تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65350
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65350 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

چند نکات

۱ ۔ ایسی حدیث جس میں اعجاز ہے

ایک حدیث میںاذاالسماء انشقت کی تفسیر کے سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا (انها تنشق من المجرة )( ستارے ) کہکشا و ں سے الگ ہوجائیں گے ۔(۱)

یہ حدیث پر معنی اور قابل دِقّت ہے اور علمی معجزات میں شمار ہوتی ہے اور ایسی حقیقت پر سے پر دہ اٹھاتی ہے کہ اس زمانہ کے ماہرین علماء میں سے کوئی اس تک نہیں پہنچتا تھا ۔ وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے ماہرین فلکیات نے اپنے نجوم سے متعلق مشاہدات اور دور بینوں کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ عالم کہکشاں کا مجموعہ ہے اور ہر کہکشاں شمسی نظاموں اور ستا روں کا مجموعہ ہے اسی بناپر انہیں ستاروں کے شہر کانام دیتے ہیں ۔

کہ کہکشاں مشہور شہر کا راستہ ہے جو آنکھ سے نظر آسکتا ہے اور نظام ہائے شمسی اور ستاروں کے عظیم مجموعہ اور دائرہ کی مانند ہے ، اس کی ایک سمت ہم سے اس قدر دور ہے کہ اس کے ستارے ہمیں سفید بادل کی شکل میں نظر آتے ہیں ، لیکن وہ در حقیقت ایک دوسرے سے نزدیک نورانی نقطوں کا مجموعہ ہےں ۔

وہ سمت جو ہم سے نزدیک ہے اس کے ستارے قابل رو یت ہیں یہ وہی ستارے ہیں جو رات کے وقت ہم آسمان پر دیکھتے ہیں اور اس طرح ہمارا نظام شمسی سوائے اس کہکشاں کے اور کچھ نہیں ہے ۔

مندرجہ بالا روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قیامت کے بر پا ہونے کے وقت یہ ستارے جنہیں تم دیکھتے ہوکہکشاں سے جدا ہو جائیں گے اور سب کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا ۔

اس زمانے میں کون جانتا تھا کہ یہ ستارے جنہیں ہم دیکھ رہے ہیں ، واقعی اس کہکشاں کا جز ہیں سوائے اس شخص کے کہ جس کا دل عالم غیب سے مربوط ہو اور علم خدا کے سر چشمہ سے سیراب ہوا ہو۔

____________________

۱- روح المعانی ، جلد ۳۰ ص۸۷ و در المنثور، جلد ۶ ص ۳۲۹

۲ ۔ دنیا رنج و تکلیف اور دکھ درد کا گھر ہے

” کادح“ کی تعبیر مندرجہ بالا آیت میں آئی ہے اور سعی و کوشش کی طرف اشارہ ہے جس میں رنج و زحمت کی آمیزش ہو ، اس طرف توجہ رکھتے ہوئے ، کہ اس کے مخالف تمام انسان ہیں ، اس واقعیت کو پیش کرتی ہے کہ اس جہان کی زندگی کی طبیعت کسی مرحلہ میں بھی مشکلات ، تکالیف اور رنج و مشقت سے خالی نہیں ہے ۔

چاہے یہ مشکلات و تکالیف جسمانی ہوں ، چاہے روحانی اور فکری یا دونوں کسی فرد کو اس سے مفر نہیں ہے ۔ حضرت علی ابن الحسین کی ایک بہت ہی پر معنی حدیث ہے :

(الراحة لم تخلق فی الدنیا ولا لاهل الدنیا ، انما خلقت الراحة فی الجنة و لاهل الجنة و التعب و النصب خلقا فی الدنیا و لاهل الدنیا وما اعطی احد منها جفنة الا اعطی من الحرص مثلیها و من اصاب من الدنیا اکثر کان فیها اشد فقیراً لانه یفتقر الیٰ الناس فی حفظ امواله و تفتقر الیٰ کل اٰلة من اٰلات الدنیا فلیس فی غنی الدنیا الراحة )

راحت و آرام دنیا میں اہل دنیا کے لئے نہیں ہے ، راحت و آسائش صرف جنت میں ہے اور اہل جنت کے لئے ہے ۔ رنج و تعب دنیا میں ہیں اور اہل دنیا کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ اسی وجہ سے جو ایک پیمانہ اس میں سے حاصل کر لیتا ہے تو دگنا لالچ اس کے نصیب میں شامل ہو جاتا ہے اور جس کے پاس مال دنیا کا فی ہے وہ زیادہ فقیر ہے ، کیونکہ وہ اپنے مال کی حفاظت کے سلسلہ میں دوسروں کا محتاج ہے اور زیادہ وسائلِ حفاظت کا محتاج ہے ۔ لہٰذا دنیا کے مال و دولت میں کوئی راحت و آرام نہیں ہے ۔

اس کے بعد امام نے اس حدیث کے ذیل میں فرمایا:(کلا ما تعب اولیاء الله فی الدنیا للدنیا بل تعبوا فی الدنیا للاٰ خرة) اولیاء خدا دنیا میں دنیا کی خاطر رنج و تعب میں نہیں مبتلا ہوتے بلکہ دنیا میں ان کا رنج و تعب آخرت کے لئے ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ خصال صدیق جلد جلد۱، باب الدنیا و الاخرة ککفق المیزان ، حدیث ۹۵۔

آیات ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵

۱۰ ۔( وامّا مَنْ اوتیَ کتابه ورآءَ ظَهره ) ۔

۱۱ ۔( فسوفَ ید عوا ثُبُوراً ) ۔

۱۲ ۔( ویصلیٰ سَعِیراً ) ۔

۱۳ ۔( انّه کان فی اهله مسروراً )

۱۴ ۔( انّه ظنّ اَن لن یحورَ ) ۔

۱۵ ۔( بلیٰ ِانَّ ربَّه کان به بصیراً ) ۔

ترجمہ

۱۰ ۔ اور رہا وہ شخص جس کو اس کانامہ اعمال پیچھے کی طرف سے دیا گیا ۔

۱۱ ۔ تو عنقریب اس کی فریاد بلند ہوگی کہ وائے ہو مجھ پر میں ہلاک ہوگیا ۔

۱۲ ۔ اور وہ جہنم کی آگ کے جلانے والے شعلوں میں جلے گا۔

۱۳ ۔ وہ اپنے گھروں کے درمیان ( کفرو گناہ کے سبب) مسرور تھا ۔

۱۴ ۔ وہ گمان کرتا تھا کہ کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا۔

۱۵ ۔ جی ہاں ! اس کا پروردگار اس کے مقابلہ میں بینا تھا۔

وہ جو شرم و حیاکے باعث اپنانامہ اعمال پشت کی طرف سے لیں گے

اس بحث کے بعد ، جو گذشتہ آیات میں اصحاب الیمین ( وہ مومنین جن کانامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیاجائے گا) کے بارے میں گزرچکی ہے ، ان آیات میں کفار مجرمین اور ان کے نامہ اعمال کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” باقی رہا وہ شخص جس کا نامہ اعمال اس کی پشت کی طرف سے دیا جائے گا“ ( و اما من اوتی کتابہ واء ظھرہ)۔ عنقریب وہ فریاد کرے گا کہ وائے ہو مجھ پر کہ میں ہلا ک ہوگیا ( فسوف یدعوا ثبوراً۔ ” اور آگ کے جلانے والے شعلوں میں جلے گا “ (ویصلیٰ سعیراً)۔

یہ کہ ان کے نامہ اعمال کس طرح ان کے پس پشت سے دیں گے اور کس طرح یہ آیت اور وہ آیات جو کہتی ہیں کہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیں ، ایک جگہ جمع ہوں گی، اس سلسلہ میں مفسرین نے مختلف تفسیریں کی ہیں ۔ بعض نے کہا کہ ان کے دائیں ہاتھ گردن کےساتھ زنجیر سے بندھے ہوں گے اور ان کے نامہ ہائے اعمال بائیں اور پشت کے پیچھے سے ملیں گے جو ذلت و خواری کے سر نیچے رکھنے اور شرمساری کی علامت ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ ان کے دونوں ہا تھ قید یو ں کے طرح پیچھے باندھ دئیے جائیں گے ۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ سورہ نساء کی آیت ۴۷ کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہتی ہے :( من قبلی ان نطمس وجوهاً فنرها علیٰ ادبار ها ) ۔ ” اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو مٹادیں اور پشت کی طرف پھیر دیں “ اس طرح گروہ مجرمین کے منہ عقب کی جانب مڑ جائیں گے اور ضروری ہے کہ وہ اپنے نامہ ہائے اعمال خود پڑھیں ۔ لہٰذاوہ ان کے بائیں ہاتھ میں پشت کی جانب انہیں دیں گے ۔

لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے کہ اصحاب الیمین سر فرازی اور فخر و مباہات کے ساتھ اپنا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں لیئے ہوئے پکار کر کہیں گے( هاو م اقرء الکتابیه ) ” اے اہل محشر آو اور میر انامہ اعمال لے کر پڑھو“ ( حاقہ ۔ ۱۹) ۔ لیکن گناہگاروں کو ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیں گے تو وہ شرمساری اور ذلت سے اپنا ہاتھ پشت کے پیچھے کرلیں گے تاکہ جرم کی سند کم تر دیکھی جائے ۔

لیکن فائدہ کچھ نہیں ہوگا اس لئے کہ وہاں کوئی چیز پوشیدہ رہنے والی نہیں ہے ۔( یدعوا ثبورا ) ، اس کی تعبیر کی طرف اشارہ ہے جو عرب کس خطر ناک حادثہ کے موقعہ پر کرتے ہیں اور فریاد بلند کرتے ہیں( و اثبوا ) ،اے وائے کہ میں ہلاک ہو گیا ۔

توجہ فرمائیں کہ ” ثبور“ ہلاکت کے معنی میں ہے ۔ لیکن یہ آہ نالہ و فریاد کسی کے کان تک نہیں پہنچے گی ۔ اس کے بعد( ویصلیٰ سعیراً ) ہے یعنی وہ جہنم کے جلانے والی آگ میں داخل ہوگا ۔اس کے بعد اس منحوس سر نوشت کی علت کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے :” یہ اس بنا ء پر ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ہمیشہ اپنے ( کفر و گناہ کی وجہ سے ) خوش رہتا تھا( انه کان فی اهله مسروراً ) ، ایسا سرور جس میں غرور کی آمیزش تھی اور ایسا غرور جو غفلت اور خدا سے بے خبری کو اپنے ساتھ لیئے ہوئے تھا ، ایسا غرور جو دنیا کے ساتھ شدید و بستگی اور موت کے بعد والے جہان سے بے پرواہی کی نشانی تھا ۔

واضح رہے کہ ذاتی طور پر سرور و خوش حالی مذموم چیزنہیں ہے بلکہ مومن کو چاہئیے کہ لطفِ خدا سے مسرور ہو اور رہنے سہنے کے انداز میں ہشاش بشاس ہو۔ وہ سرور و خوشی مذموم ہے جو انسان کو یاد خدا سے غافل کردے اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دے ۔

اس لئے بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ”یہ اس بنا پر ہے کہ وہ گمان کرتا تھا کہ کبھی واپس نہیں لوٹے گا اور معاد و قیامت کا کوئی امکان نہیں ہے “( انه ظن ان لن یحور ) ۔ حقیقت میں اس کی بد بختی کا سبب اصلی اس کا اعتقاد فاسد اور گمان باطل تھا ، جس کا دارومدار انکار قیامت پر تھا ۔

یہی اعتقاد اس کے غرور و سرور کا باعث ہوا ، اس نے اس کو خد اسے دور کیا اور خواہشات کا اسیر بنا کر رکھ دیا ، یہاں تک کہ وہ انبیاء کی دعوت فکر کا مذاق اڑاتا اور جب اپنے گھر والوں کے پاس آتا تو اس مذاق سے خوش ہوتا ۔

یہی مفہوم سورہ مطففین کی آیت ۳۱( و اذا انقلبوا الیٰ اهلهم انقلبوا فکهین ) میں بھی آیا ہے ۔ اس طرح قارون اس مغرور دولت مند اور خداسے بے خبر انسان کی داستان میں بیان ہوا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے باخبر افراد اس سے کہتے تھے( لا تفرح ان الله لا یحب الفرحین )

اس قدر متکبرانہ طور پر خوش نہ ہو کیونکہ خدا خوش ہونے والے مغروروں کو دوست نہیں رکھتا ( قصص۔ ۷۶)

” لن یحور“ کبھی واپس نہیں لوٹے گا“۔ ” یحور “۔ ” حور“ ( بروزن غور ) کے مادہ سے تردد اور آمد و رفت کے معنی میں ہے ، خواہ یہ آمد و رفت عمل ہو یا فکر و نظر میں ،اسی لئے پانی کے حوض یا تا لاب میں گردش کرنے کے سلسلہ میں اس لفظ کا اطلاق ہوتا ہے اور محور اس کو کہتے جس کے گرد چرخہ گھومتا ہے ، محاورہ بحث کی آمد و رفت اور ردّ و بدل کے معنی سے ہے اور ” حوار“ بھی انہی معانی میں ہے اور کبھی اس دار کے معنی میں بھی آتاہے جو بحث کے آوزان بلند ہوتی ہے اور تحیر بھی کسی مسئلہ میں فکر کی آمد و رفت کا نتیجہ ہے جس کا لازمہ عمل میں سر گردانی ہے ۔

بعض مفسرین کانظریہ ہے کہ اس لفظ کی اصل حبشی ہے ۔ اور ابن عباس سے نقل ہو اہے کہ میں قرآن کے اس جملے کے معنی نہیں جانتا تھا ، یہاں تک کہ ایک بیابانی عرب سے میں نے سنا کہ وہ اپنی لڑ کی سے کہہ رہا تھا ” حوری “ یعنی واپس آجا ۔(۱)

اسے ” حور “ کے مادہ سے دھونے اور سفید کرنے کے معنی میں سمجھا ہے ، کیونکہ وہ لوگوں کے دلوں کو شرک و گناہ کے زنگ سے پاک و صاف کرتے تھے ، اور جنت کی حورو ں کو اسی لئے یہ نام دیاگیا ہے کہ ان کا رنگ سفید ہے ، یاان کی آنکھوں کی سفیدی بہت زیادہ ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ جنت کی حوروں کے لئے اس لئے بولا جاتا ہے کہ وہ اس قدر خوبصورت ہیں کہ آنکھ انہیں دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے ۔ لیکن بہر حال یہ لفظ زیر بحث آیت میں باز گشت اور معاد کے معنی میں ہے

” جی ہاں ! اس کا پروردگار اس کے بارے میں بینا تھا “( بلی ان ربه کان به بصیراً ) اس کے تمام اعمال کو لکھوایا اور روز حساب کے لئے ایک نامہ اعمال میں انہیں محفوظ کیا۔ اس آیت کی تعبیر گزشتہ آیت ( یا ایھا الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیہ)کی مانند عقیدہ و معاد پر دلیل و حجت شما رہو سکتی ہے ۔

خصوصاً دونوں آیات میں رب یعنی پروردگار کے عنوان پر انحصار ہو اہے ، اس لئے کہ انسان کی سیر ارتقاء یعنی پروردگار تک پہنچنے کا عمل ، موت کے آنے پر منقطع نہیں ہوتا اور دنیا وی زندگی ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ خود مقصودِ تکامل ہو نیز انسان کے اعمال کے بارے میں خدا کا بصیر ہونا اور ان کے اعمال کو تحریر کیاجا نا حسا ب و سزا و جزا کی تمہیدہی بن سکتا ہے ، ورنہ فضول ہے ۔

____________________

۱۔مفردات راغب، تفسیر فخر رازی ، ابو الفتوح اور دوسری کتب ۔

آيات ۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۱۶ ۔( فلآ اقسم باشفق ) ۔

۱۷ ۔( و الّیل وما وسقَ ) ۔

۱۸ ۔( و القمر اذا اتسقَ ) ۔

۱۹ ۔( لترکبنَّ طبقاً عن طبقٍ ) ۔

۲۰ ۔( فما لهم لایومنون ) ۔

۲۱ ۔( و اذا قریٴ علیهم القرآنُ لا یسجدونَ ) ۔

۲۲ ۔( بل الذین کفروا یکذبون ) ۔

۲۳ ۔( و الله اعلم بما یوعونَ ) ۔

۲۴ ۔( فَبَشِّر هُم بِعَذَابٍ الیمٍ ) ۔

۲۵ ۔( اِ لاَّ اٰمنوا و عملوا الصّا لحاتِ لهم اجرٌ غیر ممنونٍ ) ۔

ترجمہ

۱۶ ۔ شفق کی قسم ۔

۱۷ ۔ اور رات کی قسم جسے وہ جمع کرتی ہے ۔

۱۸ ۔ اور قسم ہے چاند کی جبکہ وہ بدر کامل ہوتا ہے ۔

۱۹ ۔ تم سب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتے ہو۔

۲۰ ۔ پس وہ کیوں ایمان نہیں لاتے ؟

۲۱ ۔ اور جب قرآن ان کے سامنے پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے ۔

۲۲ ۔ بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی کی تکفیر کرتے ہیں ۔

۲۳ ۔ خدا اس چیز کو جسے وہ دل میں چھپائے رکھتے ہیں ، اچھی طرح جانتا ہے ۔

۲۴ ۔ پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے ۔

۲۵ ۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دئیے ہیں ، تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا اجر ہے ۔

تم ہمیشہ دگر گوں ہوتے رہتے ہو

اس بحث کے بعد جو گشتہ آیات میں خدا کی طرف سے انسان کی سیر تکامل کے بارے میں آئی تھی ان آیات میں ان مفہوم کی تاکید اور مزید توضیح کے لئے فرمایا ہے :

” قسم شفق کی “( فلا اقسم باشفق ) ۔ اور قسم ہے ان پراکندہ امور کی جنہیں وہ اکھٹا کرتی ہیں( و اللیل وما وسق ) ۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ کامل ہوتا ہے اور چودھویں کے چاند کی صورت اختیار کرلیتا ہے( و القمر اذا اتسق ) ، کہ تم سب ہمیشہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طر ف منتقل ہوتے ہو( لترکبن طبقاً عن طبق ) ۔

فلا اقسم کے جملہ میں لا کا لفظ ، جیساکہ پہلے بھی ہم نے اشارہ کیا ہے ، زائدہ ہے اور تاکید کے لئے ہے ۔ اگر چہ بعض کا خیا ل ہے کہ نفی کے لئے ہو یعنی میں قسم نہیں کھاتا اس بناء پر کہ مفہوم عیاں ہے ۔ قسم کی ضرورت نہیں ہے ، یایہ کہ مطلب اس قدر اہم ہے کہ ان قسموں کی ضرورت نہیں ہے کہ ان کی قسم کھائی جائے ۔ لیکن پہلے معنی ( زائد اور تاکید کے لئے ہونا ) زیادہ مناسب ہےں ۔

” شفق “ مفردات میں راغب کے بقول دن کی روشنی رات کی تاریکی سے آمیختہ ہونا ہے ، اس لئے لفظ اشفاق اس توجہ اور عنایت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس میں خوف کا عنصر پایا جاتاہو۔ مثلا ً اگر کوئی فرد کسی شخص کے لئے محبت کے جذبات رکھتا ہو اور اس کے بارے میں کچھ حوادث سے ڈرتا ہوتو اس حالت کو اشفاق اور ایسے شخص کو مشفق کہتے ہیں ۔

لیکن فخر رازی کا نظر یہ ہے کہ شفق کا لفظ اصل میں رقّت اور نازک ہونے کے معنی میں ہے ۔ رقّت کے معنی پتلا ہونا ہے۔ اسی لئے بہت ہی نازک اور پتلے لباس کو شفق کہتے ہیں اور شفقت کا لفظ رقّتِ قلب کی حالت کے لئے بولا جاتا ہے ( لیکن راغب کا قول زیادہ صحیح نظر آتاہے )۔

بہر حال شفق سے مراد وہی روشنی ہے جو آغاز شب کی تاریکی کی آمیزش رکھتی ہو اور چونکہ ابتدائے شب میں ایک کم رنگ کی سرخی افق مغرب پر پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کی جگہ سفیدی لے لیتی ہے ، جو اس میں اختلاف ہے کہ شفق کا اطلاق اس سرخی پر ہے یا سفیدی پر۔

علماء مفسرین کے درمیان مشہو ر و معروف وہ پہلے معنی ہیں اور اشعار عرب میں بھی اسی پر انحصار کیاگیا ہے اور شفق کو شہیدوں کے خو ن سے تشبیہ دیتے ہیں اور (دماء الشهداء ) کہتے ہیں ۔

لیکن بعض مفسرین نے دوسرے معنی کو منتخب کیا ہے جو بہت ضعیف نظر آتے ہیں ، خصوصاً یہ کہ اگر اس کی لغوی اصل کے معنی ہم رقّت سمجھیں تو پھر اس کم رنگ کی سرخی سے مناسبت رکھتے ہیں جو سورج کی رقیق اور پتلی روشنی اور نور ہے ۔

بہر حال چونکہ شفق کا ظہور دنیا میں ایک گہری تبدیلی اور دگر گونی کی حالت کی خبر دیتا ہے او ر دن کے اختتام اور رات کے آغاز کا اعلان کرتا ہے ، اس کے علاوہ اس میں ایک خاص قسم کا جلدہ زیبائی اور خوبصورتی ہے ، اور ان سب سے قطع نظر نماز مغرب کے وقت کی قسم کھائی ہے تاکہ سب لوگوں کو خبردار اور آمادہ کرے کہ وہ اس خوبصورت آسمانی وجود کے بارے میں غور کریں ۔

باقی رہا رات کی قسم کھانا تو وہ ان بہت سے آثار و اسرار کی بناپر ہے جو اس میں پوشیدہ ہوتے ہیں ۔ اس پر ہم پہلے مفصل گفتگو کر چکے ہیں ۔(۱)

جانوروں ، پرندوں ، یہاں تک کہ انسانوں کے اپنے گھروں ، آشیانوں اور گھونسلوں کی طرف رات کے وقت لوٹنے کی طرف اشارہ ہے جس کا نتیجہ جانوروں کا عمومی آرام و سکون اور آسائش ہے اور یہ رات کے اہم آثار و اسرار میں سے ایک شمار ہوتاہے جیساکہ سورہ مو من کی آیت ۶۱ میں ہم پڑھتے ہیں( الله الذی جعل لکم لتسکنوا فیه ) ، خدا وہ ہے جس نے رات کو تمہارے لیئے خلق کیا ہے تاکہ تم اس میں آرام و سکون حاصل کرو۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ اذا اتسق کی تعبیر اسی مادہ سے ہے اور مختلف وجودوں کے جمع ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں چودھویں رات کے چاند کی روشنی کے کمال کے معنی میں ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ چاند اس حالت میں بہت ہی خوبصورت لگتا ہے اور ہر دیکھنے والی آنکھ کو دل کش نظر آتا ہے ۔

اس کا نور صفحہ زمین کو روشن کرتا ہے ۔ اس کے ہلکے رنگ کی روشنی جو رات کے آرام و سکون کو خراب نہیں کرتی ۔ رات کے مسافروں کو راستہ دکھاتی ہے اس لئے وہ خدا کی عظیم آیات میں سے ایک آیت ہے ۔ اسی بناء پر اس کی قسم کھائی گئی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ چاروں موضوعات جن کی ان آیات میں قسم کھائی گئی ہے( شفق ، رات اور وہ موجودات جنہیں رات جمع کرتی ہے اور چودھویں رات کا چاند )۔

یہ سب ایسے جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ایک ایسے خوبصورت مجموعہ کو تشکیل دیتے ہیں جو انسانی فکر میں تحریک پیدا کرتا ہے تاکہ وہ تخلیق کی عظیم وقت پر غور و فکر کرے اور ان تیز تبدیلیوں سے وقوعِ قیامت اور قدرت خدا کے بارے میں آشنائی حاصل کرے۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ مختلف امور کا یہ حصہ ایسے حالات اور تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہے جو عالمِ آفرینش میں ایک دوسرے کے ساتھ رونما ہوتی ہیں ۔

سورج چہرے پر نقاب ڈالتا ہے تو شفق ظاہر ہوجاتی ہے جو اس کے نور کا بقیہ ہے ۔ انسان، پرندہ ، چرند بڑی تیزی سے اپنے ٹھاکانوں اور آشیانوں کی طرف لوٹتے ہیں اور چاند بدرِ کامل کی شکل میں بلند ہوتا ہے ۔

توجہ فرمائیں کہ چودھویں کا چاند رات کے اسی ابتدائی حصہ میں طلوع ہوتا ہے اور ان قسموں کو ” لترکبن طبقاً عن طبق “کے اس جملے کی تمہید قراردیتاہے جو مختلف ایسے حالات کو بیان کرتا ہے جو انسان اپنی راہ حیات میں یکے بعد دیگرے پیدا کرتا ہے ۔ اس جملے کے لئے مفسرین نے مختلف تعبیریں بیان کی ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے ۔

۱ ۔ مراد وہ گوناگوں حالات ہیں جو انسان ، خدا اور کمال ِ مطلق کی جانب سفر کرنے کے پر مشقت راستے پیدا کرتا ہے ۔ پہلے عالم ِ دنیا ، پھر عالم ِ بر زخ ہے اور پھر قیامت اور اس کے مختلف حالات ہیں ۔ ( توجہ فر مائیں کہ ” طبق“ ” مطابقہ “ کے مادہ سے ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر قرار دینے کے معنی میں ہے اور ان منزلوں کے معنی میں ہے جنہیں انسان اپنی سیر صعودی میں طے کرتا ہے )۔

۲ ۔ مراد وہ حالات ہیں جنہیں انسان کو نطفہ سے لے کر موت تک کے سفر میں سامنا کر نا ہو تا ہے ۔ بعض محققین نے ایسی ۳۷ حالتیں شمار کی ہیں ۔

۳ ۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن میں سے انسان دنیاوی زندگی میں صحت و بیماری ، غم و اندوہ سرور مسرت ،سختی و آرام اور صلح و جنگ کی صورت میں دوچار ہوتا ہے ۔

۴ ۔ مراد وہ مختلف حالات و شدائد ہیں جن سے انسان قیامت میں دوچارہوگا یہاں تک کہ حساب سے فارغ ہو کر ہر شخص اپنے اعمال کے نتیجے میں دوزخ اور جنت کی طرف جائے گا ۔

۵ ۔ مراد وہ حالات ہیں جو گزشتہ قوموں کو پیش آئے یعنی وہی تلخ و شیریں حوادث اور انواع و اقسام کی تردیدیں اور مخالفین کے انکار اس امت میں بھی واقع ہوں گے یہ مضامین ایک اور رویت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئے ہیں ۔

ان تفسیروں کا جمع ہونا بھی معنی نہیں رکھتا ۔ ہوسکتاہے کہ آیت ان تمام تبدیلیوں ، تغیرات اور مراحل کی طرف اشارہ کررہی ہو جنہیں انسان اپنی زندگی میں دیکھتا ہے ۔ بعض مفسرین یہاں مخا طب خود پیغمبر کو سمجھتے ہیں اور آیت کی ان آسمانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جن سے پیغمبر اسلام معراج کی شب گزرے ہیں ۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” لترکبن “ میں جو ” ب“ ہے اور پر پیش ہے اور جمع کے معنی دیتا ہے ، اس لئے یہ تفسیر مناسب ہے ۔ خصوصاً یہ کہ گذشتہ آیات میں بھی مخاطب کل انسان تھے ۔

بہر حال ان حالات کا حدوث اور آدمی کا ایک حالت پر قیام نہ کرنا ایک تو اس کے مخلوق ہونے اور محتاج خالق ہونے کی دلیل ہے ، اس لئے کہ ہر متغیر حادث ہے اور ہر حادث کو خالق کی ضرورت ہے ، دوسرے اس جہان کی ناپائیدار ہونے کی دلیل ہے ۔

تیسرے انسان کی پروردگار عالم کی طرف حرکت ِ مستمر مسئلہ معادو قیامت کی نشانی ہے جیسا کہ گزشتہ آیات میں آیاتھا( یا ایها الانسان انک کادح الیٰ ربک کد حاً فملاقیه )

اس کے بعد گزشتہ مباحث ایک نتیجہ کلی اخذ کرتے ہوئے فرماتا ہے ‘ ” وہ ایمان کیوں نہیں لاتے “( فمالهم لایومنون ) ، اس کے باوجود کے حق کے دلائل واضح و آشکار ہیں ، توحید و خدا شناسی کے بھی اور معاد و قیامت کے بھی ۔ آیات آفاتی بھی جو رات دن کی خلقت اور چاند سورج ، نور و ظلمت ، طلوع و غروب ، آفتاب و شفق ، رات کی روشنی اور رات کی روشنی کے تکامل میں چھپے ہوئے ہیں ۔ اور آیاتِ انفسی بھی ۔ اس لمحے سے لے کر جب انسان کا نطفہ رحم میں قرار پاتا ہے اور یکے بعد دیگرے مختلف مراحل طے کرتا ہے یہاں تک کہ عالم جنین میں اپنے اوج کمال کو پہنچتا ہے ، اس کے بعد ولادت کے لمحے سے لیکر موت تک دوسرے مراحل طے کرتا ہے، تو ان واضح نشانیوں کے باوجود نوع بشر ایمان کیوں نہیں لاتی ۔

اس کے بعد کتاب تکوین سے کتاب حق کی طرف رخ کرتے ہوئے فرماتاہے : ” جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تویہ خضوع اختیار کیوں نہیں کرتے “۔( و اذا قریٴ علیهم القرآن لایسجدون ) ۔

قرآن جو آفتاب کے مانند اپنی دلیل آپ ہے ، نور اعجاز اس کے مختلف پہلوو ں سے عیاں ہے ، پھر اس کے مضامین و مشمولات یہ سب اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اسے وحی کے سر چشمہ سے لیا گیا ہے ۔

قرآن کے بارے میں ہر غیر جانب دار یہ جانتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن کسی انسان کے دماغ کی تخلیق ہو۔ پھر انسان بھی ایسا جس نے کبھی کوئی سبق نہیں پڑھا ہو اور ایک ایسے ماحول میں اس نے زندگی بسر کی ہو جو خرافات و ظلمات سے پر ہو ۔ یہاں سجدہ سے مراد خضوع ، تسلیم اور اطاعت ہے ۔(۲)

اور وہ مشہور سجدہ جس میں پیشانی کو زمین پر رکھتے ہیں ، اس مفہوم کلی کا ایک مصداق ہے ۔ اور شاید اسی بناپر بعض رویات میں آیا ہے کہ پیغمبر نے ان آیات کی تلاوت فرمائی تو سجدہ کیا ۔

البتہ فقہائے اہلبیت کے مشہور فتوے کے مطابق یہ سجدہ قرآ ن کے مستحب سجدوں میں سے ہے اور اہل تسنن کے چاروں مذاہب اس آیت کی تلاوت کے وقت سجدہ کرنا واجب سمجھتے ہیں ، سوائے امام مالک کے جن کا نظریہ ہے کہ سورہ کے ختم ہونے کے بعد سجدہ کرنا چاہئیے ۔(۳)

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : ” بلکہ کفار ہمیشہ آیات الہٰی اور معاد قیامت کی تکذیب کرتے ہیں “( بل الذین کفروا یکذبون ) ۔ یہاں فعل مضارع کا استعمال ، جوعام طور پر استمرار کے لئے ہوتا ہے ، ان معانی کا گواہ ہے کہ وہ اپنی تکذیب پر مصر تھے اور یہ ایسا اصرار تھا جو محض ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے تھا ۔ ان کی تکذیب ایسی نہیں تھی کہ انہیں اس کے لئے دلیلیں نہیں مل سکی تھیں ، بلکہ تعصب ، اندھی تقلید ، مادی منفعتوں کی حفاظت اور شیطانی خواہشات کی تسکین کے لئے تھی ۔

اس کے بعد تہدید آمیز لہجے میں فرماتا ہے :”خدا اسے اچھی طرح جانتا ہے جسے وہ اپنے دل کے اندر پنہاں رکھتے ہیں “( و الله اعلم بما یوعون ) ۔ خدا ان کی نیتوں ، مقاصد اور ایسی ترغیبات سے ، جو مسلسل تکذیبوں کا سبب بنتی ہیں ، باخبر ہے ، وہ چاہے کتنی ہی پردہ پوشی کیوں نہ کریں ، انجام کار انہیں اس کی سزا ملے گی ۔

” یوعون “ ” وعاء “ کے مادہ سے ظرف اور برتن کے معنی میں ہے ، جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کی مشہور عبارت سے نہج البلاغہ میں منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

( ان هٰذه القلوب اوعیة فخیرها اوعاها ) یہ دل ظروف ہیں اور ان میں سے بہترین دل وہی ہے جس کی حفاظت اورظرفیت زیادہ ہو۔

اور بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” پس انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے “( فبشر هم بعذاب الیوم ) بشارت کی تعبیر جو عام طور پر خوشخبری کے لئے استعمال ہوتی ہے ، یہاں ایک قسم کے طعن اور سرزنش کے طور پر ہے ۔

در حقیقت وہ اس طرح مومنین کو جنت کی وسیع نعمتوں کی بشارت دیتا ہے تاکہ تکذیب کرنے والے دوزخی حسرت و اندوہ میں ڈوب جائیں ۔ اس سورہ کی آخری آیت میں ایک استثناء کی شکل میں ایک مرتبہ پھر نیک عمل مومنین کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

” مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور اعمال صالح انجام دئیے ان کے لئے اجر و ثواب ہے ، ایسا اجر جو ثابت شدہ اور منقطع نہ ہونے والااور ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہے “۔

( الاّّ الذین اٰمنوا و عملو ا الصالحات لهم اجر غیر ممنون ) ۔

” ممنون “ ” من “ کے مادہ سے نقصان و انقطاع کے معنی میں آیاہے اور منت کے معنوں میں بھی ہے ۔ ( لفظ منون جوموت کے معنوں میں ہے وہ بھی اسی مادہ سے ہے) اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سب معانی یہاں جمع ہوں ، اس لئے کہ آخرت کی نعمتیں دنیاوی نعمتوں کے بر عکس ، جو ناپائیدار اور نقصان پذیر بھی ہیں اور عام طور پر غیر مطلوب عوارض کی آمیزش رکھتی ہیں ،کسی قسم کی منت ِ نقصان، فنا اور غیر مطلوب عوارض نہیں رکھتیں ۔ وہ جاودانی ہیں ، نقصان ناپذیر ہیں اور ہر قسم کے نامناسب امور اور منت و احسان سے مبراہیں ،یہ استثناء متصل ہے یا منقطع مفسرین کے درمیان اس میں اختلا ف ہے ۔

بعض نے یہ احتمال تجویز کیاہے کہ استثناء منقطع ہے ، یعنی کفار کے حالات کی تشریح جو گزشتہ آیات میں تھی اس کو چھور کر مومنین کی جاودانی اجر کی بات کرتا ہے لیکن زیادہ مناسب یہی ہے کہ استثناء متصل ہو اور مقصد یہ ہو کہ کفار کے سامنے باز گشت کی راہ کھولے اور انہیں یہ یہ بتائیں کے جو لوگ توبہ کرے کے ایمان لے آئیں اور اعمال صالح انجام دیں ، ان سے عذاب دائمی اٹھا لیا جائے گا اور انہیں ایسا اجر دیاجائے گا جو دائمی ہوگا اور جس میں نقصا ن کا کوئی پہلو نہ ہوگا ۔

ایک نکتہ

مرحوم طبرسی مجمع البیان میں اس سورہ کی آخری آیات سے پہلے تو اختیار اور ارادہ کی آزادی کا اصل کی فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے مجبور افراد کے بارے میں ترک سجدہ اور ترکِ ایمان پر ملامت کرنا خدا وند حکیم کے لئے یہ ایک امر قبیح ہے اور وہ جو یہ فرماتا ہے :( فما لهم لا یومنون و اذا قریٴ علیهم القراٰن لا یسجدون ) مسئلہ اختیار پر واضح دلیل ہے ، اور پھر ترک سجدہ پر ملامت کرنا اس امر کا ثبوت ہے کہ کفار جس طرح اصول دین کے مکلف ہیں اسی طرح فروع دین کے بھی مکلف ہیں ۔ ( یہ گفتگو اس صورت میں ہے جب لفظ سجدہ مذکورہ بالا آیت میں نماز والے سجدے کے معنی میں ہو یاکم از وسیع معانی رکھتا ہو جس میں سجدہ نماز بھی شامل ہے )۔

خدا وند !جس دن سب لوگ تیری داد گاہ عدل میں حاضرہوں گے ہم پر حساب آسان کر دیجو ۔

پر وردگار ا ! اس راہ میں جہاں تمام بندے تیری طرف سفر کرتے ہیں صراط مستقیم طے کرنے میں ہماری مدد فرما ۔

بار الہٰا ! ہم تیرے قرآن کریم کے سامنے سرِ تسلیم خم کئے ہوئے ہیں ، ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ تفسیر نمو نہ ۔ جلد ۹، ۱۴۳، سورہ قصص کی آیت ۷۱ تا ۷۳ سے رجوع فرمائیں ۔

”ماوسق“ کی تعبیر۲اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” وسق “ بکھری ہوئی چیزوں کے جمع کرنے کے معنی میں ہے ۳اور مختلف قسم کے

۲۔” ماوسق“ میں ما مو صولہ ہے اور اس کے مصدریہ ہونے کا احتمال ضعیف ہے اور اس کی طرف لوٹنے والی ضمیر بھی محذوف ہے اور تقدیر میں ” وما وسقہ“ ہے ۔

۳۔ ”وسق“ ( بر وزن غضب) اونٹ کے ایک بار یا ساٹھ صاع جس کا ہر صاع تقریباً تین کلو ہے کے معنی میں آیا ہے اور وہ بھی ان سب کے مجتمع ہونے کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ان معانی کے شواہد میں سے گزشتہ اور آئندہ آیات کی شہادت کے علاوہ ایک یہ ہے کہ سجدہ جس کے معنی تلاوت قرآن کے وقت زمین پر پیشانی رکھنا ہے ، سوائے چند آیات کے نہ واجب ہے نہ مستحب، اس لئے یہ جو کہہ رہاہے کہ قرأت قرآن کے وقت وہ سجدہ کیوں نہیں کرتے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سجدے سے مراد سارے قرآن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔

۳۔ روح البیان ، جلد ۱،ص، ۱۳۸۲