تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65337
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65337 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آيات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷

۱۱ ۔( و السّمآءِ ذات الرجع ) ۔

۱۲ ۔( و الارض ذات الصدعِ ) ۔

۱۳ ۔( اِنّه لقول ٌ فصلٌ ) ۔

۱۴ ۔( وما هو بالهزل ) ۔

۱۵ ۔( انّهم یکیدونَ کیداً ) ۔

۱۶ ۔( واکید کیداً ) ۔

۱۷ ۔( فمهل الکافرون امهلْهُم رُویداً ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔ پر بارش آسمان کی قسم ۔

۱۲ ۔ پر شگاف زمین کی قسم ۔

۱۳ ۔ یہ ایک سچی ہے ۔

۱۴ ۔ یہ مذاق نہیں ہے ۔

۱۵ ۔ وہ ہمیشہ مکرکرتے ہیں ۔

۱۶ ۔ اور میں اس کے مقابلہ میں چارہ جوئی کرتا ہوں ۔

۱۷ ۔ اب جبکہ ایسا ہے تو کافروں کو تھوڑی سی مہلت دے دے ۔ ( تاکہ اپنے اعمال کی سزا دیکھ لیں )۔

میں دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتا ہوں

گزشتہ آیا ت کے بعد، جن میں انسان کے نطفہ اور اس کی پہلی زندگی کی طرف توجہ کے حوالے سے استدلال تھا ، ان آیات میں پھر امر معاد پر تاکید کرتے ہوئے اور دوسرے دلائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : ” قسم ہے بارش سے پر آسمان کی “۔( و السماء ذات الرجمع ) اور قسم ہے زمین کی جو شگافتہ کی جاتی ہے اور اس میں سے سبزہ پھوٹتا ہے “۔( و الارض ذات الصدع ) ۔ ” کہ یہ ایک حق بات ہے کہ تم زندہ ہوجاو گے “۔( انه لقول فصل ) ۔

” یہ پکّی بات اور اس میں کسی قسم کی شوخی اور مزاح نہیں ہے “۔( وما هو بالهزل )

” رجع “ رجوع کے مادہ سے باز گشت کے معنی میں ہے اور عرب بارش کو رجع کہتے ہیں ، اس وجہ سے کہ پانی زمین اور سمندروں سے اٹھتا ہے اور بارش کی صورت میں زمین کی طرف لوٹ آتاہے ۔ یہ کہ مختلف فاصلوں پر بار بار بارش ہوتی ہے۔

وہ گڑھے جن میں بارش جمع ہوجاتی ہے انھیں بھی رجع کہتے ہیں ، بارش کے پانی کے جمع ہو جانے کی بناء پر ، یا ان لہروں اور موجوں کی بناء پر جو ان کی سطح پر ہوا کی جنبش سے پیدا ہوتی ہیں ۔(۱)

”صدع“ سخت اجسام میں شگاف پڑ جانے کے معنی میں ہے ، اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو کچھ رجع کے معنی میں کہا گیا ہے اس کو کشک و سخت زمینوں کے بارش کے نزول کے بعد شگافتہ ہونے اور سبزہ کی نشو نما کی طرف اشارہ سمجھا ہے۔ حقیقت میں یہ دونوں قسمیں اشارہ ہیں مردہ زمینوں کی بارش کی وجہ سے زندہ ہونے کی طرف ،جسے قرآن نے باربار مسئلہ معاد کے سلسلہ میں بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ مثلاً سورہ ق کی آیت ۱۱( و احیینابه بلدة میتاً کذالک الخروج ) ” ہم نے بارش کے ذریعہ مردہ زمینوں کوزندہ کیا اور قیامت میں تمہارا خروج بھی اسی طرح ہوگا۔ “

اسی طرح ان قسموں کے درمیان اور ان چیزو ں کے درمیان جن کے لئے قسم کھائی گئی ہے ، واضح مناسبت ہے یہ قرآن کے محاسن میں سے ایک ہے کہ قسموں کے درمیان اور ان کے درمیان جنکے لئے یہ قسمیں کھائی جارہی ہیں ، ایک عمدہ اور پر کشش تناسب نظر آتا ہے ، جس طرح سورہ ج کی آیت ۵ میں مسئلہ معاد پر نطفہ سے انسان کی خلقت اور جنین کے اسرار استدلال کرتا ہے اور بارش کے نزول کے زیر اثر مردہ زمینوں کے زندہ ہونے پر استدلال کرتا ہے ، اسی طرح اس سورہ( سورہ طارق) میں بھی ان دونوں مسائل پر انحصارکیا ہے ۔

بعض مفسرین نے ”( و السماء ذات الرجع ) “ کے جملے کے لئے ایک اور تفسیر بھی بیان کی ہے اور وہ ہے آسمان کے ستاروں کی گردش کی تکرار اور ان کا پہلی حالت کی طرف پلٹنا، زمین کی مختلف ادوار میں اپنے گرداور سورج کی گردش اور نظام شمسی کے سیاروں کی حرکت، چاند سورج اور ستاروں کی طلوع و غروب کی حرکت ۔ یہ سب حرکات باز گشت کی حامل ہیں ۔ ان باز گشتوں کا وجود انسان کی حیاتِ تازہ کی طرف باز گشت کی علامت ہے ۔ البتہ پہلے معنی زمین کے شگافتہ ہونے اور مسئلہ معاد کے دلائل کے ساتھ بہت زیادہ مناسبت رکھتے ہیں ۔

قول فصل کے معنی ایسی بات کے ہیں جو حق و باطل کو الگ الگ کردے ۔ یہاں گزشتہ آیتوں کے قرینہ سے ایک گروہ نے اسے قیامت کی طرف اشارہ سمجھا ہے جبکہ مفسرین کی ایک دوسری جماعت اسے قرآن کی طرف اشارہ سمجھتی ہے ۔

معصومین علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی اس طرف اشارہ ہو اہے ۔ البتہ قیامت کو قول فصل سے تعبیر کرنا قرآن کی بہت سی آیتوں میں نظر آتا ہے ، جو ضمنی طور پر معاد کی خبر دیتی ہیں ۔اس طرح دونوں تفسیروں کے درمیان جمع ممکن ہے ۔ ایک حدیث میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے واسطے سے پیغمبر اسلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا :

(انها ستکون فتنة قلت فما المخروج منها یا رسول الله قال کتاب الله فیه نبأ من قبلکم و خبر مابعد کم وحکم مابینکم هو الفصل لیس بالهزل من ترکه من جبار قصمه الله و من ابتغی الهدی فی غیره اضلّه الله )

” عنقریب تمہارے درمیان فتنہ ظاہر ہو گا ۔ میں نے عرض کیا اے خدا کے رسول اس سے نجات کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا:قرآن جس میں گزشتہ اور آئندہ لوگوں کی خبریں اور تمہارے درمیان کے فیصلے ہیں اور وہ ایسا کلام ہے جو حق کو باطل سے جدا کردیتاہے ، محکم و پختہ ہے ، اس میں شوخی و مزاح نہیں ہے ، جو جبار اس کو چھوڑے گا خدا اس کی کمر توڑے گا اور جو شخص اس کے غیرسے ہدایت چاہے گا خدا اس کو گمراہ کردے گا ۔(۲)

اس کے بعد پیغمبر و مومنین کو تسلی دینے کے لئے اور دشمنان اسلام کی تہدید کی غرض سے خدا وند عالم مزید فرماتاہے : ” وہ ہمیشہ مکر و حیلہ کرتے ہیں اور منصوبے بناتے ہیں( انهم یکیدون کیداً ) ۔ میں بھی ان کے مقابلہ میں ایک منصوبہ بناتا ہوں اور ان کی سازش کو خاک میں ملا دیتا ہوں ۔( وأکید کیداً ) اب جبکہ معاملہ اس طرح ہے تو کافروں کو تھوڑی سے مہلت دے دے تاکہ وہ اپنے اعمال کا انجام دیکھ لیں ۔( فمهل الکافرین املههم رویدا ) ً۔

ہاں ! وہ ہمیشہ منحوس منصوبہ تم سے لڑنے کے لئے بناتے رہتے ہیں ۔ کبھی مذا ق ا ڑاتے ہیں ، کبھی ، کبھی دیوانہ کہتے ہیں ، کبھی صبح کو ایمان لاتے ہیں اور عصر کے وقت کافر ہو جاتے ہیں تاکہ ایک گروہ کو اپنے ساتھ واپس کفر کی طرف لے جائیں ۔

کبھی کہتے ہیں کہ جو لوگ تیرے گرد جمع ہو گئے ہیں وہ فقراء وبے نوا ہیں ۔ انہیں دور کرتا کہ تیرا ساتھ دیں ۔ کبھی کہتے ہیں کم از کم ہمارے بعض خدا و ں کو قانونی طور پر قبول کرلے تو ہم تیرا ساتھ دیں گے ۔ کبھی تجھے جلا وطن کرنے کا اور قتل کرنے کا منصوبہ بناتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ہر لمحہ اور نئے بھیس میں آتے ہیں تاکہ تیری جماعت کو متفرق و منتشر کردیں اور تیر ے اصحاب و انصار پر دباو ڈالیں یا تجھے ختم کردیں اور خدا کے نور کو بجھا دیں ۔

لیکن انہیں جانتا چاہئیے کہ خدا نے ارادہ کیا ہے کہ یہ نور عالمگیر ہو جائے ۔ یہ خدا کا نور ہے ۔ یہ کسی کے پھونک مارنے سے نہیں بجھ سکتا ۔ یہ فروزاں آفتاب ہے جو چمگادڑوں کی چشم پوشی سے ختم نہیں ہوسکتا۔ وہ منصوبہ بناتے اور ہم بھی اپنی تدابیرکرتے ہیں ۔

” کید “ بقول مفرد ات راغب، ایک قسم کی چارہ جوئی ہے اور یہ دو قسم کا ہوتاہے ۔ ایک مذموم دوسرا پسندیدہ ، اگر چہ اس کا استعمال مذموم چارہ جوئی میں زیادہ ہوتاہے لیکن ممدوح چارہ جوئی میں بھی ہوتاہے ،مثلاً( کذالک کدنا لیوسف ) ہم نے اس طرح یوسف کے لئے چارہ جوئی کی ۔(سورہ یوسف۔ ۷۶)

دشمنوں کے کیدو مکر کی مراد زیرِ بحث آیت میں واضح ہے ۔ یہ وہی صورت ِ حال ہے جس کے کچھ عنوانات کے متعلق ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے اور قرآن کی ایذا رساں سازشوں اور شرارت پر مبنی واقعات سے پر ہے ۔ باقی رہا خدائی کی ، اس سے یہاں کیا مراد ہے ؟

بعض نے یہاں کہاہے کہ وہی مہلت دیتاہے جو دردناک عذاب پر منتھی ہوتی ہے اور بعض نے خود عذاب کے معنی میں سمجھا ہے ۔ لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہاجائے کہ مراد وہی الطاف الہٰی ہیں جو پیغمبر اور مومنین کے شامل حال تھے اور دشمنان اسلام کو غافل کردیتے اور ان کی کوشش کو ختم کردیتے ۔ ان کی سازشوں کو درہم برھم کردیتے جس کے نمونے تاریخ اسلام میں بہت زیادہ ہیں ۔

ان آیات میں خصوصیت کے ساتھ پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ کافروں سے لطف و مدارت سے پیش آ، انہیں مہلت دے اور ان کے فنا ہوجانے کے بارے میں عجلت سے کام نہ لے ۔ انہیں چھوڑ دے کہ کافی حد تک اتمام حجت ہوجائے اور انہیں رہنے دے تاکہ لوگ مختصر سی آماد گی بھی رکھتے ہوں وہ آخر کار مشرف بہ اسلام ہوجائیں ۔

اصولی طور پر جلد باز وہ ہوتاہے جو فرصتوں کے خود اور مکانات کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ رکھتا ہے اور یہ چیز خدا وند ِ قادر و قاہر کے بارے میں کوئی مفہوم نہیں رکھتی ۔

قابل توجہ یہ کہ فرماتاہے :( فمهل الکافرین ) ” کافروں کو مہلت دے -“اور دوبارہ تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے( امهلهم ) ” انہیں مہلت دے “۔

ان میں سے ایک باب تفعیل سے ہے اور دوسرا افعال سے اور اس کی تکرار تاکید کے لئے ہے ، بغیر اس کے کہ لفظ کی تکرار ہو اور اس کے کانوں کو بوجھ محسوس ہو۔

” رویداً “ ۔ ”رود“ ( بروزن عود) کے مادہ سے آمد و رفت رکھنے اور کسی کام کو نرمی سے انجام دینے کے معنی میں ہے ۔ یہاں اس کے مصدری معنی مراد ہیں اور تصغیر کا پہلو لئے ہوئے ہیں ، یعنی انہیں تھوڑی سی مہلت دے۔(۳)

اس طرح خدا اس مختصر سے جملے میں اپنے پیغمبر کو تین مرتبہ ان سے مدارات کرنے اور انہیں مہلت دینے کی ہدایت کرتا ہے ، یہ تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ عمل ہے کہ وہ اپنے کاموں میں ، خصوصاً جبکہ ان کا دشمن سے مقا بلہ ہو، اس وقت حوصلہ اور صبر و شکیبائی سے کام لیں اور ہر قسم کی جلد بازی سے پر ہیز کریں ۔ کوئی بے محل اقدال نہ کریں اور ہر کام کا منصوبہ بنائیں ۔ علاوہ ازیں دین حق کی تبلیغ کی راہ میں ہمیشہ جلد بازی سے پرہیز کریں تاکہ وہ تمام افراد ، جنکی ہدایت کا احتمال موجود ہے ایمان لے آئیں اور باقی تمام افراد کے بارے میں اتمام ِ حجت ہو جائے ۔

یہ بات کہ یہ مہلت کم اور مختصر کیوں شمار کی گئی ہے، اس کی وجہ یاتو یہ ہے کہ اسلام مختصر سی مدت میں دشمنوں کے مقابلہ میں کامیاب ہو گیا تھا اور کافروں کے منصوبے خاک میں مل گئے تھے ۔ انہوں نے پہلی ضرب کا مزہ جنگ بدر میں چکھا ۔ اس کے بعد بہت جلد میدان احزاب و خیبر و حنین وغیرہ میں ان کے ارادے خاک میں ملے۔ پیغمبر کی زندگی کے آخری دنوں میں نور اسلام سارے جزیرة العرب پر چھا گیا اور ایک صدی گذرنے سے پہلے دنیا کے اس دور کے عمدہ اور اہم حصوں پر اس نے اپنا سایہ ڈال دیا ۔ یا پھر اس وجہ سے ہے کہ قیامت کا عذاب بھی نزدیک ہے اور اصولی طور پر جو کچھ قطعی ہووہ نزدیک شمار ہوتاہے ۔

بہر حال یہ سورہ آسمان اور ستاروں کی قسم سے شروع ہوتا ہے اور سازش کرنے والے حقیقت کے دشمن کفار کی تہدیدپر ختم ہوتا ہے ، درمیان میں معاد قیامت کے خوبصورت اور مو ثر دلائل اور انسانون پر نگہبانوں کے تقرر کے بارے میں لطف بیانات ہیں ۔ نیز مومنین کی تشفی و دلداری ہے ۔ یہ تمام عنوانات مختصر عبارتوں کے ساتھ ، جو نہایت ہی لطیف ہے اور مخصوص قسم کی قاطعیت لئے ہوئے ہیں ، بینا ہوئے ہیں ۔

خدا وندا ! دشمنوں کے کید و مکر کا رخ ، جو ہمارے زمانے میں بہت زیادہ ہو گیا ہے ، خود انہی کی طرف کردے اور ان کے منحوس منصوبے نقش بر آب کردے۔

پروردگارا!جس روز اسرار کھل جائیں گے اس روز ہمیں شر مندہ نہ کیجو۔

بار الہٰا ! ہم تیرے علاوہ کوئی قوت ، ناصر اور مددگار نہیں رکھتے۔ ہمیں اپنے غیر کے سپرد نہ کیجو۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ مفردات راغب،مادہ رجع۔

۲۔ صحیح ترمذی ، سنن داو د مطابق روح المعانی جلد، ۳ ص ۱۰۰، اور تفسیر مراغی، جلد ۳۰ ، ص ۱۸۔

۳۔ اس بناپر رویداً یہاں مفعول مطلق کا جانشین ہے اور حقیقت میں ایسا ہے کہ جیسا کہ کہا جائےامهلهم امهالا قلیل ا ور یہ بعض نے احتمال پیش کیا ہے کہ رویداً یہاں امر کے معنی رکھتاہے، اس لئے تین امر پے در پے آئے ہیں ، بعید نظر آتا ہے البتہ رویدامر کے معنی میں اور اسم مفعول کی شکل میں بھی ا ٓیاہے لیکن زیر بحث آیت سے مناسب اور اس لفظ کے منصوب ہونے کے ساتھ موزوں یہی ہے کہ مفعول مطلق ہو ۔

سورہ اعلیٰ

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۱۹ آیتیں ہیں

سورہ اعلیٰ کے مضامین اور ان کی فضیلت

اس سورے کے در حقیقت دو حصے ہیں ۔ ایک تو وہ ہے جس میں روئے سخن خود پیغمبر کی طرف ہے اور ان کے لئے تسبیح پروردگار اور ادائے قرضِ رسالت کے سلسلہ میں احکام جاری کئے گئے ہیں ۔ اس حصہ میں خدائے بزرگ و بر تر کے ساتھ اوصاف شمار کرائے گئے ہیں ۔

دوسرا حصہ وہ ہے جوخوف خدا رکھنے والے مومنین اور شقی القلب کفار کی بات کرتا ہے ۔ اس حصہ میں ان دونوں گروہوں کی سعادت و شقاوت کے عوامل و اسباب اختصار کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں ۔

سورہ کے آخر میں اعلان کیا گیا ہے کہ یہ مطالب صرف قرآ ن ہی میں نہیں آئے بلکہ وہ حقائق ہیں جن پر گزشتہ کتب و صحف اور صحف ابراہیم و موسیٰ میں بھی تاکید آئی ہے ۔ اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں ہم تک بہت سی روایات پہنچی ہیں -

تلاوت کی فضیلت

ایک حدیث ہمیں پیغمبر اسلام کی ملتی ہے کہ آ پ نے فرمایا:

(من قرأ ها اعطاه الله عشر حسنات بعدد کل حرفانزل الله علیٰ ابراهیم وموسیٰ و محمد( صلوٰاة الله علیهم ) ”

جو شخص سورہ اعلیٰ کی تلاوت کرے خدا ہر اس حرف کے بدلے جو اس نے ابراہیم و موسیٰ اور محمد پر نازل کیا ہے دن نیکیاں اسے عطا فرمائے گا “۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام منقول ہے کہ (من قرأ سبح اسم ربک الاعلیٰ فی فرائضه او نوانفله قیل له یوم القیامة ادخل الجنة من ای ابواب الجنة شیئت انشا ء الله )

جو شخص اپنے فرائض یانوافل میں سورہ اعلیٰ کی تلاوت کرے تو قیامت کے دن اس سے کہاجائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہوجا(انشاء الله )(۲)

متعدد روایات میں آیاہے کہ جس وقت پیغمبر یا ائمہ ہدیٰ”( سبح اسم ربک الاعلیٰ ) “ پڑھتے تو اس کے بعد اس حکم پر عمل کرتے ہوئے فرماتے “ ”سبحان ربی الاعلیٰ “۔(۳)

ایک اور روایت میں آیاہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتاہےکہ میں نے بیس سال راتوں کو آپ کی اقتداء میں نمازپڑھی تو سوائے( سبح اسم ربک الاعلیٰ ) کے اور کوئی سورة آپ نماز میں نہیں پڑھتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے اگر تم جانتے کہ اس میں کیا بر کتیں ہیں تو تم میں سے ہر شخص اسے دس مرتبہ پڑھتا۔اور جو شخص اسے پڑھے گویا اس نے موسیٰ و ابراہیم کے صحف کی تلاوت کی ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ مجموعہ روایات جو اس سلسلہ میں دستیاب ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ۔ یہاں تک کہ ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ سورہ پیغمبر اکرم کو محبوب سورہ تھا (کان رسول الله یحب هٰذه السورة سبح اسم ربک الاعلیٰ )(۴)

یہ بات کہ یہ سورہ مکی ہے یامدنی اس میں مفسرین کے درمیان اختلا ف ہے ، مشہور یہ ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا جبکہ بعض کا نظر یہ ہے کہ مدینہ میں نازل ہوا ، علامہ طباطبائی رحمة اللہ علیہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اس سورہ کا پہلا حصہ مکہ ہو اور دوسرا حصہ ( ذیلی ) مدنی وہ اس لیے کہ ذیل میں گفتگونماز اور زکوٰة کی ہے اور اس ، تفسیر کے مطابق جو آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے ہم تک پہنچی ہے ، نماز سے مراد نماز عید الفطر اور زکوٰة سے مراد فطرہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان کے روزے ، نماز عید اور زکوٰة فطرہ مدینہ میں نازل ہوئے ہیں ۔(۵)

لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ نماز اور زکوٰة کا حکم اس سورہ کے آخری حصہ میں ایک عام حکم کے طور پر ہے ، اگر چہ نماز ِ عید الفطراور زکوٰة فطرہ اس کے ایک واضح مصداق شمار ہوتے ہیں اورہم جانتے ہیں کہ واضح مصداق کے ساتھ روایات اہل بیت بہت ہی فراوان ہے ۔ اس وجہ سے ان مشہور علماء کا نظر یہ جو کہتے ہیں کہ تمام سورہ مکی ہے ، بعید نظر نہیں آتا ہے بالخصوص جب کہ آغاز سورہ کی آیات اور اختتام سورہ کی آیات مکمل طور پر ، مقاطع حروف کے لحاظ سے ہم آہنگ ہیں ۔ لہٰذا مشکل ہے کہ یہ کہا جاسکے کہ ایک حصہ مکہ میں نازل ہوا اور ایک مدینہ میں ۔

ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ مسلمانوں کا جو گروہ بھی مدینہ میں داخل ہوتا تو یہی سورہ مدینہ میں لوگوں کے سامنے پڑھتا ۔(۶)

پس یہ احتمال کہ اس کا صرف صدر حصہ مکہ میں اس کا ذیلی حصہ مدینہ میں نازل ہو اہو، بہت ہی بعید نظر آتا ہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۵ ، ص ۵۳۳۔

۲۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۵ ، ص ۵۳۳۔

۳۔ تفسیر نور الثقلین، جلد ۵ ، ص۵۴۴

۴۔ تفسیر مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۷۲

۵۔ المیزان ، جلد ۲۰ ص ۳۸۶۔

۶۔ تفسیر در المنثور ، جلد ۶، ص ۳۳۷۔ یہ مفصل حدیث ہے جس کے اجمالی مفہوم کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے ۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ ) ۔

۲ ۔( الذی خلق فسوی ) ۔

۳ ۔( و الذی قدّر فهدیٰ ) ۔

۴ ۔( و الذیْٓ اخرج المرعیٰ ) ۔

۵ ۔( فجعله غثآءً احوٰی ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم خدا کے نام سے

۱ ۔ اپنے بلند مرتبہ پروردگار کے نام کی تسبیح کر ( اور اسے منزہ رکھ )۔

۲ ۔ وہ خدا جس نے پید اکیا اور منظم کیا۔

۳ ۔ اور وہ جس نے منظم کیا اور ہدایت فرمائی ۔

۴ ۔ اور وہ جس نے چراگاہ کو ظاہر کیا ۔

۵ ۔ پھر اسے خشک اورسیاہ قرار دیا ۔

خدا وند ِ عظیم کی تسبیح کر

یہ سورہ حقیقت میں مکتب انبیاء کی دعوت ِ فکر کا نچوڑ اور خلاصہ، یعنی پروردگار ِ عالم کی تسبیح اقدس سے شروع ہوتا ہے ۔

پروردگار عالم ابتداء میں روئے سخن پیغمبر اسلام کی طرف کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” اپنے بلند مرتبہ پروردگار کے نام کو ہر عیب و نقص سے منزہ شمارکر “۔( سبح اسم ربک الاعلیٰ ) ۔

مفسرین کی ایک جماعت کا نظریہ ہے کہ یہاں اسم سے مراد مسمیٰ ہے جبکہ ایک جماعت نے کہا ہے کہ مراد خود اسم پروردگار ہے ، وہ نام جو مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے ان دونوں تفسیروں کے درمیان کوئی خاص فرق نہیں ۔

بہر حال مراد یہ ہے کہ خدا کا نام بتوں کا ہم ردیف قرار نہ دیا جائے اور اس کی ذات پاک کو ہم ہر قسم کے عیب و نقص سے جسم و جسمانیات کے عوارض سے اور ہر قسم کی محدودیت و نقصان سے منزہ شمار کریں ۔ بت پرستوں کی طرح نہیں جو خدا کا نام بتوں کے ساتھ لیتے تھے ، یا وہ لوگ جو خدا کو جسم جسمانیات سے منزہ خیال نہیں کرتے ۔

”اعلیٰ “ کی تعبیر اس حقیقت کوبیان کرتی ہے کہ وہ ہرشخص اور ہر اس چیز سے ، جس کا اہم تصور کرسکتے ہیں ، ہر خیال و قیاس و گمان سے اور ہر قسم کے جلی و خفی شرک سے برتروبالا ہے ۔

” ربک“ (تیرا پروردگار)کی تعبیر اس طرف اشارہ کرتاہے کہ وہ پروردگار جس کیطرف تو لوگوں کو بلاتا ہے بت پرستوں کے پروردگار سے الگ ہے

رب و اعلیٰ کی دو صفتوں کے بعد ان کی وضاحت کے لئے پانچ اور صفات بیان کرتاہے جو سب کی سب پر وردگار کی اعلیٰ ربوبیت کی تشریح ہیں ، فرماتاہے :

وہ خدا جس نے پیدا کیا اور منظم و مرتب کیا “( الذی خلق فسوّی ) ۔

”سوّی“ تسویہ کے مادہ سے نظام بخشنے اور مرتب کرنے سے جو آسمانی ستاروں پر حاکم ہے ، یا جو زمینی مخلوقات پر حکم فرماتاہے انسان کی جسم و جان کے لحاظ سے ۔

اور جو مفسرین نے صرف انسان کے ہاتھ پاو ں اور آنکھوں کے خاص نظام یا انسان کے راست قامت ہونے کے ساتھ تفسیر کی ہے ، در حقیقت وہ اس مفہوم کے ایک محدود و مصداق کا بیان ہے ۔ بہر حال عالم آفرینش کا نظام جو عظیم ترین آسمانی نظاموں پر حاوی ہے ، پروردگار کی ربوبیت اور اس کے وجود کے اثبات کے لئے سادہ اور عام موضوعات کا مویّد ہے ۔ مثلاً انسان کی انگلیوں کی پوروں کی لکیروں تک ، جن کی جانب سورہ قیامت میں اشارہ ہوا ہے :( بلیٰ قادرین علیٰ ان نسوّی بنانه ) ( قیامت، آیت ۴) اس مختصر سی تعبیر میں مطالب کا ایک جہان پوشیدہ ہے ۔

آفرینش اور خلقت کی تنظیم کے مسئلہ کے بعد حرکت ِ کمالی اور اس کی راہ میں موجودات کی ہدایت کے لئے لائحہ عمل مقرر کرنے کے موضوع کو پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” وہ جس نے تقدیر مقرر کی اور ہدایت فرمائی“( و الذی فهدیٰ ) ۔

تقدیر سے مراد اندازہ ، اہداف و مقاصد اور روبہ عمل ہونے کے لائحہ عمل کی تعیین ہے جن کے لئے موجودات کو خلق کیا گیا ہے ۔ ہدایت سے مراد ہی ہدایت تکوینی ہے جو محر کات اور قوانین کی شکل میں ہے اور جسے ہر موجود پر حاکم قرار دیا جاتا ہے (عام اس سے کہ وہ اندرونی محرک ہوں یابیرونی )۔

مثلاً ایک طرف ماں کے پستا ن اور اس کے دودھ کو بچہ کی غذا کے لئے پیدا کیا ہے ، ماں کو شدید محبت مادری سے نوازا ہے اور دوسری طرف بچہ میں محرک پید اکیا ہے جو اسے ماں کے پستان کی طرف کھینچتا ہے یہ آمادگی دونوں طرف کی وقت جاذبہ تمام موجودات کی راہ مقاصد میں نظر آتی ہے ۔

خلاصہ یہ کہ ہر موجود کی ساخت کے بارے میں تدبر و تفکر کرنا اور وہ راہ عمل جسے وہ اپنی زندگی میں طے کرتا ہے ، یہ دونوں باتیں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ نہایت باریک بینی پر مبنی ایک لائحہ عمل تجویز کیاگیا ہے طاقت جست ہدایت کے پیچھے ہے جو اس لائحہ عمل کے اجزاء میں مدد کرتا ہے ، اور یہ پروردگار کی ربوبیت کی ایک نشانی ہے ۔

البتہ انسان کے لئے ہدایت تکوینی کے پروگرام کے علاوہ ایک اور قسم کی ہدایت بھی موجود ہے جو وحی اور بعثت انبیاء کے ذریعہ صورت پذیر ہوئی ہے ۔ اس کانام ہدایت تشریعی ہے ، قابل توجہ یہ امر ہے کہ انسان کی ہدایت تشریعی بھی اس کی ہدایت تکوینی کی تکمیل کرتی ہے ۔

اس مفہوم کو سورہ طٰہٰ کی آیت ۵۰ میں بھی پیش کیا گیا ہے جہاں حضرت موسیٰ و فرعون کے اس سوال کے جواب میں کہ تم دونوں کاپروردگار کون ہے ؟( فمن ربکما یا موسی ) ٰ ) فرماتے ہیں( ربنا الذی اعطیٰ کل شیء خلقه ثم هدیٰ ) ” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر موجود کو اس کی خلقت لازمہ عطا فرمایا اور پھر اس کی ہدایت کی “۔

اس بات کامفہوم موسیٰ بن عمران کے زمانے میں یا نزول قرآن کے زمانے میں اگر چہ مختصراً معلوم تھا لیکن موجودہ زمانہ میں ، جبکہ انسانی علوم و دانش نے انواع ِ موجودات کی شناخت کے سلسلہ میں خصوصاً پودوں اور جاندار وں کے بارے میں بڑی پیش رفت کی ہے ، اب بہت سی معلومات عام ہو چکی ہیں اور ہزار ہا کتابیں اس تقدیر اور ہدایت کے سلسلہ میں معرض تحریر میں آچکی ہیں ۔ اس کے باوجودمحققین کہتے ہیں کہ جو کچھ ابھی معلوم نہیں کیا جاسکاوہ کئی گنا زیادہ ہے۔

بعد والے مرحلے میں گیاہ و نباتات یعنی چوپاو ں کی غذا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے :

” وہ چراگاہ کو وجود میں لایا اور اسے زمین کے اندر سے باہر نکالا ہے “۔( و الذی اخرج المرعیٰ )

” اخرج“ ۔”کی تعبیر “۔” اخراج“ کے مادہ سے اس طرف اشارہ ہے ۔ گویا یہ سب زمین کے اندر موجود تھے اور خدانے انہیں باہر نکا لا ہے ۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ حیوانات کی غذا انسانی غذا کی تمہید ہے اور اس کا فائدہ آخر کار انسان کو پہنچتا ہے ۔

اس کے بعد مزید فرماتاہے :” اس کے بعد خدا نے اسے خشک اور سیاہ قرار دیا “۔( فجعله غثاء احویٰ ) ۔ اصل میں خشک گھاس کے معنی میں ہے جو سیلاب کے نتیجہ میں نکلتی ہے ۔ وہ جھاگ جو دیگ کے جوش کھانے سے پید اہوتاہے ، اسے بھی غثاء کہتے ہیں ۔ یہ تعبیر ہر اس چیز کے لئے کنایہ ہے جو ضائع ہوجاتی ہے ۔

زیر بحث غثاکے معنی خشک گھاس اور فضول چیز کے ہیں ۔

” احویٰ“ ” حوہ“ ( بروزن قوہ) کے مادہ سے کبھی سبزرنگ اور کبھی سیاہ رنگ کے معنی دیتاہے اور دونوں ایک ہی معنی کی طرف لوٹتے ہی ہیں ، اس لئے سبز رنگ جب زیادہ ہوتو سیاہی مائل ہوجاتاہے ، یہ تعبیر اس بناء پر ہے کہ خشک گھاس جب اوپر تلے پڑی ہوتو آہستہ آہستہ کالی ہونے لگتی ہے ، اس تعبیر کا انتخاب ، باوجودی خدائی نعمتوں کے بیان کے محل پر ، لیکن ہوسکتا ہے کہ مندرجہ ذیل تین علتوں میں سے اس کی ایک علت ہو ۔

۱ ۔ پہلی یہ کہ گھاس وغیرہ کی کیفیت دنیا کے فانی ہونے کو ظا ہرکر تی ہے اور انسانوں کے لئے ہمیشہ درس عبرت کا کام دیتی ہے ۔ وہ سبزہ جو فصل بہار میں تروتازہ اور مسرت بخش تھا ، چند گزرنے کے بعد خشک ہو کر سیاہ رنگ اختیار کر لیتا ہے اور اس پر مردنی چھا جاتی ہے گویا زبان حال سے دنیا کی ناپائیداری اور وقت کے تیزی سے گزرنی کی داستان سناتی ہے ۔

۲ ۔ دوسرے یہ کہ خشک گھاس جب اوپر نیچے رکھ دی جائے اور بوسیدہ ہوجائے تو ایک قسم کی کھاد بن جاتی ہے جو نئی گھاس کی پرورش کے لئے مفید ہوتی ہے اور زمین کی تقویت کا باعث بنتی ہے ۔

۳ ۔ تیسری علت یہ ہے کہ بعض مفسرین کے مطابق اس آیت میں گھاس اور درختوں سے پتھر کے کوئلوں کی تخلیق کی طرف اشارہ ہے ، اس لئے کہ ہم جانتے ہیں کہ پتھر کا کا کوئلہ جو کرہ زمین سے حاصل ہونے والی قوتوں میں سے ایک اہم ترین قوت ہے انسان اپنی روز مرہ کی زندگی میں اپنی صنعتوں اور کار خانوں میں اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا چکا ہے اور اب بھی اٹھا تا ہے ۔

یہ کوئلہ گیاہ اور درختوں کا باقی ماندہ حصہ تھا جو کئی ملین سال سے خشک ہوکر زمین میں دفن ہو گیا اور امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ پتھر بن کر سیاہ رنگ اختیار کرچکا ہے ۔ بعض ماہرین کا نظر یہ ہے کہ وہ چرا گاہیں موجودہ زمانے میں پتھر کے کوئلے کی شکل اختیار کرکے نکل آئی ہےں تقریباً ڈھائی ملین سال پہلے موجود تھیں اور پھر زمین میں دفن ہوگئیں ۔

یہ چراگاہیں اس قدر زیادہ ہیں کہ اگر موجودہ زمانے میں پتھر کے کوئلہ کا مصرف ہم اپنی نگاہ میں رکھیں تو وہ چار ہزار سال سے زیادہ دنیا کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرسکتا ہے ۔(۱)

آیت کی تفسیر خصوصیت کے ساتھ آخری معنی کے حوالہ سے بعید از قیاس نظر آتی ہے ، لیکن ہوسکتا ہے کہ آیت کے جامع معانی ہوں ، جس میں تینوں تفسیریں جمع ہوں ۔

بہر حال ،( غثاء ً احویٰ ) ” خشک سیاہ رنگ کی گھاس “ بہت سی منفعتیں رکھتی ہے ۔ سردی کے زمانے میں جانوروں کی مناسب غذابھی ہے ، انسان کے لئے آگ کی فراہمی کا ذریعہ بھی اور زمینوں کے لئے مناسب کھاد بھی ہے ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سات صفتیں ، جو مندرجہ بالا آیت میں آئی ہیں ، بلند و بالاربوبیت ، خلقت ، تسویہ، تقدیر ، ہدایت اور گیاہ و نباتات کی تخلیق ، یہ حقیقت میں پر ور دگار کی اعلیٰ ربوبیت کے مسئلہ کی نہایت احسن انداز میں تشریح ہے جس کا مطالعہ انسان کو خدا کے اعلیٰ مقام ِ ربوبیت سے اچھی طرح آشنا کرتاہے ، اس کے دل میں ایمان کی روشنی پیدا کرتا ہے ، خد اکی اہم ترین نعمتوں کو اجمالی طور پر بیان کرتا ہے اور انسان میں شکر گزاری کا احساس پید اکرتا ہے ۔

ایک نکتہ

مسئلہ تقدیر اور موجودات عالم کی عمومی ہدایت جو اوپر والی آیات میں پروردگار کی ربوبیت کے مظاہر میں شمار ہوئی ہے ، ایسے مسائل میں سے ہے کہ جس قدر زمانہ گزرتا جائے انسانی علم و دانش میں پیش رفت ہوگی ، اسی قدر اس میں زیادہ سے زیادہ حقائق آشکا رہوتے جائیں گے ، علمی انکشافات ہمیں یہ امکان فراہم کرتے ہیں کہ ہم تمام ذرات ِ عالم میں نئے تعجب انگیز اور زیادہ شوق آور چہرے دیکھیں ۔

بعض مفسرین نے یہاں مشہور ماہر حیوانات کمر یسی موریسن کی کتاب ( رازِ آفرینشِ ا نسان ) کی تحریروں سے استناد کرتے ہوئے مختلف جانداروں کے حوالے سے حیوانات کی ہدایت کے بارے میں اس عظیم راز کے نمونے پیش کئے ہیں جس سے ایک مختصر سا نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے :۔

۱ ۔ مہاجر پرندے ، جو کبھی ایک سال کے اندر سمندروں ، جنگلوں اور بیا بانوں کا ہزار ہا میل کا راستہ طے کرتے ہیں ، اپنے آشیانوں کو کبھی نہیں بھولتے ، اور واپسی پر ٹھیک اپنے وطن پہنچ جاتے ہیں ، اسی طرح شہد کی مکھیاں اپنے چھتے سے خواہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہو جائیں اور تیز ہوا انہیں کتنا منتشر کیوں نہ کردے ، پھر بھی وہ ٹھیک اپنے چھتے کی طرف واپس لوٹ آتی ہیں ، جبکہ انسان اپنے وطن کی طرف لوٹنے کے لئے واضح نشانیوں ، اور پتوں اور رہنماو ں کا محتاج ہوتا ہے ۔

۲ ۔ حشرات الارض خورد بینی آنکھیں رکھتے ہیں جن کی ساخت اوردیکھنے کی طاقت انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے ، جبکہ باز جیسے پرندے دور بینی آنکھ رکھتے ہیں ۔

۳ ۔ انسان رات کے وقت اپناراستہ معلوم کرنے کے لئے مجبور ہے کہ منبع نور سے فائدہ اٹھائے لیکن بہت سے پرندے انتہائی تاریکی شب میں اچھی طرح دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کایہ دیکھنا ایسی آنکھوں کے ذریعہ ہے جو ایسی شعاو ں کے مقابلہ میں جو سرخ رنگ سے کم ہیں ، حساسیت رکھتی ہیں ، اور اس طرح راڈار کی دستگاہ کی مانند ہیں جن میں سے بعض کے اندر یہ دستگاہ یادگار کے طور پر رکھی ہوتی ہے ۔

۴ ۔ کتے ایک اضافی قوت شامہ رکھنے کی وجہ سے ہر اس جانور کو جو ان کے سامنے آئے ، سونگھ کر پہچان لیتے ہیں ، جبکہ انسان ، ان وسائل و ذرائع کے باوجود جو اسے میسر ہیں ، اس قسم کی قوت سے محروم ہے ۔

۵ ۔ تمام جانور ان آوازوں کو سن لیتے ہیں جن کی شدت ارتعاس ہماری قوتِ سامعہ کی گرفت سے باہر ہے ۔ ان کی قوت سماعت ہماری قوت سماعت سے کئی گناہ زیادہ ہے ۔ انسان اپنی اس کوتاہی کی تلافی علمی وسائل و آلات کے ذریعہ کرسکتا ہے اور مکھی کے پروں کی آواز جو کئی کلو میٹر دور ہو، اس طرح سن سکتاہے کہ گویا یہ آواز اس کی کان کی لو کے نزدیک ہے ۔ شاید انسان اور حیوان کی قوت و طاقت و سماعت کا یہ فرق ، جو خدا نے دونوں میں رکھا ہے ، اس بنا پر کہ انسان علم و عقل کے ذریعہ اپنی کوتاہیوں کی تلافی کر سکتا ہے جب کہ حیوان اس سے محروم ہیں ۔

۶ ۔ چھوٹی مچھلی ایک قسم ہے جو سالہا سال سمندر میں زندگی گزارتی ہے ۔ اس کے بعد تخم ریزی کے لئے اس نہر یادریا کی طرف لوٹ جاتی ہے جس میں وہ پیدا ہوئی ہے ۔ یہ مچھلی امواج کے برعکس بڑھتی ہے اور اپنے اصلی وطن کو ،جو اس کی پر ورش سے مناسبت رکھتا ہے کئی سال دور کے فاصلہ پر رہنے کے باوجود اسے تلاش کرلیتی ہے ۔

۷ ۔ پانی کے بعض جانوروں کی داستان اس سے زیادہ عجیب ہے ۔ وہ اپنے راستے کو اس طریقہ کے بر عکس طے کرتے ہیں ۔

____________________

ا۔ آخری تفسیر کتاب” قرآن بر فراز اعصار“ تالیف نوفل ترجمہ بہرام پور میں بیان ہوئی ہے ۔