تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78120
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78120 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۹۱،۹۲،۹۳

۹۱ ۔( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا اٴَنزَلَ اللهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا اٴُنزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُونَ بِمَا وَرَائَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ اٴَنْبِیَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِین )

۹۲ ۔( وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَنْتُمْ ظَالِمُونَ )

۹۳ ۔( وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِکُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاٴْمُرُکُمْ بِهِ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ )

۹۱ ۔ اور جب ان سے کہاجائے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیاہے اس پر ایمان لے آؤتو وہ کہتے ہیں ہم تو اس چیز پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوئی (اس پرنہیں جو دوسری قوموں میں سے کسی پر نازل ہو) اور اس کے علاوہ سے کفر اختیار کر لیتے ہیں جب کہ وہ حق ہے اور ان آیات کی تصدیق کرتاہے جو ان پرنازل ہوچکی ہیں ۔کہئے کہ اگرسچ کہتے ہو تو پھر اس سے پہلے انبیاء کو قتل کیوں کیا کرتے تھے۔

۹۲ ۔ نیز موسی تمہارے لئے سب معجزات لے کر آئے (تو پھر کیوں تم نے) بعد ازاں بچھڑے کو منتخب کرلیا اور اس عمل سے تم نے اپنے اور پر ظلم کیا۔

۹۳ ۔ اور تم سے ہم نے وہ پیمان لیا اور تم پر کوہ طور بلند کیا (اور تم سے کہا) یہ قوانین و احکام جو ہم نے تمہیں دیئے ہیں انہیں مضبوطی سے تھا مے رکھوا اور صحیح طرح سے سنو تم نے کہا ہم نے سن لیاہے اور پھر نافرمانی کی ہے اور کفر کے نتیجے میں بچھڑے کی محبت سے تمہارے دلوں کی آبیاری ہوئی اگر تم ایمان رکھتے ہو تو کہہ دو کہ تمہارا ایمان تمہیں کیسا برا حکم دیتاہے۔

یہودیوں نے ان زحمتوں اور مشکلوں کے با وجود

گذشتہ آیات کی تفسیر میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ یہودیوں نے ان زحمتوں اور مشکلوں کے با وجود جو انہوں نے تورات کے پیغمبر موعود تک پہنچنے کے لئے جھیلیں ۔ اب حسد کی وجہ سے یا اس بناء پر کہ یہ پیغمبر بنی اسرائیل میں سے نہیں ہے یا اس لئے کہ ان کے ذاتی فائدے خطرے میں پڑ جائیں گے یا پھر اور وجوہات کے باعث اس کی اطاعت اور اس پر ایمان لانے سے منہ پھیر لیا۔

زیر بحث آیات میں سے پہلی میں یہودیوں کے اس تعصب نسلی کی طرف اشارہ کیا گیاہے جو پوری دنیا میں مشہور ہے۔ فرمایا: جس وقت ان سے کہاجائے کہ جو کچھ خدانے نازل فرمایا ہے اس پر ایمان لے آؤ کہتے ہیں ہم تو اس پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوا ہے (نہ کہ دوسری قوموں پر) اور اس کے علاوہ سے کفر اختیار کریں گے( و اذا قیل لهم امنوا بما انزل الله قالوا نومن بما انزل علینا و یکفرون بما ورا ء ) ۔

وہ انجیل پرایمان لائے ہیں قرآن پر بلکہ وہ فقط نسلی امتیاز اور اپنے ذاتی فائدے نظر میں رکھے ہوئے ہیں جب کہ قرآن جو محمد پر نازل ہوا ہے وہ حق ہے اور ان نشانیوں اور علامتوں کے مطابق ہے جو پیغمبر موعود کے بار ے میں ہیں وہ اپنی کتاب میں پڑھ چکے ہیں( و هو الحق مصدقا لما معهم ) ۔

اس کے بعد قرآن ان کے جھوٹ سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتاہے: اگر تمہارے ایمان نہ لانے کا بہا نہ یہ ہے کہ محمد تم میں سے نہیں ہے تو پھر گذشتہ زمانے میں اپنے انبیاء پر ایمان کیوں نہیں لائے ہو اور کیوں انہیں قتل کرتے رہے ہو اگر سچ کہتے ہو اور ایمان دار ہو( قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ اٴَنْبِیَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِین ) ۔

اگر وہ سچے دل سے ایمان لائے تو خدا کے عظیم انبیاء کو قتل نہ کرتے کیونکہ تورات تو انسانی قتل کو بہت بڑا گناہ قرار دیتی ہے۔

علاوہ از یں خود یہ کہنا کہ ہم تو صرف ان قوانین و احکام پر ایمان لائیں گے جو ہم پر نازل ہوتے ہوں ، در اصل اصول توحید اور شرک کا مقابلہ کرنے کے مفہوم سے واضح کجروی ہے۔ یہ ایک طرح کی خود خواہی اور خود پرستی ہے شخصی صورت میں ہو یا نسلی شکل میں ۔ توحید اس لئے ہے کہ ایسے خیالات کو وجود انسانی میں سے جڑسے اکھاڑ پھینکے تا کہ انسان خدا کے قوانین کو صرف اس لئے قبول کرے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں ۔ بہ الفاظ دیگر اگر خدائی احکامات صرف اس شرط پرقبول کئے جائیں کہ وہ خود ہم پر نازل ہوں تو حقیقت میں یہ شرک ہے نہ کہ ایمان اور یہ کفر ہے کہ اسلام اور اس طرح احکامات ، قبول کرنا ہرگز ایمان کی دلیل نہیں ہے۔ اسی لئے تو مندرجہ بالا آیت میں ہے:( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا اٴَنزَلَ الله ) ۔ یعنی جب ان سے کہاجاتا ہے کہ جو کچھ خدانے نازل فرمایاہے اس پر ایمان لے آو۔ اس آیت میں نہ محمد کا نام ہے نہ موسی و عیسی کا۔

ان کے کذب کو ظاہر کرنے کیلئے قرآن صرف اسی بات پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ بعد کی آیت میں ان کے خلاف ایک اور سند پیش کرتاہے۔ قرآن کہتاہے: موسی نے تمام معجزات و دلائل تمہارے سامنے پیش کئے لیکن تم نے اس کے بعد بچھڑے کو منتخب کیا اور اس کام کی وجہ سے تم ظالم و ستم گار ٹھہرے( وَلَقَدْ جَائَکُمْ مُوسَی بِالْبَیِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمْ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَاٴَنْتُمْ ظَالِمُونَ ) ۔

اگر تم سچ کہتے ہو کہ تم اپنے پیغمبر پر ایمان رکھتے ہو تو پھر یہ بچھڑے کی پرستش اور وہ بھی توحید پر واضح دلائل کے بعد کیاہے۔ یہ کیسا ایمان ہے جو صرف موسی کے او جھل ہونے اور کوہ طور پر جانے سے تمہارے دلوں سے زائل ہوگیا اور کفرنے ایمان کی جگہ اور بچھڑے نے توحید کا مقام حاصل کرلیا۔ بے شک اس کام سے تم نے اپنے اوپر، معاشرے پر اور آئندہ نسلوں پر ظلم کیاہے۔

زیر بحث تیسری آیت میں ان کے دعوی کے بطلان پر ایک اور سند پیش کی گئی ہے اس ضمن میں کوہ طور کے عہد و پیمان کا ذکر کیاگیاہے ۔ فرمایا: ہم نے تم سے پیمان لیا اور کوہ طور کو تمہارے سروں پر بلند کیا اور تم سے کہا کہ جو حکم ہم تمہیں دیں اسے مضبوطی سے تھامے رہو اور صحیح طور سے سنو لیکن تم نے کہا ہم نے سن کر اس کی مخالفت کی( وَإِذْ اٴَخَذْنَا مِیثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمْ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَیْنَاکُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ) ۔

بے شک ان کے دلوں کی بچھڑے کی محبت سے آبیاری ہوئی اور کفرنے ان پر غلبہ حاصل کرلیا( وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِهِمْ الْعِجْلَ بِکُفْرِهِم ) ۔

شرک اور دنیا پرستی نے جس کی مثال سامری کے بنائے سونے کے بچھڑے سے ان کی محبت ہے، ان کے تار و پود میں اثر و نفوذ پیدا کرلیا تھا اور ان کے سارے وجود میں اس کی جڑیں پہنچ گئی تھیں ۔ اسی بناء پر وہ خدا کو بھول گئے تھے۔

عجیب مسخرہ پن ہے یہ کیسا ایمان ہے جو خدا کے پیغمبروں کو قتل کرنے کی اجازت دیتاہے جو بت پرستی اور بچھڑے کی پرستش کو بھی رواجانتا ہے اور خدا سے باندھے ہوئے محکم میثاقوں کو طاق کردیتاہے۔

اگر تم مومن ہوتو تمہارا ایمان تمہیں کیسے برے احکام دیتاہے( قُلْ بِئْسَمَا یَاٴْمُرُکُمْ بِهِ إِیمَانُکُمْ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) ۔

( قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا ) کا مفہوم:

اس کا معنی ہے ہم نے سنا اور معصیت کی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ زبان سے یہ الفاظ کہتے ہیں بلکہ ظاہرا اس کا مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے اس واقعیت کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ ایک عمدہ کنایہ ہے جور و زمرہ گفتگو میں دیکھاجاسکتاہے۔

( وَاٴُشْرِبُوا فِی قُلُوبِهِمْ الْعِجْل ) مفہوم:

یہ بھی ایک عمدہ کنایہ ہے جو یہودی قوم کی حالت بیان کرتا ہے۔

جیسا کہ مفردات راغب میں ہے کلمہ (اشراب) کے دو معانی ہیں :

۱ ۔ ایک یہ کہ (اشربت البعیر) کے باب سے ہو یعنی (میں نے اونٹ کی گردن میں رسی باندھی) اس معنی کے لحاظ سے مندرجہ بالا جملہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ (محبت و وابستگی کی مضبوط رسی نے ان کے دلوں کو بچھڑے سی باندھ دیا۔

۲ ۔ دوسرا یہ کہ اس کا مادہ شراب سے ہو جس کا معنی ہے آبیاری کرنا: اور دوسرے کو پانی دینا اس صورت میں لفظ حب مقصود ہوگا۔ یوں مندرجہ بالا جملے کا مفہوم یہ ہوگا بنی اسرائیل نے اپنے دلوں کی بچھڑے کی محبت سے آبیاری کی(

یہ اہل عرب کی عادات کا حصہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق سخت قسم کا تعلق یا زیادہ کینہ ظاہر کرنا چاہیں تو مندرجہ بالا تعبیر ہی کی طرح کا انداز اختیاز کرتے ہیں ۔

اس سے ضمنا ایک اور نکتہ بھی نکلا کہ بنی اسرائیل کے ان غلط کاموں پر تعجب نہیں کرنا چاہئے ۔ کیونکہ یہ اعمال ان کے دلوں کی اس سرزمین کا حاصل ہیں جس کی شرک کے پانی سے آبیاری کی گئی ہے اور جو زمین ایسے پانی سے سیراب ہو اس سے خیانت ، قتل و ظلم کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

اس بات کی اہمیت اس وقت اور نمایان ہوجاتی ہے جب دین یہود میں موجود قتل کی قباحت اور انسان کے قتل کی برائی کے احکام پر نظر جاتی ہے جہنیں اہمیت کے ساتھ بیان کیاگیاہے۔

یہودیوں کا دین اس ظلم کو اس قدر برا سمجھتا تھا کہ قاموس کتاب مقدس صفحہ ۶۸۷ کی تحریر کے مطابق قتل عمد اور اس کی قباحت اسرائیلیوں کے نزدیک اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ مدتیں گذرجانے کے بعد اور مدتوں ایسے شہروں میں پناہ لینے کے بعد بھی جنہیں پناہ گاہ کہاجاتا تھا اور مقامات مقدسہ پر التجا کے با وجود بھی قاتل بری الذمہ نہیں سمجھاجاتا تھا بلکہ اس ہے ہر صورت میں قصاص لیاجاتا

یہ تو کئی عام انسان کے قتل کے بارے میں ہے چہ جائیکہ خدا کے انبیاء کا قتل ۔ پس اگر بنی اسرائیل تورات پرایمان رکھتے تو انبیاء کو قتل نہ کرتے۔

آیات ۹۴،۹۵،۹۶

۹۴ ۔( قُلْ إِنْ کَانَتْ لَکُمْ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین )

۹۵ ۔( وَلَنْ یَتَمَنَّوْهُ اٴَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیهِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِینَ )

۹۶ ۔( ولَتَجِدَنَّهُمْ اٴَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاةٍ وَمِنْ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا یَوَدُّ اٴَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اٴَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ اٴَنْ یُعَمَّرَ وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ

۹۴ ۔ کہہ دو اگر (جیسا کہ تم دعوی کرتے ہو) خدا کے ہاں آخرت کا گھر دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر مرنے کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو۔

۹۵ ۔ لیکن وہ برے اعمال کی صورت میں جو آگے بھیج چکے ہیں ان کے باعث کبھی مرنے کی تمنا نہیں کریں گے اور خدا ظالموں سے پوری طرح آگاہ ہے۔

۹۶ ۔ انہیں سب لوگوں سے زیادہ حریص یہاں تک کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر لالچی (دولت جمع کرنے اور اس دنیا کی) زندگی پر پاؤگے (یہاں تک کہ) ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ ہزار سال عمر پائے حالانکہ یہ طولانی عمر (بھی) اسے خدا کے عذاب سے نہیں بچاسکے گی اور خدا ان کے اعمال کو دیکھتاہے۔

خود پسند گروہ

قرآن مجید کی مختلف آیات کے علاوہ بھے یہودیوں کی تاریخ سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ اپنے آپ کو بلند نسل سمجھتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ وہی انسانی معاشرے کے منتخب پھول ہیں اور بہشت انہی کے لئے بنائی گئی ہے اور جہنم کی آگ ان سے زیادہ سر و کار نہیں رکھتی، وہ خدا کے بیٹے اور خاص دوست ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ (آنچہ خوباں ہمہ دارند انہا تنہا دارند یعنی تمام عالم کی اچھائیاں انہی میں جمع ہیں ۔

ان کی یہ (خوشبودار، خود خواہی قرآن کی مختلف آیات میں بیان ہوئی ہے، جن میں یہودیوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔

سورہ مائدہ کی آیت ۱۸ میں ہے:( نَحْنُ اٴَبْنَاءُ اللهِ وَاٴَحِبَّاؤ )

یعنی ۔ ہم خدا کے فرزند اور خاص دوست ہیں ۔

سورہ بقرہ کی آیہ ۱۱۱ میں ہے:( وَقَالُوا لَنْ یَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَنْ کَانَ هُودًا اٴَوْ نَصَارَی )

یعنی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہودی اور عیسائی کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جاسکتا۔

سورہ بقرہ کی آیہ ۸۰ میں ہے:( وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ اٴَیَّامًا مَعْدُودَةً ) َ

چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ ہمیں نہیں چھو سکتی۔

یہ موہوم خیالات ایک طرف تو انہیں ظلم و زیادتی اور گناہ و طغیان کی طرف مائل کرتے اور دوسری طرف تکبر، خود پسندی اور خود کو سب سے بلند سمجھنے کی دعوت دیتے۔

مندرجہ بالا آیات میں قرآن مجید انہیں دندان شکن جواب دیتاہے اور کہتا ہے: اگر ایسا ہی ہے جیسا کہ تم سمجھتے ہو کہ ) آخرت کا گھر خدا کے ہاں باقی لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے مخصوص ہے تو پھر موت کی تمنا کرو اگر سچ کہتے ہو (۔( قُلْ إِنْ کَانَتْ لَکُمْ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِین ) ۔ کیاتم مائل نہیں ہوکہ جوار رحمت خدا میں جاکر پناہ لو اور جنت کی بے شمار نعمتیں تمہارے اختیار میں ہوں ۔ کیا تم اپنے محبوب کے دیکھنے کے آرزومند نہیں ہو۔

یہودی چاہتے تھے کہ وہ یہ بات کرکے مسلمانوں کو آزردہ خاطر کریں کہ بہشت تو یہودیوں کے لئے مخصوص ہے یا یہ کہ ہم تو دوزخ میں بس چند دن جلیں گے اور یا کہتے کہ جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی ہوگا۔ قرآن نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ اٹھایاہے۔ کیونکہ جب وہ دنیا کی زندگی کو کسی طرح ترک کرنے کو تیار نہیں تو یہی ان کے جھوٹے ہونے کی محکم دلیل ہے۔

واقعا اگر انسان کا دار آخرت کے بارے میں وہی ایمان ہو جو بزعم خود یہودیوں کا تھا تو وہ اس دنیا سے کیسے لو لگا سکتا ہے اور کیسے اس کے حصول کے لئے ہزاروں گناہوں کا مرتکب ہوسکتا ہے اور وہ موت سے یہاں تک کہ اپنے مقصد کی راہ میں بھی کیسے ڈرسکتاہے۔

بعد والی آیت میں قرآن مزید کہتاہے۔ اپنے آگے بھیجے ہوئے برے اعمال کی وجہ سے وہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے( وَلَنْ یَتَمَنَّوْهُ اٴَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیهِمَْ ) ۔اور خدا ستمگاروں سے واقف ہے( وَاللهُ عَلِیمٌ بِالظَّالِمِین ) ۔

جی ہاں ۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے اعمال ناموں میں کیسی سیاہیاں موجود ہیں ۔ وہ اپنے قبیح اور سنگین گناہوں سے مطلع تھے۔ خدا بھی ان ظالموں کے اعمال سے آگاہ ہے۔ اسی لئے ان کے لئے آخرت کا گھر عذاب، سختی اور رسوائی کا گھر ہے اور اسی بناء پر وہ اس کی خواہش نہیں رکھتے۔

محل بحث آیت مادی چیزوں کے متعلق ان کی شدید حرص کا تذکرہ یوں کرتی ہے: انہیں تم اس زندگی پر سب سے زیادہ حریص پاؤگے۔( ولَتَجِدَنَّهُمْ اٴَحْرَصَ النَّاسِ عَلَی حَیَاة ) ۔ یہاں تک کہ مشرکین سے بھی بڑھ کر( وَمِنْ الَّذِینَ اٴَشْرَکُوا ) ۔ مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی میں حریص ، دنیا پر قبضہ کرنے میں حریص، سب کچھ اپنے لئے سمجھنے میں حریص یہاں تک یہ مشرکین سے بھی بڑھ کر حریص ہیں حالانکہ مشرکین کو فطری طور پر مال جمع کرنے میں سب سے زیادہ حریص ہوناچاہئیے۔

ان میں سے ہر کوئی چاہتاہے کہ ہزار سال تک زندہ رہے( یَوَدُّ اٴَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اٴَلْفَ سَنَةٍ ) ۔ زیادہ ثروت جمع کرنے کے لئے یا سزا کے خوف سے۔

ہاں ۔ وہ موت سے ڈرتے ہیں اور ہزارسالہ عمر کی تمنا کرتے ہیں لیکن یہ طولانی عمر بھی انہیں عذاب خدا سے نہیں بچاسکے گی( وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنْ الْعَذَابِ اٴَنْ یُعَمر ) ۔

اگر وہ گمان کرتے ہیں کہ خدا ان کے اعمال سے آگاہ نہیں ہے تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ خدا ان کے اعمال کے بارے میں بصیر و بیناہے( وَاللهُ بَصِیرٌ بِمَا یَعْمَلُونَ ) ۔

ہزار سال عمر کی تمنا:

توجہ رہے کہ ہزار سال سے مر اد ہزار سال کا عدد نہیں بلکہ یہ طولانی عمر سے کنایہ ہے دوسرے لفظوں میں یہ عدد تکثیر ہے نہ کہ عدد تعداد۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ہزار کا عدد اس زمانے میں عربوں کے نزدیک سب سے بڑا عدد تھا اور اس سے بڑے عدد کا ان کے پاس کوئی نام نہیں تھا لہذا سب سے بڑا مبالغہ یہی شمار ہوتاتھا۔

( عَلَی حَیَاةٍ ) :

نکرہ کی صورت میں یہ تعبیر کچھ مفسرین کے بقول تحقیر کے لئے ہے یعنی انہوں نے دنیا کی زندگی سے دل وابستہ کر رکھاہے یہاں تک کہ اس جہان کی پست ترین زندگی کو بھی جو بدبختی سے گزرے وہ آخرت کے گھر پر ترجیح دیتے ہیں ۔

یہودیوں کی نسل پرستی:

اس میں شک نہیں کہ بہت سی جنگوں اور خونریزیوں کا سرچشمہ نسل پرستی تھے خصوصا دنیا کی پہلی اور دوسری جنگ عظیم جو تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ انسانی جانوں کی بتاہی اور آبادی کی ویرانی کا باعث ہوئیں اس میں آلمانیوں (نازیوں ) کی نسل پرستی کے جنون سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔

اگر طے ہوجائے کہ دنیا کے نسل پرستوں کی صف بندی کی جائے یا فہرست مرتب کی جائے تو یہودی پہلی لائن میں ہوں گے۔

اس وقت بھی انہوں نے جو حکومت اسرائیل کے نام سے تشکیل دی ہے اسی نسلی تفاخر کی بنیاد پرہے اور اس کی تشکیل میں وہ کیسے مظالم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس کی بقاء کے لئے کیسی کیسی دہشت ناکیوں کے مرتکب ہورہے ہیں ۔

حالت تو یہ ہے کہ دین موسوی کو بھی اپنی نسل میں محصور سمجھتے ہیں اور نسل یہود کے علاوہ کوئی یہودی مذہب قبول کرے تو یہ ان کیلیئے کوئی توجہ طلب بات نہیں اسی لئے تو وہ دیگر اقوام میں اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج نہیں کرتے اسی وجہ سے وہ ساری دنیا میں نفرت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے، ہیں کیونکہ دنیا کے لوگ ایسے اشخاص کو ہرگز پسند نہیں کرتے جو دوسروں کے مقابلے میں اپنے نسلی امتیاز کے قائل ہوں ۔

اصولی طور پر نسل پرستی شرک کی ایک قسم ہے اسی لئے تو اسلام سختی سے اس کا مقابلہ کرتاہے اور تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد قرار دیتاہے جن کا امتیاز فقط تقوی و پرہیزگاری ہے۔

بہانہ ساز قوم:

آیت کی شان نزول دیکھنے سے دوبارہ اس بہانہ ساز قوم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس نے پیغمبر معظم حضرت موسی کے زمانے سے لے کر آج تک یہی روش اختیار کر رکھی ہے اور ہر زمانے میں حق کے زیر بار آنے کے بجائے بہانے تلاش کئے ہیں ۔

یہاں جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں بہانہ صرف یہ ہے کہ چونکہ جبرئیل آپ پر وحی لانے والا فرشتہ ہے جو خدا کے سخت احکام لاتاہے لہذا ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ہم اس کے دشمن ہیں اگر میکائیل ہوتا تو کوئی حرج نہ تھا اور آسان تھا کہ ہم ایمان لے آئیں ۔

ان سے پوچھا جائے کہ کیا خدا کے فرشتے اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ کیا اصولا وہ خواہش کے مطابق عمل کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں ؟ وہ تو قرآن کے مطابق ایسے

( لا یعصون الله ما امرهم یعنی ) ۔ جو کچھ خدا حکم دیتاہے وہ وہی انجام دیتے ہیں ۔ (تحریم ۔)

ان بہانہ سازیوں کا جواب زیر نظر آیات میں اس طرح دیتاہے : ان سے کہہ دو جو شخص جبرئیل کا دشمن ہے وہ در حقیقت خدا کا دشمن ہے کیونکہ اس نے تو خدا کے حکم سے آپ کے دل پر قرآن نازل کیاہے (۔( قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَی قَلْبِکَ بِإِذْنِ الله ) ۔

وہ قرآن جو گذشتہ آسمانی کتب کی تصدیق کرتاہے اور ان کی نشانیوں سے ہم آہنگ ہے( مصدقا لما بین یدیه ) ۔ وہی جو مومنین کے لئے ہدایت و بشارت کا سبب ہے( و هدى و بشری للمومنین ) ۔

اس آیت میں در اصل اس گروہ کو تین واضح جواب دئیے گئے ہیں :

ایک یہ کہ جبرئیل کوئی چیز اپنی طرف سے نہیں لاتا جو کچھ ہے( باذن الله ) ہے۔

دوسرا یہ کہ گذشتہ کتب میں سے صداقت اور روشنی کی نشانیاں اس میں موجود ہیں کیونکہ یہ انہی نشانیوں کے مطابق ہے( مصدق لما بین یدیه ) یعنی اس کا کوئی جواز نہیں کہ تم تورات پر تو ایمان لے آؤلیکن قرآن سے کفر و اختیار کرو جو تورات کی نشانیوں کے مطابق ہے۔

خلاصہ یہ کہ ان کے مضامین ہم آہنگ ہیں اور یہ بات قرآن کی سچائی کی ترجمان ہے اور یہ قرآن مومنین کے لئے ہدایت و بشارت کا سبب ہے۔

اگلی آیت مین یہی مضمون مزید تاکید و تہدید کے ساتھ بیان ہواہے۔ فرماتاہے: جو شخص خدا، فرشتوں ، خدا کے پیغمبروں ، جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے۔ خدا اس کا دشمن ہے کہ خدا کافروں کا دشمن ہے

( مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلاَئِکَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِیلَ وَمِیکَالَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْکَافِرِین ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سب ایک ہی ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں تشکیک و تفاوت نہیں ہے جو اللہ، فرشتے، خدا کے رسول، جبرئیل و میکائیل بلکہ کسی فرشتے کا دشمن ہے اور جوان میں تشکیک و تفاوت کا قائل ہے پر وردگار اس کا دشمن ہے۔

بہ الفاظ دیگر احکام الہی جو نوع انسانی کے لئے سودمند اور تکامل بخش ہیں خدا کی طر ف سے فرشتوں کے ذریعے پیغمبروں پر نازل ہوتے ہیں اب اگر ذمہ داریاں مختلف ہوں تو تقسیم کارکے فرق کو تضاد کار تو نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سب ایک ہی راہ مستقیم پرہیں لہذا ان میں سے کسی ایک کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ یہودی اور دیگر منکرین قرآن یہ جان لیں کہ انہوں نے جبرئیل، دیگر ملائکہ اور پیغمبروں کی دشمنی اختیار کرکے ایک بڑے طاقت ور کی دشمنی مول لی ہے۔ قرآن کہتاہے جو ان سے دشمنی رکھے خدائے بزرگ اس کا دشمن ہے کہ بے شک خدا کافروں کا دشمن ہے۔

رہی (قلب) کی بحث۔ کہ قرآن میں اس سے کیا مراد ہے تو یہ اسی سورہ کی آیت ، کے ذیل میں آچکے ہے۔

جبرئیل و میکائیل

جبرئیل کا نام تین مرتبہ اور میکائیلل کا نام ایک مرتبہ اسی مقام پر آیاہے۔ انہی آیات سے اجمالا معلوم ہوتاہے کہ دونوں فرشتے بزرگ اور مقرب الہی ہیں ۔ مسلمانوں کی عمومی تحریروں میں جبریل (ہمزہ کے ساتھ اور میکال (ہمزہ) اور (یا) کے ساتھ آتاہے لیکن متن قرآن میں جبریل اور میکال ہے۔

ایک گروہ کا نظریہ سے کہ جبریل عبرانی زبان کا لفظ ہے اور اس کی اصل جبرئیل ہے جس کا معنی ہے مرد خدا یا (قوت خدا) (جبر کا معنی قوت یا مرد ہے اورئیل کا معنی خداہے(

محل بحث آیات کے مطابق جبرئیل پیغمبر کے لئے وحی کا قاصد تھا اور آپ کے قلب مبارک پر قرآن نازل کرنے والاتھا جب کہ سورہ نحل کی آیہ ۱۰۲ کے مطابق روح القدس وحی لا تا تھا اور سورہ شعراء ، آیہ ۱۹۱ میں ہے کہ روح الامین تدریجا قرآن پیغمبر اکرم پر لاتارہا لیکن جیسا کہ مفسرین نے تصریح کی ہے ر وح القدس اور روح الامین سے مراد جبرئیل ہی ہیں ۔ ہمارے پیش نظر ایسی احادیث ہیں جن کے مطابق جبرئیل مختلف شکلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتے رہے اور مدینہ میں جبرئیل زیادہ تر وحی قلبی کی شکل میں آنحضرت کے سامنے ظاہر ہوتے تھے جو ایک خوبصورت جوان تھا۔

سورہ نجم سے ظاہر ہوتاہے کہ پیغمبر اکرم نے جبرئیل کو دو مرتبہ (اس کی اصل شکل میں ) دیکھا ہے۔

اسلامی کتب میں جن چار فرشتوں کا عموما مقرب بارگاہ الہی شمار کیاگیاہے وہ جبرئیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل ہیں ۔ جن میں سے جبرئیل بلند مرتبہ ہیں ۔

یہودیوں کی کتب میں بھی جبرئیل اور میکائیل کے متعلق گفتگو ہوئی سے۔ منجملہ ان کی کتاب دانیال میں جبرائیل کو شیطانوں کے سر براہ کو مغلوب کرنے والا اور میکائیل کو قوم اسرائیل کا حامی کہا گیا ہے لیکن بعض کے بقول کوئی ایسی چیز جو جبرئیل کی یہودیوں سے دشمنی پر دلالت کرے دسترس میں نہیں آئی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں یہودیوں کا جبرئیل سے اظہار دشمنی ایک بہانہ تھا تا کہ اس کے ذریعے اسلام قبول کرنے سے بچ جائیں یہا ں تک کہ ان کی مذہبی کتب میں بھی اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں ۔

آیات ۹۹،۱۰۰،۱۰۱

۹۹-( وَلَقَدْ اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ )

۱۰۰ -( َوَکُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِیقٌ مِنْهُمْ بَلْ اٴَکْثَرُهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ )

۱۰۱ ۔( وَلَمَّا جَائَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ کِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ کَاٴَنَّهُمْ لاَیَعْلَمُونَ )

ترجمہ

۹۹ ۔ تیرے لئے ہم نے روشن نشانیاں بھیجیں اور سوائے فاسقین کے کوئی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔

۱۰۰ ۔ اور کیا جب بھی (یہودی) کوئی پیمان (خدا و رسول سے) باندھتے ان میں سے ایک گروہ اسے پس پشت نہیں ڈال دیتاتھا اور اس کی مخالفت نہیں کرتاتھا) اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے۔

۱۰۱ ۔ اور جب بھی خدا کی طرف سے کوئی رسول ان کی طرف آیا جب کہ وہ ان نشانیوں کے مطابق بھی تھا جو ان کے پاس تھیں اور ان میں سے ایک جماعت نے جو عامل کتاب (اور عالم ) لوگوں پر مشتمل تھی خدا کی کتاب کو ایسے پس پشت ڈال دیا گو یا وہ اس سے بالکل بے خبر تھے۔

شان نزول

مندرجہ بالا پہلی آیت کے سلسلے میں ابن عباس سے شان نزول منقول ہے کہ ابن صوریانے ڈھٹائی اور عناد کی بناء پر پیغمبر اسلام سے کہا:

تمہاری لائی ہوئی کوئی چیز ہماری سمجھ میں نہیں آتی اور خدا نے تم پر کوئی واضح نشانی نازل نہیں کی کہ ہم تمہاری اتباع کریں ۔

اس پر زیر نظر آیت نازل ہوئی اور اسے صراحت سے جواب دیا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ شان نزول آیات کے مفاہیم کو کبھی محدود نہیں کرسکتا اور ان کے کلیت و عمومیت میں کمی نہیں ہوتی اگر چہ ان کے آغاز کا سبب وہی ہوتاتھا۔

پیمان شکن یہودی

زیر بحث پہلی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتاہے کہ کافی دلیلیں ، روشن نشانیاں اور واضح آیات پیغمبر اکرم کے پاس تھیں ۔ جو لوگ انکار کرتے وہ در اصل آپ کی دعوت کی حقانیت کو جان چکتے تھے لیکن مخصوص اغراض کی خاطر مخالفت میں کھڑے ہوجاتے۔ قرآن کہتاہے: ہم نے تم پر آیات بینات نازل کیں اور فاسقین کے سواکوئی ان سے کفر نہیں کرتا( لَقَدْ اٴَنزَلْنَا إِلَیْکَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ وَمَا یَکْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ ) ۔

آیات قرآن پر غور و فکر کرنے سے ہر پاک دل اور حق جو انسان کے لئے راستے واضح اور و روشن ہوجاتے ہیں اور ہر کوئی ان آیات کے مطالعے سے پیغمبر اسلام کی صداقت اور قرآن کی عظمت کو پالیتاہے لیکن اس حقیقت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کا دل گناہ کے اثر سے سیاہ نہ ہوچکا ہو اور تعجب نہیں کہ فاسق لوگ فرمان خدا کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہیں اور اپنی صحیح فطرت کو تسلسل گناہ کے باعث گنوا بیٹھتے ہیں ، وہ کبھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔

اس کے بعد یہودیوں کے ایک گروہ کی ایک بہت قبیح صفت یعنی ایفائے عہد کی عدم پاسداری اور پیمان شکنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے: کیا جب کبھی انہوں نے خدا اور پیغمبر سے عہد و پیمان باندھا تو ان میں سے ایک گروہ نے اسے پس پشت نہیں ڈال دیا اور اس کی مخالفت نہیں کی( اوَکُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِیقٌ مِنْهُمْ بَلْ اٴَکْثَرُهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ )

) بے شک وہ ایسے ہی ہیں اور ان میں سے اکثر ایمان نہیں لاتے( بل اکثرهم لا یومنون ) ۔

خدانے کوہ طور پر ان سے یہ عہد لیاتھا کہ تورات کے احکام پر عمل کریں گے لیکن انہوں نے یہ عہد توڑدیا یا اور اس پر عمل نہیں کیا۔ ان سے یہ عہد بھی لیاگیاتھا کہ پغمبر موعود (پیغمبر اسلام جن کے آنے کی بشارت تورات میں موجود تھی) پر ایمان لے آئیں ، انہوں نے اس عہد پر بھی عمل نہیں کیا۔

جب پیغمبر اسلام مدینہ میں آئے تو بنی نضیر اور بنی قریظہ کے یہودیوں سے عہد و پیمان ہوا کہ وہ آپ کے دشمن کی مدد نہیں کریں گے لیکن آخر کار انہوں نے یہ عہد بھی توڑدیا اور جنگ احزاب (خندق میں اسلام کے خلاف مشرکین مکہ کا ساتھ دیا۔

بنیادی طور پر یہودیوں کی اکثریت کا پرانا طریقہ اور سنت ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کی پابندی نہیں کرتے۔ ہم آج بھی واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ صہیونیوں اور اسرائیل کا مفاد جہاں خطرے میں بین الاقوامی معاہدوں کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں ۔ زیر بحث آیات میں سے آخری اس موضوع کو صراحت سے اور گویا تاکید سے بیان کرتی ہے۔ فرمایا: خدا کا بھیجا ہو اان کے پاس آیا جوان نشانیوں کے مطابق تھا جوان کے ہاں موجود تھیں ، ان میں سے ایک جماعت جو صاحب کتاب لوگوں (علماء) پر مشتمل تھی اس نے کتاب خدا کو ایسے پس پشت ڈال دیا گویا انہیں علم ہی نہ تھا( وَلَمَّا جَائَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ نَبَذَ فَرِیقٌ مِنْ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ کِتَابَ اللهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ کَاٴَنَّهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

مندرجہ بالا ابحاث میں قرآن نے اپنی دیگر بحثوں کی ایک جمعیت کی اکثریت کے گناہ کی وجہ سے سب کو قابل ملامت قرار نہیں دیا بلکہ (فریق) اور اکثریت کے الفاظ استعمال کرکے اقلیت کے تقوی و ایمان کے حصے کی حفاظت کی ہے اور حق طلبی و حق جوئی کی یہی راہ و رسم ہے۔