شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)0%

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 80

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف: ترتیب:محمدوارث
زمرہ جات:

صفحے: 80
مشاہدے: 34259
ڈاؤنلوڈ: 2381

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34259 / ڈاؤنلوڈ: 2381
سائز سائز سائز
شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف:
اردو

ہم جیسے

احمد فراز

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

*

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا

تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

*

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

*

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

*

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

*

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

*

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

*

۲۱

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز

بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے

***

(مجموعہ۔"نابیناشہرمیںآئینہ")

۲۲

کوثر نیازی

دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے

تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین

*

خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف

مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

**

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر

حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی

*

بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی

کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

**

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی

فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن

*

برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار

خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

**

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں

خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر

*

نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا

زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر

***

۲۳

مرثیۂ امام

فیض احمد فیض

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

*

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

*

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

**

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

*

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

*

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

**

۲۴

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

*

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

*

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

**

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

*

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

*

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

**

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

*

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

*

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

**

۲۵

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

*

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

*

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

**

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

*

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

*

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

**

فرمایا کہ کیوں در پئے ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

*

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

*

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

**

۲۶

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

*

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

*

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

**

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

*

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

*

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

**

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

*

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

*

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

**

۲۷

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

*

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

*

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

***

(مجموعہ۔"شامِ.شہرِیاراں")

۲۸

سلام

منیر نیازی

خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین

شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

*

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے

دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

*

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار

اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

*

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں

نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

*

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما

اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین

***

(مجموعہ۔"ساعتِ.سیّار")

۲۹

حفیظ تائب

رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں

حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

*

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود

انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

*

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز

کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

*

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات

سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

*

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر

جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

*

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں

جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

*

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب

جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں

***

۳۰

مرثیہ

از میر تقی میر

بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار

جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار

*

ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار

ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب

سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب

*

برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب

مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ

دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ

*

۳۱

تا حشر خلق پہنے رہیں گے لباسِ سوگ

ہو گا جہاں جوان سیہ پوش سوگوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا

عباس دل جہان سے اپنا اٹھائے گا

*

اصغر بغل میں باپ کی اک تیر کھائے گا

شائستہ ایسے تیر کا وہ طفل شیر خوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

اے کاش کوئی روز شبِ تیغ اب رہے

تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے

*

لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے

بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے وتار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۲

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم

اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی بزار دم

*

کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام ہی میں کم

آتا ہے کون عالمِ خاکی میں بار بار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ

ہنگامہ لگ رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ

*

رہ کوئی دن عدم میں ہی رنج و محن کے ساتھ

یہ بات دونوں صمع میں رکھتی ہے اشتہار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جلوے میں تیرے سینکڑوں جلووں کی مے فنا

یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا

*

دن ہو گیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا

ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار

*

۳۳

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

آبِ فرات پر تو بہ شب دن نہ پھر کبھی

خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی

*

سیِّد تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی

پیغمبرِ خدا ہی کا پروردۂ کنار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا

جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہو گا برملا

*

نکلے گی تیغِ جور کٹے گا مرا گلا

اے وائے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب

وہ جو غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب

*

۳۴

دے بیٹھے سر کو مصر کے میں کھا کے پیچ و تاب

تر خوں میں دونوں کسو ہوں سر پر پڑے غبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

جس دم خطِ شعاعی ہوئے رونقِ زمیں

افگار ہو کے نیزہ خطی سیوہ حسیں

*

ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں

ہو گا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کر کے جوش

فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہو گا ہوش

*

سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تئیں خموش

آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۵

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں

ہے درمیاں نبی کے نواسے کا پائے جاں

*

ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں

وہ حلق تشنہ ہو گا تہِ تیغ آب دار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے نداں

میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جاں

*

ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شاں

اک شش جہت سے ہو گی بلا آن کر دو چار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور

بختی چرخ راہ چلے گا انہوں کے طور

*

شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور

عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار

*

۳۶

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے

عالم میں دن وہی ہے سیہ کر دکھائیں گے

*

بیٹے کے تئیں سوار پیادہ چلائیں گے

ہو گا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

پیکر میں ایک کشتہ کے ہو گی نہ نیم جان

خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں

*

شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں

یہ جائے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے

سو کر جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے

*

۳۷

ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے

لطف خدائے عز و جل کے امیدوار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

لازم ہے خوں چکان روش گفتگو سے شرم

کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم

*

تجھ کو مگر نہیں ہے محمد کے رو سے شرم

بے خانماں بے دل و بے خویش بے تبار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

راہِ رضا میں عاقبتِ کار سر گیا

ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا

*

ہوں آفتاب جانبِ شام آ کے گھر گیا

خاطر شکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*

۳۸

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں

چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں

*

کچھ میر ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں

آیا ہے ابر شام سے روتا ہے زار زار

*

فردا حسین می شود از دہر نا امید

اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

*****

۳۹

شامِ غریباں

پروین شاکر

غنیم کی سرحدوں کے اندر

زمینِ نا مہرباں پہ جنگل کے پاس ہی

شام پڑ چکی ہے

ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے

اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو

جو اپنی نو خیزیوں کی پہلی رتوں میں

رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے

اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک

جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر

ردائے عفت اڑھانے والے

بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں

بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ

ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا

مگر وفا کی سبیل بن کر

فضا سے اب تک چھلک رہا ہے

برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں

۴۰