تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78123
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78123 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیت کا روئے سخن تین گروہوں یہود، نصاری اور مشرکین

مندرجہ بالا تفسیر شان نزول کے مطالعہ سے ظاہر ہوتاہے کہ اس آیت کا روئے سخن تین گروہوں یہود، نصاری اور مشرکین کی طرف ہے اگرچہ گذشتہ آیات میں زیادہ تر یہودیوں کے بارے میں بحثیں آئی ہیں اور کہیں کہیں نصاری کی طرف بھی اشارہ ہے۔قبلہ کی تبدیلی کے معاملے کے بارے میں یہودی وسوسہ ڈال کر کوشش کرتے تھے کہ مسلمان بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں تا کہ اس سلسلے میں انہیں برتری حاصل رہے اور اس طرح مسجد الحرام اور کعبہ کی رونق بھی کم ہوسکے۔(۱)

مشرکین مکہ بھی پیغمبر اور مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روک کر عملا اس خدائی عمارت کی بربادی کی طرف قدم اٹھارہے تھے۔

عیسائی بھی بیت المقدس پر قبضہ کرکے اس میں وہ ناپسندیدہ اعمال سرانجام دیتے جن کا ذکر ابن عباس کی روایت میں آچکاہے تا کہ اسے برباد کرسکیں ۔

ان تینوں گروہوں اور ایسے تمام اشخاص جو اس راہ پر قدم اٹھاتے ہیں کو مخاطب کرکے قرآن کہتاہے: اس شخص سے بڑھ کے کون ظالم ہوسکتاہے جو اللہ کی مسجدوں میں خدا کام نام لینے سے روکتے ہیں اور انہیں ویران و بر باد کرنے کی کوشش کرتے ہیں( و من اظلم ممن منع مساجد الله ان یذکر فیها اسمه و سعی فی خرابها ) ۔ یوں قرآن ایسی رکاوٹ کو ظلم عظیم اور یہ کام کرنے والوں کو ظالم ترین افراد قرار دیتاہے۔ اور واقعا اس سے بڑا کیا ظلم ہوسکتاہے کہ درگاہ توحید کو بر باد کرنے کی کوشش کی جائے ، لوگوں کو حق تعالی کی یاد سے روکاجائے اور معاشرے میں فساد بر پاکیا جائے۔

آیت مزید کہتی ہے: مناسب نہیں کہ یہ لوگ خوف و وحشت کے بغیر ان مکانات میں داخل ہوں( اولئک ما کان لهم ان یدخلوها الا خائفین )

یعنی۔ دنیا کے مسلمانوں اور توحید پرستوں کو چاہیئے کہ وہ اس مضبوطی سے قیام کرےں کہ ان ستمگروں کے ہاتھ ان مقدس مقامات سے دور ہوجائیں اور ان میں سے کوئی بھی علی الاعلان بلاخوف ان مقامات مقدسہ میں داخل نہ ہوسکے۔مندرجہ بالا جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہے کہ یہ ستمگران مراکز عبادت کو اپنے قبضے میں نہیں رکھ سکیں گے۔ بلکہ آخر کاران میں بلاخوف قدم بھی نہیں رکھ سکیں گے جیسا کہ مسجد الحرام کے بارے میں مشرکین مکہ کے ساتھ ہوا۔ٓآخر میں ایسے عظیم ستمگروں کے لئے دنیا و آخرت میں ہلادینے والی سزا کا ذکر کرہے۔ فرمایا: ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے( لهم فی الدنیا خزی و لهم فی الاخرة عذاب عظیم ) ۔ وہ لوگ جو خدا اور خدا کے بندوں میں جدائی ڈالنا چاہتے ہیں ان کا یہی انجام ہے۔

مساجد کی ویرانی کی راہیں :

اس میں شک نہیں کہ مندرجہ بالا آیت کا مفہوم وسیع اور کافی پھیلا ہوا ہے اور کسی زمان و مکان سے مخصوص نہیں ہے جیسے دیگر آیات ہیں جو اگر چہ خاص حالات میں نازل ہوئی ہیں لیکن ان کا حکم تمامی زمانوں کے لئے مسلم ہے۔ اس بناء پرہر شخص اور ہر وہ گروہ جو کسی طرح مساجد الہی تباہی و ویرانی کی کوشش کرے یا اس میں ذکر خدا اور عبادت سے روکے وہ اسی رسوائی اور عذاب عظیم کا مستحق ہوگا۔ جس کی طرف آیت میں اشارہ ہواہے۔

اس نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ مساجد میں داخل ہونے اور ان میں ذکر پروردگار کو روکنے اور ان کی ویرانی و بر بادی کی کوشش کا صرف یہ مطلب نہیں کہ بیلچے یا ایسے کسی ہتھیاری سے مسجد کو تباہ کیاجائے بلکہ ہر وہ عمل جس کا نتیجہ مسجد کی ویرانی اور اس کی رونق میں کمی ہو اس میں شامل ہے۔

آیت( انما یعمر مساجد الله ) (توبہ۔ ۱۸) کی تفسیر میں تفصیل سے آئے گا کہ بعض روایات کی تصریح کے مطابق تعمیر اور آبادی سے مراد مساجد کی عمارتیں بنانا ہی نہیں بلکہ مساجد میں جانا اور وہاں کی مذہبی محافل و مجالس جو یاد خدا کا باعث ہیں کی طرف توجہ رکھنا بھی تعمیر کے مفہوم میں شامل ہے بلکہ یہی اہم ترین حصہ ہے۔ اس بناء پر جو چیز یاد خدا سے لوگوں کی غفلت کا باعث بنے اور جس سے لوگ مساجد سے دور ہوں وہ بہت بڑا ظلم ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ اس دور میں نادان ، خشک مزاج اور عقل و منطق سے عاری متعصبین کا ایک گروہ پیدا ہو گیاہے جو چاہتاہے کہ احیائے توحید کے بہانے ان مساجد اور عمارات کو بر باد کردے جو آئمہ اہل بیت ، بزرگان اسلام اور صلحائے دین کی قبور پر واقع ہیں اور ہمیشہ سے یاد خدا کا مرکز ہیں ۔ زیادہ تعجب تو اس پرہے کہ یہ بنے منطق ستمگر احیائے توحید اور رد شرک کے نام پر یہ افعال انجام دیتے ہوئے بہت سے گناہان کبیرہ کا ارتکاب کرجاتے ہیں ۔ حالانکہ فرض کریں کہ کسی مرکز مقدس پر کوئی غلط کام سرانجام بارہاہے تو اس کام کورو کاجانا چاہئیے نہ کہ ان مراکز توحید کو بر باد کرنا چاہئیے۔

سب سے بڑا ظلم:

دوسرا نکتہ جو اس آیت میں قابل توجہ ہے یہ ہے کہ خداوند عالم ان اشخاص کو ظالم ترین قرار دیتاہے اور واقعا ایسا ہے کیونکہ مساجد کی بتاہی و بربادی اور مراکز توحید سے لوگوں کو روکنے کی کوشش کا نتیجہ بے دینی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کام کا نقصان ہر دوسرے عمل سے زیادہ ہے۔ اور اس کا برا اور غلط انجام بہت دردناک ہے۔

قرآن میں دیگر مقامات پر بھی لفظ (اظلم) (یعنی ۔ زیادہ ظالم) استعمال ہواہے۔ ان تمام امور کا نتیجہ شرک ہے اور توحید نفی ہے۔

____________________

۱ ۔ تفسیر فخر رازی، آیہ مذکورہ کے ذیل میں ۔۔

آیت ۱۱۵

۱۱۵ ۔( وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاٴَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ إِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ )

ترجمہ

۱۱۵ ۔ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لئے ہیں ۔ جد ھر بھی رخ کرو خدا موجود ہے اور خدا بے نیاز و دانا ہے۔

شان نزول

اس آیت کے شان نزول کے سلسلے میں مختلف روایات منقول ہیں ۔

ابن عباس کہتے ہیں :

اس آیت کا تعلق قبلہ کی تبدیلی سے ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ جب بیت المقدس کی بجائے خانہ کعبہ مقرر ہوا تو یہودیوں نے برا منایا اور مسلمانوں پر اعتراض کیا کہ کیا قبلہ بھی بدلا جاسکتاہے۔ اس آیت میں انہیں جواب دیا گیا کہ دنیا کے مشرق و مغرب کا مالک خدا ہے۔

دوسری روایت میں ہے کہ یہ آیت مستحب نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی جب انسان کسی سواری پر سوار ہو تو سواری کا رخ کچھ بھی ہو (چاہے پشت بہ قبلہ ہو) مستحب نماز پڑھی جاسکتی ہے۔

کچھ اور حضرات نے جابر سے نقل کیاہے:

پیغمبر اکرم نے کچھ مسلمانوں کو ایک جنگ پر بھیجا۔ رات کے وقت جب تاریکی چھاگئی تو وہ سمت قبلہ نہ پہچان سکے اور سب نے مختلف سمتوں کی طرف نماز پڑھ لی۔ طلوع آفتاب پر انہیں معلوم ہوا کہ سب نے سمت قبلہ کے بغیر نماز پڑھی ہے۔ انہوں نے پیغمبر اسلام سے سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ ایسی صورت میں ان کی نماز صحیح ہے (البتہ اس حکم کی کچھ شرائط ہیں جو کتب فقہ میں درج ہیں )۔

کوئی مانع نہیں کہ جتنی شان ہائے نزول اوپر ذکر ہوئی ہیں وہ سب اس آیت کے لئے صحیح ہوں اور یہ آیت قبلہ کی تبدیلی ، سواری پر نماز نافلہ کی ادائیگی اور جب قبلہ کی پہچان نہ ہو رہی ہو تو نماز واجب کی ادائیگی کی طرف اشارہ کرتی ہو۔ علاوہ ازیں کوئی آیت شان نزول کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے مفہوم کو حکم

کلی کی صورت میں لیا جانا چاہئیے اور بسا اوقات اس سے مختلف قسم کے احکام حاصل ہوسکتے ہیں ۔

جس طرف رخ کر و خدا موجود ہے

گذشتہ آیت میں ان ظالمین سے متعلق گفتگو تھی جو مساجد الہی کی آبادی سے روکتے تھے اور انہیں ویران کرنے میں کوشاں رہتے تھے۔ زیر نظر آیت اس بحث کا تتمہ ہے۔ ارشاد ہوتاہے: مشرق و مغرب خدا کے ہیں اور جس طرف رخ کرو خدا موجود ہے( وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاٴَیْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ ) ۔

ایسا نہیں کہ اگرتمہیں مساجد اور مراکز توحید میں جانے سے روک دیاجائے تو خدا کی بندگی کی راہ بند ہوجائے گی۔ اس جہان کے مشرق و مغرب اس کی ذا ت پاک سے تعلق رکھتے ہیں اور جس طرف رخ کرو وہ موجود ہے۔ اسی طرح قبلہ کی تبدیلی جو بعض خاص وجوہ کے پیش نظر انجام پائی ہے اس سلسلے میں کچھ اثر نہیں رکھتی۔ کیا کوئی جگہ ہے جو خدا سے خالی ہو اصولا تو خدا بے عدیل و بے نیاز اور عالم و دانا ہے( اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِیمٌ ) ۔

اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں مشرق و مغرب سے مراد و مخصوص سمتیں نہیں بلکہ یہ تمام اطراف کے لئے کنایہ ہے ۔ جیسے ہم کہا کرتے ہیں کہ دشمنوں نے عداوت سے اور دوستوں نے خوف سے حضرت علی کے فضائل چھپائے لیکن اس کے با وجود مشرق و مغرب آپ کے فضائل سے بھرے پڑے ہیں (یعنی تمام اطراف اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ) اور شاید خصوصیت سے مشرق و مغرب کا ذکر اس لحاظ سے ہے کہ انسان سب سے پہلے انہی سمتوں کو پہنچانتاہے اور باقی جہات ان کے ذریعے پہچانی جاتی ہیں ۔

قرآن مجید میں ہے:( وَاٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْاٴَرْضِ وَمَغَارِبَهَا )

جنہیں کمزور کرد یا گیاتھا ہم نے انہیں زمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنادیا ۔ (اعراف۔ ۱۳۷)

فلسفہ قبلہ:

یہاں سب سے پہلے جو سوال سامنے آتاہے یہ ہے کہ جد ھر رخ کریں اگر ادھر خدا ہے تو پھر قبلہ کے تعین کی کیا ضرورت ہے۔

اس ضمن میں بعد میں گفتگو ہوگی کہ قبلہ کی طرف متوجہ ہونے کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ خدا کی ذات پاک کو کسی معین سمت میں محدود سمجھا جائے بلکہ انسان چونکہ مادی وجود ہے اور مجبور ہے کہ کسی ایک ہی طرف نماز پڑھے لہذا حکم دیا گیا کہ سب کے سب (استثنائی مقامات کے علاوہ) ایک ہی طرف نماز پڑھیں تا کہ لوگوں کی صفوں میں وحدت اور ہم آہنگی پیدا ہوسکے اور انتشار و پراکندگی کی روک تھام ہوسکے۔ ضمنا یہ بات بھی ہے کہ قبلہ کے لئے جو سمت معین ہوئی ہے۔ (یعنی کعبہ) وہ ایک مقدس نقطہ ہے اور قدیم ترین مراکز توحید میں سے ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے افکار توحید بیدار ہوتے ہیں ۔

وجہ اللہ:

اس سے مراد خدا کا چہرہ نہیں بلکہ لفظ (وجہ) یہاں ذات کے معنی میں استعمال ہواہے۔

مختلف روایات میں اس آیت سے ان لوگوں کی نماز صحیح ہونے کے بارے میں استدلال کیاگیاہے ۔ جنہوں نے اشتباہ یا تحقیق نہ ہوسکنے کی وجہ سے خلاف قبلہ نماز پڑھی ہو مزید بر آں اس سے سواری پر نماز پڑھنے کے جواز کے لئے بھی استدلال کیاگیاہے (مزید توضیح اور تفصیل کے لئے وسائل الشیعہ، کتاب الصلوة، ابواب قبلہ کی طرف رجوع کریں )۔

آیات ۱۱۶ ،۱۱۷

۱۱۶ ۔( وَقَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَلْ لَهُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ کُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ )

۱۱۷ ۔( بدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَإِذَا قَضَی اٴَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُون )

ترجمہ

۱۱۶ ۔ (یہود، نصاری اور مشرکین) کہتے ہیں خدا کا بیٹا ہے، وہ تو پاک و منزہ ہے بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کاہے اور سب اس کے سامنے

سرنگوں ہے (سب اس کے بندے ہیں اور کوئی بھی اس کا فرزند نہیں )۔

۱۱۷ ۔ آسمانوں اور زمین کو وجود بخشنے والاوہی ہے اور جب کسی چیز کو وجود عطا کرنے کا فرمان جاری کرتاہے تو اس کیلئے کہتاہے ہوجا اور وہ فورا ہوجاتی ہے۔

یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین کی خرافات

یہودی، عیسائی اور مشرک سب یہ بیہودہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کا کوئی بیٹاہے۔

سورہ توبہ کی آیت ۳۰ میں ہے:

( َقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللهِ وَقَالَتْ النَّصَارَی الْمَسِیحُ ابْنُ اللهِ ذَلِکَ قَوْلُهُمْ بِاٴَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمْ اللهُ اٴَنَّی یُؤْفَکُون )

یہودی کہتے ہیں عزیر خدا کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ایسی بات ہے جو وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں جو گذشتہ کافروں کی گفتگو جیسی ہے۔ خدا انہیں قتل کرے، کیسے جھوٹ بولتے ہیں ۔

سورہ ی یونس آیہ ۶۸ میں بھی مشرکین کے بارے میں ہے،( قالوا اتخذ الله ولدا سبحنه هو الغنی )

وہ کہتے ہیں خدا کا بیٹا ہے وہ تو پاک و منزہ ہے۔اسی طرح قرآن کی دیگر بہت سی آیات میں بھی اس نار و انسبت کا ذکر موجود ہے۔

زیر نظر پہلی آیت اس بے ہودگی کے خلاف کہتی ہے: وہ کہتے ہیں خدا کا بیٹاہے، وہ تو ان ناروا نسبتوں سے پاک و منزہ ہے (و قالوا اتخذ ولدا سبحانہ)۔ خدا کو کیا ضرورت پڑگئی ہے کہ وہ اپنے لئے بیٹے کا انتخاب کرے۔ کیا وہ محتاج ہے، محدود ہے، اسے مدد کی ضرورت ہے یا اسے بقائے نسل کی احتیاج ہے جب کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کے لئے ہیں( بل له ما فی السموات و الارض ) اور سب کے سب اس کے سامنے سرنگوں ہیں (کل لہ قنتون)۔ وہ نہ صرف عالم ہستی کی موجودات کا مالک ہے بلکہ تمام انسانوں اور زمین کا موجد و خالق بھی وہی ہے (بدیع السموات و الارض)۔ حتی کہ پہلے کی کسی منصوبے کے بغیر اور کسی مادہ کی احتیاج کے بغیر ہے اس نے ان سب کو تخلیق کیاہے۔

اسے بیٹے کی کیا ضرورت ہے حالانکہ جب کسی چیز کے وجود کا حکم صادر فرماتاہے تو کہتاہے ہوجا اور وہ فورا ہوجاتی ہے( و اذا قضی امرا فانما یقول له کن فیکون ) ۔

عدم فرزند کے دلائل:

خدا کا بیٹا ہونا، بے شک ان لوگوں کے کمزور افکار کی پیداوار ہے جو تمام امور میں خدا کو اپنے محدود وجود پر قیاس کرتے ہیں ۔

مختلف دلائل کی بناء پر انسان بیٹے کا محتاج ہے۔ ایک طرف تو اس کی عمر محدود ہے اور بقائے نسل کے لئے بیٹا ضروری ہے۔ دوسری طرف اس کی قدرت محدود ہے۔ خصوصا بڑھاپے اور ناتوانی کے عالم میں اسے معاون و مددگار کی ضرورت ہے جو بیٹے کے ذریعے پوری ہوسکتی ہے تیسرا یہ کہ انسانی نفسیات میں محبت و انس کی خواہش کے پیش نظر ضروری ہے کہ کوئی اس کا مونس و مددگار ہو۔ یہ مقصد بھی اولاد کے ذریعے پورا ہوجاتاہے۔ واضح ہے کہ خدا کے ہاں ان میں سے کوئی بھی بات کچھ مفہوم نہیں رکھتی کیونکہ وہ تو عالم ہستی کو پیدا کرنے والا، تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا اور ازلی و ابدی ہے۔ علاوہ ازیں جسم صاحب اولاد ہونے کالا زمہ ہے اور خدا اس سے بھی منزہ ہے۔(۱)

____________________

۱۔سورہ انبیا ء آیہ ۲۶، تفسیر نمونہ میں اس ضمن میں مزید بحث کی گئی ہے۔

کن فیکون کی تفسیر:

یہ تعبیر قرآن کی بہت سی آیات مےں آئی ہے۔ ان میں سورہ آل عمران ۴۷ اور ۵۹ ، سورہ انعام آیہ ۷۳ ، سورہ نحل آیہ ۴۰ ، سورہ مریم آیہ ۳۵ اور سورہ یس آیہ ۸۲ و غیرہ شامل ہیں ۔

یہ جملہ خدا کے ارادہ تکوینی اور امر خلقت میں اس کی حاکمیت کے متعلق گفتگو کرتاہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ کن فیکون (ہوجا پس وہ فورا ہوجاتاہے) سے مراد یہ نہیں کہ خدا کوئی لفظی فرمان(ہوجا) کی صورت میں صادر فرماتا ہے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ جس وقت وہ کسی چیز کو وجود عطا فرمانے کا ارادہ کرتاہے وہ بڑی ہویا چھوٹی، پیچیدہ ہو یا سادہ، ایک اٹیم کے برابر ہو یا تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہوکسی علت کی احتیاج کے بغیر وہ ارادہ خود بخود عمل جامہ پہن لیتاہے۔ اس ارادہ اور موجود کی پیدائش کے در میان لحظے کا فاصلہ بھی نہیں ہوتا۔

اصولی طور پر کوئی زمانہ اس کے در میان نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے حرف فا (فیکون میں ) جو عموما تاخیر زمانی کے لئے آتاہے البتہ ایسی تاخیر جو اتصال کی قوام ہو یہاں صرف تاخیر رتبہ کے لحاظ سے ہے (جیسا کہ فلسفہ میں ثابت ہوچکا ہے کہ معلول اپنی علت سے رتبے کے لحاظ سے تو متایخر ہے لیکن زمانے کے لحاظ سے نہیں )۔

یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئیے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ ارادہ الہی آنی الوجود ہے(۱)

بلکہ مراد یہ ہے کہ جیسا وہ ارادہ کرے موجود اسی طرح وجود پاتاہے۔

یا مثلا۔ اگر وہ ارادہ کرے کہ بچہ شکم مادر کی جنین میں نو ماہ اور نودن میں اپنی تکمیل کے مرحلے طے کرے تو لحظہ بھر کی کمی بیشی کے بغیر یونہی انجام پذیر ہوگا اور اگر ارادہ کرے کہ تکامل کا یہ دور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے سے بھی کم مقدار میں پورا کرے تو یقینا ایسا ہوگا کیونکہ خلقت کے لئے انکا ارادہ علت تامہ ہے اور علت تامہ و معلول کے در میان کسی قسم کا فاصلہ نہیں ہوسکتا۔

____________________

۱ ۔یعنی ارادہ الہی سے کوئی چیز آنا فانا وجود میں آجاتی ہے۔ (مترجم)

کوئی چیز کیسے عدم سے وجود میں آتی ہے:

لفظ (بدیع) کا مادہ ہے (بدع) جس کا معنی ہے بغیر کسی سابقہ کے کسی چیز کا وجود میں آنا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آسمانوں اور زمین کو خدانے بغیر کسی مادے اور بغیر کسی پہلو نمونے کے وجود بخشاہے۔

اب یہ سوال ہوگا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتاہے کہ کوئی چیز عدم سے وجود میں آجائے جب کہ عدم وجود کی ضروت مندہے۔ لہذا یہ کیسے علت اور منشاء وجود ہوسکتاہے۔ کیا واقعا یہ باور کیاجاسکتاہے کہ نیستی سبب ہستی ہو۔ مسئلہ ابداع پر ماد یین کا یہ پرانا اعتراض ہے۔

اس کا جواب پیش خدمت ہے:

پہلے مرحلے میں تو یہ اعترا ض خود مادہ پرستوں پر بھی وارد ہوتاہے اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان کا اعتقاد ہے کہ یہ جہان قدیم اور ازلی ہے اور کوئی چیز بھی آج تک اس میں سے کم نہیں ہوئی اور یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی تغیرات آئے ہیں جن سے مادے کی یہ صورت بدلی ہے جو ہمیشہ بدلتی رہتی۔ گویا صورت بدلتی ہے نہ کہ مادہ۔

اب ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ مادے کی جو موجودہ صورت ہے یقینا وہ پہلے تو نہ تھی۔ اب یہ صورت کیسے وجود میں آئی کیا عدم سے وجود میں آئی۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر عدم کیسے وجود صورت کا منشاء ہوسکتاہے۔

مثلا ایک نقاش قلم اور سیاہی سے کاغذ پر ایک بہترین منظر بناتا ہے۔ مادہ پرست کہتے ہیں کہ اس کا جوہر اور سیاہی تو پہلے سے موجود تھی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ یہ منظر (صورت) جو پہلے موجود نہ تھا کس طرح وجود میں آیا۔ جو جواب وہ صورت کے عدم سے پیدا ہوجانے کے متعلق دیں گے وہی جواب ہم مادہ کے سلسلے میں دیں گے

دوسرے مرحلہ میں قابل توجہ امر یہ ہے کہ لفظ (سے) کی وجہ سے اشتباہ ہواہے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا مطلب ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میز لکڑی سے بنائی گئی ہے۔ جس میں میز بنانے کے لئے لکڑی کا پہلے موجود ہونا ضروری ہے تا کہ میز بن سکے جب کہ عالم نیستی سے ہستی میں آیاہے کا معنی یوں نہیں بلکہ اس کا معنی ہے کہ عالم پہلے موجود نہ تھا بعد میں وجود پذیر ہوا۔

فلسفے کی زباں میں یوں کہنا چاہئیے کہ ہر موجود ممکن (جو اپنی ذات سے وجود نہ رکھتا ہو) کو اپنی تشکیل کے لئے دو پہلو درکارہیں (ماہیت) اور ( وجود)۔

(ماہیت )ایک اعتباری معنی ہے کہ جس کی نسبت وجود و عدم کے ساتھ مساوی ہے۔ یہ الفاظ دیگر وہ قدر مشترک جو کسی چیز کے وجود اور عدم کو دیکھنے سے دستیاب ہو اس کا نام ماہیت ہے۔ مثلا یہ درخت پہلے نہیں تھا۔ اب وجود رکھتاہے۔ جو چیز وجود و عدم سے ثابت ہو وہ ماہیت ہے لہذا جب ہم کہتے ہیں کہ خدا عالم کو عدم سے وجود میں لایاہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عالم حالت عدم کے بعد حالت وجود میں آگیاہے دوسرے لفظوں میں ماہیت کو حالت عدم سے حالت وجود میں لایاگیاہے۔(۱)

____________________

۱ ۔ مزید وضاحت کے لئے کتاب آفریدگار جہان کی طرف رجوع کریں ۔

آیات ۱۱۸،۱۱۹

۱۱۸ ۔( وَقَالَ الَّذِینَ لاَیَعْلَمُونَ لَوْلاَیُکَلِّمُنَا اللهُ اٴَوْ تَاٴْتِینَا آیَةٌ کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَیَّنَّا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ )

۱۱۹ ۔إ( ِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا وَلاَتُسْاٴَلُ عَنْ اٴَصْحَابِ الْجَحِیم )

ترجمہ

۱۱۸ ۔ بے علم افراد کہتے ہیں خدا ہم سے بات کیوں نہیں کرتا اور کوئی آیت و نشانی خود ہم پر کیوں نہیں نازل کرتا۔ ان سے پہلے بھی لوگ ایسی باتیں کرتے تھے۔ ان کے دل اور افکار ایک دوسرے کے مشابہ ہیں ۔ لیکن ہم (کافی تعداد میں اپنی) آیات اور نشانیاں (حقیقت کے متلاشی) اہل یقین کے لئے روشن اور واضح کرچکے ہیں ۔

۱۱۹ ۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ (اہل دنیا کو اچھائیوں اور برائیوں کے مقابلے میں ) بشارت اور تہدید کے لئے بھیجا اور (اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بعد) تو اہل جہنم کی گمراہی پر جواب دہ نہیں ہے۔

خدا ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتا

مندرجہ بالا آیات کی ابتداء میں یہودیوں کی بہانہ سازیوں کی مناسبت سے ایک اور گروہ کی بہانہ سازیوں کا تذکرہ کیا گیاہے۔ ظاہرا یہ مشرکین عرب ہی کے بارے میں ہے

فرمایا: بے علم لوگ کہتے ہیں خدا ہمارے ساتھ باتیں کیوں نہیں کرتا اور کیوں آیت اور نشانی خود ہم پر نازل نہیں ہوتی( و قال الذین لا یعلمون لولا یکلمنا الله او تاتینا ایة ) ۔

در اصل یہ لوگ جنہیں قرآن (الذین لا یعلمون) کے عنوان سے یاد کررہاہے دو غیر منطقی خواہشیں رکھتے تھے:

۱ ۔ خدا ہم سے براہ راست بات کیوں نہیں کرتا۔

۲ ۔ کیوں آیت اور نشانی خود ہم پر نازل نہیں ہوتی۔

غرور، ہٹ دھرمی اور خود پسند ہی پر مبنی ان باتوں کے جواب میں قرآن کہتاہے: ان سے پہلے بھی لوگ اس قسم کی باتیں کرتے تھے، ان کے دل اور افکار ایک دوسرے کے مثابہ ہیں لیکن جو حقیقت کے متلاشی اور اہل یقین ہیں ۔ ان کے لئے ہم نے (کافی مقدار میں ) آیات اور نشانیاں واضح کی ہیں( کَذَلِکَ قَالَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ قَدْ بَیَّنَّا الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ )

اگر واقعا ان کا مقصد حقیقت و واقعیت کو سمجھنا ہے تو یہی آیات جو پیغبر اکرم پر ہم نے نازل کی ہیں روشن نشانی ہیں آپ کے صدق کلام کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ ایک ایک شخص پربراہ راست اور مستقلا آیات نازل ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا بلا واسطہ مجھ سے باتیں کرے۔

ایسی ہی گفتگو سورہ مدثر آیہ ۵۲ میں بھی ہے:( بل یرید کل امری منهم ان یوتی صحفا منشرة )

ان میں سے ہر ایک یہ آرزو لئے بیٹھاہے کہ چند اوراق آیات اس پر نازل ہوں ۔

کیسی نامناسب خواہش ہے؟

اس کے علاوہ کہ اس کی ضرورت نہ تھی بلکہ ان آیات کے ذریعے جو آپ پر نازل ہوئیں پیغمبر اکرم کی صداقت کا اثبات سب لوگوں پر ممکن تھا، یہ خود پسند مشرک

ایک بنیادی نکتے سے بے خبر تھے اور وہ یہ کہ ہر شخص پر آیات و معجزات نازل نہیں ہوسکتے اس کے لئے خاص قسم کی شائستگی ، آمادگی کی پاکیزگی ضروری ہے۔

یہ بالکل ایسے ہے کہ شہر میں بچھے ہوئے سب بجلی کے تار (قوی ہوں یا بہت ہی کمزور) یہ آرزو کریں کہ وہی بجلی جو بہت زیادہ طاقتور ہے اور جو سب سے پہلے مضبوط تاروں میں منتقل ہوئی ان کی طرف منتقل ہوجائے۔ یقینا یہ توقع انتہائی غلط اور ناروا ہوگی۔ وہ اانجینیرجس نے ان تاروں کو مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے تیار کیاہے ان کی صلاحیت معین کی ہے ان میں سے بعض بجلی بننے والے مقام سے بلاواسطہ منسلک ہیں اور بعض بالواسطہ۔

بعد کی آیت کاروئے سخن پیغمبر کی طرف ہے جو بتاتی ہے کہ خواہ مخواہ کی معجز ہ طلبیوں اور دیگر بہانہ سازیوں کے سلسلے میں آپ کی ذمہ داری کیاہے۔ فرمایا: ہم نے تجھے حق کے ساتھ (دنیا کے لوگوں کو) بشارت دینے اور ڈرانے کے لئے بھیجاہے( إِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیرًا وَنَذِیرًا ) ۔ تمہاری ذمہ داری ہے ہمارے احکام تمام لوگوں کے سامنے بیان کرنا ان کے سامنے معجزات پیش کرنا اور عقل و منطق سے حقائق واضح کرنا۔ اس دعوت کے ذریعے نیک لوگوں کو شوق و رغبت دلاؤ اور بدکاروں کو ڈراؤ تمہارے ذمے فقط یہی ہے۔

یہ پیغام پہنچائے جانے کے بعد اگر اب ان میں سے کوئی گروہ ایمان نہ لائے تو تم اہل جہنم کی گمراہی کے ذمے دار نہیں ہو( و لا تسئل عن اصحاب الجحیم ) ۔

ان کے دل ایک جیسے ہیں :

مندرجہ بالا آیات میں قرآن کہتاہے کہ بہانہ سازیاں اور حیلہ گریاں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پہلی کجرو ، قومیں بھی یہی کچھ کرتی رہی ہیں گویا ان کے دل بھی ان کے دلوں جیسے ہیں ۔ یہ تعبیر اس نکتے کی طرف بھی اشارہ ہے کہ زمانہ گذرنے کا اور انبیاء کی تعلیمات کا یہ اثر تو ہونا چاہئیے کہ آنے والی نسلیں آگاہی اور علم کی زیادہ حصہ دار ہوں اور بہانہ سازیاں اور بے بنیاد باتیں جو انتہائی جہالت و نادانی کی نشانی ہیں انہیں کنارے لگادیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان لوگوں نے اس تکاملی پروگرام سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا اور اسی طرح کی ڈبھلی بجارہے ہیں ۔

گویا ان سے ان کا ہزاروں سالہ تعلق ہے اور زمانہ بیت جانے سے ان کے افکار و نظریات میں ذراسی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی۔

خوش خبری دینا اور ڈرانا۔ دواہم تربیتی اصول:

خوش خبری دینا اور ڈرانا دوسرے لفظوں میں تشویق و تہدید تمام تربیتی اور معاشرتی پروگراموں کی بنیاد ہیں ۔ اچھے کام کی انجام دہی پر جزا کی رغبت اور برے کام کی انجام دہی پرسزا کا خوف ضروری ہے تا کہ راہ خیر پر چلنے کا زیادہ و لولہ و جذبہ پیدا ہو اور قدم برے راستے پر اٹھنے سے بازرہ سکیں ۔

صرف شوق دلانا فرد یا معاشرے کے تکامل کے لئے کافی نہیں کیونکہ انسان اگر صرف بشارتوں کا امید وار ہو اور ان پر مطمئن ہوجائے تو ممکن ہے کہ جرائم کی طرف ہاتھ بڑھائے چونکہ اسے اطمینان ہے اور کوئی خطرہ نہیں ہے۔

مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل عیسائی فدیہ کا عقیدہ رکھتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ ہے کہ عیسی ان کے گناہوں کا فدیہ ہو گئے ہیں ۔ ان کے رہبر کبھی انہیں جنت کی سند بیچتے ہیں اور کبھی خدا کی طرف سے ان کے گناہ بخش دیتے ہیں ۔ مسلم ہے کہ ایسے لوگ آسانی سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

قاموس کتاب مقدس میں ہے:

خدا نیز اشارہ ہے مسیح کے گراں بہا خون کے کفارہ کی طرف جب کہ ہم سب کے گناہ ان پر رکھ دیئے گئے اور ہمارے گناہوں کے ضمن میں انہوں نے اپنے آپ کو صلیب کے لئے پیش کردیا۔

یہ منطق اس تحریف شدہ مذہب کے پیرو کاروں کے لئے گناہوں میں جسارت و جرات کا سبب بنتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ جو سمجھتے ہیں کہ تشویق ہی انسان کے لئے (چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا) کافی ہے اور تنبیہ و تہدید اور سزا و عذاب کا ذکر بالکل ایک طرف رکھ دینا چاہئیے وہ بڑے اشتباہ کا شکار ہیں جیسا کہ وہ لوگ جو تربیت کی بنیاد صرف خوف و تہدید پر رکھتے ہیں اور تشویق کے پہلوؤں سے غافل ہیں وہ بھی گمراہ اور بے خبر ہیں ۔

یہ دونوں گروہ انسان کو پہچاننے میں اشتباہ اور غلطی کرگئے ہیں وہ متوجہ نہیں کہ انسان خوف اور امید، ذات کی محبت، زندگی سے عشق اور فنا و نابودی سے نفرت کا مجموعہ ہے۔ وہ کشش منفعت اور دفع ضرر کا مرتکب ہے۔ وہ انسان جوان دونوں پہلووں کا حامل ہے کیسے ممکن ہے کہ اس کی تربیت کی بنیاد صرف ایک پہلو پر رکھی جائے۔

ان دونوں میں ایک توازن ضروری ہے۔ اگر تشویق و امید حدسے بڑھ جائے۔ تو جرا ت و غفلت کا باعث ہے اور اگر خوف و اندیشہ حدسے گذرجائے تو اس کا نتیجہ یاس و ناامیدی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیات قرآن میں نذیر و بشیر یا انذار و بشارت کا ایک ساتھ ذکر ہے بلکہ یہ بھی ملحوظ رکھا گیاہے کہ کبھی بشارت کو انذار پر مقدم رکھا گیاہے اور کبھی انذار کو بشارت پر زیر بحث آیت میں ، بشیرا و نذیرا ہے اور سورہ اعراف آیہ ۱۸۸ ہے:

( إِنْ اٴَنَا إِلاَّ نَذِیرٌ وَبَشِیرٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ )

میں ایمان لانے والے کے لئے نذیرا ور بشیرہوں ۔

البتہ اکثر آیات قرآن میں بشیر، بشارت یا مبشر کو مقدم رکھا گیاہے اور کم آیات میں نذیر مقدم ہے۔ ممکن ہے یہ اس لئے ہوکہ مجموعی طور پر رحمت خدا اس کے عذاب پر سبقت رکھتی ہے:یا من سبقت رحمته غضبه

اے وہ کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔

آیات ۱۲۰،۱۲۱

۱۲۰ ۔( وَلَنْ تَرْضَی عَنْکَ الْیَهُودُ وَلاَالنَّصَارَی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَی اللهِ هُوَ الْهُدَی وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهْوَائَهُمْ بَعْدَ الَّذِی جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنْ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیر )

۱۲۱ ۔( الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ اٴُوْلَئِکَ یُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ یَکْفُرْ بِهِ فَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْخَاسِرُونَ )

ترجمہ

۱۲۰ ۔ یہود و نصاری آپ سے کبھی راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ (ان کی غلط خواہشات کے سامنے طرح سرتسلیم خم نہ کریں اور) ان کے (تحریف شدہ) مذہب کی پیروی نہ کریں ۔ کہیے ہدایت کامل صرف خدا کی ہدایت ہے۔ اگر آگاہی کے بعد بھی ان کی ہوا و ہوس کی پیروی کی تو خدا کی طرف سے تمہارے لئے کوئی سرپرست و مددگار نہ ہوگا۔

۱۲۱ ۔ و ہ لوگ (یہود و نصاری) جنہیں ہم نے آسمانی کتاب دی ہے اور وہ اسے غور سے پڑھتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئیں گے اور جوان سے کفر اختیار کریں گے وہ خسارے میں ہیں ۔

شان نزول

پہلی آیت کی شان نزول کے بارے میں ابن عباس سے اس طرح منقول ہے:

مدینہ کے یہودیوں اور نجران کے عیسائیوں کا خیال تھا کہ قبلہ کے بارے میں پیغمبر اسلام ہمیشہ ان سے موافقت رکھیں گے جب خدا نے بیت المقدس کے بجائے کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دیا۔ تو وہ پیغمبر اکرم سے مایوس ہوگئے (اس دوران شاید مسلمانوں میں سے بعض لوگ بھی معترض تھے کہ ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جو یہود و نصاری کی رنجش کا باعث ہو( ۱) ۔

اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔ جس میں مسلمانوں کو بتایاگیا کہ قبلہ کی ہم آہنگی کا معاملہ ہو یا کوئی اور مسئلہ یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ گروہ تم سے کبھی راضی نہیں ہوگا یہاں تک کے تم ان کے مذہب کو پورے طور پر تسلیم نہ کرلو۔

بعض دوسرے لوگوں نے نقل کیاہے کہ پیغمبر اکرم چاہتے تھے کہ ان دونوں گروہوں کو راضی کیاجائے شاید یہ اسلام قبول کرلیں اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ آپ یہ بات ذہن سے نکال دیں کیونکہ وہ کسی قیمت پر آپ سے راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔(۱)

دوسری آےت کی شان نزول میں مختلف روایات ہیں ۔ مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ آیات ان افراد کے بارے میں ہے جو جناب جعفر ابن ابوطالب کے ساتھ حبشہ سے آئے تھے اور وہ لوگ وہاں جاکر جناب جعفر سے مل گئے تھے۔ ان کی تعداد چالیس تھی۔ بتیس افراد حبشہ سے تھے اور آٹھ افراد شام کے راہب تھے جن میں مشہور راہب بحیرا بھی شامل تھا۔

بعض کہتے ہیں کہ یہودیوں میں سے چند افراد کے لئے یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ مثلا عبد اللہ بن سلام، سعید بن عمر و اور تمام بن یہودا و غیرہ جنہوں نے اسلام قبول کیاتھا۔(۳)

____________________

۱ تفسیر ابو الفتوح رازی اور تفسیر فخر رازی (کچھ فرق کے ساتھ)

۲! تفسیر ابو الفتوح اور مجمع البیان زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۳ مجمع البیان ۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔