نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23890
ڈاؤنلوڈ: 4191

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23890 / ڈاؤنلوڈ: 4191
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

چھٹا سبق :قرآن مجید کے اعجاز کی ایک جھلک

حروف مقطعات کیوں؟

قرآن مجید کی بہت سی سورتوں کے آغاز میں ”حروف مقطعات“ جیسے:”الم”،المر اور ”یٓس“آئے ہیں۔

بعض اسلامی روایتوں کے مطابق ”حروف مقطعات“کا ایک فلسفہ اور رازیہ ہے کہ خداوند متعال یہ دکھا نا چاہتا ہے کہ یہ عظیم اور لافانی معجزہ قرآن مجید کیسے ان سادہ حروف ”الف،با“سے وجود میں آیا ہے۔کیسے یہ ایک عظیم کلام ایسے حروف اور الفاظ سے بنا ہے،جن کو ہر چند سالہ بچہ بھی پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،حقیقت میں اتنے عظیم کام کا ایسے کلمات والفاظ سے وجود میں آناہی سب سے بڑا معجزہ ہے۔

سوال پیدا ہو تا ہے کہ قرآن مجید کتنے پہلوؤں سے معجزہ ہے؟کیا صرف فصاحت و بلا غت کے لحاظ سے اور دوسرے الفاظ میں:صرف عبارتوں کی مٹھاس،مطالب کے رسا ہو نے اور ان کے غیر معمولی نفوذ سے یا دوسرے پہلوؤں سے بھی معجزہ ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ جب ہم قرآن مجید پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالتے ہیں تو ہر زاویہ اور ہر دریچہ سے اس کے اعجاز کے چہروں میں سے ایک چہرہ نظر آتا ہے،جیسے:

۱ ۔فصاحت و بلاغت :اس کے الفاظ اور مفاہیم میں غیر معمولی مٹھاس اور کشش اور عجیب وغریب قوت جاذبہ پائی جاتی ہے۔

۲ ۔قرآن مجید ہر لحاظ سے بلند مطالب و مفاہیم پیش کرتا ہے ،بالاخص ہر قسم کے خرافات سے پاک عقائد بیان کر تا ہے۔

۳ ۔علمی معجزات :یعنی ایسے مسائل کے رخ سے پردہ اٹھانا جو اس زمانے تک انسان کے لئے پوشیدہ تھے۔

۴ ۔مستقبل میں رونما ہو نے والے بعض واقعات کے بارے میں واضح اور دقیق پیشین گوئی (قرآن مجید کی غیبی خبریں)۔

۵ ۔قرآن مجید میں کسی بھی قسم کے اختلاف ،تضاد اور تعارض کا نہ ہو نا ان کے علاوہ بھی اعجاز قرآن کے بہت سے پہلو ہیں۔

مذکورہ پانچ مسائل کے بارے میں بحث بہت طولانی ہے۔لیکن ہم چند اسباق کے ضمن میں اس بحث کے کچھ دلچسپ گوشوں کو تحقیق کے سا تھ بیان کریں گے:

فصاحت وبلاغت

ہم جانتے ہیں کہ ہر کلام کے دو پہلو ہوتے ہیں”الفاظ“ اور ”مفا ہیم“۔

اگر کلام ،کے الفاظ اور کلمات، خوشنما ،شائستہ ،منظم ،منجسم اور ھماھنگ ہوں اور پیچیدگی سے پاک ہوں اور اس کے جملوں کی ساخت معنی ومطلب کو کا مل طور پر دلچسپ اور جذاب صورت میں پیش کرے تو اس کلام کو فصیح و بلیغ کلام کہتے ہیں ۔

قرآن مجید عالی ترین حد تک ان دو خصو صیات کا حامل ہے، اسی لئے آج تک کوئی شخص اس قسم کی آیات اور سورتیں نہیں لاسکا ہے جن میں ایسی کشش ،جذابیت، مٹھاس اور زیبائی پائی جاتی ہو۔

ہم گزشتہ سبق میں پڑھ چکے ہیں کہ مشرکین عرب کا منتخب شخص،”ولید بن مغیرہ“ قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت سن کر مضطرب اور پریشان ہو کر فکر واندیشہ میں غرق ہو گیا ،اس نے ایک مدت تک غور وفکر اور مطالعہ کے بعد قرآن مجید سے مقابلہ کر نے کے لئے قریش کے سرداروں کو حکم دیا کہ قرآن مجید کو ”جادو“اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جادو گر کہیں!

کفار نے پیغمبر اسلام کو متعدد بار ساحر کی نسبت دی ،اگر چہ وہ اس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی مذمت کر نا چاہتے تھے لیکن وہ حقیقت میں آپکی تعریف وتمجید کر رہے تھے،کیونکہ یہ سحر کی نسبت قرآن مجید کے غیر معمولی نفوذ کا اعتراف تھا ،چونکہ عام طور پر اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی تھی اس لئے انھیں اسے ایک مر موز اور نامعلوم جاذبہ کی حیثیت سے قبول کر نے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔

لیکن کفار اس بات کے بجائے کہ حقیقت کو قبول کریں،قرآن مجید کو معجزہ شمار کریںاور ایمان لائیں،اس کے خلاف ایک بات گڑھ کر گمراہ ہو گئے اور اسے جادو قرار دیا۔!

تاریخ اسلام میں ایسے واقعات بہت پائے جاتے ہیں کہ ضدّی،تند خواور جھگڑا لو افراد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جیسے ہی آتے تھے اور آنحضرت سے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت سنتے تھے تو فوراً اپنا عقیدہ بدل دیتے تھے ،کیونکہ قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں اسلام کا نور چمکنے لگتا تھا،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی کشش اور فصاحت و بلاغت یقینا ایک معجزہ ہے۔

ماضی ہی کی بات نہیں ،موجودہ زمانے میں بھی عربی ادبیات کے ماہرین جس قدر قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور اس کی تکرار کرتے ہیں وہ اس سے نہ صرف نہیںتھکتے اور سیر نہیں ہوتے بلکہ زیادہ سے زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں۔

قرآن مجید کی عبارتیں انتہائی دقیق اور منظم ہیں ۔یہ تعبیرات بیان کی پاکیزگی اور سنجیدگی کے علاوہ واضح اور گویا ہیں ۔ضرورت کے وقت محکم اور منہ توڑ جواب دینے والی ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید کے نازل ہو نے کے زمانے میں ادبیات کے لحاظ سے عربی زبان ترقی کے عروج پر پہنچی ہوئی تھی ۔اسی لئے عصر جاہلیت کے عربی اشعار آج بھی عربی ادبیات کے بہترین نمو نے شمار ہوتے ہیں۔

مشہور ہے کہ ہرسال حجاز کے بڑے بڑے ادیب اور شاعر”بازارعکاظ“نامی ایک تجارتی اور ادبی مرکز میں جمع ہو کر اپنے بہترین اشعار کے نمونے پیش کرتے تھے ۔ان میں سے سب سے بہتر شعر کو”سال کے بہترین شعر“کے عنوان سے انتخاب کیا جاتا تھا اور اسے لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا جاتا تھا ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے زمانے میں ”معلقات سبع“کے نام سے اس قسم کے سات نمونے خانہ کعبہ میں موجود تھے۔

لیکن قرآن مجید کے نازل ہو نے کے بعد اس کی فصاحت و بلاغت کے مقابلہ میں یہ اشعار اس قدر پھیکے پڑ گئے کہ نہ صرف انھیں بتدریج وہاں سے ہٹا دیا گیا بلکہ انھیں فراموش بھی کر دیا گیا!

مفسرین قرآن نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق قرآن مجید کی مختلف آیتوں کے عجیب وغریب باریکیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔آپ ان تفا سیر کی طرف رجوع کر کے اس حقیقت سے آگاہ ہو سکتے ہیں ۔

قرآن مجید سے آشنائی اور معرفت حاصل ہو نے پر معلوم ہو گا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ ذیل کلام میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہے:

ظاهره انیق وبا طنه عمیق لاتحصی عجائب ولا تبلی غرائبه ۔“

”قرآن مجید کا ظاہر خوش آئند اور زیبا ہے اور اس کا باطن گہرا اور عمیق ہے۔اس کے عجائب ناقابل شمار اور اس کے غرائب ناقابل زوال ہیں۔“

مکتب قرآن کے سب سے بڑے شاگرد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں فر ماتے ہیں:

”فیہ ربیع القلب وینا بیع العلم وما للقلب جلاء غیرہ“

”قرآن مجید دلوں کے لئے بہار ہے ،اس سے علم و دانش کے چشمے ابلتے ہیں اور انسان کے قلب و روح کو جلا بخشنے والا صیقل اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔“

غور کیجئے و جواب دیجئے

۱ ۔قرآن مجید کے ”حروف مقطعات“کا فلسفہ کیا ہے؟

۲ ۔کیا قرآن مجید صرف ایک اعتبار سے معجزہ ہے یا کئی اعتبار سے معجزہ ہے؟

۳ ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخالفین کیوں ساحر کہتے تھے؟

۴ ۔فصاحت وبلاغت کے در میان کیا فرق ہے؟

۵ ۔”معلقات سبع“کس زمانے سے مربوط ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟

ساتواں سبق: خداشناسی کے بارے میں قرآن مجید کا

طرز بیان

سب سے پہلے ہمیں اس معاشرے اور ماحول کا فکری اور ثقافتی اعتبار سے تجزیہ کر نا چاہئے ،جس میں قرآن مجید ناز ل ہوا ہے۔

تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ،اس زمانے میں سر زمین حجاز دنیا کا پسماندہ ترین خطہ تھا اور عصر جاہلیت کے لوگوں کو وحشی یا نیم وحشی اقوام کے نام سے یاد کیا جاتاتھا۔

عقیدہ کے لحاظ سے وہ لوگ بت پرستی میں غرق تھے۔ان کی تہذیب وتمدن پر مختلف شکلوں میں پتھر اور لکڑی کے بنائے ہوئے بتوں کا منحوس سایہ وسیع پیمانے پر چھایا ہوا تھا،یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کجھور کے بت بناکر ان کے سامنے دوزانو بیٹھ کر پوجا کرتے تھے ،لیکن قحط سالی کے وقت انھیں کھا جاتے تھے !

بیٹیوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انھیں انتہائی بے دردی سے زندہ در گور کر دیتے تھے ،اس کے باوجود فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے !اور خداوند متعال کی ذات کو انسان کی حد تک گرادیتے تھے۔

توحید اور یکتا پرستی پر سخت تعجب کرتے تھے،جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں یکتا پرستی کی دعوت دی تو انہوں نے نہایت تعجب اور حیرانی کی حالت میں کہا:

( اجعل الاٰلهة إلٰهاًوّاحداً إنّ هٰذا لشیء عجاب ) (سورہ/ ۵)

”کیا اس نے سارے خداؤں کو جوڑ کر ایک خدا بنادیا ہے یہ تو انتہائی تعجب خیز بات ہے۔“

جو بھی شخص ان کی خرافات ،ان کے جھوٹے افسانوں اور نظریات کے خلاف زبان کھولتا تھا ،وہ اسے دیوانہ کہتے تھے ۔

ان کے معا شرے پر قبائلی نظام انتہائی شدت سے حکم فر ما تھا اور مختلف قبیلوں کے درمیان اختلا فات کا یہ عالم تھا کہ ان کے در میان جنگ کے شعلے کبھی خاموش نہیں ہو تے تھے ،بار بار روئے زمین پر ایک دوسرے کے خون کی ہولی کھیلتے تھے،قتل و غارت گری ان کا روز مرہ کا معمول بن گیا تھا اور اس پر فخر و مباہات کرتے تھے۔

ان کے اہم ترین مر کزی شہر،مکہ میںچند گنے چنے ہی پڑھے لکھے افراد تھے اور عالم ودانشور تو شاذو نادر ہی پائے جاتے تھے۔

اسی ماحول اور معاشرے میں ایک ایسا شخص اٹھا ،جس نے نہ کسی مدرسہ کا رخ کیا تھا اور نہ کسی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا تھا وہ ایک ایسی کتاب لے آیا جو مفہوم و معنی کے لحاظ سے اس قدر عظیم ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی صاحبان علم ودانش اس کی تفسیر میں مشغول ہیں اور ہر دور میں نئے نئے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں ۔

قرآن مجید کا ئنات اور اس کے نظام کے بارے میں نہایت دقیق حساب شدہ تصویر پیش کر تا ہے ۔تو حید کو اس کی مکمل صورت میں بیان کر تا ہے ۔زمین و آسمان کی پیدائش اور شب وروز ،چاند ،سورج،جمادات ونباتات اور انسان کی تخلیق کے اسرار کو خدائے وحدہ لاشریک کی نشانیوں کی دلیل کے طور پر اپنی مختلف آیات میں مختلف انداز،تعبیرات اور تشبیہات کے ساتھ پیش کر تا ہے۔

کبھی وہ انسان کے وجود کی گہرائیوں میں اتر کر فطری توحید کی بات کر تا ہے:

( فإذا رکبوا فی الفلک دعوا اللّٰه مخلصین له الدّٰین فلمّا نجّٰهم الی البرّ اذا هم یشرکون ) (سورہ عنکبوت/ ۶۵)

”پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو ایمان و عقیدہ کے پورے اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتے ہیں،پھر جب وہ نجات دے کر انھیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو فوراًشرک اختیار کر لیتے ہیں۔“

کبھی عقل وشعور کے ذریعہ استد لال کرتے ہوئے توحید کو ثابت کرتا ہے اور اس وسیع کائنات اور اپنے نفس کے بارے میں غور وفکر کر نے کی دعوت دیتا ہے ۔زمین وآسمان ،حیوانات ،پہاڑوں،سمندروں ،بارش کے برسنے ،باد نسیم کے جھونکوں اور انسان کے جسم و روح کے انتہائی دقیق،منظم اور پیچیدہ تخلیقی اسرار و رموز سے پر دہ اٹھا تا ہے۔

خداوند متعال کی صفات کو بیان کر نے کے لئے انتہائی گہرے اورد لکش طریقے کا انتخاب کرتا ہے ۔ایک جگہ فر ماتا ہے:

( لیس کمثله شیء ) (سورہ شوری/ ۱۱)

”کوئی بھی چیز اس کے مانند نہیں ہے“

دوسری جگہ پر فر ماتا ہے:

( هواللّٰه الّٰذی لا إلٰه إلاّ هو عالم الغیب والشّهادة هو الرّحمٰن الرّحیم هواللّٰه الّذی لا إلٰه إلاّهو الملک القدّوس السّلٰم المؤمن المهیمن العزیز الجبّار المتکبّر سبحٰن اللّٰه عمّا یشرکون هواللّٰه الخالق الباریء المصوّر له الاسماء الحسنیٰ یسبّح له مافی السمٰوات والارض وهو العزیز الحکیم )

( سورہ حشر/ ۲۲ ۔ ۲۴)

”وہ خدا وہ ہے جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ حاضر و غائب سب کا جاننے والا،عظیم اور دائمی رحمتوں کا مالک ہے۔وہ اللہ وہ ہے جس کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ۔وہ بادشاہ، پاکیزہ صفات،بے عیب، امان دینے والا، نگرانی کر نے والا، صاحب عزت ،زبر دست اور کبر یائی کا مالک ہے ۔اللہ ان تمام باتوں سے پاک وپاکیزہ ہے جو مشرکین کیا کرتے ہیں۔وہ ایسا خدا ہے جو پیدا کر نے والا ،ایجاد کر نے والا اور صورتیں بنانے والا ہے ۔اس کے لئے بہترین نام ہیں، زمین و آسمان کا ہرذرہ اسی کے لئے محو تسبیح ہے اور وہ صاحب عزت و حکمت ہے۔“

خداوند متعال کے علم کی توصیف اور اس علم کے لا محدود ہو نے کے بارے میں حسین ترین تعبیر کے ساتھ یوں بیان کر تا ہے:

( ولوانّما فی الارض من شجرة اقلام والبحر یمدّه من بعده سبعة ابحرٍما نفدت کلمٰة اللّٰه ) (سورہ لقمان/ ۲۷)

”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور (سیا ہی کے طور پر)سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الہٰی تمام ہو نے والے نہیں ہیں“

خداوند متعال کے تمام چیزوںپر حاوی ہو نے اور اس کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہو نے کے سلسلہ میں قرآن مجید ایسی اعلیٰ تعبیرات پیش کرتا ہے کہ وہ تعبیرات صرف قرآن مجید سے ہی مخصوص ہیں:

( وللّٰه المشرق والمغرب فاینما تولّوا فثمّ وجه اللّٰه ) (سورہ بقرہ/ ۱۱۵)

”اور اللہ کے لئے مشرق بھی ہے اور مغرب بھی،لہذا تم جس جگہ کی طرف رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے“

( وهو معکم این ماکنتم واللّٰه بما تعملون بصیر ) (سورہ حدید/ ۴)

”اور وہ تمھارے ساتھ ہے تم جہاں بھی رہو اور وہ تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے۔“

جب معاد اور قیامت کی بات کرتا ہے تو مشرکین کے تعجب اور انکار کے مقابلہ میں کہتا ہے:

”(انسان اپنی خلقت کو بھول کر کہتا ہے)ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرسکتا ہے؟“

”آپ کہدیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا اور وہ ہر مخلوق کا بہتر جاننے والا ہے ۔

”اس نے تمھارے لئے ہرے درخت سے آگ پیدا کردی ہے تو تم اس سے ساری آگ روشن کرتے رہو۔(وہ خدا جس نے آگ کے شعلوں کے ساتھ پانی کو بھی وجود بخشا ہے وہی مرنے کے بعد پھر زندہ کرسکتا ہے) کیا جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان کا مثل دوبارہ پیدا کر دے؟یقینا ہے اور وہ بہترین پیدا کر نے والا اور جاننے والا ہے اس کا امر صرف یہ ہے کہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کر لے کہ ہوجا،تو وہ شے ہو جاتی ہے۔“ (سورہ یٓس/ ۷۸ ۔ ۸۲)

جب فوٹو گرافی اور ٹیب ریکارڈ ر کا تصور بھی نہیں تھا،قرآن مجیدنے انسان کے اعمال کے بارے میں اس وقت فر مایا ہے:

( یومئذٍ تحدّث اخبارهبانّ ربّک اوحیٰ لها)

(سورہ زلزل/ ۴ ۔ ۵)

”اس(قیامت کے)دن وہ (زمین)اپنی خبریں بیان کرے گی کہ تمھارے پرور دگار نے اسے اشارہ کیا ہے۔“

اور کبھی قرآن مجید ہاتھ ،پاؤں اور بدن کی جلد کی گواہی کے بارے میں ذکر کرتا ہے:

( الیوم نختم علیٰ افواههم وتکلّمنا ایدیهم وتشهد ارجلهم ) (سورہ یٓس/ ۶۵)

”آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے۔“

( وقالوا لجلودهم شهد تم علینا قالوا انطقنااللّٰه الذی انطق کل شئی ) (سورہ فصلت/ ۲۱)

”اور وہ اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی ؟تو وہ جواب دیں گے ہمیں اسی خدا نے گو یا بنا یا ہے جس نے سب کو گو یائی عطا کی ہے۔“

قرآن مجیدکے معارف کی قدر وقیمت،اس کے مضامین ومفاہیم کی عظمت اور ان کے معار ف کا خرافات سے پاک و منزّہ ہو نا اس وقت واضح ہو تا ہے جب ہم اس کا مقائسہ موجودہ تحریف شدہ توریت و انجیل سے کرتے ہیں ،مثلاًہم دیکھیں کہ آدم کی تخلیق کے بارے میں توریت کیا کہتی ہے اور قرآن مجیدکیا کہتا ہے؟

انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کو توریت کس انداز میں پیش کرتی ہے اور قرآن مجید کا انداز بیان کیا ہے؟

توریت اور انجیل خدا وند متعال کی کیسے توصیف کرتی ہیں اور قرآن مجید کس طرح خدا کی توصیف کرتا ہے؟

اس صورت میں قرآن مجید اور توریت وانجیل کے در میان فرق واضح طور پر معلوم ہو جائے گا۔

(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے ”رہبران بزرگ“نامی فارسی کتاب کا مطا لعہ کریں)

غورکیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔جس معاشرہ میں قرآن مجید نازل ہوا ہے،اس کے ماحول کی خصوصیات بیان کیجئے۔

۲ ۔اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والوں کے افکار پر بت پرستی نے کیا اثرات ڈالے تھے؟

۳ ۔فطری اور استدلالی توحید کے در میان کیا فرق ہے؟

۴ ۔پروردگار عالم کی معرفت اور اس کی صفات کے بارے میں قرآن مجید کے بیان کی روش کیسی ہے ؟مثالوں کے ساتھ واضح کیجئے۔

۵ ۔قرآن مجید کے مطالب و مفاہیم کو بہترین صورت میں کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟

آٹھواں سبق: قرآن مجید اورجدید سائنسی انکشافات

بیشک قرآن مجید علوم طبیعیات یا علم طب ،علم نفسیات اور علم ریاضی کی کتاب نہیں ہے۔

بلکہ قرآن مجید ہدایت اور انسان سازی کی کتاب ہے اور جو کچھ اس سلسلہ میں ضروری ہے وہ اس میں پایا جاتا ہے۔

ہمیں قرآن مجید سے توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ وہ ہمارے لئے مختلف علوم کا دائرة المعارف ہو۔بلکہ ہمیں قرآن مجید سے نور ایمان و ہدایت ،تقویٰ وپرہیز گاری، انسانیت واخلاق اور نظم وضبط کے قوانین کامطالبہ کر نا چاہئے اور قرآن مجید میں یہ سب چیزیں موجود ہیں۔

لیکن قرآن مجیدمذکورہ مقاصد تک پہنچنے کے لئے کبھی علوم طبیعیات کے بعض مسائل اور خلقت کے اسرار اور کائنات کے عجائبات کی طرف بھی کچھ اشارے کرتا ہے۔ بالخصوص توحید کی بحث میں ”برہان نظم“کے تناسب سے خلقت کائنات کے بعض اسرار سے پردہ اٹھاکر ایسے مسائل کو واضح کرتا ہے کہ اس ماحول اور زمانہ کے دانشوروں کے لئے بھی نا معلوم تھے ۔

قرآن مجید کے اس قسم کے بیانات کے مجموعہ کو ہم ”قرآن مجید کے علمی معجزات“ کہتے ہیں ۔

یہاں پر اس قسم کے چند معجزات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

قرآن مجید اور قوت جاذبہ کا قانون

مشہور سائنسدان”نیوٹن“سے پہلے کسی نے قوت جاذبہ کے کلی قانون کا مکمل طور پر انکشاف نہیں کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دن ”نیوٹن“سیب کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔ ایک سیب درخت سے جدا ہو کرزمین پر گر گیا ۔اس چھوٹے اور معمولی واقعہ نے نیوٹن کے ذہن کو اس قدرسوچ میں مبتلا کر دیا کہ وہ برسوں تک اس سلسلہ میں غور وفکرکرتا رہا کہ یہ کون سی طاقت ہے جس نے سیب کو اپنی طرف کھینچ لیا؟ کیوں یہ سیب آسمان کی طرف نہیں گیا ؟بالآخر برسوں کی فکر کے بعد اس نے قانون جاذبہ کا انکشاف کیا کہ”دوجسم اپنے جسموں کی براہ راست نسبت سے اور ان کے در میان فاصلہ کی مجذور معکوس نسبت سے ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں۔“

اس قانون کے انکشا ف سے معلوم ہوا کہ نظام شمسی کہاں پر واقع ہے؟ یہ بڑے بڑے سیارے کیوں اپنے مدار میں سورج کے گرد گھومتے ہیں ؟کیوں یہ فرار کر کے مختلف اطراف کی طرف نہیں چلے جاتے؟ وہ ایک دوسرے پر کیوں نہیں گرتے؟یہ کونسی طاقت ہے جس نے ان سیاروں کو اس لامتناہی فضا میں ایک خاص اور دقیق مدار میں گردش کی حالت میں رکھاہے اور وہ ذرہ برابر بھی اس سے انحراف نہیں کرتے ہیں؟!

جی ہاں!”نیوٹن“نے انکشاف کیا:ایک جسم کا دائرہ کی صورت میں گھومنا اس کے مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنتا ہے اور قانون جاذبہ اسے مرکز کی طرف کھینچتا ہے۔اگر یہ دو قوتیں (دافعہ و جاذبہ)مکمل طور پر تعادل رکھتی ہوں،یعنی ”اجسام“اور ان کے در میان”فاصلے اتنی قوت ”جاذبہ“پیدا کریں کہ قوت”دافعہ“ کی دورانی حرکت کی سرعت اور مرکز سے دور ہو نے کا سبب بنیںتو ”جاذبہ“و ”دافعہ“ کا یہ تعادل انھیںدائمی طور پر اپنے مدار میں رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

لیکن قرآن مجید نے چودہ سوسال پہلے اس حقیقت کو سورئہ رعد کی دوسری آیت میں یوں بیان کیا ہے:

( اللّٰه الّذی رفع السمٰوٰت بغیر عمدٍ ترونها ثمّ استویٰ علی العرش وسخّر الشّمس والقمر کلّ یجری لاجلٍٍ مسمیً یدبّر الامر یفصّل الاٰیٰت لعلکم بلقآء ربّکم تو قنون)

”اللہ ہی وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کردیا ہے ،جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ،اس کے بعد اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا اور آفتاب و ماہتاب کو مسخر بنایا کہ سب ایک معینہ مدت تک چلتے رہیں گے،وہی تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے اور اپنی آیات کو مفصل طور سے بیان کر تا ہے کہ شاید تم لوگ پروردگار کی ملا قات کا یقین پیدا کر لو۔“

اسی آیت کے ذیل میں حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے نقل کی گئی ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے:

الیس اللّٰه یقول بغیر عمد ترونها؟

قلت:بلی،قال:ثم عمد لکن لا ترونها!

(امام نے فر مایا:)کیا خدا نہیں فر ماتا ہے کہ ہم نے نظر نہ آنے والے ستونوں (کے ذریعہ اسے بلند کیا)؟راوی کہتا ہے میں نے امام کے سوال کے جواب میں عرض کی :جی ہاں۔امام(ع) نے فر مایا:لہذا ستون موجود ہیں،لیکن تم انھیں نہیں دیکھ پاتے ہو۔“

کیا ”قوت جاذبہ“کے مفہوم سے عام لوگوں کو آگاہ کر نے کے لئے عربی زبان میں ”عمدٍ لا ترونھا “(غیر مرئی ستون)سے زیادہ واضح اور آسان تعبیر موجود ہے؟!

ایک اور حدیث میں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فر ماتے ہیں:

هذا النجّوم التی فی السماء مدائن مثل المدائن التی فی الارض مر بوطة کل مدینة الی عمود من نور“

”آسمان پر موجودہ یہ ستارے ،زمین پر موجود شہروں کے مانند شہر ہیں۔ ہر شہر دوسرے شہر کے ساتھ (ہر ستارہ دوسرے ستارے کے ساتھ)نور کے ستون کے ذریعہ جڑا ہوا ہے“!

آج کے سائنسدان اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آسمان پر موجود ستاروں میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے ستارے ہیں جن میں زندہ اور عقل وشعور رکھنے والی مخلوقات ساکن ہیںاگر چہ ان کی تفصیلات اور جزئیات ابھی تک انسان کی دسترس میں نہیں ہیں۔

زمین کے اپنے اور سورج کے گرد گھومنے کا انکشاف

مشہور ہے کہ جس شخص نے سب سے پہلے اس بات کا انکشاف کیا کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ،وہ تقریباًچار سو سال پہلے اٹلی میں رہنے والا ،”گلیلیو“نام کا ایک ماہر فلکیات تھا ۔سوسال اس انکشاف سے پہلے دنیا کے دانشور اور ماہرفلکیات،ایک مصری دانشمند ”بطلیموس“کے نظریہ ہیئت پر عمل پیرا تھے کہ وہ کہتا تھا:زمین کائنا ت کا مرکز ہے اور تمام دوسرے سیارے (کرّات)اس کے گرد گھومتے ہیں۔“

البتہ ”گلیلیو“کو اس علمی انکشافات کے جرم میں کلیسا کے حامیوں کی طرف سے حکم کفر دیا گیا۔اس نے اپنے اس نظریہ کے بارے میں بظاہر تو بہ اور اظہار ندا مت کر کے موت سے نجات پائی ۔لیکن آخر کار اس کے بعد والے دانشوروں اور سائنسدانوں نے اس کے نظریہ پر تحقیق جاری رکھی اور آج یہ مسئلہ نہ صرف ایک مسلم علمی حقیقت کے عنوان سے قبول کیا جا چکا ہے ،بلکہ قابل حس تجربوں سے بھی ثابت ہو چکا ہے کہ زمین اپنے گرد گھومتی ہے ۔فضائی پر وازوں کے بعد یہ مسئلہ عینی مشاہدات کے مرحلہ سے بھی گزر چکا ہے۔

مختصر یہ کہ زمین کی مرکزیت کا مسئلہ غلط ثابت ہوا اور معلوم ہو گیا کہ یہ ہماری آنکھوں کا دھوکہ ہے کہ ہم زمین کو ساکن اور تمام ستاروں اور سیاروں کو زمین کے گرد گھومتے محسوس کر رہے ہیں ۔حالانکہ ہم خود حرکت میں ہیں اور ستاروں اور سیاروں کو حرکت میں فرض کرتے ہیں ۔

بہر حال ”بطلیموس“کا نظریہ تقریباً پندرہ سو سال تک علماء اور دانشوروں کے ذہنوں پر چھایا رہا،حتی قرآن مجید کے ظہور کے وقت بھی کوئی اس نظریہ کی مخالفت کر نے کی جرات نہیںکرتاتھا۔

لیکن جب ہم قرآن مجید کی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ سورئہ نمل کی آیت نمبر ۸۸ میں زمین کی گردش پر واضح صورت میں روشنی ڈالی گئی ہے:

( وتری الجبال تحسبها جامدة وهی تمرّمرّ السّٰحاب صنع اللّه الّذی اتقن کلّ شیءٍ انّه خبیر بما تفعلون ) (سورہ نمل/ ۸۸)

”اور تم پہاروں کو دیکھو گے توسمجھو گے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر جامد ہیں حالانکہ یہ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے ۔یہ اس خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو محکم بنایا ہے اور وہ تمھارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔“

مذکورہ آیت واضح الفاظ میں پہاڑوں کی حرکت کا ذکر کرتی ہے جبکہ ہم سب انھیں ساکن تصور کرتے ہیں ۔اور ان کی حر کت کی بادلوں کی حر کت سے تشبیہ دینا اس کی سرعت ،نرمی اور سکوت اور بغیر شور وغل کے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ”زمین کی حرکت“کو پہاڑوں کی حر کت سے تعبیر کر کے اس حقیقت کی عظمت کو آشکار کیا جارہاہے ،کیونکہ یہ مسلم ہے کہ پہاڑ اپنے اطراف کی زمینوں کی حرکت کے بغیر کوئی حرکت نہیں رکھتے بلکہ دراصل ان کی حرکت زمین کی حر کت ہے (اپنے گرد گھومنا یا سورج کے گرد گھومنا یا دونوں حرکتیں )۔

ذرا غور کیجئے : ا یک ایسے زمانے میں جب دنیا کی تمام علمی محافل اور دانشور زمین کے ساکن وثابت ہو نے اور سورج اور تمام سیاروں اور ستاروں کے حرکت میں ہونے کے نظریہ کو باضابط طور پر قبول کر چکے تھے،یہ اعلان کر نا کہ زمین حرکت میں ہے،کیا یہ ایک عظیم علمی معجزہ شمار نہیں کیا جائے گا؟!

اور یہ اعلان بھی ایک ایسے شخص کے توسط سے کہ جس نے نہ صرف کسی سے کوئی سبق نہیں پڑھا تھا بلکہ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزار رہا تھا جو علم و تہذیب سے دور شمار ہو تا تھا ،کیا یہ انکشاف اس آسمانی کتاب کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔؟

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔قرآن مجید کے علمی معجزات سے کیا مراد ہے؟

۲ ۔”قانون جاذبہ“کا سب سے پہلے کس نے انکشاف کیا ہے اور وہ کس زمانہ میں زندگی بسر کر تا تھا؟

۳ ۔قرآن مجید کس آیت میں اور کس تعبیر سے ”قانون جاذبہ“کو بیان کر تا ہے؟

۴ ۔”زمین کے سکون کا نظریہ “کس نے پیش کیا ہے اور یہ نظریہ کتنے سال تک دنیا والوں کے افکار پر چھایا رہا؟

۵ ۔قرآن مجید نے کس آیت میں اور کس تعبیر سے ”زمین کی حرکت“کو بیان کیا ہے؟