تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78100
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78100 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیت ۱۴۳

۱۴۳ ۔( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَاءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَهِیدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْهِ وَإِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً إِلاَّ عَلَی الَّذِینَ هَدَی اللهُ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَئُوفٌ رَحِیم )

ترجمہ

۱۴۳ ۔ (جیسے تمہارا قبلہ در میانی ہے) اسی طرح خود تمہیں بھی ہم نے ایک در میانی امت بنایاہے (جوہر لحاظ سے افراط و تفریط کے در میان حد اعتدال میں ہے) تا کہ لوگوں کے لئے تم ایک نمونے کی امت بن سکو اور پیغمبر تمہارے سامنے نمونہ ہواور ہم نے وہ قبلہ (بیت المقدس) کہ جس پر تم پہلے تھے فقط اس لئے قرار دیا تھا کہ وہ لوگ جو پیغمبر کی پیروی کرتے ہیں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے والوں سے ممتاز ہوجائیں اگر چہ یہ کام ان لوگوں کے سوا جنہیں خدانے ہدایت دی ہے دشوار تھا (یہ بھی جان لوکہ کہ تمہاری وہ نماز یں جو پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے ادا کی تھیں صحیح ہیں ) اور خدا ہرگز تمہارے ایمان (نماز) کو ضائع نہیں کرتا کیونکہ خدا لوگوں پر رحیم اور مہربان ہے۔

امت وسط

پہلے فرمایا: (جس طرح تمہارا قبلہ در میانی ہے)اس طرح تمہیں ہم نے در میانی امت قرار دیا ہے( و کذلک جعلنا کم امة وسطا ) ایسی امت جو کندرو ہونہ تندرو، افراط میں ہونہ تفریط میں بلکہ ایک نمونہ ہو۔

رہایہ سوال کہ مسلمانوں کا قبلہ کیسے در میانی قبلہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی تقریبا مشرق کی طرف کھڑے ہوتے ہیں ۔ کیونکہ زیادہ تر عیسائی قومیں مغربی ممالک میں رہتی ہیں اور حضرت عیسی کی جائے ولاد ت (بیت المقدس میں ہے اس لئے وہ مشرق کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہیں اس لحاظ سے مشرقی سمت کلی طور پر ان کا قبلہ شمار ہوتی ہے اور یہودی جو زیادہ تر شامات ، بابل اور دیگر ایسے علاقوں میں رہتے تھے کہ انہیں تقریبا مغرب کی طرف رخ کرنا پڑتاتھا اس لحاظ سے مغربی سمت ان کا قبلہ تھا لیکن اس وقت کے مسلمان جو مدینہ میں رہتے تھے ان کے لئے کعبہ جنوب کی سمت میں اور مشرق و مغرب کے در میان بنتاتھا جو ایک در میانی خط شمار ہوگیا۔

یہ مطالب در اصل لفظ کذلک سے اخذ کئے جاتے ہیں ۔ مفسرین نے اس کی دیگر تفاسیر بھی بیان کی ہیں جو بحث و تمحیص کے قابل ہیں ۔

بہرحال۔ قرآن چاہتاہے کہ اسلام کے تمام پروگراموں کے باہمی تعلق کا ذکر کرے اور وہ یوں کہ نہ صرف مسلمانوں کا قبلہ در میانی ہے بلکہ اس کے تمام پروگرام اس خوبی کے حامل ہیں ۔

اس کے بعد مزید کہتاہے: غرض یہ ہے کہ تم ایک ایسی امت جو گواہ (اور ایک نمونہ کی حامل ہو قرار پاؤ پیغمبر بھی ایک گواہ (اور ایک نمونہ)بن کر تمہارے سامنے موجود ہو (لتکونوا شہدآء علی الناس و علی الناس و یکون الرسول علیکم شہید)۔امت مسلمہ کا ساری دنیا کے لئے گواہ ہونا اور اسی طرح پیغمبر کا مسلمانوں پر گواہ ہونا یہ تعبیر ممکن ہے اسوہ اور نمونہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ گواہوں کا انتخاب ہمیشہ ان لوگوں میں سے کیاجاتاہے جو نمونہ ہوں یعنی ان عقائد، معارف اور تعلیمات کی وجہ سے کے تم حامل ہو ان کے ذریعے ایک ایسی امت بنو جو نمونہ ہو جیسے پیغمبر تمہارے در میان ایک نمونہ، ماڈل اور اسوہ ہیں ۔ یعنی تم اپنے عمل اور پروگرام کے ذریعے گواہی دیتے ہو کہ انسان دیندار بھی ہوسکتا ہے اور دنیا کے ساتھ بھی وابستہ رہ سکتاہے۔ انسان معاشرے کا ، فرد ہوتے ہوئے معنوی اور روحانی پہلوؤں کی مکمل حفاظت کرسکتا ہے اور دین و دنیا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ تم ان عقائد اور پروگراموں کے ذریعے گواہی دیتے ہو کہ دین و علم اور دنیا و آخرت نہ صرف یہ کہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث ہیں ۔

اس کے بعد قرآن تبدیلی قبلہ کی ایک اور رمز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے: ہم نے اس قبلہ (بیت المقدس) جس پر تم قبل ازیں تھے صرف اس لئے مقرر کیاتھا کہ پیغمبر کی پیروی کرنے والے جاہلیت کی طرف پلٹ جانے والوں سے ممتاز ہوجائیں( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْه ) ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ افراد جو آ پ کی پیروی کرتے ہیں بلکہ فرمایا: وہ لوگ جو رسول خدا کی پیروی کرتے ہیں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ تم رہبر اور فرستادہ خدا ہو اس لئے انہیں بغیر کسی قید و شرط کے تمہارے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہئیے۔ قبلہ کے سلسلے میں پیروی تو آسان سی بات ہے اگر اس سے بڑھ کر بھی کوئی حکم ملے تو اس میں چون و چرا کرنا شرک اور بت پرستی کے دور کے عادات و رسوم کے ترک نہ کئے جانے کی دلیل ہے۔

( مَّنْ یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْه ) ۔ اس کا مطلب ہے پاؤں کے پچھلے حصے پر پلٹ جانا۔ یہ رجعت پسندی اور پسماندگی کی طرف اشارہ ہے۔

مزید فرماتاہے: اگر چہ یہ کام ان لوگوں کے سوا جنہیں خدانے ہدایت کی تھی دشوار تھا( وَإِنْ کَانَتْ لَکَبِیرَةً إِلاَّ عَلَی الَّذِینَ هَدَی اللهُ )

واقعا جب تک خدائی ہدایت نہ ہو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی روح پیداہی نہیں ہوتی۔ یہ بات اہم ہے کہ تسلیم حقیقت اس کا نام ہے کہ ایسے احکام جاری ہوں تو کسی سنگینی و سختی کا احساس تک نہ ہو بلکہ چونکہ حکم اس کی طرف ہے لہذا شہد سے شیریں تر معلوم ہو۔

وسوسہ ڈالنے والے دشمن یا نادان دوست خیال کرتے تھے کہ ہوسکتاہے قبلہ بدل جانے سے پہلے اعمال باطل ہوجائیں اور اجر و ثواب بر باد ہوجائے اس کے لئے آیت کے لئے آیت کے آخر میں مزید کہتاہے: خدا ہرگز تمہارا ایمان (نماز) ضائع نہیں کرے گا۔ کیونکہ خداوند تعالی انسانوں کے لئے رحیم و مہربان ہے( وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ إِنَّ اللهَ بِالنَّاسِ لَرَئُوفٌ رَحِیم ) ۔

اس کے احکام طبیب کے نسخوں کی طرح ہیں ۔ ایک روز ایک نسخہ نجات بخش ہے اور دوسرے دن دوسرا۔ ہر ایک اپنی جگہ درست اور سعادت و تکامل کا ضامن

ہے لہذا قبلہ کی تبدیلی تمہاری گذشتہ یا آئندہ نمازوں کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہ بنے کیونکہ وہ سب کی سب صحیح تھیں اور صحیح ہیں ۔

قبلہ کی تبدیلی کے اسرار:

بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلہ کی تبدیلی ان سب کے لئے اعتراض کا موجب بنی جن کا گمان تھا کہ ہر حکم کو مستقل رہنا چاہئیے۔ وہ کہتے تھے اگر ہمارے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کی طرف نماز پڑھیں تو پہلے دن یہ حکم کیوں نہ دیاگیا اور اگر بیت المقدس مقدم ہے جو گذشتہ انبیاء کا بھی قبلہ شمار ہوتاہے تو پھر اسے کیوں بدل دیا گیا۔

دشمنوں کے ہاتھ بھی طعن زنی کا میدان آگیا۔ شاید وہ کہتے تھے کہ پہلے تو انبیاء ما سبق کے قبلہ کی طرف نمازپڑھتے تھے لیکن کامیابیوں کے بعد اس پر قبیلہ پرستی نے غلبہ کرلیا ہے لہذا اپنی قوم اور قبیلے کے قبلہ کی طرف پلٹ گیاہے۔ یا کہتے تھے کہ اس نے دھوکا دینے اور یہود و نصاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کے لئے پہلے بیت المقدس کو قبول کرلیا اور جب یہ بات کارگر نہ ہوسکی تو اب کعبہ کی طرف رخ کرلیاہے۔

واضح ہے کہ ایسے وسوسے اور وہ بھی ایسے معاشرے میں جہاں ابھی نور علم نہ پھیلا ہو اور جہاں شرک و بت پرستی کی رسمیں موجود ہوں کیسا تذ بذب و اضطراب پیدا کردیتے ہیں ۔ اسی لئے زیر نظر آیت میں قرآن صراحت سے کہتاہے کہ یہ مومنین اور مشرکین میں امتیاز پیدا کرنے والی ایک عظیم آزمائش تھی۔ خانہ کعبہ اس وقت مشرکین کے بتوں کا مرکز بنا ہو اتھا لہذا حکم دیاگیا کہ مسلمان وقتی طور پربیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ لیا کریں تا کہ اس طرح مشرکین سے اپنی صفیں الگ کرسکیں لیکن جب مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد اسلامی حکومت و ملت کی تشکیل ہوگئی اور مسلمانوں کی صفیں دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز ہوگئیں تواب یہ کیفیت برقرار رکھنا ضروری نہ رہا۔ لہذا اس وقت کعبہ کی طرف رخ کرلیا گیا جو قدیم ترین مرکز توحید اور انبیاء کا بہت پرانا مرکز تھا۔

ایسے میں ظاہر ہے کہ جو کعبہ کو اپنا خاندانی معنوی اور روحانی سرمایہ سمجھتے تھے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا ان کے لئے مشکل تھا اور اسی طرح بیت المقدس کے بعد کعبہ کی طرف پلٹنا لہذا اس میں مسلمانوں کی سخت آزمائش تھی تا کہ شرک کے جتنے آثار ان میں باقی رہ گئے تھے اس کٹھالی میں پڑکرجل جائیں اور ان کے گذشتہ شرک آلود رشتے ناتے ٹوٹ جائیں ۔

جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اصولی طور پر تو خدا کے لئے مکان نہیں ہے قبلہ تو صرف وحدت اور صفوں میں اتحاد کی ایک رمزہے اور اس کی تبدیلی کسی چیز کودگرگوں نہیں کرسکتی۔ اہم ترین امر تو خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرناہے اور تعصب اور ضد پرستی کے بتوں کو توڑناہے۔

امت اسلامی ایک در میانی امت ہے:

لغت میں وسط کا معنی ہے دو چیزوں کے در میان حد اوسط ۔ اس کا ایک اور معنی ہے جاذب نظر، خوبصورت ، عالی اور شریف۔ ظاہرا ان دونوں معانی کی ایک ہی حقیقت کی طرف بازگشت ہے کیونکہ شرافت، زیبائی اور عظمت عموما اسی چیز میں ہوتی ہے جو افراط و تفریط سے دور ہو اور مقام اعتدال پرہو۔

قرآن نے امت مسلمہ کے لئے اس مقام پر کیسی عمدہ تعبیر بیان کی ہے کہ اسے در میانی اور معتدل امت کا نام دیاہے۔

یہ امت معتدل ہے۔ عقیدہ کے لحاظ سے کہ راہ غلو اپناتی ہے نہ تقصیر و شرک کی راہ لیتی ہے، جبر کی طرفدار ہے نہ تفویض کی ، صفات الہی کے بارے میں تشبیہ کا عقیدہ رکھتی ہے نہ تعطیل کا۔ یہ امت معتدل ہے۔ معنوی و مادی قدروں کے لحاظ سے۔ نہ کلی طور پر دنیا ئے مادہ میں غرق ہے کہ معنویت اور روحانیت کو بھول جائے اور نہ ہی عالم معنویت و روحانیت میں ایسے ڈوبی ہوئی ہے کہ جہان مادہ سے بالکل بے خبر ہوجائے۔ یہ امت معتدل ہے۔ اور۔ یہودیوں کے اکثر گروہوں کی طرح نہیں کہ جو مادی اغراض کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ اور ۔ نہ عیسائی راہبروں کی طرح جو تارک دنیا ہی بنے رہتے ہیں ۔ یہ امت معتدل ہے علم و دانش کی نظر سے۔ اس طرح نہیں کہ اپنی معلومات پر جمود کا شکار ہوجائے اور دوسروں کے علوم کی پذیرائی نہ کرے اور نہ اس طرح احساس کمتری میں مبتلا ہے کہ ہر آواز کے پیچھے لگ جائے۔ یہ امت معتدل ہے۔ روابط اجتماعی کی نظر سے اس طرح سے اپنے گرد حصار بنا کر ساری دنیا سے الگ نہیں ہوجاتی اور نہ اپنی

اصالت و استقلال کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے کہ مشرق و مغرب کے فریب خوردہ لوگوں کی طرح ان اقوام ہی میں گم ہوجائے۔ یہ امت معتدل ہے۔ اخلاقی طور طریقوں میں ، عبادت و تفکر کے لحاظ سے۔ غرض یہ امت ہر جہت سے معتدل ہے۔

ایک حقیقی مسلمان صرف ایک جہت کا انسان نہیں ہوتا بلکہ مختلف جہات سے وہ کمال انسانیت کا نمونہ ہوتا ہے گویا۔ صاحب فکر، با ایمان، منصف مزاج، مجاہد، شجاع ، بہادر، مہربان، فعال اور غیر حریص ہوتاہے۔

حد وسط ایسی تعبیر ہے جو ایک طرف امت اسلامی کے گواہ ہونے کا اظہار کرتی ہے کیونکہ خط وسط پر موجود لوگ دائینں بائیں کے تمام منحرف خطوط کو جانتے ہیں اور دوسری طرف اس میں اس مفہوم کی علت و سبب بھی پوشیدہ ہے یعنی فرماتاہے اگر تم پوری دنیا کی مخلوق کے شاہد ہو تو اس کی دلیل تمہارا اعتدال اور امت وسط ہوناہے۔(۱)

____________________

۱ المنار۔ زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

وہ امت جوہر لحاظ سے نمونہ بن سکتی ہے:

وہ تمام چیزیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہیں کسی امت میں جمع ہوجائیں تو یقینا وہ حق و حقیقت کاہر اول دستہ بن جائے کیونکہ اس کے پروگرام حق کو باطل سے ممتاز کرنے کے لئے میزان و معیار ہوں گے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ کئی ایک روایات میں منقول ہے کہ اہل بیت نے فرمایا:

نحن الامة الوسطی و نحن شهدآء الله علی خلقه و حججه نی ارضهنحن الشهدآء علی الناسالینا یرجع الغالی و بنایر یرجع المقصر (۱)

ہم امت وسط ہیں ہم مخلوق پر شاہد الہی ہیں اور زمین پر اس کی حجت ہیں ہم ہیں لوگوں پر گواہ غلو کرنے والوں کو ہماری طرف پلٹنا چاہئیے اور تقصیر کرنے والوں کو چاہئیے کہ یہ راہ چھوڑ کر ہم سے آملیں ۔(۲)

جیسا کہ ہم بارہا کہہ چکے ہیں ایسی روایات آیت کے وسیع مفہوم کو محدود نہیں کرتیں بلکہ اس امت میں نمونہ و اسوہ کے اکمل مصادیق کا تعارف کراتی ہیں اور ایسے نمونوں کی نشاندہی کرتی ہیں جو پہلی صف میں موجود ہیں ۔

____________________

۱ ظاہرا یہاں یرجع کی بجائے ویلحق ہونا چاہئیے (مترجم)۔

۲ نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۴۔

لنعلم کی تفسیر:

لنعلم (تا کہ ہم جان لیں ) اور ایسے دیگر الفاظ جو قرآن میں خدا کے لئے استعمال ہوئے اس معنی میں نہیں کہ خدا ایک چیز پہلے سے نہیں جانتا اور اس کا عبد اس سے آشنا ہوتاہے بلکہ اس سے مراد اس چیز کا ثابت ہونا اور خارجی شکل میں ظاہر ہوناہے

اس کی توضیح یہ ہے کہ خداوند عالم اول سے تمام حوادث و موجودات سے واقف ہے اگر چہ وہ اشیاء تدریجا عالم وجود میں آتی ہیں لہذا ان حوادث و موجودات کا حدوث اس کے علم و دانش میں کسی قسم کی زیادتی کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ جس چیز کو پہلے سے جانتا تھا اس کے ذریعے سے وہ عملی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ ایک انجنیر ایک بلڈنگ کا نقشہ تیار کرتاہے اور کہتاہے کہ اس کا م کو اس مقصد کے لئے انجام دیتاہوں تا کہ جو نتیجہ میری نظر میں ہے اسے دیکھوں یعنی اپنے علمی نقشے کو عملی جامہ پہناؤں (البتہ خدا کا علم انسانی علم سے بہت مختلف ہے لیکن یہ مثال کسی حد تک مسئلے کو واضح کردیتی ہے)۔

( و ان کانت لکبیرة الا علی الذین هدی الله ) ۔۔۔۔ البتہ خلاف عادت قدم اٹھانا اور بے جا احساسات کے زیر اثر نہ آنا بہت مشکل ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو واقعا خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔

قبلہ کا فلسفہ:

یہاں ایک سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر بنیادی طور پر قبلہ کی طرف منہ کرنے کا مقصد کیاہے کیا خدا زمان و مکاں سے مافوق و بالاتر نہیں ۔ کیا قرآن خود نہیں کہتا:فاینما تولوا فثم وجه الله ۔جد ھر رخ کرو خدا کو پالوگے۔

اس بناء پر کسی ایک طرف رخ کرنے کا اثر و نتیجہ کیاہے اور وہ بھی اس اصرار سے کہ جہت قبلہ معلوم نہ ہوسکے تو چاروں طرف نماز پڑھنا چاہئیے تا کہ یہ یقین پیدا ہوجائے کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ۔۔۔۔۔

اسلام کے نزدیک اتحاد کی بہت اہمیت ہے اور اسلام ہر ایسے حکم کو واجب یا کم از کم مستحب قرار دیتاہے جو ہم آہنگی اور وحدت کا سبب بنے۔ اب اگر رخ قبلہ معین نہ ہوتا اور ہر شخص کسی ایک طرف منہ کرکے کھڑاہوجاتا تو عجیب نقشہ پیدا ہوجاتاہے۔

بعض مقامات کا پرستش و عبادت سے بہت پرانا تعلق ہے۔ اس لئے کتنی اچھی بات ہے کہ ایک تو وحدت کی حفاظت کے لئے اور دوسرا عبادت کے اصلی مراکز کی طرف زیادہ توجہ کے لئے ایک ہی نقطے کو قبلہ کے طور پر منتخب کرلیاجائے تا کہ تمام اہل جہان عبادت کے وقت اپنے انکار کو ایک ہی نقطے پر مرکز کرلیں اور اس طرح ایسے لا تعداد دائرے کھینچ دیں کہ جن کا ایک ہی مرکز عبادت ہوتا کہ وہ ان کی وحدت کی رمز بن جائے۔

آیت ۱۴۴

۱۴۴ ۔( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ اٴَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ

۱۴۴ ۔ ہم تمہارے چہرے کو دیکھتے ہیں جسے تم آسمان کی طرف پھیرتے ہو (اور قبلہ نما کے تعیین کے لئے فرمان خدا کے انتظار میں رہتے ہو)۔ اب تمہیں اس قبلہ کی طرف جس سے تم خوش ہو پھیر دیتے ہیں ۔اپنا چہرہ مسجد الحرام کی طرف کرلو اور تم (مسلمان) جہاں کہیں ہو اپنے چہرے اس کی طرف پھیردو۔ جنہیں آسمانی کتاب دی گئی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ حکم جو ان کے پروردگار کی طرف سے صادر ہواہے۔ درست ہے (کیونکہ وہ اپنی کتب میں پڑھ چکے ہیں کہ رسول اسلام دو قبلوں کی طر ف نماز پڑھیں گے) اور (وہ جو ایسی آیات مخفی رکھتے ہیں ) خداوند عالم ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے۔

جہاں کہیں ہو کعبہ کی طرف رخ کرلو

جیسا کہ پہلے اشارہ ہوچکاہے بیت المقدس مسلمانوں کا عارضی قبلہ تھا لہذا پیغمبر اسلام انتظار میں تھے کہ قبلہ کی تبدیل کا حکم صادر ہو خصوصا اس بناء پر کہ پیغمبر اکرم کے ورود مدینہ کے بعد یہودیوں نے اس بات کو اپنے لئے سند بنالیاتھا اور ہمیشہ مسلمانوں پر اعتراض کرتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نہیں اور ہم سے پہلے یہ قبلہ کے متعلق کچھ جانتے بھی نہ تھے ، اب ہمارے قبلہ کو قبول کرلیناہمارا مذہب قبول کرلینے کی دلیل ہے۔ یہ اور ایسے دیگر اعتراضات کرتے رہے۔

محل بحث آیت میں اس مسئلے کی طرف اشارہ ہواہے۔ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر کرتے ہوئے فرماتاہے: ہم دیکھتے ہیں کہ تم منتظر نگاہوں سے مرکز نزول وحی، آسمان کی طرف دیکھتے ہو( قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَاءِ ) اب ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے تم خوش ہو( فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قبلة ترضها ) ابھی سے اپنا چہرہ مسجد الحرام اور خانہ کعبہ کی طرف پھیر دو( وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ )

جیساکہ بیان کیا جاچکاہے کہ روایات کے مطابق قبلہ کی یہ تبدیلی نماز ظہر کی حالت میں واقع ہوئی جو ایک حساس اور اہم مقام ہے۔ وحی خدا کے قاصد نے پیغمبر کے بازوؤں کو پکڑ کر آپ کا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھیر دیا اور مسلمانوں نے بھی فورا اپنی صفوں کو پھیر لیا اور مسلمانوں نے بھی فورا اپنی صفوں کو پھیر لیا یہاں تک ایک روایت میں ہے کہ عورتوں نے اپنی جگہ مردوں کو اور مردوں نے اپنی جگہ عورتوں کودے دی (یاد رہے کہ بیت المقدس شمال کی جانب تھا جب کہ کعبہ جنوب میں واقع تھا)۔یہ امر قابل غورہے کہ گذشتہ کتب میں پیغمبر اسلام کی نشانیوں میں سے ایک قبلہ کی تبدیلی بھی تھی ۔ اہل کتاب نے چونکہ پڑھ رکھا تھا کہ وہ دو قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے (یصلی الی القبلتین ) اسی لئے مندرجہ بالا آیت میں اس حکم کے بعد مزید فرمایا: وہ کہ جنہیں آسمانی کتاب دی گئی جانتے ہیں کہ یہ حکم حق ہے اور پروردگار کی طرف سے ہے( وَإِنَّ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ اٴَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِم ) ۔

علاوہ ازیں یہ امر کہ پیغمبر اسلام اپنے گردو پیش کی عادات سے متاثر نہیں ہوئے اور کعبہ جو بتوں کا مرکز بنا ہواتھا اور اس علاقے کے تمام عربوں کے احترام کا مرکز تھا ابتداء میں نظر انداز کردیا اور ایک محدود اقلیت کا قبلہ اپنا لیا یہ خود ان کی دعوت کی صداقت اور ان کے پروگراموں کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل تھا۔

آیت کے آخر میں قرآن کہتاہے: خدا ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے( وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ بجائے اس کے کہ قبلہ کی تبدیلی کو آپ کی صداقت کی نشانی کے طور پر تسلیم کرلیتے جس کا ذکر گذشتہ کتب میں آچکاتھا، اسے چھپانے لگے اور الٹا پیغمبر اسلام کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا۔ خدا ان کے اعمال اور نیتوں سے خوب آگاہ ہے۔

نظم آیات:

زیر بحث آیت کے مفاہیم واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ پہلی آیت سے قبل نازل ہوئی لیکن قرآن میں اس کے بعد موجود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آیات قرآن، تاریخ نزول کے مطابق جمع نہیں کی گئیں ۔ بلکہ بعض اوقات کچھ ایسی مناسبتیں پیدا ہوتی ہیں کہ وہ آیت جو بعد میں نازل ہوئی تھی پہلے آجاتی ہے (ان دجو ہات میں مطالب کی اولیت اور اہمیت بھی شامل ہے)۔

پیغمبر اکرم کا کعبہ سے خاص لگاؤ:

مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اکرم خصوصیت سے چاہتے تھے کہ قبلہ، کعبہ کی طرف تبدیل ہوجائے اور آپ انتظار میں رہتے تھے کہ خدا کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی حکم نازل ہو۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ آنحضرت کو حضرت ابراہیم اور ان کے آثار سے عشق تھا۔ علاوہ ازیں کعبہ توحید قدیم ترین مرکز تھا۔ آپ جانتے تھے کہ بیت المقدس تو وقتی قبلہ ہے لیکن آپ کی خواہش تھی کہ حقیقی و آخری قبلہ جلد معین ہو جائے۔ آپ چونکہ حکم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کئے تھے، یہ تقاضا زبان تک نہ لاتے صرف منتظر نگاہیں آسمان کی طرف لگائے ہوئے تھے جس سے ظاہر ہو تا کہ آپ کو کعبہ سے کس قدر عشق اور لگاؤہے۔

آسمان شاید اس لئے کہاگیاہے کہ وحی کا فرشتہ اوپر سے آپ پر نازل ہوتاتھا ورنہ خدا کے لئے کوئی محل و مقام ہے نہ اس کے وحی کے لئے

شطر کا معنی:

دوسری بات جو اس مقام پر قابل غورہے یہ کہ مندرجہ بالا آیت میں لفظ کعبہ کی بجائے شطر المسجد الحرام آیاہے۔ یہ شاید اس بناء پر ہو کہ دورکے علاقوں میں نماز پڑھنے والوں کے لئے خانہ کعبہ کا حقیقی تعین بہت ہی مشکل ہے، لہذا خانہ کعبہ کی بجائے جو اصلی قبلہ ہے مسجد الحرام کا ذکر کیاگیاہے جو وسیع جگہ ہے۔ خصوصا لفظ شطر کا انتخاب ہوا جس کا معنی ہے جانب یا سمت۔ یہ اس لئے کہ اسلامی حکم پر عملدر آمد سب لوگوں کے لئے آسان ہو ۔ علاوہ ازیں نماز جماعت کی طویل صفیں اکثر اوقات کعبہ کے طول سے بھی لمبی ہوتی ہیں ۔ اس موقع کے لئے بھی شرعی ذمہ داری واضح کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ دور کے رہنے والوں کے لئے صحیح حدود کعبہ یا مسجد الحرام کا تعین بہت مشکل کام ہے لیکن اس سمت منہ کرکے کھڑا ہونا سب کے لئے آسان ہے۔(۱)

____________________

۱ بعض مفسرین نے کہاہے کہ شطر کا ایک معنی نصف ہے اس مفہوم کی بناء پر شطر المسجد الحرام اور وسط المسجد الحرام ہم معنی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خاص خانہ کعبہ مسجد حرام کے وسط میں ہے (تفسیر کبیر فخر رازی، زیر بحث آیت کے ذیل ہیں )۔

ہمہ گیر خطاب:

اس میں شک نہیں کہ قرآن ظاہرا پیغمبر سے خطاب کرتاہے لیکن اس کا مفہوم عام ہے اور سب مسلمانوں کے لئے ہے (سوائے ان چند مواقع کے جن کے پیغمبر سے مخصوص ہونے کی دلیل موجود ہے) اس بات سے یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ مندرجہ بالا آیت میں پیغمبر اکرم کو الگ اور مومنین کو الگ کیوں حکم دیا گیاہے کہ مسجد حرام کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں ۔

ممکن ہے یہ تکرار اس لئے ہوکہ قبلہ کی تبدیلی کا مسئلہ شور و غل کا حامل تھا۔ لہذا مکاں تھا کہ نئے مسلمانوں کے ذہن شور و غل اور زہر یلے اعتراضات کیوجہ سے تشویش کا شکار ہوتے اور وہ عذر کرتے کہ (فول وجھک) تو فقط پیغمبر سے خطاب ہے اور اس طرح خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے سے کتراتے لہذا اس مقام پرایک مخصوص خطاب کے بعد اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں سے ایک عمومی خطاب کیاہے تا کہ انہیں تاکید کرے کہ قبلہ کی تبدیلی کا یہ معاملہ مخصوص نہیں بلکہ یہ حکم سب کے لئے یکساں ہے۔

کیا قبلہ کی تبدیلی پیغمبر کو خوش کرنے کے لئے تھی:

قرآن کہتاہے: قبلة ترضھا (یعنی۔ وہ قبلہ جس سے تو خوش ہے) ممکن ہے اس سے یہ وہم پیدا ہو کہ یہ تبدیلی پیغمبر کو خوش کرنے کے لئے تھی۔ لیکن اگر اس بات کی طرف توجہ کی جائے تو یہ وہم دور ہوجائے گا کہ یہ بیت المقدس تو عارضی قبلہ تھا اور پیغمبر اکرم آخری قبلہ کے اعلام کا انتظار کررہے تھے تا کہ یک طرف تو یہودیوں کی زبان بندی ہوجائے اور دوسری طرف اہل حجازآئیں اسلام کی طرف زیادہ مائل ہوں کیونکہ وہ کعبہ سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے۔ ضمنا یہ بھی کہ یہ پہلا قبلہ تھا لہذا اس طرف رخ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کوئی نسلی دین نہیں ہے ادریہ بھی کہ اس سے خانہ کعبہ میں بت پرستوں کے موجود بتوں کا بطلان بھی ظاہر ہوجاتا۔

کعبہ ایک عظیم دائرے کا مرکز ہے:

اگر کوئی شخص کرہ زمین سے باہر مسلمان نماز گزاروں کی صفوں کو دیکھے جو کعبہ رخ نماز پڑھ رہے ہیں تو اسے کئی دائرے نظر آئیں گے جن میں ایک دائرہ دوسرے کے اندر ہے یہاں تک کہ دائرے سمٹتے اصل مرکز یعنی کعبہ تک جا پہنچتے ہیں اس سے ایک وحدت و مرکزیت کا اظہار ہوتاہے۔

اسلامی قبلے کا تصور بلا شبہ عیسائیوں کے اس طریقہ کا رسے کہیں معیاری ہے جس کے مطابق تمام عیسائیوں کو حکم ہے کہ وہ جہاں کہیں ہوں مشرق کی طرف رخ کرکے عبادت بجالائیں ۔

یہی وجہ ہے کہ علم ہیئت اور علم جغرافیہ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں میں تیزی سے ترقی کی کیونکہ زمین کے مختلف حصوں میں قبلہ کا تعین اس علم کے بغیر ممکن نہ تھا۔

آیت ۱۴۵

۱۴۵ ۔( وَلَئِنْ اٴَتَیْتَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَکَ وَمَا اٴَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهْوَائَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذًا لَمِنْ الظَّالِمِین )

ترجمہ

۱۴۵ ۔ قسم ہے کہ اگر تم ہر قسم کی آیت (دلیل اور نشانی) ان اہل کتاب کے لئے لے آؤ تو یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے اور تم بھی اب کبھی ان کے قبلہ کی پیروی نہیں کروگے (اور وہ اب یہ تصور نہ کریں دوبارہ قبلہ کی تبدیلی کا امکان ہے) اور ان میں سے بھی کوئی دوسرے کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتا اور اگر تم علم و آگاہی کے بعد ان کی خواہشات کی پیروی کرو تو مسلما ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوجاؤگے۔

وہ کسی قیمت پر سرتسلیم خم نہیں کریں گے

آپ گذشتہ آیت کی تفسیر میں پڑھ چکے ہیں کہ اہل کتاب جانتے تھے کہ بیت المقدس سے خانہ کعبہ تبدیلی سے نہ صرف یہ کہ پیغمبر اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیاجاسکتا بلکہ یہ آپ کی حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ وہ اپنی کتب میں پڑھ چکے تھے کہ پیغمبر موعود د و قبلوں کی طرف نماز پڑھے گا لیکن بے جا تعصب اور سرکشی کے بھوت نے انہیں حق قبول کرنے نہ دیا۔

اصولی طورپر اگر انسان مسائل پر پہلے سے حتمی فیصلہ نہ کرچکا ہو وہ افہام و تفہیم کے قابل ہوتاہے اور دلیل ، منطق یا معجزات کے ذریعے اس کے نظریات میں تبدیلی آسکتی ہے اور اس کے سامنے حقیقت کو ثابت کیاجاسکتاہے لیکن اگر وہ پہلے سے اپنا موقف حتمی طور پرطے کرلے۔ خصوصا لیچڑ متعصب اور نادان لوگوں کو کسی قیمت پر نہیں بدلا جاسکتا۔ اسی لئے قرآن محل بحث آیت میں قطعی طور پر کہہ رہاہے ! قسم ہے کہ اگر تم کوئی آیت اور نشانی ان اہل کتاب کے لئے لے آؤ، یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے( وَلَئِنْ اٴَتَیْتَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الکِتَابَ بِکُلِّ آیَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَک ) ۔ لہذا تم اس کام کے لیے اپنے آپ کو نہ تھکاؤ اور ان کی ہدایت کے در پے نہ رہو کیونکہ یہ کسی قیمت پر حق کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کریں گے اور ان میں اصلا تلاش حقیقت کی روح ہی مردہ ہوچکی ہے۔

افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ تمام انبیاء کو کم و بیش ایسے افراد کا سامنا کرنا پڑا جو یا اہل ثروت اور با اثر تھے یا پڑھے لکھے منحرف یا کجرو یا جاہل و متصب عوام تھے۔

اس کے بعد مزید فرمایا: تم بھی ہرگز ان کے قبلہ کی پیروی نہیں کروگے( و ما انت بتابع قبلتهم ) ۔ یعنی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے شعور و غوغا، قیل و قال اور طعن و تشنیع سے دوبارہ مسلمانوں کا قبلہ بدل جائے گا تو یہ ان کی جہالت ہے بلکہ یہ قبلہ اب ہمیشہ کے لئے ہے۔

در حقیقت مخالفین کا شور دغل ختم کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان پختہ ارادے سے کھڑا ہوجائے اور واضح کردے کہ وہ راہ حق میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کرے گا۔

مزید فرمایا: وہ بھی اپنے معاملے میں ایسے متعصب ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کے قبلہ کا پیرو اور تابع نہیں( وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ )

یعنی۔ یہودی عیسائیوں کے قبلہ کی پیروی کرتے ہیں نہ عیسائی یہودیوں کے قبلہ کی

پھر بطور تاکید اور زیادہ قطعیت سے پیغمبر سے کہتاہے: اگر علم و آگہی کے بعد، جو خدا کی طرف سے تمہیں پہنچ چکی ہے تم ان کی خواہشات کے سامنے سرنگوں ہوگئے اور ان کی پیروی کرنے لگے تو مسلما ستمگروں اور ظالموں میں سے ہوجاؤگے( وَلَئِنْ اتَّبَعْتَ اٴَهْوَائَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ إِنَّکَ إِذًا لَمِنْ الظَّالِمِین ) ۔

قضیہ و شرطیہ صورت میں پیغمبر سے خطاب، قرآن میں بارہا دیکھنے میں آیاہے۔ در حقیقت ان کے تین مقاصد ہیں :

۱ ۔ سب لوگ جان لیں کہ قوانین الہی میں کسی قسم کی تبعیض اور فرق و اختلاف قبول نہیں کیاجائے گا۔ عام لوگ تو ایک طرف خود انبیاء بھی ان سے ماوراء نہیں ہیں ۔ اس بناء پر اگر بفرض محال پیغمبر بھی حق سے انحراف کرے تو وہ بھی عذاب الہی کا مستحق ہوگا۔ اگر چہ انبیاء کے بارے میں ایسا مفروضہ ان کے ایمان، بے پناہ علم اور مقام تقوی و پرہیزگاری کے پیش نظر ممکن العمل نہیں اور اصطلاح میں اسے یوں کہتے ہیں کہ قضیہ شرطیہ وجود شرط پر دلالت نہیں کرتا۔

۲ ۔ تمام لوگ اپنا احتساب کرلیں اور جان لیں کہ جب پیغمبر کے بارے میں یہ معاملہ ہے تو انہیں پوری کوشش سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہئیں اور دشمن کے انحرافی میلانات اور شور و غوغا کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالنا چاہئیں اور شکست تسلیم نہیں کرنا چاہئیے۔

۳ ۔ یہ واضح ہوجائے کہ پیغمبر بھی اپنی طرف سے کسی تبدیلی اور الٹ پھیر کا اختیار نہیں رکھتا اور ایسا نہیں کہ وہ جو چاہے کرے بلکہ وہ بھی اللہ کا بندہ ہے اور اس کے فرمان کے تابع ہے۔