تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78118
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78118 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

قوموں کی زندگی کے لئے بنیادی احکام :

یہ آیات اگرچہ بنی اسرائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہیں تو ہم ایسے کلی قوانین کے حامل ہیں جو تمام دنیا کی قوموں کے لئے ہیں ۔ قوموں کی زندگی ، بقا ، کامیابی اور شکست کے عوامل ان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ہر ملت کے بقا اور سربلندی اس میں ہے کہ وہ اپنا سہارا خدا کو قرار دے جو سب سے بڑی طاقت و قوت ہے اور ہر حالت میں اس سے مدد لے یہ ایسی قدرت پر بھر و سہ ہوگا جس کے لئے فنا ء و زوال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ صرف اسی کے سامنے سر تسلیم خم کریں ۔ اس طرح انہیں کسی کا خوف اور وحشت نہ ہوگی۔ ظاہر ہے ایسی قدرت و طاقت عظیم خالق کائنات کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتی ایسا سہارا فقط خدا ہے( لاَتَعْبُدُونَ إِلاَّ الله )

دوسری طرف قوموں کی بقاء اور ہمیشگی کے لئے افراد ملت کے ما بین خصوصی وابستگی ضروری ہے ، ایسا یوں ممکن ہے کہ ہر شخص اپنے ماں باپ سے جن زیادہ قریب کی وابستگی ہے، عزیز و اقارب سے جو وابستگی کے اعتبار سے ایک فاصلے پرہیں اور پھر معاشرے کے تمام افراد سے نیکی اور اچھائی کے ساتھ پیش آئے تا کہ سب ایک دوسرے کے دست و بازوبنیں( وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَذِی الْقُرْبَی وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا ) (

قوم کے کمزور و ناتواں افراد کی تقویت روحانی اور مادی طور پر اس ہمیشگی میں کافی حصہ رکھتی ہے اور اس طرح دشمن کے لئے کوئی کمزور جگہ باقی نہیں رہتی اور قوم میں کوئی فرد مشکلات اور سختی میں نہیں رہتا کہ وہ ان مشکلات کے نتیجے میں اپنے آپ کو دشمن کے دامن میں جا گرائے( وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِین ) (

ہر قوم کے زندہ رہنے کے لئے مالی و اقتصادی بنیاد کا استحکام بھی بڑا حصہ ادا کرتاہے جو زکوة کی ادائیگی سے انجام پذیر ہوتاہے )َ( وَآتُوا الزَّکَاة )

ایک طرف کامیابی کے لئے یہ امور ہیں اور دوسری طرف قوموں کی شکست اور بربادی کا راز اس وابستگی کے ٹوٹ جانے اور کشمکشوں اور اندرونی جنگ شروع ہونے میں ہے۔ وہ قوم جس میں داخلی جنگ شروع ہوجائے اور تفرقہ بازی کا پتھر اس میں پھینک دیاجائے، اس کے افراد ایک دوسرے کی مدد کے بجائے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جائیں ، ایک دوسرے کے مال اور زمین پر قبضہ جمانے پر تل جائیں ،۔

قرآن کہتاہے:

ان آیات کے مخاطب تو بنی اسرائیل ہیں لیکن یہ اپنے مفاہیم اور معیار کے اعتبار سے عمومیت کی حامل ہیں ۔ اور دوسرے تمام لوگ بھی اس خطاب کا مصداق ہیں ۔

قرآن کہتاہے: ہم نے موسی کو آسمانی کتاب (تورات) دی( و لقد اتینا موسی الکتاب ) اور پھر مسلسل یکے بعد دیگرے انبیاء بھیجے( وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُل ) ان پیغمبروں میں داود، سلیمان ، یوشع، زکریا اور یحیی شامل ہیں ۔

اور عیسی بن مریم کو روشن دلائل دئیے اور روح القدس کے ذریعے اس کی تائید کی( وَآتَیْنَا عِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنَاتِ وَاٴَیَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ) ۔

لیکن ان عظیم مرسلین نے ان اصلاحی پروگراموں کے با وجود جب بھی کوئی بات تمہارے خواہش نفس کے خلاف کہی تو تم نے ان کے مقابلے میں تکبر اختیار کیا اور تم نے ان کی فرمانبرداری نہیں کی( اٴَفَکُلَّمَا جَائَکُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَتَهْوَی اٴَنفُسُکُمْ اسْتَکْبَرْتُم ) (

یہ ہوا و ہوس کی حاکمیت تم پراس قدر غالب تھی کہ ان مرسلین میں سے کچھ کی تم نے تکذیب کی اور کچھ کو تو قتل ہی کردیا( فَفَرِیقًا کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتُلُونَ )

اگر تمہاری طرف سے یہ تکذیب اور جھٹلانا موثر ثابت ہوتا اور تمہارا مقصد اسی سے پورا ہوجاتا تو تم اسی پر اکتفاء کر لیتے اور خدا کے پیغمبروں کے خون سے اپنے ہاتھ نہ رنگتے۔

گذشتہ آیات کی تفسیر میں (احکام الہی میں تبعیض کے ذیل میں ہم یہ حقیقت بیان کرچکے ہیں کہ ایمان کا معیار اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مواقع تو وہ ہیں جو میلان طبع اور خواہش نفس کے خلاف ہوں ورنہ تو ہر ہوا پرست اور بے ایمان بھی ان احکام کے سامنے ہم آہنگی اور تسلیم کا مظاہرہ کرتاہے جو اس کے میلان طبع اور فائدے کے مطابق ہیں ۔

اس آیت سے ضمنا یہ بھی واضح ہوتاہے کہ رہبران الہی اپنی تبلیغ رسالت کی راہ میں ہوا پرستوں کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور ایسا ہی ہونا چاہئیے کیونکہ صحیح رہبری اس کے علاوہ کچھ اور ہی نہیں اگر پیغمبر چاہیں کہ خود کو لوگوں کی آزادانہ ہوا و ہوس کے مطابق چلائیں تو پھر ان کا کام کے پیچھے لگنا ہوا نہ کہ رہبری کرنا۔

دل کے اندھے، بے ایمان لوگ ان خدائی رہبروں کی دعوت جس کا مقصد سعادت بشر کے علاوہ کچھ نہ تھا کا استقبال کرنے کہ بجائے اس قدر مزاحمت کرتے تھے کہ ان میں سے بعض کو قتل ہی کردیتے تھے۔

بعد کی آیت کہتی ہے کہ یہ لوگ دعوت انبیاء یا آپ کی دعوت کے جواب میں تمسخر اور مذاق کے طور پر کہتے ہیں ہمارے دل تو غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ان باتوں میں سے کچھ سمجھ نہیں پاتے( وقالو قلوبنا غلف )

اور ہے ایسا ہی۔ کیونکہ خدانے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے اور انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ا ور اسی بناء پردہ کسی بات کو سمجھ نہیں پاتے) اور ان میں بہت تھوڑے ایمان لاتے ہیں( بَلْ لَعَنَهُمْ اللهُ بِکُفْرِهِمْ فَقَلِیلًا مَا یُؤْمِنُون ) ۔

ہوسکتاہے کہ اوپر والا جملہ ان یہودیوں کے بارے میں ہوجنہوں نے پیغمبران خدا کی تکذیب کی اانہیں قتل کیا اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان یہودیوں کے متعلق ہو جو پیغمبر خدا کے ہم عصر تھے۔

آنحضرت کی گفتگو کے جواب میں وہ انتہائی ڈھٹالی اور عدم توجہی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تا ہم یہ آیت ہر صورت میں اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ انسان ہوا و ہوس کی پیروی کے زیر اثر اس طرح راندہ درگاہ خدا ہوجاتاہے اور اس کے دل پر ایسے پردے پڑجاتے ہیں کہ اس راستے میں اسے حقیقت بہت کم نظر آتی ہے۔

مختلف زمانوں میں انبیاء کی پے در پے آمد:

جیسا کہ کہا جاچکاہے جب ہواپرست اور بے ایمان لوگ انبیاء کی دعوت کو اپنی ہوا و ہوس اور نا جائز منافع ہم آہنگ نہیں پاتے تھے توان کے مقابلے میں کھڑے ہوجاتے خصوصا لوگ کچھ زمانہ گذرجانے کے بعد ان کی تعلیمات کو طاق نسیاں کردیتے۔ اس بناء پر ضروری تھا کہ یاد ہانی کے لئے خدا کی جانب سے یکے بعد دیگرے مرسلین آتے رہیں تا کہ ان کا مکتب اور پیغام پر انانہ ہونے پائے اور وہ دست فراموشی کے حوالے نہ ہوجائے۔

سورہ مومنوں آیہ ۴۴ میں ہے:( ثُمَّ اٴَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَی کُلَّ مَا جَاءَ اٴُمَّةً رَسُولُهَا کَذَّبُوهُ فَاٴَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا )

پھرہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے۔ جب کوئی رسول کسی امت کے پاس آتا تو لوگ اس کی تکذیب کرتے (لیکن) ہم تو انہیں یکے بعد دیگرے بھیتے ہی رہتے تھے۔

نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں جہاں انبیاء کے بھیجنے کی غرض و غایت کی تشریح کی گئی ہے وہاں اس حقیقت کا تکرار کیا گیاہے:(فبعث فیهم رسله و واتر الیهم انبیائه لیستا دوهم میثاق فطرته و یذکروهم منسی نعمته و یحتجوا علیهم بالتبلیغ و یثیروالهم و فائن العقول

خدانے اپنے رسولوں کو ان کے طرف مبعوث کیا اور اپنے انبیاء کو ان کی طرف بھیجا تا کہ وہ لوگوں سے ان کے فطری عہد و پیمان کی ادائیگی کا مطالبہ کریں اور انہیں خدا کی فراموش شدہ نعمتیں یاد دلائیں اور انبیاء تبلیغات کے ذریعے لوگوں پر اتمام حجت کریں اور تا کہ عقول کے مخفی خزانے ان کی تعلیمات کے ذریعے آشکار ہوں ۔

لہذا مختلف زمانوں اور صدیوں میں انبیاء خدا کے آنے کا مقصد خداکی نعمتوں کی یاددہانی کران پیمان فطرت کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا اور گذشتہ انبیاء کی تبلیغات اور دعوتوں کی تجدید کرنا تھاتا کہ ان کی دعوتیں اور ان کے اصلاحی پروگرام متروک کے ذریعے آشکار ہوں ۔

لہذا مختلف زمانوں اور صدیوں میں انبیاء خدا کے آنے کا مقصد خداکی نعمتوں کی یاد دہانی کرانا پیمان فطرت کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا اور گذشتہ انبیاء کی تبلیغات اور دعوتوں کی تجدید کرناتھا تا کہ ان کی دعوتیں اور ان کے اصلاحی پروگرام متروک اور فراموش نہ ہوجائیں ۔

رہا یہ مسئلہ کہ پیغمبر اسلام کیونکہ خاتم انبیاء ہیں اور ان کے بعد نبی کی کیوں ضرورت نہیں تو اس پر انشاء اللہ سورہ احزاب کی آیہ ۴۰ کے ذیل میں بحث ہوگی۔

روح القدس کیاہے؟:

بزرگ مفسرین روح القدس کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کرتے ہیں ۔ ہم یہاں چند ایک درج کرتے ہیں :

۱ ۔ بعض کہتے ہیں کہ روح القدس سے مراد جبرائیل ہے۔ اس تفسیر کی بناء پر آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ خدانے جبرائیل کے ذریعے حضرت عیسی کی مدد کی۔

اس تفسیر کی شاہد سورہ نحل کی آیہ ۱۰۲ ہے:( قل نزله روح القدس من ربک بالحق )

کہیئے ! روح القدس نے اسے تم پرحقیقت کے ساتھ نازل کیا۔

رہا یہ سوال کہ جبرائیل کو روح القدس کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں میں روحانیت کا پہلو چونکہ غالب ہے لہذا ان پر روح کا اطلاق بالکل طبیعی اور فطری ہے اور قدس اس فرشتے کے بہت زیادہ تقدس اور پاکیزگی کی طرف اشارہ ہے۔

۲ ۔ کچھ دوسرے مفسرین کا عقیدہ ہے کہ روح القدس وہی ایک غیبی طاقت ہے جو حضرت عیسی کی تائید کرتی تھی اور اس مخفی خدائی طاقت سے وہ مردوں کو حکم خدا سے زندہ کرتے تھے البتہ یہ غیبی طاقت ضعیف تر صورت میں تمام مومنین میں درجات ایمان کے تفاوت کے حساب سے موجود ہے۔ اور یہ وہی خدائی امداد ہے جو انسان کو اطاعات اور مشکل کاموں کی انجام دہی میں مدد دیتی ہے اور گناہوں سے باز رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض احادیث میں ایک شاعر اہلبیت کے بارے میں ہے کہ جب وہ امام کے سامنے اشعار پڑھ چکاتو آپ نے فرمایا:( انما نفث روح القدس علی لسانک )

روح القدس نے تیری زبان پر دم کیاہے اور جو کچھ تونے کہاہے اسی کی مدد سے ہے

۳ ۔ بعض مفسرین نے روح القدس کا معنی انجیل بیان کیاہے۔

ان میں سے پہلی دو تفاسیر زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہیں ۔

روح القدس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ :

قاموس کتاب مقدس میں ہے:

روح القدس تیسرا القنوم۔ اقانیم ثلاثہ الہیہ میں سے شمار ہوتا ہے اور اسے روح کہتے ہیں کیونکہ وہ مبدع اور مخترع حیات ہے اور مقدس اس لئے کہتے ہیں کہ اس کے مخصوص کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مومنین کے دلوں کی تقدیس کرتاہے۔ حضرت مسیح اور خداسے اسے جو وابستگی ہے اس بناء پر اسے روح اللہ اور روح المسیح بھی کہتے ہیں ۔

اس کتاب میں ایک اور احتمال بھی آیاہے اور وہ یہ ہے:

وہ روح القدس جو ہمیں تسلی دیتاہے ۔ وہ وہی ہے جو ہمیشہ ہمیں سچائی، ایمان اور اطاعت کے قبول و ادراک کی ترغیب دیتاہے اور وہی ہے جو گناہ و خطاء میں مرجانے والے لوگوں کو زندہ کرتاہے اور انہیں پاک و منزہ کرکے حضرت واجب الوجود کی عظمت و بزرگی کے لائق بناتاہے۔

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اس کتاب مقدس قاموس کی عبارت میں دو معانی کی طرف اشارہ ہواہے:

( ۱) ایک یہ کہ روح القدس تین خداؤں میں سے ایک ہے جو کہ عقیدہ تثلیث کے مطابق ہے اور یہ وہ مشرکانہ عقیدہ ہے جسے ہم ہر لحاظ مردود سمجھتے ہیں ۔

( ۲) دوسرا مفہوم اوپر بیان کی گئیں تین تفاسیر میں سے دوسری سے ملتا جلتاہے۔

( ۳) بے خبر اور غلاف میں لپٹے دل:

مدینہ کے یہودی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تبلیغات کا پوری کوشش سے مقابلہ کرتے اور آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرتے اور جب بھی آپ کے بار دعوت سے بچنے کا کوئی بہا نہ ملتا اس سے پورا فائدہ اٹھاتے اس آیت میں ان کی ایک گفتگو کی طرف اشارہ کیاگیاہے وہ کہتے تھے ہمارے دل پردے اور غلاف میں لپٹے ہیں ۔ آپ جو کچھ پڑھتے ہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ بات وہ تمسخر اور استہزاء کے طور پر کہتے لیکن قرآن کہتاہے: بات یہی ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں کیونکہ کفر و نفاق کے باعث ان کے دل بے خبری، ظلمت، گناہ اور کفر کے پردوں میں لپیٹے جاچکے ہیں اور خدانے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیاہے یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بہت کم ایمان لاتے ہیں ۔

سورہ نساء آیہ ۱۵۵ میں بھی یہی مفہوم مذکور ہے:

( وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللهُ عَلَیْهَا بِکُفْرِهِمْ فَلاَیُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلِیلًا )

اور ان کا کہنا ہے کہ ہمارے دل غلاف میں لپٹے ہیں اس لئے تمہاری بات سمجھ نہیں پاتے لیکن یہ تو اس بناء پرہے کہ خدانے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے لہذا ان میں سے چند ایک کے علاوہ ایمان نہیں لائیں گے۔

آیات ۸۹،۹۰

۸۹ ۔( وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِینَ )

۹۰ ۔( بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ اٴَنفُسَهُمْ اٴَنْ یَکْفُرُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ بَغْیًا اٴَنْ یُنَزِّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُهِینٌ )

ترجمہ

۸۹ ۔ اور جب خداکی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو ان نشانیوں کے مطابق ہے۔ جو ان (یہودیوں ) کے پاس ہیں ۔ اس ماجرے سے پہلے (وہ خود اس پیغمبر اور اس کی کتاب کے ظہور کی بشارت دیتے تھے اس پیغمبر کی مددسے اپنے دشمنوں اور مشرکین پر فتحیاب ہوں گے ان سب امور کے با وجود) جب کتاب اور وہ پیغمبر جسے پہلے پہچان چکے تھے، ان کے پاس آئے تو اس سے کافر ہوگئے۔ پس خدا کی لعنت ہو ان کافروں پر۔

۹۰ ۔ انہوں نے اپنے نفسوں کو بڑی قیمت پر بیچاہے کیونکہ غلط کاری کے مرتکب ہوتے ہوئے وہ ان آیات سے کافر ہوگئے ہیں جو خدا کی بھیجی ہوئی ہیں (چونکہ پیغمبر اسلام بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں ) اور خدا اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپنے فضل سے اپنی آیات نازل کرتاہے لہذا ان پریکے بعد دیگرے خدا کا غضب نازل ہوا اور کافروں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والی سزا اور بدار ہے۔

شان نزول

زیر نظر آیت کے بارے میں امام صادق(ع) سے روایت ہے:

یہودیوں نے اپنی کتب میں دیکھ رکھاتھا کہ پیغمبر اسلام کا مقام ہجرت (عیر) اور احد کی پہاڑیوں کے در میان ہوگا۔ (یہ دونوں پہاڑ مدینہ کے ا ردگردہیں ) یہودی اپنے علاقے چھوڑ کر رسول کی ہجرت کی سرزمین کی تلاش میں نکلے اس دوران وہ (حداد) نامی پہاڑ تک پہنچے اور کہنے لگے (حداد)یہی احد ہے۔ وہیں سے وہ منتشر ہوگئے۔ ہر گروہ نے ایک جگہ کو اپنا مسکن بنالیا۔ کچھ سرزمین (تیما) ہیں جابسے بعض (فدک) میں قیام پذیر ہوئے اور کچھ (خیبر)میں رہنے لگے۔ (کچھ مدت بعد) تیما کے رہنے والوں نے اپنے دوسرے بھائیوں سے ملنا چاہا۔ اس اثنا میں ایک عرب وہاں سے گذرا۔ اس سے انہوں نے سواریاں کرائے پرلیں ۔ عرب کہنے لگا میں تمہیں (عیر) اور (احد) کی پہاڑیوں میں سے لے جاوں گا۔ اس سے کہنے لگے جب ان دو پہاڑوں کے در میان پہنچو تو ہمیں آگاہ کرنا۔ وہ عرب جب سرزمین مدینہ میں پہنچا تو اس نے انہیں بتایا کہ یہ جگہ ہی کوہ عیر اور کوہ احد کے در میان ہے۔ پھر اس نے اشارے سے بتایا کہ یہ (عیر) ہے اور یہ (احد) ہے۔ یہودی اس کی سواریوں سے اتر پڑے اور کہنے لگے ہم اپنے مقصد تک آپہنچے ہیں ۔ اب ہمیں تیری سواریوں کی ضرورت نہیں ، اب تو جہاں جانا چاہے جاسکتاہے۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے بھائیوں کو خط لکھا کہ ہم نے وہ زمین تلاش کرلی ہے تم بھی ہماری طرح کوچ کرو۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ ہم چونکہ یہاں سکونت اختیار کرچکے ہیں ۔ گھربار اور مال و منال کا اہتمام کرچکے ہیں اور یہاں سے اس سرزمین کا کوئی زیادہ فاصلہ بھی نہیں ۔ جس وقت پیغمبر موعود ہجرت کرکے آئیں گے ہم بھی تمہارے پاس آجائیں گے۔

وہ سرزمین مدینہ ہی میں رہے اور بہت مال و دولت جمع کرلی یہ خبر (تبع) نامی ایک بادشاہ کو پہنچی۔ اس نے آکر ان سے جنگ کی یہودی اپنے قلعوں میں قلوبند ہوگئے۔اس نے ان سب کا محاصرہ کرلیا۔ پھر نہیں امان دے دی۔ وہ بادشاہ کے پاس آئے۔ (تبع) نے کہا مجھے یہ سرزمین پسند آئی ہے اور میں یہاں رہنا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے جواب میں کہا: ایسا نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ سرزمین ایک پیغمبر کا مقام ہجرت ہے۔ اس کے علاوہ کوئی شخص بادشاہ کی حیثیت سے نہیں رہ سکتا۔ تبع کہنے لگا کہ میں اپنے خاندان میں سے کچھ لوگ یہاں چھوڑدیتاہوں تا کہ جب وہ پیغمبر آئے یہ اس کی مدد کریں ۔ لہذا اس نے دو مشہور قبائل (اوس) اور (خزرج) کو یہاں ٹھرا دیا۔ جب ان قبیلوں نے خوب مال و دولت جمع کرلیا۔ تو یہودیوں کے مال پرتجاوز کرنے لگے۔ یہودی ان سے کہا کرتے تھے جب محمد مبعوث ہوں گے تو تمیں ہمارے علاقے سے نکال دیں گے۔

جب حضرت محمد مبعوث ہوئے تو اوس اور خزرج آپ پر ایمان لے آئے جو انصار مشہور ہوئے مگر یہودیوں نے آپ کا انکار کیا۔ آیت( وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا ) کا یہی مفہوم ہے۔

وہی لوگ جو خاص عشق و محبت کی وجہ سے ، رسول اللہ پرایمان لانے کے لئے آئے تھے جو اوس و خزرج کے مقابلے میں فخر کرتے تھے کہ ایک رسول مبعوث ہوگا اور ہم اس کے یار و مددگار ہوں گے۔ جب رسول اللہ کی ہجرت ہوئی اور آپ نے ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، وہی قرآن جو تورات کی تصدیق کرتاتھا، تو وہ اس سے کفر کرنے لگے-

ان آیات میں بھی یہودیوں اور ان کی زندگی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ جیسا کہ شان نزول میں ہے یہ لوگ رسول خدا پر ایمان لانے کے شوق اور دل بستگی کے ساتھ مدینہ میں آکر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ تورات میں پیغمبر کی نشانیوں کو دیکھتے تھے اور بے چینی سے آپ کے ظہور کا انتظار کرتے تھے۔ لیکن جب خدا کیطرف سے ان کے پاس کتاب (قرآن) آئی جو ان علامتوں کے مطابق تھی جو یہودیوں کے پاس تھیں حالانکہ اس سے پہلے وہ اپنے آپ کو اس پیغمبر کے ظہور کی خوشخبری دیتے تھے اور پیغمبر کے ظہور کے ذریعے دشمنوں پر فتح پانے کے امید لگائے بیٹھے تھے اور جب کہ وہ کتاب اور پیغمبر کو پہلے سے پہچانتے تھے پھر بھی اس سے کفر اختیار کر بیٹھے( وَلَمَّا جَائَهُمْ کِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَکَانُوا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا فَلَمَّا جَائَهُمْ مَا عَرَفُوا کَفَرُوا بِ ) ہ) کافروں پرخدا کی لعنت ہو( فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکَافِرِینَ )

بعض اوقات انسان کسی حقیقت کے پیچھے دیوانہ وار دوڑتاہے لیکن اس کے قریب پہنچ کر جب اسے اپنے ذاتی فائدے کے خلاف پاتاہے تو ہوا و ہوس کے نتیجے میں اسے ٹھوکر مار دیتاہے اور اسے چھوڑدیتاہے بلکہ کبھی تو اس کی مخالفت میں کھڑا ہوجاتاہے۔

لیکن یہودیوں نے تو انتہائی خسارے کا سودا کیا۔ جو لوگ پیغمبر موعود کی پیروی کے لئے اپنے علاقے کو چھوڑکر، بہت سی مشکلات جھیل کر سرزمین مدینہ میں سکونت پذیرہوئے تھے تا کہ اپنے مقصود تک پہنچ جائیں ، جب موقع آیا تو منکرین اور کافرین کی صف میں کھڑے ہوگئے لہذا اس مقام پر قرآن کہتاہے: کیسی بری قیمت پر انہوں نے اپنے آپ کو فروخت کیا( بئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ اٴَنفُسَهُمْ ) ۔

وہ حسد کی بناء پر اس چیزسے کافر ہوگئے جو خدانے نازل کی تھی ۔ انہیں اعتراض تھا کہ کیوں خدا اپنے فضل سے جس شخص پرچاہتا ہے اپنی آیات نازل کردیتاہے( اٴَنْ یَکْفُرُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ بَغْیًا اٴَنْ یُنَزِّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَی مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ )

گویا اس انتظار میں تھے کہ پیغمبر موعود بنی اسرائیل میں سے اور خود انہی میں سے ہوگا لیکن جب کسی اور پر قرآن نازل ہوا تو انہیں تکلیف پہنچی اور وہ سنخ پا ہوگئے۔

آیت کے آخر میں ارشاد ہے : لہذا خدا کے غضب نے یکے بعد دیگر ے انہیں گھیر لیا اور کافروں کے لئے ذلیل و خوار کرنے والا عذاب ہے( فَبَائُوا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُهِین ) ۔

خسارے کا سودا

در حقیقت یہودیوں نے ایک خسارے کا سود کیاتھا۔ کیونکہ ابتدا میں وہ اسلام اور اسلام کے پیغمبر موعود کے داعی تھے۔ یہاں تک کہ تمام مشکلات جھیل کر مدینہ کی زندگی انہوں نے اسی مقصد کے لئے انتخاب کی تھی۔ لیکن پیغمبر خدا کے ظہور کے بعد صرف اس بناء پر کہ آپ بنی اسرائیل میں سے نہیں ہیں یا آپ کی وجہ سے ان کے ذاتی منافع خطرے میں پڑگئے تھے، وہ آپ کے کافر و منکر ہوگئے اور یہ بہت زیادہ خسارے اور نقصان کا معاملہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ اپنے مقصد کود پہنچے بلکہ اپنی تمام قوتیں اور طاقتیں صرف کرکے اس کے بر عکس حاصل کرے اور خدا کا غضب اور ناراضی بھی الگ اٹھانی پڑی۔

حضرت امیر المومنین کے ارشادات میں ہے:( لیس لانفسکم ثمن الا الجنه فلا تبیعوها الابها ) ۔

تمہارے نفسوں کی قیمت جنت کے علاوہ اور کوئی چیز ہوسکتی لہذا اپنے نفسوں کو اس کے علاوہ کسی چیز کے بدلے نہ بیچومگر یہودی اس گراں بہا سرمائے کو مفت میں گنوا بیٹھے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ سودا ان کے اصل و جود کا بیان کیا گیاہے یعنی جو حق و حقیقت سے منکر و کافر ہیں وہ اپنی حقیقت ہاتھ سے کھو بیٹھے ہیں ۔ کیونکہ کفر کے ساتھ ان کے ساتھ ان کے وجود کی قیمت بالکل گر جاتی ہے گویا اپنی شخصیت گنوا بیٹھے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ان غلاموں کی طرح ہیں جنہوں نے اپنا وجودبیچ کراسے دوسرے کی قید میں دے دیا ہو بیشک وہ ہوا و ہوس کے قیدی اور شیطان کے بندے ہیں ۔

لفظ (اشتروا) اگر چہ عموما خرید نے کے معنی میں استعمال ہوتاہے لیکن کبھی بیچنے کے معنی میں بھی آتا ہی جیسا کہ لغت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ مندرجہ بالا آیت میں یہ لفظ بیچنے ہی کے معنی میں ہے لہذا اس کا معنی یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا وجود مال و متاع کی طرح بیچاہے اور اس کے بدلے غضب پروردگار یا کفر و حسد خریدا ہے

فباء بغضب علی غضب:

بنی اسرائیل جب صحرائے سینا میں سرگرداں تھے اس عالم کی سرگذشت کے سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے قرآن کہتاہے:( و با ء و بغضب من الله ) (وہ غضب خدا کی طرف پلٹے) اس کے بعد مزید کہتا ہے : یہ خدا کا غضب ان پر انبیاء کے قتل اور آیات خدا سے کفر کی وجہ سے تھا۔

سورہ آل عمران آیہ ۱۱۲ کا بھی یہی مفہوم ہے کہ یہودی آیات الہی سے کفر اور قتل انبیاء کی وجہ سے غضب الہی کا شکار ہوئے یہ پہلا غضب ہے جو انہیں دامن گیر ہوا۔

ان کے باقی ماندہ افراد نے: پیغمبر اسلام کے ظہور کے بعد ان سے اپنے بڑوں والی روشں ہی جاری رکھی۔ نہ صرف یہ کہ وہ پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے آئین کے خلاف تھے بلکہ ان کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ان کے اسی طرز عمل کی وجہ سے ایک نئے غضب نے انہیں گھیر لیا اسی لئے فرمایا:( فباء و بغضب علی غضب ) ۔

در اصل لفظ (باء و) کا معنی ہے وہ لوٹے اور انہوں نے سکوت اختیار کیا اور یہ کنایہ ہے استحقاق پیدا کرنے سے ۔ یعنی انہوں نے غضب پروردگار کو اپنے لئے منزل و مکان کی طرح انتخاب کیا۔

یہ سرکش و باغی گروہ حضرت موسی کے قیام سے پہلے اور پیغمبر اسلام کے ظہور سے قبل دونوں مواقع پر ایسے قیام کے سختی سے طرفدار تھے لیکن دونوں قیاموں کے رو بہ عمل ہونے کے بعد وہ اپنے عقیدے سے پھر گئے ارو یکے بعد دیگرے اپنی جان کے بدلے غضب خدا خرید لیا۔