نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23878
ڈاؤنلوڈ: 4191

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23878 / ڈاؤنلوڈ: 4191
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

پانچواں سبق:قرآن اور امامت

عظیم آسمانی کتاب قرآن مجید ،دوسری تمام چیزوں کے مانند امامت کے مسئلہ میں بھی ہمارے لئے بہترین راہنما ہے۔قرآن مجید نے مسئلہ امامت پر مختلف جہات سے بحث کی ہے۔

۱ ۔قرآن مجید”امامت“کو خدا کی جانب سے جانتا ہے:

جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں حضرت ابراھیم (ع) بت شکن کی داستانوں میں پڑھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراھیم(ع) کو نبوت اور رسالت پر فائز ہو نے اور مختلف امتحانات میں کامیاب ہو نے کے بعد امامت کے عہدہ پر قرار دیا ہے۔اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۲۴ میں ارشاد فر مایا ہے:

( وإذابتلیٰ إبرا هیم ربّه بکلمٰتٍ فاتمّهنّ قال إنی جاعلک للنّاس إما ماً)

”اور اس وقت کو یاد کروجب خدانے چند کلمات کے ذریعہ ابراھیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا ہم تم کو لوگوں کا امام بنارہے ہیں۔“

قرآن مجیدکی مختلف آیات اور تاریخی قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت ابراھیم (ع) با بل کے بت پرستوں سے مبارزہ کر نے،شام کی طرف ہجرت کر نے اور خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اپنے بیٹے اسماعیل(ع) کو قربان گاہ میں لے جانے کے بعد امامت کے منصب پر فائز ہو ئے ہیں۔

جب نبوت و رسالت کا عہدہ خدا کی طرف سے معیّن ہو ناضروری ہے تو مخلوق کی ہمہ جہت امامت و رہبری کا مرتبہ بطریق اولیٰ خدا کی طرف سے معیّن ہو نا ضروری ہے ،کیونکہ امامت کا مرتبہ رہبری کے تکامل کی معراج ہے ۔اس لئے یہ کوئی ایسی معمولی چیز نہیں ہے جسے لوگ انتخاب کریں ۔

پھر قرآن مجید خود مذکورہ آیت میں فر ماتا ہے:

( إنی جاعلک للنّاس اماماً)

”میں تم کو امام و پیشوا قرار دینے والا ہوں۔“

اسی طرح سورئہ انبیاء کی آیت نمبر ۷۳ میں بھی بعض با عظمت انبیاء جیسے: حضرت ابراھیم(ع) ،حضرت لوط(ع) ،حضرت اسحاق(ع) اور حضرت یعقوب(ع) کے بارے میں ارشاد ہو تا ہے:

( وجعلنا هم ائمة یهدون بامرنا)

”اورہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے“

اس قسم کی تعبیریں قرآن مجید کی دوسری آیتوں میں بھی ملتی ہیں ،جن سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ الہٰی منصب خداوند متعال کے توسط سے ہی معیّن ہو نا چاہئے ۔

اس کے علاوہ ہم حضرت ابراھیم (ع) کی امامت سے متعلق مذکورہ آیت کے آخری حصہ میں پڑھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے فرزندوں اور آنے والی نسل کے لئے اس منصب کی درخواست کی تو اللہ کی طرف سے یہ جواب ملا :

( لا ینال عهدی الظالمین)

”میرا عہد ہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا “

یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کی دعا قبول ہوئی ،لیکن آپ کے

فر زندوں میں سے جو ظلم کے مرتکب ہو نے والے ہیں وہ ہر گز اس مرتبہ پر فائز نہیں ہو ں گے۔

قابل ذکر بات ہے کہ لغوی اور قرآن مجید کی منطق کے اعتبار سے ”ظالم“ کے وسیع معنیٰ ہیں اور اس میں تمام گناہ من جملہ ان کے آشکار و مخفی شرک اور اپنے اوپر اور دوسروں پر ہر قسم کا ظلم شامل ہے ۔چونکہ خداوند متعال کے علاوہ کوئی اس امر سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے، کیونکہ صرف خدا ہی لوگوں کی نیتوں اور باطن سے آگاہ ہے ،اس لئے واضح ہو تا ہے کہ اس مرتبہ و منصب کا تعیّن صرف خدا وند متعال کے ہاتھ میں ہے ۔

۲ ۔آیہ تبلیغ

سورئہ مائدہ کی آیت نمبر ۶۷ میں یوں ارشاد ہوا ہے:

( یٰا یّها الرّسول بلّغ ماانزل إلیک من ربّک وإن لم تفعل فما بلّغت رسا لته واللّٰه یعصمک من الناس إن اللّٰه لا یهدی القوم الکٰفرین)

”اے پیغمبر!آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پرور دگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کا فروں کی ہدایت نہیں کر تا ہے۔“

اس آیہ شریفہ کے لہجہ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوش مبارک پر ایک سنگین ما مو ریت ڈالی گئی ہے اور اس سلسلہ میں ہر طرف کچھ خاص قسم کی پریشانیاں پھیلی تھیں ،یہ ایسا پیغام تھا کہ ممکن تھا لوگوں کے ایک گروہ کی طرف سے اس کی مخالفت کی جاتی،اس لئے آیہ شریفہ تاکید کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر عمل کر نے کا حکم دیتی ہے اور ممکنہ خطرات اور پر یشانیوں کے مقابلہ میں آپ کو خاطر خواہ اطمینان دلاتی ہے۔

یقینا یہ اہم مسئلہ توحید، شرک یا یہودو منا فقین جیسے دشمنوں سے جہاد کر نے سے مربوط نہیں تھا،کیونکہ اس زمانہ(سورئہ مائدہ نازل ہو نے )تک یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو چکا تھا۔

اسلام کے دوسرے احکام پہنچانے کے سلسلہ میں بھی اس قسم کی پریشانی اور اہمیت نہیں تھی ،کیو نکہ مذکورہ آیت کے مطابق بظاہر یہ حکم رسالت کے ہم وزن اور ہم پلہ تھا کہ اگر یہ حکم نہ پہنچا یا جاتا تو رسالت کا حق ادا نہیں ہو تا ۔کیا یہ مسئلہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی اور خلافت کے علاوہ کچھ اور ہو سکتا ہے ؟خاص کر جب کہ یہ آیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف کے آخری دنوں میں نازل ہوئی ہے اور یہ خلافت کے مسئلہ کے ساتھ تناسب بھی رکھتا ہے ،جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ونبوت کی بقا کا وسیلہ ہے۔

اس کے علاوہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے صحابیوں کی ایک بڑی تعداد ،من جملہ زید بن ارقم ،ابو سعید خدری ،ابن عباس،جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو ہریرہ ،حذیفہ اور ابن مسعود سے اس سلسلہ میں کثیر تعداد میں روایتیں نقل ہو ئی ہیں اور ان میں سے بعض روایتیں گیارہ واسطوں سے ہم تک پہنچی ہیں اور اہل سنت علماء،مفسرین ،محدثین اور مورخین نے بھی انھین نقل کرتے ہو ئے واضح کیا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت علی(ع) اور غدیر کے واقعہ کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ۔(۱)

ان شاء اللہ ہم ”غدیر“کی داستان کو ”روایات وسنت “کے عنوا ن سے آئندہ بحث میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن یہاں پر ہم اسی یاد دہانی پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ آیت اس بات کی ایک واضح دلیل ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ اپنی زندگی کے آخری حج سے لوٹتے وقت حضرت علی(ع) کو با ضابطہ طور پر اپنا جا نشین معیّن کریں اور تمام مسلمانوں کو ان کا تعارف کرائیں ۔

۳ ۔آیہ اولی الامر

سورئہ نساء کی آیت نمبر ۵۹ میں ارشاد ہوا ہے:

( یٰایّهاالّذین اٰمنوا اطیعوااللّٰه واطیعوا الرسول واولی الامر منکم)

”ایمان والو!اللہ کی اطاعت کرواور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ہیں

یہاں پر اولوالامر کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کی اطاعت کے ہمراہ بیان ہوئی ہے۔

کیا”اولوالامر“سے مراد ہر زمان و مکان کے حکام اور فرمانروا ہیں؟ مثلاًکیا ہمارے زمانے میں ہر ملک کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے حکام اور فر مانرواؤں کی اطاعت کریں؟(جیسا کہ اہل سنت کے بعض مفسرین نے بیان کیا ہے)

یہ بات عقل ومنطق کی کسی کسوٹی پر ہر گز نہیں اترتی ہے،کیونکہ اکثرحکمراںمختلف زمانوں اور عصروں میں منحرف،گناہ کار ،دوسرے ملکوں کے ایجنٹ اور ظالم ہو ئے ہیں۔کیا اس سے مراد یہ ہے کہ ان حکمرانوں کی پیروی و اطاعت کی جانی چاہئے جن کا حکم اسلامی احکام کے خلاف نہ ہو؟یہ بھی آیت کے مطلق ہو نے کے خلاف ہے۔

کیا اس سے مراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے مخصوص اصحاب ہیں؟یہ احتمال بھی اس آیت کے وسیع مفہوم (جو ہردور اور زمانے کے لئے ہے)کے خلاف ہے۔

اس لئے ہمارے لئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سے مراد معصوم پیشوا ہے جو ہر دور اور زمانے میں موجود ہو تا ہے اور اس کی اطاعت کسی قید وشرط کے بغیر واجب ہو تی ہے اور اس کا حکم، خدا ورورسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند واجب الاطاعت ہو تا ہے۔

اس سلسلہ میں اسلامی منابع وماخذ میں موجود متعدد احادیث میں ”اولو الامر“کی حضرت علی(ع) اور ائمہ معصومین (ع) سے کی گئی تطبیق بھی اس حقیقت کی گواہ ہے۔(۲)

۴ ۔آیہ ولایت

سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ہوا ہے:

( إنما ولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصّلوٰة ویؤتون الزکوٰة وهم راکعون)

”ایمان والو بس تمھاراولی اللہ ہے اور اس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں۔“

عربی لغت میں لفظ”إنما“انحصار کے لئے استعمال ہو تا ہے،اس بات کے پیش نظر قرآن مجید نے مسلمانوں کی قیادت اور ولایت وسر پرستی کو صرف تین اشخاص میں منحصر فر مایا ہے :”خدا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰة دیتے ہیں“۔

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ”ولایت“ سے مراد مسلمانوں کی آپس دوستی نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں کی عام دوستی کے لئے قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تمام مسمان آپس میں دوست اور بھائی بھائی ہیں اگر چہ رکوع کی حالت میں کوئی زکوٰة بھی نہ دے ۔اس لئے یہاں پر ”ولایت“ وہی مادی و معنوی رہبری اور سر پرستی کے معنی میں ہے،بالاخص جب کہ یہ ولایت ،خدا کی ولایت اور پیغمبر کی ولایت کے ساتھ واقع ہو ئی ہے۔

یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ مذکورہ آیت میں ذکر شدہ اوصاف ایک مخصوص شخص سے مر بوط ہیں،جس نے رکوع کی حالت میں زکوٰة دی ہے،ورنہ یہ کوئی ضروری امر نہیں ہے کہ انسان نماز کے رکوع کی حالت میں زکوٰة ادا کرے ،حقیقت میں یہ ایک نشاندہی ہے نہ توصیف۔

ان تمام قرائن سے معلوم ہو تا ہے کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ حضرت علی(ع) کی ایک مشہور داستان کی طرف ایک پر معنیٰ اشارہ ہے کہ حضرت علی(ع) نماز کے رکوع میں تھے ،ایک حاجتمند نے مسجد نبوی میں مدد کی درخواست کی ۔کسی نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا۔ حضرت علی(ع) نے اسی حالت میں اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اشارہ کیا ۔حاجتمند نزدیک آگیا۔ حضرت علی(ع) کے ہاتھ میں موجود گراں قیمت انگوٹھی کو اتار کر لے گیا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کا مشاہدہ فر مایا تو نماز کے بعد اپنے سر مبارک کو آسمان کی طرف بلند کر کے یوں دعا کی :پروردگارا!میرے بھائی موسی(ع) نے تجھ سے درخواست کی کہ ان کی روح کو کشادہ،کام کو آسان اور ان کی زبان کی لکنت کو دور فر مادے اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر اور مدد گار بنادےپرور دگارا! میں محمد ،تیرا منتخب پیغمبر ہوں ،میرے سینہ کو کشادہ اور میرے کام مجھ پر آسان فر ما، میرے خاندان میں سے علی(ع) کو میرا وزیر قرار دے تاکہ اس کی مدد سے میری کمر قوی اور مضبوط ہو جائے“

ابھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا ختم نہیں ہوئی تھی کہ مذکورہ بالا آیہ شریفہ کو لے کر جبرئیل امین نازل ہو ئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اہل سنّت کے بہت سے عظیم مفسرین ،مورخین اور محدثین نے اس آیہ شریفہ کی شان نزول کو حضرت علی(ع) کے بارے میں نقل کیا ہے ۔اس کے علاوہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک گروہ نے ،جن کی تعداد س سے زیادہ ہے،اس حدیث کو خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست نقل کیا ہے۔(۳)

ولایت کے موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر ہوئی ہیں ،ہم نے کتاب کے اختصار کے پیش نظر صرف مذکورہ چار آیتوں پر ہی اکتفا کیا۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔قرآن کی روشنی میں امام کو منتخب ومعین کر نا کس کے ذمہ ہے؟

۲ ۔آیہ تبلیغ کن حالات میں نازل ہو ئی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟

۳ ۔کن شخصیات کی بلا قید وشرط اطاعت کر نا عقل کے مطابق ہے؟

۴ ۔آیہ ”إنّما ولیکم اللّٰہ“کن دلائل کی بناء پر رہبری اور امامت کی طرف اشارہ ہے۔

۵ ۔مسئلہ ولایت کے بارے میں موجود قرآن مجید کی تمام آیات سے کن مسائل کے سلسلہ میں استفادہ کیا جاسکتا ہے؟

____________________

۱۔مزید تفصیلات کے لئے تفسیر نمونہ ج۳:ص۴۳۵کا مطالعہ کریں۔

۲۔مزید تفصیلات کے لئے کتاب ”احقاق الحق“،”الغدیر“،”المراجعات“ اور ”دلائل الصدق“کا مطالعہ کریں۔

۳۔مزید توضیح کے لئے قیمتی کتاب”المراجعات “کا مطالعہ فر مایئے ،جس کا اردو ترجمہ”دین حق“کے نان سےہو چکا ہے۔

چھٹاسبق:امامت ،سنّت نبی کی روشنی میں

اسلامی احادیث سے مربوط کتابوں ،بالخصوص اہل سنت بھائیوں کی طرف سے تالیف کی گئی کتابوں کا مطالعہ کر نے کے دوران انسا ن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی گئی احادیث کی ایک کثیر تعداد سے روبرو ہو تا ہے جو واضح طور پر حضرت علی(ع) کی امامت و خلافت کو ثابت کرتی ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ اتنی احادیث موجود ہو نے کے باوجود اس مسئلہ کے بارے میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہ جاتا تو پھر ایک گروہ اہل بیت(ع) کی راہ سے ہٹ کر کو ئی دوسری راہ کیسے اختیار کر لیتاہے؟

یہ احادیث ،جن میں سے بعض کے اسناد سینکڑوں تک ہیں (جیسے حدیث غدیر) اور بعض کے اسناد دسیوں تک اور دسیوں مشہور اسلامی کتا بوں میں نقل ہو ئی ہیں ،ایسی واضح اور روشن ہیں کہ اگر ہم تمام گفتگوؤں کو نظر انداز کردیں اور کسی کی تقلید کر نا چھوڑ دیں،تو ہ مسئلہ ہمارے لئے ایسا واضح ہو جائے گا کہ کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔

ان احادیث کے مخزن سے ہم یہاں پر چند مشہور احادیث کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس موضوع پر بیشتر اور گہرے مطالعہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے ہم بعض منابع(کتابوں) کی نشاندہی کرتے ہیں تاکہ ان سی استفادہ کریں۔(۱)

۱ ۔حدیث غدیر

مورخین اسلام کی ایک بہت بڑی تعداد نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زندگی کے آخری سال حج بجا لائے ۔فریضہ حج کو بجالانے کے بعد جبکہ حجاز کے مختلف علاقوں سے حج کے لئے آئے ہوئے آپ کے نئے اور پرانے صحابیوںاور اسلام کے عاشقوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے ساتھ تھی ۔مکہ سے واپسی پر یہ عظیم اجتماع ،مکہ اور مدینہ کے در میان واقع ”جحفہ“نامی ایک جگہ سے گزرتے ہوئے ”غدیر خم“کے نام پر ایک خشک اور گرم بیابان میں پہنچ گیا ۔در حقیقت یہ ایک چورا ہا تھا ۔جہاں پر حجاز کے تمام لوگوں کے راستے جدا ہوتے تھے۔

یہاں پر حجاز کے مختلف علاقوں کی طرف جانے والے مسلمانوں کے ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو رکنے کا حکم دیا۔ جو آگے بڑھے تھے انھیں واپس آنے کا حکم دیا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا گیا،اس طرح سب ایک جگہ جمع ہو گئے ۔ہوا انتہائی گرم اور دھوپ نہایت جھلسا دینے والی تھی۔بیابان میں دوردور تک کہیں کوئی سائبان نظر نہیں آرہا تھا۔مسلمانوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں ظہر کی نماز پڑھی ۔جب ان سب نے نماز کے بعد اپنے خیموں کی طرف جانا چاہا تو پیغمبر اسلام نے حکم دیا کہ سب لو گ ٹھہر جائیں اور ایک مفصل خطبہ کے ضمن میں ایک اہم الہٰی پیغام کو سننے کے لئے آمادہ ہو جائیں ۔

اونٹوں کے پالانوں کا ایک منبر بنایا گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر تشریف لے گئے آپ نے حمد وثنائے الہٰی کے بعد لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:

میں خدا کی دعوت کو لبیک کہتے ہوئے جلدی ہی تمھارے درمیان سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں ذمہ دار ہوں اور تم لوگ بھی ذمہ دار ہو ۔ تم لوگ میرے بارے میں کس طرح کی شہادت دیتے ہو؟

لوگوں نے بلند آواز سے کہا:

” نشہد انک قد بلغت و نصحت و جہدت فجزاک اللّٰہ خیرا“

”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے رسالت کی ذمہ داریاں نبھائیں اور ہماری بھلائی کے لئے ہماری نصحیت کی اور ہماری ہدایت میں نہایت کوشش کی،خداوند متعال آپ کو جزائے خیردے۔“

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت ، میری رسالت اور قیامت کی حقیقت اور اس دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کی شہادت دیتے ہو؟

جواب میں سب نے یک زبان ہوکر کہا: جی ہاں ، ہم گواہی دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: خداوندا! گواہ رہنا

آپ نے دوبارہ فرمایا: اے لوگوں ! کیا میری آواز سن رہے ہو؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔

اس کے بعد پورے بیابان میں چاروں طرف خاموشی چھاگئی اور ہوا کی سنسناہٹ کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

پیغمبرا سلام نے فرمایا: اب بتاؤ کہ ان دو گرانقدر چیزوں کے ساتھ تم لوگ کیسا سلوک کروگے جومیں تمھارے درمیان یادگارکے طور پر چھوڑے جارہاہوں؟

مجمع میں سے کسی نے بلند آورز سے سوال کیا: کون سی دوگرانقدر چیزیں، یا رسول اللہ؟!

پیغمبر نے فرمایا: پہلی چیز ”ثقل اکبر“ یعنی کتاب الہی”قرآن مجید“ہے۔ اس کے دامن کو ہرگز نہ چھوڑنا تا کہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور دوسری گرانقدر یادگار چیز میرے اہل بیت ہیں۔ خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبردی ہے کہ یہ دوچیزیں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگیں یہاں تک کہ بہشت میں مجھ سے مل جائیں، ان دو نوں سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور ان سے پیچھے بھی نہ رہنا، کیونکہ اس صورت مین بھی ہلاک ہوجاؤگے۔

اس دوران اچانک آپ(ع) نے اپنی نظریں ادھر اُدھردوڑائیں، جیسے کہ آپ کوکسی کی تلاؤ تھی۔ جوں ہی آپ کی نظرحضرت علی(ع) پر پڑی، آپ جھک گئے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کی سفیدی دکھائی دے رہی تھی۔ سب لوگوں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا اور انھیں پہچان لیا۔

اس موقع پر آنحضرت نے اور زیادہ بلند آواز کے ساتھ رفرمایا:

ایّها الناس ! من اولی النّاس بالمومنین من انفسهم؟

لوگو! لوگوں میں سے کون شخص مومنین پر خود ان سے بھی زیادہ سزاورا ہے؟

سب نے جواب میں کہا: خدا اور س کا رسول(ع) بہتر جانتاہے۔

پیغمبر نے فرمایا:

” خداوند متعال میرامولا اور رہبر ہے، اور میں مؤمنین کا مولا ورہبر ہوں اور ان کی نسبت خود ان سے بھی زیادہ حق رکھتاہوں۔“

اس کے بعد فرمایا:

”فمن کنت مولاه فعلی مولاه“

”جس جس کا میں مولا اور رہبر ہوں، اس اس کے علی(ع) بھی مولاہیں“

آنحضرت نے اس جملہ کوتین مرتبہ دہرایا، بعض راویان حدیث کے مطابق اس جملہ کو چار مرتبہ دہرایا، اس کے بعد اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرکے فرمایا:

”اللّهم وال من والاه و عاد من عاداه واحب من احبه، وابغض من ابغضه، وانصرمن نصره، واخذل من خذله، وادار الحق معه حیث دار“

”خداوندا! اس کے دوستوں کو دوست رکھ اور س کے دشمنوں سے دشمن رکھ، جو شخص اسے محبوب رکھے اسے محبوب رکھ اور اس شخص سے بغض رکھ جس کے دل میں اس کا بغض ہو، اس کے دوستوں کی یاری فرما اور اس کا ساتھ چھوڑنے والوں کو محروم فرما، حق کو اس کے ساتھ پھیر جدھر وہ پھرے “

اس کے بعد فرمایا:

”تمام حاضرین اس خبر کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس دقت یہاں پر حاضر نہیں ہیں۔“

ابھی لوگ متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبرئیل امین وحی الہی لے کرنازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے یہ آیہ شریفہ لے آئے:( الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ) (سورہ مائدہ/ ۳))

”آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیاہے“

اس موقع پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

”اللّٰه اکبر ،اللّٰه اکبر ،علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والو لایة لعلی من بعدی ۔“

”خدا کی بزرگی کا اعلان کرتا ہوں ،خدا کی بزرگی کا اعلان کر تا ہوں، اس لئے کہ اس نے اپنے دین کو کامل اور اپنی نعمت کو ہم پر تمام کر دیا ہے اور میری رسالت اور میرے بعد علی(ع) کی ولا یت سے راضی ہو نے کا اعلان فر مایا ہے۔“

اس وقت لوگوں میں شور وغوغا بلند ہوا،لوگ حضرت علی (ع) کو اس مرتبہ کی مبارک باد دے رہے تھے ،یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر نے لوگوں کے اجتماع میں علی(ع) سے مخاطب ہو کر یہ جملہ کہا:

”بخ بخ لک یابن ابیطالب اصبحت و امسیت مولای ومولا کل مؤمن ومؤ منة“

”مبارک ہو آپ کو ،مبارک ہو آپ کو ،اے فرزند ابیطالب آپ میرے اور تمام مومنین و مومنات کے مولا اور رہبر ہو گئے ہیں۔

مذکورہ بالاحدیث کو علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے مختلف عبارتوں میں، کہیں مفصل اور کہیں خلاصہ کے طور پراپنی کتا بوں میں درج کیا ہے ۔یہ حدیث متواتر احادیث میں سے ہے اور کوئی بھی شخص اس کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صادر ہونے پر شک وشبہہ نہیں کرسکتا ہے ،یہاں تک کہ مصنف و محقق ”علامہ امینی “نے اپنی مشہور کتاب ”الغدیر“ میں اس حدیث کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک سو دس اصحاب اور تین سو ساٹھ اسلامی علماء کی کتابوں سے نقل کیا ہے۔یہ حدیث اہل سنت بھائیوں کی اکثرتفسیر و تاریخ اور حدیث کی کتا بوں میں درج ہے ،یہان تک کہ علمائے اسلام کی ایک بڑی تعداد نے اس حدیث کے سلسلہ میں مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔مرحوم علامہ امینی نے اس سلسلہ میں ایک گرانقدر اور بے نظیر مستقل کتاب لکھی ہے اور اس میں چھبیس ایسے علمائے اسلام کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے ”حدیث غدیر “کے متعلق مستقل کتا بیں لکھی ہیں۔

بعض اشخاص نے حدیث کی سند کو ناقابل انکار پاتے ہوئے اس کی امامت وخلافت پر دلالت کے بارے میں شک وشبہہ ایجاد کر نے کی کوشش کی ہے ،اور مولا کے معنی کو ”دوست“کے عنوان سے جھوٹی تو جیہ کر نے کی کو شش کی ہے،جبکہ حدیث کے مضمون ،زمان ومکان کے شرائط اور دوسرے قرائن پر غور کر نے سے بخوبی معلوم ہو تا ہے کہ” مولا“کا مقصد ،بمعنی مکمل رہبری و قیادت اورمسئلہ امامت و ولایت کے علاوہ کچھ نہیں ہے:

الف:آیہ تبلیغ ،جس کا ہم نے گزشتہ سبق میں ذکر کیا ،اس واقعہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ اس میں موجود تندوسخت لہجہ اور قرائن اس بات کی بخوبی گواہی دیتے ہیں کہ یہ عام دوستی اور رفاقت کی بات نہیں ہے ،کیونکہ یہ امر پریشان کن نہیں تھا اور اس کے لئے اتنی اہمیت اور تاکید کی ضرورت نہیں تھی۔اسی طرح اس واقعہ کے بعد نازل ہو نے والی آیہ ”اکمال الدین“ اس امر کی گواہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک غیر معمولی مسئلہ تھا اور رہبری وپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ نہیں تھا۔

ب۔اس حدیث کا ان تمام مقد مات کے ساتھ اس تپتے ہوئے بیان میں ایک تفصیلی خطبہ کے بعد بیان کیا جانا اور اس حساس زمان و مکان میں لوگوں سے اقرار لینا یہ سب ہمارے دعویٰ کی مستحکم دلیل ہے۔

ج۔مختلف گرہوں اور شخصیتوں کی طرف سے حضرت علی (ع)کو مبارک باد دینے کے علاوہ اس سلسلہ میں اسی روز اور اس کے بعد کہے گئے اشعار،اس حقیقت کے گویا ہیں کہ یہ مسئلہ علی علیہ السلام کی امامت و ولایت کے بلند منصب پر منصوب ہو نے سے مربوط تھا نہ کسی اور چیز سے۔

غورکیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔داستان غدیر کو بیان کیجئے۔

۲ ۔”حدیث غدیر “پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کتنے اسناد سے اور کتنی اسلامی کتابوں میں نقل ہوئی ہے؟

۳ ۔”حدیث غدیر“میں ”مولا“ کیوں ”رہبر و امام“ کے معنی میں ہے اور دوست کے معنی میں کیوں نہیں ہے؟

۴ ۔غدیر کے واقعہ کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) کے حق میں کون سی دعاکی؟

۵ ۔ ”غدیر“اور ”جحفہ“کہاں پر ہیں؟

____________________

۱۔بیشتر وضاحت کے لئے کتاب”المراجعات“،”الغدیر“اور ”نوید امن وامان“کی طرف رجوع کریں۔

ساتواں سبق:حدیث ”منزلت“اور حدیث ”یوم الدار“

بہت سے عظیم شیعہ وسنی مفسرین نے حدیث ”منزلت“کو سورئہ اعراف کی آیت نمبر ۱۴۲ کے ذیل میں نقل کیا ہے۔اس آیہ شریفہ میں حضرت موسی(ع) کے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر جانے اور اپنی جگہ پر ہارون کو جانشین مقرر کر نے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

حدیث یوں ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دی گئی کہ مشرقی روم کے بادشاہ نے حجاز،مکہ اور مدینہ پر حملہ کر نے کے لئے ایک بڑی فوج کو آمادہ کیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کواپنے خاص انسانی اور حریت و استقلال کے نظام کے ساتھ اس علاقہ میں پہنچنے سے پہلے ہی ،نابود کر دیا جائے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مدینہ میں حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فر ماکر ایک عظیم لشکر کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے (تبوک جزیرہ عرب کے شمال میں مشرقی روم کی سلطنت کی سر حد پر واقع تھا)

حضرت علی(ع) نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی خدمت میں عرض کی:کیا مجھے بچوں اورعورتوں کے درمیان چھوڑ رہے ہیں ؟(اور اس بات کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ آپکے ہمراہ میدان جہاد میں چل کر اس عظیم افتخار کو حاصل کروں؟)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا:

”الاترضی ان تکون منّی بمنزلة هارون من موسی الا انّه لیس نبی بعدی؟“

”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمھاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون(ع) کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا؟“

مذکورہ عبارت اہل سنت کی مشہور ترین حدیث کی کتابوں ،یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے ،صرف اس فرق کے ساتھ کہ صحیح بخاری میں پوری حدیث درج ہے اور صحیح مسلم میں ایک مرتبہ پوری حدیث اور دوسرے مرتبہ صرف جملہ”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ لّا انّه لا نبی بعدی “ایک کلی اور تمام جملہ کی صورت میں نقل کی گئی ہے۔(۱)

اس کے علاوہ یہ حدیث اہل سنت کی دوسری کتابوں ،جیسے:”سنن ابن ماجہ“،”سنن ترمذی“اور بہت سی دوسری کتابوں میں نقل کی گئی ہے اور اصحاب رسولپر مشتمل اس حدیث کے راویوں کی تعدادبیس افراد سے زیادہ ہے،جن میں جابر بن عبداللہ انصاری ،ابو سعید خدری،عبداللہ بن مسعود اور معاویہ بھی شامل ہیں۔

ابو بکر بغدادی نے ”تاریخ بغداد“میں عمر بن خطاب سے یوں نقل کیا ہے:عمر بن خطاب نے ایک شخص کو حضرت علی(ع) کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے دیکھا ،عمر نے اس شخص سے کہا :مجھے لگتا ہے کہ تم منافق ہو، کیونکہ میں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے

کہ آپ فرما تے تھے:

”انّما علیّ منّی بمنزلة هارون من موسی(ع) الّانه لا نبیّ بعدی “ (تاریخ بغداد ،ج ۷ ،ص ۴۵۲)

”علی علیہ السلام کی نسبت مجھ سے ویسی ہی ہے جیسی ہارون کی موسی(ع) سے تھی صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔“

قابل توجہ بات ہے کہ احادیث کے معتبر منابع و ماخذ سے معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات (حدیث منزلت) صرف جنگ تبوک کے موقع پر ہی نہیں فر مائی ہے بلکہ درج ذیل سات مواقع پر بیان فر مائی ہے جو اس کے عام اور واضح مفہوم کی دلیل ہے:

۱ ۔”مکہ کے پہلے مواخات کے دن“۔یعنی جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں اپنے اصحاب سے برادری اور اخوت کا عہد و پیمان باندھا،اس موقع پر آپ نے یہی جملہ تکرار فر مایا۔

۲ ۔”مواخات کے دوسرے دن“۔جب (مدینہ منورہ میں) مہاجر وانصار کے در میان برادری و اخوت کا عہد وپیمان باندھا تو اس موقع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث منزلت کو دوسری بار بیان فر مایا۔

۳ ۔جس دن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے گھروں کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں اور صرف حضرت علی (ع) کے گھر کا دروازہ کھلا رہے،توآپ نے اس پر بھی اس جملہ (حدیث منزلت )کو دھرایا۔

۴،۵،۶ و ۷ ۔اسی طرح غزوہ تبوک کے دن اور اس کے علاوہ تین اور مواقع پر آنحضرت نے اس حدیث کو دھرایا ہے کہ ان کے مدارک اہل سنت کی تمام کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں، لہذا نہ سند کے لحاظ سے اس حدیث کے بارے میں کوئی شک وشبہہ باقی رہتا ہے اور نہ اس کے عام مفہوم (دلیل) مفہوم ہو نے کے لحاظ سے ۔

حدیث منزلت کا مفہوم

اگر ہم اپنے ذاتی نظریات سے ہٹ کر،غیر جانبدارانہ طور پر مذکورہ حدیث پر تحقیق و تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ حضرت ہارون کو جو تمام مناسب اور عہدے بنی اسرائیل میں حاصل تھے ،حضرت علی علیہ السلام بھی صرف نبوت کے علاوہ ان تمام عہدوں پر فائز تھے،کیونکہ اس حدیث میں نبوت کے عہدے کے علاوہ کوئی اور قید وشرط موجود نہیں ہے۔

اس لئے یہ نتیجہ نکلتا ہے:

۱ ۔علی(ع) امت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل تھے۔ (کیونکہ ہارون کا مرتبہ بھی ایسا ہی تھا)۔

۲ ۔علی(ع)،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیر،خاص نائب اور رہبری میں آپ کے شریک تھے،کیونکہ قرآن مجید نے حضرت ہارون کے لئے یہ تمام منصباور عہدے ثابت کئے ہیں ۔(سورہ طہ،آیت ۲۹ سے ۳۲ تک)

۳ ۔علی (ع) ،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشین اور خلیفہ تھے ،آپ(ع) کے ہوتے ہو ئے کوئی دوسرا شخص اس عہدہ پر فائز نہیں ہو سکتا تھا ،کیونکہ حضرت موسی(ع) کی نسبت حضرت ہارون (ع) بھی یہی مقام و منزلت رکھتے تھے۔

حدیث ”یوم الدار“

اسلامی تواریخ کے مطابق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت کے تیسرے سال خدا کی طرف سے امر ہوا کہ اپنی خفیہ دعوت اسلام کو آشکار فر مائیں ، چنانچہ سورہ شعراء کی آیت نمبر ۲۱۴ میں ارشاد ہوا ہے:

( وانذر عشیرتک الا قربین)

”اور پیغمبر!آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔“

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اپنے چچا حضرت ابو طالب(ع) کے گھر میں کھا نے کی دعوت دی ،کھانا کھانے کے بعد فر مایا:

”اے عبد المطلب کے فرزندو!خدا کی قسم عرب میں کوئی شخص ایسا نہیں ہے جواپنی قوم کے لئے مجھ سے بہتر کوئی چیزلایا ہو ،میں تمھارے لئے دنیا وآخرت کی نیکیاں لایا ہوں اور خدا وند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تم لوگوں کو اس دین (اسلام )کی طرف دعوت دوں ،تم میں سے کون(اس کام میں) میری مدد کرے گا تاکہ وہ میرا بھائی ،وصی اور جانشین بن جائے“؟

سوائے علی علیہ السلام کے کسی بھی شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک نہیں کہی ۔حضرت علی (ع) ان میں سب سے کم سن تھے،اٹھے اور عرض کی :”اے رسول خدا !میں اس راہ میں آپ کا یار ویاور ہوں ۔“پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کی گردن پر اپنا دست مبارک رکھ کر فر مایا:

”ان هٰذا اخی ووصی وخلیفی فیکم فاسمعواله واطیعوه“

”یہ تم لوگوں میں میرا بھائی،وصی اور جانشین ہے،اس کی بات سنو اور اس کے حکم کی اطاعت کرو۔“

لیکن اس گمراہ قوم (قریش)نے نہ فقط پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ آپ کا مذاق بھی اڑایا۔

مذکورہ حدیث جو کہ حدیث ”یوم الدار“روز دعوت ذو العشیرہ کے نام سے مشہور ہے، کافی حد تک واضح اور گو یا ہے ۔اور سند کے ساتھ بہت سے اہل سنت علماء،جیسے:ابن ابی جریر ،ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ،ابونعیم،بیہقی،ثعلبی،طبری،ابن اثیر،ابو الفداء اور دوسرے لو گوں نے اسے نقل کیا ہے۔(۲)

اگر ہم مذکورہ حدیث کے بارے میں بھی غیر جانبدارانہ طور پر تحقیق و تجزیہ کرین گے تو حضرت علی(ع) کی ولایت وخلافت سے مربوط حقائق بالکل واضح ہو جائیں گے کیونکہ اس حدیث میں بھی مسئلہ خلافت و ولایت کے بارے میں صراحت سے ذکر کیاگیا ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔حدیث ”منزلت“کیا ہے؟ اور یہ حدیث کتنے مواقع پر بیان کی گئی ہے؟

۲ ۔حدیث”منزلت“کا مفہوم حضرت علی (ع) کے لئے کون سے منصب اور عہدے ثابت کرتا ہے؟

۳ ۔قرآن مجید کی روشنی میں حضرت ہارون (ع)کو حضرت موسی(ع) کی نسبت کون سا مرتبہ حاصل تھا؟

۴ ۔حدیث ”منزلت“کو کن علماء نے نقل کیا ہے؟

۵ ۔حدیث ”یوم الدار“،اس کا مفہوم،سند اور اس کا نتیجہ بیان کریں۔

____________________

۱۔صحیح بخاری ج۶،ص۳۔ صحیح مسلم ج۱،ص۴۴۔اور ج۴،ص۱۸۷۔

۲۔مزید تفصیلات کے لئے کتاب” المراجعات“،ص۱۳۰سے الخ اورکتاب ”احقاق الحق“،ج۴،ص۶۲الخ کی طرف رجوع کیا جائے۔