تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78101
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78101 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

۶۔ حقیقت تقوی کیا ہے :

تقوی کا مادہ ہے ”وقایة“ جس کے معنی ہیں نگہداری یا خود داری(۱) ۔

دوسرے لفظوں میں نظم و ضبط کی ایک ایسی اندرونی طاقت کا نام تقوی ہے جو سر کشی و شہوت کے مقابلے میں انسان کی حفاظت کرتی ہے حقیقت میں یہ قوت ایک ایسے مضبوط ہینڈل کا کام دیتی ہے جو وجود انسانی کی مسینری کو الٹ جانے کی جگہوں پر محفوظ رکھتا ہے اور خطرناک تیزیوں سے روکتا ہے۔

اسی لئے امیرالمومنین علی(ع) تقوی کو خطرات گناہ کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعے کا عنوان دیتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں :

اعلموا عبادالله ان التقوی دار حصن عزیز

اے اللہ کے بندو! جان لو کہ تقوی ایسا مضبوط قلعہ ہے جسے تسخیر نہیں کیا جاسکتا(۲) ۔

اسلامی احادیث اور علماء اسلام کے کلمات میں حالت تقوی کے لئے بہت سی تشبیہات بیان ہوئی ہیں ۔

امیرالمومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں :الا و ان التقوی مطایا ذلل حمل علیها اهلها و اعطوا ارمتها فاوردتهم الجنة ۔

تقوی ایسے راہوار کی مانند ہے جس پر اس کا مالک سوار ہو، اس کی باگ ڈور بھی اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ اسے بہشت کے اندر پہنچادے(۳)

بعض نے تقوی کو اس شخص کی حالت سے تشبیہ دی ہے جو کانٹوں بھری زمین سے گذر رہا ہو اور اس کی کوشش میں ہو کہ اپنادامن بھی سنبھالے رکھے اور قدم بھی احتیاط سے اٹھائے تاکہ کوئی کانٹا اس کے دامن سے نہ الجھ جائے اور نہ ہی کوئی خار اس کے پاؤں میں چبھے۔

عبداللہ معتز نے اس کیفیت کو اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے :

۱ ۔خل الذنوب صغیرها و کبیر ها فهو التقی

۲ ۔واضع کماش فوق ار ض الشوک یحذر ما یری

۳ ۔لا تحقرون صغیرة ان الجبال من الحصی

۱ ۔ سب چھوٹے بڑے گناہوں کو چھوڑ دے کہ حقیقت تقوی یہی ہے۔

۲ ۔ اس شخص کی طرح ہوجا جو خار دار زمین پر انتہائی احتیاط سے قدم اٹھاتا ہے۔

۳ ۔ چھوٹے گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھ کہ پہاڑ سنگریزوں ہی سے بنتا ہے

ضمنا اس تشبیہ سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ تقوی یہ نہیں کہ انسان گوشہ نشین ہوجائے اور لوگوں سے میل جول ترک کردے بلکہ معاشرے میں رہتے ہوئے اگر چہ وہ غلیظ معاشرہ ہی کیوں نہ ہو اپنی حفاظت کرے۔

اسلام میں کسی کی شخصیت کے لئے معیار فضیلت و افتخار یہی تقوی ہے اور اسلام کا شعار زندہ ہے :( ان اکرمکم عندالله اتقاکم ) ۔

یعنی یقینا خدا کے یہاں تم میں سے زیادہ صاحب عزت و تکریم وہی ہے جو تقوی میں سب سے بڑھ کر ہے (حجرات، ۱۳) ۔

حضرت علی فرماتے ہیں :( ان تقوی الله مفتاح سداد و ذخیرة معاد و عتق من کل ملکة ونجاة من کل هلکة )

تقوی او رخوف خدا ہر بند دروازے کی کلید ہے، قیامت کے لئے ذخیرہ ہے، شیطان کی بندگی سے آزادی کا سبب ہے اور ہر ہلاکت سے باعث نجات ہے( ۴) ۔

ضمنا متوجہ رہئے گا کہ تقوی کی کئی ایک شاخیں اورشعبے ہیں مثلا تقوی مالی، تقوی اقتصادی، تقوی جنسی، تقوی اجتماعی اور تقوی سیاسی وغیرہ۔

____________________

۱۔ راغب نے ”مفردات“ میں لکھا ہے ”وقایہ“ کے معنی ہیں چیزوں کو ان امور سے محفوظ کرنا جو انہیں نقصان یا تکلیف پہنچائیں اور تقوی کے معنی ہیں ”خطرات سے بچا کر روح کو ایک حفاظتی پردے میں رکھنا“ تقوی کے معنی کبھی خوف بھی کئے جاتے ہیں حالانکہ خوف تو تقوی کا سبب ہے۔ عرف شریعت میں تقوی کا مطلب ہے اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھنا اور کمال تقوی یہ ہے کہ مشتبہ چیزوں سے بھی اجتناب کیا جائے۔

۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۷۔

۳۔ نہج البلاغہ ، خبطہ ۱۶۔ تفسیر ابوالفتوح رازی، جلد اول ص ۶۲۔

۴۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۲۳۰۔

آیات ۶،۷

( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَیْهِمْ آآنذَرْتَهُمْ آمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ( ۶)

( خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهِمْ وَعَلَی سَمْعِهِمْ وَعَلَی آبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) ( ۷) ۔

ترجمہ

۶ ۔ جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انیہں (عذاب خدا سے) ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔

۷ ۔ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اوران کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ایک بڑا عذاب ان کے انتظار میں ہے۔

دوسراگروہ سر کش کفار کا ہے

یہ گروہ ان پرہیزگار انسانوں کے بالکل برعکس ہے جن کی صفات گذشتہ دو آیات میں پوری و ضاحت سے بیان ہوئی ہیں ۔

ان دو آیات میں سے پہلی میں ہے کہ جو کافر ہں (اور ساتھ اپنے کفر و بے ایمانی پر مصر ہیں ) ان کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ انہیں عذاب الہی سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کیونکہ وہ تو ایمان لانے کے نہیں( ان الذین کفروا سواء علیهم ء انذرتهم ام لم تنذرهم لا یومنون ) ۔

پہلا گروہ حواس و ادراک کے ساتھ پوری طرح تیار تھا کہ وہ حق کوپہچانے اور پھر اسے قبول کرکے اس کی پیروی کرے۔

لیکن اس گروہ کے افراد اپنی گمراہی میں اتنے کٹر ہیں کہ حق جتنا بھی ان کے سامنے واضح ہوجائے وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں وہ قرآن جو متقین کے لئے ہادی اور راہنما ہے ان کے لئے بالکل بے اثر ہے۔ کچھ کہیں نہ کہیں ، ڈرائیں یا نہ ڈرائیں کوئی بشارت دیں یا نہ دیں ان پر کسی چیز کا کچھ اثر نہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق کی پیروی اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے روحانی طور پر آمادہ ہی نہیں ۔

دوسری آیت میں اس تعصب و ڈھٹائی کی دلیل پیش کی گئی ہے اور وہ یہ کہ یہ کفر و عناد میں اس طرح ڈوبے ہوئے ہیں کہ حس شناخت کھو بیٹھے ہیں ”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے“( خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهِمْ وَعَلَی سَمْعِهِمْ وَعَلَی آبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ) اسی بناء پر ان کا انجام یہ ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے( وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ )

اس لحاظ سے وہ آنکھ پرہیزگار جس سے آیات خدا کو دیکھتے تھے، وہ کان پرہیزگار جس سے حق کی باتیں سنتے تھے اور وہ دل پرہیزگار جس سے حقائق کا ادراک کرتے تھے کفار کے لئے بے کار ہیں ۔ عقل ، آنکھ اور کان ان کے پاس ہیں لیکن سمجھنے، دیکھنے اور سننے کی قوت ان میں نہیں رہی کیونکہ ان کے برے اعمال، ان کا عناد اور ہٹ دھرمی ان کی شناخت کی قوت کے سامنے پردہ بن گئے ہیں ۔

یہ مسلم ہے کہ جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے، کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اعمال بد کی وجہ سے حس تشخیص ہی کھو بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لئے راہ نجات نہیں ہے کیونکہ اس کے پاس پہچان کی قوت ہی نہیں لہذا یقینی طور پر عذاب عظیم اس کے انتظار میں ہے۔

۱ ۔ تشخیص کی قدرت کا چھن جانا دلیل جبر نہیں :

پہلا سوال جو یہاں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ آیت کے مطابق اگر خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے تو پھر وہ مجبور ہیں کہ کفر پر باقی رہ جائیں تو کیا یہ جبر نہیں ؟ قرآن میں اس آیت کی طرح اور بھی ایسی ہی آیات موجود ہیں ان حالات میں انہیں سزا دنے کے کیا معنی ہیں ؟

اس سوال کا جواب خود قرآن نے دیا ہے اور وہ یہ کہ حق کے مقابلے میں ان لوگوں کا اصرار اور ہٹ دھرمی، ان کی طرف سے ظلم و ستم اور کفر کا استمرار و دوام ان کی حس شناخت پر پردہ پڑ جانے کا باعث بنتا ہے۔ سورہ نساء آیت ۱۵۵ میں ہے :( بل طبع الله علیها بکفرهم )

خدا وند عالم نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔

سورہ مومن، آیت ۳۵ میں ہے :( کذلک یطبع الله علی کل قلب متکبر جبار ) ۔

اس طرح خدا ہر متکبر اور ستم گر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

اسی طرح سورہ جاثیہ، آیت ۲۳ میں ہے :( افرایت من اتخذ الهه هواه و اضله الله علی علم و ختم علی سمعه و قلبه و جعل علی بصره غشاوة ) ۔

کیاآپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے لہذا وہ گمراہ ہوگیا ہے اور خدا نے اس کے گوش و دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ہے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسان کی حس تشخیص کا سلب ہو جانا اور آلات تمیز و معرفت کا بے کار جانا ان آیات میں چند ایک علل کا معلول شمار ہوا ہے۔ کفر ، تکبر، ستم، پیروی ہوا و ہوس سرکش، تعصب اور حق کے مقابلے میں اصرار، حقیقت میں یہ حالت انسان کے اعمال کا عکس العمل اور بازگشت ہے کوئی اور چیز نہیں ۔

اصولا یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر انسان ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہے تو آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوجاتا ہے پہلے ایک حالت ہے پھر وہ ایک عادت بن جاتی ہے گویا وہ روح انسانی کا جزو ہوجاتی ہے اور کبھی معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ انسان کا پلٹ آنا ممکن نہیں رہتا لیکن اس نے جان بوجھ کر یہ راستہ اختیار کیا تھا لہذا عواقب و انجام کا بھی خود ذمہ داری ہے۔اوراس میں جبر کی کوئی بات نہیں بالکل اس شخص کی طرح جو خود اپنی آنکھ پھوڑے اور کان ضائع کردے کہ دیکھ سکے نہ سن سکے۔

اب اگر آپ دیکھیں کہ ان افعال کی نسبت خدا کی طرف دی گئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اس قسم کے افعال میں ایسی خاصیت رکھی ہے (یہ بات خاص طور پر غور طلب ہے)۔

قوانین آفرینش سے اسی مفہوم کی پورے طور پرعکاسی ہوتی ہے۔ جو شخص صحیح اور سچے تقوی اور پاکیزگی کو اپنا پیشہ بنالے خدا وند عالم اس کی حس تمیز کو زیادہ قوی کردیتا ہے اور اسے خاص ادارک نظر اور روشن فکری عطا کرتا ہے۔ جیسے سورہ انفال آیة ۲۹ میں ہے :( یایها الذین آمنوا ان تتقوالله یجعل لکم فرقانا ) ۔

اے ایمان والو ! اکر تم تقوی کو اپنا پیشہ قرار دو تو خدا وند عالم تمہیں فرقان (یعنی وسیلہ ادراک حق و باطل) عطا کرے گا۔

اس حقیقت کو ہم نے روز مرہ کی زندکی میں بھی آزمایا ہے۔ بعض ایسے اشخاص ہیں جو غلط کام شروع کرتے ہیں اور ابتداء میں خود معترف بھی ہوتے ہیں کہ سو فی صد غلط کاری او ربرائی کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اسی بناء پر وہ اس کام سے دکھی ہیں ۔ لیکن آہستہ آہستہ اس سے مانوس ہوجاتے ہیں تو وہ دکھ ان سے دور ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ نہ صرف انہیں اس کام سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں حتی کہ اسے انسانی یا دینی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں ۔

حجاج ابن یوسف جودنیا کا سب سے بڑا سفاک اور ظالم انسان تھااس کے حالات میں لکھا ہے کہ وہ اپنے ہولناک مظالم اور سفاکیوں کی توجیہہ میں کہتا تھا :

” یہ لوگ گناہگار ہیں لہذا مجھ جیسا شخص ان پر مسلط رہنا چاہئے تاکہ ان پر ظلم کرے کیونکہ یہ اس کے مستحق ہیں “۔

گویا وہ جس قدر قتل، خونریزی اور ظلم کرتا تھا اس کے لئے اپنے آپ کو خدا کی طرف سے مامور سمجھتا تھا۔

کہتے ہیں چنگیز خاں کے ایک سپاہی نے ایران کے ایک سرحدی شہر میں تقریر کی اور کہنے لگا :

” کیا تمہارا یہ اعتقاد نہیں کہ خدا گنہگاروں پر عذاب نازل کرتا ہے ۔ ہم وہی عذاب الہی ہیں لہذا کسی قسم کے مقابلے کی کوشش نہ کرنا“۔

۲ ۔ ایسے لوگ قابل ہدایت نہیں تو انبیاء کا تقاضا کیوں :

یہ دوسرا سوال ہے جو زیر نظر آیات کے سلسلے میں سامنے آتا ہے ۔ اگر ہم ایک نکتے کی طرف توجہ دیں تو جواب واضح ہوجائے گا۔ وہ یہ کہ سزا اور عذاب الہی ہمیشہ انسان کے اعمال و کردار سے مربوط ہے۔ صرف اس بناء پر کسی شخص کو سزا نہیں دی جاسکتی کہ وہ دلی طور پر برا شخص ہے بلکہ ضروری ہے کہ پہلے اسے حق کی دعوت دی جائے۔ اگر اس نے پیروی نہ کی اور اپنے اندرونی خبائث کو اپنے اعمال و کردار سے ظاہر کیا تو اس وقت وہ سزا و عذاب کا مستحق ہے ورنہ وہ ظلم سے پہلے قصاص کا مصداقر ار پائے گا۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اتمام حجت کا نام دیتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ جزا اور عمل کا بدلہ یقینا انجام عمل کے بعد ہونا چاہئے صرف ارادہ یا روحانی و فکری آمادگی اس کے لئے کافی نہیں ۔ علاوہ ازیں انبیاء صرف ان کی ہدایت کے لئے نہیں آتے رہے۔ ایسے لوگ اقلیت میں ہیں زیادہ تعداد تو ان گمراہ لوگوں کی ہے جو صحیح تعلیم و تربیت کے تحت قابل ہدایت ہیں ۔

۳-دلوں پر مہر لگانا :

زیر بحث آیات اور دیگر بہت سی آیات قرآن مجید میں بعض اشخاص سے حس تمیز اور ادراک واقعی کے چھن جانے کو ”ختم“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور بعض اوقات ”طبع“ یا ”رین“ قرار دیا گیا ہے۔ یہ معنی یہاں سے لئے گئے کہ لوگوں میں رسم تھی کہ وہ جب کچھ چیزیں تھیلوں یا مخصوص برتنوں میں رکھتے یاکسی اہم خط کو کسی لفافے میں رکھتے تو اس بناء پر کہ کوئی اسے کھولے نہیں اور اسے ہاتھ نہ لگائے اسے باندھ دیتے اور گرہ لگا دیتے پھر گرہ کے اوپر مہر لگاتے تھے۔ آج بھی یہی معمول ہے۔ جائیدادوں کی رجسٹریوں کو اسی بناء پر خاص قسم کی رسی سے باندھتے ہیں ۔ اس کے اوپر لاک (خاص قسم کی دھات) ڈال دی جاتی ہے اور اس کے اوپر مہر لگادیتے ہیں تاکہ اگر اس کے صفحوں میں کوئی کمی بیشی کی جائے تو معلوم ہوجائے۔

تاریخ میں بہت سے شواہد ملتے ہیں کہ سر براہان حکومت درہم و دینار کے توڑوں پر اپنی مہر لگا دیتے تھے اور خاص خاص اشخاص کی طرف بھیجتے تھے۔ یہ اس لئے ہوتا تھا کہ اس میں کسی قسم کا تصرف نہ ہونے پائے اور یونہی اس خاص شخص تک پہنچ جائے کیونکہ اس میں تصرف مہر توڑے بغیر ممکن نہ تھا۔ آج کل بھی ڈاک کے تھیلوں پر مہر کا طریقہ رائج ہے۔

عربی زبان میں اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے لفظ ”ختم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ تعبیر صرف ان اشخاص کے لئے ہے جو بے ایمان اورہٹ دھرم ہیں جو کثرت گناہ کے باعث عوامل ہدایت کا اثر قبول نہیں کرتے اوراہل حق کے مقابلے میں ان کے دلوں میں بغض و عناد اتنا راسخ ہوتا ہے کہ گویااس تھیلے کی طرح ان پر مہر لگ چکی ہے اور اب ان میں کسی قسم کا تصرف نہیں ہوسکتا۔

”طبع“ بھی لغت میں اسی معنی کے لئے آیا ہے اور طابع و خاتم ہر دو کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ ں چیز جس سے مہر لگاتے ہیں ۔

باقی رہا ” رین“ یعنی زنگ، غبار یا سخت قسم کی مٹی جو قیمتی چیزوں سے چپک جائے۔ یہ تعبیر بھی قرآن میں ان اشخاص کے لئے آئی ہے جو کثرت گناہ کی وجہ سے اس عالم کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے دل نفوذ حق کے قابل نہیں رہے۔( کلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون ) ۔

ایسا ہرگز نہیں بلکہ جرائم پیشہ ہونے اور مسلسل برے اعمال کرتے رہنے کی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوگئے ہیں (مطففین، ۱۴) ۔

یہاں یہ بات اہم ہے کہ انسان ہمیشہ متوجہ رہے اگر خدانخواستہ اس سے کوئی گناہ سر زد ہوجائے تو بہت جلد اسے توبہ کے پانی اور نیک عمل سے دھو ڈالنا چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دل پر زنگ کی شکل اختیار کرجائے اور اس پر مہر لگا دے۔

امام باقر (ع) سے ایک روایت ہے :ما من عبد مومن الا وفی قلبه نکتة بضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتة سودا فان تاب ذهب ذلک السواد فان تماری فی الذنوب زادذلک السواد حتی یغطی البیاض فاذا غطی البیاض لم یرجع صاحبه الی خیر ابدا و هو قول الله عزوجل : کلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون ۔

کوئی بندہ مومن ایسا نہیں ہے جس کے دل میں ایک وسیع سفید اور چمکدار نقطہ نہ ہو۔ جب اس سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے تو اس نقطہ سفید کے درمیان ایک سیاہ نقطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اب اگر توبہ کرلے تو وہ سیاہی برطرف ہوجاتی ہے اوراگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو سیاہی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ تمام سفیدی پر محیط ہوجاتی ہے اور جب سفیدی بالکل ختم ہوجائے تو پھر ایسے دل والا کبھی بھی خیر وبرکت کی طرف نہیں پلٹ سکتا اور اس ارشاد الہی کا یہی مفہوم ہے جب فرماتا ہے( کلا بل ران علی قلوبهم ما کانوا یکسبون ) ۔(۱) ۔

____________________

۱۔ اصول کافی ، جلد ۲، باب الذنوب، حدیث ۲۰، ص ۲۰۹۔

۴ ۔ قرآن میں قلب سے مراد کیا ہے :

قرآن مجید میں ادراک حقائق کی نسبت دل کی طرف کیوں دی گئی ہے جب کہ یہ بات واضح ہے کہ دل ادراکات کا مرکز نہیں وہ تو بدن میں گردش خون کا ایک آلہ ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ لفط قلب قرآن میں کئی معانی کے لئے ہے جن میں سے بعض یہ ہیں :

الف : ادراک وعقل ۔ جیسا کہ سورہ ق، آیہ ۳۷ میں ہے :( ان فی ذلک لذکری لمن کان له قلب ) ۔ ان مطالب میں تذکر و یاد دھانی ان لوگوں کے لئے ہے جو عقل و ادراک کی قوت رکھتے ہیں ۔

ب : روح و جان۔ جیسا کہ سورہ احزاب،آیہ ۱۰ میں ہے :( و اذ زاغت الابصار و بلغت القلوب الحناجر ) ۔ جب آنکھیں دھنس گئیں او رمارے دہشت کے روح و جان لبوں تک آپہنچی۔

ج : مرکز عواطف و مہربانی ۔ سورہ انفال، آیہ ۱۲ میں ہے :( سالقی فی قلوب الذین کفرون الرعب ) ۔ بہت جلد کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے۔

ایک اور جگہ سورہ آل عمراں ، آیة ۱۵۹ میں ہے :( فبما رحمة من الله لنت لهم، و لوکنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک ) ۔

یہ رحمت الہی ہے کہ آپ لوگوں کے لئے نرم خو ہیں اور اگر آپ تند خو اور سنگدل ہوتے تو آپ کے گرد و پیش سے منتشر ہوجاتے۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ انسانی وجود میں دو قوی مرکز ہیں جو یہ ہیں :

الف : مرکز عواطف۔ جس سے مراد وہی چلغوزہ نما دل ہے جو سینے کے بائیں حصے میں ہے او رمسائل عواطف (مہربانی و رحم) پہلے پہل اسی مرکز پر اثرا نداز ہوتے ہیں اور پہلی چنگاری دل سے شروع ہوتی ہے۔

ہم وجدانی طور پر جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا بوجھ اسی دل پر محسوس کرتے ہیں ۔ اسی طرح جب کسی سرور انگیز اور مسرت آراء امر کا سامنا کرتے ہیں تو اسی مرکز میں فرحت و انبساط کا احساس کرتے ہیں (یہ بات غورطلب ہے)۔

یہ صحیح ہے کہ سب ادراکات و عواطف کا اصلی مرکز انسان کی روح رواں ہے لیکن ان کا مظاہرہ اور جسمی عکس العمل مختلف ہوتا رہتا ہے۔ ادراک و فہم کا عکس العمل پہلی دفعہ کا ر خانہ مغز میں ظاہر ہوتا ہے لیکن مسائل عواطف مثلا محبت، عداوت، خوف، اطمینان خوشی او رغمی کا عکس العمل انسان کے دل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان امور کے پیدا ہوتے ہی واضح طور پر ان کا اثر ہم اپنے د ل میں محسوس کرتے ہیں ۔

خلاصہ یہ کہ اگر قرآن میں مسائل عواطف کو اسی دل پر کی طرف اور مسائل عقلی کو قلب بمعنی عقل یا مغز کی طرف نسبت دی گئی ہے تو توقف بھی تباہی اور نابودی کا سبب ہے۔ اس بناء پر کیا مضائقہ ہے کہ فکری و عاطفی تحریکوں اور فعالیتوں کو نسبت اس کی طرف دی جائے۔

۵ ۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں :

۵ ۔ قلب و بصر صیغہ جمع اور سمع مفرد میں کیوں : زیر مطالعہ آیت میں اور بہت سی آیات قرآنی کی طرح قلب و بصر صورت جمع(قلوب و ابصار) آئے ہیں جب کہ سمع قرآن میں ہر جگہ مفرد کی صورت میں ذکر ہوا ہے تو اس فرق میں کوئی نکتہ ہونا چاہئے۔

بات یہ ہے کہ لفظ سمع قرآن مجید میں ہر جگہ مفرد آیا ہے اور کہیں بھی جمع (اسماع نہیں آیا لیکن قلب و بصر کبھی جمع کی صورت میں جیسا کہ زیر نظر آیت میں اور کبھی بصورت مفرد جیسے سورہ جاثیہ آیہ ۲۲ اور سورہ اعراف آیہ ۴۳ میں آی ہے :( و ختم علی سمعه و قلبه و جعل علی بصره غشاوة ) (جاثیہ، ۲۳) ۔

عالم بزرگوار مرحوم شیخ طوسی تفسیر تبیان میں ایک مشہور ادیب کے حوالے سے رقمطراز ہیں :

ممکن ہے اسمع کے مفرد آنے کی ان دو میں سے ایک وجہ ہو :

۱ ۔ سمع کبھی تو اسم جمع کے عنوان سے استعمال ہوتا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسم جمع میں جمع کے معنی ہوتے ہیں لہذا صیغہ جمع لانے کی ضرورت نہیں ۔

۲ ۔ سمع میں یہ گنجائش ہے کہ وہ مصدری معنی رکھتا ہو اور ہم جانتے ہیں کہ مصدر کم یازیادہ ہو دو پر دلالت ہے لہذا جمع لانے کی ضرورت نہیں ۔اس کے علاوہ ایک وجہ ذوق و علم کے اختیار سے بھی بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ ادراکات قلبی اور مشاہدات چشم ان امور کی نسبت زیادہ ہیں جو سماعت میں آتے ہیں اس اختلاف کی بناء پر قلوب و ابصار جمع کی شکل میں آیا ہے لیکن سمع مفرد کی صورت میں ۔

ماڈرن فزکس کے مطابق امواج صوتی جو قابل سماعت ہیں نسبتا تعداد میں محدود ہیں اور وہ چند ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ امواج نور و رنگ جو قابل روئت ہیں کئی ملین سے زیادہ ہیں ( یہ بات غور طلب ہے)۔

آیات ۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ ) ( ۸)

( یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ آنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ ) ( ۹)

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ آلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ ) ( ۱۰)

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْآرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ) ( ۱۱)

( آلاَإِنَّهُمْ هُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ ) ( ۱۲)

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا آنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ آلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ ) ( ۱۳)

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ ) ( ۱۴)

( اللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ ) ( ۱۵)

( آوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ ) ( ۱۶)

ترجمہ

۸ ۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم خدا اور روز قیامت پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ۔

۹ ۔ وہ چاہتے ہیں کہ خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں مگر وہ اس طرح اپنے سوا کسی کو فریب نہیں دیتے لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔

۱۰ ۔ ان کے دلوں میں ایک میں ایک طرح کی بیماری ہے اور خدا کی طرف سے اس بیمار کو بڑھا دیا جاتا ہے اور ان کی کذب بیانیوں کی وجہ سے درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔

۱۱ ۔ جب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں ۔

۱۲ ۔ آگاہ رہو یہ سب مفسدین ہیں لیکن اپنے آپ کو مفسدنہیں سمجھتے۔

۱۳ ۔ اور جب ان سے کہا جائے کہ دوسرے لوگوں کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کیاہم بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں ۔جان لو کہ یہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے ہیں ۔

۱۴ ۔ اور جب ایماندار لوگوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لا چکے ہیں لیکن جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں (ان سے تو) ہم تمسخر کرتے ہیں ۔

۱۵ ۔ خدا وند عالم ان سے استہزا کرتا ہے اور انہیں ان کی سرکشی میں رکھے ہوئے ہے تاکہ وہ سرگرداں رہیں ۔

۱۶ ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی مول لی ہے حالانکہ یہ تجارت ان کے لئے نفع مند نہیں ہے اور نہ ہی وہ ہدایت یافتہ ہیں ۔

تیسرا گروہ ۔ منافقین

زیر نظر آیات منافقین کے سلسلے میں مکمل اور بہت پر مغز تشریح کی حامل ہیں ۔ ان میں ان کی روحانی شخصیات اور اعمال کو بیان کیاگیاہے۔ اس کی کچھ وضاحت پیش کی جاتی ہے۔

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے لئے جذبہ و خلوص رکھتے تھے نہ صریح مخالفت کی جرآت کرتے تھے۔ قرآن اس گروہ کو ”منافقین“ کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ فارسی میں ہم دو رو یا دو چہرہ کہتے ہیں ۔ یہ لوگ حقیقی مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو چکے تھے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے تھے۔ چونکہ ان کا ظاہر اسلامی تھا لہذا ان کی شناخت مشکل تھی لیکن قرآن ان کی باریک اور زندہ علامت بیان کرتا ہے تاکہ ان کی باطنی کیفیت کو مشخص کردے۔ اس سلسلے میں قرآن ہرزمانے اور قرن کے مسلمانوں کو ایک نمونہ دے رہا ہے۔

پہلے تو نفاق کی تفسیر بیان کی گئی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور قیامت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ ان میں ایمان نہیں ہے۔( ومن الناس من یقول آمنا بالله و بالیوم الآخر و ماهم بمو‌منین ) ۔

وہ اپنے اس عمل کو ایک قسم کی چالاکی او رعمدہ تکنیک سمجھتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ اپنے اس عمل سے خدا اور مومنین کو دھوکہ دیں( یخدعون الله والذین آمنوا ) ۔

حالانکہ وہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں( و مایخدعون الا انفسهم و ما یشعرون ) ۔

وہ صحیح راستے اور صراط مستقیم سے ہٹ کر عمر کا ایک حصہ بے راہ و روی میں گذار دیتے ہیں ، اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو برباد کردیتے ہیں اور ناکامی و بدنامی اور عذاب الہی کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ملتا۔

اس کے بعد اگلی آیت میں قرآن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نفاق در حقیقت ایک قسم کی بیمار ی ہے کیونکہ صحیح و سالم انسان کا صرف ایک چہرہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم و روح میں ہم آہنگی ہوتی ہے کیونکہ ظاہر و باطن، جسم وروح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔ اگر کوئی مومن ہے تو اس کا پورا و جود ایمان کی صدا بلند کرتاہے اور اگر ایمان سے منحرف ہے تب بھی اس کا ظاہر و باطن انحراف کی نشاندہی کرتا ہے ۔یہ جسم و روح میں دوئی ایک درد نو اور اضافی بیماری ہے یہ ایک طرح کا تضاد، ناہم آہنگی اور ایک دوسرے سے دوری ہے جو وجود انسانی پر حکمران ہے۔

قرآن کہتا ہے ان کے دلوں میں ایک خاص بیماری ہے( فی قلوبهم مرض ) ۔

نظام آفرینش میں جوشخص کسی راستے پر چلتا ہے اور اس کے لئے زاد راہ فراہم کئے رکھتا ہے تو وہ یقینا آگے بڑھتا رہتا ہے یا بہ الفاظ دیگر ایک ہی راستے پر چلنے والے انسان کے اعمال و افکار کا ہجوم اس میں زیادہ رنگ بھرتا ہے اور اسے زیادہ راسخ کرتا ہے۔ قرآن مزید کہتا ہے : خدا وند عالم ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے ( و فزادھم اللہ مرضا)۔

چونکہ منافقین کا اصل سرمایہ جھوٹ ہے لہذا ان کی زندگی میں جو تناقضات رونما ہوتے ہیں وہ ان کی توجیہہ کرتے رہتے ہیں ۔ آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے : ان کی ان دروغ گوئیوں کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب ہے( ولهم عذاب الیم بما کانوا یکذبون ) ۔

ا س کے بعد ان کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے پہلی اصلاح طلبی کا دعوی کرنا ہے حالانکہ حقیقی فسادی وہی ہیں ”جب ان سے کہا جائے کہ روئے زمین پر فساد نہ کرو تو وہ اپنے تئیں مصلح بتاتے ہیں (و اذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون) اور وہ دعوی کرتے ہیں کہ ہمارا تو زندگی میں اصلاح کے علاوہ کوئی مقصد رہا ہے نہ اب ہے۔

اگلی آیت میں قرآن کہتا ہے : جان لو کہ یہ سب مفسد ہیں اور ان کا پروگرام فساد کے سوا کچھ نہیں ۔ لیکن وہ خود بھی شعور سے تہی دامن ہیں( الا انهم هم المفسدون ولکن لا یشعرون ) ۔

ان کے اصرار نفاق میں پختگی اور اس باعث ننگ و عار کام کی عادت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ رفتہ رفتہ وہ گمان کرنے لگے ہیں کہ یہی پروگرام تربیت و اصلاح کے لئے مفید ہے جیسے پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اگر گناہ ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر انسان سے حس تشخیص چھن جاتی ہے بلکہ اس کی تشخیص برعکس ہوجاتی ہے اور ناپاکی و آلودگی اس کی طبیعت ثانوی بن جاتی ہے۔

ایسے لوگوں کی دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عاقل و ہوشیار او رمومنین کو بیوقوف ،سادہ لوح اورجلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں ۔ جیسے قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لے آو جس طرح باقی لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں( و اذا قیل لهم آمنوا کما آمن الناس قالوا انو من کما آمن السفهاء ) ۔

اس طرح وہ ان پاک دل ، حق طلب اور حقیقت کے متلاشی افراد کو حماقت و بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں جو دعوت پیغمبر اور ان کی تعلیمات میں آثار حقانیت کامشاہدہ کرکے سرتسلیم خم کرچکے ہیں ۔ اپنی شیطنت، دو رخی اور نفاق کو ہوش و عقل اور درایت کی دلیل سمجھتے ہیں گویا ان کی منطق میں عقل نے بے عقلی کی جگہ لے لی ہے اسی لئے قرآن کے جواب میں کہتا ہے : جان لو کہ واقعی بیوقوف یہی لوگ ہیں وہ جانتے نہیں( الا انهم هم السفهاء ولکن لا یعلمون ) ۔

کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا تعین نہ کرسکے اور ہر گروہ میں اس گروہ کا رنگ اختیار کرکے داخل ہو اور یکسانیت و شخصی وحدت کی بجائے دو گانگی یاکئی ایک بہروپ قبول کرکے اپنی استعداد اور قوت کو شیطنت ، سازش اور تخریب کا ری کی راہ میں صرف کرے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو عقلمند سمجھے۔

ان کی تیسری نشانی یہ ہے کہ ہر روز کسی نئے رنگ میں نکلتے ہیں او رہر گروہ کے ساتھ ہم صدا ہوتے ہیں جس طرح قرآن کہتا ہے : جب وہ اہل ایمان سے ملاقات کرتے ہین تو کہتے ہیں ہم ایمان قبول کرچکے ہیں اور تمہیں غیر نہیں سمجھتے۔

لیکن جب اپنے شیطان صفت دوستوں کی خلوت گاہ میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں( وا ذا دخلوا الی شیاطینهم قالوا انا معکم ) ) اور یہ جو ہم مومنین سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں یہ تو تمسخر و استہزاء ہے( انما نحن مستهزون ) ان کے افکار و اعمال پر دل میں تو ہم ہنستے ہیں یہ سب ان سے مذاق ہے ورنہ ہمارے دوست، ہمارے محرم راز اور ہمارا سب کچھ تو آپ لوگ ہیں ۔

اس کے بعد قرآن ایک سخت اور دو ٹوک لب ولہجہ کے ساتھ کہتا ہے : خدا ان سے تمسخر کرتا ہے( الله یستهزی بهم ) اور خدا انہیں ان کے طغیان و سرکش میں رکھے گاتاکہ وہ کاملا سرگرداں رہیں( و یمدهم فی طغیانهم یعمهون ) (۱) ۔

____________________

۱۔ یعمھون مادہ ”عمہ“ سے ہے (بروزن ہمہ) جو تردد یا کسی کام میں متحیر ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے او رکور دلی، تاریکی بصیرت کے معنی میں بھی مستعمل ہے جس کا اثر سرگردانی ہے۔ مفردات راغب، تفسیر منار اور قاموس اللغة کیطرف رجوع کیا جائے۔

مورد بحث آیات میں سے آخری ان کی آخری سر نوشت ہے جو بہت غم انگیز اور تاریک ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے اس تجارت خانہ عالم میں ہدایت کے لئے گمراہی کو خریدلیا ہے۔ (اولئک الذین اشتروا الضلالة بالهدی )۔ اسی وجہ سے ان کی تجارت نفع مند نہیں بلکہ سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں (فما ربحت تجارتهم ) اور کبھی بھی انہوں نے ہدایت کا چہرہ نہیں دیکھا( وما کانوا مهتدین