شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)0%

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 80

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف: ترتیب:محمدوارث
زمرہ جات:

صفحے: 80
مشاہدے: 34166
ڈاؤنلوڈ: 2373

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34166 / ڈاؤنلوڈ: 2373
سائز سائز سائز
شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

شاہ است حسین (علیہ السلام)

امام عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت

ترتیب :

محمد وارث

۳

حرفِ آغاز

سید الشہدا، سبطِ نبی (ص) ، فرزندِ علی (ع)، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا اردو شاعری میں موضوع کے لحاظ سے ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔

واقعۂ کربلا، امام حسین کی اولوالعزمی، شجاعت، استقامت، آپ کے رفقا کی وفاداری و جان نثاری، آپ کے اہلِ بیت کے مصائب، حُر کی حق شناسی، نہ صرف مرثیہ اور سلام کے اہم موضوع ہیں بلکہ اردو شاعری میں استعارہ اور علامت کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں اور قریب قریب سبھی مشہور شعراء نے اپنی اپنی فکر کے مطابق ان کو استعمال کیا ہے۔

میں یہاں پر ایک جسارت کر رہا ہوں کہ اردو شعراء کرام کے کلام میں جو سلام موجود ہیں ان کو پیش کر رہا ہوں۔ میرے مآخذ، شعراء کے دواوین و کلیات اور مختلف انتخاب ہیں۔ ویب پر بھی مختلف کلام ملتا ہے لیکن بہر حال ان میں املاء کی اغلاط ہیں۔

سب سے پہلے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف فارسی رباعی پیشِ خدمت ہے، اور اسی رباعی سے عنوان لینے کی سعادت حاصل کی ہے۔

*

شاہ است حُسین، بادشاہ است حُسین

دیں است حُسین، دیں پناہ است حُسین

*

سر داد نداد دست در دستِ یزید

حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین

***

۴

سلام

میرزا اسد اللہ خان غالب

سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو

تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

*

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟

کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

*

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟

کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

*

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا

اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

*

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی

کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

*

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی

اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

*

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی

ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

*

۵

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل

شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

*

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پاۓ وہ بات

کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

*

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند

بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

*

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک

کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

*

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے

اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

*

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟

مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

*

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں

پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

*

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے

کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

*

۶

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد

پیادہ لے چلیں اور نا سزا کہیں اُس کو

*

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں

علی سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

*

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ

بُرا نہ مانیۓ گر ہم بُرا کہیں اُس کو

*

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین

کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

*

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے

رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

*

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد

غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

***

۷

امامِ بر حقِ

حسرت موہانی

امامِ بر حقِ اہلِ رضا سلام علیک

شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

*

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی

تتمۂ شرفِ مصطفیٰ سلام علیک

*

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبریٰ

تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

*

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش

تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

*

ترے طفیل میں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا

یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک

***

۸

امام حسین

واصف علی واصف

السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں

السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

*

السّلام اے داستانِ بے کسی

السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

*

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن

السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

*

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن

السّلام اے افتخارِ عارفاں

*

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی

السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

*

السّلام اے بوترابی کی دلیل

السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

*

السّلام اے ساجدِ بے آرزو

السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

*

۹

السّلام اے ذو الفقارِ حیدری

السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

*

السّلام اے مستیِ جامِ نجف

السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

*

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں

السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

*

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت

السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

*

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفیٰ

السّلام اے معدنِ علمِ رواں

*

السّلام اے گوہرِ عینِ علی

دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی

***

(مجموعہ"شب.چراغ")

۱۰

تمنّائے کربلا

محمد علی جوہر

بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا

یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

*

ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار

ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

*

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات

جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

*

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے

سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

*

مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے

ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

*

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز

اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا

***

۱۱

احمد ندیم قاسمی

لب پر شہدا کے تذکرے ہیں

لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں

*

جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو

ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں

*

میدان کا دل دہک رہا ہے

دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں

*

کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے

جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں

*

پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے

چُلو بچوں کے بھر دیئے ہیں

*

آثار جوان بھائیوں کے

بہنوں نے زمیں سے چن لیے ہیں

*

بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم

ماؤں نے ردا میں بھر لیے ہیں

*

۱۲

یہ لوگ اصولِ حق کی خاطر

سر دیتے ہیں، جان بیچتے ہیں

*

میدان سے آ رہی ہے آواز

جیسے شبّیر بولتے ہیں

*

جیسے غنچے چٹک رہے ہیں

جیسے کہسار گونجتے ہیں

*

"ہم نے جنہیں سر بلندیاں دیں"

سر کاٹتے کیسے لگ رہے ہیں

*

ہیں یہ رگِ نبی کے قطرے

جو ریت میں جذب ہو رہے ہیں

*

دیکھو اے ساکنانِ عالم

یوں کشتِ حیات سینچتے ہیں

***

۱۳

انور مسعود

شعر

شعر میں کیسے بیاں ہو داستانِ کربلا

لاکھ مضموں باندھ لیجیے تشنگی رہ جائے گی

مسدس

سوارِ دوشِ محمد (ص) کا رتبۂ عالی

حدیثِ عجز ہے میرا بیانِ اجمالی

کھلی ہے آج تخیل کی بے پر و بالی

دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی

یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے

بس ایک دیدۂ خوں بار کا وسیلہ ہے

*

مثیلِ شاہِ شہیدِ شہیر نا ممکن

کوئی غریب ہو ایسا امیر نا ممکن

حسین سا کوئی روشن ضمیر نا ممکن

جہانِ عشق میں اس کی نظیر نا ممکن

وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا

کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا

*

۱۴

چھپی ہے اس کے تدبّر میں معرفت کیسی

کہ مصلحت کی جنوں سے مناسبت کیسی

ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی

ستم گروں کے ستم سے مصالحت کیسی

اسی کی دین ہے یہ سوچ کا قرینہ بھی

کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی

*

مثالِ مہرِ جہاں تاب ضو فشاں ہے حسین

ہمہ خلوص ہے ایثارِ بے کراں ہے حسین

حیات راز ہے اور اس کا راز داں ہے حسین

ریاضِ دہر میں خوشبوئے جاوداں ہے حسین

وہ ظالموں کو ہمیشہ کا انتباہ بھی ہے

وہ اپنی ذات میں تفسیرِ لا الہ بھی ہے

***

۱۵

سیّد الشّہداء

احمد فراز

دشتِ غربت میں صداقت کے تحفظ کے لیے

تُو نے جاں دے کے زمانے کو ضیا بخشی تھی

*

ظلم کی وادیِ خونیں میں قدم رکھا تھا

حق پرستوں کو شہادت کی ادا بخشی تھی

*

آتشِ دہر کو گلزار بنایا تو نے

تو نے انساں کی عظمت کو بقا بخشی تھی

*

اور وہ آگ وہ ظلمت وہ ستم کے پرچم

بڑے ایثار ترے عزم سے شرمندہ ہوئے

*

جرأت و شوق و صداقت کی تواریخ کے باب

تری عظمت، ترے کردار سے تابندہ ہوئے

*

ہو گیا نذرِ فنا دبدبۂ شمر و یزید

کشتگانِ رہِ حق مر کے مگر زندہ ہوئے

*

لیکن اے سیّدِ کونین حسین ابنِ علی

آج بھر دہر میں باطل کی صف آرائی ہے

*

۱۶

آج پھر حق کے پرستاروں کا انعام ہے دار

زندگی پھر اس وادی میں اتر آئی ہے

*

آج پھر مدِ مقابل ہیں کئی شمر و یزید

صدق نے جن کو مٹانے کی قسم کھائی ہے

*

دل کہ ہر سال ترے غم میں لہو روتے ہیں

یہ اسی عہدِ جنوں کیش کی تجدید تو ہے

*

جاں بکف حلقۂ اعدا میں جو دیوانے ہیں

ان کا مذہب ترے کردار کی تقلید تو ہے

*

جب سے اب تک اسی زنجیرِ وفا کا رشتہ

بیعتِ دستِ جفا کار کی تردید تو ہے

****

(مجموعہ۔"شب.خون")

۱۷

سلام اُس پر

احمد فراز

حُسین

اے میرے سر بریدہ

بدن دریدہ

سدا ترا نام برگزیدہ

میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے

دشمنوں کے نرغے میں

تیغ در دست دیکھتا ہوں

میں دیکھتا ہوں

کہ تیرے سارے رفیق

سب ہمنوا

سبھی جانفروش

اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں

گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں

ہوائے جانکاہ کے بگولے

چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں

مسافرانِ رہِ وفا، لٹ لٹا چکے ہیں

اور اب فقط تُو

۱۸

زمین کے اس شفق کدے میں

ستارۂ صبح کی طرح

روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے

یہ ایک منظر نہیں ہے

اک داستاں کا حصہ نہیں ہے

اک واقعہ نہیں ہے

یہیں سے تاریخ

اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے

یہیں سے انسانیت

نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے

*

میں آج اسی کربلا میں

بے آبرو ۔۔۔۔ نگوں سر

شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں

جہاں سے میرا عظیم ہادی

حسین کل سرخرو گیا ہے

*

۱۹

میں جاں بچا کر

فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں

زمین اور آسمان کے عزّ و فخر

سارے حرام مجھ پر

وہ جاں لٹا کر

منارۂ عرش چھو گیا ہے

*

سلام اُس پر

سلام اُس پر

***

(مجموعہ ۔ "جاناں جاناں)

۲۰