تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65336
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65336 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ بروج

یہ سورہ مکے میں نازل ہو ا اس میں ۲۲ آیتیں ہیں

سورہ بروج کے مضامین اور اس کی فضیلت

ابتدائے بعثت کے زمانے میں مومنین ( مکہ میں )بہت سخت رنج و تکلیف اور دباو کی حالت میں تھے اور ہمیشہ دشمنوں کی طرف سے جسمانی اور روحانی اذیتوں میں گرفتار رہتے تھے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ راہ ایمان کو خیر باد کہہ دیں ۔

اس سلسلہ میں ایک گروہ نے صورت حال کا مقابلہ کیا، لیکن بعض کمزور افراد دشمنوں کے مقابلہ میں شکستہ دل ہو کر ایمان سے پلٹ گئے ۔ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ ان مومنین کی پا مردی اور استقامت کا شوق دلایا ہے

اس صورت حال کے حوالے سے پروردگار عالم اس سورہ میں اصحابِ اخدود کے واقعہ کو نقل کرتا ہے : وہی لوگ جنہوں نے خندق کھو دی ، اس میں بہت زیادہ آگ جلائی اور مومنین کو اس آگ میں جلانے کی دھمکی دی اور ایک گروہ کو اس آگ میں جلا یا ، لیکن انہوں نے راہ ایمان کو خیرباد نہیں کہا۔ پھر اس سورے کے دوسرے حصہ میں ان کافروں کو تنبیہ کرتا ہے جنہوں نے مومنین پر دباو ڈا ل رکھا تھا ، اور انہیں جہنم میں جلانے والے عذاب کی خبر دیتا ہے جب کہ جنت کے پر نعمت باغات کی مومنین کو بشارت دیتاہے۔

بعد والے حصہ میں انہیں گزشتہ تاریخ کی طرف لے جاتا ہے اور فرعو ن و ثمود اور دیگر ظالم اقوام کی داستانیں ان کی نگاہوں کے سامنے مجسم کر کے پیش کرتاہے اور بتاتا ہے کہ عذاب الہٰی نے انہیں کس طرح نابود کردیا ، تاکہ کفارِ مکہ جو ان کی نسبت بہت کمزور تھے اپنا اندازہ لگالیں ۔ نیز یہ کہ یہ صورت حال پیغمبر اور مومنین کے دلوں کی تسلی کا سبب بھی ہو۔

اس سورہ کے آخری حصہ میں قرآن مجید کی عظمت اور وحی الہٰی کی سب سے زیادہاہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسی مفہوم پر سورہ کوختم کرتا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ سورہ مومنین کو ظالموں کے مقابلہ میں پا مردی و استقامت اور صبر و شکیبائی کا درس دیتا ہے ۔ اس کی آیتوں کے اندر نصرت الہٰی کا وعد ہ بھی چھپا ہو اہے ، اس سورہ کا جو بروج کا نام رکھاگیا ہے وہ اس لفظ کی وجہ سے ہے جو اس کی پہلی آیت میں آیاہے

ابتدائے بعثت کے زمانے میں مومنین ( مکہ میں )بہت سخت رنج و تکلیف اور دباو کی حالت میں تھے اور ہمیشہ دشمنوں کی طرف سے جسمانی اور روحانی اذیتوں میں گرفتار رہتے تھے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ راہ ایمان کو خیر باد کہہ دیں ۔

اس سلسلہ میں ایک گروہ نے صورت حال کا مقابلہ کیا، لیکن بعض کمزور افراد دشمنوں کے مقابلہ میں شکستہ دل ہو کر ایمان سے پلٹ گئے ۔ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ ان مومنین کی پا مردی اور استقامت کا شوق دلایا ہے

اس صورت حال کے حوالے سے پروردگار عالم اس سورہ میں اصحابِ اخدود کے واقعہ کو نقل کرتا ہے : وہی لوگ جنہوں نے خندق کھو دی ، اس میں بہت زیادہ آگ جلائی اور مومنین کو اس آگ میں جلانے کی دھمکی دی اور ایک گروہ کو اس آگ میں جلا یا ، لیکن انہوں نے راہ ایمان کو خیرباد نہیں کہا۔ پھر اس سورے کے دوسرے حصہ میں ان کافروں کو تنبیہ کرتا ہے جنہوں نے مومنین پر دباو ڈا ل رکھا تھا ، اور انہیں جہنم میں جلانے والے عذاب کی خبر دیتا ہے جب کہ جنت کے پر نعمت باغات کی مومنین کو بشارت دیتاہے۔

بعد والے حصہ میں انہیں گزشتہ تاریخ کی طرف لے جاتا ہے اور فرعو ن و ثمود اور دیگر ظالم اقوام کی داستانیں ان کی نگاہوں کے سامنے مجسم کر کے پیش کرتاہے اور بتاتا ہے کہ عذاب الہٰی نے انہیں کس طرح نابود کردیا ، تاکہ کفارِ مکہ جو ان کی نسبت بہت کمزور تھے اپنا اندازہ لگالیں ۔ نیز یہ کہ یہ صورت حال پیغمبر اور مومنین کے دلوں کی تسلی کا سبب بھی ہو۔

اس سورہ کے آخری حصہ میں قرآن مجید کی عظمت اور وحی الہٰی کی سب سے زیادہاہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اسی مفہوم پر سورہ کوختم کرتا ہے ۔ مجموعی طور پر یہ سورہ مومنین کو ظالموں کے مقابلہ میں پا مردی و استقامت اور صبر و شکیبائی کا درس دیتا ہے ۔ اس کی آیتوں کے اندر نصرت الہٰی کا وعد ہ بھی چھپا ہو اہے ، اس سورہ کا جو بروج کا نام رکھاگیا ہے وہ اس لفظ کی وجہ سے ہے جو اس کی پہلی آیت میں آیاہے

اس سورہ کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث میں ہمیں ملتا ہے کہ :

(من قراء هٰذه السورة اعطاه الله من الاجر بعد د کل من اجتمع فی جمعة و کل من اجتمع فی یوم عرفة عشر حسنات و قرائتها تنجی من المخاوف و الشدائد )

” جو شخص اس سورہ کو پڑھے تو خدا وند عالم اس ان افراد کی تعداد سے جو نماز جمعہ میں جمع ہوتے ہیں اور ان کی تعداد سے جو یوم عرفہ عرفات میں جمع ہوتے ہیں ، دس گناہ حسنات دیتاہے اور اس کی تلاوت انسان کو خوف وہراس اور مصائب سے رہائی بخشتی ہے ۔(۱)

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” شاہد و مشہود “ کی ایک تفسیر روزِ جمعہ اور روز ِ عرفہ ہے ، نیز اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ گزشتہ سورہ مصیبتوں کے مقابلہ میں مومنین کی مقاومت کو بیا ن کرتی ہے ، لہٰذا اس اجر و ثواب کی منا سبت سورہ کے مضامین سے واضح ہوجاتی ہے اور حتمی طور پر یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ تمام اجر و ثواب ان لوگوں کے لئے ہے جو اسے پڑھیں ،اس میں غور و فکر کریں اور پھر اس پر عمل کریں ۔

____________________

۱۔ تفسیر بر ہان ، جلد ۴ ، ص ۴۴۵۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و السّمآء ذات البروج ) ۔

۲ ۔( و الیوم الموعود ) ۔

۳ ۔( وشاهد و مشهود ) ۔

۴ ۔( قتل اصحاب الاخدود ) ۔

۵ ۔( النّٓار ذات الوقود ) ۔

۶ ۔( اذهم علیها قعود ) ۔

۷ ۔( و هم علیٰ مایفعلون َ بالمومنین َ شهود ) ۔

۸ ۔( وما نقموا منهم الاَّ اَن یومنوا بالله العزیز الحمید ) ۔

۹ ۔( الذی له ملک السماوات و الارض و اللهُ علیٰ کل شیءٍ شهیدٌ ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم خدا کے نام سے

۱ ۔ قسم ہے آسمان کی جس کے بہت سے بروج ہیں ۔

۲ ۔ اور قسم ہے اس موعود دن کی ۔

۳ ۔ اور شاہد و مشہود کی ( شاہد سے مراد پیغمبر اور اعمال کے گواہ ہیں اور مشہود سے مراد اعمال ہیں )۔

۴ ۔ موت اور عذاب ہو ایذا دینے والے اصحاب اخدود پر ( آگ کی خندق)۔

۵ ۔ شعلہ اور آگ سے پر خندقیں ۔

۶ ۔ جس وقت وہ اس کے کنارے بیٹھے تھے ۔

۷ ۔ اور جو کچھ وہ مومنین کی نسبت انجا م دیتے تھے ( سر د مہری سے ) اسے دیکھ رہے تھے ۔

۸ ۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں ان ( مومنین ) پر نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ خدا وند عزیز و حمید پر ایمان لائے تھے ۔

۹ ۔ وہی خدا کہ آسمانوں اور زمین کی حکومت جس کے لئے ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے

مومنین انسانوں کو جلانے والی بھٹیوں کے سامنے

ہمیں معلوم ہے کہ مکہ کے مسلمان ابتداء میں سخت فشار اور دباو میں تھے اور دشمن ان کے لئے ہر قسم کی تکلیف کو جائز سمجھتے تھے اور جیساکہ ہم نے سورہ کے مضامین کی تشریح میں کہا ہے اس سورہ کے نزول کا مقصد ان ایذا پہنچا نے والے کفار کو خبر دار کرنا ہے کہ وہ ماضی کی اپنے سے مشابہت رکھنے والی اقوام کے لوگوں کی سر نوشت کو پیش نظر رکھیں ، اور ساتھ ہی یہ سورہ موجودہ مومنین کی تسلی ، دلداری اور تقویت ِ روحانی کا باعث اور تمام مسلمانوں کے لئے ایک درس بھی ہے ۔ پہلے فرماتا ہے :

” قسم ہے آسمان کی جس کے بہت سے بروج ہیں “ ۔( و السماء ذات البروج ) (بروج) ۔(برج) کی جمع ہے جس کے معنی اصل میں قصر او رمحل کے ہیں ۔

بعض مفسرین نے اسے ظاہر و آشکار شے کے معنوں میں لیاہے اور بلند و بالا عمارات کو اس نام سے منسوب کرنے کا سبب ان کے ظاہر ہونے کو قرار دیا ہے ۔ اسی بنا پر شہر کے اطراف کی دیوار کے ایک خاص حصہ کو اور لشکر کے جمع ہونے کی جگہ کو جو نما یاں ہوتی ہے ، برج کانام دیا جاتا ہے اور جب عورت اپنی زینت کا اظہار کرے تو اسے تبرجت المراة کہا جاتا ہے ۔(۱)

۱ ۔ آسمانی برج یاتو آسمان کے درخشاں اور روشن ستاروں کے معنی میں ہے یا آسمانی شکلوں اور صورتوں کے معنی میں ہے ، یعنی ستاروں کا ایسا مجموعہ جو ہماری نظروں کے اعتبار سے موجودات زمین میں سے کسی ایک سے مشابہت رکھتا ہے اور بارہ برج بارہ فلکی شکلیں ہیں ۔ سورج اپنے سالانہ سفر میں سے ہر ماہ ان میں سے ایک بر ج کی حدود میں گزارتا ہے ، البتہ سورج حرکت نہیں کرتا ۔ زمین اس کی گردش کرتی ہے لیکن نظر ایسا آتا ہے کہ سور ج حرکت کررہاہے اور ان فلکی صورتوں میں سے کسی ایک کے سامنے آگیا ہے ۔(۲)

ان معانی میں سے جو بھی ہوں وہ عظیم ہیں اور پھر ان کی عظمت بھی ایسی ہے جو غالباً اس زمانے میں عربوں پرواضح نہیں تھی لیکن موجودہ زمانے میں ہمارے لئے جانی پہچانی ہے ۔ اگر چہ زیادہ یہی نظر آتا ہے کہ مراد وہی آسمانی ستارے ہوں ۔ ایک حدیث میں منقول بھی ہے کہ لوگوں نے پیغمبر اسلام سے اس آیات کی تفسیرپوچھی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد ستارے ہیں ۔(۳)

اس کے بعد دوسری آیت میں ارشاد ہوا : ” اور قسم ہے اس موعود دن کی “( قیامت کا دن جس کا وعدہ کیا گیا ہے ) ۔( و الیوم الموعود ) ۔ وہی دن جس کی تمام انبیاء اور پیغمبروں نے خبر دی ہے اور کئی سو قرآنی آیتیں جس کے ثبوت کے طور پر وہی دن جو اولین و آخرین کی وعدہ گاہ ہے اور وہی دن جس میں سب کے حساب کا فیصلہ ہونا ہے ۔

تیسری اور چوتھی قسم میں فرماتاہے : ” اور قسم ہے شاہد و مشہود کی “( و شاهد و مشهود ) ۔ یہ کہ شاہد و مشہود سے کیا مراد ہے ، اس کی علماء نے بہت سی تفسیریں کی ہیں جو تعداد میں تیس سے زیادہ ہیں جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں :

۱ ۔ شاہد سے مراد پیغمبر اسلام کی ذات گرامی ہے جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے :( یا ایها النبی انا ارسلناک شاهداً و مبشراً و نذیراً ) ” اے پیغمبر ہم نے تجھے شاہد، بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کی حیثیت سے بھیجا ہے “۔ ( احزاب۔ ۴۵) ۔

اور مشہورسے مراد قیامت کا دن ہے جیسا کہ قرآن کہتاہے :( ذالک یوم مجموع له الناس و ذالک یوم مشهود )

قیا مت کا دن وہ دن ہے جس میں تمام لوگ جمع ہوں گے وہ مکمل طور پر ” مشہود“ اور آشکار دن ہے۔ ( ہود ۔ ۱۰۳) ۔

۲ ۔ شاہد سے مرادانسان کے اعمال کے گواہ ہیں ، مثلاً اس کے جسم کے اعضاء جوارح جیسا کہ سورہ نور کی آیت ۲۴ میں ہمیں ملتا ہے( یوم تشهد علیهم السنتهم و ایدیهم و ارجلهم بما کانوا یعملون ) وہ دن جس میں ان کی زبانیں ، ہاتھ اور پاو ں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔ لہٰذا مشہود سے مراد انسان اور اس کے اعمال ہیں ۔

۳ ۔ شاہد کے معنی جمعہ کادن ہے جو نماز جمعہ کے بہت ہی اہم مراسم کے سلسلہ میں مسلمانوں کے اجتماع کا شاہد ہے اور ” مشہود“ عرفہ کا دن ہے کہ بیت اللہ الحرام کے زائرین اس دن کے شاہد و ناظر ہیں ۔

ایک روایت میں پیغمبر اسللام ، اور امام محمد باقر اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ تفسیر منقول ہے ۔(۴)

۴ ۔ شاہد عید قربان کا دن ہے اور ” مشہود “ عرفہ کا دن ہے ( جو عید قربان سے ایک دن پہلے ہے )۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں داخل ہو ا، اس نے کسی کو دیکھا کہ بیٹھاہواہے اور رسول اللہ سے حدیث نقل کررہاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے اس شخص سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو اس نے کہا شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے ، وہ کہتاہے کہ میں وہاں سے ہٹ کر ایک د وسرے شخص کے پا س گیا وہ بھی رسول اللہ سے حدیث نقل کررہا تھا تو میں نے اس آیت کی تفسیر اس سے بھی پوچھی تو اس نے کہا شاہد جمعہ کا دن اور مشہود عید قربان کا دن ہے ۔ اس سے ہٹ کر میں ایک جوان کے پاس گیا جو خوبصور ت تھا اور رسول خدا ہی حدیث نقل کر رہاتھا میں نے کہا اس آیت کی تفسیر کے بارے میں کچھ بتا ، تو اس نے کہا :” شاہد محمد ہیں اور مشہود قیامت کا دن ہے ۔ کیاتو نے سنا نہیں کہ خدا کہتا ہے“ :

( یا ایها النبی ان ارسلناک شاهداً و مبشراً و نذیراً ) اور یہ بھی سنا کہ خدا کیا کہتا ہے :( ذالک الیوم المجموع له الناس و ذالک یوم مشهود )

میں نے سوال کیاکہ پہلا شخص کو ن تھا ، لوگوں نے بتایا ابن عباس ، دوسرے کے متعلق پوچھا تو بتا یا عبد اللہ بن عمر اور تیسرے کے متعلق پوچھا تو بتا یا کہ و ہ حسین بن علی علیہ السلام تھے(۵)

۵ ۔ شاہد سے مراد راتیں اور دن ہیں اور مشہود سے مراد اولادِ آدم جن کے اعمال کی وہ گواہی دیں گے ، جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی صبح و شام کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں (هٰذا یوم حادث جدید و هو علینا شاهد عتیدان احسنّا ودعنا بحمد و اناسأنا فارقتنا بذنب ) یہ نیا دن ہے جو ہمارے اعمال کا شاہد اگر ہم نیکی کریں توحمد و سپاس کے ساتھ ہم کو الودع کہے گا اور اگر برائی کریں تو مذمت کرتا ہوا ہم سے جدا ہوگا۔(۶)

۶ ۔ شاہد سے مراد ملائکہ اور شہود سے مراد قرآن ہے ۔

۷ ۔ شاہد سے مراد حجر الاسود اور مشہود سے مراد حجاجِ حرم ہیں جو اس کے پاس آتے ہیں اور اس پر ہاتھ رکھتے ہیں ۔

۸ ۔ شاہد مخلوق اور مشہود حق تعالیٰ ہے ۔

۹ ۔ شاہد سے مراد امت اسلامی اور مشہود سے مراد دوسری تمام امتیں ہیں جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ میں آیا ہے( لتکونوا شهداء علی الناس ) مقصد یہ ہے کہ تم دوسری امتوں پر گواہ بنو۔

۱۰ ۔ شاہد پیغمبر اسلام اور مشہود باقی تمام انبیاء ہیں ۔ سورہ نساء کی آیت ۴۱ میں گواہی ہے( و جئنا بک علیٰ هٰو لاء شهیداً ) اس دن ہم تجھے دوسرے انبیاء کا گواہ بنا کر لائیں گے ۔

۱۱ ۔ شاہد پیغمبر اور مشہود حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔

البتہ اس آیت کی گزشتہ آیتوں سے مناسبت اس کو قبول کرتی ہے کہ روز قیامت کے شہود اور گواہوں کی طرف اشارہ ہو عام اس سے کہ وہ پیغمبر اسلام ہو یا باقی انبیاء اپنی امتوں کے مقابلہ میں ، یا ملائکہ ہوں یا بدن انسانی کے اعضاو جوارح، یا رات دن ، یا کچھ امور، اور مشہور سے مراد انسان ہوں یا ان کے اعمال ۔

اسی طرح بہت سے تفسیریں ایک دوسرے میں سے مدغم ہو جائیں گی اور ایک مجموعی مفہوم میں ان کا خلاصہ ہو جائے گا ۔ لیکن روز جمعہ ، روز عرفہ اور روز عید جیسی تفسیریں ان معانی سے الگ ہیں ، اگر وہ بھی روز محشر کے مشہود اور انسانوں کے اعمال کے گواہ ہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک ایسا پر ہجوم دن ہے جو اس دنیا میں قیامت کا ایک منظر شمار ہوتا ہے ۔

اس بیان کی طرف توجہ کرتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان تفسروں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے اور ہوسکتاہے کہ شاہد و مشہود کے وسیع مفہوم میں یہ سب شامل ہوں ۔ اور یہ قرآن کی عظمت کی ایک نشانی ہے کہ اس میں اس قسم کے وسیع مفاہیم ہیں جو مختلف اور کافی تفسیروں کے اپنے اندر جگہ دیتے ہیں اس لئے کہ شاہد ہر قسم کے گواہ کو کہتے ہیں اور مشہود ہر اس چیز کو جس کی گواہی دی جائے ۔ پھر یہ دونوں نکرہ کی شکل میں بیان ہوئے ہیں جو اس شاہد اور مشہود کی عظمت کی طرف اشارہ ہے جو اوپر والی تفسیروں میں منعکس ہواہے ۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ایک لطیف و عمدہ تعلق ان چار حصوں کے درمیان اور اس مطلب کے درمیان ، جس کی قسم کھائی گئی ہے ، موجود ہے ، آسمان ، درخشاں ستارے اور اس کے موزوں برج سب کے سب نظم و حساب کی نشانی ہیں اور یومِ موعود حساب وکتاب کا واضح منظر ہے ، شاہد و مشہود بھی اسی حساب کی نکتہ رسی کا ذریعہ ہیں ۔

پھر یہ تمام قسمیں اس لئے ہیں کہ ایذا پہنچانے والے ظالموں کو خبر دار کرے کہ سچے مومنین کے ساتھ کئے جانے والے ان کے تمام مظالم ثبت و ضبط ہیں اور یوم موعود کے لئے انہیں محفوظ کیاگیا ہے اور وہ مشہود جنہوں نے تمہارے جسم کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ، عام اس سے کہ وہ فرشتے ہوں یا تمہارے جسم کے اعضاء و جوارح یا رات و دن یاا سی قسم کی اشیاء وہ سب ان کاموں کو نظر میں رکھے ہوئے ہیں اور قیامت میں گواہی دیں گے ۔ ۷

اس لئے اس قسموں کے بعد فرماتا ہے :” موت اور عذاب تشدد کرنے والوں پریوں “( قتل اصحاب الاخدود ) ۔” وہی خندقین جو آگ اور لکڑیوں سے پر تھیں جن میں سے بڑے بڑے شعلے نکل رہے تھے “( النار ذات الوقود ) ۔ ” جس وقت وہ اس آگ کی خندق کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ( سرد مہری سے )( اذهم علیها قعود ) ۔” اور جو کچھ مومنین کے بارے میں انجام دے رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے “۔( وهم علیٰ ما یفعلون بالمومنین شهود ) ۔

” اخدود “ مفردات میں راغب کے بقول زمینِ وسیع و عمیق اور کھلے ہوئے شگاف کے معنی میں ہے دوسرے لفظوں میں بڑی بڑی خندقوں اور گڑہوں کو کہتے ہیں ۔ اس کی جمع ”اخاوید “ہے اور اصل انسان کے خد سے لی گئی ہے جو انسان کی ناک کے دونوں طرف دائیں او ر بائیں دو دھنسی ہو ئی جگہوں کے معنی میں ہے ۔ ( رخسار) اور گریہ کرتے وقت اس پر آنسوں جاری ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد بطور کنایہ اس گڑھے پر اس کا اطلاق ہوا ہے جو زمین پر ظاہر ہو ( پھر ایک حقیقی معنی کی شکل اختیار کر گیا ہے) یہ کہ یہ اذیت دینے والا گروہ کون تھا اور کس زمانہ میں تھا ، مفسرین اور ارباب ِ تاریخ اس سلسلہ میں مختلف نظر یات کے حامل ہیں ، جن کی تشریح انشاء اللہ آیات کے ذیل میں نکات کی بحث میں آئے گی ۔

لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ انہوں نے آگ کی بہت بڑی بڑی خندقیں بنا رکھیں تھیں ۔

وہ مومنین کو مجبور کرتے تھے کہ اپنے ایمان سے دستبردار ہو جائیں ۔ مومنین جس وقت اس کے مقابلہ میں کھڑے ہوتے تھے تو وہ انھیں جلانے والی ان بھٹیوں میں ڈال کر آگ لگادیتے تھے۔

’ ’ وقود“ اصل میں ان مادوں کے معنی میں ہے جس سے وہ آگ لگاتے تھے ،( لکڑیاں و غیرہ) اور ذات الوقود کی تعبیر اگرچہ ایندھن کی محتاج نہیں ہوتی ہے لیکن یہاں اس سے آگ بھڑ کانے والے مواد کی کثرت کی طرف اشارہ ہے ، جسے وہ استعمال کرتے تھے اور جس کی آگ طبعی طور پر بہت زیادہ اور طبیعی ہوتی تھی ۔

یہی وہ وجہ ہے کہ جسے بعض مفسرین نے سمجھا ہے کہ وقود کے دو معنی ہیں ، ایک ایندھن اور دوسرے شعلہ ، اور انہوں نے افسوس کیا ہے کہ مفسرین و مترجمین نے اس نکتہ کی طرف توجہ کیوں نہیں کی۔

اس آیت( اذهم علیها قعود ) اور اس کے بعد کی دوسری آیت سے مراد یہ ہے کہ ایک گروہ انتہائی سرد مہری سے بیٹھا ہو اتھا اور اس تشدد کو دیکھ رہا تھا اور لذت حاصل کررہا تھا ، جو خود ان کی انتہائی قساوت اور سخت دل ہونے کی نشانی ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ گروہ مذہب حق سے مومنین کو رو گرداں کرنے پر مامور تھا ۔ بعض نے انہیں دو گروہوں پرمشتمل سمجھا ہے ، ایک اذیت دینے والا اور دوسرا تماشہ دیکھنے والا ۔ اور چونکہ دیکھنے والے تشدد کرنے والوں کے اعمال سے راضی تھے لہٰذا اس فعل کی ان سب کی طرف نسبت دی گئی ہے اوریہ فطری، بات ہے کہ اس قسم کے کام میں ایک گروہ ہمیشہ کام کرنے والا ہوتا ہے اور ایک دیکھنے والا ۔

علاوہ از ایں ان کے سرغنے عام طور پر حکم دیتے ہیں اور کارندے نچلے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک گروہ بیٹھا ہوا تھا اور تشدد کے عمّال کی نگرانی کررہا تھا کہ وہ متعلقہ کام سے کسی قسم کی رو گردانی نہ کریں اور باد شاہ کے سامنے گواہی دیں کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح نبھا یا ہے ۔ اس گروہ کی تشکیل ان مختلف گروہوں سے بھی بعید نظر نہیں آتی ۔ لہٰذا ان تمام تفسیروں کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔

بہر حال یفعلون کا جملہ فعل مضارع کی شکل میں اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل ایک مدت استمرار رکھتا تھا اور کوئی یک لخت ہونے والا حادثہ نہیں تھا ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے : ” وہ تشدد کرنے والے ان مومنین پر سوائے اس کے اور کوئی اعتراض نہیں رکھتے تھے کہ وہ خدا وند ِ عزیزو حکیم پر ایمان لائے ہوئے تھے “( وما نقموا منهم االاَّ ان یو منوا بالله العزیز الحمید ) ۔

جی ہاں ! ان کاجرم اور گناہ صرف خدائے واحد و یگانہ و یکتا پر ایمان تھا ۔ خدا وند قادر جو ہر قسم کی ستائش کے لائق اور ہر قسم کے کمال کا جامع ہے ، تو کیا اس قسم کے خدا پر ایمان لانا جرم و گناہ ہے یا ہر قسم کے شعور و شائستگی سے محروم بتوں پر ایمان رکھنا کوئی گناہ یا جرم ہے ؟

” نقموا“ ” نقم “ ( بروزن قلم ) کے مادہ سے کسی چیز کا انکار کرنے یا اسے عیب لگانے کے معنی میں ہے ۔ زبانی طور پر عیب لگانا یا کسی عملی طور پر سزا دینا ، یہ دونوں پہلو اس کے معنی میں داخل ہیں ۔ اسی مادہ سے انتقام ہے

یہ بات طے شدہ ہے کہ اس قسم کا کام ایک بڑے اور واضح گناہ کے مقابلہ میں سر انجام پاتا ہے ، نہ کہ پروردگار عالم پر ایمان لانے کے سلسلہ میں ۔

اس قسم کے اقدام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ قوم جو یہ کام کررہی تھی اس کا تمدن نہایت پست اور بگڑا ہوا تھا ، جبھی تو ان کے نزدیک افتخار واعزاز والا کام عظیم ترین جرم و گناہ تھا ۔

بہر حال یہ چیز سورہ مائدہ کی آیت ۵۹ میں آئی ہے کہ جادو گروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے اور فرعون کی طرف سے تشدد اور قتل کی دھمکی کے بعد اس سے کہا کہ( هل تنقمون منّا الا ان امنا با لله ) تو ہم سے صرف اس وجہ سے انتقام لے رہاہے کہ ہم اپنے پر وردگار پر ایمان لے آئے ہیں ۔

” عزیز“ طاقتور اور شکست نہ کھانے والے اور” حمید“ہر قسم کی تعریف اور توصیف کے قابل اور ہر قسم کے کمال کے حامل کی تعبیر حقیقت میں ان کے جرائم کا جواب ہے اور ان کے برخلاف ایک دلیل ہے یعنی کیا اس قسم کے خدا پر ایمان لانا جرم و گناہ ہے ۔

ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہے کہ یہ بات تشدد کرنے والے کے لئے پورے دورِ تاریخ میں ایک قسم کی تہدید و تنبیہ بھی ہے کہ خدا وند عزیز و حمید ان کی کمین گاہ میں ہے ۔ اس کے بعد وہ عظیم معبود اپنے دو اور اوصاف کو بیان کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” وہی خدا کہ آسمان اور زمین کی حکومت جس کے لئے ہے اور جو ہر چیز کا گواہ ہے اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہے( الذی له ملک السماوات و الارض و الله علی کل شیء شهید ) ۔

حقیقت میں یہ چار اوصاف ایسے ہیں جو عبودیت کی قابلیت کومسلم کردیتے ہیں کہ خدا وہ ہے جو قادر و تواناہے ، ہر قسم کے کمال کا حامل ہے وہ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے اور ہر چیز سے آگاہ ہے ، یہ چیز مومنین کے لئے بشارت بھی ہے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اور ایمان کی حفاظت کے سلسلہ میں وہ ان کے صبر و استقامت کو دیکھتا ہے اور ان کے ایثار و قربانی اور فدا کاری کا اسے علم ہے ۔

ایسی صورت حال ان کو قوت توانائی اور احساس نشاط عطا کرتی ہے دوسرے یہ ان کے دشمنوں کے لئے تہدید اور دھمکی ہے کہ اگر خدا ان کے کام میں مانع نہیں ہوتا تو یہ ا س کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ آزمائش اور امتحان کی وجہ سے ہے اور انجام کار یہ ظالم اپنے گناہ کے نتیجہ میں درد ناک عذاب کا تلخ مزہ چکھیں گے۔

_______________________________

۱۔ بعض محققین کا نظریہ ہے کہ یہ لفظ فارسی لفظ ”بزر“ سے لیا گیاہے جو بلندی ، بزرگی اور شکوہ کے معنی رکھتا ہے ، برہان قاطع اور اس کے حاشیہ کی طرف رجوع کیا جائے۔

۲یہ بارہ صورتیں عبارت ہیں حمل ، ثور، جوزا، سرطان ، اسد، میزان، ، عقرب، قوس، دلو اور حوت سے جو اسی ترتیب سے گوسفند ، بیل ، دو بچے جو اخروٹ کھیل رہے ہیں ، کیکڑا، شیر، خوشہ ، ترازو، بچھو، کمان ، بکری، ڈول اور مچھلی کی شکلیں ہیں ۔

۳۔ در المنثور جلد۶، ص۳۳۱۔

۴۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ص ۴۶۶۔

۵۔ نور الثقلین ، جلد۵، ص۵۴۳۔ یہی مضمون ابو الفتوح رازی اور طبرسی نے بھی اپنی تفسیروں میں نقل کیاہے

۶۔ صحیفہ سجادیہ ، دعائے ششم ۔

۷۔ اس بناپر جواب قسم یہاں محذوف ہے اورقتل اصحاب الاخدود کا جملہ یاان الذین فتنوا المومنین و المومنات اس پر دلالت کرتے ہیں اور تقدیر میں اس طرح ہے ۔اقسم بهٰذا الامور ان الذین فتنوا المومنین و المو نات معذبین ملعونون کمالعن اصحاب الاخدود ۔ میں ان امور کی قسم کھاتا ہوں جن لوگوں نے مومنین مرد و عورت کو مصیبت میں ڈالا وہ ملعون و معذب ہیں ، جس طرح خندق والے معذب تھے۔

۱ ۔ اصحابِ اخدود کون لوگ تھے ؟

۱ ۔ ہم بتا چکے ہیں کہ اخدود عظیم گڑھے اور خندق کے معنی میں ہے اور یہاں بڑی بڑی خندقین مراد ہیں جو آگ سے پر تھیں تاکہ تشدد کرنے والے اس میں مومنین کو پھینک کر جلائیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ واقعہ کس قوم سے متعلق ہے اور کس وقت معرض وجود میں آیا اور کیا یہ ایک خاص معین و مقرر واقعہ تھا ، یا دنیا کے مختلف علاقوں کے اسی قسم کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ ہے ۔

مفسرین ومورخین کے درمیان اس موضوع پر اختلاف ہے ، سب سے زیادہ مشہور یہ کہ یہ واقعہ سر زمین یمن کے قبیلہ حمیر ۱ کے ذونواس نامی باشاہ کے دَور کاہے ۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ ذونواس ، جو حمیر نامی

قبیلہ سے متعلق تھا ، یہودی ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کا پورا قبیلہ بھی یہودی ہوگیا ۔ اس نے اپنا نام یوسف رکھا۔ ایک عرصہ تک یہی صورت حال رہی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ کسی نے اسے خبردی کہ سر زمین نجران ( یمن کا شمالی حصہ ) میں ابھی تک ایک گروہ نصرانی مذہب پر قائم ہے ۔ ذونواس کے ہم مسلک لوگوں نے اسے اس بات پر ابھارا کہ اہل نجران کو دینِ یہود کے قبول کرنے پر مجبور کرے ۔

وہ نجران کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے وہاں کے رہنے والوں کو اکٹھا کیا اور دین یہود ان کے سامنے پیش کیا اور ان سے اصرار کیا کہ وہ اس دین کو قبول کریں ۔ لیکن انہوں نے انکار کیا اور شہادت قبول کرنے پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے اپنے دین کو خیرباد نہ کہا۔ ذونواس کے حکم پر اس کے حامیوں نے بہت بڑی خندق کھودی اس میں لکڑیاں ڈالیں اور آگ لگادی ۔ ذونواس اور اس کے ساتھیوں نے ایک گروہ کو پکڑ کر اس آگ میں زندہ جلایا اور ایک گروہ کو تلوار کے گھاٹ اتارا اس طرح آگ میں جلنے والوں اور مقتولین کی تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی۔(۲)

بعض مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس سلسلہ دار و گیر سے بچ کر نصاریٰ بنی نجران کا ایک آدمی قیصر روم کے در بار میں جاپہنچا ۔ اس نے وہاں ذونواس کی شکایت کی اور اس سے مدد طلب کی ۔ قیصر نے کہا تمہاری سر زمین مجھ سے دور ہے ۔ باد شاہ حبشہ کو خط لکھتا ہوں جو عیسائی اور تمہارا ہمسایہ ہے میں اس سے کہتاہوں کہ وہ تمہاری مدد کرے ۔

پھر اس نے خط لکھااور حبشہ کے بادشاہ سے نصاریٰ نجران کے عیسائیوں کے خون کا انتقام لینے کی خواہش کی ۔

وہ نجرانی شخص بادشاہ حبشہ نجاشی کے پاس گیا ، نجاشی اس سے یہ تمام ماجرا سن کر بہت متاثر ہوا اور سر زمین نجران میں شعلہ دین مسیح کے خاموش ہوجانے کا اسے بہت افسوس ہو ا۔ اس نے ذونواس سے شہیدوں کے خون کا بدلہ لینے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔

اس مقصد کے پیش نظر حبشہ کی فوج یمن کی طرف روانہ ہوئی اور گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس نے ذونواس کو شکست فاش دی اور ان میں سے بہت سے افرادکو قتل کیا۔ جلدی ہی نجران کی حکومت نجاشی کے قبضہ میں آگئی اور نجران حبشہ کا ایک صوبہ بن گیا۔(۳)

بعض مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ اس خندق کا طول چالیس ذراع ( ہاتھ ) تھا اور اس کا عرض بارہ ذراع تھا ۔ ( ایک ذروع تقریباًآدھا میٹر ہے اور بعض اوقات گز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جو تقریبا ً ایک میٹر ہے )۔

بعض مو رخین نے لکھاہے کہ سات گڑھے تھے جن میں سے ہر ایک کی وسعت اتنی ہی تھی جتنی اوپر بیان ہوئی ۔۴

مندرجہ بالا واقعہ تاریخ و تفسیر کی بہت سی کتابوں میں درج ہے منجملہ دیگر کتب کے عظیم مفسر طبرسی نے مجمع البیان میں ، ابو الفتوح رازی نے اپنی تفسیر میں فخر راز ی نے اپنی تفسیر کبیر میں ، آلوسی نے روح المعانی میں اور قرطبی نے اپنی تفسیر میں زیر بحث آیات کے ذیل میں ، اسی طرح ہشام نے اپنے سیرہ ( جلد اول ص ۳۵) میں اور ایک دوسری جماعت نے اپنی کتب میں اس واقعہ کو تحریر کیا ہے ۔

جو کچھ ہم نے تحریر کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ تشدد کرنے والے بے رحم افراد آخر کار عذاب ِ الہٰی میں گرفتار ہو ئے اور ان سے اس خون ناحق کا انتقام دنیا ہی میں لیا گیا اور عاقبت کا عذاب جہنم ابھی ان کے انتظار میں ہے ۔

انسانوں کے جلانے والی یہ بھٹیاں جو یہود یوں کے ہاتھ سے معرض وجود میں آئیں ، احتمال اس امر کا ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں یہ پہلی آدم سوز بھٹیاں تھیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اسی قسم کی قساوت اور بے رحمی کا خود یہودی بھی شکا رہوئے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے لوگ ہٹلر کے حکم سے آدم سوز بھٹیوں میں جلائے گئے اور اس جہان میں بھی عذاب ِ حریق کا شکار ہوئے ۔

علاوہ از یں ذونواس یہودی ، جو اس منحوس اقدام کا بانی تھا ، وہ بھی اپنی بد اعمالی کے انجام سے نہ بچ سکا ۔ جو کچھ اصحاب اخدود کے بارے میں درج کیاگیا ہے یہ مشہور و معروف نظر یات کے مطابق ہے لیکن اس ضمن میں کچھ اور روایات بھی موجود ہے جویہ بتاتی ہیں کہ اصحاب اخدود صرف یمن میں ذونواسی ہی کے زمانے میں نہیں تھے۔ بعض مفسرین نے تو ان کے بارے میں دس قول نقل کئے ہیں ۔

ایک روایت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے ۔ آپ نے فرمایا ہے وہ اہل کتاب مجوسی تھے جو اپنی کتاب پر عمل کرتے تھے ۔ ان کے باد شاہوں میں سے ایک نے اپنی بہن سے مباشرت کی اور خواہش ظاہر کی کہ بہن سے شادی کو جائز قرار دے ۔ لیکن لوگوں نے قبول نہیں کیا ۔ بادشاہ نے ایسے بہت سے مومنین کو جنہوں نے یہ بات قبول نہیں کی تھی ، جلتی ہوئی آگ کی خندق میں ڈلوادیا ۔(۴)

یہ فارس کے اصحاب الاخدود کے بارے میں ہے ، شام کے اصحاب الاخدود کے بارے میں بھی علماء نے لکھا ہے کہ وہاں مومنین رہتے تھے اور آنتیا حوس نے انہیں خندق میں جلوایاتھا ۔(۵)

بعض مفسرین نے اس واقعہ کو بنی اسرائیل کے مشہور پیغمبر حضرت دانیال htitr کے اصحاب و انصارکے ساتھ مربوط سمجھا ہے جس کی طرف تورات کی کتاب دانیال میں اشارہ ہواہے اور ثعلبی نے بھی اخدود فارسی کو انہی پر منطبق کیا ہے۔ ۶

کچھ بعید نہیں کہ اصحاب ِ اخدود میں یہ سب کچھ اور ان جیسے دوسرے لوگ شامل ہوں اگرچہ اس مشہور مصداق سر زمین ِ یمن کا ذونواس ہی ہے

____________________

۱۔ حمیر یمن کے مشہور قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا ۔

۲۔ تفسیر علی ابن ابراہیم قمی ،جلد ۲ ،ص ۴۱۴۔

۳۔ قصص قرآن بلاغی، ص ۲۸۸۔

۴۔ تفسیر روح المعانی اور ابو الفتوح رازی زیر بحث آیات کے ذیل میں ۔

۵۔ اعلام قرآن ، ص۱۳۷۔ ۱۳۸

۶۔ اعلام قرآن ، ص۱۳۷۔ ۱۳۸