نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23877
ڈاؤنلوڈ: 4191

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23877 / ڈاؤنلوڈ: 4191
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

تیسرا سبق: انبیاء کیوں معصوم ہیں ؟

گناہ و خطا سے پاک ہو نا

بلا شک وشبہہ ہر نبی کے لئے ہرچیز سے پہلے تمام لوگوں کا اعتماد حاصل کر نا ضروری ہے تاکہ لوگ اس کی بات کے بارے میں جھوٹ اور غلطی کا احتمال تک نہ دیں ورنہ اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو جا ئے گا۔

اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو بہانہ تراشی کر نے والے اس وجہ سے کہ انبیاء غلطی کرتے ہیں اور حقیقت پسند لو گ ان کی دعوت کی باتوں میں غیریقینی حالت کی وجہ سے ا ن کی دعوت کو قبول کر نے سے اجتناب کریں گے یا کم از کم اعتماد واطمینان کے ساتھ ان کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے۔

اس دلیل کو ہم”اعتماد کی دلیل“کہہ سکتے ہیں اور یہ عصمت انبیاء کے دلائل میں سے ایک اہم دلیل ہے۔

دوسرے الفاظ میں: یہ کیسے ممکن ہے کہ خداوند متعال ایک انسان کی بلا قید و شرط اطاعت کر نے کا حکم دیدے جبکہ ممکن ہے وہ انسان خطا یا گناہ کا مرتکب ہو جائے؟ کیا اس حالت میں لوگ اس کی اطاعت کر سکتے ہیں ؟اگر وہ اطاعت کریں تو ان کی اطاعت خطا و گناہ کی پیروی ہو گی اور اگر اطاعت نہ کریں تو اس کی رہبری کا منصب متزلزل ہو گا،خاص کر جبکہ انبیاء کی رہبری دوسروں کی رہبری سے مکمل طور پر متفاوت ہے ،کیونکہ لوگ اپنے تمام اعتقادات اور زندگی کے اصول و قوانین میں ان ہی انبیاء سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب عظیم مفسرین قرآن مجید کی آیہ شریفہ:

( اطیعوا اللّه واطیعواالرسول واولی الامر منکم )

(سورہ نساء/ ۵۹)

”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول وصاحبان امر کی اطاعت کرو۔“

پر پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں:کس قید وشرط کے بغیر اطاعت کر نے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ نہ صرف انبیاء معصوم ہیں بلکہ”اولی الامر“بھی معصوم ہیں۔اولوالامر سے مقصود وہ ائمہ ہیں جوپیغمبرکی طرح معصوم ہیں وگر نہ خداوند متعا ل بے قید وشرط ان کی اطاعت کر نے کا حکم نہیں دیتا ۔

ایک دوسرا طریقہ،جس سے انبیاء کے ہر گناہ کے مقابلہ میں معصوم ہو نے کو ثابت کیا جاسکتا ہے،یہ ہے کہ”انبیاء کے وجود میں گناہ کے عوامل واسباب کا میاب نہیں ہو تے ہیں۔“

اس کی وضا حت یوں کی جاسکتی ہے کہ جب ہم اپنے اندر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہم بھی بعض گناہوں یا برے کاموں کے مقابلہ میں تقریباًمعصوم ہیں۔

درج ذیل مثالوں پر غور فر مائیے:

کیا آپ کسی ایسے عاقل انسان کو پیدا کر سکتے ہیں جوآگ کو کھالے؟یاکوڑا کرکٹ اور کسی گندی چیز کو نگل لے؟

کیا آپ کسی باشعور کو بالکل برہنہ ہو کر گلیوں اور بازاروں میں گھومتے ہو ئے پیدا کر سکتے ہیں؟

یقینا کسی با شعورانسان کو ایسا کام کر تے ہوئے پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اگر ہم کسی شخص کو ایسا کرتے دیکھیں تو یقین پیدا کریں گے کہ اس کا دماغ ٹھیک نہیں ہے اور وہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے ورنہ عام طور پر محال ہے کہ کوئی عاقل شخص اس قسم کا کوئی کام انجام دے۔

جب ہم اس قسم کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس قسم کے اعمال کی برائی ہمارے لئے اس قدر واضح ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان ان کاموں کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔

یہاں پر ہم ایک مختصر جملہ میں اس حقیقت کو مجسم کر کے بتا سکتے ہیں کہ ہر عاقل اور صحیح وسالم شخص بعض بُرے اور ناشائستہ کا موں کی نسبت ”محفوظ“یادوسرے الفاظ میں ایک طرح ”معصوم “ہو تا ہے۔

اس مرحلہ سے آگے بھی ہم بعض ایسے اشخاص کو پاتے ہیں جو کئی دوسرے برے کاموں کے مقابلہ میں بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں جبکہ عام لوگوں سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ایک آگاہ اور ماہر طبیب جو جراثیم کے مختلف انواع و اقسام کو بخوبی جانتا ہے ،ہر گز ایسے آلودہ پانی کو نہیں پیتا جس میں خطرناک متعدی بیماریوں میں مبتلا بیماروں کے کپڑے دھوئے گئے ہوں،جبکہ ممکن ہے ایک ان پڑھ اور ناآگاہ شخص اس قسم کی چیز کو اہمیت نہ دے۔

بہر حال ہم ایک سادہ تجزیہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ایک موضوع کے بارے میں جس قدر انسان کی آگاہی زیادہ ہو وہ برے کاموں سے زیادہ محفوظ رہ سکتا ہے۔

اس حساب سے اگر کسی کے”ایمان“اور ”علم وآگاہی“کی سطح اس قدر بلند ہو جائے کہ وہ خداوند متعال اور اس کی عدالت کے بارے میں ایسا اعتقاد ویقین پیدا کرے کہ گویا انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے حاضر وناظر مشاہدہ کر رہا ہے ،تو ایسا انسان تمام گناہوں کے مقابلہ میں محفوظ رہے گا اور اس کے سامنے ہر برا کام ویسا ہی ہو گا ،جیسا ہماری نظروں میں کوچہ و بازار میں مادر زاد ننگا گھومنا ہے۔

اس کے لئے حرام مال بالکل آگ کے شعلہ کے مانند ہو گا ،جس طرح ہم آگ کو اپنے منہ میں نہیں ڈالتے ،وہ بھی حرام مال کو اپنے منہ کی طرف نہیں لے جاتا ہے۔

اس گفتگو سے یہ نتیجہ حاصل ہوا کہ انبیاء اپنے غیر معمولی علم وآگاہی کے پیش نظرگناہ کے عوامل پرکنٹرول رکھتے ہیں اور گناہ کے ہیجان انگیز ترین عوامل بھی ان کی عقل وایمان پر حاوی نہیں ہو سکتے،اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ انبیاء معصوم ہیں اور ہر قسم کے گناہوں سے پاک ومنزّ ہیں۔

عصمت کا مرتبہ کیسے فضیلت کا سبب بن سکتا ہے؟

بعض افراد جو عصمت کے مفہوم اور گناہوں سے بچنے کے عوامل کے بارے میں

آگاہی نہیں رکھتے ،اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خداوند متعال کسی کو گناہ سے بچائے اور گناہ کے عوامل کو اس میں ختم کردے تو یہ اس کے لئے کوئی فضیلت نہیں ہو سکتی ہے !کیونکہ یہ ایک جبری عصمت ہے اور جبری عصمت فضیلت شمار نہیں ہوتی

لیکن ہماری مندرجہ بالا وضا حت کے پیش نظر اس اعتراض کا جواب مکمل طور پر واضح ہو گیا ہے :

انبیاء کی عصمت میں کسی بھی قسم کا اجباری پہلو نہیں ہے بلکہ ان میں موجود قوی ایمان ،محکم اور غیر معمولی علم وآگاہی ان کے لئے عصمت کی ایک عظیم فضیلت حاصل ہو نے کا سبب بنتے ہیں ۔

اگر ایک آگاہ و ماہر طبیب بیماری پھیلانے والے عوامل کے مقابلہ میں شدید پرہیزکا مظاہرہ کرے تو کیا یہ اس کی مجبوری شمار کی جائے گی ؟!

اگر ایسا شخص حفظان صحت کے اصولوں کی پوری طرح رعایت کرے تو کیا یہ کام اس کی ایک فضیلت شمار نہیں ہوگی؟

اگر ایک قانون دان کسی خطرناک جرم کے عدالت میں ہولناک نتائج کے پیش نظر اس سے سخت پرہیز کرتا ہے تو کیا یہ اس کی فضیلت شمار نہیں ہوگی ؟

پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انبیاء کے معصوم ہو نے میں نہ صرف اختیاری پہلو ہے بلکہ یہ ان کے لئے ایک بڑی فضیلت بھی ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔معصوم ہونے کی کتنی قسمیں ہیں؟

۲ ۔اگر انبیاء معصوم نہ ہوتے تو کیا ہو تا؟

۳ ۔مرتبہ”عصمت“کی حقیقت کیا ہے؟

۴ ۔سبق میں بیان شدہ مثالوں کے علاوہ چند اور مثالیں بیان کیجئے جن کی نسبت تمام لوگ یا کچھ لوگ معصوم ہوں۔

۵ ۔انبیاء کی عصمت اجباری ہے یا اختیاری ؟دلیل بیان کیجئے۔

چوتھا سبق: پیغمبر شناسی کا بہترین طریقہ

بلا شک وشبہہ ہر مدعی کے دعوی ٰکو قبول کر نا عقل و منطق کے خلاف ہے۔

ممکن ہے خدا کی طرف سے پیغمبری اوررسالت کادعویٰ کر نے والا شخص سچا ہو،لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ایک موقع پرست اور دھوکہ باز شخص سچے انبیاء کے بجائے جھوٹا دعویٰ کرے۔اس لئے ضروری ہے کہ انبیاء کی دعوت اور ان کے خدا سے رابطہ کی حقیقت کو ثابت کر نے کے لئے ،ہمارے پاس ایک قطعی اور یقینی کسوٹی موجود ہو۔

اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس مختلف راستے موجود ہیں ،جن میں سب سے اہم مندرجہ ذیل دو راستے ہیں:

۱ ۔پیغمبر کی دعوت کے مطالب کے بارے میں پوری دقت سے تحقیق اور اس کے بارے میں قرائن و علامات کو اکھٹا کر نا۔

۲ ۔معجزہ اور خارق العادہ کام۔

ہم پہلے معجزہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں:

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لفظ ”معجزہ“سن کر تعجب کا اظہار کرتے ہیں یا معجزوں کو افسانوں اور کہانیوں کے مثل جانتے ہیں ،حالانکہ اگر ہم معجزہ کے معنی ومفہوم پر سنجیدگی کے ساتھ اور علمی پہلو سے غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اس قسم کے تصورات بالکل غلط ہیں۔

حقیقت میں معجزہ ایک ناممکن کام اور بے علت معلول نہیں ہے ،بلکہ سادہ الفاظ میں معجزہ ایک خارق عادت کام کو کہتے ہیں جس کو انجام دینا عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہو تی اور یہ صرف ایک غیر معمولی طاقت کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے۔

اس لئے معجزہ کے درج ذیل شرائط ہیں:

۱ ۔یہ ایک ممکن اور قابل قبول کام ہے۔

۲ ۔عام لوگ،حتی غیر معمولی ذہن رکھنے والے افراد بھی انسانی قدرت کے ذریعہ معجزہ کو انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔

۳ ۔معجزہ پیش کر نے والے شخص کو اپنے کام پر اتنا یقین اور اطمینان ہو نا چاہئے کہ دوسروں کو اس کے مقابلہ کی دعوت کرے۔

۴ ۔کوئی بھی شخص معجزہ کے مانند کام انجام نہیں دے سکتا ہے ،جیسا کہ معجزہ کے نام ہی سے معلوم ہے کہ اس کے مقابلہ میں لوگ عاجز ہوں۔

۵ ۔معجزہ کا نبوت یا امامت کے دعویٰ کے ساتھ ہو نا ضروری ہے (اس لئے پیغمبر اور امام کے علاوہ دوسروں سے انجام پانے والے خارق عادت کام معجزہ نہیں کہلاتے بلکہ انھیں کرامت کہا جاتا ہے)۔

چند واضح نمو نے:

ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ مردوں کو زندہ کر نا اور لاعلاج مریضوں کو صحت یاب کر نا تھا۔

کیا ہمارے پاس کوئی ایسی دیل موجود ہے جس سے یہ ثابت کریں کہ انسان کے بدن کا نظام فیل ہو کر مرنے کے بعد پھر سے وہ زندہ نہیں ہو سکتا ہے؟!

کیا ہمارے پاس کوئی ایسی عقلی وعلمی دلیل موجود ہے جس سے ہم ثابت کریں کہ کینسر کی بیماری،جس کے علاج سے ہم عاجز ہیں ،کا کوئی علاج نہیں ہے۔

لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ انسان موجودہ قدرت اور حالات میں مردوں کو زندہ کر نے یا بعض بیماریوں کا علاج کر نے کی طاقت نہیں رکھتا ہے ،چاہے دنیا کے تمام ڈاکٹر مل کر اپنے تجربات اور علم سے مدد کیوں نہ لیں۔

لیکن اس میں کیا مشکل ہے کہ ایک انسان خدا کی قدرت اور اس کے لامحدود علم کے سمندر سے آگاہی حاصل کر کے ایک پر اسرار اشارہ کے ذریعہ ایک مردہ میں پھر سے روح کو لوٹا دے یا ایک لا علاج مریض کو شفا بخش دے!

علم صرف یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں اور مجھ میں یہ کام انجام دینے کی طاق نہیں ہے ،لیکن کبھی یہ نہیں کہتا ہے کہ فلاں کام انجام دینا ناممکن اور غیر معقو ل ہے۔

ایک دوسری مثال:

خلائی جہاز کے بغیر چاند کا سفر کر نا کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے ،لیکن اس میں کیا حرج ہے کہ ہماری قدرت سے برتر کوئی طاقت انسان کی ایجاد کی گئی سواری سے بالاتر ایک پر اسرار سواری کو ایجاد کر کے کسی کے اختیار میں قرار دیدے اور وہ خلائی جہاز سے مدد لئے بغیر چاند یا اس سے دورتر سیاروں کا سفر کر دے۔!

اگر کوئی شخص حقیقتاًاس قسم کا کوئی خارق عادت کام انجام دے اور اس کے ساتھ ہی نبوت کا دعویٰ بھی کرے اور لوگوں کو مقابلہ کی دعوت بھی دے اور عام لوگ اس کے مقا بلہ میں عاجز ہو جائیں تو یقین کریں گے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے ۔

معجزات کو توہمات اور خرا فات سے نہیں ملا نا چاہئے

”افراط“ و”تفریط“ہمیشہ برائی اور تباہی ایجاد کر نے اور حقیقت کے چہرہ کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں۔

معجزہ کے بارے میں بھی یہی امر صادق آتا ہے ۔جبکہ بعض تجدّد پسندی کے نام نہاد دعوے دار کھل کر یا اشاروں میں ہر قسم کے معجزہ سے انکار کر تے ہیں اس کے مقا بلہ میں کچھ لوگ زیادہ سے زیادہ معجزے گھڑتے ہیں اور مرموز دشمنوں کے توسط سے جعل کی گئی ضعیف روایتوں اور توہمات پر مشتمل افسانوں کو معجزات کے ساتھ ملا دیتے ہیں ۔اس طرح انبیاء کے حقیقی معجزوں کے علمی چہرے پر افسانوں اور خرافات کے پردے ڈال دیتے ہیں۔

جب تک حقیقی معجزات اس قسم کے جعلی افسانوں سے پاک و منزّہ نہ ہو جائیں، ان کا اصلی چہرہ آشکار نہیں ہو گا۔

اسی لئے ہمارے عظیم علماء اور فقہا ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ معجزات وغیرہ کے سلسلے میںاسلامی احادیث اس قسم کے افسانوں سے آلودہ نہ ہو جائیں۔

اسی لئے ”علم رجال“کو وجود میں لایاگیا تاکہ احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پر کھا جائے اور”صحیح“اور”ضعیف“احادیث کے در میان فرق معلوم کیا جائے اور توہمات پر مشتمل مطالب حقائق سے ملنے نہ پائیں۔

آج سامراجی اورالحادی قوتیں بیکار نہیں بیٹھی ہیںبلکہ وہ بے بنیاد باتوںکو پاک ومنزہ دینی عقائد سے مخلوط کر دینے کی کوشش کر تی ہیں تاکہ اس طرح سے لوگوں کو حقیقی علم سے دور کر دیں۔لہذا ضروری ہے کہ ہم دشمنوں کی ان تخریبی سازشوں کے بارے میں پوری طرح باخبر رہیں اور ان کو ناکام بنادیں۔

معجزہ کا دوسری خارق عادت چیزوں سے فرق

غالبا ً آپ نے سنا ہو گا کہ کچھ جوگی بعض اوقات خارق عادت کام انجام دیتے ہیں ،ایسے عجیب وغریب کام کا مشاہدہ کر نے والے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے ،یہ ایک حقیقت ہے نہ افسانہ۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ ان خارق عادت کاموں اور انبیاء کے معجزات کے در میان کیا فرق ہے؟ہمارے پاس کونسی کسوٹی ہے جس پر کے ذریعہ ہم ان دوچیزوں کے در میا ن فرق معلوم کر سکیں؟

اس سوال کے کئی جواب ہیں ،ان میں سے واضح تر درج ذیل دو جواب ہیں:

۱ ۔جوگی ہمیشہ محدود کام انجام دیتے ہیں اور دوسرے الفاظ میں کو ئی بھی جوگی آمادہ نہیں ہو گا کہ آپ کی خواہشی کے مطابق کسی خارق عادت کام کو انجام دے بلکہ وہ ایسا خارق عادت کام انجام دیتا ہے جسے وہ خود چاہتا ہے یعنی اسی کام کو انجام دیتا ہے جس کی اس نے مشق کر کے اچھی طرح سے سیکھا ہے اور اس پر مسلط ہو گیا ہے ۔اس بات کی وجہ واضح ہے ،کیونکہ ہر انسان کی قدرت محدود ہے ،وہ صرف چند ایک کاموں میں مہارت حاصل کر سکتا ہے ۔

اس کے مقابلہ میں انبیاء کے خارق عادت کام کی کوئی محدو دیت نہیں ہے،ان کے لئے کسی قسم کی قید وشرط نہیں ہے ۔وہ ضرورت کے وقت ہر قسم کے مطالبہ شدہ معجزہ کو انجام دے سکتے ہیں ،کیونکہ وہ خدا کی لا محدود قدرت سے مدد لیتے ہیں اور معلوم ہے کہ خدا کی قدرت کی کوئی حد نہیں ہے،جبکہ انسان کی قدرت نہایت محدود ہے۔

۲ ۔جس کام کو ایک جوگی انجام دیدے ،دوسرا جوگی بھی ویسا ہی کام انجام دے سکتا ہے یعنی وہ کام بشر کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔

اسی لئے خارق عادت کام انجام دینے والا جو گی ہر گز دوسروں کو مقابلہ کی دعوت نہیں دیتا اور دوسرے الفاظ میں وہ چیلنج نہیں کر تا ہے ،کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے اس کے شہر یا دوسرے شہر وں میں اس کے جیسے افراد موجود ہیں جو ایسا کام انجام دے سکتے ہیں۔

لیکن اس کے بر عکس انبیاء مکمل اطمینان کے ساتھ چیلنج کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ”اگر دنیا کے تمام لوگ بھی جمع ہو جائیں تب بھی ہمارے انجام دئے گئے کام کے مانند کام کو انجام نہیں دے سکتے ہیں۔“

سحر و جادو کے بارے میں بھی یہ فرق صادق ہو تا ہے۔مذکورہ فرقوں سے سحر اور معجزہ کے حدود بھی مکمل طور پر معلوم ہو جاتے ہیں

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔”معجزہ“کو معجزہ کیوں کہتے ہیں؟

۲ ۔کیا معجزہ”قانون علّیت“سے مستثنیٰ ہے؟

۳ ۔کن طریقوں سے ہم معجزہ کو جوگیوں اور جادوگروں کے کام سے الگ کر سکتے ہیں؟

۴ ۔معجزہ کی اصلی شرائط کیا ہیں؟

۵ ۔کیا آپ نے اپنی زندگی میں معجزہ جیسی کو ئی چیز دیکھی ہے؟

پانچواں سبق : پیغمبر اسلام( صلی الله علیه واله والسلم ) کاسب سے بڑا معجزہ

لافانی معجزہ

تمام علمائے اسلام کا اس بات پر اعتقاد ہے کہ قرآن مجید،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے ۔یہ جو ہم کہتے ہیں کہ یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ،یہ اس لئے ہے کہ :

۱ ۔قرآن مجیدایک عقلی معجزہ ہے ،جس کا لوگوں کی روح اور فکر سے سر وکار ہے۔

۲ ۔یہ ایک ابدی،لا فانی اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے۔

۳ ۔یہ ایک ایسا معجزہ ہے جو گزشتہ چودہ صدیوں سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے :”اگر تم لوگ یہ کہتے ہو کہ یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوئی ہے تو اس کے مانند کوئی اور کتاب پیش کرو۔“

قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کھل کر چلینج کی صورت میں اس قسم کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے :

ایک جگہ پر قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:

( قل لئن اجتمعت الا نس والجن علی ان یاتوا بمثل هٰذا القرآن لا یا تون بمثله ولو کان بعضهم لبعض ظهیراً ) (سورہ اسرار/ ۸۸)

” آپ کہدیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لا سکتے،چاہے سب ایک دوسرے کے مدد گار اور پشت پنا ہ ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔“

دوسری جگہ پر اس چیلنج کی شرط کو آسان تر کرتے ہوئے فر ماتا ہے :

( ام یقولون افترٰیه قل فاتوا بعشر سور مثله مفتریٰت وادعوا من استطعتم من دون اللّٰه ان کنتم صٰدقین ) (سور ہ ہود / ۱۳)

”کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن بندے نے گڑھ لیا ہے تو کہدیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آو۔اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچےّ ہو۔“

اس کے بعد خاص طور پر مزید فر ماتا ہے کہ اگراس دعوت کو ان لوگوں نے قبول نہیں ،تو جان لینا کہ یہ آیات خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔“ ( سورہ ہود/ ۱۴)

ایک بار اور مقابلہ کی شرائط کو کم سے کم کرتے ہوئے فر ماتا ہے:

( وإن کنتم فی ریب ممّا نزّلنا علی عبدنا فاتوا بسورة من مثله وادعوا شهدا ئکم من دون اللّٰه إن کنتم صٰدقین ) (سورہ بقرہ/ ۲۳)

”اگرتمھیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسا ایک ہی سورہ لے آو ۔اور اللہ کے علاوہ جتنے تمھارے مدد گار ہیں سب کو بلا لو اگر تم اپنے دعوت اور خیال میں سچےّ ہو۔“

اس کے بعد والی آیت میں واضح طور سے فر ماتا ہے:

( فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتّقوا النّار الّتی وقودها النّاس والحجارةُ اُعدّت للکٰفرین ) ( سورہ بقرة/ ۲۴)

”اور اگر تم(کفار) ایسا نہ کر سکے اور یقینانہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں اور جسے کافرین کے لئے مہیا کیاگا ہے۔“

قرآن مجید کے منکرین کوپے در پے اس قسم کی دعوت دینا اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن مجید کے معجزہ ہو نے پر زیادہ بھروسہ فر ماتے تھے۔ اگر چہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور بھی متعدد معجزات نقل ہوئے ہیں ،جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔

چونکہ قرآن مجید ایک زندہ معجزہ ہے اور ہم سب کی اس تک آسانی کے ساتھ رسائی ہے ،اس لئے ہم معجزات کی بحث میں زیادہ تراسی پر تکیہ کرتے ہیں۔

اس چیلینج کے مقابلہ میں مخالفین کا عجز

یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ قرآن مجید نے مقابلہ کی دعوت کے سلسلہ میںمخالفین پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے،اور مختلف بھڑ کانے والی عبارتوں سے ان کو دعوت دی ہے تا کہ کسی کے لئے کوئی بہانہ اور عذر باقی نہ رہے۔جیسے:

”اگر سچ کہتے ہو”ہر گز نہیں کرسکتے “،”تمام لوگوں سے مدد لے لوکم ازکم اس جیسا ایک سورہ لے آؤ۔“اور ”اگر کافر ہوگئے تو جلا دینے والی آگ تمھارے انتظار میں ہے۔“یہ تعبیریں اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں۔

یہ سب ایک طرف،دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے مخالفین سے کوئی آسان مقابلہ نہیں تھا ،کیونکہ اسلام نے نہ صرف ان کے مذہب کو خطرہ میں ڈال دیاتھا،جس پر وہ سختی سے پابند تھے بلکہ ان کے اقتصادی اور سیاسی منافع حتی ان کے وجود کو بھی خطرہ میں ڈال دیا تھا۔

دوسرے الفاظ میں اسلام کی ترقی اور نفوذ نے ان کی پوری زندگی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا۔لہذا وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کے لئے میدان میں آنے پر مجبور تھے۔

انھیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہتّھا کر نے کے لئے ہر قیمت پر قرآن مجید کی جیسی چند آیتوں کو لانا چاہئے تھا تا کہ اس کے بعد قرآن ان کو چیلینج دے کرانھیں عاجز اور ناتوان نہ کر سکتا اور اپنی حقانیت کی سند پیش نہ کر سکتا۔

انہوںنے اپنے زمانہ کے فصاحت و بلاغت میں کمال رکھنے والے تمام عربوں سے مدد طلب کی ،لیکن جب بھی قرآن مجیدکے مقا بلہ میں آئے ،توشکست سے دو چار ہو ئے اور پیچھے ہٹ گئے کہ اس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے۔

ولید بن مغیرہ کا واقعہ

قرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے بلائے گئے لو گوں میں ”ولید بن مغیرہ“ بھی شامل تھا ۔اس کا تعلق قبیلہء ”بنی مخزوم“سے تھا ۔جو اس زمانہ میں عربوں کے در میان حسن تد بیر اور فکر صائب کے لحاظ سے بڑی شہرت کا حامل تھا

کفار نے اس سے درخواست کی کہ اس سلسلہ میں غور وخوض کر کے قرآن مجید کی عجیب وغریب آیات اور ان کے غیر معمولی نفوذ کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کرے۔

”ولید نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ قرآن مجیدکی چند آیات کی تلاوت فر مائیں ۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ”سورہ حم سجدہ“کی چند آیات کی تلاوت فر مائی ۔

ان آیات نے ولید کے اندر ایسا اضطراب اور ہیجان پیدا کیا کہ وہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور” قبلہ نبی مخزوم“کی منعقد شدہ محفل میں جا پہنچا اور ان سے مخاطب ہو کر بولا:

خدا کی قسم میں نے محمد(ص) سے ایسا کلام سنا ہے کہ نہ انسان کے کلام کے مانند ہے اور نہ جن اور پریوں کے کلام کے مانند... اس کے بعد ولیدبن مغیرہ نے یوں کہا:

”وان لہ لحلاوةوان علیہ لطلاوةوان اعلا ہ لمثمر و ان اسفلہ لمغدق وانہ یعلمو ولا یعلی علیہ۔“

ان کے کلام میں ایک خاص مٹھاس اور زیبائی ہے ،(ایک درخت کے مانند)اس کا اوپری حصہ میوؤں سے بھرا ہوا اور اس کی جڑ مضبوط ہے۔یہ ایک ایسا کلام ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور کوئی چیز اسے مغلوب نہیں کر سکتی ہے۔

ولید کے یہ کہنے سے قریش کے در میان یہ آواز گونجنے لگی کہ ولیدبن مغیرہ محمد کا دلداد ہ ہو گیا ہے!

”ابو جہل“نے فوراً مغیرہ کے گھر جاکر قریش میں پھیلی ہوئی یہ بات اس کو بتائی اور اسے قریش کی مجلس میں آنے کی دعوت دی۔

ولید بن مغیرہ نے قریش کی مجلس میں آکر کہا:

”کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ (محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ ہو گیا ہے ؟کیا تم لوگوں نے کبھی اس میں دیوانگی کے آثار دیکھے ہیں؟!

حاضرین نے کہا:”نہیں“

پھر ولید نے پوچھا:

کیا تم لوگ خیال کرتے ہو کہ وہ جھوٹ بولتا ہے ؟کیا اب تک وہ تم لوگوں میں ایک سچے اور امین شخص کی حیثیت سے مشہور نہیں تھے اور اسے تم صادق وامیں نہیں کہتے تھے؟!

قریش کے بعض سرداروں نے کہا:پھر ہم اس کی طرف کون سی نسبت دیں؟

ولید نے تھوڑی دیر غور وفکر کر کے کہا :تم لوگ کہو:وہ ساحر ہے ۔

اگر چہ کفار اس تعبیر سے قرآن مجید کے چاہنے والوںکو اس سے جدا کر نا چاہتے تھے ۔لیکن یہ تعبیر ”ساحر“خود اس بات پر ایک زندہ دلیل تھی کہ قرآن مجید غیر معمولی طور پر جذب کر نے والی پر کشش کتا ب ہے ،لہذا انہوں نے اس جذب کرنے والی قوت کا نام سحر رکھا،جبکہ اس کا سحر سے کوئی ربط نہیں تھا۔

اس کے بعد کفار قریش نے ہر جگہ اس کازبردست پروپیگنڈا کر نا شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ماہر جادوگر ہے اور یہ آیات اس کے جادو ہیں،اس سے دوری اختیار کریں اور اس کا کلام سننے سے پر ہیز کریں۔!

لیکن تمام کو ششوں کے باوجودان کی یہ ریشہ دوانیاں کا میاب نہ ہو سکیں اور ہر گوشہ و کنار میں موجودحقیقت کے پاک دل پیاسے جوق در جوق قرآن مجید کی طرف آتے رہے اور اس الہی پیغام کے آب زلال سے سیراب ہو تے رہے ۔اس طرح قرآن مجید کے دشمن شکشت کھا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے۔

آج بھی قرآن مجید تمام دنیا والوں کو چیلینج کرتے ہوئے مقابلہ کی دعوت دے رہا ہے اور پکار پکار کے کہہ رہاہے:اے ہر قوم و ملت کے دانشورو،اے فلاسفہ،اے ادیبو اور اے اہل قلم !اگر تم قرآن مجیدکی آیات کے بارے میں شک وشبہہ رکھتے ہو اور انھیں انسانی عقل وفکر کی اختراع سمجھتے ہو تو تم بھی اس کے مانند کلام لے آؤ!

ہم یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اسلام کے دشمن بالخصوص عیسائی پادری(جو اسلام کو ایک انقلابی اور بامعنی دین کی حیثیت سے اپنے لئے سخت اور خطر ناک رقیب جانتے ہیں)ہر سال اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر نے پر کروڑوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور مختلف اسلامی ممالک میں گونا گوں ثقافتی ،علمی ،علاج و معالجہ اور صحت عامہ کے پرو گراموں کی آڑ میں سرگرم عمل ہیں ۔ان کے لئے بہت آسان ہو تا اگر وہ عربی زبان کے عیسائی دانشوروں،شاعروں ،اہل قلم اور فلاسفہ کو دعوت دیتے تاکہ وہ قرآن مجید کی سورتوں کے مانند چند سورتیں لکھ کر ان کی تشہیر کر کے مسلمانوں کا منہ بند کردیں!!

اگر ان کے لئے یہ ممکن ہو تا توقطعاً وہ اس کام کو ہر قیمت پر انجام دینے سے گریزکرتے۔

اس موضوع کے مقابہ میں ان کی ناتوانی قرآن مجید کے مخالفین کی برُی شکست اور قرآن مجید کے لا فانی معجزہ ہو نے پر واضح اور روشن دلیل ہے۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا سب سے بڑا معجزہ کیوں قرآن مجید شمار ہو تا ہے؟

۲ ۔قرآن مجید کیسا چیلینج کر تا ہے؟

۳ ۔اسلام کے دشمنوں نے قرآن مجید کو کیوں سحر سے نسبت دی ہے؟

۴ ۔اسلام، کیوں موجودہ عیسائیت کا سخت رقیب ہے؟

۵ ۔”ولید بن مغیرہ فخزومی“کا واقعہ کیا ہے؟