تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78094
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78094 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

سورہ حمد کے موضوعات

اس سورہ کی سات آیات میں سے ہر ایک، ایک اہم مقصد کی طرف اشارہ کرتی ہے

( ”بسم الله“ ) ہر کام کی ابتداء کا سرنامہ ہے اور ہر کام کے شروع کرتے وقت ہمیں خدا کی ذات پاک سے مدد طلب کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔

( ”الحمد لله رب العالمین“ ) یہ اس بات کا درس ہے کہ تمام نعمتوں کی برگشت او رتمام موجودات کی پرورش و تربیت کا تعلق صرف اللہ کے ساتھ ہے۔ یہ امر اس حقیقت سے مربوط ہے کہ تمام عنایات کا سر چشمہ اسی کی ذات پاک ہے۔

( ” الرحمن الرحیم“ ) یہ اس بات کا تکرار ہے کہ خدا کی خلقت، تربیت او رحاکمیت کی بنیاد رحمت و عطوفت پر ہے اور دنیا کا نظام تربیت اسی قانون پر قائم ہے۔

( ”مالک یوم الدین“ ) یہ آیت معاد، اعمال کی جزا و سزا اور اس عظیم عدالت میں خدا وند عالم کی حاکمیت کی جانب توجہ دلاتی ہے۔

( ” ایاک نعبد و ایاک نستعین“ ) یہ توحید عبادی کا بیان ہے اور انسانوں کے لئے اس اکیلے مرکز کا تذکرہ ہے جو سب کا آسرا او رسہارا ہے۔

( ”اهدنا الصراط المستقیم“ ) یہ آیت بندوں کی احتیاج ہدایت اور اشتیاق ہدایت کو بیان کرتی ہے۔ یہ آیت اس طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ ہر قسم کی ہدایت اسی کی طرف سے ہے۔

سورہ کی آخری آیت اس بات کی واضح اور روشن نشانی ہے کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جو نعمات الہیہ سے نوازے گئے ہیں اور یہ راستہ مغضوب اور گمراہوں کے راستے سے جدا ہے۔

ایک لحاظ سے یہ سورہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ایک حصہ خدا کی حمد وثناء ہے اور دوسرا بندے کی ضروریات وحاجات۔ عیون اخبار الرضا، میں سرکار رسالت(ص) سے اس سلسلے میں ایک حدیث بھی منقول ہے۔ آپ(ص) نے فرمایا :

خدا وندعالم کا ارشاد ہے کہ میں نے سورہ حمد کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے ، لہذا میرا بندہ حق رکھتا ہے کہ وہ جو چاہے مجھ سے مانگے۔ جب بندہ کہتا ہے( ”بسم الله الرحمن الرحیم“ ) تو خدائے بزرگ و برتر ارشاد فرماتا ہے میرے بندے نے میرے نام سے ابتداء کی ہے مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کے کاموں کو آخر تک پہنچادوں اور اسے ہر حالت میں برکت عطا کروں ۔ جب و ہ کہتا( ”الحمد لله رب العالمین“ ) تو خدا وند تعالی فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد وثنا کی ہے۔ اس نے سمجھا ہے کہ جو نعمتیں اس کے پاس ہیں وہ میری عطا کردہ ہیں لہذا میں مصائب کو اس سے دور کئے دیتا ہوں ۔ گواہ رہو کہ میں دنیا کی نعمتوں کے علاوہ اسے دار آخرت میں بھی نعمات سے نوازوں گا اور اس جہان کے مصائب سے بھی اسے نجات عطا کروں گا۔ جیسے اس دنیا کی مصیبتوں سے اسے رہائی دی ہے۔ جب وہ کہتا ہے( ”الرحمن الرحیم“ ) تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرا بندہ گواہی دے رہا ہے کہ میں رحمن و رحیم ہوں ۔ گواہ رہو کہ میں اس کے حصے میں اپنی رحمت و عطیات زیادہ کئے دیتا ہوں ۔ جب وہ کہتا ہے( ”مالک یوم الدین“ ) تو خدافرماتا ہے کہ گواہ رہو جس طرح اس نے روز قیامت میری حاکمیت و مالکیت کا اعتراف کیا ہے حساب و کتاب کے دن میں اس کے حساب و کتاب کو آسان کردوں گا۔ اس کی نکیوں کو قبول کرلوں گااور اس کی برائیوں سے در گذر کروں گا۔ جب وہ کہتا ہے( ”ایاک نعبد“ ) تو خداتعالی فرماتا ہے میرا بندہ سچ کہہ رہا ہے وہ صرف میری عبادت کرتاہے۔ میں تمہیں گواہ قرار دیتا ہوں کہ اس خالص عبادت پر میں اسے ایسا ثواب دوں گا کہ وہ لوگ جو اس کے مخالف تھے اس پر رشک کریں گے جب وہ کہتا ہے( ”ایاک نستعین“ ) تو خدا فرماتا ہے میرے بندے نے مجھ سے مدد چاہی ہے اور صرف مجھے سے پناہ مانگی ہے گواہ رہو اس کے کاموں میں ، میں اس کی مددکروں گا۔ سختیوں اور تنگیوں میں اس کی فریاد پہنچوں گا اور پریشانی کے دن اس کی دستگیری کروں گا جب وہ کہتا ہے( ” اهدنا الصراط المستقیم“ ولا الضالین“ ) تو خدا وند عالم فرماتا ہے میرے بندے کی یہ خواہش پوری ہوگئی ہے اب جو کچھ وہ چاہتا ہے مجھ سے مانگے میں اس کی دعا قبول کروں گا۔ جس چیز کی امید لگائے بیٹھا ہے وہ اسے عطا کروں گا، اور جس چیز سے خائف ہے اس سے مامون قرار دوں گا(۱) ۔

____________________

۱۔ المیزان ج اول ص۳۷ بحوالہ عیون اخبار الرضا۔

اس سورہ کا نام فاتحة الکتاب کیوں ہے؟

فاتحة الکتاب کا معنی ہے آغاز کتاب(قرآن) کرنے والی۔ مختلف روایات جو نبی اکر سے نقل ہوئی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سورت آنحضرت کے زمانے میں بھی اسی نام سے پہچانی جاتی تھی۔ یہیں سے دنیائے اسلام کے ایک اہم ترین مسئلے کی طرف فکر کا دریچہ کھلتا ہے اور وہ ہے جمع قرآن کے بارے میں ۔ ایک گروہ میں یہ بات مشہور ہے کہ قرآن مجید نبی اکرم(ص) کے زمانے میں منتشر و پراگندہ صورت میں تھا اور آپ(ص) کے بعد حضرت ابوبکر،حضرت عمر یا حضرت عثمان کے زمانے میں جمع ہوا لیکن ”فاتحة الکتاب “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید پیغمب اکرم کے زمانے میں اسی موجودہ صورت مین جمع ہوچکا تھا اور اسی سورہ حمد سے اس کی ابتداء ہوئی تھی۔ ورنہ یہ کوئی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورہ تو نہیں جو یہ نام رکھا جائے اور وہ ہی اس سورة کے لئے فاتحة الکتاب نام کے انتخاب کے لئے کوئی دوسری دلیل موجود ہے بہت سے دیگر مدارک بھی ہمارے پیش نظر ہیں جو اس حقیقت کے موید ہیں کہ قرآن مجید بصورت مجموعہ جس طرح ہمارے زمانے میں موجود ہے اسی طر پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں آپ کے حکم کے مطابق جمع ہوچکا تھا۔ ان میں سے چند ایک ہم پیش کرتے ہیں :

۱ ۔ علی بن ابراہیم نے حضرت امام صادق (ع) سے روایت کیا ہے :

رسول اکرم(ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ قرآں ریشم کے ٹکڑوں ، کاغذ کے پرزوں اور ایسی دوسری چیزوں میں منتشر ہے اسے جمع کردو۔ اس پر حضرت علی(ع) مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور قرآن کو زرد رنگ کے پارچے میں جمع کیا اور پھر اس پر مہر لگادی۔

انطلق علی فجمعه فی ثوب اصفر ثم ختم علیه (۱)

۲ ۔ اہل سنت کے مشہور مولف حاکم نے کتاب مستدرک میں زید بن ثابت سے نقل کیا ہے :

ہم پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں قرآن کے پراکندہ ٹکڑوں کوجمع کرتے تھے اور ہر ایک کو نبی اکرم کی راہنمائی کے مطابق اس کے مناسب محل و مقام پر رکھتے تھے لیکن پھر بھی یہ تحریریں متفرق تھیں چنانچہ پیغمبراکرم نے علی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ایک جگہ جمع کریں (اس جمع آوری کے بعد) اب آپ ہمیں اسے ضائع کرنے سے ڈراتے تھے۔

۳ ۔ اہل تشیع کے بہت بڑے عالم سید مرتضی کہتے ہیں :

قرآن رسول اللہ کے زمانے میں اسی حالت مین اسی موجودہ صورت میں جمع ہوچکا تھا( ۲) ۔

۴ ۔طبرانی اورابن عساکر نے شعبی سے یوں نقل کیا ہے :

انصار میں سے چھ افراد نے قرآن کو پیغمبر(ص) کے زمانے میں جمع کیا تھا( ۳) ۔

۵ ۔ قتادہ، ناقل ہیں :

میں نے انس سے سوال کیا کہ پیغمبر کے زمانے میں کس شخص نے قرآن جمع کیا تھا۔ اس نے کہا چار فرا د نے جو سب کے سب انصار میں سے تھے۔ ابی بن کعب، معاذ ، زید بن ثابت اور ابوزید( ۴) ۔

ان کے علاوہ بھی روایات ہیں جن کا ذکر کرنا طول کا باعث ہوگا۔ بہرحال یہ احادیث جو شیعہ وسنی کتب میں موجود ہیں ان سے قطع نظر اس سورہ کے لئے فاتحة الکتاب نام کا انتخاب اس موضوع کے اثبات کا زندہ ثبوت ہے۔

____________________

۱۔ تاریخ القرآن، ابوعبداللہ زنجانی ص۴۴۔

۲۔ مجمع البیان، جلد اول ص۱۵۔

۳ ۔ منتخب کنزالعمال جلد دوم ص۵۲۔

۴۔ صحیح بخاری جلد۶ ص۱۰

ایک اہم سوال :

یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ اس بات کوکیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ قرآن رسول اللہ کے زمانے میں جمع ہوا جب کہ علماء کے ایک گروہ میں مشہور ہے کہ قرآن پیغمبر اکرم(ص) کے بعد جمع ہوا ہے (حضرت علی کے ذریعے یا دیگر اشخاص کے ذریعے)۔

جواب : جو قرآن حضرت علی نے جمع کیا تھا وہ قرآن، تفسیر شان نزول آیات وغیرہ کا مجموعہ تھا باقی رہا حضرت عثمان کا معاملہ تو ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اختلاف قرات کو روکنے کے لئے اسے ایک قرآت اور نقطہ گذاری کے ساتھ معین کیا کیونکہ اس وقت تک نقطے لگانا معمولات میں داخل نہیں تھا۔

رہا بعض لوگوں کا یہ اصرار کہ قرآن کسی طرح بھی رسول اللہ کے زمانے میں جمع نہیں ہوا اور یہ اعزاز حضرت عثمان خلیفہ اول یا خلیفہ دوم کو حاصل ہوا ہے۔ شاید اس سے زیادہ تر مقصود فضیلت سازی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر گروہ اس فضیلت کی نسبت خاص شخصیت کیطرف دیتا ہے اوراسی سے متعلق روایت پیش کرتا ہے۔ اصولی اور بنیادی طور پر یہ کس طرح باور کیا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم نے اس اہم ترین کام کو نظر انداز کردیا ہو حالانکہ آپ(ص) تو چھوٹے چھوٹے کاموں کی طرف بھی توجہ دیتے تھے جب کہ قرآن اسلام کا اصول اساسی ہے، تعلیم و تربیت کی عظیم کتاب ہے اور تمام اسلامی پروگراموں اور عقاید کی بنیاد ہے۔ کیا نبی اکرم(ص) کے زمانے میں جمع نہ ہونے سے یہ خطرہ پیدا نہیں ہوسکتا تھا کہ قرآن کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے یا مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوجائیں ؟

علاوہ از یں حدیث ثقلین جسے شیعہ و سنی دونوں نے نقل کیا ہے گواہی دیتی ہے کہ قرآن کتابی صورت میں رسول اللہ(ص) کے زمانے میں جمع ہوچکا تھا۔

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :

میں تم سے رخصت ہو رہا ہوں اور تم میں دو چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارہا ہوں خدا کی کتاب اور میرا خاندان۔

وہ روایات جودلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت کی زیر نگرانی صحابہ نے قران جمع کیا تھا ان میں صحابہ کی تعداد مختلف بیان ہونے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ہر روایت نے چند ایک کی نشاندہی کی ہے اس سے کام فقط ان شخصیتوں میں منحصر نہیں ہو جاتا لہذا یہ پہلو باعث اختلاف نظر نہیں ہونا چاہئے۔

۱ ۔( بسم الله الرحمن الرحیم )

۲ ۔( الحمد لله رب العالمین ) ۔

۳ ۔( الرحمن الرحیم ) ۔

۴۔( مالک یوم الدین )

۵ ۔( ایاک نعبد و ایاک نستعین )

۶ ۔( اهدنا الصراط المستقیم )

۷ ۔( صراط الذین انعمت علیهم غیرالمغضوب علیهم ولا الضالین ) ۔

ترجمہ

۱ ۔ شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے۔

۲ ۔ حمد مخصوص اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔

۳ ۔ وہ خدا جو مہربان اور بخشنے والا ہے( جس کی رحمت عام و خاص سب پر محیط ہے)۔

۴ ۔ وہ خدا جو روز جزا کا مالک ہے۔

۵ ۔ پروردگار! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں او رتجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔

۶ ۔ ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت فرما۔

۷ ۔ ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام فرمایا ان کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ وہ کہ جو گمراہ ہوگئے۔

تفسیر

۱ ۔( بسم الله الرحمن الرحیم )

تمام لوگوں میں یہ رسم ہے کہ ہراہم اور اچھے کام کا آغاز کسی بزرگ کے نام سے کرتے ہیں ۔ کسی عظیم عمارت کی پہلی اینٹ اس شخص کے نام پر رکھی جاتی ہے جس ےس بہت زیادہ قلبی لگاؤ ہو یعنی اس کام کو اپنی پسندیدہ شخصیت کے نام منسوب کردیتے ہیں ۔ مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ کسی پروگرام کودوام بخشنے اور کسی مشن کو برقرار رکھنے کے لئے ایسی ہستی سے منسوب کیا جائے جو پائیدار، ہمیشہ رہنے والی ہو اورجس کی ذات میں فنا کا گزر نہ ہو۔ اس جہاں کی تمام موجودات کہنگی پذیر ہیں اور زوال کی طرف رواں دواں ہیں ۔ صرف وہی چیز باقی رہ جائےگی، جو اس ذات لایزال سے وابستہ ہوگی۔

انبیاء و مرسلین کے نام باقی ہیں تو پروردگار عالم سے رشتہ جوڑنے اور عدالت و حقیقت پر قائم رہنے کی وجہ سے اور یہ وہ رشتہ ہے جو زوال آشنا نہیں ۔ اگر حاتم کا نام باقی ہے تو سخاوت کے باعث جو زوال پذیر نہیں ۔ تمام موجودات میں سے فقط ذات خدا ازلی وابدی ہے ۔ اس لئے چاہئے کہ تمام امور کو سا کے نام سے شروع کیا جائے۔ اس کے سائے میں تمام چیزوں کو قرار دیاجائے اوراسی سے مدد طلب کی جائے۔

اسی لئے قرآن کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے ہوتا ہے۔ اپنے امورک و برائے نام خدا سے وابستہ نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ حقیقتا اور واقعتا خدا سے رشتہ جوڑنا چاہئے۔ کیونکہ یہ ربط انسان کو صحیح راستہ پر چلائے گا اور ہر قسم کی کجروی سے باز رکھے گا۔ ایسا کام یقینا تکمیل کو پہنچے گا اور باعث برکت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کی مشہور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں :

کل امر ذی بال لم یذکر فیه اسم الله فهو ابرت

جو بھی اہم کام خدا کے نام کے بغیرشروع ہوگا ناکامی سے ہمکنار ہوگا(۱) ۔

انسان جس کام کو انجام دینا چاہے چاہئے کہ بسم اللہ کہے اور جو عمل خدا کے نام سے شروع ہو وہ مبارک ہے۔

امام باقر(ع) فرماتے ہیں :

جب کوئی کام شروع کرنے لگو، بڑاہو یا چھوٹا بسم للہ کہو، تاکہ وہ بابرکت بھی ہو اور پرا ز امن و سلامتی بھی۔

خلاصہ یہ کہ کسی عمل کی پائیداری و بقا سا کے ربط خدا سے وابستہ ہے۔ اسی مناسبت سے جب خدا وند تعالی نے پیغمبر اکرم(ص) پر پہلی وحی نازل فرمائی تو انہیں حکم دیا کہ تبلیغ اسلام کی عظیم ذمہ داری کو خدا کے نام سے شروع کریں ۔اقرا باسم ربک الذی خلق

ہم دیکھتے ہیں کہ جب تعجب خیز اور نہایت سخت طوفان کے عالم میں حضرت نوح کشتی پر سوار ہوئے۔ پانی کی موجیں پہاڑوں کی طرح بلند تھیں اور ہر لحظہ بے شمار خطرات کا سامنا تھا۔ ایسے میں منزل مقصود تک پہنچنے اور مشکلات پر قابو پانے کے لئے آپ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کشتی کے چلتے اور رکتے بسم اللہ کہو۔( و قال ارکبوا فیها بسم الله مجرئها و مرسها ) ( ہود آیت ۴۱) ۔

چنانچہ ان لوگوں نے اس پر خطر سفر کو توفیق الہی کے ساتھ کامیابی سے طے کرلیا اور امن و سلامتی کے ساتھ کشتی سے اترے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :

( قیل یا نوح اهبط بسلام منا و برکات علیک و علی امم ممن معک )

حکم ہوا اے نوح (کشتی سے) ہماری طرف سے سلامتی او ربرکات کے ساتھ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اتریے (ہود آیت ۴۸ ) ۔

جناب سلیمان نے جب ملکہ سبا کو خط لکھا تو اس کا سرنامہ بسم اللہ ہی کو قرار دیا۔

( انه من سلیمان و انه بسم الله الرحمن ) ( الرحیم )

یہ (مراسلہ) ہے سلیمان کی طرف سے اور بے شک یہ ہےبسم الله الرحمن الرحیم (نمل آیت ۳۰) ۔

اسی بناء پر قرآن حکیم کی تمام سورتوں کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے تاکہ نوع بشر کی ہدایت و سعادت کا اصلی مقصد کامیابی سے ہمکنار ہو اور بغیر کسی نقصان کے انجام پذیر ہو۔ صرف سورہ توبہ ایسی سورت ہے جس کی ابتداء میں ہمیں بسم اللہ نظر نہیں آتی کیونکہ اس کا آغاز مکہ کے مجرموں او رمعاہدہ شکنوں سے اعلان جنگ کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ لہذا ایسے موقع پر خدا کی صفات رحمان و رحیم کا ذکر مناسب نہیں ۔

یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ ہر جگہ بسم اللہ کہا جاتا ہےبسم الخالق یابسم الرزاق وغیرہ نہیں کہا جاتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ اللہ خدا کے تمام اسمآاور صفات کا جامع ہے۔ اس کی تفصیل عنقریب آئے گی۔ اللہ کے علاوہ دوسرے نام بعض کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں مثلا خالقیت، رحمت وغیرہ۔ اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کام کی ابتداء میں بسم اللہ کہنا جہاں خدا سے طلب مدد کے لئے ہے وہاں اس کے نام سے شروع کرنے کے لئے بھی ہے۔ اگر چہ ہمارے بزرگ مفسرین نے طلب مدد اور شروع کرنے کو ایک دوسرے سے جدا قرار دیا ہے خلاصہ یہ کہ آغاز کرنا او رمدد چاہنا ہر دو مفہوم یہاں پر لازم و ملزوم ہیں ۔

بہرحال جب تمام کام خدا کی قدرت کے بھروسہ پر شروع کئے جائیں تو چونکہ خدا کی قدرت تمام قدرتوں سے بالا تر ہےاس لئے ہم اپنے میں زیادہ قوت و طاقت محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ زیاد مطمئن ہو کر کوشش کرتے ہیں ۔ بڑی سے بڑی مشکلات کا خوف نہیں رہتا اور مایوسی پیدا نہیں ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے انسان کی نیت او رعمل زیادہ پاک اور زیادہ خالص رہتا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں جتنی گفتگو کی جائے کم ہے کیونکہ مشہور ہے کہ حضرت علی(ع) ابتدائے شب سے صبح تک ابن عباس کے سامنے بسم اللہ کی تفسیر بیان فرماتے رہے صبح ہوئی تو آپ بسم کی ”ب“ سے آگے نہیں بڑھے تھے۔ آنحضرت (ع) ہی کے ایک ارشاد سے ہم یہاں اس بحث کو ختم کرتے ہیں ۔ آئندہ مباحث میں اس سلسلے کے دیگر مسائل پرگفتگو ہوگی۔

عبداللہ بن یحیی امیرالمومنین کے محبوں میں سے تھے ایک مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بسم اللہ کہے بغیر اس چارپائی پر بیٹھ گئے جو وہاں پڑی تھی اچانک وہ جھکے اور زمین پر آگرے۔ ان کا سر پھٹ گیا۔ حضرت علی(ع) نے سر پر ہاتھ پھیرا تو ان کا زخم مندمل ہوگیا، آپ نے فرمایا تمہیں معلوم نہیں کہ نبی اکرم نے خدا کی طرف سے یہ حدیث مجھ سے بیان فرمائی ہے کہ جو کام نام خدا کے بغیر شروع کیا جائے بے انجام رہتا ہے (عبداللہ کہتے ہیں ) میں نے عرض کیا : میرے ماں باپ آپ پر قربان میں یہ جانتا ہوں او راب کے بعد پھر اسے ترک نہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا پھر تو تم سعادتوں سے بہرہ ور ہوگئے۔

امام صادق(ع) نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے بعض شیعہ کام کی ابتداء میں بسم اللہ ترک کردیتے ہیں اور خدا انہیں کسی تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ بیدار ہوں اور ساتھ ساتھ یہ غلطی بھی ان کے نامہ عمل سے دھو ڈالی جائے( ۲) ۔

____________________

۱۔ تفسیر البیان جلد اول ص۴۶۱ بحوالہ بحار جلد ۶ باب ۵۸۔

۲۔ سفینة البحار، جلد اول ص۶۳۳۔

کیا بسم اللہ سورہ حمد کا جزء ہے؟

شیعہ علماء و محققین میں اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد اور دیگر سورقرآن کا جزء ہیں ۔

بسم اللہ کا متن تمام سورتوں کی ابتداء میں ثبت ہونا اصولی طور پر اس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ یہ جزو قرآن ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ متن قرآن میں کوئی اضافی چیز نہیں لکھی گئی او ربسم اللہ زمانہ پیغمبر سے لے کر اب تک سورتوں کی ابتداء میں موجوج ہے۔ باقی رہے علمائے اہل سنت توصاحب تفسیر المنار نے ان کے اقوال درج کئے ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے :

گذشتہ علمائے اہل مکہ، فقہا قاری حضرات جن میں ابن کثیر بھی شامل ہیں ، اہل کوفہ کے قراء میں سے عاصم اور کسائب اور اہل مدینہ میں سے بعض صحابہ اور تابعین اسی طرح شافعی اپنی کتاب جدید میں اور اس کے پیرو کار نیز ثوری اور احمد اپنے قول میں اس بات کے معتقد ہیں کہ بسم اللہ جز سورہ ہے۔ اسی طرح علماء امامیہ اور ن کے اقوال کے مطابق صحابہ میں سے علی، ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ، تابعین میں سے سعید بن جبیر، عطا، زہری اور ابن مبارک بھی اسی نظرئیے کے حامل تھے۔

اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ ان کی اہم ترین دلیل یہ ہے کہ صحابہ اور ان کے بعد برسر کار لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سورہ برآت کے سوا تمام سورتوں کے آغاز میں بسم اللہ مذکور ہے جب کہ وہ بالاتفاق ایک دوسرے کو وصیت کرتے تھے کہ ہر اس چیز سے جو جزو قرآن نہیں قرآن کو پاک رکھا جائے اسی لئے تو آمین، کو انہوں نے سورہ فاتحہ کے آخر میں ذکر نہیں کیا۔

اس کے بعد انہوں نے مالک او رابوحنیفہ کے پیروکاروں اور بعض دوسرے لوگوں کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ بسم اللہ کو مستقل آیت سمجھے تھے جو سورتوں ک ی ابتداء کے بیان اور ان کے درمیان حد فاصل کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ انہوں نے اہل سنت کے معروف فقیہ اور بعض قارئین کوفہ سے نقل کیا ہے کہ وہ بسم اللہ کو سورہ حمد کاتو جزء سمجھتے تھے لیکن باقی سورتوں کو جزء نہیں سمجھتے تھے(۱) ۔

اس گفتگو سے معلوم ہو اکہ اہل سنت کی یقینی اکثریت بھی بسم اللہ کو سورت کا جزء سمجھتی ہے۔

اب ہم بعض روایات پیش کرتے ہیں جو شیعہ و سنی طرق سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں (ہمیں اعتراف ہے کہ اس ضمن کی تمام احادیث کے ذکر کی یہاں گنجائش نہیں اور ان کا تعلق فقہی بحث سے ہے)۔

۱ ۔ معاویہ بن عمار(جوامام صادق(ع) کے محب و ہوالی تھے) کہتے ہیں میں نے امام سے پوچھا کہ جب میں نماز پڑھنے لگوں تو کیا الحمد کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھوں ؟ ” آپ نے فرمایا ہاں “(۲) ۔

۲ ۔ دار قطنی نے جو علماء اہل سنت میں سے ہیں سند صحیح کے ساتھ حضرت علی سے نقل کیا ہے :

ایک شخص نے آپ سے پوچھا ”سبع مثانی کیا ہے“ ؟ فرمایا : سورہ حمد۔ اس نے عرض کیا سورہ حمد کی تو چھ آیتیں ہیں ، آپ نے فرمایا :بسم الله الرحمن الرحیم بھی اس کی ایک آیت ہے(۳) ۔

۳ ۔ اہل سنت کے مشہور محدث بہیقی سند صحیح کے ساتھ ابن جبیر کے طریق سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

استرق الشیطان من الناس اعظم آیة من القرآن بسم الله الرحمن الرحیم ۔

شیطان صفت اشخاص نے قرآن کی بہت بڑی آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم کو چرا لیا ہے (یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سورتوں کے شروع میں اسے نہیں پڑھا جاتا(۴) ۔

ان سب کے علاوہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ سیرت رہی ہے کہ وہ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت بسم اللہ ہر سورت کی ابتداء میں پڑھتے رہے ہیں تواتر سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم بھی اس کی تلاوت فرماتے تھے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز جزو قرآن نہ ہو اسے پیغمبر اور مسلمان ہمیشہ قرآن کے ضمن پڑھتے رہے ہوں اور سدا اس عمل کوجاری رکھا ہو۔

باقی رہابعض کا یہ احتمال کہ بسم اللہ مستقل آیت ہے جو جزو قرآن تو ہے لیکن سورتوں کا حصہ نہیں تو یہ احتمال نہایت ضعیف اور کمزور دکھائی دیتا ہے کیونکہ بسم اللہ کا مفہوم او رمعنی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ابتداء اور آغاز کے لئے ہے نہ کہ یہ ایک علیحدہ اور مستقل اہمیت کی حامل ہے۔ در اصل یہ فکر جمود اور سخت تعصب کی غماز ہے اور یوں لگتا ہے گویا اپنی بات کو برقرار رکھنے کے لئے ہر احتمال پیش کیا جارہا ہے او ربسم اللہ جیسی آیت کو مستقل اور سابق و لاحق سے الگ ایک آیت قرار دیاجارہا ہے جس کا مضمون پکار پکار کر اپنے سرنامہ اور بعد والی ابحاث کے لئے ابتداء ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔

ایک اعتراض البتہ قابل غور ہے جسے مخالفین اس مقام پر پیش کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب قرآن کی سورتوں کی آیات شمار کرتے ہیں (سوائے سورہ حمد کے)تو بسم اللہ کو ایک آیت شمار نہیں کیا جاتا بلکہ پہلی آیت بسم اللہ سے بعد والی آیت کو قرار دیاجاتاہے۔ اس اعتراض کا جواب فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں وضاحت کے ساتھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

کوئی حرج نہیں کہ بسم اللہ سورہ حمد میں تو الگ ایک آیت ہو اور دوسری سورتوں میں پہلی آیت کا جزء قرار پائے(اس طرح مثلا سورہ کوثر میں( بسم الله الرحمن الرحیم انا اعطیناک الکوثر ) سب ایک آیت شمار ہو)

بہرحال مسئلہ اس قدر واضح ہے کہ کہتے ہیں :

ایک دن معاویہ نے اپنی حکومت کے زمانے میں نماز با جماعت میں بسم اللہ نہ پڑھی تو نماز کے بعد مہاجرین و انصار کے ایک گروہ نے پکار کرکہا ” اسرقت ام نسیت“ یعنی کیا معاویہ نے بسم اللہ کو چرا لیا ہے یا بھول گیا ہے؟(۵)

____________________

۱۔ تفسیر المنار جلد اول ص ۳۹، ۴۰۔

۲۔ کافی جلد ۳ ص ۳۱۲۔

۳ ۔ الاتفاق جلد اول ص ۱۳۶۔

۴۔ بیہقی جلد ۲ ص۵۰۔

۵- بیہقی جزء دوم ص۴۹۔ حاکم نے مستدرک جزء اول ص ۲۳۳ میں اس روایت کو درج کرکے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

خدا کے ناموں میں سے اللہ، جامع ترین نام ہے

بسم اللہ کی ادائیگی میں ہمارا سامنا سب سے پہلے لفظ اسم سے ہوتا ہے۔ عربی ادب کے علماء کے بقول اس کی اصلی ”سمو“ بر وزن علو ہے جس کے معنی ہیں ارتفاع اور بلندی۔ تمام ناموں کو اسم کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ہر چیزکا مفہوم اخفاء سے ظہور و ارتفاع کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے یا اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ، نام ہوجانے کے بعد معنی پیدا کرلیتا ہے۔ مہمل اور بے معنی کی منزل سے نکل آتا ہے اور اس طرح ارتفاع و بلندی حاصل کرلتیا ہے۔

بہرحال کلمہ ”اسم“ کے بعد، ہم کلمہ اللہ تک پہنچتے ہیں جو خدا کے ناموں میں سب سے زیادہ جامع ہے۔ خدا کے ان ناموں کو جو قرآن مجید یا دیگر مصادر اسلامی میں آئے ہیں اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ خدا کی کسی ایک صفت کو منعکس کرتے ہیں لیکن وہ نام جو تمام صفات و کمالات الہی کی طرف اشارہ کرتا ہے دوسرے لفظوں میں جو صفات جلال و جمال کا جامع ہے و ہ صرف اللہ ہے یہی وجہ ہے کہ خدا کے دوسرے نام عموما کلمہ اللہ کی صفت کی حیثیت سے کہے جاتے ہیں مثال کے طور پر چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :

( غفور و رحیم : فان الله غفور رحیم ) (بقرہ ۲۲۶) ۔ یہ صفت خدا کی صفت بخشش کی طرف اشارہ ہے :

سمیع وعلیم : سمیع اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ خدا تمام سنی جانے والی چیزوں سے آگاہی رکھتا ہے اور علیم اشارہ ہے کہ وہ تمام چیزوں سے باخبر ہے۔

فان اللہ سمیع علیم (بقرہ ، ۲۲۷) ۔

بصیر : یہ لفط بتاتا ہے کہ خدا تمام دیکھی جانے والی چیزوں سے آگاہ ہے :( والله بصیر بما تعملون ) (حجرات، ۱۸) ۔

رزاق : یہ صفت اس کے تمام موجودات کو روزی دینے کے پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ذوالقوة اس کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے اور متین، اس کے افعال اور پروگرام کی پختگی کا تعارف ہے :( ان الله هو الرزاق ذو القوة المتین ) (زاریات ، ۵۸)

خالق اور باری : اس کی آفرینش اور پیدا کرنے کی صفت کی طرف اشارہ ہے اور مصور اس کی تصویر کشی کی حکایت کرتا ہے :( هو الله الخالق الباری المصور له الاسماء الحسنی ) (حشر، ۲۴)

ظاہر ہوا کہ ”اللہ “ ہی خدا کے تمام ناموں میں سے جامع ترین ہے یہی وجہ ہے کہ ایک ہی آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے نام ”اللہ“ قرار پائے ہیں :

( هو الله الذی لا اله الا هو الملک القدوس السلام المومن المهیمن العزیز الجبار المتکبر ) ۔

اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ حاکم مطلق ہے، منزا ہے، ہر ظلم و ستم سے پاک ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، توانا ہے کسی سے شکست کھانے والا نہیں اور تمام موجودات پرقاہر وغالب اور باعظمت ہے۔ (حشر ۲۳) ۔

نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ جب مسلمانوں کے معبود کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو لفظ اللہ کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ خدا وندعالم کی تعریف و توصیف لفظ اللہ سے مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

اس نام کی جامعیت کا ایک وضح شاہد یہ ہے کہ ایمان و توحید کا اظہار صرف ”لا اله الا الله “ کے جملے سے ہوسکتا ہے اور جملہ”لا اله الا العلیم.. الا الخالق.... لا الرزاق اور دیگر اس قسم کے جملے خود سے توحید و اسلام کی دلیل

خدا کی رحمت عام او ررحمت خاص

مفسرین کے ایک طبقے میں مشہور ہے کہ صفت، رحمان رحمت عالم کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو دوست و دشمن ، مومن و کافر، نیک و بد ، غرض سب کے لئے ہے۔ کیونکہ اس کی بے حساب رحمت کی بارش سب کو پہنچتی ہے، اور اس کا خوان نعمت ہر کہیں بچھا ہوا ہے۔اس کے بندے زندگی کی گوناگوں رعنائیوں سے بہرہ ور ہیں اپنی روزی اس کے دسترخوان سے حاصل کرتے ہیں جس پربے شمار نعمتیں رکھی ہیں ۔ یہ وہی رحمت عمومی ہے جس نے عالم ہستی کا احاطہ کر رکھا ہے اور سب کے سب اس دریائے رحمت میں غوطہ زن ہیں ۔

رحیم خداوند عالم کی رحمت خاص کی طرف اشارہ ہے۔ یہ وہ رحمت ہے جو اس کے مطیع، صالح، اور فرمانبردار بندوں کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ انہوں نے ایمان او رعمل صالح کی بناء پر یہ شائستگی حاصل کرلی ہے کہ وہ اس رحمت و احسان خصوصی سے بہرہ مند ہوں جو گنہگاروں اورغارت گروں کے حصے میں نہیں ہے۔

ایک چیز جو ممکن ہے اسی مطلب کی طرف اشارہ ہو یہ ہے کہ لفظ ”رحمان“ قرآن میں ہر جگہ مطلق آیا ہے جو عمومیت کی نشانی ہے جب کہ رحیم کبھی مقید ذکر ہوا ہے مثلا وکان بالمومنین رحیما (خدا، مومنین کے لئے رحیم ہے) ۔ (احزاب ۴۳) ۔ اور کبھی مطلق جیسے کہ سورہ حمد میں ہے ۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت صادق (ع) نے فرمایا :

والله اله کل شیئی الرحمان بجمیع خلقه الرحیم بالمومنین خاصة (۱) ۔

خدا ہر چیز کا معبود ہے۔ وہ تمام مخلوقات کے لئے رحمان او رمومنین پر خصوصیت کے ساتھ رحیم ہے۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ رحمان صیغہ مبالغہ ہے جوا سکی رحمت کی عمومیت کے لئے خود ایک مستقل دلیل ہے اور رحیم صفت مشبہ ہے جو ثبات و دوام کی علامت ہے اور یہ چیز مومنین کے لئے ہی خاص ہوسکتی ہے۔

ایک اور شاہد یہ ہے کہ رحمان خدا کے مخصوص ناموں میں سے ہے اور اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جب کہ رحیم ایسی صفت ہے جو خدا اور بندوں کےلئے استعمال ہوتی ہے جیسے نبی اکرم(ص) کے لئے ارشاد الہی ہے :

( عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم باالمومنین روف رحیم ) ۔

تمہاری تکلیف و مشقت نبی پر گراں ہے، تمہاری ہدایت اسے بہت پسندیدہ ہے اور وہ مومنین کے لئے مہربان اور رحیم ہے (توبہ ، ۱۲۸) ۔

ایک دوسری حدیث میں امام صادق (ع) سے منقول ہے :

الرحمن اسم خاص بصفة عامة والرحیم اسم عام بصفة خاصة

رحمن اسم خاص ہے لیکن صفت عام اور رحیم اسم عام ہے لیکن صفت خاص ہے( ۲) ۔

یعنی رحمن ایسا نام ہے جو خدا کے لئے مخصوص ہے لیکن اس میں اس کی رحمت کا مفہوم سب پر محیط ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ رحیم ایک صفت عام کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے البتہ اس میں (صفت خاص کے طور پر استعمال ہونے میں ) کوئی مانع نہیں جو فرق بتایا گیا ہے وہ تو اصل لغت کے لحاظ سے ہے لیکن اس میں استثنائی صورت پائی جاتی ہے۔ امام حسین (ع) کی ایک بہترین اور مشہور دعا جو دعائے عرفہ کے نام س معروف ہے کے الفاظ ہیں :

یا رحمان الدنیا والآخرة و رحیما

اے وہ خدا جو دنیا و آخرت کا رحمان اور دونوں ہی کا رحیم ہے۔

اس بحث کو ہم نبی اکرم(ص) کی ایک پرمعنی اور واضح حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ۔ آپ کا ارشاد ہے :

ان الله عزوجل مآة رحمة و انه انزل منها واحدة الی الارض فقسها بین خلقه بها یتعاطفون و یتراجعون واخر تسع و تسعین لنفسه یرحم بها عباده یوم القیامة ۔

خدا وندتعالی کی رحمت کے سو باب ہیں جن میں سے اس نے ایک کو زمین پر نازل کیا ہے اور (اس رحمت) کو اپنی مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ لوگوں کے درمیان جو عطوفت، مہربانی اور محبت ہے وہ اسی کا پر تو ہے لیکن نناوے حصے رحمت اس نے اپنے لئے مخصوص رکھی ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کو اس سے نوازے گا( ۳) ۔

____________________

۱۔ المیزان بسند کافی، توحید صدوق اور معانی الاخبار۔

۲۔ مجمع البیان جلد ۱، ص ۲۱۔

۳۔ مجمع البیان ج۱۔