غذا کے بدلے پست ا نتخاب کرتے ہو ( اب اگر ایسا ہی ہے تو کوشش کرو اور اس بیابان سے نکل کر ) کسی شہر میں داخل ہوجاؤ کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ تو وہیں ہے ۔ خدا وندے عالم نے ذلت و محتاجی ( کی مہر) ان کی پیشانی پر لگا دی اور نئے سرے سے وہ غضب پروردگار میں مبتلا ہو گئے کیونکہ وہ آیات الہی سے کفر کرتے اور انبیاء کا قتل کرتے تھے اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ گنہگار ،سرکش اور تجاوز کرنے والے تھے ۔

ان نعمات فراواں کی تفصیل کے بعد

ان نعمات فراواں کی تفصیل کے بعد جن سے خدا نے بنی اسرائیل کو نوازا تھا ۔ زیر نظر آیت میں ان عظیم نعمتوں پر ان کے کفران اور ناشکر گزاری کی حالت کو منعکس کیا گیا ہے ۔ اس میں اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ کس قسم کے ہٹ دھرم لوگ تھے ۔ شاید تاریک دنیا میں ایسی کوئی مثال نہ ملے گی کہ کچھ لوگوں پر اس طرح سے الطاف الہٰی ہو لیکن انہون نے اس طرح سے اس مقابلے میں ناشکر گزاری اور نافرمانی کی ہو ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب تم نے کہا اے موسٰی ہم سے ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی غذا پر قناعت کرلیں ( من و سلویٰ کتنی ہی اچھی اور لذیز غذا ہو ہم مختلف قسم کی غذا چاہتے ہیں )( و اذ قلتم یٰموسٰی لن نصبر علی طعام واحد ) لہذا خدا سے خواہش کرو کہ وہ زمین سے جو کچھ اگایا کرتا ہے ہمارے لئے بھی اگائے سبزیوں میں سے ، ککڑی ، لہسن ، مسور اور پیاز( فادع لنا ربک یخرج لنا مما تنبت الارض من بقلها و قثائها و فومها و عدسها وبصلها ) لیکن موسٰی نے ان سے کہا : کیا تم بہتر کے بجائے پست غذا پسند کرتے ہو( قال اتستبدلون الذی هو ادنیٰ با الذی هو خیر ) جب معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر اس بیابان سے نکلو اور کسی شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرو کیونکہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ وہاں ہے( اهبطو امصرا فان لکم ما سئالتم )

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے کہ خد انے ان کی پیشانی پر ذلت و فقر کی مہر لگا دی( و ضربت علیهم الذلة و المسکنة ) اور وہ دوبارہ غضب الہٰی میں گرفتارہوگئے( و با ؤا بغضب من الله ) ۔

یہ اس لئے ہوا کہ وہ آیات الٰہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے( ذٰلک بانهم کانوا یکفرون بایات الله ویقتلون النبیین بغیر الحق ) یہ سب اس لئے تھا کہ وہ گناہ ، سر کشی اور تجاوز کے مرتکب ہوتے تھے( ذٰلک بما عصوا و کانو ا یعتدون ) ۔

یہاں مصری سے کون سی جگہ مراد ہے

بعض مفسرین کا نظریہ ہے لفظ مصر اس آیت میں اپنے کلی مفہوم کی طرف اشارہ ہے یعنی تم ا س و قت بیابان میں ایک خودسازی کے اور آزمائشی پروگرام میں شریک تھے ۔یہا ں قسم قسم کی غذائیں نہیں ہیں لہذا شہروں میں جاو ،وہا ں چلو پھرو وہا ں ہر چیز موجو د ہے لیکن یہ خود سازی اور اصلاحی پروگرام وہا ں نہیں ہے ۔وہ اس کی دلیل پیش کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے کبھی شہر مصر کی طرف جا نے کا تقاضا کیااور نہ کبھی اس کی طرف واپش گئے ۔(۱)

بعض دوسر ے مفسرین نے بھی یہی تفسیر کی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ مقصد یہ ہے کہ تمہارا اس بیا بان میں رہنا اور ا س ایک قسم کی غذا سے استفادہ کرنا تمہا ری کمزوری ،ناتوانی اور زبوں حالی کی وجہ سے ہے ۔تم طاقتور بنو ،دشمنو ں کے ساتھ جنگ کرو ،شام کے شہر اور سر زمین مقدس ان سے چھین لوتاکہ تمہیں تمام چیز یں میسر آسکیں(۲)

اس آیت کی تیسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ مراد وہی ملک مصر ہے یعنی اگر تم ایک قسم کی غذا سے اس بیا با ن میں تم فائد ہ اٹھاتے ہو تو اس کے بدلے تمہا رے پاس ایمان ہے اور تم خود آزاد اورمختار ہو اور اگر یہ چیزیں نہیں چاہتے تو پلٹ جا و اور دوبارہ فرعونیوں یا ان جیسے لوگوں کے غلام اور قیدی بن جاوتاکہ ان کے دستر خوان سے بچی ہو ئی قسم قسم کی غذ ائیں کھا سکو تم شکم سیری اور کھا نے کے پیچھے لگے ہوئے ہو یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت تم غلام اور قیدی تھے اورآج آزاد اور سر بلند ہو۔اب اگر حقیقت میں تم کچھ چیزوں سے محروم بھی ہو تو یہ آزادی کی قیمت ہے جو ادا کررہے ہو(۳)

لیکن اس سلسلے میں پہلی تفسیرہی سب سے زیادہ مناسب ہے ۔اس دلیل کی بناء پر جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں

____________________

۱ علاوہ ازیں لفظ ”مصر “کی تنوین اس کے نکرہ ہو نے کی دلیل ہے لہذا اس دسے شہر مصر مراد نہیں ہو سکتا

۲ تفسیر المنار ،آیہ مذکورہ کے ذیل میں ۔

۳ تفسیر فی ضلال

کیا نت نئی چیز کی خواہش انسانی مزاج کا خاصہ نہیں :

اس میں شک نہیں کہ نت نئی چیز کی خواہش انسان کی زندگی کے لوازمات اور خصوصیات میں سے ہے یہ بات انسانی زندگی کا حصہ ہے وہا ں ا یک قسم کی غذا سے اکتاجاتا ہے لہذا یہ کوئی غلط نہیں پھر آخر بنی اسرائیل کیوں تنو ع کی درخواست پر لائق سر زنش قرار پائے

اس سوال کا جواب ایک نکتے کے ذکر سے واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ انسانی زندگی میں کھانا ،سونا ،شہوت اورطرح طرح کی لذتیں بنیادی چیز نہیں ہیں ایسے اوقات بھی آتے ہیں کہ ان امو ر کی طرف توجہ انسان کو اس کی اصل غرض اور اولین مقصد سے دور کر دیتی ہے جو در اصل ایمان ، پاکیزگی ، تقوی اور اصلاح ذات ہے یہ وہ مقام ہے جہا ں پر انسان ان تمام چیزوں کو ٹھوکر مار دیتا ہے ۔نت نئی چیز کی خواہش در حقیقت کل کے اور آج کے استعمار گر وں کا ایک بہت بڑا جال ہے اورخصوصا آج کے زمانے میں اس تنوع طلبی سے استفادہ کیا جارتا ہے اورانسان کو قسم قسم کی غذاوں ،لباس ،سواری اورمکان کی خواہش کا اسیر بنا دیا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو بالکل بھو ل جاتا ہے اور ان چیزوں کی قید کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے ۔

کیامن وسلوی ٰہر غذاسے بہتر وبر تر تھا:

اس میں شک نہیں مختلف سبز یوں کی غذا جس کا بنی اسرائیل حضرت موسی ٰ سے تقاضا کرتے تھے انتہائی قیمتی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کو صرف ایک پہلو سے نہیں دیکھنا چاہیئے کیا یہ درست ہے کہ ا نسا ن مختلف قسم کی غذاوں کو حا صل کر نے کے لئے اپنے آپ کو قیدی بنالے ۔جب کہ ایک قول کے مطابق ”من “ایک پہا ڑ ی شہد ہے یا شہد کی طرح کی ایک طاقت بخش اور مفید میٹھی چیز ہے یہ ایک مفید ترین اور طاقت سے بھر پور غذا ہے ۔اس میں تازہ گوشت میں موجو د پروٹین کے اجزا ء بھی ایک خاص پرندے سلویٰ کی صورت میں موجود تھے بلکہ وہ کئی جہت سے عام طور پر موجود پروٹین کے اجزاء سے بہترتھے کیو نکہ” من“کا ہضم ہونا بہت آسا ن ہے جب کہ سلویٰ کے ہضم کے لئے معدے کو تھکا دینے والی فعالیت کی ضرورت ہے۔(۱)

اس ضمن میں متوجہ رہنا چاہیئے کہ لفظ ”فوم “جو بنی ا سرائیل کے تقاضوں میں سے ہے بعض نے اس کے معنی گندم اور بعض نے لہسن بیان کئے ہیں البتہ ا ن میں سے ہر ایک خصوصی امتیا ز رکھتا تھا لیکن بعض کا نظریہ ہے کہ گندم زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعید ہے کہ انہوں نے ایسی غذا طلب کی ہو جس میں گندم نہ ہو ۔(۲)

____________________

۱قرآن بر فراز قرون واعصار ، ص۱۱۲

۲تفسیر قرطبی ،زیر بحث ،آیت کے ذیل میں ۔

ذلت کی مہر بنی اسرائیل کی پیشانی پر

ذلت کی مہر بنی اسرائیل کی پیشانی پر کیوں ثبت کی گئی مندر جہ بالا آیت سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ دو لحاظ سے ذلت وخواری میں گرفتا ر ہوئے ۔ایک تو ہے ان کاکفر اختیار کرنا ۔ احکام خدا کی خلاف ورزی کرنا اور توحید سے شر ک کی طرف منحرف ہونا اور دوسرا یہ کہ وہ حق والوں اور خدا کے بھیجے ہوئے نمائند وں کو قتل کرتے تھے یہ سنگدلی ،قساوت اورقوانین الٰہی بلکہ نوع انسانی میں موجود تمام قوانین سے بے ا عتنائی د لیل ہے جب کہ آج بھی یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس وہ قوانین وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ یہی ان کی ذلت اور بدبختی کا سبب ہے ۔(۱)

یہودیو ں کی سرنوشت اور ان کی زلت آمیز زندگی کے بارے میں اورہ آل عمران آیہ ۱۱۲ کے ذیل میں ہم تفصیلی بحث کریں گے(۲)

____________________

۱ - اس وقت جب کہ ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں لبنان کی اسلامی سرزمین یہودیو ں کی ووحشت انگیزیوں اور برباد کن مظالم کی ضد میں ہے ،ہزاروں عورتیں ، بچے ،بوڑھے اور جوان یہا ں تک کہ ہسپتالوں بیما ر درد انگیز طریقے سے جا م شہادت نوسش کرچکے ہیں اوران کی لاشیں زمین پر پڑیں ہیں البتہ اس سنگدلی کاکفارہ انہیں عنقریب اسی دنیا میں ادا کرنا پڑے گا

۲- تفسیر نمونہ ، ج ۳۔