تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78093
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78093 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۱۴۶،۱۴۷

۱۴۶ ۔( الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَائَهُمْ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ )

۱۴۷ ۔( الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِینَ )

ترجمہ

۱۴۶ ۔ وہ لوگ جنہیں ہم نے آسمانی کتب دی ہیں وہ اس (پیغمبر ) کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو اگر چہ ان میں سے ایک گروہ حق کو پہچاننے کے با وجود اسے چھپاتاہے۔

۱۴۷ ۔(قبلہ کی تبدیلی کا یہ فرمان) تمہارے پروردگار کا حکم حق ہے لہذا ہرگز تردد و شک کرنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

وہ پیغمبر اکرم کو پوری طور پر پہچانتے ہیں :

گذشتہ ابحاث کے بعد اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی ہٹ دھرمی اور تعصب کے بارے میں زیر نظر آیات میں گفتگو فرمائی گئی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: اہل کتاب کے علما پیغمبر کو اپنی اولاد کی مانند اچھی طرح پہچانتے ہیں( الَّذِینَ آتَیْنَاهُمْ الْکِتَابَ یَعْرِفُونَهُ کَمَا یَعْرِفُونَ اٴَبْنَاء َهُم ) اس پیغمبر کا نام، نشانیاں اور خصوصیات یہ اپنی مذہبی کتب میں پڑھ چکے ہیں لیکن اس کے با وجود ان میں سے بعض کوشش کرتے ہیں کہ جان بوجھ کر حق کو چھپائے رکھیں( وَإِنَّ فَرِیقًا مِنْهُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ یَعْلَمُونَ ) ۔ان میں سے ایک گر وہ تو اسلام کی واضح نشانیوں کو دیکھ کر اسے قبول کرچکاہے جیسا کہ عبداللہ بن سلام جو علما یہود میں سے تھا اور بعد میں اس نے اسلام قبول کرلیا۔ منقول ہے کہ وہ کہتاتھا:

انا اعلم به منی بابنی میں پیغمبر اسلام کو اپنے فرزند سے بھی بہتر پہچانتا ہوں ۔(۱)

یہ آیت ایک عجیب و غریب حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے وہ یہ کہ پیغمبر اسلام کی جسمانی و روحانی صفات اور ان کے علاقے کی نشانیاں گشتہ کتب میں اس قدر زندہ، روشن اور واضح تھیں کہ جن سے آپ کی پوری تصویر ان لوگوں کے ذہنوں میں موجود تھی جو ان کتب سے وابستہ تھے۔ کیا کسی کو یہ احتمال ہوسکتاہے کہ ان کتب میں پیغمبر اسلام کا کوئی نام و نشان نہ ہو اور پھر بھی پیغمبر اس صراحت سے ان کے سامنے کہیں کہ میری تمام صفات تمہاری کتب میں موجود ہیں ، اگر ایسا ہوتا تو کیا اہل کتاب کے تمام علماء پیغمبر سے شدید اور صریح مقابلے پر نہ آتے اور انہیں یہ نہ کہتے کہ یہ تم ہو اور یہ ہیں ہماری کتابیں ، کہاں ہیں تمہارے وہ نام و صفات ۔ کیا یہ ممکن تھا کہ ان کا ایک عالم فقط اس بناء پر آپ کے سامنے سر تسلیم خم کرے ۔ اس لئے ایسی آیات صرف آپ کی سچائی اور حقانیت کی دلیل ہیں ۔

اس کے بعد گذشتہ ابحاث کی تاکید کے طور پر قبلہ کی تبدیلی کے متعلق فرمایا: یہ فرمان تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے، پس تم کبھی بھی تردد و شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا( الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُمْتَرِین ) ۔ اس طرح اس جملے میں پیغمبر کی دلجوئی کی گئی ہے اور انہیں تاکید کی گئی ہے کہ وہ دشمن کے زہر یلے پرا پیگنڈا کے سامنے ذرہ برابر بھی تردد و شک کو راہ نہ دیں ۔ چاہے قبلہ کی تبدیلی کا مسئلہ ہو یا کوئی اور چاہے دشمن اس کے خلاف اپنی تمام قوتیں جمع کرلیں ۔

اس گفتگو میں اگر چہ مخاطب پیغمبر اکر م ہیں لیکن جیسا کہ کہا جاچکاہے کہ واقع میں تمام لوگ مرا د ہیں ۔ ور نہ مسلم ہے کہ و ہ پیغمبر جس کا وحی سے دائمی تعلق ہو کبھی کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوتا کیونکہ وحی اس کے لئے شہود، حس اور یقین کا درجہ رکھتی ہے۔

____________________

۱ المنار، ج ۲ اور تفسیر کبیر از فخر الدین رازی (ذیل آیت زیر بحث)

آیت ۱۴۸

۱۴۸ ۔( وَلِکُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ اٴَیْنَ مَا تَکُونُوا یَاٴْتِ بِکُمْ اللهُ جَمِیعًا إِنَّ اللهَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ )

ترجمہ

۱۴۸ ۔ ہر گروہ کا ایک قبلہ ہے جسے خدا نے اس کے لئے معین کیاہے (اس بنا پر اب قبلہ کے بارے میں زیادہ گفتگو نہ کرو اور اس کی بجائے ) نیکیوں اور اعمال خیر میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے، خد ا تمہیں (اچھے اور برے اعمال کی جزا یا سزا کے لئے قیامت کے دن) حاضر کرے گا، کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتاہے۔

یہ آیت در حقیقت یہودیوں کے جواب میں ہے

ہر گروہ کا ایک قبلہ ہے جسے خدانے معین کیاہے (اور وہ اس کی طرف رخ کرتاہے( وَلِکُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیهَا ) ۔

انبیاء کی طویل تاریخ میں کئی ایک قبلہ تھے اور ان کی تبدیلی کوئی عجیب و غریب چیز نہیں ۔ قبلہ کوئی اصولی دین نہیں کہ جس میں تبدیلی و تغیر نہیں ہوسکتا اور نہ یہ کہ امور تکوینی کی طرح ہے کہ آگے پیچھے نہ ہوسکے لہذا قبلہ کے بارے میں زیادہ گفتگو نہ کرو اور اس کی بجائے اعمال خیر اور نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ( فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ ) ۔ بجائے اس کے کہ اس انفرادی مسئلے میں دقت صرف کرتے رہو خوبیوں اور پاکیزگیوں کی تلاش میں نکلو اور ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرو کیونکہ تمہارے وجود کی قدر و قیمت نیک اور پاک اعمال ہیں ۔یہ مضمون بعینہ اس سورہ کی آیہ ۱۷۷ کی طرح ہے جس میں فرمایا گیاہے۔

( لَیْسَ الْبِرَّ اٴَنْ تُوَلُّواوُجُوهَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالْکِتَابِ ) ( وَالنَّبِیِّین )

نیکی یہ نہیں اپنے چہرے مشرق و مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ خدا، روز جزا، ملائکہ، کتاب اور انبیاء پر ایمان لے آؤ (اور نیک اعمال بجالاؤ)۔

اب اگر تم اسلام یا مسلمانوں کو آزمانا چاہتے ہو تو ان پروگراموں میں آزماؤ نہ قبلہ کی تبدیلی کے مسئلہ میں ۔

اس کے بعد اعتراض کرنے والوں کو تنبیہ کرنے اور نیک لوگوں کو شوق دلانے کے لئے فرمایا: تم جہاں کہیں ہوگے خدا تم سب کو حاضر کرے گا (اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا) تا کہ نیک لوگوں کو عمل خیر کی جزا اور برے لوگوں کو عمل بدکی سزادی جاسکے۔ایسا نہیں کہ ایک گروہ تو بہترین کام انجام دیتاہو اور دوسرا زہرا گلنے ، تخریب کا ری کرنے اور دوسروں کے کاموں کو خراب کرنے کے علاوہ کوئی کام نہ کرتاہو اور پھر دونوں ایک جیسے ہوں اور ان کے لئے کوئی حساب و کتاب اور جزا سزا نہ ہو۔ چونکہ ممکن ہے بعض لوگوں کے لئے یہ جملہ عجیب ہو کہ خدا خاک کے منتشر ذرات کو، وہ جہاں کہیں ہوں جمع کرے گا اور دوبارہ و ہی انسان عرصہ وجود میں قدم رکھے لہذا بلا فاصلہ فرمایا: اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتاہے( ان الله علی کل شیی قدیر ) در حقیقت آیت کے آخر میں یہ جملہ اس سے پہلے والے جملے( اینما تکونوا یاب بکم الله جمیعاء ) کی دلیل ہے۔

امام مہدی کے یار و انصار جمع ہوں گے:

آئمہ اہل بیت سے مروی ہے کئی ایک روایات میں (اینما تکونوا یات بکم اللہ جمیعا) سے اصحاب حضرت مہدی مراد لئے گئے ہیں ۔ منجملہ ان روایات کے کتاب روضہ کافی میں امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ نے اس جملہ کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد کیا:یعنی۔اصحاب القائم الثلاثماة و البضعة عشر رجلاهم و الله الامة المعدودة قال یجتمعون و الله فی ساعة واحدة قزع کقزع الخریف ۔اس سے مقصود اصحاب امام قائم ہیں جوتین سو تیرہ افراد ہیں ۔ خدا کی قسم (الامة المعدودة ) سے وہی مراد ہیں ۔ بخدا موسم خریف کے بادلوں کی طرح سب ایک لحظے میں جمع ہوجائیں گے۔ جیسے وہ بادل تیز ہوا کے نتیجے میں جمع ہوکر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ۔(۱) اما م علی بن موسی رضا سے منقول ہے:و ذلک و الله ان لوتام قائمنا یجمع الله الیه جمیع شیعتنا من جمیع البلدان ۔بخدا جب حضرت مہدی قیام کریں گے خدا سب شہروں سے ہمارے تمام شیعوں کو ان کے پاس جمع کردے گا۔(۲) اگر قبل اور بعد کے قرائن نہ ہوتے تو یہ تفسیر قابل قبول تھی لیکن ان قرائن کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ظاہری مفہوم وہی ہے جو ہم بیان کرچکے ہیں ۔(۳)

آیت میں( هُوَ مُوَلِّیهَا ) کی شباہت

( فلنولینک قبلة ترضها ) سے ہے لیکن فرض کریں کہ یہ آیت اسی تفسیر کی طرف اشارہ ہے تو یہ جبری قضاء قدر کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ وہ قضا و قدر ہے جو آزادی کے مفہوم سے موافقت رکھتی ہو۔(۴)

____________________

۱ نور الثقلین، ج۱، ص۱۳۹۔۲ تفسیر المیزان، ج۱، ص۳۳۱

۳ یعنی یہ روایات آیت کی باطنی تفسیرہیں (مترجم)۴ مزید وضاحت کے لئے کتاب انگیزہ ی پیدایش مذہب ، فصل قضا و قدر سے رجوع کریں ۔

آیات ۱۴۹،۱۵۰

۱۴۹ ۔( وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ )

۱۵۰ ۔( وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَکُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلاَتَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِی وَلِاٴُتِمَّ نِعْمَتِی عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَهْتَدُونَ )

ترجمہ

۱۴۹ ۔ تم جس بھی جگہ (شہر اور مقام) سے نکلو (جب وقت نماز ہوتو) اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو، یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حکم حق ہے اور خدا تمہارے کردار سے غافل نہیں ہے۔

۱۵۰ ۔ اور تم جہاں سے بھی نکلو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف کرلو اور تم (مسلمان) جہاں کہیں ہو اپنا رخ اس کی طرف کرو تا کہ لوگوں کے پاس تمہارے خلاف کوئی دلیل و حجت نہ ہو۔ (کیونکہ گذشتہ کتب میں پیغمبر کی جو نشانیاں آئی ہیں ان میں یہ بھی تھی کہ وہ پیغمبر دو قبلوں کی طرف نماز پڑھے گا)۔ ان لوگوں کے سوا جو ظالم ہیں (جو ہر صورت میں ہٹ دھرمی اور زہر اگلنے سے باز نہیں آتے لیکن) ان سے نہ ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرو (یہ قبلہ کی تبدیلی اس لئے تھی کہ میں تمہاری تربیت کروں ، تمہیں تعصب کی قید سے نکالوں اور تمہیں استقلال عطا کروں ) اور اپنی نعمت تم پر مکمل کروں تا کہ تم ہدایت حاصل کرلو۔

برنامه های رسول لله

گذشتہ آیت کے آخری حصے میں خداوند عالم نے قبلہ کی تبدیلی کی ایک دلیل تکمیل نعمت اور ہدایت مخلوق بیان کی ہے۔ زیر بحث آیت میں لفظ ”کما“ اسی طرف اشارہ ہے کہ صرف قبلہ کی تبدیلی تمہارے لئے نعمت خدا نہیں بلکہ خدانے تمہیں اور بھی بہت سی نعمتیں دی ہیں ۔ جیسا کہ میں نے تمہاری نوع میں سے تمہارے لئے رسول بھیجاہے۔ لفظ ”منکم“ (یعنی تمہاری جنس سے) ممکن ہے اس طرف اشارہ ہو کہ وہ نوع بشر میں سے ہے اور صرف بشر ہی بشر کے لئے مربی، رہبر اور نمونہ ہو سکتاہے اور وہی اپنی نوع کی تکالیف ، ضروریات ،اور مسائل سے آگاہ ہوتاہے اور یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے یا یہ مقصد ہے کہ وہ تمہارے قبیلہ و خاندان میں سے ہے اور تمہارا ہم وطن ہے کیونکہ شدید نسلی تعصب کی وجہ سے ممکن نہ تھا کہ عرب کسی ایسے پیغمبر کے زیر بار ہوتے جو ان کی نسل وقوم میں سے نہ ہوتا جیسا کہ سورہ شعراء کی آیت ۱۹۸ اور ۱۹۹ میں ہے:۔

( و لو نزلناه علی بعض الاعجمین فقراه علیهم ما کانوا به مؤمنین )

اگر ہم قرآ ن ایسے شخص پر نازل کرتے جو عرب نہ ہو تا اور وہ ان کے سامنے اسے پڑھتا تو یہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔

یہ ان کے لئے بہت اہم نعمت شمار ہوتی تھی کہ پیغمبر خود انہی میں سے تھے البتہ یہ تو ابتدائے کار کی بات تھی لیکن آخر میں قوم، قبیلہ، وطن اور جغرافیائی سرحدوں کا معاملہ اسلامی پروگراموں سے حذف کردیاگیا اور اسلام کے حقیقی اور دائمی قانون کا اعلان کیا گیا جو وطن ، مذہب اور نسل کی بجائے انسانیت کو متعارف کراتاہے۔

اس نعمت کے تذکرے کے بعد چار دوسری نعمتوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے جو انہیں پیغمبر کی برکت سے حاصل ہوئی تھیں ۔

۱ ۔ وہ ہماری آیا ت تمہارے سامنے تلاوت کرتاہے:( یتلوا علیکم ایتنا ) ۔ لفظ (یتلوا ) لغت میں تلاوت کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے پے در پے لے آنا۔ اسی لئے جب عمارتیں کسی مسلسل صحیح نظام کے تحت بن رہی ہوں تو عرب اسے تلاوت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یعنی پیغمبر خدا کی باتیں ایک صحیح اور مناسب نظام کے تحت پے در پے ۔ تمہارے سامنے پڑھتا ہے تا کہ تمہارے دلوں کو تیار کرے کہ وہ انہیں قبول کریں اور ان کے معانی سمجھیں ۔ یہ منظم اور مناسب تلاوت تعلیم و تربیت کے لئے آمادگی پیدا کرتی ہے۔ جس کی طرف بعد کے جملوں میں اشارہ ہوگا۔

۲ ۔ وہ تمہاری تربیت و پرورش کرتاہے: (و یزکیکم )۔ راغب مفردات میں کہتاہے کہ تزکیہ کا معنی ہے بڑھا نا اور نشو و نما دینا۔ یعنی پیغمبر آیات خدا کے ذریعے تمہارے معنوی و مادی اور انفرادی و اجتماعی کمالات کو بڑھاتاہے اور تمہیں نمو بخشتاہے۔ تمہارے وجود کی شاخوں پر فضیلت کے پھول کھلاتا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بری صفات جو تمہارے معاشرے کو آلودہ کئے ہوئے ہیں ان کے زنگ سے تمہارے وجود کو پاک کرتاہے۔

۳ ۔ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتاہے:( و یعلمکم الکتاب و الحکمة ) ۔اگر چہ تعلیم، تربیت پر مقدم ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ اس مقصد کو ثابت کرنے کے لئے کو اصل مقصد تربیت ہے اسے تعلیم سے پہلے بیان فرمایا چونکہ تعلیم تو مقصد کے لئے وسیلہ ہے۔

باقی رہا کتاب و حکمت کا فرق یہ ممکن ہے کہ کتاب قرآن کی آیات اور وحی الہی کی طرف اشارہ ہو جو بصورت اعجاز پیغمبر پر نازل ہوئی اور حکمت سے مراد ہو پیغمبر صلی اللہ و آلہ و سلم کی گفتگو اور تعلیمات جو حقائق قرآن کی وضاحت اور تفسیر کے لئے ہیں اور اس کے قوانین و احکام کو عملی شکل دینے کے لئے بیان فرمائی جاتی رہی ہیں ۔ انہی تعلیمات کو سنت کہتے ہیں جن کا سرچشمہ وحی الہی ہی ہے۔

یہ بھی ہوسکتاہے کہ کتاب احکام و قوانین کی طرف اور حکمت اسرار، فلسفہ، عدل اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ ہو۔

بعض مفسرین کا خیالی ہے کہ حکمت سے مراد وہ حالت اور استعداد ہے جو تعلیمات قرآن سے پیدا ہوتی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے انسان تمام امور کا حساب و کتاب رکھتاہے اور ہر ایک کو اس کے مقام پر بجالاتاہے۔(۱)

تفسیر المنار کا مؤلف یہ تفسیر ذکر کرکے کہ حکمت سے مراد سنت ہے اسے غیر صحیح قرار دیتاہے اور اس کے لئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۳۹ سے استدلال کرتاہے۔ جس میں فرمایا گیاہے:ذلک مما اوحی الیک ربک من الحکمة

یہ ایسے امور ہیں جنہیں تمہارا پروردگار حکمت میں سے تم پر وحی کرتاہے۔

ہمارے نزدیک اس اعتراض کا جواب واضح ہے اور وہ یہ کہ حکمت کا مفہوم وسیع ہے لہذا ہوسکتاہے یہاں آیات قرآن اور وہ اسرار مراد ہوں جو وحی کے ذریعے پیغمبر پر نازل ہوئے جہاں حکمت کا ذکر کتاب (قرآن) کے ساتھ آیاہے (جیسے زیر نظر اور ایسی دیگر آیات ) وہاں مسلما ًحکمت سے مراد کتاب کے علاوہ کچھ اور ہے اور وہ سنت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی۔

۴ ۔ تم جو نہیں جانتے وہ تمہیں اس کی تعلیم دیتاہے:( و یعلمکم مالم تکونوا تعلمون ) ۔ یہ مفہوم اگرچہ گذشتہ جملے میں موجود ہے جس میں کتاب و حکمت کی تعلیم کا ذکر ہے لیکن قرآن اسے خصوصیت سے الگ بیان کررہاہے تا کہ انہیں سمجھائے کہ اگر انبیاء و رسل نہ ہوتے تو بہت سے علوم ہمیشہ کے لئے مخفی رہتے۔ وہ فقط اخلاقی و اجتماعی رہبر نہیں ہیں ۔ بلکہ علمی رہنما بھی ہیں ان کی رہنمائی کے بغیر انسانی علوم کے کسی پہلو میں پختگی ممکن نہ تھی۔

جو کچھ بیان کیاگیاہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ زیر نظر آیت میں خدانے اپنی پانچ نعمتوں کی طرف اشارہ کیاہے جو یہ ہیں :

پہلی۔ پیغمبر کا نوع بشر میں سے ہونا۔

دوسری۔ لوگوں کے سامنے آیات الہی کی تلاوت کرنا۔

تیسری اور چوتھی۔ تعلیم و تربیت کرنا۔ اورپانچویں ۔ لوگوں کو ان امور کی تعلیم دینا جو پیغمبر کے بغیر وہ نہیں جانتے تھے۔

خدا کی نعمتوں کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں لوگوں کو بتایاجارہاہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے اور ہر نعمت سے صحیح طور پر استفادہ کیاجائے جو سپاس گزاری کا طریقہ ہے اور کفران نعمت نہ کیاجائے۔ فرماتاہے: مجھے یاد رکھو تا کہ میں تمہیں یاد رکھوں اور میرا شکر بجالاؤ اور کفران نعمت نہ کرو (فاذکرونی اذکرکم و شکروالی و لا تکفرون)۔

واضح ہے کہ (مجھے یاد کرو تا کہ میں تمہیں یاد کروں ) یہ جملہ خدا اور بندوں کے در میان کسی ایسے رابطے کی طرف اشارہ نہیں جیسے انسانوں کے در میان ہوتاہے کہ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں : تم ہمیں یاد کیاکرو ہم تمیں یاد کیاکریں گے بلکہ یہ ایک تربیتی و تکوینی بنیاد کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی مجھے یاد رکھو۔ ایسی پاک ذات کی یاد جو تمام خوبیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ ہے اور اس طرح اپنی روح اور جان کو پاکیزہ اور روشن رکھو اور رحمت پروردگار کی قبولیت کے لئے آمادہ رہو۔ اس ذات کی طرف متوجہ رہنا اور اسے یاد رکھنا ہر قسم کی فعالیتوں میں زیادہ مصمم ، زیادہ قوی اور زیادہ متحد کردے گا۔

اسی طرح شکر گزاری اور کفران نعمت نہ کرنا کوئی تکلفا نہیں اور یہ فقط کلمات کی زبان سے ادائیگی تھی۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر نعمت کو ٹھیک اس کی جگہ پر صرف کرنا اور اسی مقصد کی راہ میں خرچ کرنا جس کے لئے وہ پیدا کی گئی ہے تا کہ یہ امر خدا تعالی کی نعمت و رحمت میں اضافے کا باعث ہو۔

____________________

۱۔ تفسیر فی ظلال، ج۱، ص۱۹۴۔

( فاذکرونی اذکرکم ) “کی تفسیر

(!) ”فاذکرونی اذکرکم“کی تفسیر میں مفسرین کی موشگافیاں : مفسرین نے اس جملے کی تشریح میں بہت سی باتیں کی ہیں ۔ بندوں کے یاد کرنے اور خدا کے یاد کرنے سے کیا مراد اس سلسلے میں بہت سے مفاہیم بیان کئے گئے ہیں ۔ جنہیں تفسیر کبیر میں فخر الدین رازی نے دس موضوعات کے تحت جمع کیاہے:

۱ ۔ مجھے اطاعت کے ذریعے یاد کرو تا کہ میں اپنی رحمت کے ذریعے تمہیں یاد کروں ۔ اس مفہوم کی شاہد سورہ اآل عمران کی آیت ۱۳۲ ہے:( اطیعوا الله و الرسول لعلکم ترحمون ) ۔

اللہ اور رسول کی اطاعت کردتا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

۲ ۔ مجھے دعا کے ساتھ یاد کرو تا کہ میں تمہیں اجابت کے ساتھ یاد کروں ۔ اس کی شاہد سورہ مومن کی آیت ۶۰ ہے۔

جس میں فرمایا گیاہے:( ادعونی استجب لکم )

مجھ سے دعا کرو تو میں قبول کروں گا۔

۳ ۔ مجھے ثناء و طاعت کے ذریعے یاد کرو تا کہ میں تمہیں ثناء و نعمت سے یاد کروں ۔

۴ ۔ مجھے دنیا میں یاد کرو تا کہ میں تمہیں آخرت میں یادکروں ۔

۵ ۔ مجھے خلوتوں میں یاد کرو تا کہ میں تمہیں اجتماعات میں یاد کروں ۔

۶ ۔ مجھے نعمتوں کی فراوانی کے وقت یاد کرو میں تمہیں سختیوں میں یاد کروں گا۔

۷ ۔ مجھے عبادت کے ذریعے یاد کرو تا کہ میں تمہاری مدد کروں ۔ اس کا شاہد سورہ الحمد کا یہ جملہ ہے:

ایاک نعبد و ایاک نستعین

۸ ۔ مجھے مجاہدت و کوشش کے ذریعے یاد کرو تا کہ میں تمہیں ہدایت کے ذریعے یاد کروں ۔ اس کی شاہد سورہ عنکبوت کی آیہ ۶۹ ہے جس میں فرمایا گیاہے:( و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا )

جو ہماری راہ میں میں کوشش کرتے میں تمہیں نجات اور مزید خصوصیت سے یادکروں گا۔

۱۰ ۔ میری ربوبیت کا تذکرہ کرو میں رحمت کے ساتھ یاد کروں گا (ساری سورہ حمد اس معنی کی شاہد بن سکتی ہے)۔(۱)

ان میں سے ہر مفہوم آیت کے وسیع جلووں میں سے ایک جلوہ ہے اور زیر نظر آیت میں یہ تمام مفاہیم بلکہ ان کے علاوہ بھی مطالب شامل ہیں مثلا:

مجھے شکر کے ساتھ یاد کرو تا کہ میں تمہیں فراوانی نعمت سے یاد کروں ۔ سورہ ابراہیم کی آیہ ۷ میں ہے:

( لئن شکر تم لا زیدنکم )

اگر تم شکر کرو تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔

جیسا کہ ہم کہہ چکے، بے شک خدا کی طرف ہر قسم کی توجہ تکوینی و تربیتی اثر رکھتی ہے۔یاد خدا سے یہ اثر انسان تک پہنچتاہے اور ان توجہات کے نتیجہ میں روح و جان ان برکات کے نزول کی استعداد پیدا کرلیتی ہے جن کا تعلق یاد خدا سے ہے۔

____________________

۱- تفسیر کبیر از فخر رازی، ج۴، ص۱۴۴( مختصر تفسیر اور کچھ اضافے کے ساتھ)۔

ذکر خدا کیاہے:

یہ مسلم ہے کہ ذکر خدا سے مراد صرف زبان سے یاد کرنا نہیں بلکہ زبان تو دل کی ترجمان ہے یعنی دل و جان سے اس کی ذات پاک کی طرف توجہ رکھا کرو۔ وہ توجہ جو انسان کو گناہ سے باز رکھے اور اس کے حکم کی اطاعت کے لئے آمادہ کرے۔ اسی بناء پر متعدد و احادیث میں پیشوایان اسلام سے منقول ہے کہ ذکر خد ا سے مرا دعملی یادآوری ہے۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت علی کو وصیت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ثلاث لا تطیقها هذه الامة: الموساة للحق فی ماله و انصاف الناس من نفسه و ذکر الله علی کل حال و لیس هو سبحان الله و الحمد لله و لا اله الا الله و الله اکبر و لکن اذا ورد علی ما یحرم الله علیه خاف الله تعالی عنده و ترکه ۔

تین کام ایسے ہیں جو یہ امت (مکمل طور پر) انجام دینے کی توانائی نہیں رکھتی: اپنے مال میں دینی بھائی کے ساتھ مواسات و برابری، اور اپنے اور دوسروں کے حقوق کے بارے میں عادلانہ فیصلہ اور خدا کو ہر حالت میں یاد رکھنا اور اس سے مراد سبحان اللہ و الحمد اللہ و لا الہ الا اللہ و اللہ اکبر کہنا نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی فعل حرام اس کے سامنے آئے تو خدا سے ڈرے اور اسے ترک کردے۔(۱)

____________________

۱- تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۱۴۰ بحوالہ کتاب خصال۔

آیات ۱۵۳،۱۵۴

۱۵۳ ۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ )

۱۵۴ ۔( وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ )

ترجمہ

۱۵۳ ۔ اے ایمان والو! زندگی کے سخت ترین کے موقع پر) صبر و استقامت اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ (کیونکہ ) خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

۱۵۴ ۔ جو راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔

شان نزول

زیر نظر دوسری آیت کی شان نزول کے بارے میں بعض مفسرین نے ابن عباس سے اس طرح نقل کیاہے: یہ آیت جنگ بدر میں قتل ہونے والوں کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ ان کی تعداد چودہ تھی۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے تھے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بعض لوگ اس طرح گفتگو کرتے کہ فلاں مرگیا۔ اس پریہ آیت نازل ہوئی جس نے بتایا کہ شہداء کے لئے مردہ (میت) کہنا صحیح نہیں

(شہداء)

گذشتہ آیات میں تعلیم و تربیت اور ذکر و شکر کے متعلق گفتگو تھی۔ ان کے وسیع تر مفہوم جس میں اکثر دینی احکام شامل ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے محل بحث پہلی آیت میں صبر و استقامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جس کے بغیر گذشتہ مفاہیم کبھی عملی شکل اختیار نہیں کرسکتے۔

پہلے فرمایا: اے ایمان والو! صبر و استقامت اور نماز سے مدد حاصل کرو( یا یها الذین امنوا استعینوا بالصبر و الصلوة ) اور ان دو قوتوں (استقامت اور خدا کی طرف توجہ ) کے ساتھ مشکلات و سخت حوادث سے جنگ کے لئے آگے بڑھو تو کامیابی تمہارے قدم چومے گی کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے( ان الله مع الصبرین ) ۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صبر کا معنی ہے بدبختیوں کو گوارا کرنا۔ اپنے آپ کو ناگوار حوادث کے سپر کرنا اور عوامل شکست کے سامنے ہتھیار ڈال دینا لیکن صبر کا مفہوم اس کے برعکس ہے۔ صبر و شکیبائی کا معنی ہے ہر مشکل اور حادثے کے سامنے استقامت ۔ اسی لئے بعض علماء اخلاق نے صبر کے تین پہلو بیان کئے ہیں ۔

۱ ۔ اطاعت پر صبر (ان مشکلات کے مقابلے میں صبر کرنا جو اطاعت کی راہ میں پیش آئیں )۔

۲ ۔ گناہ پر صبر (سرکش و طغیان خیز گناہ اور شہوات پر ابھارنے والے اسباب کے مقابلے میں قیام کرنا)۔

۳ ۔ مصیبت پر صبر (ناگوار حوادث کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، پریشان نہ ہونا اور حوصلہ نہ ہارنا)۔

ایسے موضوعات بہت کم ہیں جن کی صبر و استقامت کی طرح قرآن مجید مین تکرار و تاکید ہے۔ قرآن مجید میں تقریبا ستر مرتبہ صبر کے متعلق گفتگو ہوئی جن میں دس مقامات خود پیغمبر اکرم کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں ۔

بڑے بڑے جوانمردوں کے حالات زندگی گواہ ہیں کہ ان کی کامیابی کا اہم ترین یا واحد عامل صبر تھا جو لوگ اس خوبی سے بے بہرہ ہیں وہ بہت سے مصائب و آلام میں شکست کھاجاتے ہیں بلکہ کہاجاسکتا ہے کہ انسان کی پیش رفت اور ترقی میں جس قدر کردار صبر ادا کرتاہے۔ اتنا اسباب، استعداد اور ہوشیاری کا عمل دخل نہیں ۔

اسی بناء پرقرآن مجید میں نہایت تاکیدی انداز سے اس کا ذکر آیاہے۔ قرآن ایک مقام پر کہتاہے:

( انما یوفی الصبرون اجرهم بغیر حساب )

صابرین بے حساب اجر و جزا حاصل کریں گے۔ (زمر۔ ۱۰)

ایک اور مقام پر حوادث پر صبر کرنے کے بارے میں ہے:( ان ذلک من عزم الامور )

یہ محکم ترین امور میں سے ہے۔

در اصل استقامت اور پامردی انسان کے بلند ترین فضائل میں سے ہے اور اس کے بغیر باقی فضائل کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ اسی لئے نہج البلاغہ میں ہے:

علیکم بالصبر فان الصبر من الایمان کا الراس من الجسد و لا خیر فی جسد لا راس معه و لا فی ایمان لا صبر معه ۔

صبر و استقامت تمہارے لئے لازمی ہے کیونکہ ایما ن کے لئے صبر کی وہی اہمیت ہے جو بدن کے لئے سرکی، جیسے سرکے بغیر بدن کا کوئی فائدہ نہیں ایسے ہی صبر کے بغیر ایمان میں کوئی پائیداری نہیں اور نہ اس کا کوئی نتیجہ ہے۔(۱)

اسلامی روایات میں صبر کو اس لئے اعلی ترین قرار دیا گیاہے تا کہ انسان گناہ کے وسائل مہیا ہونے کے با وجود استقامت دکھائے اور لذت گناہ سے آنکھیں بند کرلے ۔

ابتدائی انقلابی مسلمان چاروں طرف سے طاقت ور، خونخوار اور بے رحم دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے لہذا محل بحث آیت میں انہیں خصوصیت سے حکم دیاگیا کہ مختلف حوادث کے مقابلے میں صبر و استقامت سے کام لیں ۔ خدا پر ایمان کی صورت میں نتیجہ شخصی استقلال، اعتماد اور اپنی مدد آپ کی صورت میں برآمد ہوتاہے۔ تاریخ اسلام نے اس حقیقت کی بڑی وضاحت سے نشاندہی کی ہے کہ یہی تمام کامیابیوں کی حقیقی بنیاد تھی۔

دوسری چیز جو مندرجہ بالا آیت میں صبر کے ساتھ خصوصی اہمیت سے متعارف کرائی گئی ہے نماز ہے ۔ اسی لئے اسلامی احادیث میں ہے:کان علی اذا اهاله امر فزع قام الی الصلوة ثم تلی هذه الایة و استعینوا بالصبر و الصلوة ۔

حضرت علی کو جب کوئی مشکل در پیش ہوتی تو نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور نماز کے بعد اس مشکل کو حل کرنے کے لئے نکلتے اور اس آیت کی تلاوت کرتے( و استعینوا بالصبر و الصلوة )(۲)

اس بات پر بالکل تعجب نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ جب انسان ایسے سخت حوادث اور ناقابل برداشت مشکلات سے دوچار ہوتو وہ ان کے سامنے اپنی طاقت اور استطاعت کو نا چیز سمجھتاہے اور قہرا وہ ایک ایسے سہارے کا محتاج ہوتاہے جوہر جہت سے غیر محدود اور لا متناہی ہو۔ نماز انسان کو ایسے ہی مبداء سے مربوط کردیتی ہے اور اس کا سہارا پاکر انسان مطمئن دل سے آسانی کے ساتھ مشکلات کی خوفناک موجوں کو توڑ کر نکل جاتاہے۔

اسی لئے مندرجہ بالا آیت میں در اصل دو اصول سکھائے گئے ہیں ایک خدا پر بھر و سہ کرنا جس کی طرف نماز اشارہ کرتی ہے اور دوسرا اپنی مدد آپ اور اپنے آپ پر اعتماد جسے صبر کے عنوان سے یاد کیاگیاہے۔

پا مردی ، صبر اور استقامت کے مسئلے کے بعد دوسری آیت میں شہداء کی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی کے متعلق گفتگو کی گئی ہے جس کا صبر و استقامت سے قریبی ربط ہے۔

پہلے ان لوگوں (شہداء) کو مردہ کہنے سے منع کیاگیاہے فرمایا: جو را ہ خدا میں قتل ہوں اور شربت شہادت نوش کریں انہیں کبھی مردہ نہ کہو( و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل الله اموات ) اس کے بعد مزید تاکید سے فرمایا: بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور و ادراک نہیں رکھتے( بل احیاء و لکن لا تشعرون ) ۔

عموما ہر تحریک میں ایک گروہ بز دل اور راحت طلب لوگوں کا ہوتاہے جو اپنے آپ کو ایک طرف لے جاتاہے اور کنارہ کش رہتاہے۔ یہ لوگ اتنا ہی نہیں کرتے کہ خود کام نہ کریں بلکہ دوسروں کو بھی بددل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب بھی کوئی ناخوشگوار حادثہ رونما ہوتاہے تو یہ لوگ اس پراظہار افسوس کرتے ہیں اور اسے اس تحریک اور قیام کیلئے بے فائدہ اور بے مصر ف ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ اس سے غافل ہیں کہ آج تک کوئی مقدس مقصد اور گراں قدر مشن قربانی یا قربانیوں کے بغیر حاصل نہیں ہوا اور یہ اس دنیا کی ایک سنت رہی ہے۔ قرآن کریم بار ہا ایسے لوگوں کے متعلق بات کرتاہے اور انہیں سخت سرزنش اور ملامت کرتاہے۔

اس قسم کی لوگوں کا ایک گروہ ابتدائے اسلام میں بھی تھا۔ جب کوئی شخص میدان جہاد میں شہادت کی سعادت حاصل کرتا تو یہ لوگ کہتے فلاں مرگیا اور اس کے مرنے پر اظہار افسوس کرکے دوسروں کے اضطراب کا سامان کرتے۔ خداوند عالم ایسی زہریلی گفتگو کے جواب میں ایک عظیم حقیقت سے پردہ اٹھاتاہے اور صراحت سے کہتاہے کہ تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ راہ خدا میں جان دینے والوں کو مردہ کہو۔ وہ زندہ ہیں ۔ وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اور بارگاہ خدا سے معنوی غذا اور روزی حاصل کرتے ہیں ، ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور وہ اپنی کامیاب سرنوشت سے مکمل طور پر خوش و خرم ہیں لیکن تم لوگ جو عالم مادہ کی محدود چار دیواری میں محبوس و مقید ہو ان حقائق کا ادراک نہیں کرسکتے۔

____________________

۱- نہج البلاغہ ، کلمات قصار۸۲۔

۲- المیزان ، ج۱، ص۱۵۳، بحوالہ کتاب کافی