تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65344
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65344 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵،۲۶

۱۷ ۔( افلا ینظرون الیٰ الابل کیف خلقت ) ۔ ۱۸ ۔( و الیٰ السّمآءِ کیف رفعت ) ۔

۱۹ ۔( و الیٰ الجبال کیف نصبت ) ۔ ۲۰ ۔( و الیٰ الارض کیف سطحت ) ۔

۲۱ ۔( فذکّر انمآ انت مذکّرٌ ) ۔ ۲۲ ۔( لستَ علیهم بمصیطرٍ ) ۔

۲۳ ۔( الا من تولّیٰ و کفر ) ۔ ۲۴ ۔( فیعذبه الله العذاب الاکبر ) ۔

۲۵ ۔( انّ علینا ایا بهم ) ۲۶ ۔( ثم انّ علینا حسابهم ) ۔

ترجمہ

۱۷ ۔ کیاوہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح اسے پیداکیاگیا؟

۱۸ ۔اور آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح بلندی پر قائم کیا گیا؟

۱۹ ۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح وہ اپنی جگہ نصب ہوئے ہیں ؟

۲۰ ۔ اور زمین کی طرف کہ وہ کس طرح مسطح ہوئی ہے ؟ ۲۱ ۔ پس نصیحت کر کہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ۔

۲۲ ۔ تو ان پر مسلط نہیں ہے کہ انہیں ( ایمان لانے پر ) مجبور کرے ۔ ۲۳ ۔ مگر وہ شخص جو پشت پھیرے اور کافر ہوجائے ۔

۲۴ ۔ خد اجسے بہت بڑے عذاب کی سزا دے گا۔ ۲۵ ۔ یقینا ان کی باز گشت ہماری طرف ہے ۔

۲۶ ۔ اور یقینا ان کا حساب کتاب ہمارے پاس ہے ۔

اونٹ کی طرف دیکھوجوخود ایک آیت ہے

گزشتہ آیا ت میں بہت زیادہ بحثیں جنت اور اس کی آیتوں کے بارے میں آئی تھیں لیکن زیر بحث آیات میں ان نعمتوں تک پہنچنے کی اصل کلید کی گفتگو ہے جو اللہ کی معرفت ہے ۔ خدا کی قدرت کے چار مظاہر بیان کرکے خدا کی نادر خلقت اور انسان کو اس کے مطالعہ کی دعوت کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی راہ بتاتا ہے اور ضمنی طور پر یہ بھی اشارہ کرتا ہے کہ خدا کی قدرت بے پایاں ہے ، جو مسئلہ معاد کے حل کرنے کی کلید ہے ۔

پہلے فرماتا ہے :” کیا وہ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیداکیا گیا ہے “۔( فلاینظرون الیٰ الابل کیف خلقت ) یہاں پر ہر چیز سے پہلے اونٹ کی خلقت کو کیوں منتخب کیا گیاہے ؟ اس سلسلہ میں مفسرین نے بہت کچھ تحریر کیا ہے لیکن یہ چیز واضح ہے کہ ابتداء میں روئے زمین سخن مکہ کے عربوں کی طرف تھا ، جن کی زندگی کے بہت سے کام اونٹ سے وابستہ تھے ۔ اس سے قطع نظر یہ جانور عجیب و غریب خصوصیتوں کاحامل ہے ، جو اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہےں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ :

۱ ۔ بعض جانور ایسے ہیں کہ جنکے صرف گوشت سے فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے، بعض ایسے ہیں جن کے صرف دودھ سے استفادہ ہوتاہے ، بعض ایسے ہیں جو صرف سواری کے کام آتے ہیں اور بعض صرف بار داری کے کام آتے ہیں ، لیکن اونٹ ایسا جانور ہے جس میں یہ تمام خصوصیتیں پائی جاتی ہیں ۔ اس کا گوشت بھی قابل استعمال ہے اور دودھ بھی ۔ یہ سواری کے کام بھی آتاہے اور بار داری کے لئے بھی اسے کام میں لایا جاتا ہے ۔

۲ ۔ اونٹ زیادہ طاقتور اور زیاد قوت مقاوت رکھنے والا جانور ہے ۔ یہ بہت زیادہ سامان اٹھالیتا ہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس وقت وہ بیٹھا ہوا ہو تو

بھاری بوجھ اس پر رکھ دیتے ہیں اور ایک ہی حرکت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے سہارے کھڑا ہو جاتا ہے ، جبکہ دوسرے جانور اس قسم کا کام نہیں کرسکتے ۔

۳ ۔ اونٹ آٹھ دس روز تک پیاسا رہ سکتا ہے ، اور اس میں بھوک کو برداشت کرنے کی بھی بہت صلاحیت ہوتی ہے ۔

۴ ۔ اونٹ ہر روز راستے کی طولانی مسافت طے کرسکتاہے اور ایسی زمینوں سے ، جن میں سے گزرنا مشکل ہو جیسے ریگستان علاقہ ، جس کو عبور کرنا مشکل ہوتا ہے ، آسانی سے اس بناء پر عرب اسے صحرائی جہاز کہتے ہیں ۔

۵ ۔ وہ غذا کے اعتبار سے بہت ہی سستا ہے ، ہر قسم کے خاورو خس و خاشاک کھالیتا ہے ۔

۶ ۔ وہ غذا کے نامناسب حالات میں بیا بان کے ایسے طوفانوں کے درمیان ، جو آنکھ و کان کو بہرا کردیتے ہیں ، اپنے مخصوص وسائل کے ساتھ ، جو خد انے ان کی پلکوں ، کانوں اور ناک میں مہیا کئے ہیں ، مقابلہ کرتا ہو اپنے سفر کو جاری رکھتا ہے ۔

۷ ۔وہ اپنی پوری طاقت و قوت کے باوجود نہایت مطیع جانور ہے ۔ ایک چھوٹا سا بچہ بھی اونٹ کی مہار ہاتھ میں لے کر جدھر اس کا دل چاہے انہیں لے کر جاسکتا ہے ۔

مختصر یہ کہ اس جانور کی خصوصیات کچھ اس قسم کی ہیں کہ اگر اس کی خلقت کے بارے میں غور وفکر کیا جائے تو وہ انسان کو خالقِ عظیم کی طرف متوجہ کرتی ہے ، جو ایسی مخلوق کا پید اکرنے والا ہے ۔ جی ہاں ! قرآن میں ارشاد ہوتاہے:” کیا یہ وادی غفلت کے گمشدہ اس مخلوق کے حیران کن اسرار پر غور نہیں کرتے تاکہ انہیں حق کی راہ حاصل ہو ا ور یہ بے راہ روی سے بچ جائیں ؟“ یہ بات بغیر کہے واضح ہے کہ ” فلاینظرون “ کے جملہ میں نگاہ سے مراد عام نگاہ نہیں ، بلکہ ایسی نگاہ ہے کہ جس میں غو ر و فکر و تفکر و تدبر شامل ہو۔

اس کے بعد آسمان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرماتاہے :” کیاوہ آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح قرار دیاگیا ہے “۔( والیٰ السماء کیف رفعت ) آسمان اپنی عظمت کے ساتھ اور اپنے ان سب عجائبات کے ساتھ ستاروں اور کہکشاو ں کے ساتھ اور اس سارے جما ل و زیبائی و شکوہ کے ساتھ ، جس نے انسان کو درطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ،جس کی وجہ سے اپنے آپ کو وہ اس عظیم اور نظم و حساب سے پر جہان کے پید اکرنے والے کے مقابلہ میں چھوٹا اور ناچیز بلکہ اس لامحدود کے مقابلہ میں صفر کے برابر سمجھتا ہے ، کس طرح یہ عظیم کرّے اپنی اپنی جگہ پرمیخ کی طرح گڑے ہوئے ہیں اور بغیر ستون کے اپنی جگہ بر قرار ہیں ۔

اس نظام شمسی کے کرّوں کو عالم وجود میں آئے ہوئے لاکھوں سال گزر چکے ہیں ، لیکن ان کی حرکت اصلی کے محور تبدیل نہیں ہوئےآسمان کی خلقت اگرچہ ہمیشہ عجیب تھی لیکن موجودہ زمانہ کے علمی انکشافات کے سائے میں اس کے عجائبات کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں اور بھی نمایاں ہوگئی ہے کیا اس عالم عظیم کے خالق ومدبر کے بارے میں غور فکر نہیں کرناچاہیئے اوراسکے بلند وعظیم مقاصد کے قریب نہیں جانا چا ہییے؟اس کے بعد آسمان سے ہٹ کر زمین کو مو ضوع گفتگو بناتے ہوئے فرماتا ہے---: کیا وہ پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کس طرح اپنی جگہ پر نصب ہوئے ہیں -:( والی الجبال کیف نصبت ) وہ پہاڑ جن کی جڑیں ایک دوسرے سے متصل ہیں ، زمین کے اطراف کو زِرہ کے حلقوں کی مانند گھیرے ہو ئے ہیں اور اندرونی پگھلے ہوئے مادہ سے پیدا ہونے والے زلزلوں اور چاند و سورج کی قوت جاذبہ سے پیدا ہو نے والے مدّوجزر کم کرتے ہیں وہ پہاڑ جوان طو فانوں کے مقا بلہ میں قابل اطمینان پناہ گاہ اورڈھال ثابت ہو تے توکرہ زمین ایسے بیابانوں میں تبدیل ہو جاتا جن میں زندگی گزارنا نا ممکن ہوت وہ پہاڑ جو پانی کے ذخیروں کو اپنے اندر محفوظ کیے ہو ئے ہیں اور انہیں آہستہآہستہ پیاسی زمینوں کی طرف روانہ کرتے ہیں اوراپنے چاروں طرف زندگی کی مسرت، ہریالی، خوشی، طراوت اور ترو تازگی پیدا کرتے ہیں غا لباً یہی پہلو ہیں جن کی وجہ سے دوسری آیات میں پہاڑوں کو زمین کی میخیں کہا گیا ہےاصولی طور پر پہاڑ عظمت و صلا بت کے مظہر ہیں اور ہر

جگہ خیروبرکت کا سبب ہیں یہی وجہ ہے کہ انسان پہاڑوں پر تفکر کی زیادہ صلا حیت محسو س کرتا ہے اور یہ بات بلا سبب نہیں ہے کہ پیغمبراکرم اپنی بعثت سے مدتوں پہلے جبلِ نور اور غارِ حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے ۔

” نصبت“ نصب کے مادہ سے ثابت قرار دینے کے معنی میں ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ تعبیر ضمنی طور پر آغازخلقت میں پہاڑوں کی خلقت کی کیفیت کی طرف اشارہ ہو وہی چیز جس پر سے موجودہ علم نے پردہ اٹھایا ہے ، اسے پہاڑوں کی خلقت کے متعدد اسباب و عوامل کی طرف نسبت دی ہے اور ا ن کے لئے انواع و اقسام کی قائل ہے ۔

وہ پہاڑ جو زمین کے گھومنے کی وجہ سے پید اہو تے ہیں وہ پہاڑجو آتش فشانیوں کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں ، وہ پہاڑ جو بارش سے پیدا ہونے والے جھاگ کا نتیجہ ہیں ، وہ پہاڑجو سمندروں کے اندر بنتے ہیں اور جو سمندر کی کیچڑ اور اس میں پھنس جانے والے جانوروں کا مجموعہ ہیں ۔ ( مثلا ً مرجانی پہاڑ اور جزیرے )۔

جی ہاں ! ان پہاڑوں میں سے ہر ایک کی بناوٹ اور اس کے آثار و بر کات مشکل سے سمجھ میں آنے والے ہیں ، اہمیت کے حامل بھی اور بیدار مغز انسانوں کے لئے قدرتِ حق کی نشانیاں بھی ۔

اس کے بعد زمین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتاہے : ”کیا وہ زمین کی طرف نہیں دکھتے کہ وہ کس طر ح مسطح ہوئی ہے “۔( و الیٰ الارض کیف سطحت )

کس طرح مسلسل بارشوں نے پہاڑوں کو غسل دے کر مٹی کے ذرات کو وجود دیاہے ، پھر گڑہوں کو وسعت دے کر ایسی صاف زمین تیار کی ہے جو زراعت کے لئے بھی موزوں ہے اور ہر قسم کی تعمیر کے لئے بھی اور اسے انسانوں کے اختیار میں دے دیا گیا ہے ۔

اگر تمام کرّہ زمین پہاڑوں اور درّوں پر مشتمل ہوتا تو اس پر زندگی گزارنا کس قدر مشکل او رطاقتو ر ہوتا۔ وہ کون ہے جس نے ہمارے پیداہونے سے پہلے اسے مسطح کرکے قابلِ استفادہ بنایا ۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن پر غور و فکر کی قرآن ہمیں دعوت دیتا ہے ۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان چاروں امور کے درمیان کونسا ربط ہے : اونٹ ، آسمان ، پہاڑ اور زمین ۔ فخر رازی اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ :

یہ اس بناپرہے کہ قرآن عربی میں نازل ہوا ہے اور عرب عا م طور پر سفر میں رہتے تھے چونکہ ان کے علاقہ میں زراعت اور کھیتی باڑی نہیں تھی اور ان کے سفر زیادہ تر اونٹوں پر ہی ہوتے تھے ۔ جب وہ ہولناک بیابانوں اور غیر آباد ریگستانوں میں سفر کرتے تھے تو ان میں تفکر کا مادہ پیداہو تا تھا ۔ کوئی موجود نہ ہوتا جس سے وہ بات کرتے ۔ کوئی چیز ایسی نہ ہوتی جو ان کی آنکھ اور کان کو اپنی طرف متوجہ رکھتی ۔ ایسی حالت میں جب وہ غور و فکر کرتے تو سب سے پہلے ان کی نظر اونٹ پر پڑتی جس پر وہ سوار ہوتے تھے ۔ وہ اس کا عجیب منظر دیکھتے اور سوچ میں ڈوب جاتے جب وہ سر اٹھا کر اوپر کی طرف دیکھتے تو آسمان کے علاوہ کوئی چیز انہیں نظر نہیں آتی ۔ جب دائیں بائیں نگاہ کرتے تو پہاڑوں کے سوا انہیں کچھ نظر نہیں آتا ، اور جب اپنے قدموں کی طرف دیکھتے تو زمین کے علاوہ کوئی چیز موجود نہ ہوتی ، گویا خدا انہیں دعوت فکر دے رہاہے اور دعوتِ فکر بھی ایسی جوتنہائی موقع پر دی جائے اور اس کا دائرہ صرف چار چیزوں تک محدود ہو۔(۱)

لیکن اگر ہم چاہیں کہ ہم عربوں کے ماحول سے نگاہ ہٹا کر زیادہ وسیع فضا میں غور و فکر کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ چاروں امور ، اوپر والی آیت میں آئے ہیں انسانی زندگی کی بنیاد کو تشکیل دیتے ہیں ۔ آسمان نور و روشنی کامرکز ہے اور بارش ہوا کابھی ۔ زمین انواع و اقسام کے موادِ غذائی کی پرورش کا مرکز ہے ۔

پہاڑ آرام و سکون کی رمز اور پانی اور معانیات کا ذخیرہ ہیں ۔

اونٹ خانگی جانوروں کا نمونہ ہے جسے انسان کے اختیار میں دیاگیا ہے اس طرح زراعت کے مسائل اور صنعت و کاریگری کے مسائل انہیں چاروں میں پوشیدہ ہیں ۔ان گوناگوں نعمتوں کے بارے میں غور وفکر بہر حال انسان کو شکر منعم حقیقی پر ابھار تاہے اور شکر منعم انہیں اللہ کی معرفت اور خالقِ نعمت کی شناخت کی دعوت دیتا ہے ۔

توحید سے متعلق اس بحث کے بعد پیغمبر کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے :” اب جب ایساہی ہے تو انہیں یاد دلا اور نصیحت کر اور تو،تو صرف یاد دہانی کرانے والا ہی ہے ۔ “( فذکر انما انت مذکر ) ۔ تو ان پر بالکل مسلط نہیں کہ انہیں ایمان لانے پر مجبور کرے ۔( لست علیهم بمصیطر ) ۔

جی ہاں ! آسمان و زمین ، پہاڑوں اور جانوروں کی خلقت بتاتی ہے کہ یہ عالمِ ظاہر حساب و کتاب کے بغیر نہیں ہے اور ا سکی خلقت کا کوئی ہدف و مقصد ہے۔ اب جبکہ ایسا ہی ہے تو تو انہیں یا د دہانیوں اور نصیحتوں سے خلقت و آفرینش پر غور کرنے کی تلقین کر، انہیں قرب خدا کی راہ دکھا اور راہ تکامل اور ارتقا میں ان کا رہبر و رہنما بن جا ۔

البتہ راہ کمال اسی صورت میں طے کی جاتی ہے جب ارادہ و اختیار کے ساتھ میل و رغبت بھی شامل ہو۔ وہ تکامل و ارتقاء جوحالت ِ جبر کے نتیجے میں ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ تو انہیں مجبور نہیں کرسکتا اور اگر مجبور کربھی سکتاتو کوئی فائدہ نہیں تھا ۔

بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حکم فرمانِ جہاد کے نزول سے پہلے تھا اور حکم جہاد کے نزول سے یہ حکم منسوخ ہو گیا یہ کہنا برا اشتباہ اور غلطی ہے ۔ پیغمبر کے تذکر اور تبلیغ کا سلسلہ پہلے دن سے شروع ہوا اور آپ کی زندگی کے آخری دن تک جاری رہا ۔

آپ کے بعد بھی آپ کے جانشینوں اور علمائے دین کے ذریعہ جاری و ساری رہا اور ہے ۔ یہ فسخ ہونے والی چیز نہیں ہے ۔ اسی طرح لوگو کوں ایمان لانے پر مجبور نہ کرنا بھی ایک بنیادی با ت ہے ،جہاد کا مقصد بھی زیادہ تر سر کش افراد سء جنگ کرنا ہے اور حق طلب لوگوں کے راستے سے رکاوٹوں کو دور کرنا ہے ۔

یہ مفہوم اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ نساء کی آیت ۸۰ میں آئی ہے ، جس میں فرماتاہے:( ومن تولیّٰ فما ارسلناک علیهم حفیظاً ) ” اور جو شخص رو گردانی کرے تو ہم نے تجھ کو اس کا ذمہ دار نہیں بنایا ، اور سورہ انعام کی آیت ۱۰۷ اور شوریٰ کی آیت ۴۸ میں انہیں معانی کو بیان کرتی ہیں ۔

” مصیطر“ سطرکے مادہ سے کتاب کی سطور کے معنی میں ہے اور مسیطر وہ شخص ہے سطروں کو مرتب کرتا ہے اس کے بعد ہر وہ شخص جو کسی چیز پرمسلط ہو اور اسکو منظم کرے یا اسے کسی کام کے انجام دینے پر مجبور کرے ۔

بعد والی آیت میں ایک استثناء کی شکل میں فرماتاہے :” مگر وہ شخص جو پشت پھیرے اورکافر ہو جائے “( الا من تولیٰ و کفر ) ۔” اسے خدا ایک بہت بڑے عذاب کی سزا دے گا “۔( فیعذ به الله العذاب الاکبر ) ۔ یہ با ت کہ یہ استثناء کس جملے سے متعلق ہے ، اس کی مختلف تفسیریں ہیں ۔

پہلی یہ کہ فذکر کے جملے کے مفعول سے استشناء ہے۔ یعنی ضروری ولازمی نہیں ہے کہ ان معاند افراد سے روگردانی کرتے ہیں اور پند و نصیحت کو قبول نہیں کرتے تُو نصیحت کر اور یاد دہانی کرا۔ حقیقت میں یہ اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ زخرف کی آیات ۸۳ میں آئی ہیں( فذر هم یخوضوا و یلعبوا حتی یلاقوا یو مهم الذی یوعدون ) ” انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے تاکہ وہ اپنے باطل میں الجھے رہیں اور کھیل کود میں لگے رہیں ، یہاں تک کہ وہ دن آ جائے جس کا وعدہ کیا گیا ہیں “دوسرے یہ کہ ایک محذوف جملے سے استشناء ہے اور معنوی طور پر اس طرح ہے” نصیحت کر اس لئے کہ نصیحت سب لوگوں کے لیے نفع بخش ہے، مگر وہ جو حق کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں “اس چیز کے مشابہ جو سورہ اعلی کی آیت ۹ میں آئی ہے( فذکر ان نفعت الذکری ) اس بنا پر کہ آیت معنی شرط رکھتی ہو۔ تیسرے یہ کہ”علیہم“ کی ضمیر سے استشناء ہے جو گز شتہ آیت میں ہے تُو ان پر کوئی تسلط نہیں رکھتا، مگر وہ لوگ جو رد گرداں ہو جائیں اور راہِ عناد اختیار کریں تیری ذمہ داری ہے کہ ان سے مقا بلہ کریں(۲)

یہ سب تفا سیر اس صورت میں ہیں کہ اگر استثناء اصطلاح کے مطابق متصل ہو، لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ استثناء منقطع ہو، جو تقر یباََ بلکہ کا مفہوم رکھتا ہے اور جملہ کے معنی اس طرح ہیں ” بلکہ وہ لوگ جو رو گرداں ہو جائیں اور کافر ہو جا ئیں توخدا ان پر مسلط ہے یا خداانہیں بہت بڑے عذاب کی خبر دے گ“ ان تفسیروں میں سے دو تفسیریں سب سے زیادہ مناسب ہیں پہلی یہ کہ استثناء متصل ہو اور لست علیہم بمصیطر کے جملے کی طرف لوٹے، جو طا قتوروں کے مقابلہ میں طاقت سے کام لینے کی طرف اشارہ ہو یا استثناء متصل ہو اور ہٹ دھرم کا فروں کے لئے عذابِ الٰہی کی خبر کے معنوں میں ہو۔ عذابِ اکبر لے مراد آخرت کا عذاب ہے، دنیا کے عذاب کے مقابلہ میں جو چھوٹا ہے اور کم اہم ہے جیسا کہ سورہ زمر کی آیت ۲۶ میں ہم پڑھتے ہیں( فاَ ذا قهم الله الخذی فی الحیوة الدنیا ولعذاب الاٰخرة اکبر ) خدا نے ذلت و خواری کا مزہ انہیں اس دنیا میں چکھا یا اور آخرت کا عذاب اکبر ہے۔ یہ احتمال بھی ہے کہ عذابِ اکبر سے مراد عذابِ قیا مت و دوزخ کا شد ید ترین حصہ ہے اس لئے کہ دوزخ میں تمام مجرموں کا عذاب ایک جیسا نہیں ہے۔ اس سورہ کے آخر میں تہد ید آمیز لہجے میں فرماتا ہیں :” یقینا ان کی باز گشت ہماری طرف ہے“( انّ الینا ایابهم ) --۔ اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے:” اس کے بعد یقینا ان کا حساب ہمارے ہاتھ میں ہے“( ثم انّ علینا حسا بهم ) یہ حقیقت میں پیغمبر کے دل کے لئے ایک قسم کی تشفی و تسلی ہے کہ کافر وں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پر یشان و غمزدہ نہ ہوں اور اپنے کام کو جاری رکھیں ضمنی طور پر یہ سب ہٹ دھرم کا فروں کی دھمکی ہے تاکہ وہ جان لیں کہ ان کا حساب و کتاب کسی کے اختیار میں ہے۔ اس طرح سورہ غاشیہ جو قیامت کے موضوع سے شروع ہورہا تھا، قیامت ہی کے موضوع پر ختم ہورہا ہے درمیان میں تو حید و نبوت کی طرف جو قیامت کی بنیادوں کو تشکیل دیتے ہیں ، اشارہ ہو ا ہے۔ اس سورہ کی ابتدا ئی آیات کے ضمن میں مجرموں کو ملنے والی سنگین سزاؤں کا ایک حصہ اوراس کے بعد مو منین کے روح پرور حساب کا اہم حصہ آیا ہےضمنی طور پر راستے کے انتخاب کااختیار دیا گیا ہے اور ساتھساتھ انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ سب کی بازگشت خدا کی طرف ہے اور اس کو ان سے حساب لینا ہے ساتھ ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر تبلیغِ رسالت پر ما مور ہیں اور لوگو ں کے کفر و گناہ کے ذمہ دار ہیں راہِ حق کے تمام مبلغین کی ذمہ داری اسی قسم کی ہوتی ہے خدا وندا-! جس دن تمام مخلوقات کی باز گشت تیری طرف ہے اور سب کا حساب تجھے لینا ہے، ہم پر اپنا لطف و کرم کییجو۔

پروردگارا! ہمیں اپنی رحمتِ کبریائی سے کام لے کر عذابِ اکبر سے رہائی بخش بارِ الہا! تیری جنت کی نعمتیں جن کا ایک گو شہ تُو نے اس سورہ میں بیان کیا ہے، بہت ہی بیش بہا اور شو ق انگیز ہیں ۔

اگر ہم اپنے اعمال کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں ہیں تو تو ہمیں ان کو اپنے فضل و کرم سے مرا حمت فر ما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۱، ص۱۰۸۔

۲۔ایک حدیث سے جو در المنثور میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر کی ذمہ داری تھی کہ بُت بر ستوں سے جنگ کریں اور اس صورت کے علاوہ باقی حالات میں ان کی ذمہ داری صرف یہ تھی کہ نصیحت کریں ۔