نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23879
ڈاؤنلوڈ: 4191

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23879 / ڈاؤنلوڈ: 4191
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

دسواں سبق:حضرت مہدی( عج )بارہویں امام اور دنیا کے مصلح اعظم

تاریک شب کا خاتمہ

جب ہم موجودہ حالات پر نظر ڈالتے ہیں اور ظلم وستم ،قتل وغارت، جنگ وخونریزی،اور بین الاقوامی سطح پر کشمکش،اختلا فات اور روز مرہ بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں،توذہن میں یہ سوال پیدا ہوتاہے کیا یہی حالت جاری رہے گی؟ اور ظلم و ستم اور برائیوں کا دامن اس قدر وسیع ہوجائے گا کہ انسانی معاشرہ کو ایک دائمی جنگ میں مبتلا کرکے اسے نابود کردے گا ؟ یا اعتقادی انحرافات اوراخلاقی برائیاں اسے ایک متعفّن دلدل کے مانند اپنے اندر غرق کر لیں گی؟

یا نجات و اصلاح کی کوئی امید موجود ہے؟

اس اہم سوال کے دوجواب ہیں:

پہلا جواب، وہ ہے جو بدبینوں اور مادہ پرستوں کی طرف سے دیا جاتاہے کہ دنیا کا مستقبل تاریک ہے اور ہر دور وزمان میں زبردست خطرہ کا احتمال موجود ہے۔

دوسرا جواب دین داروں کا ہے، یعنی جولوگ ادیان الہی کے اصولوں کے معتقدہیں،مخصوصا مسلمان اور بالخصوص شیعہ، وہ اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں:

اس تاریک رات کے پیچھے ایک امید کی صبح بھی ہے۔

یہ سیاہ بادل ،مہلک طوفان اور تباہ کن سیلاب ایک دن ختم ہوں گے اور اس کے بعد صاف آسمان، چمکتا سورج اور آرام و آسائش کا ماحول آنے والاہے۔

یہ خوفناک بھنور ہمارے سامنے نہیں رہیں گے اور جلدی ہی افق پر نجات کا ساحل دکھائی دینے والاہے۔

دنیا ایک مصلح اعظم کے انتظار میں ہے جو ایک انقلاب کے ذریعہ دنیا کو حق وعدالت سے بھردے گا۔

البتہ تمام ادیان کے پیرو اس مصلح اعظم کو الگ الگ ناموں سے جانتے ہیں ۔ شاعر عرب نے کیا خوب کہاہے:

عبارتنا شتی و حسنک و احد وکل الی ذالک الجمال یشیر

” ہماری تعبیریں مختلف ہیں لیکن آپ کا حسن و زیبائی ایک چیز سے زیادہ نہیں ہے اور ہماری تمام تعبیریں صرف اسی حسن و زیبائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔“

فطرت اور مصلح اعظم کا ظہور

باطنی الہامات کہ جن کی امواج بعض اوقات عقلی فیصلوں سے بھی زیادہ قوی ہوتی ہیں، نہ صرف خدا کی معرفت کے مسئلہ میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں بلکہ تمام مذہبی اعتقادات میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں اور مصلح اعظم کے ظہور کے مسئلہ میں بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

اس کی علامتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی علامت: عالمگیر عدل و انصاف سے عشق ومحبت، اس لئے کہ دنیا کے تمام لوگ ہر قسم کے آپسی اختلافات کے باوجود اور بغیر کسی استثناء کے صلح و عدالت سے محبت رکھتے ہیں۔ ہم سب اس کے لئے فریاد بلند کرتے ہیں اور اس راہ میں کوشش کرتے ہےں اور پوری قوت سے عالمگیر صلح و عدالت کے خواہان ہیں۔

اس مصلح اعظم کے ظہور کے فطری ہونے کے باری میں اس سے بہتر کوئی اور دلیل ممکن نہیں ہے، کیونکہ ہر جگہ پر ایک کی آرزؤں کا یکساں ہونا ان کے فطری ہونے کی دلیل ہے۔(غور کیجئے)

ہر حقیقی اور فطری عشق، خارج میں ایک معشوق کے وجود اور اس کی کشش کی علامت ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال نے انسان کے اندر اس پیاس کو پیدا کیاہولیکن اس پیاس کو بجھانے کے لئے خارج میں کوئی چشمہ موجود نہ ہو؟

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ انسان کی عدالت طلب فطرت بلند آواز میں کہہ رہی ہے کہ آخر کا رصلح اورعدل و انصاف تمام دنیا میںپھیل جائے گا اور ظلم وستم اور خود خواہی ختم ہوکر رہے گی اور انسانیت تمام دنیا میں ایک ملک کی حثیت سے ایک پرچم تلے مفاہمت اور پاکیزگی کے ساتھ زندگی بسرکرے گی۔

دوسری علامت : عام طور پر دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب میں ایک مصلح اعظم کے انتظار کا عقیدہ پایاجاتاہے۔ تقریبا تمام مذاہب میں اس موضوع پر ایک دلچسپ بات موجود ہے اور بشریت کے جان لیوازخموں پر مرہم رکھنے کے لئے ایک عظیم نجات دہند کے ظہور کا عقیدہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے، بلکہ اسناد و مدارک سے معلو م ہوتاہے کہ یہ ایک عام اور قدیمی اعتقاد ہے جو مشرق و مغرب کے تمام مذاہب میں موجودرہاہے، اگر چہ اسلام ایک کامل مذہب ہونے کے ناطے اس مسئلہ پر زیادہ تاکید کرتاہے۔

زرتشتوں کی معروف کتاب” زند “ میں ” ایزدان“ اور”اہریمنان“ کے درمیان دائمی جنگ کے سلسلہ میں لکھا گیا ہے:”آخر کار ایزدان کو بڑی کا میابی حاصل ہوگی اوراہریمنان کو وہ نابود کردے گا

” کائنات اپنی اصلی سعادت کو حاصل کرے گی اور انسان نیک بختی کے تخت پر بیٹھ جائے گا۔!“

کتاب”جاماسب نامہ“ میں ”زرتشت“ سے نقل کیا گیا ہے:

”تازیان کی سرزمین سے ایک مرد ظہور کرے گ وہ بڑے سر، بڑے جسم اور بڑی پنڈلیوں والا ایک مرد ہوگا جو اپنے جدکے دین پر ہوگا اور اس کے ساتھ ایک بڑی فوج ہوگی وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔“

ھندؤں کی کتاب”وشنو جگ“ میں یوں آیاہے:

” سرانجام دنیا ایک ایسے شخص کی طرف پلٹے گی جو خدا کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا کے خاص بندوں میں سے ہوگا۔“

ہندؤں کی کتاب” باسک“ میں آیاہے:

” آخری زمانہ میں ایک بادشاہ پر دنیا کا اختتام ہوگا، وہ فرشتوں، جنوں اور انسانوں کا پیشوا ہوگا، حقیقت میں حق اس کے ساتھ ہوگا، جو کچھ سمندروں ، دریاؤں، زمینوں اور پہاڑوں میں پوشیدہ ہے، وہ ان سب چیزوں کو حاصل کرے گا۔جو کچھ آسمان و زمین میں ہے اس کی خبردے گا اور اس سے بڑی کوئی شخصیت دنیا میں نہیں آئے گی ۔“

عہد قدیم (تورات اور اس کے ملحقات) کی کتاب”مزامیرداؤد“ میں درج ہے:

”شر پسند لوگ نابود ہوجائیں گے لیکن خدا پر توکل کرنے والے زمین کے وارث ہو جائیں گے۔“

اسی کتاب کی اسی فصل میں آیا ہے:

”سچے لوگ زمین کے وارث ہو کر ہمیشہ کے لئے اس کے ساکن ہو جائیں گے۔“

اسی کے مانند عبارت، کتب تورات سے مربوط”اشعیای نبی“ کی کتاب میں بھی آئی ہے۔

انجیل” متی“ کی ۲۴ ویں فصل میں یوں آیاہے:

”جس طرح بجلی مشرق سے چمک کر مغرب تک پہنچتی ہے، اسی طرح فرزند انسان بھی ظہور کرے گ“

انجیل” لوقا“ کی بارہویں فصل میں بیان ہواہے:

” اپنی کمریں کس کے رکھو، اپنے چراغوں کو جلائے رکھو، اوراس شخص کے مانند رہو جو اپنے مالک کے انتظار میں ہوتاہے تا کہ جوں ہی وہ آجائے اور دروازہ کھٹکھٹائے تو فورا اس کے لئے دروازہ کھول دیں!“

کتاب ”علائم الظہور“ میں یوں آیاہے:

” چینیوں کی قدیم کتابوں، ہندوؤں کے عقائد، اسکنیڈینوی باشندوں، حتی قدیم مصر یوں اور میکسیکو کے باشندوں اوران جیسے دوسرے لوگوں میں ایک مصلح اعظم کے ظہور کا عقیدہ پایاجاسکتاہے۔“

عقلی دلائل

الف۔خلقت کا نظام ہمیں یہ سبق سکھاتا ہے کہ عالم بشریت کے لئے سر انجام عدل وانصاف کے قانون کے سامنے ہتھیار ڈال کر ایک عادلانہ نظام اور پائدار مصلح کے سامنے سر تسلیم خم کر ناضروری ہے۔

اس بات کی وضاحت یوں ہے :جہاں تک ہمیں علم ہے،کائنات مختلف نظاموں کا ایک مجموعہ ہے ،اس پوری کائنات میں منظم قوانین کا وجود اس نظام کی وحدت اور ہم آہنگی کی دلیل ہے ۔

نظم وضبط،قانون اور حساب وکتاب اس کائنات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیں۔

عظیم اور وسیع نظاموں سے لے کر ایک ایٹم کے ایک ذرّے تک (کہ لاکھوں ذرّے ایک سوئی کی نوک پر سما سکتے ہیں)سب کے سب ایک دقیق نظام کے تحت ہیں۔

ہمارے بدن کے مختلف اعضاء ،ایک چھوٹی اور حیرت انگیز خلیہ کی بناوٹ سے لے کر مغز واعصاب،پھیپھڑے اور دل کے کام کر نے کے طریقہ تک،ایک ایسے نظام کے تحت چل رہے ہیں کہ بعض دانشوروں نے ان میں سے ہر ایک عضو کو انسان کے بدن میں ایک ایسی صحیح اور دقیق گھڑی سے تشبیہ دی ہے کہ منظم اور پیچیدہ ترین کمپیوٹر بھی اس کے سامنے ناچیز ہے۔

کیا ایسی منظم کائنات میں انسان،جواس ”کل“کا ایک”جزو“ ہے،ایک ناموافق اور نا منظم حصہ کے مانند ،جنگ و خونریزی اور ظلم وستم میں زندگی بسر کر سکتا ہے؟!

کیا بے انصافیاں اور اخلاقی واجتماعی برائیاں ،جو ایک قسم کی بے نظمی ہیں،انسانی معاشرے پر ہمیشہ حاکم رہ سکتی ہیں ؟

نتیجہ:کائنات کے نظام کا مشاہدہ ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ سر انجام انسانی معاشرہ بھی ایک دن نظم وانصاف کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اپنی خلقت کی اصلی راہ کی طرف لوٹے گا۔

ب۔معاشروں کا ارتقائی سفر،عالم بشریت کے روشن مستقبل کی ایک اور دلیل ہے، کیونکہ ہم اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ جب سے انسانی معاشرہ نے اپنے آپ کو پہچانا ہے،وہ کبھی ایک جگہ پر رکا نہیں ہے ،بلکہ ہمیشہ آگے کی طرف حرکت کرتا رہا ہے۔

مادی لحاظ سے انسان کا گھر،لباس،غذااور آمد ورفت اور حمل ونقل کے ذرائع ایک دن بالکل سادہ اور ابتدائی مرحلہ میں تھے۔آج یہی چیزیں ترقی کے ایک ایسے مرحلے پر پہنچی ہیں کہ عقلیں متحیرّر اور آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور ارتقاء کا یہ سفر یقینا جاری ہے۔

انسان، علم و دانش اور تہذیب وتمدن کے لحاظ سے بھی مسلسل ترقی کر رہا ہے اور اس سلسلہ میں ہر روز نئی ایجادات ،تحقیق اور نئے مطالب حاصل کر رہا ہے۔

اس ”قانون ارتقاء“میں سر انجام معنوی اور اخلاقی واجتماعی پہلو بھی شامل ہیں اور انسانیت کو ایک عادلانہ قانون ،پائدار عدل و انصاف ،اخلاقی ومعنوی فضائل کی طرف لے جارہے ہیں ۔اگر آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشروں میں اخلاقی برائیاں روزبروز اضافہ ہوتی جارہی ہیں ۔یہ سلسلہ تدریجاً خود بھی ایک تکاملی انقلاب کے لئے مواقع فراہم کرے گا۔

ہم کبھی نہیں کہتے کہ برائیوں اور فسادوں کی حوصہ افزائی کی جانی چاہئے ،لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ جب فساد اور برائیاں حد سے گزر جائیں گی ،تو اس کا رد عمل ایک اخلاقی انقلاب ہوگا۔جب انسان اپنے گناہوں کے نامطلوب عواقب کے نتائج میں بے بس ہو جائیں گے تو اس وقت وہ کم از کم ایک الہٰی رہبر کی طرف سے پیش کئے جانے والے قانون کو قبول کر نے پر آمادہ ہو جائیں گے۔

قرآن مجید اور ظہور حضرت مہدی(عج)

قرآن مجید میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں جو حضرت مہدی (عج)کے ظہور کی بشارت دیتی ہیں ۔ہم ان آیات میں سے صرف ایک آیت پر اکتفا کرتے ہیں:

سورئہ نور کی آیت نمبر ۵۵ میں ارشاد ہو تا ہے:

( وعداللّه الذین اٰمنوامنکم وعملوا الصّٰلحٰت لیستخلفنّهم فی الارض کما استخلف الّذین من قبلهم)

”اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے۔“

اس آیہ شریفہ سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ زمین پر آخر کار ظالم وجابر حکمرانوں کی حکومت ان سے چھین لی جائے گی اور ان کی جگہ پر صالح مؤمن حکومت کریں گے۔

اسی آیت کے آخر میں مذکورہ وعدہ کے علاوہ مندرجہ ذیل تین اور وعدے بھی دئے گئے ہیں:

۱ ۔دین کا غلبہ اور دلوں میں اللہ کی حکومت کا معنوی نفوذ:

( ولیمکننّ لهم دینهم الّذی ارتضٰی لهم)

”اوران کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قرار دیا ہے۔“

۲ ۔ہر قسم کی بدامنی کا امن وامان میں تبدیل ہونا:

( ولیبدّ لنّٰهم من بعد خوفهم امناً)

”اور ا ن کے خوف کو امن سے تبدیل کردے گا۔“

۳ ۔پوری دنیاسے شرک کا خاتمہ ہو نا:

( یعبدوننی لا یشرکون بی شیئاً)

”وہ لوگ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے۔

حضرت امام علی بن الحسین (زین العابدین)نے اس آیت کی تفسیر میں فر مایاہے:

”ھم واللّہ شیعتنا یفعل اللّہ ذٰلک بھم علی یدی رجل منا وھو مھدی ھذہ الامة“

”خدا کی قسم یہ لوگ وہی ہمارے شیعہ ہیں ،خداوندمتعال ہمارے خاندان کے ایک شخص کے ذریعہ اس موضوع (حکومت الہٰی)کو محقّق فر مائے گا اور وہ اس امت کا مہدی ہے“(تفسیر مجمع النیان ،سورہ نور کی آیت ۵۵ کے ذیل میں)

احادیث میں حضرت مہدی(عج)کا ذکر

شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اس موضوع پر ،کہ صلح وسلامتی ،امن وامان اور عدل وانصاف پر مبنی عالمی حکومت پیغمنر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے مربوط

”مہدی“نامی ایک شخص کے ذریعہ تشکیل پائے گی ،احادیث اس قدر زیادہ ہیں کہ تواتر کی حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں۔

اس کے علاوہ شیعوں کی کتابوں میں بھی اس موضوع پر احادیث متواتر ہیں کہ وہ (مہدی موعود)بارہویں امام ،جانشین پیغمبر ،امام حسین (ع)کے نویں فرزند اور امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں۔

اہل سنت کی احادیث

اہل سنت کی کتابوں میں ”ظہور مہدی(ع)“سے متعلق احادیث کے متواتر ہونے کے سلسلہ میں اتناہی کافی ہے کہ اہل سنت علماء نے اس موضوع کو اپنی کتابوں میں واضح طور پر ذکر کیا ہے ،یہاں تک کہ حجاز میں اہل سنت کے عالمی سطح کے سب سے بڑے دینی مرکز”رابطہ عالم اسلامی“نے اس موضوع کے بارے میں حال ہی میں اپنے ایک رسالہ میں یوں لکھا ہے:

”وہ (مہدی موعود)بارہ خلفائے راشدین میں آخری خلیفہ ہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحیح احادیث میں خبر دی ہے اور مہدی (عج)سے متعلق احادیث،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہت سے صحابیوں سے نقل کی گئی ہیں“

اس کے بعد حضرت مہدی (عج)سے متعلق احادیث نقل کر نے والے ”بیس اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ذکر کر نے کے بعد لکھتے ہیں:

”ان کے علاوہ بہت سے مختلف گروہوں نے بھی احادیث نقل کی ہیں بعض اہل سنت علماء نے حضرت مہدی سے مر بوط احادیث کے بارے میں خصوصی کتا بیں لکھی ہیں ،جن میں ابو نعیم اصفہانی ،ابن حجر ہیثمی،شوکانی ،ادریس مغربی اور ابو العباس بن مؤمن قا بل ذکر ہیں۔“

اس کے بعد لکھتے ہیں:

”اہل سنت کے گزشتہ و موجودہ علماء کے ایک گروہ نے مہدی(عج)سے مربوط احادیث کے متواتر ہو نے کی تصریح کی ہے۔“

اس کے بعد ان علماء میں سے بعض کا نام ذکر کر نے کے بعد اپنی گفتگو کا خاتمہ اس عبارت پر کرتے ہیں:

”حفّاظ اور محدثین کی ایک جماعت نے واضح طور پر کہا ہے کہ مہدی(عج)سے مربوط احادیث صحیح بھی ہیں اور حسن بھی اور مجموعی طور پر یہ سب احادیث متواتر ہیں اور مہدی کے قیام کا عقییدہ واجب ہے اور یہ اہل سنت والجماعت کے قطعی اور مسلم عقائد میں سے ہے۔ جاہل اور بدعتی افراد کے علاوہ کوئی بھی شخص اس کا انکار نہیں کرسکتا ہے۔“

شیعوں کی احادیث

اس سلسلہ میں اسی قدر جاننا کافی ہے کہ اس موضوع پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اطہار(ع) سے سینکڑوں احادیث نقل کی گئی ہیں،یہاں تک کہ یہ احادیث تواتر کی حد سے بھی آگے بڑھ گئی ہیں ۔شیعوں کے نزدیک امام مہدی(عج)کا عقیدہ ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے۔کوئی بھی شخص شیعوں کے نزدیک رہ کر حضرت مہدی(ع) کے ظہور کے بارے میں شیعوں کے عقائد ،حضرت مہدی کی بہت سی خصوصیات ،علائم ظہور ،ان کے طرز حکومت اور نظام کے بارے میں آگاہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔

شیعوں کے بزرگ علماء نے ابتدائی صدیوں سے آج تک اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں اور ان میں اس سلسلہ کی احادیث جمع کی ہیں۔

ہم یہاں پر نمونے کے طور پر چند احادیث کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں

اور تفصیلی مطالعہ کا شوق رکھنے والے قارئین کو درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرنے کی تاکید کرتے ہیں:

” مھدی انقلابی بزرگ“،” نوید امن وامان“ اور علامہ صدرالدین صدرکی کتاب”المھدی“ ۔

پیغمبر اسلام (ع) نے فرمایا:

”لولم یبق من الدھر الّا یوم لطول اللّہ ذٰلک الیوم حتی یبعث رجلا من اھل بیتی یملاُھا قسطاً وعدلًا کما ملئت ظلماً و جوراً“

” اگر دنیا کی زندگی کا صرف ایک دن باقی رہ جائے،خداوند متعال اس دن کو اتنا طولانی کرے گا کہ میرے خاندان میں سے ایک شخص کو مبعوث کرے تا کہ وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے جس طرح و ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔“

(یہ حدیث اہل سنت اور شیعوں کی اکثر کتابوں میں نقل ہوئی ہے)

ایک دوسری حدیث میں حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:

اذا قام القائم حکم بالعدل و ارتفع الجور فی ایامه و امنت به السبل و اخرجت الارض برکاتها، و ردکل حق الی اهله، و حکم بین الناس بحکم داود و حکم محمّد فحینئذ تظهر الارض کنوزها، و تبدی برکاتها، و لا یجد الرجل منکم یومئذ موضعا لصدقته ولبره، لشمول الغنی جمیع المؤمنین!“

”جب قائم (عج)قیام(ظہور) فرمائیں گے، تو حکومت کو عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم کریں گے، ان کے دور حکومت میں ظلم و ستم کا خاتمہ ہوگا، ان کے وجود کی برکت سے راستے پر امن بن جائیں گے، زمین اپنی برکتوں کو اگل دے گی اور ہر شخص کواپنا حق ملے گا، و ہ حضرت محمّد اور حضرت داؤد(ع) کے مانند لوگوں کے مسائل حل کریں گے،اس وقت زمین اپنے اندر پوشیدہ خزانوں کو آشکار کردے گی اور اپنی برکتوں کو ظاہر کردے گی اور محتاجوں کا کہیں نام و نشان نہیں ملے گا کیونکہ تمام مومنین بے نیاز اور مستغنی ہوں گے“

(بحار النوار،ج ۱۳( طبع قدیم)

ہم جانتے ہیں کہ حضرت مھدی (عج) کی غیبت کے دوران امامت و ولایت کے راستہ کی بقا امام زمانہ (عج)کے عام نائبین یعنی علماء و فقہا کے ذریعہ ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے:

۱ ۔ دنیا کے مستقبل کے بارے میں خدا پرستوں اور مادہ پرستوں کے نظریات میں کیا فرق ہے؟

۲ ۔کیا فطرت کے طریقہ سے ظہور مھدی(عج)کو ثابت کیاجاسکتاہے؟ اور کیسے؟

۳ ۔ کیا ظہور مھدی(عج)کے بارے میں کوئی عقلی دلیل موجود ہے؟

۴ ۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کیا فرماتا ہے؟

۵ ۔ اس موضوع پر سنت کا بیان کیا ہے؟


معادکے بارے میں دس سبق

پہلا سبق:ایک اہم سؤال

موت اختتام ہے یا آغاز؟

اکثر لوگ موت سے ڈرتے ہیں، کیوں؟

موت ہمیشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے ایک وحشتناک ہیولا کے مانند مجسم ہوتی رہی ہے۔ موت کی فکر و اندیشہ نے بہت سوں کی زندگی کی شیرینی کے کام و دہن کو تلخ بنادیا ہے۔

لوگ ، نہ صرف موت سے ڈرتے ہیں بلکہ قبرستان کے نام سے بھی نفرت کرتے ہیں اور قبروں اور قبرستانوں کوزرق و برق اور آراستہ کرکے ان کی اصلی ماہیت کو بھلانا چاہتے ہیں۔

دنیا کی مختلف ادبیات میں یہ خوف واضح طور پر نمایاں ہے اور ہمیشہ اسے ”موت کا ہیولا“، ”موت کا پنجہ“ اور ”موت کا طمانچہ“ جیسی تعبیرات سے یاد کیاجاتاہے!

جب کسی مردہ کا نام لیتے ہیں، تو مخاطب کو خوف وحشت سے بچانے کے لئے ”اب سے روز“،”میری زبان گنگ ہو“،” سات پہاڑوں سے دور“،”اس کی مٹی کے برابر تمھاری عمر ہو“ جیسے جملے کہکر مخاطب اورموت کے درمیان ایک دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس عام تصور کے برعکس کیوں بعض لوگ نہ صرف موت سے نہیں ڈرتے تھے بلکہ موت کے وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہواکرتی تھی اورفخر کے ساتھ موت کا استقبال کرتے تھے؟

تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ جب کچھ لوگ آب حیات اور جوانی کی اکسیر کے پیچھے دوڑتے تھے تو اسی وقت بعض لوگ عاشقانہ طور پر جہاد کے محاذوں کی طرف دوڑتے تھے اور موت کامسکراکر استقبال کرتے تھے اور کبھی اپنی طولانی زندگی سے شکوہ کرتے ہوئے اپنے معشوق کے دیدار کے دن اور لقاء اللہ کی آرزو اور تمنّا کرتے تھے۔ اور آج بھی ہم حق وباطل کے محاذ پر ان ہی مناظر کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح سرفروش مجاہدین شہادت کے استقبال کے لئے دوڑتے ہیں۔

خوف موت کا اصلی سبب

غور و فکر اور تحقیق کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس دائمی خوف و حشت کا اصلی سبب صرف دوچیزیں ہیں:

۱ ۔ موت کو فنا سمجھنا

انسان ہمیشہ نیستی (عدم) سے بھاگتاہے۔ بیماری سے بھاگتاہے کیونکہ یہ صحت و سلامتی کی نیستی ہے، تاریکی سے خائف ہے کیونکہ یہ روشنی کی نیستی ہے۔ فقر و محتاجی سے ڈرتاہے کیونکہ یہ تونگری کی نیستی ہے۔ حتی کہ انسان کبھی ایک خالی گھر سے بھی ڈرتاہے اور ایک سنسان بیا بان میں خوف سے دوچار ہوجاتاہے کیون کہ وہاں پرکوئی نہیں ہوتا!

تعجب کی بات یہ ہے کہ انسان خود مردہ سے بھی ڈرتا ہے، مثال کے طور پر ایک ایسے کمرے میں رات گزارنے کے لئے کبھی حاضر نہیں ہوتا ہے جس میں کوئی مردہ پڑاہو، حالانکہ جب وہی انسان زندہ تھا تو وہ اس سے نہیں ڈرتا تھا!

اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کیوں عدم اور نیستی سے خائف ہوتاہے۔ اس کا سبب واضح ہے کہ، ہستی اور ہستی کے درمیان چولی دامن کاساتھ ہوتاہے، ایک موجود چیز دوسری موجود چیز سے آشنا ہوتی ہے۔ وجود اور عدم کے درمیان ہرگز واقفیت نہیں ہوتی ہے، اس لئے نیستی سے ہماری اجنبیت بالکل فطری بات ہے۔

اب اگر ہم موت کو تمام چیزوں کا خاتمہ سمجھیں اور تصور کریں کہ مرنے سے تمام چیزیں ختم ہوجاتی ہیں تو ہمیں اس سے ڈرنے کا حق ہے، یہاں تک کہ ہم اس کے نام اور تصور سے بھی وحشت کریں تو حق ہے، کیونکہ موت ہم سے ہر چیز کو چھین لیتی ہے۔

لیکن اگر ہم موت کو ایک نئی زندگی ، ابدی حیات کا آغاز اور ایک عظیم دنیا کی طرف کھلنے والا دریچہ سمجھیں تو فطری طور پر نہ صرف اس سے وحشت زدہ نہیں ہوں گے بلکہ اس کی طرف پاکیزگی اور سربلندی سے قدم بڑھانے والوں کو مبارک باد بھی دیںگے۔

۲ ۔سیاہ اعمال نامے

ہم بعض ایسے افراد کو بھی جانتے ہیں جو موت کو نابودی اور نیستی سے تعبیر نہیں کرتے ہیں اور مرنے کے بعد والی زندگی کے ہرگز منکر نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود موت سے ڈرتے ہیں۔

انھیں موت سے ڈرنے کا حق ہے، ان کی مثال ان خطرناک مجرموں کی جیسی ہے، جو زندان سے باہر نکالے جانے سے ڈرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں زندان سے باہر لے جانے کی صورت میں پھانسی پر لٹکادیا جائے گا۔

وہ زندان کی سلاخوں سے محکم چمٹے رہتے ہیں،اس لئے نہیں کہ وہ آزادی سے متنفرہیں،بلکہ وہ اس آزادی سے ڈرتے ہیں جس کانتیجہ موت کی سزا ہے،اسی طرح وہ بد کار اور ظالم بھی موت سے ڈرتے ہیں جو اپنے بدن سے روح کے نکلنے کو اپنے برے اعمال اورظلم وستم کی ناقابل برداشت سزا کا مقدمہ جانتے ہیں ۔

لیکن جو لوگ نہ موت کو ”فنا“جانتے ہیں اور نہ ان کا ”اعمال نامہ سیاہ“ہو تا ہے،وہ موت سے کیوں ڈریں؟

بے شک ایسے لوگ زندگی کو بھی پورے وجود سے چاہتے ہیں،لیکن اس زندگی سے موت کے بعد والی دنیا میں نئی زندگی کے لئے زیادہ فائدہ اٹھا نے کے لئے ،ایسی موت کا استقبال کرتے ہیں جو خدا کی مرضی ،اس کے مقصد اور افتخار کے لئے ہو۔

دو مختلف نظر ئیے

ہم نے کہا کہ لوگ دوطرح کے ہیں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو اکثریت میں ہیں ،وہ موت سے بیزار اور متنفر ہیں۔

لیکن دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اس موت کا استقبال کرتے ہیں جو ایک عظیم مقصد کی راہ میں ہو جیسے خداکی راہ میں شہادت ،یا کم از کم جب احساس کرتے ہیں کہ ان کی طبیعی عمر آخر تک پہنچ گئی تو ان پر کسی بھی قسم کا غم و اندوہ طاری نہیں ہو تا ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں گروہوں کے دو مختلف نظرئیے ہیں:

پہلا گروہ :ان لوگوں کا ہے جو یا تو موت کے بعد والی دنیا کا بالکل ایمان و عقیدہ نہیں رکھتے ہیں یا ابھی پوری طرح اس پر یقین پیدانہیں کرسکے ہیں،لہذا یہ لوگ موت کے لمحہ کو تمام چیزوں کو الوداع کہنے کا لمحہ جا نتے ہیں ،البتہ تمام چیزوں کو الوداع کہنا وحشتناک ہے، نور اور روشنی سے نکل کر مطلق تاریکی میں قدم رکھنا بہت ہی درد ناک ہے۔

اسی طرح کسی مجرم کا زندان سے آزاد ہو کر ایک عدالت میں پیش ہو نابھی وحشتناک ہے جہاں پر اس کے جرم کے اسناد آشکار ہوں ۔

دوسرا گروہ :یہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو موت کو ایک نئی زندگی کا آغاز اور ایک محدود و تاریک ماحول سے باہر نکل کر ایک وسیع اور نوانی عالم میں قدم رکھنا جانتے ہیں۔

ان لوگوں کی نظروں میں موت،ایک تنگ اور چھوٹے پنجرہ سے آزاد ہو کر لا محدود آسمان میں پرواز کر نا اور تنگ نظریات، لڑائی جھگڑوں ،کشمکشوں،ناراضگیوں ،کینہ توزیوں اور جنگ وجدل سے بھرے ایک ماحول سے نکل کر ایک ایسی وادی میں قدم رکھنا ہے جو ان تمام آلود گیوں سے پاک ہو۔فطری بات ہے کہ ایسے لوگ اس قسم کی موت سے خوفزدہ نہ ہوں اور حضرت علی کے مانند کہیں:

”لابن ابی طالب انس بالموت من الطفل بثدی امه“

”خدا کی قسم فرزند ابیطالب کو موت سے انس اس شیر خوار بچے سے زیادہ ہے جو اپنی ماں کی چھاتیوں سے انس رکھتا ہے۔

ٌ یافارسی شاعر کے مندرجہ ذیل اشعار کے مانند کہیں:

مرگ اگر مرد است گونزد من آی تادر آغوشش بگیرم تنگ تنگ!

من از اوجانی ستانم جاودان اوزہ من دلقی ستاند رنگ رنگ!

(موت اگر دلیر ہے تواس سے کہدو کہ میرے پاس آجائے تاکہ میں اسے اپنی گود میں لے لوں ۔میں نے اس سے جاودانہ زندگی حاصل کی ہے اور اس نے مجھ سے ایک درویشانہ پیراہن لیا ہے)۔

یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ ہم تاریخ اسلام میں ایسے افراد کو پاتے ہیں،جو امام حسین علیہ السلام اور ان پر جان نچھاور کر نے والے ساتھیوں کے مانند جس قدر شہادت کا لمحہ ان کے نزدیک آتاتھا ،ان کے چہروں پر شادابی بڑھتی جاتی تھی اور اپنے پرور دگار سے ملاقات کرنے کے شوق میں پھولے نہیں سماتے تھے۔

اسی لئے ہم حضرت علی علیہ السلام کی فخر و مباہات سے بھری زندگی کی تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب ظالم قاتل کی تلوار کی ضرب آپ کے سر اقدس پر لگی توآپ نے فر مایا:

”فزت وربّ الکعبة“

”ربّ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا“

یہ واضح ہے کہ س کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسان خوامخواہ اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دے اور زندگی کی عظیم نعمت سے چشم پوشی کر لے اور عظیم مقاصد تک پہنچنے کے لئے اس سے استفادہ نہ کرے۔

بلکہ مقصود یہ ہے کہ زندگی سے پورا پورا استفادہ کرے لیکن اس کے خاتمہ سے ہرگز خوف زدہ نہ ہو خاص کر اس وقت جب وہ عظیم مقاصد کی راہ پر گامزن ہو۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔لوگ کیوں موت سے ڈرتے ہیں ؟اس کا سبب کیا ہے؟

۲ ۔بعض لوگ کیوں موت کا مسکراہٹ سے استقبال کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں شہادت کے عاشق ہوتے ہیں؟

۳ ۔موت کے لمحہ کو کس چیز سے تشبیہ دی جا سکتی ہے؟باایمان پاکیزہ لوگ کیا احساس کرتے ہیں اور بے ایمان ناپاک لوگ کیا محسوس کرتے ہیں؟

۴ ۔کیا آپ نے اپنی زندگی میںکسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جو موت سے نہیں ڈرتا ہے ؟ان کا کون سا واقعہ آپ کو یاد ہے؟

۵ ۔موت کے بارے میں حضرت علی کا کیا نظریہ ہے؟