تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78106
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78106 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیت ۱۵۸

۱۵۸ ۔إ( ِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اٴَوْ اعْتَمَرَ فَلاَجُنَاحَ عَلَیْهِ اٴَنْ یَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَإِنَّ اللهَ شَاکِرٌ عَلِیم )

ترجمہ

۱۵۸ ۔ صفا و مروہ خدا کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں لہذا جولوگ خانہ خدا کا حج کریں یا عمرہ بجالائیں ان کے لئے کوئی ہرج نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کا طواف کریں (اور سعی کریں اور مشرکین نے غیر مناسب طور پر ان پر جو بت نصب کررکھے ہیں ان سے دونوں مقامات مقدسہ کی عظمت و حیثیت میں ہرگز کوئی کمی نہیں ہوئی) اور جو لوگ حکم خدا کی بجاآوری کے لئے اعمال خیر بجالائیں خدا ن کا قدردان ہے اور ان کے کردار سے آگاہ ہے۔

شان نزول

ظہور اسلام سے قبل اور اسی طرح بعد تک بت پرست مشرکین مناسک حج ادا کرنے مکہ آتے تھے اور وہ مراسم جن کی بنیاد حضرت ابراہیم نے رکھی تھی، ان کے ساتھ کچھ خرافات اور شرک آلود افعال بھی بجالاتے تھے۔ مراسم حج میں عرفات میں قیام، قربانی، طواف اور صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا شامل تھا لیکن ان اعمال کی صورت کافی بگڑچکی تھی۔ اسلام نے پھر سے اس پروگرام کی اصلاح کی۔ صحیح اور شرک سے پاک مراسم کو تو باقی رکھا لیکن خرافات پر خط بطلان کھینچ دیا۔

ان اعمال و مناسک میں جو انجام دیے جاتے تھے دو مشہور پہاڑیوں صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا، یعنی چلنا بھی شامل تھا۔

شیعہ اور اہل تسنن دونوں کی بہت سی روایات میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے کوہ صفا پر ایک بہت بڑا بت نصب کررکھا تھا جس کا نام اساف تھا۔ کو مروہ پر ایک اور بت گاڑاگیاتھا۔ جس کا نام نائلہ تھا۔ سعی کرتے وقت وہ ان دونوں پہاڑیوں پر چڑھتے اور ان بتوں کو متبرک سمجھتے ہوئے مس کرتے ۔ مسلمان اس وجہ سے صفاء و مروہ کے در میان سعی کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ موجودہ حالات میں صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا کوئی ٹھیک بات نہیں ۔

اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی جس نے بتایا کہ صفا و مروہ اللہ کے شعائر اور نشانیوں میں اگر کچھ نادان اور بیوقوف لوگوں نے انہیں بتوں کی نجاست سے آلودہ کررکھاہے تو اس کا یہ معنی نہیں کہ مسلمان سعی جیسے فریضہ کو ترک کردیں ۔اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی۔ کچھ روایات کی بناء پر عمرة القضا (سات ہجری) کے وقت نازل ہوئی۔ اس سفر میں پیغمبر کی مشرکین کے ساتھ ایک شرط یہ تھی کہ وہ ان دونوں بتوں کو صفا و مروہ سے اٹھالیں گے انہوں نے اس شرط پر عمل کیا لیکن دوبارہ اسی جگہ نصب کردیا۔ اس وجہ سے بعض مسلمان صفا و مروہ کے در میان سعی کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ اس آیہ شریفہ نے انہیں منع کیا۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ آیت حجة الوداع (پیغمبر اکرم کے آخری حج سہ ۱۰ ھ) کے موقع پر نازل ہوئی۔ اگر یہ احتمال تسلیم کرلیا جائے۔ تو دوسری طرف یہ بھی مسلم ہے کہ اس وقت نہ صرف یہ کہ صفا و مروہ پرکوئی بت تھا بلکہ مکہ کے گردو پیش کہیں بھی بتوں کا نام و نشان تک باقی نہیں رہاتھا۔

لہذا۔ قابل تسلیم بات یہ ہے کہ صفا و مروہ کے در میان سعی کرنے میں مسلمانوں کی یہ ناراضی پہلے کی بات ہے جب ۱ ساف اور نائلہ بت ان پر رکھے ہوئے تھے۔

جاہلوں کے اعمال تمہارے مثبت اعمال میں حائل نہ ہوں

مخصوص نفسیاتی حالات میں یہ آیت نازل ہوئی، جن کا ذکر کیا جاچکاہے پہلے تو مسلمانوں کو خبر دی گئی کہ صفا و مروہ خدا کے شعائر اور نشانیوں میں سے ہیں( ان الصفا و المروة من شعائر الله ) ۔

اس مقدمہ اور تمہید کے بعد نتیجہ یوں بیان فرمایا گیاہے: جو لوگ خانہ خدا کا حج یا عمرہ بجالائیں ان کیلئے کوئی گناہ نہیں کہ وہ ان دو پہاڑیوں کے در میان طواف اور سعی کریں( فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیه ان یطوف بهما ) مشرکین نے غلط طور پر ان خدائی شعائر کو جو بتوں سے آلودہ کر ر کھاہے ان سے ان دو مقدس مقامات کی اہمیت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ آیت کے آخر میں فرمایاگیاہے: جو لوگ اطاعت خدا کے لئے نیک کام انجام دیں تو خدا بھی شاکر و علیم ہے( و من تطوع خیر فان الله شاکر علیم )

اللہ تعالی اطاعت اور نیک کاموں کی انجام دہی کے بدلے اچھے عوض کے ذریعے بندوں کے اعمال کی قدردانی کرتاہے اور شکر یہ ادا کرتاہے اور ان کی نیتوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کون لوگ بتوں سے وابستگی رکھتے ہیں اور کون ان سے بیزار ہیں ۔

صفا و مروہ:

صفا و مروہ مکہ کی دو چھوٹی سی پہاڑیوں کے نام ہیں ۔ مسجد الحرام کی توسیع کے باعث آج کل یہ مسجد کے مشرقی حصے میں حجر الاسود اور مقام ابراہیم کی سمت میں واقع ہیں ۔

یہ دونوں پہاڑیاں ایک دوسرے سے تقریبا ۴۲۰ میڑ کے فاصلے پرہیں ۔ اس وقت یہ فاصلہ ایک چھتے ہوئے بڑے ہال کی شکل میں ہے اور حجاج کرام اس چھت کے نیچے سعی کرتے ہیں ۔ صفا پہاڑی کی بلندی پندرہ میڑہے۔اور مرواکی بلندی آٹھ میٹر ہے۔

صفا اور مردہ اس وقت دو پہاڑیوں کے نام ہیں (اصطلاح میں علم کو کہتے ہیں ) لیکن لغت میں صفا کا معنی ہے مضبوط اور صاف پتھر، جس میں مٹی، ریت اور سنگریزے نہ ہوں ۔ اور مردہ کا معنی ہے مضبوط اور درشت پتھر۔

شعائر جمع ہے شعیرہ کی جس کا معنی علامت اور نشانی ہے ۔ شعائر اللہ وہ علامات ہیں جو انسان کو خدا کی یاد دلائیں اور کسی مقدس چیز کو نظروں میں نئے سرے سے اجاگر کردیں ۔

اعتمر، عمرہ کے مادہ سے ہے، جس کا معنی ہے کسی عمارت کے وہ اضافی حصے جو اس کے ساتھ ملائے جائیں تو اس کی تکمیل کا سبب بنیں ، لیکن اصطلاح شریعت میں عمرہ ان مخصوص اعمال کو کہاجاتاہے جو حج کے موقع پراضافے کے طور پر اور کبھی جداگانہ طور پر عمرہ مفردہ کے نام پرانجام دیئے جاتے ہیں ۔ عمرہ کئی ایک پہلوؤں سے حج سے مشابہت رکھتاہے۔

صفا و مروہ کے کچھ اسرار و رموز:

یہ صحیح ہے کہ عظیم لوگوں کی زندگی کے حالات پڑھنا اور سننا انسان کو کمال کی طرف لے جاتاہے لیکن اس سے زیادہ صحیح، زیادہ عمیق اور گہرا طریقہ بھی موجود ہے اور وہ ہے ان مقامات کا مشاہدہ کرنا اور دیکھنا جہاں مردان خدا نے راہ خدا میں قیام کیا اور وہ مراکز جہاں ایسے واقعات عملا رونما ہوئے۔

یہ مقامات و مراکز بذات خود زندہ اور جاندار تاریخ کی کتابیں تو خاموش اور بے جان ہیں ۔ ایسے مقاما ت پر انسان کے لئے زمانی فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور وہ خود کو اصل واقعہ میں شریک محسوس کرتاہے اور اسے یوں لگتاہے کہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہاہے۔

ایسے مشاہدات کا تربیتی اثر گفتگو اور مطالعہ کتب سے کہیں بڑھ کرہے ۔ یہ مقام احساس ہے منزل ادراک نہیں ۔ یہ مرحلہ تصدیق ہے مقام تصور نہیں اور یہ عینیت ہے ذہنیت نہیں ۔

دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عظیم پیغمبروں میں سے بہت کم ایسے ہیں جو حضرت ابراہیم کی طرح جہاد کے مختلف میدانوں اور شدید آزمائشوں سے گزرے ہوں یہاں تک کہ قرآن نے ان کے بارے میں فرمایا:

ا( ِٕنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاَءُ الْمُبِینُ )

یقینا یہ بہت واضح اور عظیم امتحان اور آزمائش ہے۔ (الصفت۔ ۱۰۶)

یہی مبارزات اور سخت آزمائشیں تھیں کہ جنہوں نے حضرت ابراہیم کی ایسے تربیت و پرورش کی کہ (امامت) کا تاج افتخار ان کے سر پر رکھاگیا۔

مراسم حج در حقیقت حضرت ابراہیم کے مبارزات کے میدانوں ،توحید، بندگی، فداکاری اور اخلاص کی منازل کی دلوں پر پوری منظر کشی کرتے ہیں ۔

ان مناسک کی ادائیگی کے وقت اگر مسلمان ان کی روح اور اسرار سے واقف ہوں اور ان کے مختلف پہلوؤں پر توجہ دیں تو یہ تربیت کی ایک بڑی درس گاہ اور خداشناسی ، پیغمبر شناسی اور انسان شناسی کا ایک مکمل دورہ ہے۔

اب ہم حضرت ابراہیم کے واقعے اور صفا و مروہ کے تاریخی پہلوؤں کی طرف لوٹتے ہیں ۔

ابراہیم بڑھاپے کی منزل کو جا پہنچے تھے مگر ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ انہوں نے خداسے اولاد کی درخواست کی۔ عالم پیری ہی میں ان کی کنیز ہاجرہ کے بطن سے انہیں فرزند عطا ہوا جس کا نام انہوں نے اسماعیل رکھا۔

آپ کی پہلی بیوی سارہ کو یہ پسند نہ تھا کہ ان کے علاوہ کسی خاتون کے بطن سے ابراہیم کو فرزند ملے۔ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ ماں بیٹے کو مکہ میں جاکر ٹھہرائیں جو اس وقت ایک بے آب و گیاہ بیابان تھا۔

ابراہیم نے حکم خدا کی اطاعت کی اور انہیں سرزمین مکہ میں لے گئے جو ایسی خشک اور بے آب و گیاہ تھی کہ وہاں کسی پرندے کا بھی نام و نشان نہ تھا۔ جب ابراہیم انہیں چھوڑ کر تنہا واپس ہولئے توان کی اہلیت رونے لگیں کہ ایک عورت اور ایک شیر خوار بچہ اس بے آب و گیاہ بیابان میں کیا کریں گے

اس خاتون کے گرم آنسو اور ادھر بچے کا نالہ وزاری۔ اس منظر نے ابراہیم کا دل ہلا کے رکھ دیا۔ انہوں نے بارگاہ الہی میں ہاتھ اٹھائے اور عرض کیا۔

خداوندا! میں تیرے حکم پر اپنی بیوی اور بچے کو اس جلادینے والے بے آب و گیاہ بیابان میں تنہا چھوڑ رہاہوں ، تا کہ تیرا نام بلند اور تیرا گھر آباد ہو۔

یہ کہہ کہ غم و اندوہ اور شدید محبت کے عالم میں الوداع ہوئے۔

زیادہ وقت نہیں گزراتھا کہ ماں کے پاس آب و غذا کا جو توشہ ختم ہوگیا اور اس کی چھاتی کا دودھ بھی خشک ہوگیا۔ شیرخوار بچے کی بے تابی اور تضرع و زاری نے ماں کو ایسا مضطرب کردیا کہ وہ اپنی پیاس بھول گئی۔ وہ پانی کی تلاش میں اٹھ کھڑی ہوئی پہلے کو ہ صفا کے قریب گئی تو پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا۔ سراب کی چمک نے اسے کوہ مروہ کی طرف کھینچا تو وہ اس کی طرف دوڑی لیکن وہاں بھی پانی نہ ملا۔ وہاں ویسی چمک صفا پر دکھائی دی تو پلٹ کرآئی۔

زندگی کی بقاء اور موت سے مقابلے کے لئے اس نے ایسے سات چکر لگائے ۔ آخر شیرخوار بچہ زندگی کی آخری سانسیں لینے لگا کہ اچانک اس کے پاؤں کے پاس انتہائی تعجب خیز طریقے سے زمزم کا چشمہ ابلنے لگا۔ ماں اور بچے نے پانی پیا اور موت جو یقینی ہوگئی تھی اس سے بچ نکلے۔

زمزم کا پانی گویا آب حیات تھا۔ ہر طرف سے پرندے اس چشمے کی طرف آنے لگے۔ قافلوں نے پرندوں کی پرواز دیکھی تو اپنے رخ اس طرف موڑدیے اور ظاہرا ایک چھوٹے سے خاندان کی فداکاری کے صلے میں ایک عظیم مرکز وجود میں آگیا۔

آج خانہ خدا کے پاس اس خاتون اور اس کے فرزند اسماعیل کا مسکن ہے۔ ہر سال تقریبا ڈیڑھ کروڑ افراد اطراف عالم سے آتے ہیں ۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ اس مسکن کو جسے مقام اسماعیل کہتے ہیں اپنے طواف میں شامل کریں گویا اس خاتون اور اس کے بیٹے کے مدفن کو کعبہ کا جزئی سمجھیں ۔

صفا و مروہ کی سعی ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ حق کا نام زندہ کرنے اور عظمت، استقلال اور آبادی کے لئے شیرخوار بچے تک کو جان کی بازی لگا دینا چاہئیے ۔ صفا و مروہ کی سعی میں یہ سبق بھی پنہاں ہے کہ نا امیدیوں کے بعد بھی کئی امیدیں ہیں اسماعیل کی والدہ جناب ہاجرہ نے وہاں پانی کی تلاش جاری رکھی جہاں وہ دکھائی نہ دیتاتھا تو خدانے بھی ایسے راستے سے انہیں سیراب کیا جس کا تصور نہیں ہوسکتا۔

صفا ومروہ ہم سے کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب ہمارے اوپر بت نصب تھے لیکن آج پیغمبر اسلام کی مسلسل کوششوں اور جد و جہد سے شب و روز ہمارے پہلو میں لا الہ الا اللہ کی صدا گو رنج رہی ہے۔

صفا و مروہ کی پہاڑیاں حق رکھتی ہیں کہ وہ فخر کریں کہ ہم پیغمبر اسلام کی تبلیغات کی پہلی منزل ہیں ۔ جب مکہ شرک کی تاریکی میں ڈوبا ہواتھا تو آفتاب ہدایت یہیں سے طلوع ہوا۔ اے صفا و مروہ کی سعی کرنے والو تمہارے دل میں یہ بات رہے کہ اگر آج ہزاروں افراد اس پہاڑی کے قریب پیغمبر کی دعوت پرلبیک کہہ رہیے ہیں تو ایک وقت وہ بھی تھا کہ نبی اکرم اس پہاڑی کے اوپرکھڑے ہو کر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دے رہے تھے اور کوئی قبول نہیں کرتا تھا۔ تم بھی حق کی راہ میں قدم اٹھاؤ اور اگر ان لوگوں کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملے جن سے مستقبل میں امید کی جاسکتی ہے تو مایوس نہ ہوجاؤ اور اپنے کام کو اسی طرح جاری رکھو۔

صفا ومروہ کی سعی ہمیں درس دیتی ہے کہ توحید کے اس مرکز اور آئین کی قدر و منزلت پہچانو کہ کتنوں نے اپنے آپ کو موت سے ہم کنار کرکے آج اس مرکز توحید کو تمہارے لئے محفوظ رکھا۔

اسی لئے خداوند عالم نے سب زائرین خانہ کعبہ پر واجب قرار دیا کہ مخصوص لباس اور مخصوص وضع قطع کے ساتھ جوہر قسم کے امتیاز اور تشخص سے پاک ہو سات مرتبہ ان امور کی تجدید کے لئے ان دو پہاڑیوں کے در میان چلیں ۔ جو لوگ کبر و غرور کی وجہ سے عام لوگوں کے گزرنے کی جگہ پر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہیں اور جو سڑکوں پر تیز رفتاری سے چلنا پسند نہیں کرتے وہی فرمان خدا کی اطاعت کے لئے کبھی آہستہ اور کبھی تیزی سے دوڑتے ہیں روایات کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں کے بارے میں دیے گئے احکامات متکبرین کو بیدار کرنے کے لئے ہیں ۔

فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بہما ولغت میں حج کا معنی قصد بیان کیاگیاہے لیکن قرآن اور احادیث میں اس کا مفہوم وہ مخصوص اعمال اور مناسک ہیں جو مسلمان مکہ میں انجام دیتے ہیں ۔

جب قرآن یہ بتاچکا کا صفا و مروہ دو عظیم نشانیاں ہیں ، لوگوں کی بندگی کا مرکز اور شعائر الہی ہیں ۔ مزید کہتاہے: جو شخص خانہ خدا کا حج کرے یا عمرہ انجام دے اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ ان دو پہاڑیوں کے در میان چکر لگائے یہ عمل طواف کے لغوی معنی کے خلاف نہیں کیونکہ کسی طرح کا بھی چلنا ہو اگر انسان واپس وہیں آجائے جہاں سے ابتداء کی تھی تو یہ طواف ہے چاہے وہ حرکت دائرہ کی صورت میں ہو جیسے خانہ کعبہ کے گرد طواف یا دائرہ کی صورت میں نہ ہو جیسے صفاو مروہ کے در میان۔

ایک سوال کا جواب:

یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ فقہ اسلامی کے نقطہ نظر سے صفا و مروہ کے در میان سعی کرنا واجب ہے چاہے حج کے اعمال بجالانا ہوں یا عمرہ کے ۔ لیکن (لا جناح) کے لفظ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ صفا و مروہ کے در میان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں اور یہ وجوب پردلالت نہیں کرتا۔

اس سوال کا جواب ان روایات سے واضح طور پر مل جاتاہے جو شان نزول کے ضمن میں بیان کی جاچکی ہیں ۔ مسلمان یہ گمان کرتے تھے کہ ان دو پہاڑیوں پر ایک عرصہ تک اساف اور نائلہ بت گڑے رہے ہیں اور کفار سعی کرتے وقت انہیں مس کرتے تھے لہذا یہ اس قابل نہیں کہ مسلمان ان کے در میان سعی کریں ۔ اس آیت میں ان سے کہا گیاہے کہ کوئی حرج نہیں تم سعی کرو چونکہ یہ پہاڑیاں شعائر اللہ میں سے ہیں ۔ لا جناح ۱

در اصل اس کراہت اور ناپسندیدگی کو واضح طور پر دور کرنے کے لئے آیاہے تا کہ اس کی اصل شرعی حیثیت واضح کرے ، علاوہ ازیں قرآن میں بہت سے واجب احکام اس انداز سے بیان ہوئے ہیں ۔ مثلا نماز مسافر کے بارے میں ہے:( وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اٴَنْ تَقْصُرُوا مِنْ الصَّلاَةِ )

اگر سفر میں ہوتو کوئی حرج نہیں کہ نماز قصر کرلو۔ (نساء ۔ ۱۰۱)

حالانکہ یہ واضح ہے کہ مسافر پر نماز قصر واجب ہے نہ یہ کہ قصر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ قاعدة لفظ (لا جناح) ان مواقع پر بولاجاتاہے جہاں سننے والے کا ذہن پہلے سے اس چیز کے بارے میں پریشان ہو اور وہ منفی احساسات رکھتاہو لہذا قرآن کی یہ روش بعض واجب احکام بیان کرنے کے بارے میں بھی ہے۔

امام باقر نے بھی ایک حدیث میں اس روش کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو کتاب من لا یحضر میں منقول ہے۔

تطوع کسے کہتے ہیں :

لغت میں تطوع کا معنی ہے اطاعت قبول کرنا اور احکام ماننا۔ عرف فقہاء میں تطوع مستحب اعمال کو کہاجاتاہے اسی بناء پر اکثر مفسرین اسے مستحب حج، عمرہ یا طواف اور ہر قسم کے نیک مستحب عمل کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔ یعنی جو شخص فرمان خدا کے تحت نیک عمل انجام دے تو خدا تعالی اس کے کام سے آگاہ ہے اور اس کے بدلے میں اسے ضرور جزادے گا۔

احتمال ہے کہ یہ لفظ گذشتہ جملوں کی تکمیل اور تاکید ہو اور تطوع سے مراد ہو وہاں اطاعت کرنا جہاں انسان کے لئے مشکل ہو۔

اس بناء پر اس جملے کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ لوگ جو حج یا عمرہ واجب میں صفا و مروہ کی سعی اس کی پوری زحمت کے ساتھ انجام دیں اور عربوں کے جاہلانہ اعمال کی وجہ سے پیدا شدہ باطنی میلان کے برخلاف اپنا حج مکمل کریں تو خداانہیں ضرور جزادے گا۔

خدا شاکر ہے کا مفہوم:

ضمنا اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئیے کہ شاکر کا لفظ پروردگار کے لئے لطیف تعبیر ہے جو خدا کی طرف سے انسان کے نیک اعمال کے انتہائی احترام کی مظہر ہے اور جب خدا بندوں کے اعمال کے پیش نظر شکرگزار ہوتاہے تو اس سے بندوں کی ایک دوسرے کے بارے میں اور خدا کے بارے میں ذمہ داری کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔

____________________

۱- (جناح، کا اصل معنی ہے ایک طرف میلان، چونکہ گناہ انسان کو حق سے منحرف اور باطل کی طرف مائل کردیتاہے اسی لئے اسے جناح کہاجاتاہے

آیت ۱۵۹

۱۵۹ ۔( إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلْنَا مِنْ الْبَیِّنَاتِ وَالْهُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اٴُوْلَئِکَ یَلْعَنُهُمْ اللهُ وَیَلْعَنُهُمْ اللاَّعِنُونَ ۱۶۰ إِلاَّ الَّذِینَ تَابُوا وَاٴَصْلَحُوا وَبَیَّنُوا فَاٴُوْلَئِکَ اٴَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاٴَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیمُ )

ترجمہ

۱۵۹ ۔ جو لوگ ان واضح دلائل اور ذرائع ہدایت کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے نازل کیا جب کہ ان لوگوں کے لئے ہم نے کتاب میں بیان کردیاہے، ان پر خدا لعنت کرتاہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت بھیجتے ہیں اور نفرین کرتے ہیں ۔

۱۶۰ ۔ مگر وہ جو توبہ کرتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں اپنے برے اعمال کی اصلاح کرکے نیک اعمال انجام دیتے ہیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے آشکار کرتے ہیں تو میں ان کی توبہ قبول کرتاہوں کہ میں تواب و رحیم ہوں ۔

شان نزول

جلال الدین سیوطی نے اسباب النزول میں ابن عباس سے نقل کیاہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ افراد جن میں معاذ بن جبل، سعد بن معاذ اور خارجہ بن زید شامل تھے نے علماء یہود سے تورات کے چند مطالب کے متعلق سوالات کئے جو پیغمبر کے ظہور سے مربوط تھے۔ انہوں نے اصل واقعے کو چھپایا اور وضاحت کرنے سے احتراز کیا۔ اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی۔(۱)

____________________

۱- لباب النقول فی اسباب النزول ص ۲۲

حقائق چھپانے والوں کی شدید مذمت

ویسے تو روئے سخن علمائے یہود کی طرف ہے لیکن اس سے آیت کاکلی اور عمومی مفہوم محدود نہیں ہوتا اور یہ سب حقائق چھپانے والوں کے لئے عام ہے۔

یہ آیت شریفہ حقائق چھپانے والوں کی شدید مذمت اور سرزنش کرتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: جو لوگ واضح دلائل اور ذرائع ہدایت کو چھپاتے ہیں جنہیں ہم نے کتاب الہی کے ذریعے نازل کیاہے اور جو ان لوگوں کے سامنے ہیں ان پر خدا لعنت بھیجتاہے اور خدا ہی نہیں بلکہ تمام لعنت کرنے والے انہیں لعنت کرتے ہیں (إ( ِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلْنَا مِنْ الْبَیِّنَاتِ وَالْهُدَی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اٴُوْلَئِکَ یَلْعَنُهُمْ اللهُ وَیَلْعَنُهُمْ اللاَّعِنُونَ ) ۔

یہ آیت بڑی عمدگی سے واضح کرتی ہے کہ خدا کے تمام بندے اور فرشتے اس کام سے بیزار ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں حق کو چھپانا ایسا عمل ہے جو حق کے تمام طرف داروں کے غم و غصے کو ابھارتا ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کیا خیانت ہوگی کہ علماء آیات خدا کو اپنے شخصی منافع کے لئے چھپائیں اور لوگوں کو گمراہ کریں جب کہ یہ ان کے پاس خدا کی امانت ہیں ۔

( من بعد ما بیناه للناس فی الکتاب ) اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے افراد در حقیقت زحمات انبیاء اور مردان خدا کی فداکاریوں کو برباد کرتے ہیں جو وہ آیات الہی کی نشر و اشاعت اور تبلیغ کے لئے انجام دیتے ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔

لفظ (یلعن ) آیت میں دو مرتبہ آیاہے۔ یہ فعل مضارع ہے اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے فعل مضارع میں استمرار کا معنی شامل ہے۔ اس بناء پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا اور مقام لعنت کرنے والے ہمیشہ ایسے لوگوں پر لعنت اور نفرین کرتے رہتے ہیں جو حقائق کو چھپاتے ہیں اور یہ شدیدترین سزاہے جو کسی انسان کو دی جاسکتی ہے۔

(بینات ) اور (هدی ) کا ایک وسیع مفہوم ہے جس سے مراد وہ تمام روشن دلائل اور ہدایت کے وسائل ہیں جو لوگوں کی آگاہی ، بیداری اور نجات کا سبب ہیں ۔

قرآن کتاب ہدایت ہے لہذا یہ کبھی لوگوں کے لئے امید اوربازگشت کا دریچہ بند نہیں کرتی۔ اس لئے بعد کی آیت میں راہ نجات اور گناہوں کی تلافی کا بھی ذکر کیاگیاہے اور اسے شدید سزا کے مقابلے میں یوں بیان کیاگیاہے: مگر وہ جو توبہ کریں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں ، اپنی برائیوں کی تلافی اور اعمال کی اصلاح کریں اور جو حقائق انہوں نے چھپا رکھے تھے لوگوں کے سامنے آشکار کردیں بے شک میں ایسے لوگوں کو بخش دوں گا اور ان کے لئے اپنی اس رحمت کی تجدید کردوں گا جو ان سے منقطع کی جاچکی ہے کیونکہ میں بازگشت کنندہ اور مہربان ہوں( الا الذین تابوا و اصلحوا و بینوا فاولئک اتوب علیهم و انا التواب الرحیم ) ۔(۳)

اگر دیکھا جائے (فاولئک اتوب علیہم) کے بعد( انا التواب الرحیم ) کا آنا توبہ کرنے والوں کے لئے پروردگار عالم کی انتہائی محبت اور کمال مہربانی پر دلالت کرتاہے۔ یعنی فرماتاہے: اگر وہ پلٹ آئیں تو میں بھی رحمت کی طرف پلٹ آؤں گا اور اپنی عنایات و نعمات جو ان سے منقطع کرچکاہوں پھر سے انہیں عطا کروں گا۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یوں نہیں کہتا کہ تم توبہ کرو تو میں تمہاری تو بہ قبول کرلوں گا بلکہ کہتاہے: تم توبہ کرو اور پلٹ آو تو میں بھی پلٹ آؤں گا۔ ان دونوں جملوں میں جو فرق ہے واضح ہے۔

علاوہ ازیں( و انا التواب الرحیم ) کے ہر لفظ اور انداز میں اتنی مہربانی اور شفقت پائی جاتی ہے کہ یہ مفہوم کسی اور عبادت میں سماہی نہیں سکتاتھا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ (انا)واحد متکلم کی ضمیر ہے جس کا معنی ہے (میں خود) یہ ایسے مقامات پر آتاہے جہاں کہنے والا براہ راست سننے والے سے ربط رکھتاہو۔ خصوصا اگر کوئی بزرگ ہستی یہ کہے کہ (میں خود یہ کام تمہارے لئے کروں گا) بجائے اس کے کہ وہ کہے (ہم اس طرح کریں گے ) تو اس میں بہت فرق ہے۔ پہلے انداز میں جو لطف و کرم ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ لفظ (تواب) بھی مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس کا معنی ہے بہت زیادہ پلٹ کرآنے والا۔ یہ انداز اس طرح امید کی روح انسان میں پھونک دیتاہے کہ اس کی زندگی کے آسمان سے یاس و ناامیدی کے سارے پردے ہٹ جاتے ہیں اور جب لفظ (رحیم) بھی ساتھ ہو جو پروردگار کی خصوصی رحمت کی طرف اشارہ ہے۔

حق کو چھپانے کے نقصانات:

وہ بات جو قدیم زمانے سے بہت مفاسد اور حق کشی کا باعث بنتی آرہی ہے اور جس کے مہلک اثرات آج تک جاری و ساری ہیں وہ ہے حق کو چھپانا۔ زیر بحث آیت اگر چہ ایک خاص واقعے کے متعلق نازل ہوئی لیکن جیسا کہ کہا جاچکاہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا مفہوم ان سب پر محیط ہے جو ایسا کچھ بھی کردار ادا کرتے ہیں ۔

جیسی منحصر بفرد تشدید و تہدید اور مذمت زیر نظر آیت میں حق کو چھپانے والوں کے لئے آئی ہے کسی اور کے لئے نہیں آئی اور کیوں نہ ہو ، کیا ایسا نہیں کہ یہ قبیح عمل قوموں اور نسلوں کو گمراہی میں مبتلا کئے رکھتاہے جیسا کہ اظہار حق امتوں کی نجات کا باعث بن سکتاہے۔

انسان فطری طور پر حق کو چاہتاہے اور جو حق کو چھپاتے ہیں وہ در حقیقت انسانی معاشرے کو فطری کمال تک پہنچنے سے سے بازرکھتے ہیں ۔ ظہور اسلام کے وقت اور اس کے بعد اگر علماء یہود و نصاری دونوں عہدوں (تورات، انجیل اور دیگر کتب مقدسہ) کی بشارتوں کو اظہار حقیقت کے طور پر افشاء کردیتے اور اس سلسلے میں وہ جو کچھ جانتے تھے لوگوں تک پہنچادیتے تو ہوسکتا تھا کہ تھوڑی سی مدت میں تینوں ملتیں ایک ہی پرچم تلے جمع ہوجاتیں اور اس وحدت کی برکات حاصل کرتیں اور یہی کام پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اہل اسلام کے بعض علماء نے انجام دیا۔ وہ حق کو چھپاتے رہے ان کی وجہ ہے ملت اختلاف کا شکار ہوئی اور اس میں شگاف پڑگئے ۔ آج تک ہم اسی کے نتیجے میں مصیبتوں میں مبتلا ہیں ۔ یقینا حق پوشی صرف اسی کا نام نہیں کہ آیات الہی اور علانات نبوت کو چھپایاجائے بلکہ اس سے مراد ہر وہ چیز چھپانا ہے جس سے لوگ حقیقت و واقعیت تک پہنچ سکتے ہیں ۔ لہذا اس کا مفہوم وسیع ہے۔

یہاں تک کہ کبھی وہاں بھی حق پوشی کا اطلاق ہوتاہے جہاں بات کرنے کی ضرورت ہو اور خاموش رہاجائے۔ یہ اس مقام کے لئے ہے جہاں لوگوں کو سخت ضرورت ہو کہ انہیں حقیقت حال سے با خبر کیاجائے اور علماء اور آگاہ دانشور اس یقینی ضرورت کو پورا کرسکتے ہوں ۔

خلاصہ یہ کہ لوگوں کو در پیش مسائل کے بارے میں حقائق کو مخفی رکھنا اس لئے کہ لوگ سوال کریں درست نہیں ۔ تفسیر المنار کے مؤلف نے بعض لوگوں کے حوالے سے یہ جو لکھاہے کہ سوال کی خاطر حقائق کو چھپایا جاسکتا ہے درست نظر نہیں آتا۔

خصوصا یہ اس بناء پر بھی صحیح نہیں ہے کہ قرآن فقط حق کو چھپانے کے مسئلے کے بارے میں گفتگو نہیں کرتا بلکہ وہ حقائق کے بیان اور اظہار کو ضروری شمار کرتاہے۔

شاید اسی اشتباہ کی وجہ سے بعض علماء نے حقائق بیان کرنے سے منہ بندکررکھے ہیں ۔ ان کا عذرہے کہ ان سے تو کسی نے سوال نہیں کیا۔ حالانکہ قرآن کہتاہے:( وَإِذْ اٴَخَذَ اللهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَتَکْتُمُونَه )

خدانے جنہیں کتاب عطا کی ہے ان سے عہد و میثاق لیاہے کہ وہ اسے ضرور لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں ۔ (آل عمران۔ ۱۸۷)

ُیہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ بعض اوقات فرعی مسائل میں سرگرم رہنا جس سے لوگ زندگی کے حقیقی مسائل کو فراموش کر بیٹھیں یہ بھی ایک قسم کی حق پوشی ہے۔ اگرچہ حق پوشی کا معنی یہ نہیں لیکن حقائق کو مخفی رکھنے کا فلسفہ اس پربھی محیط ہے۔

پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :

حادیث اسلامی میں بھی ان علماء پر شدیدترین حملے کئے گئے ہیں جو حقائق کو چھپاتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں :

من سئل عن علم یعلمه فکتم لجم یوم القیامه یلجام من النار

اگر کسی شخص سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ جانتاہے اور وہ اسے چھپائے تو قیامت کے دن آتش جہنم کی ایک لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔(۱)

جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ بعض اوقات ضرورت اور لوگوں کا کسی مسئلے میں مبتلا ہونا بذات خود سوال بن جاتاہے۔

ایک اور حدیث جو امیرالمؤمنین علی سے مروی ہے بیان کی جاتی ہے۔

لوگوں نے آپ سے پوچھا:من شر خلق الله بعد ابلیس و فرعون

ابلیس اور فرعون کے بعد بدترین خلائق کون ہے۔

امام نے جواب میں فرمایا:

العلماء اذ افسدوا هم المظهرون للا باطیل الکاتمون للحقائق و فیهم قال الله عزوجل اولئک یلعنهم الله و یلعنهم اللعنون ۔

وہ بگڑے ہوئے علماء ہیں جو باطل کا اظہار اور حق کا اخفاء کرتے ہیں یہ وہی لو گ ہیں جن کے متعلق خدا فرماتاہے : ان پر خدا کی لعنت اور تمام لعنت کرنے والوں کی نفرین ہوگی۔(۲)

____________________

۱ مجمع البیان، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲ نور الثقلین ج۳ ص۱۳۹ بحوالہ احتجاج طبرسی۔

لعنت کیا چیزہے:

لعن کا اصلی معنی ہے غصے سے دھتکارنا اور دور کرنا۔ اس بناء پر خدا کی لعنت کا یہ مطلب ہے کہ وہ بندوں سے اپنی وہ رحمت اور تمام عنایات و برکات دور کردے جو اس کی جانب سے انہیں پہنچتی ہیں ۔

”لاعنون“یعنی لعنت کرنے والے اس کا ایک وسیع معنی ہے۔ اس میں نہ صرف فرشتے اور مومنین شامل ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی ہر وہ موجود جو زبان حال یا مقال سے کلام کرتاہے اس میں داخل ہے۔ اس سلسلے کی چند روایات میں تویہاں تک ہے کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات حتی کہ دریا کی مچھلیاں بھی طالبان علم و علماء کے لئے دعائے خیر اور استغفار کرتی ہیں :و انه یستغفر لطالب العلم من فی السماء و من فی الارض حق الحوت فی البحر ۔(۱)

تو جہاں وہ موجودات طالب علموں کے لئے استغفار کرتے ہیں وہاں علم کو چھپانے والوں کے لئے یقینا لعنت بھی کرتے ہیں ۔

تواب:

اس لفظ کے بارے میں ہم بتاچکے ہیں کہ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر انسان شیطانی وسوسوں سے فریب کھا کر توبہ توڑدے تو بھی اس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں کردیاجاتا۔ چاہئیے کہ وہ پھر توبہ کرے اور خدا کی طرف پئے اور حق کو ظاہر کرے۔ کیونکہ خدا بہت زیادہ بازگشت کرنے والاہے۔ اس کی رحمت و بخشش سے کبھی مایوس نہیں ہوناچاہئیے۔

مگر لعنت خدا کافی نهیں

____________________

۱- اصول کافی، ج۱، باب ”ثواب العالم و المتعلم“ حدیث اول۔