تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65340
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65340 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ فجر

یہ سورہ مکہّ میں نازل ہوا۔ اس میں تیس آیات ہیں ۔

سورہ فجر کے مشمولات

یہ سورہ بہت سے دوسرے سوروں کی طرح، جو مکّے میں نازل ہوئے، مختصر، متز لزل کر دینے والی، پُر جلال اور بہت زیادہ ڈرا نے والی آیات کا حامل ہے اس سورہ کے پہلے حصّہ میں ہمیں بہت سی قسمیں ملتی ہیں جواپنی نوعیت کے لحاظ سے نئی ہیں اور یہ قسمیں ظالموں کے لئے عذابِ الہی کی تہدید کے طور پر ہیں ۔ اس سورہ کے دوسرے حصہ میں گزشتہ سر کشی کرنے والی بعض اقوام ، مثلا-قومِ عاد وثمود و فر عون اوران سے خدا شدید انتقام لینے کی طرف اشارہ ہے، تا کہ دوسری طاقتیں اپنے انجام پر غور کریں ۔ اس سورہ کے تیسرے حصہ میں مسئلہ معاد اور مجر مین و کا فرین کی سر نوشت اوراسی طرح مومنین کے اجر کو، جو صا حب نفس مطمّنہ ہیں ،موضوع بنا یا گیا ہے

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلہ میں ہمیں ایک حدیث پیغمبر اسلام کی ملتی ہے(من قراء ها فی لیال عشر غفر الله له ومن قراء ها سائر الا یام کانت له نوراَ یوم القیامت ) جو شخص اسے دس را توں ( اول ذی الحج کی دس راتوں ) میں پڑھے، خدا اس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اورجو شخص باقی ایام میں پڑھے تو قیا مت کے دن اس کے لئے نور و روشنی ہوگی(۱)

ایک حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام کی ہے کہ سورہ فجر کو ہر واجب او ر مستحب نماز میں پڑھو کہ یہ حسین بن علی کا سورہ ہے ۔ جو شخص اسے پڑھے گاوہ قیامت میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بہشت میں ان کے درجہ میں ہو گا ۔(۲)

اس سورہ کا تعارف سورہ امام حسین علیہ السلام کے عنوان سے ممکن ہے کہ اس وجہ سے ہو کہ نفس مطمئنہ کا واضح مصداق ، جو اس سور ہ کی آخری آیات میں واقع ہوا ہے ، حسین بن علی علیہ السلام ہیں ، جیسا کہ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہی آیات کے ذیل میں آیاہے ۔ یا پھر اس بناء پر کہ لیال عشر (دس راتوں سے مراد) تفسیر محرم الحرام کی پہلی دس راتیں ہیں جو حسین بن علی علیہ السلام سے خاص رابطہ رکھتی ہیں ۔ بہر حال یہ سب اجر و ثواب و فضیلت ان اشخاص کے لئے ہے جو اس کی تلاوت کو اپنی اصلاح اور تربیت کی تمہید قرار دیں ۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و الفجر ) ۔ ۲ ۔( و لیال عشر ) ۔ ۳ ۔( والشفع و الوتر ) ۔

۴ ۔( و اللیل اذا یسر ) ۔ ۵ ۔( هل فی ذٰلک قَسَمٌ الذی حِجر ) ۔

ترجمہ

رحمن و رحیم خدا کے نام سے

۱ ۔ صبح کی قسم ۔ ۲ ۔ اور دس راتوں کی ۔ ۳ ۔ اور زوج و فرد کی ۔

۴ ۔ اور رات کی جب وہ ( دن کی روشنی کی طرف) حرکت کرتی ہے قسم ہے ( کہ تیرا پر ور دگار ظالموں کی گھات میں ہے )۔

۵ ۔ کیا جو کچھ کہا گیا ہے اس میں صاحبان عقل کے لئے اہم قسم نہیں ہے ؟

تمہاری صبح کی سفیدی کی قسم

اس سورہ کے آغاز میں پانچ بیدار کرنے والی قسموں کی طرف اشارہ ہواہے ۔ پہلے فرماتا ہے :” قسم ہے فجر اور رات کے سیاہ پردے کے چاک ہونے کی “۔

( و الفجر ) ۔ ” اور قسم ہے دس راتوں کی “ ۔( و لیال عشر ) ۔

”فجر “ اصل میں وسیع شگاف کے معنی ہے ، چونکہ صبح کا نور شب کی تاریکی میں شگاف ڈال دیتاہے ، لہٰذااسے فجر کہا گیا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ فجر دو قسم کی ہے ، کاذب اور صادق ۔ فجر کاذب طولانی سفیدی ہے جو آسمان میں ظاہر ہوتی ہے اور اسے لومڑی کی دم سے تشبیہ دیتے ہیں ۔جس کا باریک نقطہ افق کی طرف ہے اوراس کا قاعدہ ِ مخروط وسط آسمان میں ہے ۔

فجر صادق ابتداء ہی سے افق میں و سعت پیدا کر تی ہے۔ اس میں نور انیت اور صاف قسم کی شفا فیت ہوتی ہے۔ وہ آب زلال کی نہر کی مانند افق مشرق کو گھیر لیتی ہے۔ اس کے بعد پور ے آسمان میں پھیل جاتی ہے۔ فجر صادق رات کے ختم ہونے اور دن کے آغاز کا اعلان ہے۔ اس مو قع پر روزہ داروں کو اکل وشرب سے ہاتھ کھینچ لینا چا ہئے۔ اس وقت صبح کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔

بعض مفسرین نے اس آیت میں فجر کے اس کے مطلق معنی یعنی صبح کی سفیدی مراد لی ہے ، جو یقینا عظمتِ پروردگار کی ایک نشانی ہے ، یہ انسانوں اور تمام زمینی موجودات کےلئے نورکی حاکمیت کے آغاز اور ظلمت کے ختم ہونے کا نقطہ عطفیٰ ہے ۔ یہ زندہ موجودات کی جنبش و حرکت کا آغاز نیند و سکوت کا اختام ہے ۔ ا س زندگی کی بناء پر خدا اس کی قسم کھاتا ہے ۔

لیکن بعض مفسرین نے ا س سے نئے سال کا پہلا دن یعنی پہلی محرم مراد لی ہے بعض نے اس کی تفسیر عید قربان کی فجر کی ہے جس میں حج کے اہم مراسم انجام پاتے ہیں اور یہ دس راتوں سے متصل ہے،بعض نے اس کو ماہ رمضان مبارک کی صبح قرار دیاہے اور بعض نے روزِ جمعہ کی فجر سمجھا ہے ۔ لیکن آیت کا وسیع مفہوم ہے جو ان سب مفاہیم پر حاوی ہے ، اگر چہ اس کے بعض مصداق دوسرے بعض مصداقوں سے زیادہ واضح اور اہم بھی ہیں ۔

بعض نے آیت کے معنی اس سے زیادہ وسیع سمجھے ہیں او رکہا ہے کہ فجر سے مراد ہر وہ روشنی ہے جو تاریکی میں چمکتی ہے ۔ اس بناء پر اسلام اور نور پاک ِ محمدی کا عصر جاہلیت پر طلوع ہونا اس فجرکا ایک مصداق ہے اسی طرح قیام محمدی کی صبح کی سفیدی کا عا لم کے ظلم و ستم کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے ہونے کے وقت چمکنا ، اس کا ایک دوسرا مصداق شمار ہوتا ہے جیسا کہ بعض روایات میں ا سکی طرف اشارہ ہواہے ۔(۳)

علیٰ ہٰذا دشتِ کربلا میں عاشورہ حسینی کا قیام اور اس کا بنی امیہ کے مظالم کے تاریک پردوں کو چاک کرنا اور ان دیو صفت لوگوں کے حقیقی چہروں کو بے نقاب کرنا ، اس کا ایک اور مصداق ہے ۔

اسی طرح تمام سچے انقلاب ، جو کفر و جہالت اور ظلم و ستم کے خلاف گزشتہ اور موجودہ تاریخ میں برپاہوتے ہیں ، نہ صرف وہ فجر کے مصداق ہیں بلکہ بیداری کا وہ شعلہ جو گنہگاروں کے تاریک دل میں ظاہر ہوتا ہے اور انہیں توبہ کی دعوت دیتا ہے ، وہ فجر ہے ، البتہ یہ آیت کے مفہوم کی ایک وسعت ہے جبکہ ظاہر آیت وہی فجر ہے ، یعنی سپیدہ صبح کا طلوع ہونا۔

باقی رہا ”لیال عشر “ ( دس راتیں ) تو مشہور وہی ذو الحجہ کی دس راتیں ہیں جو مسلمانانِ عالم کے سیاسی اور عبادتی عظیم ترین اور نہایت متاثر کرنے والے اجتماعات کی گواہ ہیں ۔ یہ معانی ایک حدیث میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے واسطے سے پیغمبر اسلام سے منقول ہوئے ہیں ۔(۲)

بعض مفسرین نے ان دس راتوں کو ماہ مبارک ِ رمضان کی آخری دس راتیں قرار دیاہے جن میں شب قدر ہے ۔ بعض نے محرم کی ابتدائی دس راتو ں کو ” لیال عشر“ کا مصداق قرار دیا ہے ۔ ان تینوں تفسیروں کوجمع کرنا بھی مکمل طور پر ممکن ہے ۔

بعض ایسی روایات جو بطون قرآن کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان کے مطابق فجر سے مراد حضرت مہدی کا وجود ذی جود ہے اور یہاں عشر ان کے پہلے کے دس ائمہ ہیں اور شفیع جو بعد والی آیت میں آیاہے ، اس سے مراد حضرت علی و حضرت فاطمة الزھر ہیں بہر حال دس راتوں کا خواہ اس کی تفسیر کچھ بھی کیوں نہ ہو، ان کی حد سے زیادہ اہمیت کی دلیل ہے ۔ اس لئے کہ قسم ہمیشہ اہم امور کی کھائی جاتی ہے ۔(۵)

ان تمام معانی کی جمع بھی ممکن ہے ۔

اس کے بعد قسموں کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتا ہے :” جفت و طاق کی قسم “( و الشفع و الوتر ) یہ کہ شفع و وتر ( زوج و فرد) سے اس آیت میں کیا مراد ہے ، مفسرین نے بہت سے اقوال اور احتمال بیان کئے ہیں ۔ بعض نے بیس اقوال تک پیش کئے ہیں ۔(۶)

اور بعض نے اس سے بھی زیادہ یعنی ۳۶/ اقوال تک نقل کئے ہیں ۔(۷)

ان میں سے زیادہ اہم امور مندرجہ ذیل اقوال ہیں :

۱ ۔ مراد ،زوج و فرد اعداد ہیں ۔ اس تفسیر کے مطابق خدا نے ان تمام اعداد کی قسم کھائی ہے جو زوج و فرد سے تشکیل پاتے ہیں ۔ وہ اعداد ایسے ہیں کہ تمام حسا بات اور تمام نظام ان کے محور کے گردگھومتے ہیں اور انہوں نے سارے عالم معنی کو گھیر رکھا ہے گویا فرماتا ہے :

قسم ہے نظم و ضبط اور حساب و کتاب کی ، اور حقیقت میں عالم ِ ہستی میں اہم ترین مفہوم یہی نظم وحساب اور عدد کا مسئلہ ہے جو انسانی زندگی میں اصل بنیاد کو تشکیل دیتا ہے ۔

۲ ۔ شفیع سے مراد مخلوقات ہیں کیونکہ ساری مخلوق جو ڑا جو ڑا ہیں اور ایک دوسرے کے قرین ہے جب کہ وتر سے مراد خد اہے ، جس کی شبیہ و نظیر و مانند و مثل نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ تمام ممکنات ماہیت و وجود سے مرکب ہیں ، جسے فلسفہ میں زوج ترکیبی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ صرف غیر متناہی شئے جو ماہیت کے بغیر ہے، وہ خدا کی اپنی ذات ہے ، اس تفسیر کی طرف معصومین علیہم السلام کی بعض روایات میں اشارہ ہوا ہے ۔(۸)

۳ ۔ زوج و فرد سے مراد اس جہان کی تمام مخلوق ہے جو ایک لحاظ سے زوج اور ایک لحاظ سے فرد ہے ۔

۴ ۔ مراد نمازیں ہیں جن میں رکعات کی تعداد کے لحاظ سے بعض زوج اور بعض فرد ہیں ۔ یہ معنی بھی ایک روایت میں معصوم سے نقل ہوئے ہیں ۔(۹)

۵ ۔ شفع سے مراد روز ترویہ ہے ( آٹھویں ذی الحج جس دن حاجی عرفات کی طرف کوچ کر نے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں ) اور وتر سے مراد عرفہ کا دن ہے ( دس ذی الحج ) اور وِترسے مرادعرفہ کا دن ہے ۔ یہ تفسیر بھی معصومین علیہم السلام کی روایات میں آئی ہے ۔(۱۰)

دہ بات یہ ہے کہ اگر الف لام ان دونوں الفاظ میں عموم کے لئے ہوں تو یہ تمام معانی اس میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ ان تفسیروں میں سے ایک تفسیر کی کوئی نہ کوئی مصداق ہے ۔ شفع و وِتر کا خصوصیت سے ذکر ہونا اس مفہوم میں مخصوص ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ایک واضح مصداق سے مطابقت رکھنے کی قسم سے ہے ۔ لیکن الف لام ان دونوں میں عہد کاہوتو پھر خاص قسم کے زوج و فرد کی طرف اشارہ ہوگا اور یہاں گزشتہ قمسوں کی مناسبت سے سب سے زیادہ دو معنی مناسب ہیں :

ایک یہ کہ عید کا دن اور عرفہ کا دن ہو جو ذی الحج کی ابتدائی دس راتوں سے مکمل طور پر مناسبت رکھتا ہے اور مناسک ِحج کا اہم ترین حصہ انہیں دونوں میں انجام پاتاہے ۔ یایہ کہ مراد نمازیں ہوں جو فجر کی قسم کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں ، جو سحر کا اور بار گاہ ِ خدا میں راز و نیاز کا وقت ہے ، خصوصاً جبکہ یہ دونوں تفاسیر

ان روایا ت میں بھی وارد ہوئیں ہیں جو معصومین سے مروی ہیں ۔

آخر میں آخری قسم میں فرماتا ہے :” اور قسم ہے رات کی جبکہ وہ صبح اور دن کی روشنی کی طرف جاتی ہے “( و اللیل اذا یسر ) (۱۱)

کیسی پر کشش اور عمدہ تعبیر ہے کہ چلنے کی نسبت رات کی طرف وہی ہے ، وہ بھی رات کو چلنا اس لئے کہ ” یسر“۔ ” سری“ کے مادہ سے ( بروزن شما) بقول راغب مفردات میں رات کے چلنے کے معنی میں ہے ۔ گویا رات ایک زندہ وجود ہے اور حسّ و حرکت رکھتی ہے جو تاریکی میں قدم بڑھاتی ہے اور روشنی کی طرف جاتی ہے ۔

جی ہاں ! اس تاریکی کی قسم کھائی ہے جس کا رخ روشنی کی طرف ہے ، متحرک تاریکی نہ کہ ٹھہری ہوئی ۔

تاریکی اس وقت وحشت ناک ہوتی ہے جب وہ رکی ہوئی ہو لیکن اس میں اگر نور و روشنی کی طرف حرکت ہو تو اس کی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہاہے کہ ظلمت ِ شب کرہ زمین پر حرکت کی حالت میں ہے اور اصولی طور پر جو رات اہم مفید اور حیات بخش ہے وہ وہی رات ہے جو حرکت کی حالت میں ہو ، یعنی جو مستقل طور پر بتدریج خود کو دن سے تبدیل کرے ، اس لئے کہ اگر رات کرّہ زمین کے نصف حصہ پر جاکر رک جائے اور میخ کی طرح گڑ جائے تو وہ آدھا حصہ بھی ختم ہوجائے اور دوسرا آدھا حصہ بھی جو ہمیشہ سورج کی روشنی کے مقابل ہو:

رات سے مراد یہاں کیا ہے ؟ کیاسب راتیں مراد ہیں ، یا کوئی خاص رات ؟

اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اگر اس کا الف لام عموم کے لئے ہو تو اس میں تمام راتیں شامل ہوں گی ، جو خدا کی آیات میں سے خود ایک آیت ہے اور آفرینش کے مظاہر میں سے خود ایک مظہر ہیں ۔ اگر اس کا الف لام عہد ہو تو پھر معین رات کی طرف اشارہ ہے اور گزشتہ قسموں کی مناسبت سے مراد عید قربان کی رات ہے جس میں حجاج کرام مزدلفہ ( مشعر الحرام ) کی طرف اور اس وادیِ مقدس میں رات گزارنے کے بعد طلوع آفتاب کے وقت سر زمین منیٰ کی طرف راونہ ہوجاتے ہیں ۔یہ تفسیر معصومین علیہم السلام سے منقول روایات میں بھی آئی ہے ۔(۱۲)

جن لوگوں نے اس رات کا منظر قریب سے عرفات و مشعر میں دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ہرگز گوشہ و کنار سے لاکھوں افراد کی حالت میں ہوتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رات اپنے وجود کے ساتھ حرکت کر رہی ہے یہ ٹھیک ہے کہ حاجی چل رہے ہوتے ہیں ، لیکن یہ حرکت عمومی اس قدر وسعت رکھتی ہے گویا زمین و زمان سب حرکت میں ہوں اور یہ سب اس وقت محسوس ہوتا ہے جب انسان عید کی رات اس سر زمین میں ہو اور و اللیل اذا یسر کے معنی اپنی آنکھوں دیکھے ۔ بہر حال رات کسی بھی معنی میں ہو ، عام یا خاص ، عظمت الہٰی کی نشانی ہے اور عالم ہستی کے اہم موضوعات میں سے ہے ۔

رات ہَوَاکی حرارت میں اعتدال پید اکرتی ہے ، تمام موجودات کو آرام پہنچاتی ہے اور بارگاہ خدا میں راز و نیاز کے لئے فضا میں سکون پید اکرتی ہے ۔ باقی رہی عید قربان کی رات جس کا نام ( لیلة جمع ) ہے ، وہ بھی اس مقدس وادی مشعر الحرام میں سال کی عجیب ترین رات ہے ۔

بہرحال ان پانچ قسموں کا رشتہ ( فجر کی قسم ، دس راتوں کی قسم ، زوج و فرد کی قسم اور رات کی قسم ) اس صورت میں بالکل واضح ہے جب ہم ان سب کو ایام ذی الحج اور حج کے عظیم مراسم سے متعلق سمجھیں ۔

اس صورت حال کے علاقہ پھر عالم تکوین اور عالم تشریع کے اہم حوادث کے مجموعہ کی طرف اشارہ ہے جو خدا کی عظمت کی نشانیاں ہیں اور عالم ہستی کے عجیب و غریب اور حیران کن مظاہر ہیں ، ان پر معنی اور بیدار کر نے والی قسموں کے بعد ارشاد ہوتاہے :

” کیا کچھ کہاگیاہے اس میں صاحبان خرد کے لئے اہم قسم ہے “( هل فی ذالک قسم لذی حجر ) ۔ حجر یہاں عقل کے معنی میں ہے اور اصل میں

منع کے معنی میں ہے ۔ مثلاًکہاجاتا ہے کہ قاضی نے فلاں شخص کو حجر ( بر وزن زجر) کیا یعنی اسے اس کے اموال میں تصرف کرنے سے منع کر دیا ۔ یایہ کہ کمرہ کو حجرہ کہا جاتا ہے ، اس لئے کہ وہ ایک محفوظ و ممنوع جگہ ہوتی ہے کہ اس میں دوسرے وارد نہیں ہوسکتے ۔

دامن اور آغوش کو حجر (بر وزن فکر) کہا جاتاہے دوسروں سے محفوظ ہونے اور ممنوع ہونے کی وجہ سے اور عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے لہٰذا اسے حجر سے تعبیر کیا گیا ہے ، جیسا کہ خود لفظ عقل کے معنی بھی خود منع کرنے کے ہیں ۔ اسی لئے وہ رسّی جسے اونٹ کے گھٹنے میں باندھتے ہیں کہ اسے چلنے پھرنے سے روکیں ، عقال کہلاتی ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ منقسم بہ ( وہ چیز جن کے لئے یہ قسمیں کھائی گئی ہے) کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں دواحتمال ہیں ، پہلا یہ کہ جملہ( ان ربک البالمرصاد ) تیرا پروردگار کمینگاہ میں ہے ، اس قسموں کا جوابِ قسم ہے ۔ دوسرا یہ کہ جوابِ قسم محذوف ہے اور آنے والی آیات میں جو سر کشوں کی سزا اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کی بات کرتی ہے اور وہ اس پر گواہ ہیں ۔ یہ معنی کے لحاظ سے اس طرح ہے ۔ قسم ہے ان چیزوں کی جو کہی ہیں کہ ہم کافروں اور سر کشوں پر عذاب نازل کریں گے(۱۳)

____________________

۱۔ مجمع البیان ،جلد۱۰ص ۴۸۱۔

۲۔ مجمع البیان ،جلد۱۰ص ۴۸۱۔

۳۔ یہ معنی امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں نقل ہوئے ہیں ۔ تفسیر بر ہان ، جلد ۴، ص ۴۵۷، حدیث ۱۔

۴۔ تفسیر ابو الفتوح رازی، جلد، ۱۲ ، ص ۷۴

۵۔ اگر چہ ” لیال عشر“ یہاں نکرہ کی شکل میں بیان ہوئی ہیں لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ نکرہ یہاں بیان عظمت کے لئے ہے ، لہٰذا یہ عہد کا مفہوم پیدا کرتی ہیں اور یہ ان

مخصوص راتوں کی طرف اشارہ ہے جو اوپر بیان ہوئی ہیں ۔

۶۔ تفسیر فخر رازی ، جلد ۳۱، ص ۱۶۴۔

۷۔ علا مہ طباطبائی نے المیزان میں بعض مفسرین سے جلد ۲۰ ، ص ۴۰۶ پر نقل کیا ہے اور روح المعانی نے تحریر و التجیر سے جلد ۳۰ ص ۱۲۰ پر نقل کیا ہے ۔

۸۔ ابو سعدی خدری نے اسے پیغمبر سے نقل کیاہے ۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۸۵۔

۹۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۸۵۔

۱۰۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰، ص ۴۸۵۔

۱۱۔ یسر اصل میں یسری ہے جو مادہ سری کا فعل مضارع ہے اس کے بعد اس کی یا ء تخفیف اور گزشتہ آیات سے ہم آہنگی کی بناء پر حذف ہو گئی ہے۔

۱۲۔ نور الثقلین ، جلد ۵، ص ۵۷۱۔

۱۳۔ تقدیر میں اس طرح ہے کہ لنعذبن الکفار و الطاغین۔ اس طرح قسم اور منقسم بہ واضح ہوجاتے ہیں ۔