تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78110
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78110 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

آیات ۱۷۸،۱۷۹

۱۷۸ ۔( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاٴُنثَی بِالْاٴُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ اٴَخِیهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاٴَدَاءٌ إِلَیْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیفٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ )

۱۷۹ ۔( وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَااٴُوْلِی الْاٴَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ )

ترجمہ

۱۷۸ ۔اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں حکم قصاص تمہارے لئے لکھ دیاگیاہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ، پس اگر کوئی اپنے (دینی) بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور حکم قصاص خونبہا سے بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور دیت کی وصولی میں دیت دینے والے کی حالت کو پیش نظر رکھے) اور قاتل بھی ولی مقتول کو اچھے طریقے سے دیت ادا کرے (اور اس کی ادائیگی میں حیل و حجت سے کام نہ لے) تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو تجاوز کرے اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

۱۷۹ ۔اور قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے، اے صاحبان عقل و خرد! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی راہ اختیار کرنا چاہئیے۔

شان نزول

زمانہ جاہلیت کے عربوں کی عادت تھی کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی قتل ہوجاتا تو وہ پختہ ارادہ کرلیتے کہ حق المقدور اس کا انتقام لیں گے اور یہ فکر یہاں تک آگے بڑھ چکی تھی کہ وہ تیار رہتے کہ ایک شخص کے بدلے قاتل کا سارا قبیلہ قتل کرڈالیں مندرجہ بالا آیت کے ذریعے قصاص کا عادلانہ حکم بیان کیاگیا۔

اس زمانے کے دو مختلف دستوروں میں اسلام کا یہ حکم حد وسط تھا۔ اس دور میں بعض لوگ قصاص کو ضروری سمجھتے تھے اور اس کے علاوہ کسی چیز کو جائز اور درست نہ جانتے تھے جب کہ بعض لوگ صرف دیت اور خونبہا کو ضروری خیال کرتے تھے۔ اسلام نے مقتول کے اولیاء کے راضی نہ ہونے کی صورت میں قصاص کا حکم دیا اور طرفین کی رضا اور قصاص کی معانی پردیت کو ضروری قرار دیا۔

قصاص تمہاری حیات کا سبب ہے

ان آیات سے لے کر آگے کی کچھ آیات تک احکام اسلام کے ایک سلسلے کو واضح کیاگیاہے ۔ گذشتہ آیات نیکی کے بارے میں تھیں اور ان میں کچھ اسلامی پروگراموں کی وضاحت بھی کی گئی تھی۔ زیر نظر آیات اس سلسلہ بیان کی تکمیل کرتی ہیں ۔

سب سے پہلے احترام خون کی حفاظت کا مسئلہ بیان کیاگیاہے جو ربط معاشرہ کے ضمن میں بہت اہمیت رکھتاہے۔

اسلام کا یہ حکم جاہلیت کے رسم و رواج پر خط بطلان کھینچتاہے۔ مومنین کو مخاطب کرکے فرمایاگیاہے: اے ایمان والو! مقتولین کے بارے میں قصاص کا حکم تمہارے لئیے لکھ دیاگیاہے (یا ایہا الذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی)۔

قرآن کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی لازم الاجراء قوانین کو ”کتب علیکم“ (تم پر لکھ دیا گیاہے) کے الفاظ سے بیان کرتاہے۔ مندرجہ بالا آیت بھی انہی میں سے ہے۔ آئندہ کی آیات جو وصیت اور روزہ کے بارے میں ہیں ، میں بھی یہی تعبیر نظر آتی ہے۔ بہرحال یہ الفاظ اہمیت اور تاکید مطلب کو پورے طور پر اداکرتے ہیں کیونکہ ہمیشہ ان الفاظ کو رقم کیا جاتاہے جو نگاہ قدر و قیمت میں قطعیت رکھتے ہوں ۔

قصاس مادہ قص (برو زن سد) سے ہے۔ اس کا معنی ہے جستجو اور کسی چیز کے آثار کی تلاش کرنا اور جو چیز پے در پے اور یکے بعد دیگرے آئے اسے قصہ کہتے ہیں چونکہ قصاص ایسا قتل ہے جو پہلے قتل کے بعد قرار پاتاہے اس لئے یہاں یہ لفظ استعمال کیاگیاہے۔

جیسا کہ شان نزول میں اشارہ ہوچکاہے یہ احکام افراط و تفریط کے ان رویوں کے اعتدال پر لانے کے لئے ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کسی قتل کے بعد رونما ہوتے تھے۔ لفظ قصاص اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ اولیاء مقتول حق رکھتے ہیں کہ وہ قاتل سے وہی سلوک کریں جس کا وہ ارتکاب کرچکاہے لیکن آیت یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ آیت کا آخری حصہ مساوات کے مسئلہ کو زیادہ واضح کرتاہے۔ ارشاد ہوتاہے: آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت( الحر و العبد بالعبد و الانثی بالانثی ) ۔

بعد میں ہم واضح کریں گے کہ یہ مسئلہ مرد کے خون کی عورت کے خون پر برتری کی دلیل نہیں ہے بلکہ قاتل مردے بھی (خاص شرائط کے ساتھ) مقتول عورت کے بدلے قصاص لیاجاسکتاہے۔

اس کے بعد یہ واضح کرنے کے لئے کہ قصاص اولیاء مقتول کا ایک حق ہے مگر یہ کوئی الزامی حکم نہیں ہے بلکہ اگر اولیاء مائل ہوں تو قاتل کو بخش سکتے ہیں اور خون بہالے سکتے ہیں یا چاہیں تو خون بہا بھی نہ لیں ۔ مزید فرمایا کہ اگر کوئی اپنے دینی بھائی کی طرف سے معاف کردیاجائے (اور قصاص کا حکم طرفین کی رضا سے خون بہامیں بدل جائے) تو اسے چاہئیے کہ پسندیدہ طریقے کی پیروی کرے (اور اس خون بہاکے لینے میں دوسرے پر سختی و تنگی روانہ رکھے) اور ادا کرنے دالا بھی دیت کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے( فمن عفی له من اخیه شیئ فاتباع بالمعروف و اداء الیه باحسان ) ۔

ایک طرف اولیاء مقتول کو وصیت کی گئی ہے کہ اب اگر اپنے بھائی سے قصاص لینے سے صرف نظر کرچکے ہو تو خونبہا لینے میں زیادتی سے کام نہ لو شائستہ اور اچھے طریقے سے اور عدل کو پیش نظر رکھتے ہوئے جسے اسلام نے ضروری قرار دیا ہے ایسی اقساط میں جن میں وہ ادائیگی کی قدرت رکھتاہے وصول کرو۔

دوسری طرف ”اداء الیہ باحسان“ کے جملے میں قاتل کو بھی وصیت کی گئی ہے کہ وہ خونبہا کی ادائیگی میں نیکی اور اچھائی کی روش اختیار کرے اور بغیر کسی غفلت کے کامل اور بر محل ادا کرے۔ اس طرح دونوں کے لئے ذمہ داری اور راستے کا تعین کردیاگیاہے۔

آیت کے آخر میں بطور تاکید اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جس کسی کی طرف سے حدسے تجاوز کیاجائے گا وہ شدید سزا کا مستحق ہوگا۔ فرمایا: تمہارے پروردگار کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اور اس کے بعد بھی جو شخص حدسے تجاوز کرے، تو دردناک عذاب اس کے انتظار میں ہے( ذالک تخفف من ربکم و رحمة ”فمن اعتدی بعد ذالک فله عذاب الیم ) ۔

انسانی اور منطقی نقطہ نظر سے قصاص اور عفو کا یہ ایک عادلانہ دستور ہے۔ ایک طرف اس حکم سے زمانہ جاہلیت کی فاسد روش کو غلط قرار دیاگیاہے۔ اس دور میں لوگ قصاص کے لحاظ سے کسی قسم کی برابری کے قائل نہ تھے اور ہمارے زمانے کے جلادوں کی طرح ایک شخص کے بدلے سینکڑوں افراد کو خاک و خون میں لوٹا دیتے تھے۔ دوسری طرف لوگوں کے لئے عفو و بخشش کا راستہ کھول دیاہے۔ اس حکم میں احترام خون میں کمی نہیں آنے دی گئی اور قاتلوں میں جسارت و بے باکی پیدا نہیں ہونے دی گئی اور اس آیت کا چوتھا پہلو یہ ہے کہ کہ معاف کرنے اور خون بہا لینے کے بعد طرفین میں سے کوئی بھی تجاوز کا حق نہیں رکھتا جب کہ زمانہ جاہلیت میں اولیاء مقتول معاف کردینے اور خونبہا لینے کے با وجود بعض اوقات قاتل کو قتل کردیتے تھے

بعد کی آیت مختصر اور پر معنی عبارت سے مسئلہ قصاص سے متعلق بہت سے سوالوں کا جواب دیتی ہے۔ ارشاد ہوتاہے: اے صاحبان عقل و خرد ! قصاص تمہارے لئے حیات بخش ہے ، ہوسکتا ہے تم تقوی و پرہیزگاری اختیار کرلو( و لکم فی القصاص حیاة یا اولی الالباب لعلکم تتقون ) ۔

دس الفاظ پر مشتمل یہ آیت انتہائی فصیح و بلیغ ہے یہ ایک شعار اسلامی کی صورت میں ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے ۔ یہ بڑی عمدگی سے نشاندہی کرتی ہے کہ اسلامی قصاص میں کسی قسم کا انتقامی پہلو نہیں بلکہ یہ حیات و زندگی کی طرف کھلنے والا ایک دریچہ ہے۔

ایک طرف تو یہ معاشرے کی حیات ہے کیونکہ اگر قصاص کا حکم کسی طور پر بھی موجود نہ ہوتا اور سنگدل لوگ بے پرواہ ہوتے تو بے گناہ لوگوں کی جان خطرے میں رہتی۔ جن ملکوں میں قصاص کا حکم ختم کردیا گیاہے وہاں قتل کی وارداتوں میں تیزی سے اضافہ ہوگیاہے۔ دوسری طرف یہ حکم قاتل کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ قصاص کا تصور اسے قتل انسانی کے ارادے سے کافی حد تک بازرکھے گا اور اسے کنٹرول کرے گا۔ تیسری طرف برابری کا لزوم پے در پے کئی افراد کے قتل کو روکے گا۔ اور زمانہ جاہلیت کے ان طور طریقوں کو ختم کردے گا جن میں ایک قتل کے بدلے کئی افراد کو قتل کردیا جاتاتھا اور پھر اس کے نتیجے میں آگے بہت سے افراد قتل ہوتے تھے اور اس طرح سے یہ حکم معاشرے کی زندگی کا سبب ہے۔

اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ قصاص کا مطلب ہے معاف نہ کرنا۔ یہ خود ایک دریچہ حیات کھلنے کے مترادف ہے نیز لعلکم تتقون ہر قسم کے تجاوز و تعدی سے پرہیز کرنے کے کئے تنبیہ ہے جس سے اسلام کے اس حکیمانہ حکم کی تکمیل ہوتی ہے۔

قصاص عفو ایک عادلانہ نظام ہے:

ہر مقام و محل پر اسلام مسائل کی واقعیت اور ان کی ہر پہلو کے جاچ و پڑتال کرتاہے۔ اس نے بے گناہوں کا خون بہانے کے مسئلے میں ہر طرح سے افراط و تفریط سے بالاتر ہو کر حق مطلب اداکیا ہے ۔ اس نے یہودیوں کے تحریف شدہ دین کی طرح صرف قصاص کا سہارا نہیں لیا اور نہ ہی ایسی عیسائیت کی طرح صرف عفو دیت کی راہ دکھائی ہے کیونکہ پہلا حکم انتقام جوئی کا باعث ہے اور دوسرا قاتلوں کی جرات کا سبب ہے۔

فرض کریں قاتل و مقتول ایک دوسرے کے بھائی ہوں یا ان میں دوستی و اجتماعی تعلقات رہے ہوں تو اس صورت میں قصاص پر مجبور کرنا اولیاء مقتول کے لئے ایک نئے زخم کا باعث ہوگا۔ خصوصا ایسے لوگ جو انسانی جذبات سے سرشار ہوں انہیں قصاص کرنا ایک اور سختی شمار ہوگا جب کہ اس حکم کو عفوودیت میں محدود و محصور کردینا بھی ظالموں کو مزید جری و بیباک بنانے کا باعث ہوگا۔

لہذا اسلام نے قصاص کو اصلی حکم قرار دیاہے اور اسے معتدل بنانے کے لئے اس کے ساتھ عفو کا ذکر بھی کردیاہے۔

زیادہ واضح الفاظ میں مقتول کے اولیاکو ان تین راستوں میں سے ایک اختیار کرنے کا حق ہے۔

۱ ۔ قصاص لے لیں ۔

۲ ۔ خونبہا لئے بغیر معاف کردیں ۔

۳ ۔ خونبہا لے کر معاف کردیں (البتہ اس صورت میں ضروری ہے کہ قاتل بھی راضی ہو)۔

کیا قصاص عقل اور انسانیت کے خلاف ہے:

بعض لوگوں نے غور و فکر کئے بغیر اسلام کے جزا و سزا کے کچھ قوانین پر تنقید کی ہے۔ قصاص کے مسئلے پر خصوصا بہت شور و غل ہے۔ مسئلہ قصاص پر مخالفین کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں :

(!!) کیا قصاص عقل اور انسانیت کے خلاف ہے:

بعض لوگوں نے غور و فکر کئے بغیر اسلام کے جزا و سزا کے کچھ قوانین پرتنقید کی ہے۔ قصاص کے مسئلے پر خصوصا بہت شور و غل ہے۔ مسئلہ قصاص پر مخالفین کے اعتراضات مندرجہ ذیل ہیں :

۱ ۔ قاتل کا یہی جرم ہے کہ اس نے ایک انسان کو ختم کردیا۔ قصاص لیتے وقت اسی عمل کا تکرار کیاجاتاہے۔

۲ ۔ قصاص ایک انتقامی کارروائی اور سنگدلی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یہ صفت لوگوں میں سے ختم کی جانا چاہئیے جبکہ قصاص کے طرف دار انتقام جوئی کے اس نا پسندیدہ صفت میں نئی روح پھو نکتے ہیں ۔

۳ ۔ انسان کشی ایسا گناہ نہیں جسے عام اور صحیح و سالم لوگ انجام دیتے ہیں ۔ لہذا قاتل نفسیاتی طور پر کسی بیماری میں مبتلا ہوتاہے۔ اس لئے چاہئیے کہ اس کا علاج کیاجائے۔ قصاص ایسے مریضوں کا علاج نہیں ہوسکتا۔

۴ ۔ وہ مسائل جن کا تعلق اجتماعی نظام سے ہے ان کا رشد اور نشو و نما انسانی معاشرے کے ساتھ۔ ساتھ ضروری ہے۔ وہ قانون جو آج سے چو دہ سو سال پہلے جاری ہو ااسے آج کے ترقی یافتہ معاشرے میں جاری نہیں ہونا چاہئیے۔

۵ ۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ قصاص لینے کی بجائے قاتلوں کو قید کردیاجائے۔ اور قید خانے میں ان کے وجود سے جبرا معاشرے کے فائدے کے لئے کام لیاجائے۔ اس طرح ایک طرف معاشرہ ان کے شر سے محفوظ رہے گا اور دوسری طرف ان سے حتمی المقدور فائدہ اٹھایا جائے گا۔

یہ ان اعتراضات کا خلاصہ ہے جو مسئلہ قصاص پر کئے جاتے ہیں ۔ ذیل میں ان کا جواب پیش کیاجاتاہے۔

جواب

آیات قصاص میں غور و خوض کرنے سے یہ اشکالات دور ہوجاتے ہیں (و لکم فی القصاص حیاة یآ اولی الالباب)۔

۱ ۔ بعض اوقات خطرناک افراد کو ختم کردینا معاشرے کے رشد و تکامل کا ذریعہ ہوتاہے۔ ایسے مواقع پر مسئلہ قصاص حیات اور بقائے موجودات کا ضامن ہے۔ اس لئے قصاص کا جذبہ انسان اور حیوان کے مزاج اور طبیعت میں رکھ دیا گیاہے۔

نظام طب ہو یا زراعت سب اسی عقلی اصول پر مبنی ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بدن کی حفاظت کے لئے بعض اوقات فاسد اور خراب عضو کو کاٹ دیتے ہیں ۔ اسی طرح درخت کی نشو و نما میں مزاحک شاخوں کو بھی قطع کردیتے ہیں ۔

جو قاتل کے قتل کو ایک شخص کا فقدان سمجھتے ہیں ان کی نظر انفرادی ہے اگر وہ اجتماعی نظر رکھتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ قانون قصاص باقی افراد کی حفاظت اور تربیت کا باعث ہے تو وہ اپنی گفتگو میں تجدید نظر کرتے ۔ معاشرے میں سے ایسے خونخوار افراد کا خاتمہ مضر عضو اور شاخ کو کاٹنے کی طرح ہے جسے حکم عقل کے مطابق لازما قطع کرنا چاہئیے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج تک مضر اعضا اور شاخوں کو کاٹنے کی طرح ہے جسے حکم عقل کے مطابق لازما قطع کرنا چاہئیے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج تک مضر اعضا اور شاخوں کو کاٹنے پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔

۲ ۔ اصولی طور پر تشریع قصاص کا جذبہ انتقام سے کوئی ربط نہیں کیونکہ انتقام کا معنی ہے غضب کی آگ کو کسی شخصی مسئلے کی خاطر ٹھنڈا کرنا جب کہ قصاص کا مقصد معاشرے پرظلم و ستم کے تکرار کو روکنا ہے اور اس کا ہدف اور غرض طلب عدل اور باقی بے گناہ افراد کی حمایت ہے۔

۳ ۔ تیسرا اعتراض ہے کہ قاتل یقینا کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے اور عام لوگ ایسا ظلم نہیں کرسکتے۔ اس بارے میں کہنا چاہئیے کہ بعض اوقات تو یہ بات بالکل صحیح ہے ایسی صورت میں اسلام نے بھی دیوانہ اور ایسے افراد کے لئے قصاص کا حکم نہیں دیا لیکن قاتل کو ہمیشہ بیمار قرار دینا بہت خطرناک ہے کیونکہ ایسے فساد کو ایسی بنیاد فراہم کرنا معاشرے کے ظالموں کو ایسی جرات دلاتاہے جس کی تردید نہیں کی جاسکتی۔ اگر یہ استدلال کسی صحیح قاتل کے بارے میں ہے تو پھر یہی استدلال سب تجاوز کرنے والوں اور دوسروں کے حقوق چھیننے والوں کے لئے بھی صحیح ہونا چاہئیے کیونکہ عقل کامل رکھنے والا شخص کبھی دوسروں پرتجاوز نہیں کرتا۔ اس طرح تو سزا کے تمام قوانین کو ختم کردینا چاہئیے اور تجاوز و تعدی کرنے والے سب افرا د کو قید خانوں اور مقامات سزا سے نکال کر نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں میں داخل کردینا چاہیئے۔

۴ ۔ رہا یہ سوال کہ معاشرے کی ترقی قانون قصاص کو قبول نہیں کرتی اور قصاص صرف قدیم معاشرے میں اثر رکھتا تھا لیکن اس ترقی کے زمانے میں اقوام عالم قصاص کو خلاف وجدان سمجھتی ہیں ۔

اس کا جواب صرف ایک جملے میں یوں دیاجاسکتاہے کہ یہ دعوی ان وسیع وحشت ناک جرائم اور میدان جنگ و غیرہ کے مقتولین کی تعداد کے مقابلے میں بہت بے وزن ہے اور خیالی پلاؤکی طرح ہے۔ فرض کیا کہ ایسی دنیا وجود میں آجائے تو اسلام نے بھی قانون عفو کو قصاص کے ساتھ ہی صراحت سے بیان کردیاہے اور قصاص ہی کو اس سلسلے میں آخری طریقہ کار قرار نہیں دیا۔ مسلم ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے میں لوگ قاتل کو معاف کردینے کو ہی ترجیح دیں گے لیکن موجودہ دنیا میں جس کے کئی تہوں میں چھپے ہوئے جرائم گذشتہ زمانوں سے زیادہ اور انتہائی وحشیانہ ہیں اس میں قانون قصاص کے خاتمہ کا مطلب جرائم و مظالم کے دامن کو وسعت دینے کے اور کچھ نہ ہوگا۔

۵ ۔ جیسا کہ قرآن کی تصریح موجود ہے۔ قصاص کی غرض و غایت صرف حیات عمومی و اجتماعی اور قتل و فساد کے تکرار سے بچنا اور اسے روکنا ہے۔ یہ مسلم ہے کہ قید خانہ اس سلسلے میں مطلوبہ کردار ادا نہیں کرسکتا (خصوصا موجودہ زمانے کے قید خانے جن میں سے بعض کی کیفیت تو مجرموں کے گھروں سے کہیں بہتر ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں مجرم کے قتل کا حکم ختم کردیا گیاہے وہاں تھوڑی ہی مدت میں جرائم اور قتل کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوگیاہے اور قیدیوں کو بخش ہی دیاجائے تو جرائم پیشہ لوگ بڑے اطمینان اور آرام سے اپنے ہاتھ قتل اور ظلم سے رنگین کرتے رہیں ۔

کیا مردکا خون عورت کے خون سے زیادہ قیمتی ہے:

ممکن ہے بعض لوگ اعتراض کریں کہ آیات قصاص میں حکم دیا گیاہے کہ عورت کے قتل کے بدلے مرد سے قصاص نہیں لینا چاہئیے تو کیا مرد کا خو ن عورت کے خون سے گراں تر اور زیادہ قیمتی ہے۔ آخر ایک ظالم مرد سے عورت کے قتل پر قصاص کیوں نہ لیاجائے جب کہ دنیا کی نصف سے زیادہ انسانی آبادی عورتوں پرہی مشتمل ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ مرد سے عورت کے قتل کے بدلے قصاص نہ لیاجائے بلکہ جیسا کہ فقہ اسلامی میں تفصیل و تشریح سے موجود ہے عورت کے اولیاء عورت کے قتل کی صورت میں قصاص لے سکتے ہیں بشرطیکہ دیت کی آدھی مقدار ادا کردیں ۔ دوسرے لفظوں میں عورت کے قتل کی صورت میں قصاص نہ لینے سے مراد وہ قصاص ہے جو بلا کسی شرط کی ہو لیکن آدھی دیت ادا کرنے کی صورت میں مرد سے قصاص لینا اور اسے قتل کرنا جائز ہے۔ اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ حکم اس لئے نہیں کہ عورت مرتبہ انسانیت پرفائز نہیں یا اس کا خون کم قیمت ہے۔ یہ ایک بیجا اور غیر منطقی تو ہم ہے اور شاید یہ مفہوم خون بہا (خون کی قیمت) سے پیدا ہوا ہے۔ آدھی دیت تو صرف اس نقصان کو پورا کرنے کے لئے ہے جو مرد سے قصاص لینے کی صورت میں مرد کے خاندان کو پہنچاہے (غور کیجئے گا)

تشویق به عفو

اس کی وضاحت یہ ہے کہ زیادہ تر مرد ہی خاندان کا اقتصادی عضو مؤثر ہوتاہے اور مرد ہی خاندان کے اخراجات اٹھاتاہے اور مرد ہی اپنی اقتصاد ی کار کردگی سے خاندان کی زندگی کا کارخانہ چلاتاہے۔ اس بناء پر مرد اور عورت کے ختم ہونے میں اقتصادی پہلو کا جو فرق ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ اگر اس فرق کو ملحوظ نہ رکھاجائے تو مقتول مرد کے بیگناہ پسماندگان اور آل اولاد آخر کس جرم میں خسارہ اٹھائیں گے۔ اسلام نے مرد سے عورت کے قتل کا قصاص لینے کی صورت میں آدھی دیت دینے کا قانون معین کرکے سب لوگوں کے حقوق کا لحاظ رکھاہے اور اس طرح ایک خاندان کو جو نا قابل تلافی نقصان ہورہاتھا اس کا ازالہ کیاگیاہے۔ اسلام اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ لفظ مساوات کے بہانے دوسرے کے حقوق پائمال ہوں جیسے اس شخص کی اولاد کے حقوق جس سے قصاص لیا جارہاہے۔

( iv ) اس مقام پرلفظ ”اخیہ“ کا استعمال:

ایک اور نکتہ جو یہاں اپنی طرف متوجہ کرتاہے وہ یہاں لفظ اخیہ کا استعمال ہے ۔ قرآن برادری کے رشتے کو انسانی معاشرے میں اتنا محکم سمجھتاہے کہ اس کے نزدیک خون نا حق بہانے کے با وجود یہ برقرار رہتاہے لہذا اولیاء مقتول کی انسانی جذبات کو ابھارنے کے لئے انہیں قاتل کو بھائے کہہ کر متعارف کراتاہے اور اس طرح انہیں عفو و مدارات کا شوق دلاتاہے۔ البتہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ہیجان اور غضب و غصے کی حالت میں ایسے عظیم گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اس پر پشیمان ہوں لیکن وہ مجرم جو اپنے کا م پر فخر کریں اور نادم نہ ہوں ، بھائی کہلانے کے لائق نہیں اور نہ ہی عفو و درگذر کے مستحق ہیں ۔

آیات ۱۸۰،۱۸۱،۱۸۲

۱۸۰ ۔( کُتِبَ عَلَیْکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ إِنْ تَرَکَ خَیْرًان الْوَصِیَّةُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاٴَقْرَبِینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِین )

۱۸۱ ۔( فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَی الَّذِینَ یُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ )

۱۸۲ ۔( فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا اٴَوْ إِثْمًا فَاٴَصْلَحَ بَیْنَهُمْ فَلاَإِثْمَ عَلَیْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ )

ترجمہ

۱۸۰ ۔ جب تم میں سے کسی کی موت کا دقت قریب آئے تو چاہئیے کہ وہ ماں اور رشتہ داروں کے لئے شائستہ طور پر وصیت کرے۔ یہ حق ہے پرہیزگاروں پر۔

۱۸۱ ۔ پھر جس نے وصیت سن کراسے بدل ڈالا اس کا گناہ (وصیت) بدلنے والے پرہے۔ خدا تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۱۸۲ ۔ جس شخص کو خوف ہو کہ وصیت کرنے والے نے انحراف (بعض ورثہ کی طرف ایک طرفہ میلان) یا گناہ (کسی غلط چیز کے لئے وصیت ) سے کام لیاہے اور وہ ورثہ کے در میان صلح کرادے تو اس پر کچھ گناہ نہیں (اور اس پروصیت کے تبدیلی کا قانون لاگونہ ہوگا) خدا بخشنے والا مہربان ہے۔

شائستہ اور مناسب وصیتیں

گذشتہ آیات میں مجرمین کے بارے میں بعض مسائل بیان کرنے کے بعد ان آیات میں ایک لازمی حکم کے طور پر مالی معاملات میں وصیت کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ فرمایا: تم پر لکھ دیاگیاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آجائے تو اپنے مال و منال کے سلسلے میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں مناسب اور شائستہ وصیت کرے( کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیران الوصیة للوالدین و الاقربین بالمعروف ) ۔ آیت کے آخر میں مزید فرمایا: یہ پرہیزگاروں کے ذمے ایک حق ہے( حقا علی المتقین ) ۔

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکاہے ”کتب علیکم“ ظاہرا وجوب پر دلالت کرتاہے۔ اس لئے وصیت کے بارے میں مختلف تفاسیر بیان کی گئی ہیں ۔

بعض اوقات کہاجاتاہے کہ اگر چہ قوانین اسلام کی روسے وصیت ایک عمل مستحب ہے لیکن چونکہ ایسا مستحب ہے جس کی تائید بہت زیادہ ہے لہذا۔”( کتب علیکم ) “کے جملہ سے اس کا حکم بیان کیاگیاہے اس لئے آیت کے آخر میں ”حقا علی المتقین“ آیاہے اگر یہ وجوبی حکم ہوتا تو فرمایا جاتا ”( حقا علی المومنین ) “۔

کچھ دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت میراث کے احکام نازل ہونے سے پہلے کی ہے۔ اس وقت اموال کے بارے میں وصیت کرنا واجب تھا۔ تا کہ ورثہ میں اختلاف و نزاع نہ ہو لیکن آیات میراث نازل ہونے کے بعد یہ وجوب منسوخ ہوکر ایک مستحبی حکم کی صورت میں باقی رہ گیا۔

حدیث جو تفسیر عیاشی میں اس آیت کی ذیل میں آئی ہے اسی معنی کی تائید کرتی ہے۔

یہ بھی احتمال ہے کہ آیت کا یہ حکم ضرورت کے ان مواقع کے لئے ہو جہاں وصیت کرنا ضروری ہے۔

لیکن ان تمام تفاسیر میں پہلی تفسیر حق و حقیقت کے زیادہ قریب نظر آتی ہے۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ یہاں مال کی جگہ لفظ خیرا استعمال کیاگیاہے ۔ فرمایا کہ اگر کوئی اچھی چیز اپنے ترکے میں چھوڑے تو وصیت کرے۔ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام کی نظر میں وہ دولت و ثروت جو شرعی طریقے سے حاصل کی جائے اور معاشرے کے فائدے کے لئے اچھی راہ پر صرف کی جائے خیر و برکت ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے غلط افکار پر خط بطلان کھینچتی ہے جو مال و دولت ہی کو بری چیز سمجھتے ہیں ۔ اسلام ان کجرو زاہدوں سے بیزار ہے جو روح اسلام کو نہیں سمجھ سکے اور وہ زہد کو فقر و فاقہ کا دوسرا نام سمجھے ہوئے ہیں اور ان کے افکار اسلامی معاشرے میں جمود اور ذخیرہ اندوزوں کے سر اٹھا نے کا سبب بنتے ہیں ۔

ضمنی طور پر یہ تعبیر اس ثروت و دولت کے مشروع اور جائز ہونے کی طرف لطیف اشارہ ہے جس کے بارے میں وصیت کا حکم دیاگیاہے ورنہ انسان کا چھوڑا ہوا غیر مشروع ناجائز مال تو خیر نہیں بلکہ شر ہی شر ہے۔

بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ اموال کافی تعداد میں ہوں ورنہ مختصر مال تو وصیت کا محتاج نہیں ۔ دوسرے لفظوں میں مختصر مال تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ انسان چاہے کہ اس کا تیسرا حصہ وصیت کے ذریعے الگ کردیاجائے۔(۱)

ضمنا ”( اذا حضر احدکم الموت ) “(جب تم میں سے کسی کے پاس موت آ پہنچے) وصیت کے لئے فرصت کے آخری لمحات کو بیان کرتاہے اگر تاخیر ہوجائے تو موقع جاتارہے گا ورنہ کوئی مضائقہ نہیں کہ انسان پہلے سے احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنا وصیت نامہ تیار کرے بلکہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عمل انتہائی مستحسن ہے۔

یہ انتہائی کوتاہ فکری ہے کہ انسان خیالی کرے کہ وصیت کرنا فال بدہے اور اپنی موت کو سامنے لانے کے مترادف ہے بلکہ وصیت تو ایک دور اندیشی اور ناقابل انکار حقیقت کی پہچان ہے اور اگر یہ طول عمر کا سبب نہ بنے تو عمر میں کمی کا تو ہرگز سبب نہیں ہے۔

زیر نظر آیت میں وصیت کو ”بالمعروف“ سے مقید کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ وصیت ہر لحاظ سے عقل مندانہ ہو، لیکن معروف کا معنی ہے عقل و خرد کی پہچانی ہوئی (عرف عقلا)۔

جس شخص کے لئے وصیت کی جارہی ہو اس کے لئے مقدار رکے لحاظ سے اور دیگر جہات سے ایسی ہو کہ عقلا اسے مدبرانہ سمجھیں نہ یہ کہ وہ تفریق اور نزاع کا باعث بن جائے۔

جب وصیت تمام مذکورہ صفات کی جامع ہو تو وہ ہر لحاظ سے محترم اور مقدس ہوگی اور اس میں کسی طرح کا تغیر و تبدل حرام ہے۔ اسی لئے بعد والی آیت میں فرمایا گیاہے: جو کوئی وصیت سننے کے بعد اس میں تبدیلی کرے اس کا گناہ تبدیلی کرنے والے کے سر ہے (فمن بدلہ بعد ما سمعہ فانما اثمہ علی الذین یبدلونہ) اور اگر ان کا گمان ہے کہ خدا ان کی سازشوں اور مخفی کارروائیوں سے بے خبر ہے تو وہ سخت اشتباہ میں ہیں کیونکہ خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔( ان الله سمیع علیم ) ۔ ممکن ہے یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ ہو کہ وصی (وہ شخص جووصیت کرنے والے کی موت کے بعد وصیتوں پر عملدر آمد کے لئے ذمے دارہے) کی خلاف ورزی کبھی وصیت کرنے والے کے اجر و ثواب کو ختم نہیں کرسکتی۔ وہ اپنا اجر پاچکا ہے ۔ گناہ کا طوق فقط وصی کی گردن کے لئے ہے جس نے وصیت کی مقدار ، کیفیت یا اصلی وصیت میں تبدیلی کی ہے۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مقصدیہ ہو کہ اگر وصی کی خلاف ورزی کی وجہ سے میت کا مال ایسے افراد کودے دیاجائے جو اس کے مستحق نہیں اور وہ اس سے بے خبر بھی ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ گناہ صرف وصی کو ہوگا جس نے دانستہ طور پر یہ غلط کام انجام دیاہے۔ توجہ رہے کہ یہ دونوں تفاسیر ایک دوسرے سے متضاد نہیں اور ممکن ہے آیت ان دونوں مفاہیم کے لئے ہو۔

اب یہ حکم اسلامی واضح ہوگیا کہ وصیتوں میں ہر طرح کا تغیر و تبدل جس صورت میں ہو اور جس قدر ہو گناہ ہے۔ لیکن ہر قانون میں کچھ استثنائی پہلو ہوتے ہیں ۔ لہذا زیر نظر آخری آیت میں فرمایاگیاہے: جب وصی کو وصیت کرنے والے میں انحراف اور کجروی کا اندیشہ ہو، یہ انحراف چاہے بے خبری سے ہو یا جان بوجھ کر آگاہی کے با وصف ہو اور وہ اس کی اصلاح کرے تو وہ گنہ گار نہ ہوگا اور وصیت کی تبدیلی کا قانون اس پر لا گونہ ہوگا۔ خدا بخشنے والا مہربان ہے( فمن خاف من قوص جنفا او اثما فاصلح بینهم فلا اثم علیه ان الله غفور رحیم ) ۔

اس بناء پر استثناء صرف ان مواقع کے لئے ہے جہاں وصیت شائستہ و مناسب نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں وصی تغیر کا حق رکھتاہے۔ اگر وصیت کرنے والا زندہ ہے تو اپنا نقطہ نظر اس کے گوش گزار کرے تا کہ وہ خود تبدیلی کردے اور اگر وہ مرگیا ہو تو خود یہ تبدیلی کرے اور تبدیلی کا یہ اختیار مندرجہ ذیل مواقع کے لئے منحصر ہے۔

۱ ۔ اگر وصیت کل ترکے کے ایک تہائی سے زیادہ ہو کیونکہ رسول اکرم اور اہل بیت سے بہت سی روایات میں منقول ہے کہ انسان ایک تہائی تک کے مال کی وصیت کرنے کا مجاز ہے اور اس سے زیادہ ممنوع ہے۔ ہمارے فقہا نے بھی فقہی کتب میں یہی فتوی دیاہے۔(۲)

اس بناء پر جن ناواقف لوگوں کا یہ معمول ہے کہ وہ تمام اموال وصیت کے ذریعے تقسیم کردیتے ہیں کسی طرح بھی قوانین اسلام کے روسے صحیح نہیں اور وصی پر لازم ہے کہ وہ اس کی اصلاح کرے اور ایک تہائی سے زیادہ اس طرح سے تقسیم نہ کرے۔

۲ ۔ اگر وصیت ظلم، گناہ اور غلط کام سے متعلق ہو۔ مثلا کوئی وصیت کرے کہ اس کے مال کا کچھ حصہ مراکز فساد کو وسیع کرنے میں صرف کیاجائے اور اسی طرح اگر وہ وصیت کسی ترک واجب کا سبب بنے۔

۳ ۔ اگر وصیت پر عمل درآمد، نزاع، فساد اور خون ریزی کا سبب ہو تو یہاں حاکم شرع کے حکم سے اصلاح ہوسکتی ہے۔جنف (بروزن کنف) کا معنی ہے حق سے انحراف اور باطل کے طرف میلان۔ یہ وصیت کرنے والے کے جاہلانہ انحرافات اور کجرویوں کی طرف اشارہ ہے۔ اور ”اثم“ گناہ عمد کی طرف اشارہ ہے۔

جملہ ”ان اللہ غفور رحیم“ جو اس آیت کے آخر میں آیاہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اگر وصی وصیت کرنے والے کے غلط کام کی اصلاح کے لئے اقدام کرے اور راہ حق کو کھول دے تو خدا اس کی خطاسے صرف نظر کرے گا۔

____________________

۱ تفسیر نور الثقلین، ج۱، ص۱۵۹۲- وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۲۶۱ (کتاب احکام الوصایا، باب ۱۰

و صیت کا فلسفہ:

قانون میراث سے صرف کچھ معین رشتے دار بہرہ مند ہوتے ہیں جب کہ ممکن ہے خاندان کے اور افراد یا بعض اوقات قریبی دوست احباب مالی امداد کی سخت احتیاج رکھتے ہوں اسی طرح ورثہ میں سے بھی کبھی وراثت کا حصہ کی ضروریات کی کفالت نہیں کرسکتا لہذا قانون اسلام کی جامعیت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ یہ خلا پر نہ ہو، اسی لئے اس نے قانون میراث کے ساتھ ساتھ قانون وصیت بھی رکھاہے اور مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے مال کے تیسرے حصے کے متعلق اپنے بعد کے لئے کوئی مستحکم پروگرام بنائیں اور اسے اپنے مقصد میں صرف کریں ۔

علاوہ ازیں بعض اوقا ت انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کوئی اچھا کام انجام دے۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اپنی مالی ضروریات کے پیش نظر ایسا نہیں کرپاتا تو عقلی منطق واجب قرار دیتی ہے کہ وہ اپنے ان اموال سے جن کے حصول کے لئے اس نے زحمت اٹھائی ہے کار خیر کے انجام دینے سے بالکل محروم نہ ہو۔

ان سب امور کی وجہ سے اسلام میں قانون وصیت رکھا گیاہے اور اس کی اس حد تک تاکید کی گئی ہے کہ اسے ایک وجوبی اور ضروری حکم کی حد تک پہنچا دیاگیاہے اور ”حقا علی المتقین“ کے جملے سے اس کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

وصیت صرف مندرجہ بالا امور میں منحصر نہیں بلکہ انسان کو چاہئیے کہ وہ اپنے قرض اور ان امانتوں کے متعلق جو اسے سپرد کی گئی ہیں اور دیگر امور کے بارے میں اپنی وصیت کو واضح طور پر بیان کرے۔ اس طرح سے کہ حقوق الناس اور حقوق اللہ میں سے اس کی کوئی ذمہ داری مبہم نہ رہ جائے۔

روایات اسلامی میں وصیت کے بارے میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک روایت میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے آپ نے فرمایا: ما ینبغی لامرء مسلم ان یبیت لیلة الا وصیتہ تحت راسہ

کسی مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ رات سوئے مگر اس کا وصیت نامہ اس کے سرکے نیچے نہ ہو۔ ۱

سرکے نیچے ہونا، یہاں تاکید کے لئے ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ وصیت نامہ تیار رکھنا چاہئیے۔

ایک اور روایت میں ہے:من مات بغیر وصیة مات میتته جاهلیة

جو شخص بغیر وصیت کے مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرا۔ ۲

____________________

۱ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲

۲ وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۳۵۲