تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78113
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78113 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۱۷۴،۱۷۵،۱۷۶

( إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُکَلِّمُهُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیم ) ( ۱۷۴)

( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَا اٴَصْبَرَهُمْ عَلَی النَّارِ ) ( ۱۷۵)

( ذَلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ نَزَّلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِی الْکِتَابِ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ ) (۱۷۶)

ترجمہ

۱۷۴ ۔ وہ لوگ جو اسے چھپاتے ہیں جسے خدانے کتاب میں نازل کیاہے اور وہ اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیتے ہیں ۔ سوائے آگ کے کچھ نہیں کماتے (یہ تحفے اور اموال جو وہ اس ذریعے سے حاصل کرتے ہیں در حقیقت ایک جلانے والی آگ ہے) اور قیامت کے دن خدا ان سے بات نہیں کرے گا۔ نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۵ ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت اور عذاب کو بخشش کی بجائے خرید لیاہے۔ عذاب الہی کے مقابلے میں واقعا یہ کتنے بے پروا ہی اور سرد مہری کا شکار ہیں ۔

۱۷۶ ۔یہ (سب کچھ) اس لئے ہے کہ خدانے (آسمانی) کتاب کو حق (کی نشانیوں اور واضح دلائل ) کے ساتھ نازل کیا ہے اور جو اس میں اختلاف کرتے ہیں (اور حق کو چھپاتے ہیں اور اس میں تحریف کرکے اختلاف پیدا کرتے ہیں ) گہرےشگاف (اور پراگندگی) میں پڑے ہیں ۔

شان نزول

تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیات اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ بیشتر مفسرین کا کہناہے کہ یہ آیات خاص طور پر ان علماء یہود کے بارے میں ہیں جو پیغمبر اسلام کے ظہور سے پیشتر لوگوں کو اپنی کتابوں میں سے آپ کی صفات اور نشانیاں بیان کرتے تھے لیکن ظہور پیغمبر کے بعد جب انہوں نے لوگوں کو آپ کی طرف مائل و راغب ہوتے ہوئے دیکھا تو خود فزوہ ہوگئے کہ اگر انہوں نے اپنی روش کو برقرار رکھا تو ان کے منافع خطرے میں پڑجائیں گے اور وہ تحفے اور دعوتیں جو انہیں مہیا ہیں ختم ہوجائیں گی تو وہ پیغمبر کے وہ اوصاف جو تورات میں نازل ہوچکے تھے چھپانے لگے۔ اس پرمندرجہ بالا آیت نازل ہوئیں اور ان کی سخت مذمت کی گئی۔

دوبارہ حق پوشی کی مذمت

حق کو چھپانے کے بارے میں جو موضوع اسی سورہ کی آیہ ۱۵۹ میں گزرچکاہے۔ زیر نظر آیات اس کی تاکید میں ہیں اگرچہ ان میں روئے سخن علمائے یہود کی طرف ہے لیکن جیسا بارہا یاد دھانی کرائی جاچکی ہے کہ آیات کا مفہوم کسی مقام پر بھی شان نزول سے مخصوص نہیں ہے۔ شان نزول تو حقیقت میں کلی اور عمومی مفہوم بیان کرنے کا ذریعہ ہے اور آیات کا ایک مصداق ہے۔ لہذا وہ تمام افراد جو احکام خدا اور لوگوں کی ضرورت کے حقائق کو چھپاتے ہیں اور مقام و مرتبہ یا دولت و ثروت کے حصول کے لئے اس عظیم خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں انہیں جان لینا چاہئیے کہ انہوں نے گراں بہا حقیقت ناچیز قیمت کے بدلے بیچ دی ہے کیونکہ حق پوشی کا ساری دنیا سے بھی مقابلہ کیاجائے تو سود اخسارے کا ہی ہوگا۔

زیر نظر پہلی آیت میں ارشاد ہوتاہے: وہ لوگ جو خدا کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اسے معمولی قیمت پر بیچ دیتے ہیں آگ کے علاوہ کچھ نہیں کماتے (إ( ِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ ) ۔واقعا اس طرح سے جو ہدیے وہ حاصل کرتے ہیں اور مال دمنال کماتے وہ جلانے والی آگ ہے جو ان کے اندر داخل ہوتی ہے۔

ضمنا یہ تعبیر آخرت میں تجسم اعمال کے مسئلے کو دوبارہ واضح کرتی ہے اور نشاندہی کرتی ہے کہ وہ مال حرام جو اس طرح ہاتھ آتاہے آگ ہے جو ان کے دلوں میں داخل ہوتی ہے اور قیامت میں و ہ حقیقی شکل میں مجسم ہوگی۔

اس کے بعد ان کی ایک معنوی سزا کو بیان کیا گیاہے جو مادی سزاسے کہیں زیادہ دردناک ہے۔ ارشاد ہوتاہے: خدا قیامت کے دن ان سے بات نہیں کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے( وَلاَیُکَلِّمُهُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) إِنَّ الَّذِینَ یَکْتُمُونَ مَا اٴَنزَلَ اللهُ مِنْ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِیلًا اٴُوْلَئِکَ مَا یَاٴْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ إِلاَّ النَّارَ وَلاَیُکَلِّمُهُمْ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلاَیُزَکِّیهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ )

جن لوگوں نے عہد الہی اور اپنی قسموں کو تھوڑے سے فائدے کی خاطر توڑ ڈالا ہے۔ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں قیامت کے دن اللہ ان سے بات کرے گا نہ ان پرنگاہ لطف ڈالے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔

اس آیت اور محل بحث آیت سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ بڑی روحانی لذت او رعطائے الہی ہے کہ آخرت میں خدا اہل ایمان سے اپنے لطف و کرم سے بات کرے گا۔ یہ وہ مقام ہے جو اس دنیا میں خدا کے پیغمبروں کوحاصل تھا۔ وہ پروردگار سے ہمکلام ہونے کی لذت سے بہرہ مندتھے۔ اہل ایمان اس جہان میں اس نعمت سے سرفراز ہوں گے۔ علاوہ ازیں خدا ان پر نظر الطاف فرمائے گا اور عفو و رحمت کے پانی سے ان کے گناہ دھو ڈالے گا اور انہیں پاک و پاکیزہ بنادے گا۔ اس سے بڑھ کر کیا نعمت ہوسکتی ہے۔ واضح ہے کہ خدا کی گفتگو یہ مفہوم نہیں کہ خدا زبان رکھتاہے اور اس کا جسم ہے بلکہ وہ اپنی بے پایاں قدرت کے ذریعے فضامیں آواز کی لہریں پیدا کردے گا جو سمجھنے اور سننے کے قابل ہوں گی (جیسے وادی طور میں حضرت موسی سے گفتگو ہوئی تھی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ الہام کے ذریعے ، دل کی زبان سے وہ اپنے مخصوص بندوں سے بات کرے گا۔

بہرحال پروردگار کا یہ عظیم لطف و کرم اور اہم معنوی او روحانی لذت ان پاکیزہ بندوں کے لئے ہے جو زبان حق گو رکھتے ہیں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے ہیں ۔ اپنے عہد و پیمان کی پاسداری کرتے ہیں اور وہ ان چیزوں کو حقیر مادی فوائد پر قربان نہیں کرتے۔

یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ قرآن کی بعض آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ قیامت کے دن خدا کچھ مجرمین اور کفار سے باتیں کرے گا۔( مثلا قال احسنوا فیها و لا تکلمون )

دور ہوجاؤ، جہنم کی آگ میں دفع ہوجاؤ اور اب مجھ سے بات نہ کرو۔ (مومنون ۔ ۱۰۸)

یہ گفتگو خدا ان لوگوں سے کرے گا جو آتش جہنم سے چھٹکارے کی درخواست کریں گے اور کہیں خداوندا! ہمیں اس سے نکال دے اور اگر ہم دوبارہ پلٹ گئے تو ہم ظالم و ستمگار ہیں (جاثیہ۔ ۳۰،۳۱) ۔ اسی طرح مجرمین کے ساتھ بھی خدا کی گفتگو نظر آتی ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ محل بحث آیات میں گفتگو کرنے سے مراد وہ گفتگو جو محبت اور خاص لطف و کرم سے ہوگی۔ اس سے حقارت سے ٹھکرانے اور راندہ درگاہ کرنے اور سزا کے طور پر خطاب مراد نہیں جو بذات خو د ایک دردناک عذاب ہے۔

یہ نکتہ بھی زیادہ وضاحت کا محتاج نہیں کہ یہ جو فرمایا گیاہے کہ آیات الہی کو کم قیمت پر نہ بیچو تو اس سے یہ مراد نہیں کہ زیاد ہ قیمت پر بیچو بلکہ مقصد یہ ہے کہ حق پوشی کے مقابلے میں جو چیز بھی لی جائے وہ بے قدر و قیمت ، ناچیز اور حقیر ہے۔

بعد کی آیت اس گروہ کی کیفیت کو زیادہ واضح طور پر بیان کرتی ہے اور اس کے نقصان دہ انجام اور نتیجہ کا کی خبر دیتی ہے۔ ارشاد ہے: یہ ایسے لوگ ہیں جو گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور عذاب کو بخشش کے عوض خرید لیتے ہیں( اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ) ۔

اس طرح وہ دو طرفہ نقصان اور خسارے میں گرفتار ہوئے ہیں ۔ ایک طرف ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی انتخاب کرنا اور دوسری طرف رحمت و بخشش الہی کو ہاتھ سے دے کر اس کی جگہ دردناک عذاب خدا کو حاصل کرنا اور یہ ایسا سوداہے کہ کوئی عقلمند آدمی اس کے پیچھے نہیں جاتا۔

اسی لئے آیت کے آخر میں مزید فرماتاہے: واقعا تعجب کی بات ہے کہ (وہ عذاب خدا کے سامنے کتنی بیباکی اور) سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہیں( فما اصبرهم علی النار ) ۔

زیر بحث آخری آیت میں فرمایا گیاہے: یہدھمکیاں اور عذاب کی و عیدیں جو حق کو چھپانے والوں کے لئے بیان کی گئی ہیں اس لئے ہیں کہ خدانے آسمانی کتاب قرآن کو حقیقت اور واضح دلائل کے ساتھ نازل کیاہے تا کہ ان خیانت کاروں کے لئے کسی شک اور ابہام کی گنجائش باقی نہ رہے( ذالک بان الله نزل الکتب بالحق ) ۔

اس کے با وجود لوگ نہیں چاہتے کہ اپنے مادی فوائد کی خاطر اس برے عمل سے دست بردار ہوں وہ تو جیہ و تحریف میں مشغول رہتے ہیں اور اپنی آسمانی کتب میں اختلاف پیدا کرتے ہیں تا کہ بزعم خود پانی کو گدلا کرکے اس میں سے مچھلیاں پکڑ سکیں ۔ اور ایسے لوگ جو کتاب آسمانی میں اختلاف پیدا کرتے ہیں حقیقت سے کافی دور ہیں( و ان الذین اختلفوا فی الکتاب لفی شقاق بعید ) ۔

لفظ شقاق کا معنی ہے شگاف اور جدائی۔ یہ تعبیر شاید اس طرف اشارہ ہوکہ ایمان و تقوی اور اظہار حق انسانی معاشرے میں وحدت و اتحاد کی رمز ہے جب کہ کفر و خیانت اور اخفائے حقائق پراگندگی ، جدائی اور شگافتگی کا سبب ہے اور اس سے مراد سطحی جدائی اور شگاف نہیں کہ جس سے صرف نظر کیاجاسکے بلکہ ایسی جدائی، پراگندگی اور شگاف ہے جس میں گہرائی ہو۔

آیت ۱۷۷

( لَیْسَ الْبِرَّ اٴَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَکمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلاَئِکَةِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ وَآتَی الْمَالَ عَلَی حُبِّهِ ذَوِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَابِ وَاٴَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَی الزَّکَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِینَ فِی الْبَاٴْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِینَ الْبَاٴْسِ اٴُوْلَئِکَ الَّذِینَ صَدَقُوا وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُتَّقُون )

ترجمہ

۱۷۷ ۔ نیکی یہی نہیں کہ (نماز کے وقت) اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو اور تمام گفتگو قبلہ اور اس کی تبدیلی کے بارے میں کرتے رہو اور اپنا سارا وقت اسی میں صرف کردو) بلکہ نیکی (اور نیکوکار) وہ لوگ ہیں جو خدا، روز قیامت، ملائکہ، آسمانی کتاب اور انبیاء پر ایمان لے آئیں اور (اپنا) مال اس سے پوری محبت کے با وجود رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں ، ضروتمند مسافروں ، سوال کرنے والوں اور غلاموں پرخرچ کریں ، نماز قائم کریں ، زکوة اداکریں ، جب عہد و پیمان باندھیں تو اسے پورا کریں اور بے کسی، محرومی، بیماری اور میدان جنگ غر ض ہر عالم میں استقامت و صبر کا مظاہرہ کریں یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بولتے ہیں (اور ان کی گفتار، کردار اور اعتقاد میں ہم آہنگی ہے) اور یہی پرہیزگار ہیں ۔

شان نزول

قبلہ کی تبدیلی سے عام لوگوں میں بالعموم اور یہود و نصاری میں بالخصوص شور و غوغا بپا ہوگیا تھا ارو یہودیوں کے نزدیک یہ بڑی سند افتخار تھی ( کہ مسلمان ان کے قبلہ کی پیروی کرتے ہیں ) اور اب یہ ہاتھ سے جاتی رہی تھی لہذا انہوں نے زبان اعتراض دراز کی ۔ قرآن نے اس سورہ کی آیت ۱۴۲ ۔ سیقول السفھاء۔ میں اسی طرف اشارہ کیاہے۔ مندرجہ بالا آیت اس کی تائید میں نازل ہوئی جس میں کہاگیاہے کہ قبلہ کے مسئلے پر اتنی باتیں بنانا صحیح نہیں ہے بلکہ اس سے اہم تر مسائل ہیں جن کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس آیت میں ان مسائل کی تشریح بھی کی گئی ہے۔

تمام نیکیوں کی اساس

جیسا کہ قبلہ کی تبدیلی سے متعلق آیات کے ذیل میں گذر چکاہے عیسائی عبادت کے وقت مشرق کی طرف اور یہودی مغرب کی طرف منہ کیا کرتے تھے لیکن مسلمانوں کے لئے اللہ تعالی نے کعبہ کو قبلہ قرار دیا۔ جو ان دونوں کے دمیان واقع ہے اور اس علاقے میں جنوب کی طرف تھا۔ ہم نے یہ بھی ملاحظہ کیا کہ مخالفین اسلام ایک طرف سے شور بلند کرتے تھے اور نو وارد مسلمان دوسری طرف متحیر تھے۔ مندرجہ بالا آیت کاروئے سخن ان دونوں کی طرف ہے فرمایا: نیکی صرف یہ نہیں کہ نماز کے وقت منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو اور اپنا سارا وقت اسی مسئلے پر بحث کرتے گزار دو (لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب)۔

بر (بروزن ضد) ۔ اس کا اصل معنی وسعت ہے۔ بعد ازاں نیکیوں ، خوبیوں اور احسان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کیونکہ یہ امور وجود انسانی میں محدود نہیں رہتے بلکہ وسعت پیدا کرکے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی ان سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔لفظ بر (بر وزن نر) وصفی پہلو رکھتاہے۔ اس کا معنی ہے وہ شخص جو نیکوکار ہو۔ اصل میں اس کا معنی ہے بیابان اور وسیع مکان چونکہ نیکوکار روحانی وسعت اور کھلے دل کا حامل ہوتاہے۔ اس لئے اس خصوصیت کا اس پر اطلاق ہوتاہے۔

اس کے بعد ایمان، اخلاق اور عمل کے لحاظ سے نیکیوں کے اہم ترین اصول چھ عنوانات کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں ۔ فرمایا: لیکن نیکی (اور نیک افراد) وہ لوگ ہیں جو خدا،روز قیامت، ملائکہ، آسمانی کتب اور انبیاء پر ایمان لے آئے ہیں( و لکن البر امن باالله و الیوم الاخر و الملائکة و الکتب و النبیین ) ۔

نیکیوں اور خوبیوں کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ انسان ایمان لائے مبداء و معاد پر، تمام خدائی پروگراہوں پر، پیغمبروں پر (جو ان پروگراموں کی تبلیغ و اجراء پر مامور تھے) اور فرشتوں پر (جو اس دعوت کی تبلیغ کا واسطہ شمار ہوتے ہیں ) یہ وہ اصول ہیں جن پر ایمان لانے سے انسان کا سارا وجود روشن ہوجاتاہے اور یہی ایمان تمام اصلاحی پروگراموں اور اعمال صالح کی طرف تحریک پیدا کرنے کے لئے قوی عامل ہے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ نیکوکار وہ لوگ ہیں بلکہ فرمایا: نیکی۔ وہ لوگ ہیں ، یہ اس لئے کہ او بیات عرب میں جب کسی چیز میں مبالغے اور تاکید کے آخری ورجے کو بیان کرنا ہوتو اسے مصدر کی شکل میں لاتے ہیں نہ کہ صفت کے طور پر کہتے ہیں ۔ مثلا کہاجاتاہے کہ حضرت علی عالم، انسانیت کا عدل ہیں ۔ یعنی آپ ایسے عدالت پیشہ تھے کہ گویا سراپا عدل تھے اور سر سے پاؤں تک عدالت میں ڈوبے ہوئے تھے اس طرح کہ اگر آپ کی طرف نگاہ کی جائے تو عدل کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اسی طرح ان کے مقابل میں کہاجاتاہے کہ بنی امیہ ذلت اسلام ہیں گویا ان کا پورا وجود ذلت و خواری میں ڈھل چکاتھا۔ اس لئے زیر نظر تعبیر سے ایمان محکم اور ایمان کی بلندتر قوت و طاقت مراد ہے۔ایمان کے بعد انفاق، ایثار اور مالی بخششوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: چاہت و محبت کے با وجود اپنا مال رشتہ داروں یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں ، سائلوں اور غلاموں کو دیدیتے ہیں( و اتی المال علی حبه ذوی القربی و الیتمی و المسکین و ابن السبیل و السائلین و فی الرقاب ) ۔

اس میں شک نہیں کہ مال و دولت کی پرواہ نہ کرنا سب کے لئے آسان کام نہیں خصوصا جب مقام ایثار ہو۔ کیونکہ اس کی محبت سب دلوں میں ہے۔ ”علی حبہ“ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اس دلی خواہش کے با وجود استقامت دکھاتے ہیں اور خدا کے لئے اس خواہش سے صرف نظر کرلیتے ہیں ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں حاجت مندوں کے چھ طبقے بیان کئے گئے ہیں ۔ پہلے درجے میں وابستگان اور آبرومند رشتہ دار ہیں ، دوسرے طبقے میں یتیم اور مسکین ہیں ۔ اس کے بعد وہ ہیں جن کی ضرورت وقتی ہے۔ مثلا جن کا خرچ سفر میں ختم ہوجائے۔ اس کے بعد سائلین کا تذکرہ ہے۔ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ تمام ضرورت مند سوال نہیں کیا کرتے بلکہ بعض ایسے غیرت مند ہیں جو ظاہرا اغنیاء کی طرح ہیں جب کہ باطنی طور پر بہت ضرورت مند ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن ایک اور مقام پر کہتاہے:( یَحْسَبُهُمْ الْجَاهِلُ اٴَغْنِیَاءَ مِنْ التَّعَفُّفِ ) نا واقف لوگ ان کی عفت و پاکدامنی کی وجہ سے انہیں اغنیاء اور تونگر خیال کرتے ہیں ۔(بقرہ۔ ۲۷۳)

آخر میں غلاموں کا ذکر ہے کہ اگر چہ ظاہرا ان کی مادی ضروریات ان کے مالک کے ذریعے پوری ہورہی ہوتی ہیں لیکن وہ آزادی و استقلال کے محتاج ہیں ۔

نیکیوں کی تیسری بنیاد قیام نماز شمار کی گئی ہے( و اقام الصلوة ) نماز تمام شرائط اور اخلاص و خضوع سے ادا کی جائے تو انسان کو ہر قسم کے گناہ سے باز رکھتی ہے اور خیر و سعادت کا شوق پیدا کرتی ہے۔

چوتھا پروگرام زکوة اور دیگر واجب مالی حقوق کی ادائیگی ہے (و اتی الزکوة) ۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کئی مقامات پر ضرورت مندوں کی مدد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن واجب حقوق کی ادائیگی میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں ۔ ان کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو واجب حقوق کے علاوہ اور کسی قسم کی مدد کو تیار نہیں ہوتے اور وہ ایک پیسہ بھی کسی ضرورت مند کو دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ زیر بحث ، آیت میں ایک طرف مستحب امور پر خرچ کرنے والوں اور دوسری طرف واجب حقوق اداکرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے دونوں کو نیک لوگوں کی صف سے نکال دیتی ہے اور حقیقی نیک اسے قرار دیتی ہے جو اپنی ذمہ داری دونوں میدانوں میں اداکرے۔

یہ امر قابل توجہ ہے کہ مستحب خرچ کے سلسلے میں علی حبہ (با وجود یکہ مال و ثروت سے محبت رکھتے ہیں ) کا ذکر ہے لیکن واجب زکوة کے ضمن میں یہ بات نہیں کیونکہ واجب مالی حقوق کی ادائیگی ایک الہی و اجتماعی ذمہ داری ہے اور منطق اسلام کے روسے اصولی طور پر حاجت مند زکوة اور دیگر واجبات کی مقدار کے مطابق دولت مندوں کے اموال میں شریک ہیں اور شریک کو اس کے مال کی ادائیگی کے لئے ایسی تعبیر کی ضرورت نہیں ۔

پانچویں خصوصیت ایفائے عہد و پیمان گردانی گئی ہے۔ فرمایا: وہ لوگ جو وعدہ کرلیں تو اپنے عہد و پیمان کو بنھاتے ہیں (و الموفون بعہد ہم اذا اعہدوا) کیونکہ باہمی اعتماد اجتماعی زندگی کا سرمایہ ہے۔ وہ گناہ جو اطمینان اور اعتماد کے رشتے کو توڑ پھوڑدیتے ہیں اور اجتماعی روابط کی بنیاد کو نیچے سے کمزور کردیتے ہیں ان میں وعدے کی عدم پاسداری ہے۔ اسی لئے اسلامی روایات میں مسلمانوں کی ذمہ داری بتائی گئی ہے کہ وہ تین امور سب لوگوں کے بارے میں انجام دیں چاہے ان کے سامنے مسلمان ہو یا کافر اور نیک ہو یا بد، وہ تین چیزیں یہ ہیں ۔

۱ ۔ ایفائے عہد

۲ ادائے امانت اور

۳ ۔ ماں باپ کا احترام

ان نیک لوگوں کی چھٹی بات یہ بتائی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو محرومیت ، فقر و فاقہ، بیماری اور رنج و مصیبت کے وقت اور اسی طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان سخت حوادث کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے( و الصابرین فی الباساء و الضراء و حین الباس ) (۱) ۔

آیت کے آخر میں بات کو مجتمع کرتے ہوئے اور ان چھ بلند صفات پر تاکید کے طور پر فرماتاہے: یہ وہ لوگ ہیں جو سچ بات کرتے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں( اولئک الذین صدقوا و اولئک هم المتقون ) ۔

ان کی راست گوئی تو یہاں سے واضح ہوتی ہے کہ ان کے اعمال اور ان کا کردار ہر طرح سے ان کے اعتماد اور ان کے ایمان سے ہم آہنگ ہے۔ ان کا تقوی و پرہیزگاری اس بات سے عیاں ہے کہ وہ ضرورتمندوں ، محروموں ، انسانی معاشرہ اور اپنی ذات کے بارے میں اپنی الہی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتے ہیں ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ مندرجہ بالا چھ برجستہ صفات اصول اعتقاد و اخلاق اور عملی پروگراموں پر مشتمل ہیں ۔ اصول اعتقاد کے سلسلے میں تمام بنیادی امور کا تذکرہ ہے اور عملی پروگراموں میں سے انفاق ، نماز اور زکوة کا ذکر ہے جو مخلوق کے خالق ہے اور مخلوق کے مخلوق سے رابطے کا نمونہ ہے۔ اخلاقی امور میں سے ایفائے عہد اور استقامت و پائداری کا تذکرہ ہے جو تمام تر اعلی اخلاق کی بنیاد ہے۔

____________________

۱ باساء کا مادہ ہے بوس، اس کا معنی ہے فقر و فاقہ، فقراء کا معنی ہے درد و بیماری اور حین الباس کا معنی ہے وقت جنگ ( البیان ، زیر بحث آیت کے ذیل میں )۔