تفسیر نمونہ جلد ۱

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 78089
ڈاؤنلوڈ: 5019


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 231 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 78089 / ڈاؤنلوڈ: 5019
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 1

مؤلف:
اردو

۱ ۔ نفاق کی پیدائش اور اس کی جڑیں :

جب کسی علاقے میں کوئی انقلاب آتاہے خصوصا اسلام جیسا انقلاب جس کی بنیاد حق وعدالت پر ہے تو مسلما غارت گروں ، ظالموں او رخود سروں کے منافع کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے تو وہ پہلے تمسخر سے پھر مسلح قوت، اقتصادی دباؤ اور مسلسل اجتماعی پرا پیگنڈہ سے کام لیتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ انقلاب کو درہم و برہم کردیں ۔

جب انقلاب کی کامیابی کا پرچم علاقے کی قوتوں کو سربلند نظر آتا ہے تو مخالفین کا ایک گروہ اپنی تکنیک اور روش ظاہری کو بدل دیتا ہے اور ظاہرا انقلاب کے سامنے جھک جاتا ہے لیکن وہ زیر زمین مخالفت کا پروگرام تشکیل دیتا ہے۔

یہ لوگ جو دومختلف چہروں کی وجہ سے منافق کہلاتے ہیں انقلاب کے خطرناک ترین دشمن ہیں (منافق کا مادہ نفق ہے یہ بروزن شفق ہے جس کے معنی زیر زمین نقب او رسرنگ کے ہیں جس سے چھپنے یابھاگنے کا کام لیا جاتا ہے)۔ ان کا موقف پورے طور پر مشخص نہیں ہوتا لہذا انقلابی انہیں پہچان نہیں پاتے کہ خود سے انہیں دور کردیں وہ لوگ پاک باز اور سچے لوگوں میں گھس جاتے ہین یہاں تک کہ کبھی کبھی اہم ترین پوسٹ پر جا پہنچتے ہیں ۔

جب تک پیغمبر اسلام (ص) نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہیں کی تھی اور مسلمانوں کی حکومت تشکیل نہیں پائی تھی۔ ایسا گروہ سرگرم عمل نہیں ہوا لیکن نبی اکرم (ص) جب مدینہ میں آگئے تو حکومت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور جنگ بدر کی کامیابی کے بعد یہ معاملہ زیادہ واضح ہوگیایعنی رسمی طور پر ایک چھوٹی سی حکومت جوقابل رشد تھی، قائم ہوگئی۔

یہ وہ موقع تھا کہ مدینہ کے گدی نشینوں خصوصایہودیوں کے (جو اس زمانے میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے) بہت سے منافع خطرے میں پڑگئے۔

اس زمانے میں یہودیوں کازیادہ احترام اس وجہ سے تھا کہ وہ اہل کتاب او رنسبتا پڑھے لکھے لوگ تھے اورو ہ اقتصادی طور پر بھی آگے تھے حالانکہ یہی لوگ ظہور پیغمبر (ص) سے پہلے اس قسم کے امور کی خوش خبری دیتے تھے۔ مدینہ میں کچھ اور لوگ بھی تھے جن کے سر میں لوگوں کی سرداری کا سودا سمایا ہوا تھا۔ لیکن رسول خدا کی ہجرتسے ان کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔

ظالم سرداروں ، سرکشوں اور ان غارت گروں کے حمایتیوں نے دیکھا کہ عوام تیزی سے نبی اکرم (ص) پر ایمان لا رہے ہیں ۔ ان کے عزیز و اقارب بھی ایک عرصے تک مقابلہ کرتے رہے لیکن آخر کار انہیں بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں ، کیونکہ علم مخالفت بلند کرنے میں جنگی مشکلات اوراقتصادی صدمات کے علاوہ ان کی نابودی کا خطرہ تھا خصوصاعرب کی پوری قوت بھی آپ(ص) کے ساتھ تھی اور ان لوگوں کے قبیلے بھی ان سے جدا ہوچکے تھے۔

اس بناء پر انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا اور وہیہ کہ ظاہرا مسلمان ہوجائیں اور مخفی طور پر اسلام کو برباد کرنے کا منصوبہ بنائیں ، خلاصہ یہ کہ کسی معاشرے میں نفاق کے ظہور کی ان دو وجوہ میں سے ایک ہوتی ہے :

الف : کسی انقلاب کی کامیابی اور معاشرے پر اس کا تسلط

ب : نفسیاتی کمزوری اور سخت حوادث کے مقابلے میں جرآت و ہمت کا فقدان

۲ ۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے :

۔ ہر معاشرے میں منافقین کی پہچان ضروری ہے : اس میں شک و شبہ نہیں کہ نفاق اور منافق زمانہ پیغمبر(ص) سے مخصوص نہ تھے بلکہ ہر معاشرے میں اس گروہ کا وجود ہوتا ہے البتہ ضروری ہے کہ قرآن کے دئیے ہوئے معیار کی بنیاد پر ان کی پہچان کی جائے تاکہ وہ کوئی نقصان یاخطرہ پیدا نہ کرسکیں ۔ زیر مطالعہ آیات کے علاوہ سورہ منافقین اور روایات اسلامی میں ان کی مختلف نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں :

الف : زیادہ شور شرابہ اور بڑے بڑے دعوے۔ باتیں بہت ،عمل کم اور قول و فعل میں تضاد ہونا۔

ب : ہر جگہ کے رنگ کو اپنا لینا اور ہر گروہ کے ساتھ ان کے ذوق کے مطابق گفتگو کرنا۔ مومنین سے ”آمنا“ کہنا اور مخالفین سے ”انامعکم“۔

ج : عوام سے اپنے آپ کو الگ رکھنا ،خفیہ انجمنیں قائم کرنا اور پوشیدہ منصوبے بنانا۔

د : دھوکہ دہی مکرو فریب ، جھوٹ، تملق ، چاپلوسی، پیمان شکنی اور خیانت کی راہ چلنا۔

ھ : اپنے تئیں بڑا سمجھدار گرداننا اور دوسروں کو ناسمجھ، بیوقوف اور نادان قرار دینا۔

خلاصہ یہ کہ دو رخی اور اندرونی تضاد منافقین کی واضح صفت ہے، ان کا انفرادی و اجتماعی چال چلن ایسا ہوتا ہے جس سے انہیں واضح طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔

قرآن حکیم کی یہ تعبیر کتنی عمدہ ہے کہ ”ان کے دل بیمار ہیں “ ( فی قلوبھم مرض)۔ کون سی بیماری ظاہر و باطن کے تضاد سے بدتر ہے او رکون سی بیماری اپنے آپ کو بڑا سمجھنے اور سخت حوادث کے مقابلے سے فرار سے بڑھ کرہے۔

جیسے دل کی بیماری جتنی بھی پوشیدہ ہو اسے کاملا مخفی نہیں رکھا جاسکتا بلکہ اس کی علامت انسان کے چہرے اور تمام اعضاء بدن سے آشکار ہوتی ہیں ۔ نفاق کی بیماری بھی اسی طرح ہے جو مختلف مظاہر کے ساتھ قابل شناخت ہے اور اندرونی نفاق کی بیماری کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔

تفسیرنمونہ سورہ نساء آیت ۱۴۱ تا ۳۴۱ میں بھی صفات منافقین کے بارے میں بحث کی گئی ہے نیز سورہ توبہ آیت ۴۹ تا ۵۷ کے ذیل میں بھی اس سلسلے میں کافی بحث ہے اور سورہ توبہ آیت ۶۲ تا ۸۵ کے ذیل میں بھی ایسی ابحاث موجود ہیں ۔

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت :

۳ ۔ معنی نفاق کی وسعت : اگر چہ نفاق اپنے خاص مفہوم کے لحاظ سے ان بے ایمان لوگوں کے لئے ہے جو ظاہرا مسلمانوں کی صف میں داخل ہوں لیکن باطنی طور پر کفر کے دلدادہ ہوں لیکن نفاق کا ایک وسیع مفہوم ہے جو ہر قسم کے ظاہر و باطن اور گفتار و کردار کے تضاد پر محیط ہے چاہے یہ چیز مومن افراد میں پائی جائے جنہیں ہم ” دور گہ ہائے نفاق“ (یعنی ۔ ایسے انسان یا حیوان جن کے ماں باپ مختلف نسل سے ہوں ) کہتے ہیں ۔

مثلا حدیث میں ہے :ثلاث من کن فیه کان منافقا و ان صام و صلی و زعم انه مسلم من اذا ائتمن خان و اذا حدث کذب و اذا وعدا خلف ۔

تین صفات ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ منافق ہے چاہے وہ روزے رکھے، نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ( اور وہ صفات یہ ہیں ) جب امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے، بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے اور وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے(۱) ۔

مسلم ہے کہ ایسے اشخاص اس خاص معنی کے لحاظ سے منافق نہیں تاہم نفاق کی جڑیں ان میں پائی جاتی ہیں ، خصوصا ریا کاروں کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے :الریاء شجرة لا تثمر الا الشرک الخفی و اصلها النفاق ۔

یعنی ریا کاری و دکھاوا ایسا (تلخ) درخت ہے جس کا پھل شرک خفی کے علاوہ کچھ نہیں اوراس کی اصل اور جڑ نفاق ہے( ۲) ۔

یہاں پر ہم آپ کی توجہ امیرالمومنین علی(ع) کے ایک ارشاد کی طرف دلاتے ہیں جو منافقین کے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا :

اے خدا کے بندو ! تمہیں تقوی و پرہیزگاری کی وصیت کرتا ہوں اور منافقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں گو گمراہ کرتے ہیں ، خود خطا کار ہیں اور دوسروں کو خطا ؤں میں ڈالتے ہیں ، مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں ، مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں ، ہر طریقے سے تمہیں پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چال چلتے ہیں ۔ ان کی گفتگو ظاہرا تو شفا بخش ہے لیکن ان کا کردا ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ۔ لوگوں کی خوش حالی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں ۔ امید رکھنے والوں کو مایوس کردیتے ہیں ۔ ہر راستے میں ان کا کوئی نہ کوئی مقتول ہے۔ ہردل میں ان کی راہ ہے اور ہر مصیبت پر ٹسوے بہاتے ہیں ۔ مدح و ثنا ایک دوسرے کو بطور قرض دیتے ہیں اور جزا و عوض کے منتظر رہتے ہیں اگر کوئی چیز لینی ہو تو اصرار کرتے ہیں اور اگر کسی کو ملامت کریں تو اس کی پردہ دری کرتے ہیں( ۳) ۔ ۔

____________________

۱۔ سفینة البحار، جلد ۲ ص ۶۰۵۔

۲۔ سفینة البحار جلد۱ مادہ رئی۔

۳۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۴

۴ ۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں :

۔ منافقین کی حوصلہ شکنیاں : نہ صرف اسلام بلکہ ہر انقلابی اور ارتقاء پسند آئین و دین کے لئے منافقین خطرناک ترین گروہ ہے۔ وہ مسلمانوں کی صفوں میں گھس جاتے ہین اور حوصلہ شکنی کےلئے ہر موقع غنیمت سمجھتے ہیں ۔ کبھی سچے مومنین کا اس پر بھی تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا مختصر سرمایہ راہ خدا میں خرچ کیا ہے جیسے قرآں کہتے ہے :( الذین یلمزون المطوعین من الومنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم و لهم عذاب الیم ) ۔

وہ مخلصین مومنین کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے مختصر سرمایہ کو بے ریا راہ خدا میں ) خرچ کیا ۔ خدا ان سے استہزاء کرتاہے اور درد ناک عذاب ان کے انتظار میں ہے (توبہ ۷۹) ۔

کبھی وہ اپنی خفیہ میٹنگوں میں فیصلہ کرتے کہ رسول خدا (ص) کے اصحاب سے مالی امداد کلی طور پر منقطع کردیں اور آپ سے الگ ہوجائیں جیسے سورہ منافقون میں ہے :( هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضوا والله خزائن السموات والارض و لکن المنافقین لا یفقهون ) ۔

وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ ہیں ان سے مالی امداد منقطع کر لو تاکہ وہ آپ کے گردو پیش سے منتشر ہوجائیں ۔ جان لو کہ آسمان و زمین کے خزانے خدا کے لئے ہیں لیکن منافق نہیں جانتے (منافقون ۷) ۔

کبھی یہ فیصلہ کرتے تھے کہ جنگ سے مدینہ واپس پہنچنے پر متحد ہو کر مناسب موقع پر مومنین کو مدینہ سے نکال دیں گے اور کہتے تھے :

( لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن الاعز منها الاذل ) ۔

اگر ہم مدینہ کی طرف پلٹ گئے تو عزت والے ذلیلوں کو باہر نکال دیں گے۔(منافقون ۸) ۔

کبھی مختلف بہانے بنا کر (مثلا فصل کے محصولات کی جمع آوری کابہانہ) جہاد کے پروگرام میں شریک نہ ہوتے تھے اور سخت مشکلات کے وقت نبی اکرم (ص) کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی ڈر رہتا تھا کہ کہیں ان کا راز فاش نہ ہوجائے مبادا اس طرح انہیں رسوائی کا سامناکرنا پڑے۔

ان کی معاندانہ حوصلہ شکنیوں کی وجہ سے قرآن مجید نے ان پر سخت وار کئے ہیں اور قرآن مجید کی ایک سورت (منافقون) ان کے طور طریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے، توبہ،حشر اوربعض دوسری سورتوں میں بھی انہیں ملامت کی گئی ہے اور اسی سورہ بقرہ کی تیرہ آیات انہی کی صفات اور انجام بد سے متعلق ہیں ۔

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا :

۵ ۔ وجدان کو دھوکا دینا : مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی مشکل منافقین سے رابطے کے سلسلے میں تھی کیونکہ ایک طرف تو وہ مامور تھے کہ جو شخص اظہار اسلام کرے کشادہ روئی سے استقبال کیا جائے اور ان کے عقائد کے سلسلے میں جستجو اور تفتیش نہ کی جائے اور دوسری طرف منافقین کے منصوبوں کی نگرانی کا کام تھا۔ منافق اپنے تئیں جب حق کا ساتھی اور ایک فرد مسلمان کی حیثیت سے متعارف کرواتا تو ا س کی بات قبول کرنا پڑتی جب کہ باطنی طور پر وہ اسلام کے لئے سد راہ ہوتا اور اس کے خلاف سوگند کھائے ہوئے دشمنوں میں سے ہوتا۔ یہ گروہ اس راہ کو اپنا کر اس زعم میں تھا کہ خدا اور مومنین کو ہمیشہ دھوکہ دے سکے گا۔ حالانکہ یہ لوگ لا شعوری طور پر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے تھے۔

یخادعون اللہ والذین آمنوا کی تعبیر دقیق معنی دیتی ہے (مخدوعہ کے معنی ہیں دونوں طرف سے دھوکہ دینا)یہ لوک ایک طرف تو کور باطنی کی وجہ سے اعتقاد رکھتے تھے کہ نبی اکرم(ص) دھوکہ باز ہیں اور انہوں نے حکومت کے لئے دین و نبوت کا ڈھونگ رچا رکھا ہے اور سادہ لوح لوگ ان کے گرد جمع ہو گئے ہیں لہذا ان کا مقابلے میں دھوکا ہی کرنا چاہئے۔ اس بناء پر ان منافقین کا کام ایک طرف تو دھوکا وفریب تھا دوسری طرف نبی اکرم(ص) کے بارے میں اس قسم کا غلط اعتقاد رکھتے تھے لیکن جملہ ”( و ما یخدعون الا انفسهم و مایشعرون ) “ ان کے دونوں ارادوں کو خاک میں ملاتا ہوا نظر آتا ہے یہ جملہ ایک طرف تویہ ثابت کرتا ہے کہ دھوکہ و فریب صرف انہی کی طرف سے ہے ۔ دوسری طرف کہتا ہے کہ اس فریب کی باز گشت بھی انہی کی طرف ہے لیکن وہ سمجھتے نہیں ان کا اصلی سرمایہ جو حصول سعادت کے لئے خدا نے ان کے وجود میں پیداکیا ہے وہ اسے دھوکہ و فریب کی راہ میں برباد کر رہے ہیں اور ہر خیر و نیکی سے تہی دامن اور گناہوں کا بھاری بوجھ اٹھائے دنیا سے جارہے ہیں ۔

کوئی شخص بھی خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ ظاہر وباطن سے باخبر ہے اس بناء پر یخادعون اللہ سے تعبیر کرنا اس لحاظ سے ہے کہ رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکا دینا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے (دوسرے مواقع پر بھی قرآن میں ہے کہ خدا وند عالم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مومنین کی تعظیم کے لئے خود ان کی صف میں بیان کرتا ہے) یاپھر یہ لوگ صفات خدا کو نہ پہچاننے کی وجہ سے اپنی کوتاہ و ناقص فکر سے واقعا یہ سمجھتے تھے کہ ہوسکتا ہے کوئی چیز خدا سے پوشیدہ ہو ایسی نظیر قرآن مجید کی دیگر آیات میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

بہرحال زیر نظر آیت وجدان کو دھوکا دینے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گمراہ اور گناہ سے آلودہ انسان برے اور غلط اعمال کے مقابلے میں وجدان کی سزا و سرزنش سے بچنے کے لئے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تئیں مطمئن کر لیتا ہے کہ نہ صرف اس کا عمل برا اور قبیح نہیں بلکہ باعث اصلاح ہے اور فساد کے مقابلے میں( انما نحن مصلحون ) یہ اس لئے کہ وجدان کو دھوکہ دے کرا طمینان سے غلط کام کو جاری رکھ سکے۔

امریکہ کےایک صدر کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس نے جاپان کے دو بڑے شہروں ( ہیرو شیما اور ناگا ساکی) کو ایٹم بم سے تباہ کرنے کا حکم کیوں دیا تھا جب کہ اس سے دو لاکھ افراد بچے، بوڑھے اور جوان ہلاک یا ناقص الاعضاء ہوگئے تو اس نے جواب دیا تھا کہ اگر ہم یہ کام نہ کرتے تو جنگ طویل ہوجاتی اور پھر زیادہ افراد کو قتل کرنا پڑتا۔

گویا ہمارے زمانے کے منافق بھی اپنے وجدان یا لوگوں کو دھوکادینے کے لئے ایسی باتیں اور ایسے بہت سے کام کرتے ہیں حالانکہ جنگ جاری رکھنے یا شہر کو ایٹم بم سے اڑانے کے علاوہ تیسری واضح راہ بھی تھی وہ یہ کہ توسیع پسندی سے ہاتھ اٹھالیں اور قوموں کو ان کے ملکوں کے سرمائے کے ساتھ آزادانہ رہنے دیں ۔

نفاق حقیقت میں وجدان کو فریب دینے کا وسیلہ ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ انسان اس اندرونی واعظ ، ہمیشہ بیدار و پہریدار اور خدا کے باطنی نمائندے کا گلا گھونٹ دے یا اس کے چہرے پر اس طرح پردہ ڈال دے کہ اس کی آواز کان تک نہ پہنچے

۶ ۔ نقصان زدہ تجارت :

۔ نقصان زدہ تجارت : اس دنیا میں انسان کی کار گزاریوں کو قرآن مجید میں بار ہا ایک قسم کی تجارت سے تشبیہ دی گئی ہے اور حقیقت میں ہم سب اس جہان میں تاجر ہیں اور خدا نے ہمیں عقل،فطرت، احساسات، مختلف جسمانی قوی، نعمات دنیا طبیعت اور سب سے آخر میں انبیاء کی رہبری کا عظیم سرمایہ عطا فرما کر تجارت کی منڈی میں بھیجا ہے۔ ایک گروہ نفع اٹھاتا ہے اور کامیاب و سعادت مند ہوجاتا ہے جب کہ دوسرا گروہ نہ صرف یہ کہ نفع حاصل نہیں کرتا بلکہ اصل سرمایہ بھی ہاتھ سے دے بیٹھتا ہے اور مکمل دیوالیہ ہوجاتا ہے ۔ پہلے گروہ کا کامل نمونہ مجاہدین راہ خدا ہیں جیسا کہ قرآن ان کے بارے میں کہت ہے :

( یا ایها الذین آمنوا هل ادلکم علی تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله باموالکم و انفسکم ) ۔

اے ایمان والو ! کیا تمہیں ایسی تجارت کی راہنمائی نہ کروں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے اور سعادت ابدی کا ذریعہ ہو) خدا اور اس کے سول پر ایمان لے آؤ اور اس کی راہ میں مال وجان سے جہاد کرو۔ (صف ، ۱۰،۱۱) ۔

دوسرے گروہ کا واضح نمونہ منافقین ہیں ۔ منافقین جو مخرب اور مفسد کام اصلاح و عقل کے لباس میں انجام دیتے تھے۔

قرآن گذشتہ آیات میں ان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ” وہ ایسے لوگ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید لیا ہے اور یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش ہے نہ ہی باعث ہدایت۔ وہ لوگ ایسی پوزیشن میں تھے کہ بہترین راہ انتخاب کرتے۔ وہ وحی کے خوشگوار او رمیٹھے چشمے کے کنارے موجود تھے اور ایسے ماحول میں رہتے تھے جو صدق و صفا اورایمان سے لبریز تھا۔

بجائے اس کے کہ وہ ا س خاص موقع سے بڑا فائدہ اٹھاتے جو طویل صدیوں میں ایک چھوٹے سے گروہ کو نصیب ہوا، انہوں نے ایسی ہدایت کھو کر گمراہی خرید لی جو ان کی فطرت میں تھی اور وہ ہدایت جو وحی کے ماحول میں موجزن تھی۔ ان تمام سہولتوں کو وہ اس گمان میں ہاتھ سے دے بیٹھے کہ اس سے وہ مسلمانوں کوشکست دے سکیں گے اور خود ان کے گندے دماغوں میں پرورش پانے والے برے خواب شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جبکہ اس معاملے اور غلط انتخاب میں اہیں دو بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا :

الف : ایک یہ کہ ان کا مادی اور معنوی دونوں قسم کا سرمایہ تباہ ہوگیا اور اس سے انہیں کوئی فائدہ بھی نہ پہنچا۔

ب : دوسرا یہ کہ وہ اپنے غلط مطمع نظر کو پا بھی نہ سکے کیونکہ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ گیا اور صفحہ ہستی پر محیط ہوگیا اور یہ منافقین بھی رسوا ہوگئے۔