نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق0%

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 23883
ڈاؤنلوڈ: 4191

تبصرے:

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 23883 / ڈاؤنلوڈ: 4191
سائز سائز سائز
نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

نو جوانوں کے لئے اصول عقائدکے پچاس سبق

مؤلف:
اردو

نواں سبق: پیغمبر اسلام (ص) کی حقّانیت پر ایک اور دلیل

نبوت کا دعویٰ کر نے والے کسی شخص کی دعوت کی حقانیت معلوم کر نے یا اس کے جھوٹ کا سراغ لگانے کے لئے معجزہ کے مطالبہ کے علاوہ دوسرا ایک طریقہ بھی ہے اور یہ طریقہ مقصد تک پہنچنے کی ایک اور زندہ دلیل ہو سکتا ہے ۔اور وہ طریقہ درج ذیل قرائن کی تحقیق وجمع آوری سے حاصل ہو سکتا ہے:

۱ ۔اخلاقی خصوصیات اور اجتماعی ریکارڈ۔

۲ ۔دعوت کے ماحول پر چھائے ہوئے حالات۔

۳ ۔زمانہ کے حالات۔

۴ ۔دعوت کے مطالب۔

۵ ۔نفاذ واجراء کے اصول وضوابط اور مقصد تک پہنچنے کے وسائل۔

۶ ۔معاشرے پر دعوت کے اثرات کا اندازہ۔

۷ ۔مقصد کے بارے میں داعی کے ایمان وفداکاری کا اندازہ۔

۸ ۔انحرافی تجویزوں اور مشوروں کی موافقت نہ کر نا ۔

۹ ۔عمومی افکار پر تیزی سے اثر انداز ہو نا۔

۱۰ ۔ایمان لانے والے لوگوں کے بارے میں تحقیق کر نا کہ وہ کس قسم کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں؟!

حقیقت میں اگر ہم ہر مدعی کے بارے میں مذکورہ دس مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر اور بحث و تحقیق کریں تو ہم اس کے سچ اور جھوٹ کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔

مندرجہ بالا بیان شدہ مطالب کے پیش نظر ہم مذکورہ دس مسائل کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایک مختصر تحقیق و تجزیہ پیش کریں گے اگر چہ ان کے بارے میں متعدد کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت ہے۔

۱ ۔دوست اور دشمن کی لکھی گئی تاریخوں سے جو کچھ ہمیں پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجتماعی سر گر میوں کے دوران آپ کی اخلاقی خصوصیات کے بارے میں معلوم ہوتا ہے ،وہ یہ ہے کہ آپ اس قدر پاک و پاکیزہ اور ایماندار تھے کہ حتی جاہلیت کے زمانے میں بھی آپ کو ”امین “کا لقب دیا گیا تھا۔تاریخ کہتی ہے:مدینہ کی طرف ہجرت کرتے وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو مامور فر مایا تھا کہ آپ کے مدینہ روانہ ہونے کے بعد لوگوں کی امانتوں کو ان تک پہنچادیں۔

آپ کی شجاعت ،استقامت ،حسن اخلاق،وسعت قلبی ،جوانمردی اور عفو وبخشش جیسی خصوصیات کا مشاہدہ جنگ وصلح کی حالت میں کیا جاسکتاہے بالخصوص فتح مکہ کے موقع پر آپ کی طر ف سے شکست خور دہ خونخوار دشمنوں کے حق میں عام معافی کا اعلان ان خصوصیات کی ایک زندہ مثال ہے۔

۲ ۔سب جانتے ہیں کہ عام لوگ،حتی غیرمعمولی ذہانت کے مالک لوگ بھی،خواہ نخواہ ماحول کے حالات سے متاثر ہو تے ہیں ،البتہ بعض لوگ زیادہ اور بعض کم تر۔

اب ذراغور کیجئے کہ جس شخص نے اپنی زندگی کے چالیس سال جہل و بت پرستی کے ماحول میں گزارے ہوں،ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزاری ہو کہ جس کے لوگوں کی تہذیب وتمدن کے تانے بانے شرک و خرافات کی بنیاد پر مستحکم ہوئے ہوں ،اس کے لئے کیسے ممکن ہے کہ وہ فقط توحید کا دم بھرتے ہوئے شرک کے تمام مظاہر سے مقابلہ کرے؟!

یہ کیسے ممکن ہے کہ جہالت کے ماحول سے علم کے اعلیٰ ترین جلوے نمودار ہو جائیں؟!

کیا یہ قابل یقین ہے کہ ایک ”ماورائے طبیعت“تائید الہٰی کے بغیر ایسا عجیب مظہر وجود میں آئے ؟!

۳ ۔ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہورکس زمانے میں ہوا ہے؟ایک ایسے زمانے میں کہ دنیا قرون وسطیٰ کے دور سے گزر رہی تھی ،وہ مطلق العنانیت ،استبداد،امتیازی سلوک اور قومی و طبقاتی ظلم کا دور تھا۔بہتر ہے ہم اس سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے سنیں ،جو ظہور اسلام سے پہلے اور بعد والے دور کے عینی شاھد تھے،آپ(ع) فر ماتے ہیں:

”خداوندمتعال نے آپ کو ایک ایسے زمانے میں رسالت پر مبعوث فر مایا،جب دنیا کے لوگ حیرت کی وادی میں گمراہ ودربدر تھے،ان کی عقلیں جان لیواہواوہوس کی تابع تھیں ۔غرور و تکبر نے انھیں زوال سے دوچار کر دیا تھا ۔جاہلیت کی تاریکیوں نے انھیں گمراہ کر دیا تھا اور وہ جہل واضطراب کی حالت میں سر گرداں و پریشان تھے۔“ (نہج البلاغہ،خطبہ نمبر ۹۱ )

اب ذرا غور کیجئے کہ جس دن کا لائحہ عمل انسانوں کی مساوات ،قومی اور طبقاتی تعصبات کو ختم کر نا اور”انّما المومنون اخوة“(مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں)ہو،وہ دین اس زمانے کے حالات سے کیا مطابقت رکھتا ہے؟

۴ ۔آپ کی دعوت کا موضوع ،تمام جہات میں توحید،تمام ظالمانہ امتیازات کو ختم کر نا ،عالم انسانیت کا اتحاد ،ظلم وستم سے مقابلہ کر نا،ایک عالم گیر (عادلانہ) حکومت کا منصوبہ ،مستصعفین کا دفاع اور انسانی اقدار کے اہم ترین معیار کے طور پر تقویٰ،پرہیز گاری ،پاکیزگی اور امانت داری کا پر چار تھا ۔

۵ ۔آپ نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کسی صورت میں بھی اس نا معقول نظریہ پر عمل نہیں کیا کہ” مقصد وسیلہ کی توجیہ کرتا ہے “۔کہ آپ اپنے مقدس مقاصد تک پہنچنے کے لئے مقدس وسائل سے استفادہ کرتے تھے۔

آپ دوٹوک الفاظ میں فر ماتے تھے:

( ولا یجرمنّکم شنان قوم علی الّا تعدلوا)

(سورہ مائدہ/ ۸)

”اور خبر دارکسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف ترک کردو“

میدان جنگ میں اخلاقی اصولوں کی رعایت کر نے،غیر فوجیوں (عام انسانوں) کو اذیت و تکلیف نہ دینے ،درختوں اور نخلستانوں کو نابود نہ کرنے،دشمن کے لئے پینے کے پانی کو آلودہ نہ کر نے ،جنگی قیدیوں سے محبت سے پیش آنے اور اس قسم کے دسیوں مسائل کے بارے میں آپ کے احکام اس حقیقت کے واضح ثبوت ہیں۔

۶ ۔اس معاشرے میں آپ کی دعوت کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ اسلام کے دشمن ،لوگوں کے آپ کے قریب آنے سے گھبراتے تھے ،کیونکہ وہ آپ میں غیر معمولی قوت جاذبہ اورآپکے کلام میں نفوذ کا اثر دیکھتے تھے ۔بعض اوقات آپ کی گفتگو کے دوران شور وغل بر پا کرتے تھے تاکہ لوگ آپ کے کلام کو سن کر آپ کے گرویدہ نہ ہو جائیں ،اسی لئے آپ کے معجز نما اثر و رسوخ پر پردہ ڈالنے کے لئے آپ کو ”ساحر“ اور آپ کے کلام کو ”سحر“ سے تعبیر کرتے تھے کہ یہ بذات خودآپ کی دعوت کے غیر معمولی اور عجیب اثر کا اعتراف تھا۔

۷ ۔اپنی دعوت کی راہ میں آپ کی جاں نثاری کے پیش نظر معلوم ہو تا ہے کہ آپاپنے لائے ہوئے دین کے بارے میں دوسروں سے زیادہ مؤمن و پابند تھے۔

بعض جنگوں کے میدانوں میں، جہاں تازہ اسلام لائے ہوئے افراد بھا گ گئے لیکن آپ انتہائی سختی سے دشمن کے مقابلہ میں ڈٹے رہے۔اور جہاں پر دشمن لالچ اوردھمکی،مختصر یہ کہ ہر راہ سے سامنے آتاتھا آپ ان تمام مسائل کی پروا کئے بغیر اپنے عقیدہ پر سختی سے ثابت قدم رہتے تھے اور کمزوری اور شک و شبہہ سے دوچار ہوکر ہرگز آپ کے قدم نہیں ڈگمگاتے تھے۔

۸ ۔ کئی بارکوشش کی گئی کہ آپ کو منحرفین کی سازش کے جال میں پھنسا یا جائے، لیکن آپ کبھی نہ پھنسے، آپ فرماتے تھے: ”اگر سورج کو میرے ایک ہاتھ میںاورچاند کو دوسرے ہاتھ میں دیدیا جائے(یعنی پورے نظام شمس کو میرے قبضہ میں دے دیاجائے تا کہ میں اپنے مقصد سے دست بردار ہوجاؤں) تو بھی میں اپنے مقصد سے دست بردار نہیں ہوں گا۔“

۹ ۔ آپ کی دعوت کا عام لوگوں کے افکار پر اثر نہ صرف عجیب تھا بلکہ اس کی سرعت بھی معجزنما تھی۔ جن لوگوں نے اسلام کے بارے میں مغربی مستشرقین کی لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان تمام مستشرقین نے اسلام کے تیزی کے ساتھ پھیلنے پر تعجب کیاہے مثال کے طور پر ” تاریخ تمدن عرب اور مشرق میں اس کی بنیادیں“ نام کی کتاب لکھنے والے مشہور تین مغربی مصنفین اس حقیقت کا صریحی طور سے اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں:

” اس بات کو جاننے کے لئے اسلام کیسے اس قدر تیزی سے ترقی کرکے ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں اس زمانہ کی متمدن دنیا کے اکثر علاقوں پر چھاگیا؟ اب تک کی گئی تمام کوششوں کے باوجود بھی یہ راز ایک لاینحل معمے کی صورت میں باقی ہے۔“

جی ہاں حقیقت میں یہ ایک معما ہے کہ اس زمانہ کے وسائل کے ساتھ اسلام کس ژرح اتنی تیزی اور سرعت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں نفوذ کرگیا اور بہت سی تہذیبوں اورثقافتوں کو ختم کرکے ایک نئی تہذیب و تمدن کو وجود میں لایا؟

۱۰ ۔ آخر میں ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ آپ کے دشمن کفر و استکبار کے سردار، ظالم اور خود خواہ سرمایہ دار تھے، جبکہ آپ پر ایمان لانے والے اکثر پاک دل جوان حق کے متلاشی ، محروم ، مظلوم اور حتی غلام تھے۔ یہ ایسے افراد تھے جن کا سرمایہ سچائی اور پاک دلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور وہ حق کے پیاسے تھے۔

ان بحثوں کے مجموعہ سے کہ جس کی شرح بہت تفصیلی ہے، ہم آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچتے، ہیں کہ آپ کی دعوت ایک الہی دعوت تھی، ایک ایسی دعوت تھی جس کا سرچشمہ ماورائے طبیعت تھا، یعنی ایک ایسی دعوت جس کو پروردگار عالم نے انسانوں کو برائی، تباہی، جہالت ، شرک، ظلم اور ستم سے نجات دلانے کے لئے بھیجاتھا۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔کیا پیغمبر اسلام کی حقانیت کی پہچان کے لئے معجزہ کے علاوہ بھی کوئی طریقہ موجود ہے؟ وہ کون سا طریقہ ہے؟

۲ ۔” قرائن کی جمع آوری“ سے کس قسم کے قرائن مراد ہیں؟ اور کن امور کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے؟

۳ ۔ کیا اسلام سے پہلے اور اس کے بعد عرب معاشرے کے درمیان موازنہ کرنے سے کوئی نتیجہ اخذ کیا سکتا ہے؟

۴ ۔ عصر جاہلیت میں دنیا بالخصوص عربوں کے بارے میں اگر کچھ جانتے ہیں تو اس کا ایک خلاصہ بیان کیجئے۔

۵ ۔ اسلام کے دشمنوں نے (صلی الله علیه واله والسلم) پر کیوں سحر کی تہمت لگائی؟

دسواں سبق :حضرت محمد (صلی الله علیه واله والسلم) کا خاتم الانبیاء ہونا

خاتمیت کا صحیح مفہوم

حضرت محمد (صلی الله علیه واله والسلم) خداوند متعال کے آخری نبی ہیں اور نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوتاہے۔ یہ ”دین اسلام کی ضروریات“ میں سے ہے۔

”ضروری“ کا معنی ومفہوم یہ ہے کہ جو بھی شخص مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہوجائے، جلدی ہی سمجھ لے گا کہ تمام مسلمان اس مطلب کا عقیدہ رکھتے ہیں اور یہ ان کے نزدیک واضح اور مسلّم ہے۔یعنی جس طرح کوئی شخص مسلمانوں سے سروکار رکھتاہو،تو وہ جانتا ہے کہ مسلمان مذہبی لحاظ ہے”توحید“ کی اصل پر سختی سے قائل ہیں، اسی طرح وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تمام مسلمان حضرت محمد (صلی الله علیه واله والسلم) کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ پر اتفاق رکھتے ہیںا ورمسلمانوں کا کوئی گروہ کسی نئے نبی کے آنے کا منتظر نہیں ہے۔

حقیقت میں انبیاء کی بعثت کے ساتھ قافلہ بشریت نے اپنے تکامل کے مختلف مراحل کو یکے بعد دیگرے طے کیا ہے اور بالآخر انسان رشد وتکامل ایک ایسی منزل پر پہنچ گیاہے، جہاں پر وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ یعنی”اسلام کی جامع تعلیمات“ سے استفادہ کرکے اپنی مشکلات کو حل کرسکتاہے۔

دوسرے الفاظ میں، اسلام کمال بشریت کے دور کا آخری اور جامع قانون ہے۔ عقائد کے لحاظ سے دینی بصیرت کا مکمل نمونہ اور عمل کے حوالے سے بھی ایسا منظم قانون ہے جو ہر زمان و مکان میں انسان کی تمام ضروریات کے مطابق ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہونے کی دلیل

اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے دلائل ہمارے پاس کئی موجود ہیں کہ ان میں سے واضح تر درج ذیل تین دلیلیں ہیں:

۱ ۔ اس مسئلہ کا ضروری ہونا: ہم نے کہا کہ جو بھی شخص دنیا کے مسلمانوں سے جہاں کہیں بھی رابطہ قائم کرے، اسے معلوم ہوگا کہ وہ حضرت محمد کے خاتم الانبیاء ہونے کے قائل ہیں۔ اس لئے اگر کوئی شخص اسلام کو دلیل و منطق کی بنیاد پر قبول کرے، تو اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ حضرت محمد کے آخری نبی ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرے، کیونکہ ہم نے گزشتہ اسباق میںاس دین کی حقانیت کو بہت سی دلیلوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے، لہذٰ حضرت محمد کے خاتم الانبیاء ہونے کے عقیدہ کو بھی قبول کرنا چاہئے، کیونکہ یہ اس دین کی ضروریات میں سے ہے۔

۲ ۔ قرآن مجید کی آیات بھی حضرت محمد کے خاتم الانبیاء ہونے پر واضح اور روشن دلیل ہیں ، جیسے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۴۰ میں ارشادہواہے:

( ما کان محمد ابااحد من رجا لکم ولکن رسول اللّٰه و خاتم النّبیّن)

” محمد تمھارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور سلسلہ انبیاء کے خاتم ہیں“

قرآن مجید نے یہ تعبیر اس وقت پیش کی ہے جب عربوں میں منہ بولابیٹا بنانے کا رواج تھا۔ وہ کسی دوسرے ماں باپ کے بچے کو اپنے بیٹے کے طور پر لے لیتے تھے اور وہ ایک حقیقی فرزند کے عنوان سے اس خاندان میں داخل ہوتاتھا، محرم ہوتاتھا اور وارث بن جاتاتھا۔

لیکن اسلام نے اس جاہلانہ رسم کو ختم کرتے ہوئے فرمایا:” لے پالک بچے ہرگز حقیقی فرزندوں کی طرح شرعی اور حقوقی قوانین مین شریک نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک ”زید“ بھی تھے جن کی پرورش آنحضرت (ع) نے فرمائی تھی، وہ بھی آپ کے فرزند کہے جا تے تھے۔ لہٰذا قرآن مجید فرماتاہے: بجائے اس کے کہ تم لوگ حضرت محمد کو ان لوگوں مین سے کسی کے باپ کے عنوان سے پکارو آنحضرت کو دو اصلی اور حقیقی اوصاف یعنی”رسالت“ و ” خاتمیت“ کے عنوان سے پکارو۔

اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاخاتم الانبیاء ہو نا آپکی رسالت کے مانند سبوں کے لئے واضح،ثابت اور مسلّم تھا۔

صرف یہ سوال باقی ہے کہ”خاتم“کا حقیقی مفہوم کیا ہے؟

”خاتم“”ختم“سے بنا ہے۔اس کا معنی ختم کر نے والا اور وہ چیز ہے جس کے ذریعہ کسی کام کو ختم کیا جائے ۔مثلاًہر خط کے اختتام پر لگائی جانے والی مہرکو ” ختم“ کہتے ہیں ۔انگوٹھی کو بھی اس لئے ”ختم“کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں انگوٹھی کا نگینہ کو مہر کی جگہ پر استعمال کیا جاتاتھا ،ہر ایک اپنے خط کے آخر پر اپنی انگوٹھی کے نگینہ سے مہر لگاتاتھا ،جس پر اس کا نام یاکوئی اور نقش کندہ ہوتاتھا ،ہر ایک کی انگوٹھی کا نقش اس شخص سے مخصوص ہوا کرتاتھا۔

اسلامی روایات میں مذکورہے:جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس زمانہ کے کسی بادشاہ یا حکمراںکو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خظ لکھنا چاہتے تھے ،تو آپ کی خد مت میں عرض کی گئی کہ عجم کے بادشاہ مہر کے بغیر خط کو قبول نہیں کرتے ہیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت تک بالکل سادہ اور مہر کے بغیر خط تحریر فر ماتے تھے ۔اس تجویز کے بعد آپ نے حکم فر مایا کہ آپ کے لئے ایک ایسی انگوٹھی بنائی جائے جس کے نگینہ پر کلمہ ”لا الہ الا الّلہ محمّٰد رسول اللّٰہ “نقش ہو ۔اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے تمام خطوط پر یہ مہر لگائی جاتی تھی۔

اس لئے ”خاتم“کا اصلی معنی ختم کر نے والا آخر تک پہنچانے والا ہے۔

۳ ۔بہت سی ایسی روایتیں بھی پائی جاتی ہیں جن سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہو نا واضح طور پر ثابت ہوتا ہے ۔ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں:

الف:جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی گئی ایک معتبر حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فر مایا :

”انبیاء کے در میان میری مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک خوبصورت عمارت تعمیر کی ہو ،لیکن اس عمارت میں ایک جگہ صرف ایک اینٹ لگانا باقی ہو ،جو بھی اس عمارت میں داخل ہو تا ہے ،اس خالی جگہ پر نظر ڈالتے ہی کہتا ہے:کتنی خوبصورت ہے یہ عمارت لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی ہے ۔میں وہی آخری اینٹ ہوں اور نبوت کا سلسلہ مجھ پر ختم ہو گیا ہے۔“ (تفسیر مجمع البیان )

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فر ماتے ہیں:

”حلال محمد حلال ابداًالیٰ یوم القیامة وحرامه حرام ابداً الیٰ یوم القیامة “

”حلال محمدہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد ہمیشہ ہمیشہ قیامت تک حرام ہے“ (اصول کافی ،ج ۱ ،ص ۵۸)

شیعہ اورسنّی راویوں سے نقل کی گئی ایک مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر فر مایا:

”انت منیّ بمنزلة هارون من موسیٰ الاّ انه ّ لا نبیّ بعدی “

”آپ کی میرے ساتھ وہی نسبت ہے ،جو ہارون کی حضرت موسیٰ سے تھی ،صرف یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔“

اس قسم کی دسیوں احادیث موجود ہیں ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم الانبیاء ہو نے کے سلسلہ میں کچھ سوالات ایسے ہیں جن پر غور کر نا ضروری ہے :

پہلاسوال:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر انبیاء کی بعثت خدا کی طرف سے ایک بڑا فیض ہے،تو ہمارے زمانے کے لوگ کیوں اس عظیم فیض وبر کت سے محروم ہیں ؟اسی زمانہ کے لوگوں کی ہدایت و رہنما ئی کے لئے کیوں ایک نئے راہنما کو نہیں بھیجا جاتا؟

جواب:ایسا کہنے والے حقیقت میں ایک اہم نکتہ سے غافل ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے زمانہ میں کسی نبی کے مبعوث نہ ہو نے کا سبب اس زمانہ کے لوگوں کا بے لیاقت اور نا اہل ہو نا نہیں ہے،بلکہ اس لئے ہے کہ قافلہ بشریت علم و فکر کے لحاظ سے ایک ایسی منزل تک پہنچ گیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے استفادہ کر کے خود آگے بڑھ سکتا ہے۔

اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم یہاں پر ایک مثال پیش کرتے ہیں: اولو العزم نبی،یعنی صاحب شریعت اور صاحب کتاب نبی،پانچ ہیں:”حضرت نوح(ع)، حضرت ابراھیم(ع)،حضرت موسیٰ(ع)،حضرت عیسیٰ(ع)،اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ علیہم السلام“۔ان میں سے ہر ایک نے ایک خاص زمانے میں لوگوں کی ہدایت اور ان کے رشد و تکامل کے لئے انتھک کوششیں کی ہیں اور قافلہ بشریت کو ایک مرحلہ سے گزار کر دوسرے مرحلہ میں ایک دوسرے اولوالعزم پیغمبر کے حوالے کیا ہے۔یہاں تک کہ یہ قافلہ اپنی آخری منزل تک پہنچ کر اس قابل ہو گیا کہ خود اپنے راستے پر آگے بڑھ سکے ۔اس کی مثال اس طالب علم کی ہے جو اپنی تعلیم کے مختلف پانچ مراحل طے کر کے فارغ التحصیل ہو تا ہے:(البتہ فارغ التحصیل ہو نا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس سے مراد اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر سفر کو جاری رکھنا ہے)

تعلیم کے یہ پانچ مراحل حسب ذیل ہیں :

پرائمری ،مڈل،ہائرسیکنڈری، گریجویشن(بی اے اورایم اے) اور ڈاکٹریٹ۔

اگر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کیا ہواایک شخص سکول یا یونیورسٹی نہیں جاتا ہے،تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ وہ اس قدر علم وآگاہی رکھتا ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنی علمی مشکلات کو حل کرسکتا ہے اور اپنے مطالعات کو جاری رکھتے ہوئے ترقی کے مراحل طے کر سکتا ہے۔

دوسراسوال:

چونکہ انسانی معاشرہ ہمیشہ تغیر وتبدّل کی حالت میں ہوتا ہے ،اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے مستقل،ثابت اور یکساں قوانین معاشرے کی ضروریات کا حل پیش کر سکیں؟

جواب:اسلام میں دو قسم کے قوانین ہیں :پہلی قسم ان قوانین پر مشتمل ہے جو انسان کی خاص صفات کے مانند مستقل اور ثابت ہیں ،جیسے:توحید پر اعتقاد،عدالت کے اصول کا نفاذ،اور ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے مقابلہ کرنا وغیرہ۔

ان قوانین کی دوسری قسم کلی اور جامع اصولوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے جو موضوعات میں تبدیلی پیدا ہونے سے نئی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ہر زمانے کی تغیر پذیر ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

مثلاًاسلام میں ”اوفو ابالعقود “ کے عنوان سے ایک کلی قاعدہ ہے۔(یعنی اپنے عہد و پیمان کی وفاداری کرتے ہوئے انھیں پورا کرو)

زمانہ کے گزر نے کے ساتھ یقینا نئے اور مفید تجارتی،سیاسی اور اجتماعی معاہدات و معاملات پیش آتے ہیں۔انسان مذکورہ کلی قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید مسائل کا جواب دے سکتا ہے۔

اسی طرح ایک دوسرا قائدہ بنام”قائدہ لاضرر“ ہے۔اس قائدہ کے مطابق جو بھی حکم اور قانون انسان یا معاشرہ کے لئے مضر ہو اسے محدود ہو نا چاہئے۔

آپ نے ملاحظہ فر مایا کہ اسلام کے یہ کلی قاعدے کس قدر مسائل کو حل کر نے میں کار ساز ہیں ۔اسلام میں اس قسم کے قاعدے کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔ہم انہی کلی قواعد اور اصول سے استفادہ کر کے عظیم اسلامی انقلاب کے بعد (بلکہ ہمیشہ)پیچیدہ ترین مسائل اور مشکلات کو حل کرسکتے ہیں۔

تیسرا سوال:

بیشک ہمیں اسلامی معاشرے میں مختلف مسائل کے سلسلہ میں رہبر کی ضرورت ہے۔پیغمبر کی عدم موجودگی اور ان کے جانشین کی غیبت کے پیش نظر رہبری کا مسئلہ معطّل ہو کر رہ گیا ہے ،اور خاتمیت کے اصول کے پیش نظر کسی دوسرے نبی کے مبعوث ہو نے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے،کیا یہ امر اسلامی معاشرہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہے؟

جواب:اس زمانہ کے لئے بھی اسلام میں ضروری راہ حل کو مدنظر رکھا گیا ہے،یعنی ”ولایت فقیہ“کے ذریعہ اسلامی معا شرے کی رہبری کی ذمہ داری جامع الشرائط اور اعلیٰ سطح پر علم وتقویٰ اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک فقیہ کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ایسے رہبر کی پہچان کا طریقہ بھی اسلامی قوانین میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے ،لہذا اس سلسلہ میں بھی کسی قسم کی پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔

اس بناپر ”ولایت فقیہ“سلسلہ انبیاء واوصیاء ہی کی ایک کڑی ہے۔”جامع الشرائط فقیہ کی رہبری “اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی معاشرہ سر پرست اور رہبر سے محروم نہیں ہے۔

(اس سلسلہ میں مزید تفصیلات کے لئے مصنف کی فارسی کتاب”طرح حکومت اسلامی“کا مطالعہ فر مائیں)۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔خاتمیت کاصحیح مفہوم کیا ہے؟

۲ ۔قرآن مجید کی آیات سے خاتمیت کو کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟

۳ ۔ہمارے زمانہ کے لوگ انبیائے الہٰی کی بعثت سے کیوں محروم ہوں؟

۴ ۔اسلامی قوانین کی کتنی قسمیں ہیں یہ قوانین ہمارے زمانہ کے مسائل کو کیسے حل کر سکتے ہیں ؟

۵ ۔کیا اسلامی معاشرہ رہبر کے بغیر قائم رہ سکتا ہے ؟ہمارے زمانہ میں رہبری کا مسئلہ کیسے حل کیا جاسکتا ہے؟


امامت کے دس سبق

پہلاسبق: امامت کی بحث کب سے شروع ہوئی؟

ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد مسلمان دو گرہوں میں تقسیم ہو گئے:

ایک گروہ کا یہ عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا جانشین مقرر نہیں فر مایا ہے ،اور یہ کام امت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اپنے در میان میں سے کسی ایک کو رہبر کے عنوان سے منتخب کریں ۔اس گروہ کو ”اہل سنت“کہتے ہیں۔

دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین آپکے ہی مانند خطا و گناہ سے معصوم ہو نا چاہئے اور بے پناہ علم کا حامل ہو نا چاہئے تاکہ لوگوں کی معنوی و مادی رہبر ی کی ذمہ داری سنبھال سکے اور اسلام کے اصولوں کی حفاظت کرتے ہو ئے انھیں بقا بخشے۔

ان کا عقیدہ ہے کہ ان شرائط کے حامل جانشین کا انتخاب خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہی ممکن ہے ،اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلی وسلم نے یہ کام انجام دیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جا نشین مقرر فر مایا ہے۔اس گروہ کو ”امامیہ“یا”شیعہ“کہتے ہیں۔

ان مختصر مباحث سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں عقلی،تاریخی اور قرآن وسنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلائل کی روشنی میں بحث و تحقیق کریں۔لیکن اس بحث کو شروع کر نے سے پہلے ہم چند نکات کی طرف اشارہ کر نا ضروری سمجھتے ہیں:

کیا یہ بحث اختلاف پیدا کرنے والی ہے ؟

جب اما مت کی بحث چھڑتی ہے تو بعض لوگ فوراً یہ کہتے ہیں کہ آج کل ان باتوں کا زمانہ نہیں ہے!

آج مسلما نوں کے اتحاد ویکجہتی کا زمانہ ہے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے

جا نشین کا مسئلہ پر گفتگو کر نا اختلاف و افتراق پیدا ہو نے کا سبب بن سکتا ہے!

آج ہمیں اپنے مشترک دشمنوں کے بارے میں سوچنا چاہئے ،جیسے:صہیونزم اور مشرق و مغرب کی استعماری طاقتیں ۔اس لئے ہمیں اس اختلافی مسئلہ کو پس پشت ڈالنا چاہئے ۔لیکن یہ طرز فکر یقینا غلط ہے، کیو نکہ:

۱ ۔جو چیز اختلاف وافتراق کا سبب بن سکتی ہے ،وہ تعصب پر مبنی غیر معقول بحث اور کینہ پرور جھگڑے ہیں ۔لیکن مخلصانہ اور دوستانہ ماحول میں،تعصب ،ہٹ دھرمی اور لڑائی جھگڑوں سے پاک عقلی واستدلال بحثیں نہ صرف اختلاف انگیز نہیں ہیں ،بلکہ باہمی فاصلوں کو کم اور مشترک نقطہ نظر کو تقویت بخشتی ہیں ۔

میں نے اپنے حج و زیارت کے سفروں کے دوران متعدد بار حجاز کے اہل سنت علماء اور دانشوروں سے اس سلسلہ میں بحثیں کی ہیں ۔ہم دونوں فریق محسوس کرتے تھے کہ یہ بحثیں نہ صرف ہمارے تعلقات پر برُا اثر نہیں ڈالتی تھیں بلکہ زیادہ سے زیادہ آپسی افہام وتفہیم اور خوش فہمی کا سبب بھی بنتی تھیں۔یہ بحثیں ہمارے آپسی فاصلوں کو کم کرتی ہیں اور اگر کوئی بغض وعناد ہو تو اسے دلوں سے پاک کر دیتی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ ان بحثوں کے دوران واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے در میان مشترک نقطہ نظر کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ ہم ان مشترک نظریات پر اعتماد اور بھروسہ کر کے اپنے مشترک دشمن کا مقا بلہ کر سکتے ہیں۔

خود اہل سنت بھی چار مذاہب میں تقسیم ہو ئے ہیں (حنفی،حنبلی ،شافعی اور مالکی)ان چار مذاہب کا وجود ان میں اختلاف کا سبب نہیں بنا ہے اگر وہ شیعہ فقہ کو کم از کم پانچویں فقہی مذہب کے عنوان سے قبول کریں گے تو بہت سے اختلا فات اور مشکلات دور ہو جائیں گے،جیسا کہ ماضی قریب میں اہل سنت کے عظیم مفتی اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کے سر براہ”شیخ شلتوت“نے اہل سنت کے در میان فقہ شیعہ کا باضابط طور پر اعلان کر کے ایک بڑا اور مؤثر قدم اٹھایا ۔انہوں نے اس طرح اسلامی افہام و تفہیم کے حق میں ایک بڑی اور مؤثر خد مت کی جس کے نتیجہ میں شیخ شلتوت اور عالم تشیع کے مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی مرحوم بروجردی کے در میان دوستانہ تعلقات برقرار ہو ئے ۔

۲ ۔ہمارااعتقاد ہے کہ دوسرے مذاہب سے زیادہ شیعہ مذہب میں اسلام کی تجلّی واضح صورت میں موجود ہے ۔ہم تمام مذاہب کا احترام کرتے ہوئے عقیدہ رکھتے ہیں کہ مذہب شیعہ اسلام کو تمام جہات میں بہتر صورت میں پہچنوا سکتا ہے اور اسلامی حکومت سے متعلق مسائل کو حل کر سکتا ہے ۔

تو پھر کیوں نہ ہم اپنے بچوں کو دلیل و منطق کے ساتھ اس مکتب کی تعلیم دیں؟!اور اگر ایسا نہ کیا تو یقینا ہم ان کے ساتھ خیانت کریں گے۔

ہمیں یقین ہے کہ پیغمبر اسلام نے قطعاًاپنے جا نشین کو معین فر مایا ہے ،اس میں کیا مشکل ہے کہ عقل ومنطق اور دلیل وبرہا ن سے اس موضوع پر بحث کریں؟

لیکن ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اس بحث کے دوران دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کریں۔

۳ ۔اسلام کے دشمنوں نے ،مسلمانوں کے اتحاد واتفاق کی بنیادوں کو متزلزل کر نے کے لئے سنیوں میں شیعوں کے خلاف اور شیعوں میں سنیوں کے خلاف اس قدر جھوٹ اور تہمتیں پھیلائی ہیں کہ جس کے نتیجہ میں بعض ممالک میں تما م شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں ۔

جب ہم اما مت کے مسئلہ کو مذکورہ ذکر شدہ طریقے سے بیان کریں گے اور شیعوں کے نقطہ نظر کو قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں دلائل سے واضح کریں گے،تو معلوم ہو گا کہ یہ جھوٹا پروپیگنڈا تھا اور ہمارے مشترک دشمنوں نے زہر چھڑ کا ہے ۔

مثال کے طور پر میں یہ کبھی بھول نہیں سکتا کہ ایک سفر کے دوران عربستان کی ایک عظیم دینی شخصیت سے میری ملاقات اور بحث ہوئی ۔اس نے اظہار کیا :”میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا قرآن ہمارے قرآن سے الگ ہے۔“

میں نے انتہائی تعجب کے ساتھ اس سے کہا :میرے بھائی اس بات کی تحقیق کر نا بہت آسان ہے۔

میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ خود یا آپ کا نما ئندہ میرے ساتھ آئے تاکہ ”عمرہ“کے بعد کسی پیشگی اطلاع کے بغیر ایران چلیں وہاں کے تمام کوچہ وبازار میں مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں بڑی تعداد میں قرآن مجید موجود ہیں۔اس کے علاوہ تمام مسلما نوں کے گھروں میں بھی قرآن مجید موجود ہیں ۔آپ جس مسجد میں چاہیں گے ہم چلیں گے یا جس گھر میں چاہیں اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور ان سے قرآن مجید طلب کریں گے تاکہ معلوم ہو جائے کہ آپ کے اور ہمارے قرآن میں ایک لفظ حتیٰ کہ ایک نقطہ کا بھی اختلاف نہیں ہے ۔(بہت سے قرآن مجید ،جن سے ہم استفادہ کرتے ہیں خود عربستان ،مصر اور دنیا کے دوسرے اسلامی ممالک سے شائع ہوئے ہیں)

بیشک اس دوستانہ اور نہایت استدلالی بحث کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں نے اس مشہور عالم دین کے ذہن میں جو عجیب زہر افشانی کر رکھی تھی ،اس کا اثر ختم ہو گیا۔

مقصود یہ ہے کہ اما مت سے مربوط بحثیں ،جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا، اسلامی معاشرے میں اتحاد واتفاق کو مستحکم کرتی ہیں اور حقائق کے واضح ہو نے اور فاصلے کم ہو نے میں مدد کرتی ہیں۔

امامت کیا ہے؟

جیسا کہ عنوان سے ہی واضح ہے کہ ”امام“مسلمانوں کے پیشوا اور قائد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور شیعوں کے اصول عقائد کے اعتبار سے ”امام معصوم“اسے کہا جاتا ہے جو ہر چیز میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جانشین ہو،اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبرمذہب کا بانی ہو تا ہے اور امام مذہب کا محافظ و نگہبان ہوتا ہے ۔پیغمبر پر وحی نازل ہو تی ہے لیکن امام پر وحی نازل نہیں ہو تی ہے۔ امام پیغمبر سے تعلیمات حاصل کرتا ہے او رقدرت کی طرف سے غیر معمولی علم کا حامل ہوتا ہے ۔

شیعہ عقیدہ کے مطابق ”امام معصوم“حکومت اسلامی کا صرف رہبر ہی نہیں ہوتا ہے ،بلکہ وہ معنوی و مادی ،ظاہری و باطنی ،غرض ہر جہت سے اسلامی معاشرے کا رہبر اور قائد ہو تا ہے ،وہ اسلامی عقائد و احکام کا نگہبان اور محافظ ہو تا ہے اور ہر قسم کے خطا وانحراف سے محفوظ ہو تا ہے اور وہ خدا کا منتخب بندہ ہوتا ہے۔

لیکن اہل سنت ،امامت کی اس طرح تفسیر نہیں کرتے ہیں ،بلکہ وہ اسے صرف اسلامی معاشرہ کا سر براہ جا نتے ہیں ،اور دوسرے الفاظ میں وہ ہر عصر وزمانہ کے حکمرانوں کو پیغمبر کا خلیفہ اور مسلمانوں کا امام جانتے ہیں۔

البتہ ہم آئندہ بحثوں میں ثابت کریں گے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایک الہٰی نمایندہ کا ہونا ضروری ہے یعنی پیغمبر یا ایک معصوم امام روئے زمین پر ضرور موجود ہو نا چاہئے تاکہ دین حق کی حفاظت اور طالبان حق کی رہبری کرے ۔اور اگر کبھی یہ امام معصوم کسی مصلحت کے پیش نظر لوگوں کی نظروں سے غائب ہو جائے تو اس کی طرف سے اس کے نمائندے احکام الہٰی کی تبلیغ اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

غور کیجئے اور جواب دیجئے

۱ ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آج کل امامت کی بحث کرنا مناسب نہیں ہے ان کی دلیل کیا ہے۔

۲ ۔اس دلیل کے مقابلے میں اس بحث کی ضرورت کے لئے ہمارے پاس کتنے مستدل جواب ہیں؟

۳ ۔اسلام کے دشمن مسلمانوں کے در میان اختلا فات کو کیسے پھیلاتے ہیں اور ان اختلا فات کو دور کر نے کا طریقہ کیا ہے؟

۴ ۔کیا آپ دشمنوں کی تفرقہ اندازی کے کچھ نمو نے پیش کر سکتے ہیں؟

۵ ۔شیعہ مکتب میں ”امامت“کے کیا معنی ہیں اور اس کا سنی مکتب میں”امامت“ کے معنی سے کیا فرق ہے؟