تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78111
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78111 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۶۷، ۶۸، ۶۹،۷۰،۷۱،۷۲،۷۳،۷۴

۶۷ ۔( و اذ قال موسی ٰ لقومه ان الله یامر کم ان تذبحوا بقرة ط قالو ا اتتخذنا هزوا ط قال اعوذ بالله ان اکون من الجٰهلین )

۶۸ ۔( قالو ادع لنا ربک یبین لنا ماهی ط قال انه یقول انها بقرة لا فارض و لا بکر ط عوان بین ذٰلک ط فافعلو ا ما تومرون )

۶۹ ۔( قالوا ادع لنا ربک یبین لنا مالونها ط قال انه یقول انها بقرة صفراء فاقع لو نها تسر النٰظرین )

۷۰ ۔( قالو ادع لنا ربک یبین لنا ماهی ان البقرة تشٰبه علینا ط و انا ان شاء الله ) ( لمهتدون )

۷۱( قال انه یقول انها بقرة لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث ج مسلمة لاشیة فیها ط قالو االئٰن جت بالحق فذبحو ها وما کادوا یفعلون )

۷۲ ۔( و اذ قتلتم نفسا فادٰرئتم فیها ط والله مخرج ما کنتم تکتمون )

۷۳ ۔( فقلنا اضربوه ببعضها ط کذٰلک یحی الله الموت و یریکم اٰیٰته لعلکم تعقلون )

۷۴ ۔( ثم قست قلوبکم من بعد ذٰلک فهی کاالحجارة او اشد قسوة ط و ان من الحجارة لما یتفجر منه الانهٰر ط و ان منها لما یشقق فیخرج منه الماء ط و ان منها لما یهبط من خشیة الله ط و ما الله بغافل عما تعملون )

ترجمہ

۶۷ ۔ اور ( اس وقت کو یاد کرو ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ ایک گائے ذبح کرو ( اور اس کے بدن کا ایک ٹکڑا اس مقتول کے ساتھ لگاؤ جس کا قاتل نہیں پہچانا جارہا تاکہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا تعارف کرائے اور یہ شور و غو غا ختم ہو ) وہ کہنے لگے تم ہم سے مذاق کرتے ہو ۔ ( موسیٰ نے کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہوجاؤ ( اور کسی سے مذاق و استہزا کروں )

۶۸ ۔ وہ کہنے لگے ( تو پھر ) اپنے خدا سے یہ کہو کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ کس قسم کی گائے ہونا چاہیے ۔ اس نے کہا : خدا فرماتا ہے کہ گائے نہ بوڑھی ہو کہ جو کام سے رہ گئی ہو اور نہ بالکل جوان ہو بلکہ ان کے درمیان ہو جو کچھ تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے ) اسے انجام دو ۔

۶۹ ۔ وہ کہنے لگے ! اپنے خدا سے کہو ہمارے لئے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو ۔ وہ کہنے لگا :خدا فرماتا ہے کہ وی زرد رنگ کی ہو ، ایسے رنگ کی جو دیکھنے والوں کو اچھا لگے ۔

۷۰ ۔ وہ کہنے لگے اپنے خدا سے کہیئے وہ واضح کرے کہ وہ کس قسم کی گائے ہو کیونکہ یہ گائے تو ہمارئے لئے مبہم ہوگئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے ۔

۷۱ ۔ اس نے کہا : خدا فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو اتنی سدھائی ہوئی ہوکہ زمین جوتے اور نہ ہی کھیتی سینچے ، بھلی چنگی اور ایک رنگ کی ہو جس میں کوئی دھبہ تک نہ ہو ۔ وہ کہنے لگے اب ( جاکے ) ٹھیک ٹھیک بیان کیا اور پھر انہون نے ( ایسی گائے تلاش کی ) اور اسے ذبح کیا حالانکہ وہ مائل نہ تھے کہ اس کام کو انجام دیں ۔

۷۲ ۔ اور جب تم نے ایک شخص کو قتل کردیا ، پھر ( اس کے قاتل کے بارے میں ) تم میں پھوٹ پڑگئی اور خدا نے ( اس حکم کے ذریعہ جو مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے ) اسے آشکار کردیا جسے تم چھپا رہے تھے ۔

۷۳ ۔ پھر ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک ٹکرا مقتول کے ساتھ لگا دو ( تاکہ وہ زندہ ہوکر قاتل کی نشاندہی کردے ) ، اس طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیں اپنی آیات دکھاتا ہے کہ شاید تم سمجھ سکو ۔

۷۴ ۔ پھر اس واقعے کے بعد تمہارے دل پتھر کی طرح سخت ہوگئے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ کچھ پتھر تو وہ ہیں جنسے نہریں جاری ہوتی ہیں اور بعض وہ ہیں جن میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور ان میں سے پانی کے قطرات ٹپکتے ہیں اور ان میں سے بعض خوف خدا سے ( پہاڑ کی بلندی سے ) نیچے گر جاتے ہیں ( لیکن تمہارے د ل نہ خوف ِ خدا سے دھڑکتے ہیں اور نہ ہی وہ علم و دانش اور انسانی احساسات کو سر چشمہ ہیں ) اور خدا تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے ۔

بنی اسرائیل کی گائے کا واقعہ

سورہ بقرہ میں بنی اسرائیل کے بارے میں ہم مختصر طور پر جو دیگر واقعات پڑھ چکے ہیں ان کے برعکس ان آیات میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے ۔ شاید اس کی یہ وجہ ہو کہ یہ واقعہ قرآن میں صرف ایک ہی دفعہ ذکر ہوا ہے ۔ علاوہ از ایں اس میں ایسے بہت سے نکات بھی نظر آتے ہیں جو بہت کچھ سکھاتے ہیں ۔ ان میں سے بنی اسرائیل کی بہانہ سازی اس ساری داستان میں واضح ہے نیز حضرت موسیٰ کی گفتگو سے ان کے ایمان کے درجات بھی ظاہر ہوتے ہیں ۔ یہ تمام چیزوں سے قطع نظر یہ واقعہ مسئلہ معاد وقیامت کی زندہ سند اور گواہ ہے ۔

پہلے ہم اس واقعے کی تشریح اور آیات کی تفسیر بیان کرتے ہیں بعد ازاں اس کے نکات کی طرف جائیں گے ۔

جیسا کہ اایات قرآن اور اقوال مفسرین سے ظاہر ہوتا ہے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نامعلوم طور پر قتل ہوجاتا ہے اس کے قاتل کا کسی طرح پتہ نہیں چلتا بنی اسرائیل کے قبائل کے درمیان جھگرا اور نزاع شروع ہوجاتا ہے ۔ ان مین سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگون کو اس کاذمہ دار گردانتا ہے اور اپنے تئیں بری الذمہ قرار دیتا ہے ، جھگڑا ختم کرنے کے لئے مقدمہ حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں ۔ چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس فیصلے کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا بنی اسرائیل میں ایک عطیم فتنہ کھڑا ہوجاتا لہذا جیسا کہ آپ ان آیات کی تفسیر میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو حل کرتے ہیں(۱)

قرآن نے فرمایا : یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش کرنے کے لئے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس کو ذبح کرو( و اذ قال موسیٰ لقومه ان الله یا مرکم ان تذبحو ا بقرة )

انہوں نے بطورتعجب کہا : میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں( قال اعوذ با الله ان اکون من الجٰهلین ) ۔ یعنی استہزاء اور تمسخر کرنا نادان اور جاہل افراد کا کام ہے اور خدا کا رسول یقینا ایسا نہیں ہے ۔

اس کے بعد انہیں اطمینان ہوگیا کہ استہزاء و مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے تو کہنے لگے : اب اگر ایسا ہی ہے تو اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمارے لیے مشخص و معین کردے کہ وہ گائے کس قسم کی ہو( قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماهی ) ”اپنے خدا سے کہو “ ان کے سوالات میں یہ جملہ بتکرار آیا ہے ۔ اس میں ایک طرح کا سوئے ادب یا سربستہ استہزاء و مذاق پایا جاتا ہے ۔یہ کیوں نہیں کہتے تھے ” ہمارے خدا سے دعا کیجئے “ کیا وہ حضرت موسیٰ کے خدا کو اپنے خدا سے جدا سمجھتے تھے ۔

بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا : خدا فرماتا ہے ایسی گائے ہو جو نہ بوڑھی ہو او بے کار ہوچکی ہو اور نہ ہی جو ان بلکہ ان کے درمیان ہو( قال انه یقول انها بقرة لا فارض ولا بکر عوان بین ذٰلک ) ۔(۲)

اس مقصد کے لئے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم ِ خدا میں تاخیر نہ کریں اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا : جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے ) اسے انجام دو فافعلو ا ما توء مرون )۔لیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے : اپنے پروردگار سے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو( قالو ا ادع لنا ربک یبین لنا ما لونها ) ۔

موسیٰ نے جواب میں کہا : وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کارنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے ( و قال انہ یقول انھا بقرة صفراء فاقع لونھا تسر النٰظرین ّ ۔(۳)

خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو ۔ ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور اسی طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے گئے۔ پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے ) کیسی ہونی چاہیئے،

( قالوا ادع لنا یبین لنا ماهی ) ۔ کیونکہ یہ گائے ہمارے لئے مبہم ہوگئی ہے ( ان البقرہ تشابہ علینا ) اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے( و انا ان شاء الله لمهتدون ) ۔

حضرت موسیٰ نے پھر سے کہا : خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیتی سینچے( قال انه یقول انها بقرة لا ذلول تثیر الارض ولا تسقی الحرث ) ہر عیب سے پاک ہو( مسلمة ) حتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو( لاشیة فیها ) ۔

اب کہ بہانہ سازی کے لئے ان کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا ، جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے لگے : اب تو نے حق بات کہی ہے( قالوا الان جئت بالحق )

پھر جس طرح ہوسکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن در اصل وہ یہ کام کرنا نہ چاہتے تھے( فذبحوها و ما کادو یفعلون )

اس واقعے کی جزئیات بیان کرنے کے بعد قرآن دوبارہ یہ تمام واقعہ بعد کی دو آیات میں مختصراََ بیان کرتا ہے :

یاد کرو اس وقت کو جب تم نے ایک آدمی کو قتل کردیا پھر اس کے قاتل کے بارے میں جھگڑ نے لگے اور خدا نے ایک حکم کے ذریعہ جو مندرجہ بالا آیات میں آیاہے ) جس چیز کو تم چھپائے ہوئے تھے آشکار کردیا( و اذقتلتم نفساََ فاد ارئتم فیها والله مخرج ماکنتم تکتمون ) ۔پھر ہم نے کہا اس گائے کا ایک حصہ مقتول پر مارو ( تاکہ وہ زندہ ہو کر اپنے قاتل کا تعارف کرائے ( فقلنا اضربوہ ببعضھا ) ۴ بیشک خدا اسی طرح مردون کو زندہ کرتا ہے( کذٰلک یحی الله موتیٰ ) ۔

اور وہ تمہیں اپنی اس قسم کی آیات دکھاتا ہے تاکہ تم حقیقت کو پاسکو( و یریکم آیاته لعلکم تعقلون ) ۔

زیر بحث آیات میں سے آخری میں بنی اسرائیل کی قساوت اور سنگدلی کو بیان کیا گیا ہے : ان تمام واقعات کے بعد اور اس قسم کے آیا ت و معجزات دیکھنے کے باوجود تمہارے دل پتھر کی طرح سخت ہیں اور اس سے بھی زیادہ( ثم قست قلوبکم من بعد ذٰلک فهی کا لحجارة او اشد قسوة ) کیونکہ کچھ پتھر تو ایسے ہیں جن میں دراڑ پڑ جاتی ہے اور ان سے نہریں جاری ہوجاتی ہیں( و ان من الحجارة لما یتفجر منه الانهار ) یا پھر بعض وہ ہیں جن میں شگاف پڑ جاتا ہے اور ان میں سے پانی کے قطرات ٹپکنے لگتے ہیں( و ان منها لما یشقق فیخرج منه الماء ) اور کبھی ان میں سے کچھ پتھر ( پہاڑ کی بلندی سے ) خوفِ خدا کے باعث گر پڑتے ہیں( و ان منها لما یهبط من خشیة الله ) لیکن تمہارے دل تو ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ ان سے علم و عواطف کا سر چشمہ مارتا ہے نہ محبت کے قطرات ٹپکتے ہیں اور نہ ہی یہ کبھی خوف ِ خدا سے دھڑکتے ہیں ۔

آخر ی جملے میں ہے : جو کچھ تم انجام دے رہے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے( و ما الله بغافل عما تعملون ) ۔

یہ در اصل اس گروہ بنی اسرائیل اور ان کے خطوط پر چلنے والے تمام لوگوں کے لئے تہدید ہے ۔

____________________

۱ ۔ اس طرف توجہ ضروری ہے کہ موجودہ تورات کی فصل ۲۱ سفر تثنیہ میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ موجود ہے البتہ موجودہ تورات میں جو کچھ ہے وہ ایک حکم کی صورت میں ہے جب کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ ایک واقعے کی صورت میں ہے ۔ بہر حال فصل ۲۱ میں پہلے جملے سے لے کر نویں جملے تک کی عبادت کچھ یوں ہے : اگر کسی مقتول کو ایسی زمین میں جو خدا وندے عالم نے تجھے میراث دی ہے۔ صحرا میں پڑا دیکھو اور معلوم نہ ہوسکے کہ اس کا قاتل کون ہے ۔ اس وقت تیرے مشائخ اور قاضی باہر جاکر ان شہروں کے فاصلے کی پیمائش کریں جو مقتول کے ارد گرد ہیں اور وہی شہر مقرر ہے جو مقتول کے زیادہ قریب ہے ۔

اس شہر کے مشائخ ہی اس گائے کو درہ ناہموار میں ایسی جگہ لے جائیں جہاں کوئی کھیتی باڑی نہ ہوئی ہو ۔ وہی درہ کے دروازے پر گائے کی گردن کاٹ دیں ۔ بنی لیوی کے کاہن حضرات نزدیک آئیں ۔ خدا وند تیرے خدا نے انہیں منتخب کیا ہے تاکہ وہ اس کی خدمت کریں اور خدا کے نام کے ساتھ دعائے خیر کریں اور نزاع اور جھگڑے کا فییصلہ ان کے حکم کے مطابق ہو اور وہ شہر جو قتل کے نزدیک ہے اس کے تمام مشائخ اپنے ہاتھ اس گائے پر دھو ئیں جو درہ کے دروازے پر ذبح ہوئی ہے اور بآواز کہیں کہ یہ خون ہمارے ہاتھوں نے نہیں بہایا اور ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا ۔ اے خدا وند ! : اپنی قوم اسرائیل کو کہ جسے دوبارہ تو نے خرید کیا ہے بخش دے اور اپنی قوم اسرائیل کو ناحق سے منسوب نہ کر اور وہ خون ان کے لئے معاف ہوجائے ۔ اس طریقہ سے خون ناحق اپنے درمیان سے رفع کرے گا ۔ کیونکہ خدا وند کی نظر میں وہی درست ہے جسے تو عمل میں لائے گا ( عہد قدیم مطبوعہ ۱۸۷۸

۲۔ ” فارض “ کے متعلق راغب مفردات میں کہتا ہے کہ یہ سن رسید ہ گائے کے معنی میں ہے ۔ لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ایسی بوڑھی جس سے بچہ نہ ہو سکے اور ”عوان “ کا معنی ہے درمیانی ۔

۳ ”فاقع “ کا معنی ہے خالص ، ایک جیسا زرد رنگ ۔

۴ ۔ بقرة آیہ ۶۹ تا ۷۳ ،

( ۱) زیادہ اور غیر مناسب سوالات :

اس میں شک نہیں کہ سوالات مشکلات کے حل کی کلید ہیں اور جہل و نادانی کو دور کرنے کا نسخہ ہیں لیکن ہر چیز کی طرح اگر یہ بھی حد سے تجاوز کر جائیں یا بے موقع کئے جائیں تو کجروی کی علامت ہیں اور نقصان دہ ہیں جیسے اس داستان میں ہم اس کو نمونہ دیکھ رہے ہیں ۔بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر اس گائے کی قید یا خاص شرط ہوتی توخدا ئے حکیم و دانا جب انہیں حکم دے رہا تھا اسی وقت بیان کردیتا لہذا معلوم ہوا کہ اس حکم کو بجالانے کےلئے اور شرط نہ تھی اسی لئے لفظ ” بقرة “ اس مقام پر نکرہ کی شکل میں ہے لیکن وہ اس مسلمہ بنیاد سے بے پرواہ ہوکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگے ۔ شاید وہ یہ چاہتے ہوں کہ حقیقت مشتبہ ہوجائے اورقا تل کا پتہ نہ چل سکے اور یہ اختلاف اسی طرح بنی ا سرائیل میں رہے ، اور قرآن کا یہ جملہ ”( فذبحوها وما کادو یفعلون ) “ بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی ” انہوں نے گائے ذبح کر تو دی لیکن وہ چاہتے نہ تھے کہ یہ کام انجام پائے “۔

اس داستان کے سلسلے کی آیت ۷۲ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک گروہ قاتل کو جانتا تھا اور اصل واقعے سے مطلع تھا ۔ شاید یہ قتل ان کے سوچنے سمجھنے منصوبے کے مطابق کیا گیا تھا کیونکہ اس آیت میں ہے ” واللہ مخرج ما کنتم تکتنون “ یعنی تم جسے چھپاتے ہو خدا اسے آشکار کردے گا “۔ان سب سے قطع نظر ہٹ دھرم اور خواد پسند قسم کے لوگ باتیں بنایا کرتے ہیں اور زیادہ سولات کرتے ہیں اور ہر چیز کے لئے بہانہ سازی کیا کرتے ہیں ۔ قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ اصولی طور پر وہ خدا کے متعلق معرفت رکھتے تھے اور نہ ہی حضرت موسی ٰ کے مقام کو سمجھتے تھے اسی لئے تو ان سب سوالوں کے بعد یہ کہنے لگے ”( اٰلان جئت بالحق ) “ یعنی اب تم حق بات لائے ہو گویا اس سے پہلے جو کچھ تھا باطل تھا ۔بہر حال انہوں نے جتنے سوالات کئے خدا نے ان کی ذمہ داری کو اتنا ہی سخت تر کر دیا کیونکہ ایسے لوگ اسی قسم کے بدلے کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اسی لئے روایات میں ہے کہ جس مقام پرخدا نے خاموشی اختیار کی ہے وہاں پوچھ گچھ اور سوال نہ کرو کیونکہ اس میں ضرو ر کوئی حکمت ہوگی ۔ اسی بناء امام علی بن موسی ٰ الرضا سے روایت ہے: اگر انہوں نے ابتداء ہی میں کوئی گائے منتخب کرلی ہوتی اور اسے ذبح کردیتے تو کافی تھا ۔ولکن شدداوفشد الله علیهم لیکن انہوں نے سختی کی تو خدا نے بھی سخت رویہ اختیار کیا ۔(۱)

____________________

۱ المیزان زیر بحث آیت کے ذیل میں بحوالہ تفسیر عیاشی ۔

( ۲) یہ تمام اوصاف کس لئے تھے :

جیسا کہ ہم کہ چکے ہیں ابتداء میں بنی اسرائیل کی ذمہ داری مطلق تھی اور اس میں کوئی قید و شرط نہ تھی لیکن ان کی شدت اور ذمہ داری ادا کرنے میں پس و پیش نے ان کے لئے حکم کو بدل دیا اور زیادہ سخت ہوگیا(۱)

لیکن اس کے باوجود یہ بھی ممکن ہے کہ بعد میں جو شرائط اور قیود لگائی گئیں وہ انسانی برادری کی اجتماعی زندگی کی کسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوں ۔ گویا قرآن اس نکتے کو بیان کرنا چاہتا ہے کہ کہ ایک ایسی حیات بخش صورت کی ضرورت ہے جو ذلول نہ ہو یعنی بلا شرط تسلیم ہو اور قید و شرط کی وجہ سے بوجھل ، اسیر اور زبردست نہ ہو اور یو نہی اس میں مختلف رنگ بھی نظر نہیں آنے چاہئیں بلکہ یک رنگ اور خالص ہو ۔

جو لوگ رہبری اور معاشرے کو زندہ کرنے کے لئے اٹھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مردہ افکار کو زندہ کیا جائے انہیں دوسروں کا مطیع نہیں ہونا چاہئے ۔ مال و ثروت ، فقر و تونگری ، طاقت اور افرادی قوت یہ چیز یں ان کے مقصد پر اثر انداز نہ ہوں ۔ خدا کے علاوہ کوئی چیز ان کے دل میں جاگزیں نہ ہو ۔ وہ صرف حق کے لئے سرتسلیم خم کریں ۔ وہ دین و آئین کے پا بند ہوں ۔ ان کے وجود پر خدائی رنگ کے علا وہ کوئی رنگ اثر پزیر نہ ہو ۔ ایسے ہی لوگ اضطراب اور تشویش کے بغیر لوگوں کے کام آسکتے ہیں لیکن اگر دل دنیا کی طرف مائل ہو اور دنیا کا غلام ہو ۔ اس پر مادیت رنگ چڑھ گیا ہو اور اس رنگ کی وجہ سے وہ عیب دار ہوجائے تو ایسا شخص اس عیب اور نقص کی وجہ سے مردہ دلوں کو زندہ نہیں کرسکتا اور نہ حیات بخش صورت پیدا کرسکتا ہے۔

____________________

۱۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمل سے پہلے نسخ حکم مصالح کے پیش نظر جائز ہے اور شریعت موسیٰ میں نسخ احکام ہوتا تھا ۔ یہ بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ کبھی سخت حکم سزا کے لئے بھی ہوتا ہے ۔اس سلسلے کی دیگر بحثیں اپنے اپنے مقام پر موجود ہیں ۔

قتل کا سبب کیا تھا :

تواریخ ا ور تفاسیرسے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قتل کا سبب مال تھا یا شادی ۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ثروت مند شخص تھا ۔ جس کے پاس بے پناہ دولت تھی ۔ اس د ولت کا وارث اس کے چچا زاد بھائی کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔وہ دولت مند کافی عمر رسید ہ ہوچکا تھا ۔ اس کے چچا زاد بھائی نے بہت انتظار کیا کہ دنیا سے چلا جائے تاکہ اس کا وارث بن سکے لیکن اس کا انتظار بے نتیجہ رہا لہذا اس نے اسے ختم کردینے کا تہیہ کرلیا اور بالآخر اسے تنہائی میں پاکر قتل کردیا اور اس کی لاش سڑک پر رکھ دی اور گریہ و زاری کرنے لگا اور حضرت موسیٰ کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کیا کہ بعض لوگوں نے میرے چچا زاد بھائی کو قتل کردیا ہے ۔

بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں کہ قتل کا سبب یہ تھا کہ اپنے چچا زاد بھائی کو قتل کرنے والے نے اس سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا لیکن اس نے یہ درخواست رد کردی اور لڑکی کو بنی اسرائیل کے ایک پاکباز جوان سے بیاہ دیا ۔ شکست خوردہ چچا زاد نے لڑکی کے باپ کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور چھپ کر اسے قتل کردیا ۔ اور حضرت موسی ٰ کے پاس شکایت لے کر آیا کہ اس کا چچا زاد بھائی قتل ہوگیا اور اس کے قاتل کو تلاش کیا جائے ۔

چونکہ قرآن کا طریق کار ہے کہ گذشتہ واقعات کو ہمہ گیر حیثیت سے اور قاعدہ کلیہ کے طور پر تربیتی نقطہ نظر سے بیان کرے لہذا ضمناََ یہ بھی ممکن ہے اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ مفاسدہ کا سر چشمہ اور قتل و غارت کی وجہ دو موضوعات ہوتے ہیں ایک ثروت و دولت اور دوسرا بے قید جنسی خواہشات ۔

( ۴) اس داستان کے عبرت خیز نکات :

یہ عجیب داستان خدا کی ہر چیز پر لامتناہی قدرت کی دلیل کے علاوہ مسئلہ معاد پر بھی دلالت کرتی ہے ۔ اسی لئے آیہ ۷۳ میں ہے : ”( کذٰلک یحی الله الموتیٰ ) “یعنی اسی طرح خدا مردوں کو زندہ کرتا ہے ۔ یہ مسئلہ معاد کی طرف اشارہ ہے ۔ ” ویریکم آیاتہ “ وہ اپنی آیات تمہیں دکھاتا ہے “ پروردگار کی قدرت و عظمت کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کے علاوہ یہ آیت اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ اگر خدا کسی گروہ پر غضبناک ہوتا ہے تو ایسا بغیر وجہ اور دلیل کے نہیں ہوتا کیونکہ اس واقعے میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے سامنے جو باتیں کرتے تھے وہ نہ صرف حضرت کے ساتھ انتہائی جسارت آمیز سلوک تھا بلکہ خداتعالی کی مقدس بارگاہ کے لحاظ سے بھی بے ادبی اور جسارت تھی ۔

ابتداء میں کہتے ہیں ” کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو “ گویا خدا کے عظیم پیغمبر کو مذاق کا الزام دے رہے تھے ۔ بعض اوقات کہتے ” اپنے خدا سے خواہش کرو “ تو کیا موسیٰ کا خدا ان کے خدا کے علاوہ کوئی اور تھا ۔ جب کہ حضرت موسیٰ انہیں صراحت سے کہ چکے تھے کہ ” خدا نے تمہیں حکم دیا ہے “ ایک جگہ کہتے ہیں ” اگر اس سوال کا جواب دے دو تو ہم ہدایت حاصل کرلیں گے “ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا بیان نا مکمل اور گمراہی کا سبب ہے اور آخر میں کہتے ہیں ” اب حق بات لے آئے ہو ۔

یہ سب باتیں ان کی جہالت ، نادانی ، خود خواہی اور ہٹ دھرمی پر دلالت کرتی ہیں ۔

علاوہ از ایں یہ داستان ہمیں درس دیتی ہے کہ ہمیں سخت گیر نہیں ہونا چاہیئے تاکہ خدا بھی ہم پر سختی نہ کرے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ شاید گائے کو ذبح کرنے کے لئے اس سے منتخب کیا گیا ہو کہ بچی کھچی گاؤ پرستی اور بت پرستی کی فکر ان کے دماغ سے نکل جائے ۔

باپ سے نیکی

اس موقع پر مفسرین بیان کرتے ہیں کہ( اس قسم کی گائے اس علاقے میں ایک ہی تھی ۔ بنی اسرائیل نے اسے بہت مہنگے داموں خریدا ۔ کہتے ہیں اس گائے کا مالک ایک انتہائی نیک آدمی تھا جو اپنے باپ کا بہت احترام کرتا تھا ۔ ایک دن جب اس کا باپ سویا ہوا تھا اسے ایک نہایت نفع بخش معاملہ پیش آیا ، صنداق کی چابی اس کے باپ کے پاس تھی لیکن اس خیال سے کہ تکلیف اور بے آرامی نہ ہو اس نے اسے بیدار نہ کیا لہذا اس معاملے سے صرف نظر کرلیا ۔ بعض مفسرین کے نزدیک بیچنے والا ایک جنس ستر ہزار میں اس شرط پر بیچنے کو تیار تھا کہ قیمت فوراََ ادا کی جائے اور قیمت کی ادائیگی اس بات پر موقوف تھی کہ خریدنے کے لئے اپنے باپ کو بیدار کرکے صندوقوں کی چابیاں اس سے حاصل کرے ۔وہ ستر ہزار میں خریدنے کو تیار رتھا لیکن کہتا تھا کہ قیمت باپ کے بیدار ہونے پر ہی دوں گا ۔خلاصہ یہ کہ سودا نہ ہوسکا ۔ خدا وند عالم نے اس نقصان اور کمی کو اس طرح پورا کیا کہ اس جوان کے لئے گائے کی فروخت کا یہ نفع بخش موقع فراہم کیا ۔بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ بیدار ہوا تو اسے واقعے سے آگاہی ہوئی ۔ اس نیکی کی وجہ سے اس نے وہ گائے اپنے بیٹے کو بخش دی اس طرح اسے وہ بے پناہ نفع میسر آیا(۱) رسول اسلام اس موقع پر فرماتے ہیں ۔انظرو الی البر ما بلغ باهله نیکی کو دیکھو وہ نیکو کاروں سے کیا کرتی ہے

____________________

۱) تفسیر الثقلین ، ج اول ، ص ۸۸

آیات ۷۵، ۷۶،۷۷

۷۵ ۔( افتطمعون ان یو منو ا لکم و قد کان فریق منهم یسمعون کلٰم الله ثم یحرفونه من بعد ما عقلوه وهم یعلمون )

۷۶-( و اذا لقو ا الذین آمنو اقالو ا آمنا ج و اذا خلا بعضهم الی بعض قالوا اتحدثونهم بما فتح الله علیکم لیحاجوکم به عند ربکم ط افلا تعقلون )

۷۷( اولا یعلمون ان الله یعلم ما یسرون وما یعلنون )

ترجمہ

۷۵ ۔ کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تم پر ( یعنی تمہارے آئین کے احکامات پر ) ایمان لے آئیں گے حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کلام خدا کو سنتا تھا اور سمجھنے کے بعد اس میں تحریف کردیتا تھا جب کہ وہ لوگ علم و اطلاع بھی رکھتے تھے ۔

۷۶ ۔ جب مومنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے ہیں اور جب ایک دوسرے سے خلوت کرتے ہیں تو ان میں سے بعض دوسروں اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ان مطالب کو مسلمانوں کے سامنے کیوں دہراتے ہو جو خدا نے ( رسول ِ اسلام کی صفات کے بارے میں تم سے بیان کئے ہیں کہ کہیں ( قیامت کے دن ) بارگاہ الہٰی میں تمہارے خلاف وہ ان سے استدلال کریں ،کیا تم سمجھتے نہیں ہو ۔

۷۷ ۔ کیا تم نہیں جانتے کہ خدا ان کے اندرونی اور بیرونی اسرار سے واقف ہے ۔

تفسیر

شان ِنزول

بعض مفسرین مندرجہ بالا آخری دو آیات کے شان ِ نزول کے سلسلے میں امام باقر سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

یہودیوں کے ایک گروہ کے لوگ جو حقیقت کے دشمن نہ تھے ۔ جب مسلمانوں سے ملاقات کرتے تو جو تورات میں پیغمبر اسلام کی صفات کے متعلق آیا تھا انہیں سنادیتے تھے ۔ یہودیوں کے بڑے لوگ اس سے آگاہ ہوئے اور انہیں منع کیااور کہا کہ محمد کی وہ صفات جو تورات میں آئی ہیں تم انہیں ان کے سامنے بیان نہ کرو کہ کہیں خدا کے سامنے ان کے پاس تمہارے خلاف کوئی دلیل نہ بن جائیں ۔ یہ آیات نازل ہوئیں اور انہیں جواب دیا گیا

____________________

۱ ۔ تفسیر ابن کثیر ، ج اول

انتظار بیجا

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ان آیات میں خدا بنی اسرائیل کا واقعہ چھوڑ کر مسلمانوں سے خطاب کر رہا ہے اور ایک سبق آموز نتیجہ پیش کرتا ہے ۔

کہتا ہے : تم کس طرح یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ قوم تم پر ( یعنی تمہارے دین کے احکامات پر ) ایمان لے آئے گی ۔ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ خدا کی باتیں سننے ، سمجھنے اور ادراک کرنے کے بعد ان میں تحریف کردیتا ہے ۔ جب کہ ان لوگوں کو علم و اطلاع بھی ہے( افتطمعون ان یومنو ا لکم وقد کان فریق منهم یسمعون کلٰم الله ثم یحرفونه من بعد ما عقلوه هم یعلمون ) ۔

اگر تم دیکھتے ہو کہ یہ قرآن کے زندہ بیانات اور پیغمبر اسلام کے اعجاز کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتے تو اسے اہمیت نہ دو کیونکہ یہ انہی لوگوں کی اولاد ہیں جو قوم کے منتخب افراد کی حیثیت سے موسیٰ بن عمران کے ساتھ کوہ طور پر گئے تھے ، انہوں نے خدا کی باتیں سنی تھیں اور اس کے احکام کو سمجھا تھا لیکن ان میں سے بعض جب لوٹ کر آئے تو کلام ِ خدا میں تحریف کردی ۔

( قد کان فریق منهم ) “ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب تحریف کرنے والے نہ تھے ۔ پھر بھی یہ اس بات کے لئے کافی تعداد تھی کہ پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہودیوں کے عناد و دشمنی پر تعجب نہ کیا جائے ۔

اسباب النزول میں ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ جب کوہ طور سے واپس آیا تو لوگوں سے کہنے لگا کہ ہم نے خود سنا ہے کہ خدا نے موسیٰ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہمارے فرامین کو جتنا بجالاسکتے ہو انجام دو اور جنہیں بجا نہیں لاسکتے انہیں چھوڑ دو ۔

بہر حال ابتداء میں یہ توقع بجا تھی کہ قوم یہود دوسرے سے پہلے اسلام کی آواز پر لبیک کہے گی کیونکہ ( مشرکین کے برخلاف ) وہ لوگ اہل کتاب تھے ۔ علاوہ از ایں انہوں نے رسول اسلام کی صفات بھی اپنی کتاب میں پڑھی تھیں لیکن قرآن کہتا ہے ان کے ماضی پر نظر کرتے ہوئے ان سے توقع کا محل نہیں کیونکہ بعض اوقات کسی گروہ کی صفات اور مزاج کی کجروی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ حق سے انتہائی قرب کے باوجود اس سے دور رہے ۔

بعد کی اایت اس حیلہ گر اور منافق گروہ کے متعلق ایک اور حقیقت کی نقاب کشائی کرتی ہے ۔ قرآن کہتا ہے : ان میں سے پاک دل لوگ جب مومنین سے ملاقات کرتے ہیں تو اظہار ایمان کرتے ہیں ( اور پیغمبر کی وہ صفات جو ان کی کتب میں موجود ہیں ان کی خبر دیتے ہیں )( و اذا لقوا لذین اٰمنوا قالوا اٰمنا ) لیکن علیحدگی اور خلوت میں ان سے ایک گروہ کہتا ہے تم ان مطالب کو جو خدا نے تورات میں تمہارے لئے بیان کئے ہیں مسلمانوں کو کیوں بتاتے ہو( و اذا خلا بعضهم الی بعض قالوا اتحدثونهم بما فتح الله علیکم ) کہ کہیں قیامت کے دن خدا کے سامنے تمہارے خلاف ان سے استدلال کریں ، کیا تم یہ سمجھتے نہیں( لیحاجوکم به عند ربکم ط افلا تعقلون ) ۔

اس آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی موجود ہے کہ آیت کی ابتداء یہودی منافقین کے سلسلے میں گفتگو کر رہی ہو ، جو مسلمانوں کے سامنے ایمان کا دم بھرتے ہیں اور تنہائی میں انکا ر کردیتے ہیں یہاں تک کہ یہودیوں میں سے پاک دل لوگوں کو بھی سر زنش کرتے ہیں کہ تم نے کتب مقدس کے اسرار سے مسلمانوں کو کیوں آگاہ کیا ہے ۔

بہر حال یہ پہلی آیت کے بیان کی تائید کرتی ہے یعنی جس گروہ کے ذہنوں پر ایسے خیالات کا قبضہ ہے ان سے ایمان کی اتنی توقع نہ رکھا کرو۔

”فتح اللہ علیکم “ سے مراد ممکن ہے خدا کا وہ فرمان و حکم ہو جو بنی اسرائیل کے پاس تھا اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کے لئے نئی شریعت سے متعلق خبروں کے دروازں کے کھلنے کی طرف اشارہ ہو ۔

اس آیت سے ضمنی طور پر یہ بھی بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اس منافق گروہ کا اللہ کے بارے میں ایمان اس قدر کمزور تھا کہ وہ اسے ایک مادی انسان کی طرح سمجھتے تھے اور تصور کرتے تھے کہ اگر کوئی حقیقت مسلمانوں سے چھپالیں تو وہ خدا سے بھی چھپی رہے گی لہذا بعد کی اایت صراحت سے کہتی ہے : کیا یہ نہیں جانتے کہ خدا ان کے اندرونی اور بیرونی اسرار سے آگاہ ہے( ولا یعلمون ان الله یعلم مایسرون وما یعلنون ) ۔

آیات ۷۸،۷۹

۷۸ ۔( و منهم امیون لا یعلمون الکتٰب الا امانی وان هم الا یظنون )

۷۹( فویل للذین یکتبون الکتٰب بایدیهم ثم یقولون هذا من عند الله لیشترو ا به ثمناََ قلیلا ط فویل لهم مما کتبت ایدیهم و ویل لهم مما یکسبون )

ترجمہ

۷۸ ۔ اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب خدا کو چند خیالات اور آرزوؤں کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتے اور انہون نے فقط اپنے گمانوں سے وابستگی اختیار کرلی ہے ۔

۷۹ ۔ افسوس اور ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو کچھ مطالب اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے تاکہ اسے تھوڑی سی قیمت پر فروخت کرسکیں ۔ افسوس ہے ، ان پر اس سے جو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں جو کچھ وہ کماتے ہیں ان پر اس کے لئے بھی افسوس ہے ۔

شان نزول

وہ اوصاف پیغمبر جو تورات میں آئے تھے بعض علماء یہود نے انہیں تبدیل کردیا ۔ انہوں نے یہ تبدیلی اپنے مقام و منصب کی حفاظت کی خاطرکی تھی اور ان منافع کی خاطر جو انہوں ہر سال عوام کی طرف سے ملتے تھے ۔ جب پیغمبر اسلام مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کے اوصاف کو تورات میں بیان کردہ اوصاف کے مطابق پایا ۔ اس پر انہیں ڈر ہوا کہ حقیقت کے واضح ہونے کی صورت میں ان کے منافع خطرے میں پڑ جائیں گے لہذا انہوں نے تورات میں مذکورحقیقی اوصاف کے بجائے ان کے مخالف اوصاف لکھ دیئے ۔ یہود ی عوام نے وہ اوصاف کم و بیش سن رکھے تھے اس لئے وہ اپنے علماء سے پوچھتے کہ کیا یہ وہی پیغمبر ِ موعود نہیں جس کے ظہور کی آپ ہمیں بشارت دیا کرتے تھے ۔ اس پر وہ تورات کی تحریف شدہ آیات پڑھتے تھے تاکہ وہ خاموش ہوجائیں(۱)

____________________

۱۔ مجمع البیان میں زیر نظر آیت کے ذیل میں اجمالی طور پر یہ شان نزول بیان کی گئی ہے اور تفصیلی طور پر دیگر متعلقہ آیات کے ذیل میں بیان کی گئی ہے ۔