شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)0%

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت) مؤلف:
زمرہ جات: شعری مجموعے
صفحے: 80

شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف: ترتیب:محمدوارث
زمرہ جات:

صفحے: 80
مشاہدے: 34173
ڈاؤنلوڈ: 2374

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 80 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34173 / ڈاؤنلوڈ: 2374
سائز سائز سائز
شاہ است حُسین   (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

شاہ است حُسین (امامِ عالی مقام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت)

مؤلف:
اردو

کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے

والے پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں

بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ

حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے

چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں

کٹے ہوئے سر

شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں

کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جا رہی ہے

***

۴۱

میں نوحہ گر ہوں

امجد اسلام امجد

میں نوحہ گر ہوں

میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں

میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں

اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں

اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں

میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں

زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں

نئی زمینوں کے خواب لے کر

مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں میں نو

حہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں

حُسین،

میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں

ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے

حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں

نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا

ترے سفر کی جراحتوں سے

ملا ہے مجھ کو مقام میرا

حُسین، تجھ کو سلام میرا

***

۴۲

آنسوؤں کے موسم میں

اقبال ساجد

حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا

فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی

*

غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا

زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی

*

غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں

یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی

*

وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں

ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی

*

جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر

کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی

*

کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو

کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی

*

دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر

ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی

***

۴۳

قتیل شفائی

سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے

پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے

*

تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے

جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے

*

برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی

مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے

*

علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے

نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے

*

کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی

سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے

*

نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی

مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے

*

قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر

کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے

*

قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا

جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے

***

۴۴

عبدالحمید عدم

تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین

وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین

*

دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق

کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین

*

وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند

درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین

*

کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے

نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین

*

وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی

گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین

***

۴۵

فارغ بخاری

حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے

حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے

*

ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور

یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے

*

بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام

صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے

*

ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے

ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے

*

کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ

ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے

***

۴۶

عطاء الحق قاسمی

جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے

ایسے میں یہ دل بھی ڈولنے لگتا ہے

*

آنکھوں میں پھر جاتی ہے وہ سوہنی صورت

اور پھر دل پر خنجر چلنے لگتا ہے

*

اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں

خیموں میں کوئی بچہ رونے لگتا ہے

*

چاروں جانب گھیرا جھوٹ کے لشکر کا

سچ کا سایہ اس پر پھیلنے لگتا ہے

*

سچ کا سایہ حُر کی صورت سامنے ہے

وہ ہر دل پر دستک دینے لگتا ہے

*

حرص و ہوس کے بندے لیکن کیا جانیں

مرنے والا کیسے جینے لگتا ہے

*

لیکن تم مایوس نہ ہونا دل والو

دل جو سوچتا ہے وہ ہونے لگتا ہے

****

۴۷

خالد احمد

اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے

یہ خستگی تو اہلِ رضا کا لباس ہے

*

اے تشنگی، یہ حُسنِ محبت کے رنگ ہیں

اے چشمِ نم، یہ قافلۂ اہلِ یاس ہے

*

یہ عشق ہے کہ وسعتِ آفاقِ کربلا

یہ عقل ہے کہ گوشۂ دشتِ قیاس ہے

*

سایہ ہے سر پہ چادرِ صبر و صلوٰۃ کا

بادل کی آرزو ہے نہ بارش کی آس ہے

*

سوئے دمشق صبر کا سکہ رواں ہوا

اک رخ پہ ہے خراش تو اک رخ پہ لاس ہے

*

اے زینِ عابدین، امامِ شکستگاں

زنجیر زن ہواؤں میں کس خوں کی باس ہے

*

اے سر بلند و سر بہ فلک اہلِ دین و دل

مدفون کربلا میں ہماری اساس ہے

*

۴۸

تاجِ سرِ نیاز کا ہالہ ہے رفتگی

آہِ امامِ دل زدگاں آس پاس ہے

*

ممکن ہے کسطرح وہ ہماری خبر نہ لیں

ہر سانس، تارِ پیرہنِ التماس ہے

*

خالد شکست و فتح کے معنی بدل گئے

بازارِ شام ہے کہ شبِ التباس ہے

***

۴۹

محمد اعظم چشتی

جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین

نشانِ حق و صداقت ہے آستانِ حُسین

*

حدیثِ صدق و صفا، داستانِ صبر و رضا

بنائے شوقِ شہادت ہے آستانِ حُسین

*

جہاں میں مسکن و ماوا ہے اہلِ ایماں کا

دیارِ حُسنِ عقیدت ہے آستانِ حُسین

*

زمانہ کہتا ہے جس کو جمالِ لم یزلی

اسی جمال کی حجّت ہے آستانِ حُسین

*

نظر گئی مگر اب تک نہ لوٹ کر آئی

وہ برجِ اوجِ امامت ہے آستانِ حُسین

*

جو دیکھنا ہو تو میری نگاہ سے دیکھو

گناہ گاروں کی جنّت ہے آستانِ حُسین

*

یہیں سے جلتے ہیں اعظم حقیقتوں کے چراغ

ضیائے شمعِ نبوت ہے آستانِ حُسین

***

۵۰

رباعیات ۔

کنور مہندر سنگھ بیدی سحر

نغمۂ بربطِ کونین ہے فریادِ حُسین

جادۂ راہِ بقا مسلک آزاد حُسین

شوخیِ لالۂ رنگین ہے کہیں خونِ شفق

کس قدر عام ہوئی سرخیِ رودادِ حُسین

***

زندہ اسلام کو کیا تُو نے

حق و باطل کو دکھا دیا تُو نے

جی کے مرنا تو سب کو آتا ہے

مر کے جینا سکھا دیا تُو نے

***

بڑھائی دینِ مُحمد کی آبرو تُو نے

جہاں میں ہو کے دکھایا ہے سرخرو تُو نے

چھڑک کے خون شہیدوں کا لالہ و گل پر

عطا کیے ہیں زمانے کو رنگ و بُو تُو نے

***

لب پہ جب شاہِ شہیداں ترا نام آتا ہے

ساقی بادۂ عرفاں لیے جام آتا ہے

مجھ کو بھی اپنی غلامی کا شرف دے دیتے

کھوٹا سکہ بھی تو آقا کبھی کام آتا ہے

****

۵۱

سبط علی صبا

جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا

سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا

*

حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا

جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا

*

کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن

تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا

*

کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا

کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا

*

حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو

وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا

*

حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا

بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا

*

حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو

غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا

***

۵۲

گردھاری پرشاد باقی

سلامی کربلا ہے اور میں ہوں

غمِ کرب و بلا ہے اور میں ہوں

*

کہا شہ نے نہیں کوئی رفیق اب

فقط ذاتِ خدا ہے اور میں ہوں

*

دیا ہے اپنا سر میں نے خوشی سے

قضا ہے یا رضا ہے اور میں ہوں

*

جو کچھ وعدہ کیا پورا کروں گا

یہ خنجر ہے گلا ہے اور میں ہوں

***

۵۳

نظم طباطبائی

چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں

پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں

*

پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا

اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں

*

چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے

آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں

*

وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا

اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں

*

ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم

اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں

*

موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر

داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں

*

بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر

سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں

*

وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے

دریائے علم و نور کو پایا کنار میں

***

۵۴

ثروت حسین

کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے

روشنی اب کے سوا آتی ہے

*

ساعتِ علم و خبر سے پہلے

منزلِ کرب و بلا آتی ہے

*

روزِ پیکار و جدل ختم ہوا

شبِ تسلیم و رضا آتی ہے

*

گریہ و گرد کا ہنگام نہیں

دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے

*

پھر سرِ خاکِ شہیداں ثروت

پھول رکھنے کو ہوا آتی ہے

****

۵۵

صدائے استغاثہ

افتخار عارف

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

ھَل مِن ناصِرٍ یَنصَرنا

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گ

کیا کوئی ہے جو میری مدد کو پہنچے گا

صدیوں پہلے دشتِ بلا میں اک آواز

سنائی دی تھی

جب میں بہت چھوٹا ہوتا تھا مری امی کہتی تھی

یہ جو صفِ عزا بچھتی ہے اسی صدا کی

بازگشت ہے

اسی صدا پر بستی بستی گریہ و زاری کا

سامان کیا جاتا ہے

اور تجدیدِ بیعتِ نصرت کا اعلان کیا

جاتا ہے

تب میں پہروں بیٹھ کے پیارے پیارے

اچھے اچھے لوگوں کی باتیں سنتا تھا

سچے سچے لوگوں کی باتیں پڑھتا تھا اور پہروں روتا تھا

اور اب برسوں بیت گئے ہیں

۵۶

جن آنکھوں میں آنسو تھے اب ان آنکھوں میں حیرت ہے

سچائی کی گواہی دینے والے آخر ظالم کو

ظالم کہنے سے ڈرتے کیوں ہیں؟

موت سے پہلے مرتے کیوں ہیں؟

***

۵۷

شورش کاشمیری

قرنِ اوّل کی روایت کا نگہ دار حسین

بس کہ تھا لختِ دلِ حیدرِ کرار حسین

*

عرصۂ شام میں سی پارۂ قرآنِ حکیم

وادیِ نجد میں اسلام کی للکار حسین

*

سر کٹانے چلا منشائے خداوند کے تحت

اپنے نانا کی شفاعت کا خریدار حسین

*

کوئی انساں کسی انساں کا پرستار نہ ہو

اس جہاں تاب حقیقت کا علمدار حسین

*

ابو سفیان کے پوتے کی جہانبانی میں

عزّتِ خواجۂ گیہاں کا نگہ دار حسین

*

کرۂ ارض پہ اسلام کی رحمت کا ظہور

عشق کی راہ میں تاریخ کا معمار حسین

*

جان اسلام پہ دینے کی بنا ڈال گیا

حق کی آواز، صداقت کا طرفدار حسین

*

۵۸

دینِ قیم کے شہیدوں کا امامِ برحق

حشر تک امّتِ مرحوم کا سردار حسین

*

ہر زمانے کے مصائب کو ضرورت اس کی

ہر زمانے کے لیے دعوتِ ایثار حسین

*

کربلا اب بھی لہو رنگ چلی آتی ہے

دورِ حاضر کے یزیدوں سے دوچار حسین

***

۵۹

شہزاد احمد

وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے

*

اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں

کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے

*

رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی

کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے

*

فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟

آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے

*

ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی

غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے

*

ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری

اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے

*

عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی

خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے

*

۶۰