تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78112
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78112 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

خدا کی دیگر صفات بسم اللہ میں کیوں مذکور نہیں ؟

یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کی تمام سورتیں (سوائے سورہ برات کے جس کی وجہ بیان ہوچکی ہے)بسم اللہ سے شروع ہوتی ہیں اوربسم اللہ میں مخصوص نام ”اللہ“ کے بعد صرف صفت رحمانیت کا ذکر ہے اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں پر باقی صفات کا ذکر کیوں نہیں ۔

اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ کریں تو اس سوال کاجواب واضح ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ہر کام کی ابتداء میں ضروری ہے کہ ایسی صفت سے مدد لی جس کے آثار تمام جہان پر سایہ فگن ہوں ، جو تمام موجودات کا احاطہ کئے ہو اورعالم بحران میں مصیبت زدوں کونجات بخشنے والی ہو۔ مناسب ہے کہ اس حقیقت کوقرآن کی زبان سے سنا جائے۔ ارشاد الہی ہے :( و رحمتی وسعت کل شئی ) میری رحمت تمام چیزوں پر محیط ہے (اعراف ، ۱۵۶)

ایک اور جگہ ہے حاملان عرش کی ایک دعاء خدا وند کریم نے یوں بیان فرمایا ہے :( ربنا وسعت کل شئی رحمة ) پروردگار! تو نے اپنا دامن رحمت ہر چیز تک پھیلا رکھا ہے (المومن، ۷) ۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام نہایت سخت اور طاقت فرسا حوادث اور خطرناک دشمنوں کے چنگل سے نجات کے لئے رحمت خدا کے دامن میں پناہ لیتے ہیں قوم موسی فرعونیوں کے ظلم سے نجات کے لئے پکارتی ہے :( و نجنا برحمتک ) ۔ خدایا ہمیں (ظلم سے) نجات دلا اور اپنی رحمت (کا سایہ) عطا فرما۔ (یونس ، ۸۶) ۔

حضرت ہود (ع) اوران کے پیروکاروں کے سلسلے میں ارشاد ہے :( فانجیناه والذین معه برحمة منا ) ۔ ہود(ع) اور ان کے ہمراہیوں کو ہم نے اپنی رحمت کے وسیلے سے نجات دی (اعراف ، ۷۲) ۔

اصول یہ ہے جب ہم خداسے کوئی حاجت طلب کریں تو مناسب ہے کہ اسے ایسی صفات سے یاد کریں جو اس حاجت سے میل اور ربط رکھتی ہوں ۔ مثلا حضرت عیسی مائدہ آسمانی (مخصوص غذا) طلب کرتے ہیں تو کہتے ہیں :( اللهم ربنا انزل علینا مائدة من السماء و ارزقنا و انت خیر الرازقین ) ۔

بار الہا ! ہم پر آسمان سے مائدہ نازل فرما اورہمیں روزی عطا فرما اور توبہترین روزی رساں ہے۔(مائدہ، ۱۱۴) ۔

خدا کے عظیم پیغمبر حضرت نوح(ع) بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں ۔ وہ جب ایک مناسب جگہ کشتی سے اترنا چاہتے ہیں تو یوں دعا کرتے ہیں :

( رب انزلنی منزلا مبارکا و انت خیرالمنزلین ) ۔ پروردگار ! ہمیں منزل مبارک پر اتارکہ تو بہترین اتارنے والا ہے (مومنین، ۲۹) ۔

حضرت زکریا (ع) خدا سے ایسے فرزند کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان کاجانشین و وارث ہو اس کی خیر الوارثین سے توصیف کرتے ہیں :

( رب لا تذرنی فردا و انت خیر الوارثین ) ۔ خداوند ! تنہا نہ چھوڑ تو توبہترین وارث ہے (انبیاء ، ۸۹) ۔

کسی کام کو شروع کرتے وقت جب خدا کے نام سے شروع کریں تو خدا کی وسیع رحمت کے دامن سے وابستگی ضروری ہے ایسی رحمت جو عام بھی ہو اور خاص بھی۔ کاموں کی پیش رفت او رمشکلات میں کامیابی کے لئے کیا ان صفات سے بہتر کوئی اور صفت ہے؟ قابل توجہ امر یہ ہے کہ و ہ توانائی جو قوت جاذبہ کی طرح عمومیت کی حامل ہے جو دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتی ہے وہ یہی صفت رحمت ہے لہذا مخلوق کااپنے خالق سے رشتہ استوار کرنے کے لئے بھی اسی صفت رحمت سے استفادہ کرنا چاہئے۔ سچے مومن اپنے کاموں کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر تمام جگہوں سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنےدل کو صرف خدا سے وابستہ کرتے ہیں اور اسی سے مدد و نصرت طلب کرتے ہیں وہ خدا جس کی رحمت سب پر چھائی ہوئی ہے اور کوئی موجود ایسا نہیں جو اس سے بہرہ ور نہ ہو۔

بسم اللہ سے واضح طور پر یہ درس حاصل کیا جا سکتا ہے کہ خدا وند عالم کے ہر کام کی بنیاد رحمت پر ہے اور بدلہ یا سزا تو استثنائی صورت ہے جب تک قطعی عوامل پیدا نہ ہوں سزا متحقق نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں : ۔ اے وہ خدا کہ جس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت لے گئی ہے(۱) ۔

انسان کو چاہئے کہ وہ زندگی کے پروگرام پر یوں عمل پیرا ہو کہ ہر کام کی بنیاد رحمت و محبت کو قرار دے اور سختی و درشتی کو فقط بوقت ضرورت اختیار کرے۔ قرآن مجید کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۱۱۳ کی ابتداء رحمت سے ہوتی ہے اور فقط ایک سورہ توبہ ہے جس کا آغاز بسم اللہ کی بجائے اعلان جنگ اور سختی سے ہوتا ہے۔

____________________

۱۔ دعائے جوشن کبیر۔

۲ ۔( الحمد لله رب العالمین )

حمد وثنا اس خدا کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار و مالک ہے

سارا جہاں اس کی رحمت میں ڈوبا ہو ا ہے۔

بسم اللہ جو سورت کی ابتداء ہے اس کے بعد بندوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عالم وجود کے عظیم مبداء اور اس کی غیر متناہی نعمتوں کو یاد کریں ۔ وہ بے شمار نعمتیں جنہوں نے ہمارے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ پروردگار عالم کی معرفت کی طرف راہنمائی کرتی ہیں ۔ بلکہ اس راستے کا سبب ہی یہی ہے کیونکہ کسی انسان کو جب کوئی نعمت حاصل ہوتی ہے تو وہ فورا چاہتا ہے کہ اس نعمت کے بخشنے والے کو پہچانے اور فرمان فطرت کے مطابق اس کی سپاس گزاری کے لئے کھڑا ہو اور اس کے شکریے کا حق ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء علم کلام (عقاید) اس علم کی پہلی بحث میں جب گفتگو معرفت خدا کی علت و سبب کے متعلق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ فطری و عقلی حکم کے مطابق معرفت خدا اس لئے واجب ہے چونکہ محسن کے احسان کا شکریہ واجب ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ معرفت کی رہنمائی اس کی نعمتوں سے حاصل ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ (مبداء) خدا کو پہچاننے کا بہترین اور جامع ترین راستہ اسرار آفرینش و خلقت کا مطالعہ کرنا ہے ان میں خاص طور پر ان نعمتوں کا وجود ہے جو نوع انسانی کی زندگی کو ایک دوسرے سے مربوط کرتی ہیں ۔ ان دو وجوہ کی بناء پر سورہ فاتحہ کتاب( ”الحمد لله رب العالمین ) “ سے شروع ہوتی ہے، اس جملے کی گہرائی اورعظمت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ حمد، مدح اور شکر کے درمیان فرق اور اس کے نتائج کی طرف توجہ کی جائے۔

حمد : نیک اختیاری کام یا نیک صفت کی تعریف کو عربی زبان میں حمد کہتے ہیں یعنی جب کوئی سوچ سمجھ کر کوئی اچھا کام انجام دے یا کسی اچھی صفت کو انتخاب کرے جو نیک اختیاری اعمال کاسر چشمہ ہو تو اس پر کی گئی تعریف و توصیف کو حمد و ستائش کہتے ہیں ۔

مدح : مدح کا معنی ہے ہر قسم کی تعریف کرنا چاہے وہ کسی اختیاری کام کے مقابلے میں ہو یا غیر اختیاری کام کے مثلا اگر ہم کسی قیمتی موتی کی تعریف کریں تو عرب اسے مدح کہیں گے۔

دوسرے لفظوں میں مدح کا مفہوم عام ہے جب کہ حمد کا مفہوم خاص ہے۔

شکر : شکر کا مفہوم حمد اور مدح دونوں سے زیادہ محدود ہے ۔ شکر فقط انعام و احسان کے مقابلے میں تعریف کو کہتے ہیں انعام و احسان بھی وہ جو کسی دوسرے سے اس کی رضا و رغبت سے ہم تک پہنچے(۱) ۔

اب اگر ہم اس نکتے کی طرف توجہ کریں کہ اصطلاحی مفہوم میں ”الحمد“ کا الف اور لام جنس ہے اور یہاں عمومیت کا معنی دیتا ہے تو نتیجہ نکلے گا کہ ہر قسم کی حمد و ثنا مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا مالک و پروردگار ہے یہاں تک کہ جو انسان بھی خیر و برکت کا سرچشمہ ہے، وہ پیغمبر او رخدائی راہنما نور ہدایت سے دلوں کو منور کرتا ہے اور درس دیتا ہے ، جو سخی بھی سخاوت کرتا ہے اور جو کوئی طبیب جان لیوا زخم پر مرہم پٹی لگاتا ہے ان کی تعریف کا مبداء بھی خدا کی تعریف ہے اور ان کی ثنا در اصل اسی کی ثناء ہے بلکہ اگر خورشید نور افشانی کرتا ہے، بادل بارش برساتا ہے اور زمین اپنی برکتیں ہمیں دیتی ہے تو یہ سب کچھ بھی اس کی جانب سے ہے لہذا تمام تعریفوں کی بازگشت اسی ذات با برکات کی طرف ہے دوسرے لفظوں میں ”الحمد للہ رب العالمین“ ، توحید ذات، توحید صفات اور توحید افعال کی طرف اشارہ ہے (اس بات پر خصوص غور کیجئے)۔

یہاں اللہ کی توصیف”رب العالمین“ سے کی گئی ہے اصولی طور پر یہ مدعی کے ساتھ دلیل پیش کی گئی ہے۔ گویا کوئی سوال کر رہا ہو کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے کیوں مخصوص ہیں تو جواب دیا جارہا ہے کہ چونکہ وہ رب العالمین ہے یعنی تمام جہانوں میں رہنے والوں کا پروردگار ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے : الذی احسن کل شئی خلقہ ۔ یعنی خدا وہ ہے جس نے ہر چیز کی خلقت کو بہترین صورت میں انجام دیا (سجدہ، ۷) ۔

نیز فرمایا :( وما من دابة فی الارض الا علی الله رزقها ) ۔ زمین میں چلنے والے ہر کسی کی روزی خدا کے ذمے ہے (ہود، ۶) ۔

کلمہ حمد سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ خدا وند عالم نے یہ تمام عطیات اور نیکیاں اپنے ارادہ و اختیار سے ایجاد کی ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے نقطہ نظر کے خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ خدا بھی سورج کی طرح ایک مبداء مجبور فیض بخش ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حمد صرف ابتدائے کار میں ضروری نہیں بلکہ اختتام کار پر بھی لازم ہے جیسا کہ قرآن ہمیں تعلیم دیتا ہے۔

اہل بہشت کے بارے میں ہے۔( دعواهم فیها سبحانک اللهم و تحیتهم فیها سلام و آخر دعواهم ان الحمد لله رب العالمین ) ۔

پہلے تو وہ کہیں گے کہ اللہ تو ہر عیب و نقص سے منزہ ہے، ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت سلام کہیں گے او رہر بات کے خاتمے پر کہیں گے( ”الحمد لله رب العالمین“ ) (سورہ یونس ، ۱۰) ۔

کلمہ ”رب “ کے اصلی معنی ہیں کسی چیز کا مالک یا صاحب جو اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہو۔ کلمہ ”ربیبہ“ کسی شخص کی بیوی کی اس بیٹی کو کہتے ہیں جو اس کے کسی پہلے شوہر سے ہو، لڑکی اگر چہ دوسرے شوہر سے ہوتی ہے لیکن منہ بولے باپ کی نگرانی میں پرورش پاتی ہے۔

لفظ ”رب“ مطلق اور اکیلا تو صرف خدا کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اگر غیر خدا کے لئے استعمال ہو تو ضروری ہے کہ اضافت بھی ساتھ ہو مثلا ہم کہتے ہیں رب الدار (صاحب خانہ) یا رب السفینة (کشتی والا)( ۲) ۔

تفسیر مجمع البیان میں ایک اور معنی بھی ہیں : بڑا شخص جس کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہو۔ بعید نہیں کے دونوں معانی کی بازگشت ایک ہی اصل کی طرف ہو( ۳) ۔

لفظ ”عالمین“ عالم کی جمع ہے اور عالم کے معنی ہیں مختلف موجودات کا وہ مجموعہ جو مشترکہ صفات کا حامل ہو یاجن کا زمان و مکان مشترک ہو، مثلا ہم کہتے ہیں عالم انسان، عالم حیوان یا عالم گیاہ یا پھر ہم کہتے ہیں عالم مشرق، عالم مغرب، عالم امروز یا عالم دیروز۔ لہذا عالم اکیلا جمعیت کا معنی رکھتا ہے اورجب عالمین کی شکل میں جمع کا صیغہ ہو تو پھر اس سے اس جہان کے تمام مجموعوں کی طرف اشارہ ہوگا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ” ی اور ن“ والی جمع عموما ذی العقول کے لئے آتی ہے جب کہ اس جہان کے سب عالم تو صاحب عقل نہیں ہیں اسی لئے بعض مفسرین یہاں لفظ عالمین سے صاحبان عقل کے گروہوں اور مجموعوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ مثلا فرشتے، انسان اورجن۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ جمع تغلیبی ہو(جس کا مقصد مختلف صفات کے حامل مجموعے کو بلند تر صنف کی صفت سے متصف کیا جانا ہے)۔

صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں ہمارے جد امام صادق(ان پر اللہ کا رضوان ہو) سے منقول ہے کہ عالمین سے مراد صرف انسان ہیں ۔ مزید لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بھی عالمین اسی معنی کے لئے آیا ہے جیسا کہ لیکون للعالمین نذیرا۔ یعنی خدا وند عالم نے قرآن اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ عالمین کو ڈرائے۔ (فرقان، ۱) ۔

لیکن اگر عالمین کے موارد استعمال قرآن میں دیکھے جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر چہ بہت سے مقامات پر لفظ عالمین انسانوں کے معنی میں آیا ہے تاہم بعض موارد میں اس سے وسیع تر مفہوم کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جہاں اس سے انسانوں کے علاوہ دیگر موجودات بھی مراد ہیں ۔ مثلا :فلله الحمد رب السموات و رب الارض رب العالمین ۔تعریف و ستائش مخصوص ہے اس خدا کے لئے جو آسمانوں اور زمین کا مالک و پروردگار ہے، جو مالک و پروردگار ہے عالمین کا۔ (الجاثیہ، ۳۶) ۔ایک اور مقام پر ارشاد ہے :( قال فرعون و مارب العالمین قال رب السموات والارض و ما بینهما ) ۔

فرعون نے کہا عالمین کا پروردگار کون ہے۔ موسی نے جواب دیا آسمانوں ، زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان کا پروردگار۔ (شعراء، ۲۴ ، ۲۳) ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک روایت میں جو شیخ صدوق نے عیون الاخبار میں حضرت علی(ع) سے نقل کی ہے اس میں ہے کہ امام نے الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا :رب العالمین هم الجماعات من کل مخلوق من الجمادات والحیوانات ۔رب العالمین سے مراد تمام مخلوقات کا مجموعہ ہے چاہے وہ بے جان ہوں یا جاندار( ۴) ۔

یہاں یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہئے کہ شاید ان روایات میں کوئی تضاد ہے کیونکہ لفظ عالمین کا مفہوم اگر چہ وسیع ہے لیکن تمام موجودات عالم کا سہرا مہرہ انسان ہے لہذا بعض اوقات اس پر انگشت رکھ دی جاتی ہے اور باقی کائنات کو اس کا تابع اور اس کے زیر سایہ سمجھا جاتا ہے اس لئے اگر امام سجاد(ع) کی روایت میں اس کی تفسیر انسان کی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مجموعہ کائنات کا اصلی ہدف و مقصد انسان ہی ہے۔یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض نے عالم کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے عالم کبیر اور عالم صغیر۔ عالم صغیر سے ان کی مراد انسان کا وجود ہے کیونکہ ایک انسان کا وجود مختلف توانائیوں اور قوی کا مجموعہ ہے اور اس بڑے عالم پر حاکم ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ انسان تمام کائنات میں ایک نمونہ اور ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ہم نے عالم سے یہ جو وسیع مفہوم مراد لیا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ لفظ عالمین جملہ الحمد للہ کے بعد آیا ہے ۔ اس جملہ میں تمام تعریف و ستائش کو خدا کے ساتھ مختص قرار دیاگیا ہے اس کے بعد رب العالمین کو بطور دلیل ذکر کیا گیا ہے گویا ہم کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں مخصوص ہیں خدا کے لئے کیونکہ ہر کمال، ہر نعمت اور ہر بخشش جو عالم میں وجود رکھتی ہے اس کا مالک و صاحب اور پروردگار وہی ہے۔

____________________

۱۔ البتہ ایک جہت سے شکر میں عمومیت بھی کیونکہ شکریہ زبان و عمل دونوں سے ہوتا ہے۔ جب کہ حمد ومدح عموما فقط زبان سے ہوتی ہے۔

۲۔ قاموس اللغات، مفردات راغب، تفسیر مجمع البیان، تفسیر البیان۔

۳۔ یاد رہے کہ رب کا مادہ ”رب ب“ ہے نہ کہ ”رب“ یعنی یہ مضاعف ہے ناقص نہیں لیکن رب کے اصلی معنی میں پرورش اور تربیت ہے اسی لئے فارسی میں عموما اس کا ترجمہ پروردگار کرتے ہیں ۔

۴۔ تفسیر الثقلین، جلد ۱ ص ۱۷۔

۱ ۔ تمام ارباب انواع کی نفی :

تاریخ ادیان و مذاہب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحیح توحید سے منحرف لوگ ہمیشہ اس جہان کے لئے ارباب انواع کے قائل تھے۔ اس غلط فکر کی بنیاد یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق موجودات کی ہر نوع ایک مستقل رب نوع کی محتاج ہے جو اس نوع کی تربیت و رہبری کرتا ہے گویا وہ خدا کو ان انواع کی تربیت کے لئے کافی نہیں سمجھتے تھے یہاں تک کہ وہ عشق، عقل، تجارت اور جنگ جیسے امور کے لئے بھی رب نوعی کے قائل تھے۔ یونانی بارہ بڑے خداؤں کی عبادت کرتے تھے(جن میں سے ہر کوئی رب النوع تھا)۔ یونانیوں کے بقول وہ المپ کی چوٹی، بزم خدائی سجائے بیٹھے تھے ان میں سے ہر ایک انسان کی ایک صفت کا مظہر تھا(۱) _

ملک آشور کے پایہ تخت کلاہ میں لوگ پانی کے رب نوع، چاند کے رب نوع، سورج کے رب نوع اور زہرہ کے رب نوع کے قائل تھے۔ انہوں نے ہر ایک کیلئے الگ الگ نام رکھ رکھا تھا اور ان سب کے اوپر ماردوک کو رب الارباب سمجھتے تھے روم میں بھی بہت سے خدا مروج تھے۔ شرک تعدد خدا اور ارباب انواع کا بازار شاید وہاں سب سے زیادہ گرم تھا۔

اہل روم تمام خداؤں کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے : گھریلو خدا اور حکومتی خدا۔ خدایان حکومت سے لوگوں کو زیادہ لگاؤ نہ تھا (کیونکہ وہ ان کی حکومت سے خوش نہ تھے)۔ ان خداؤں کی تعداد بہت زیادہ تھی کیونکہ ہر خدا کی ایک خاص پوسٹ( post ) تھی اور وہ محدود معاملات میں دخیل ہوتا تھا۔عالم یہ تھا کہ گھر کے دروازے کا ایک مخصوص خدا تھا بلکہ ڈیوڑھی اور صحن خانہ کا بھی الگ الگ رب النوع تھا۔

ایک مورخ کے بقول اس میں تعجب کی بات نہیں کہ رومیوں کے ۳۰ ہزار خدا ہوں ۔ جیسا کہ ان کے ایک بزرگ نے کہا تھا کہ ہمارے ملک کے خداؤں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ گذر گاہوں اور محافل میں وہ افراد قوم سے زیادہ ہیں ۔ ان خداؤں میں سے زراعت، باورچی خانہ، غلہ خانہ، گھر، گیس، آگ، میوہ جات، دروازہ، درخت، تاک، جنگل، حریق، شہر روم کے بڑے دروازے اور قومی آتشکدہ کے رب نوع شمار کئے جاسکتے ہیں(۲)

خلاصہ یہ کہ گذشتہ زمانے میں انسان قسم قسم کے خرافات سے دست و گریباں تھا جیسا کہ اب بھی اس زمانے کی یادگار بعض خرافات باقی رہ گئے ہیں ۔

نزول قرآن کے زمانے میں بھی بہت سے بتوں کی پوجا اور تعظیم کی جاتی تھی اور شاید وہ سب یا ان میں سے بعض پہلے ارباب انواع کے جانشین بھی ہوں ۔

علاوہ از ایں بعض اوقات تو خود انسان کو بھی عملی طور پر رب قرار دیاجاتا رہا ہے ۔ جیسا کہ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے جو احبار(علماء یہود) اور رہبانیوں (تارک الدنیا مرد اور عورتیں ) کو اپنا رب سمجھتے تھے قرآن کہتا ہے :اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله ۔

انہوں نے خدا کو چھوڑ کر علماء اور راہبوں کو خدا بنا رکھا تھا۔ (توبہ، ۳۱) ۔

بہرحال علاوہ اس کے کہ یہ خرافات انسان کو عقلی پستی کی طرف لے گئے تھے۔ تفرقہ پسندی، گروہ بندی، اور اختلافات کاسبب بھی تھے ۔ پیغمبران خدا بڑی پامردی سے ان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے یہاں تک کہ بسم اللہ کے بعد پہلی آیت جو قرآن میں آئی ہے وہ سی سلسلے سے تعلق رکھتی ہےالحمد لله رب العالمین یعنی تمام تعریفیں مخصوص ہیں اس خدا کے لئے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اس طرح قرآن نے تمام ارباب انواع پر خط تنیسیخ کھینچ دیا اور انہیں ان کی اصلی جگہ وادی عدم میں بھیج دیا اور ان کی جگہ توحید و یگانگی اور ہمبستگی و اتحاد کے پھول کھلائے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی ذمہ ہے کہ وہ روزانہ اپنی شب وروز کی زنمازوں میں کم از کم دس مرتبہ یہ جملہ پڑھیں اور اس اللہ کے سایہ رحمت میں پناہ لیں جو ایک اکیلا خدا ہے جو تمام موجودات کا مالک، رب، سرپرست اور پرورش کرنے والا ہے تاکہ کبھی توحید کو فراموش نہ کریں اور شرک کی پر پیچ راہوں میں سرگرداں نہ ہوں ۔

____________________

۱) اعلام القرآن، ص ۲۰۲۔

۲)تاریخ آلبر مالہ، ج۱ فصل ۴، تاریخ زم۔

۲ ۔ خدائی پرورش،

خدا شناسی کا راستہ : کلمہ ”رب“ در اصل مالک و صاحب کے معنی میں ہے لیکن ہر مالک و صاحب کے لئے نہیں بلکہ وہ جو تربیت و پرورش بھی اپنے ذمہ لے اسی لئے فارسی میں اس کا ترجمہ پروردگار کیاجاتاہے ۔

زندہ موجودات کی سیر تکامل اور بے جان موجودات کا تحول و تغیر نیز موجودات کی پرورش کے لئے حالات کی سازگاری و اہتمام جو ان میں نہاں ہے اس پر غور و فکر کرنا خدا شناسی کے راستوں میں سے ایک بہترین راستہ ہے۔

ہمارے اعضائے بدن میں ایک ہم آہنگی ہے جوزیادہ تر ہماری آگاہی کے بغیر قائم ہے یہ بھی ہماری بات پر ایک زندہ دلیل ہے۔ ہماری زندگی میں جب کوئی اہم حادثہ پیش آتا ہے اور ضروری ہوتا ہے کہ ہم پوری توانائی کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں تو ایک مختصر سے لحظے میں ہمارے تمام اعضاء و ارکان بدن کو ہم آہنگی کا حکم ملتا ہے تو فورادل دھڑکنے لگ جاتا ہے۔ سانس میں شدت پیدا ہوجاتی ہے، بدن کے تمام قوی مجتمع ہوجاتے ہیں ،غذا اور آکسیجن خون کے راستے فراوانی سے تمام اعضاء تک پہنچ جاتی ہے، اعصاب آمادہ کار، عضلات اور پٹھے زیادہ حرکت کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، انسان میں قوت تحمل بڑھ جاتی ہے۔ درد کااحساس کم ہوجاتا ہے، نیند آنکھوں سے اڑ جاتی ہے اور اعضاء میں سے تکان اور بھوک کا احساس بالکل ختم ہو جاتا ہے۔

کون ہے جو یہ عجیب و غریب ہم آہنگی اس حساس موقع پر اس تیزی کے ساتھ وجود انسانی کے تمام ذرات میں پیدا کردیتا ہے؟ کیایہ پرورش خدائے عالم و قادر کے سوا ممکن ہے۔ اس پرورش و تربیت کے سلسلے میں بہت سی قرآنی آیات ہیں جو انشاء اللہ اپنی اپنی جگہ پر آئیں گی اور ان میں سے ہر ایک معرفت خدا کی واضح دلیل ہے۔

۳ ۔( الرحمن الرحیم )

وہ خدا جو مہربان اور بخشنے والا ہے (اس کی عام وخاص رحمت نے سب کو گھیر رکھا ہے)۔

تفسیر

رحمان و رحیم کے معنی و مفہوم کی وسعت اور ان کا فرق ہم اللہ کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ۔اب تکرار کی ضرورت نہیں ۔

جس نکتے کا یہاں اضافہ ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ دونوں صفات جو اہم ترین اوصاف خدا وندی ہیں ہر روز کی نمازوں میں کم ازکم ۳۰ مرتبہ ذکر ہوتی ہیں (دو مرتبہ سورہ حمد میں اور ایک مرتبہ بعد والی سورت میں )اس طرح ۶۰ مرتبہ ہم خدا کی تعریف صفت رحمت کے ساتھ کرتے ہیں ۔در حقیقت یہ تمام انسانوں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندگی میں ہر چیز سے زیادہ اس اخلاق خدا وندی کے ساتھ متصف کریں ۔ علاوہ ازیں واقعیت کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ اگر ہم اپنے آپ کو خدا کا بندہ سمجھتے ہیں تو ایسانہ ہو کہ بے رحم مالک اپنے غلاموں سے جوسلکوک روا رکھتے ہیں ہماری نگاہ میں جچنے لگے۔

غلاموں کی تاریخ میں ہے کہ ان کے مالک ان سے عجیب قساوت و بے رحمی سے پیش آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی غلام ان کی خدمات کی انجام دہی میں معمول سی کوتاہی کرتا تو اسے سخت سزا سے دوچار ہونا پڑتا، اسے کوڑے مارے جاتے، بیڑیوں میں جکڑا جاتا، چکی سے باندھا جاتا، کان کنی پر لگایا جاتا، زیر زمین او رتاریک و ہولناک قید خانوں میں رکھا جاتا اور اس کا جرم زیادہ ہوتا تو سولی پر لٹکا دیا جاتا(۱) ۔

ایک اور جگہ رکھا ہے کہ محکوم غلاموں کو درندوں کے پنجروں میں پھینک دیا جاتا اگر وہ جان بچا لیتے تو دوسرے درندہ کے پنجرہ میں داخل کردیا جاتا۔یہ تو تھا نمونہ، مالکوں کے اپنے غلاموں سے سلوک کا لیکن خدا وند عالم بار بار قرآن میں انسانوں کو یہ فکر دیتا ہے کہ اگر میرے بندوں نے میرے قانون کو خلاف عمل کیا ہو اور وہ پشیمان ہوجائیں تو میں انہیں بخش دوں گا، انہیں معاف کردوں گا کہ میں رحیم اور مہربان ہوں ۔ ارشاد الہی ہے :

( قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله یغفرالذنوب جمعیا ) ۔

کہئے کہ اے میرے وہ بندوں جنہوں نے (قانون الہی سے سرکشی کرکے)خود اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ خدا تمام گناہوں سے در گذر فرمائےگا(یعنی توبہ کرو رحمت خدا کے بے پایاں دریا سے بہرہ مند ہوجاؤ)۔ (زمر، ۵۳) ۔لہذا( رب العالمین ) کے بعد( ”الرحمن الرحیم“ ) کو لانا اس نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم قدرت کے باوجود جو کہ ہماری عین ذات ہے، اپنے بندوں پر مہربانی اور لطف وکرم کرتے ہیں ۔ یہ بندہ نوازی اور لطف بندے کو خدا کا ایسا شیفتہ و فریفتہ بنا دیتا ہے کہ وہ انتہائی شغف سے کہتا ہے( ”الرحمن الرحیم“ ) ۔

یہاں سے انسان اس بات کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ خدا وند عالم کے اپنے بندوں سے اور مالکوں کے اپنے ماتحتوں سے سلوک میں کس قدر فرق ہے۔ خصوصا غلامی کے بد قسمت دور میں ۔

____________________

۱۔ تاریخ آلبر مالہ تاریخ رم جلد ۱ ص۱۵۔

۴ ۔( مالک یوم الدین )

وہ خدا جو روز جزا کا مالک ہے۔

قیامت پر ایمان دوسری اصل ہے۔

یہاں اسلام کی دوسری اہم اصل یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اورفرمایا گیا ہے وہ خدا جوجزا کے دن کا مالک ہے( مالک یوم الدین ) اس طرح محور اور مبداء و معاد جوہر قسم کی اخلاقی اور معاشرتی اصلاح کی بنیاد ہے، وجود انسانی میں اس کی تکمیل ہوتی ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہاں قیامت خدا کی ملکیت سے تعبیر کی گئی ہے اور یہ بات اس دن کے لئے خدا کے انتہائی تسلط اور اشیاء و اشخاص پر اس کے نفوذکو مشخص کرتی ہے وہ دن کہ جب تمام انسان اس بڑے دربار میں حساب کے لئے حاضر ہوں گے۔ لوگ اپنے مالک حقیقی کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ اپنی تمام کہی ہوئی باتیں ، کیے ہوئے کام یہاں تک کہ سوچے ہوئے افکار کو اپنے موجود پائیں گے۔ حتی کہ سوئی کی نوک کے برابر بھی کوئی بات نابود نہ ہوگی۔اور فراموش نہ کی گئی ہوگی ۔ اب وہ انسان حاضر ہے جسے اپنے تمام اعمال و افعال کی جواب دہی کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھا نا ہوگا۔ نوبت یہ ہوگی کہ جن امور کو وہ خود بجا نہیں لایا بلکہ کسی طریقہ یا پروگرام کا بانی تھا اس میں بھی اسے اپنے حصے کی جواب دہی کا سامنا ہوگا۔

اس میں شک و شبہ نہیں کہ خدا وند عالم کی یہ مالکیت اس طرح سے اعتباری نہیں جس طرح اس دنیا میں چیزیں ہماری ملک ہیں ، کیونکہ ہماری مالکیت تو ایک قرار داد کی بناء پر ہے یا اعزازی و اسنادی ہے۔ دوسرے اسناد و اعزاز کے ساتھ یہ مالکیت ختم بھی ہوسکتی ہے لیکن جہان ہستی کے لئے خدا کی مالکیت حقیقی ہے اور موجودات کا خدا کے ساتھ ایک ربط ہے جوایک لحظہ کیلئے منقطع ہوجائے تو نابود ہوجائیں جیسے بجلی کے قمقموں کا رابطہ اپنے بجلی گھر سے ٹوٹ جائے تو اسی لمحہ روشنی ختم ہوجائے۔ دوسرے لفظوں میں اس کی مالکیت خالقیت اورربوبیت کا نتیجہ ہے وہ ذات جس نے موجودات کو خلق کیا، اپنی رحمت کے زیر نظر ان کی پرورش کی اور لمحہ بہ لمحہ انہیں فیض وجود ہستی بخشا وہی موجودات کا حقیقی مالک ہے۔

ایک حقیر سا نمونہ مالکیت حقیقی کا ہم اپنی ذات میں اپنے اعضاء بدن کے بارے میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ ہم آنکھ، کان، دل اور اپنے اعصاب کے مالک ہیں ، اس سے مراد اعتبار ی مالکیت نہیں بلکہ ایک قسم کی حقیقی مالکیت ہے جس کا سرچشمہ ربط، تعلق اور احاطہ ہے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا اس جہان کا مالک نہیں ؟ اگر ہے تو پھر کیوں ہم اسے مالک روز جزا کہتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب ایک نکتے کی طرف متوجہ ہونے سے واضح ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی مالکیت اگر چہ دونوں جہانوں پر محیط ہے لیکن اس مالکیت کا ظہور قیامت کے دن بہت زیادہ ہوگا۔ کیونکہ اس دن تمام مادی رشتے اوراعتباری ملکیتیں ختم ہوجائیں گی۔ اس دن کسی شخص کی کوئی چیز نہیں ہوکی۔ یہاں تک کہ شفاعت بھی فرمان خدا سے ہوگی۔

یوم لا تملک نفس لنفس شیئا والامر یومئذ للہ۔

وہ دن کے جب کوئی شخص کسی چیز کا مالک نہ ہوگا کہ اس کے ذریہ کسی کی مدد کرسکے اور تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہوں گے۔ (الانفطار، ۱۹) ۔

دوسرے الفاظ میں اس دنیا میں انسان دوسرے کی مدد کے لئے اٹھ کھڑا ہوتاہے۔ کبھی زبان سے کبھی مال سے، کبھی افرادی قوت سے اور کبھی مختلف کاموں سے دوسرے کو اپنی حمایت و مدد فراہم کرتا ہے لیکن اس دن ان امور میں سے کوئی چیز بھی نہ ہوگی اسی لئے تو جب لوگوں سے سوال ہوگا:

لمن الملک الیوم ؟ آج کس کی حکومت ہے، تو جواب آئے گا :لله الواحد القهار ۔

(صرف خدائے یگانہ، کامیاب و کامران کی حکمرانی ہے) المومن ، ۱۶ ۔قیامت کے دن پر اور اس بڑی عدالت گاہ پر ایمان کہ جس میں تمام چیزوں کا بڑی باریک بینی سے حساب لیا جائے گا انسان کو غلط اور ناشائستہ اعمال سے روکنے کے لئے بہت موثر ہے۔ نماز کے قبیح اور برے اعمال سے روکنے کی ایک وجہ یہی ہے کہ ایک تو یہ انسان کون مبداء کی یاد دلاتی ہے جو اس کے تمام کاموں سے واقف ہے اوردوسرے عدل خدا کی بڑی عدالت کو بھی یاد دلاتی ہے۔روز قیامت خدا کی مالکیت پر ایمان کا فائدہ یہ بھی ہے کہ قیامت کا اعتقاد رکھنے والا مشرکین او رمنکرین قیامت کے مقابل قرار پاتا ہے کیونکہ آیات قرآنی سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان ایک عمومی عقیدہ تھا یہاں تک کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان سے سوال ہوتا تھا کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے تو کہتے تھے ” خدا“۔ولئن سالتهم من خلق السموات والارض لیقولن الله ۔

اور اگر آپ ان سے دریافت کریں آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو ضرور کہیں گے ”اللہ“۔(لقمان، ۲۵) ۔

جب کہ وہ لوگ پیغمبر اکرم(ص) سے قیامت کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ایک عجیب و غریب انکار کرتے اور اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوتے۔ قرآن حکیم میں ہے :( وقال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) ۔

کافر کہتے ہیں کیا تمہیں ایسے شخص سے متعارف کرائیں جو یہ کہتا ہے کہ جب تم خاک ہو کر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو تمہارے ان منتشر اجزاء کو (سمیٹ کر) پھر سے زندہ کیا جائے گا۔ جانے وہ خدا پر جھوٹ باندھتا ہے یا دیوانہ ہے۔ (سبا ، ۸ ، ۷) ۔

ایک حدیث میں امام سجاد(ع) کے بارے میں ہے کہ آپ جب آیت مالک یوم الدین تک پہنچتے تو اس کا اس کرح سے تکرار کرتے کہ یوں لگتا جیسے آپ کی روح ، بدن سے پرواز کرجائےگی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” کان علی بن الحسین اذا قرء مالک یوم الدین یکودها حتی یکاد ان یموت“ (۱) ۔

باقی رہالفظ یوم الدین یہ تعبیر قرآن میں جہاں جہاں استعمال ہوئی اس سے مراد قیامت ہے جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ انفطار کی آیات ۱۷ ، ۱۸ اور ۱۹ میں وضاحت کے ساتھ اس مفہوم کی طرف اشارہ ہوا ہے(یہ تعبیر قرآن مجید میں دس سے زیادہ مرتبہ اسی معنی میں استعمال ہوئی ہے)۔اب رہی یہ گفتگو کہ اس دن کو یوم الدین کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن جزا کا دن ہے اوردین لغت میں جزا کے معنی میں ہے اور قیامت کا واضح ترین پروگرام جزا و سزا اور عوض و ثواب ہے۔ اس دن پردے ہٹ جائیں گے اور تمام اعمال کاتمام تر باریک تفصیلات کے ساتھ محاسبہ ہوگا اور ہر شخص اپنے اچھے برے اعمال کی جزا و سزا پالے گا۔ایک حدیث میں امام صادق (ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :” یوم الدین سے مراد روز حساب ہے“(۲)

اس روایت کے مطابق تو یہاں دین حساب کے ہم معنی ہے۔ شاید یہ تعبیر ذکر علت اور ارادہ معلول کے قبیل میں سے ہو کیونکہ ہمیشہ صاحب جزا کی تمہید اور مقدمہ ہوتا ہے۔

بعض مفسرین کا یہ نظریہ بھی ہے کہ قیامت کے دن کو یوم الدین اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ہر شخص اپنے دین و آئین کے مطابق جزا و سزا پائےگا لیکن پہلا معنی (حساب و جزا)زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

____________________

۱ ۔تفسیر نور الثقلین ج ۱ ص ۱۹۔۲۔ مجمع البیان ، ذیل آیہ مذکور۔