تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65325
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65325 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱،۱۲،۱۳،۱۴

۶ ۔( الم تر کیف فعل ربک بعادٍ ) ۔ ۷ ۔( ارم ذات العماد ) ۔ ۸ ۔( التی لم یخلق مثلها فی البلاد ) ۔

۹ ۔( و ثمود الذی جابوا الصخرَ بالواد ) ۔ ۱۰ ۔( و فرعون ذی الاوتاد ) ۔ ۱۱ ۔( الذی طغوا فی البلاد ) ۔

۱۲ ۔( فاکثروا فیها الفساد ) ۔ ۱۳ ۔( فصبّ علیهم ربک سوط عذابٍ ) ۔

۱۴ ۔( ان ربک لبامرصاد ) ۔

ترجمہ

۶ ۔ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟ ۷ ۔ اور اس باعظمت شہر ارم کے ساتھ

۸ ۔ وہی شہر جس کی نظیر شہروں میں پیدا نہیں کی گئی ۔ ۹ ۔ اور قوم ثمود جو درّوں میں سے بڑ ے بڑے پتھر کاٹتی تھی ۔

۱۰ ۔ اور فرعون جو صاحب قوت اور سخت سزا دینے والا تھا ۔ ۱۱ ۔ وہی قومیں جنہوں نے شہروں میں سر کشی کی ۔

۱۲ ۔ اور ان میں بہت زیادہ فساد انہوں نے کیا۔ ۱۳ ۔ لہٰذا خدا نے ان کو عذاب کا تازیانہ لگا یا ۔

۱۴ ۔ یقینا تیر اپر وردگار کمین گاہ میں ہے ۔

تیرا پرور دگار ظالموں کی گھات میں ہے

گزشتہ آیات کے بعد جو سر کشوں کی سزا اور ان پر نازل ہونے والے عذاب کے بارے میں بامعنی قسموں کی ضمانت لئے ہوئے تھیں ، ان آیات میں گزشتہ اقوام میں سے چند طاقتور قوموں کے متعلق ، جن میں سے ہرایک عظیم قوت کی مالک تھی ، لیکن ساتھ ہی مغرور بھی متکبر و سر کش بھی تھی ، ان کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ان کی درد ناک سر نوشت کو واضح کرتا ہے تاکہ مشرکین مکہ اور دوسری اقوام جو ان کے مقابلہ میں بہت کمزور ہیں ، اپنا اندازہ لگالیں اور خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں ۔ پہلے فرماتا ہے :” کیاتونے دیکھانہیں کہ تیرے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے “۔( الم تر کیف فعل ربک بعاد ) ۔

رویت (دیکھنا )سے یہاں مراد علم و آگاہی ہے چونکہ ان اقوام کی داستانیں اس قدر مشہور ومعروف تھیں کہ گویا بعد کے زمانے کے لوگ بھی انہیں اپنی آنکھوں سے

دیکھتے تھے ،لہٰذا رویت کی تعبیر صرف ہوئی ہے ۔ البتہ اس آیت میں مخاطب پیغمبر تھے لیکن مقصود سب کوتنبیہ کرنا اور خبردار کرنا ہے ۔

”عاد“ خدا کے عظیم پیغمبر حضرت ہود کی قوم ہے ۔ بعض مو خین کا نظریہ ہے کہ عاد کا اطلاق دو قبیلوں پر ہوتا ہے ایک وہ جو بہت پہلے تھا اور قرآن نے اسے عاد الاولیٰ سے تعبیر کیا ہے ۔ ( نجم ۔ ۵۰) ۔ وہ غالبا ً تاریخ سے پہلے موجود تھا ۔دوسراقبیلہ جو تاریخ بشر کے دور میں اور تقریباً ولادت مسیح سے سات سو سال پہلے تھا اور عاد کے نام سے مشہور تھا ۔ یہ احقاف یایمن میں رہا ئش پذیر تھا۔ اس قبیلہ کے افراد بلند قامت اور قوی الجثہ تھے اور عاد کے نام سے نمایاں جنگجو شما رہوتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ متمدن بھی تھے ۔ ان کے شہر آباد اور زمینیں سر سبز و شاداب تھیں ۔ ان کے باغات پر بہار تھے اور انہوں نے بڑے بڑے محل بھی تعمیر کئے تھے بعض مو خین کا خیال ہے کہ عاد اس قبیلہ جد اعلیٰ کا نام تھا اور وہ قبیلہ کو اپنے جدکے نام سے موسوم کرکے پکار تے تھے ۔ ا سکے بعد مزید فرماتاہے :

” وہی پر شکوہ اور عظیم شہررام “( ارم ذات العماد ) ، اس بات میں کہ ارم کسی شخص کا نام ہے یا قیبلے کا یا جگہ یا کسی شہر کا ، مو خین کے درمیان اختلاف ہے ۔ زمخشری کشاف میں نقل کرتا ہے کہ عاد بیٹا ہے عوص کا ، وہ بیٹاہے ارم کا ، وہ بیٹا ہے سا، ابن نوح کا اور چونکہ قبیلے کے اجداد سے قبیلے منسوب ہوتے تھے ، لہٰذا عاد کو ارم بھی کہتے ہیں ،۔ موخین کا نظر یہ ہے کہ ارم وہی عاد اولیٰ ہے اور عاد دوسرا قبیلہ ہے ، جبکہ کچھ اور حضرات کا نظریہ ہے کہ ارم انکے شہر اور سر زمین کانام ہے ۔(۱)

لیکن بعد والی آیت سے مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ارم ان کے بے نظیر شہر کا نام ہے ۔

عماد کے معنی ستون اور ا س کی جمع عمد ہے ( بر وزن شتر) پہلی تفسیر کی بناپر قوم عاد کے طاقتور جسموں اور ستون جسے پیکروں کی طرف اشارہ ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق با عظمت عمارتوں ، بلند و بالا محلات ، اور ان عظیم ستونوں کی طرف اشارہ ہے جو عظیم محلوں میں تعمیر کئے کئے تھے اور ان دونوں صورتوں میں قوم عاد کی طاقت و قوت کا اشارہ ہے ۔(۲)

اس کے بعد والی آیت میں فرماتا ہے :” وہی شہر و دیار جن کی مانند و مثل دنیا کے شہروں میں پیدا نہیں ہوئی تھی( التی لم یخلق مثلها فی البلاد ) یہ تعبیر بتائی ہے کہ ارم سے مراد وہی شہر ہے ، نہ کہ قبیلہ طائفہ شاید یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اسی تفسیر کو قبول کیاہے اور ہم نے بھی اسی کو تر جیح دی ہے ۔(۳)

بعض مفسرین نے جزیرة العرب کے بیابانوں اور عدن کے صحراو ں میں شہر ارم کے بر آمد ہونے کی ایک دلچسپ داستان بیان کی ہے جس میں وہ اس شہر کی بلند و بالا عمارات اور سامان ِ زینت وغیرہ کی بات کرتے ہیں ۔ لیکن مذکورہ داستان واقعیت کی نسبت خواب یا افسانے سے زیادہ تعلق رکھتی ہے ، لیکن اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ قوم عاد طاقتور قبائل پر مشتمل تھی، ان کے شہر ترقی یافتہ تھے اور جیسا کہ قرآن اشارہ کرتا ہے ، ان جیسے شہر پھر آباد نہیں ہوسکے ۔ بہت سی داستانیں شداد کی ، جو عاد کا بیٹا ، زبان زدِعام ہیں اور تاریخ میں مرقوم ہیں ، یہاں تک کہ شداد کی بہشت اور اس کے باغات ضرب المثل کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ لیکن ان داستانوں کی حقیقت کچھ نہیں ہے ، یہ محض افسانے ہیں ۔ یہ ایسے افسانے ہیں کہ ان کی حقیقت پر بعد میں حاشیہ آرائی کر لی گئی ۔

اس کے بعد گزشتہ اقوام کے دوسرے سر کش گروہ کا حوالہ دے کر فرماتا ہے: کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے پر وردگار نے قوم ثمود کے ساتھ کیا کیا ، جو وادی میں بڑے بڑے پتھروں کوکاٹتی اور ان سے گھر اور قصر بناتی تھی ۔( وثمود الذین جابو ا الصخر بالواد ) ثمود کی قوم قدیم ترین اقوام میں سے ہے ۔ ان کے پیغمبر حضرت صالح تھے اور وہ وادی القریٰ نامی سر زمین میں رہتے تھے ، جو مدینہ اور شام کے درمیان تھی ، ان کا تمدن ترقی یافتہ تھا ، زندگی مرفہ الحال تھی اور ان کی عمارتیں عظیم تھیں ۔

بعض مو رخین کہتے ہیں ثمود اس قبیلے کے باپ کانام تھا ، اسی نا م سے وہ قبیلہ موسوم ہوا ۔(۴)

جابوا اصل میں جو بہ ( بر وزن توبہ ) سے لیا گیا ہے جو پست زمین کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ہر قطعہ زمین کی قطع و برید کے معنی میں آیاہے ۔

کسی بات کے جواب کو اس لئے جواب کہتے ہیں گویا وہ ہوا کو قطع کرتا ہے اور کہنے والے کے منہ سے نکل کر سننے والے کے کان تک پہنچتا ہے ( یا اس لحاظ سے کہ سوال کو کاٹ کردیتا ہے )۔

بہر حال یہاں مراد پہاڑوں کے ٹکڑوں کا کاٹنا اور اطمینان کے ساتھ ان سے گھر بناناہے ، جیسا کہ سورہ فجر کی آیت ۸۲ میں اسی قوم ثمود کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں( و کانوا ینحتون من الجبال بیوتاً آمنین ) ۔وہ دو پہاڑوں کے اندر پرسکون گھر بناتے تھے ۔ ان معنی کی نظیر سورہ شعرا کی آیت ۱۴۹ میں آئی ہے وہاں بیوتاً فارھین کی تعبیر صرف ہوئی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ان گھروں میں عیش و عشرت سے زندگی بسر کرتے اور ہوس رانی سے کام لیتے تھے۔ بعض نے کہا ہے کہ قومِ ثمود وہ پہلی قوم تھی جنہوں نے پہاڑوں سے پتھر کاٹ کر پہاڑوں کے اندر مضبوط و محکم گھر بنانے کا اقدام کیا۔

”واد“ جو اصل میں وادی تھا ، در یا سیلابوں کی گزرگاہ کے معنی میں ہے اور کبھی درّہ کے معنی میں بھی آیاہے ، اس لئے کہ سیلاب ان سے جو پہاڑوں کے قریب ہوتے ہیں ، گزر تے ہیں ، یہاں سے دوسرے معنی مناسب ہیں یعنی درے اور پہاڑ کے دامن ، اس لئے کہ قرآن کی وہ آیات بھی یہی بتاتی ہیں جو اس قوم کے متعلق بیانات دیتی ہیں اور اس کا اوپر بھی اشارہ ہوا ہے کہ قوم ثمود اپنے گھر پہاڑوں کے دامن میں بناتی تھی ۔ اس طرح وہ پتھر کاٹتے اور ان کے اندر پر امن گھر بناتے ۔(۵)

ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر تبوک کے موقع پر راستہ چلتے ہوئے دبستان کے شمال میں داوی ثمود میں پہنچے ۔ آپ گھوڑے پر سوار تھے ۔ فرمایا جلدی کرو اس وقت تم ملعون و معذب سر زمین پر ہو۔(۶)

اس میں شک نہیں کہ قوم ثمود ترقی یافتہ تھا کہ ان کے شہر آباد تھے ۔ لیکن پھر ہمیں ایسے اعداد و شمار سے واسطہ پڑتا ہے جو مبالغہ آمیز نظر آتے ہیں ۔ مثلاً یہ کہ مفسرین کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک ہزار سات سو شہر بنائے تھے ، جو سب کے سب پتھروں سے تعبیر ہوئے تھے ۔

اس کے بعد تیسری قوم کو پیش کرتے ہوئے فرماتاہے :

” اور اسی طرح فرعون صاحبِ ثروت “( و فرعون ذی الاوتاد ) جو اس طرف اشارہ ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ خدانے طاقتور ظالم او ربیداد گر قومِ فرعون کے ساتھ کیا کیا۔

”اوتاد“ جمع ہے وتد کی ( بر وزن صمد ) جس کے معنی میخ کے ہیں ۔ فرعون کو ذی الاوتاد کیوں کہتے ہیں ؟ اس کی مختلف تفسیریں ہیں ۔

پہلی یہ کہ اس کے بہت سے لشکر تھے جن میں سے بہت سے خیموں میں زندگی گزار تے تھے اور جو خیمے ان کے لئے گاڑے جاتے تھے ان میں میخیں استعمال ہوتی تھیں ۔

دوسری یہ کہ فرعون جس شخص پر غضبناک ہوتا، زیادہ تر اس کو یہ سزا دیتا کہ اس کے چاروں ہاتھ پاو ں میخو ں سے باندھ دیتا ، یا اس کے ہاتھ اور پاو ں میں میخیں گاڑ دیتا یہاں تک کہ وہ مرجاتا ۔ یہ تفسیر ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے ۔(۷)

تاریخ میں آیاہے کہ جس وقت فرعون کی بیوی حضرت آسیہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئیں تو انہیں بھی یہی سزا دی گئی اور شہید کیاگیا ۔ ذی الاوتاد اصولی طور پر قوت اور استقرار حکومت کا کنایہ ہے ۔

تینوں تفسیریں آپس میں منافات بھی نہیں رکھتی ۔ ہوسکتا ہے کہ آیت کے معنی جمع ہوں ۔ اس کے بعد مجموعی طور پر ان تینوں اقوام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے :

” وہی جنہوں نے شہروں میں سر کشی کی “( الذین طغوا فی البلاد ) اور ان میں بہت سا فساد بر پا کیا اور خرابی کی( فاکثروا فیها الفساد ) فساد جو ہر قسم کی ظلم و ستم ، تجاوز عن الحدود ، عیاشی اور ہوس رانی پر مشتمل تھا ۔ واقعی ان کی سر کشی ایک اثر رکھتی ہے اور ہر سر کشی کرنے والی قوم آخر کار ہر قسم کے فساد میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔

اس کے بعد ایک مختصر او رپر معنی جملے کے ساتھ ان تمام سر کش قوموں کی دردناک سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اضافہ فرماتا ہے :” لہٰذا خدا نے ان کو عذاب کا تازیانہ لگایا “( فصب علیهم ربک سوط عذاب ) ۔

” سوط“ کے معنی تازیانے کے ہیں ۔ اس کے معنی اصل میں ایک شی کو دوسری چیز سے مخلوط کرنے کے ہیں ۔ اس کے بعد اس کا تازیانہ پر بھی اطلاق ہواہے جو چمڑے وغیرہ سے بناہو۔ بعض مفسرین کے نزدیک عذاب کا کنایہ ہے ، ایسا عذاب جو انسان کے گوشت و خون سے مخلوط ہو جائے اور اس کو سخت پریشان و بے حال کردے ۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں امتحان کے بارے میں ملتا ہے (و الذی بعثه بالحق لتبلبلن بلبلة و لتغربلن غربلة و لتساطن سوط القدر )۔ قسم ہے اس کی جس نے پیغمبر کوحق کے ساتھ مبعوث کیا تم شدت و سختی کے ساتھ موردِ امتحان و آزمائش قرار پاو گے ، چھلنی کی مانند ہو جاو گے ، دیگ میں جو چیز ہو اس کی طرح اس کے جوش کھانے اور ابال آنے کے وقت مل جل جاو گے اور اوپر نیچے ہو جاو گے “۔(۸)

یہ مختصر سی تعبیر شدید اور مختلف قسم کے عذابوں کی طرف اشارہ ہے جو اس قوم پر نازل ہوئے ۔ قوم عاد تو قرآن مجید کے بقول تیز ٹھنڈی اور جلانے والی ہوا اور آندھی سے ہلاک ہوئی( و اماعاد فاهلکوا بریح صرصر عاتیة ) ( حاقہ ۔ ۶ ) باقی رہی قوم ثمود تو وہ عظیم آسمانی چیخ کے ذریعہ نابود ہوئی ۔

( فاما ثمود فاهلکوا بالطاغیة ) ( حاقہ۔ ۵) اور قوم فرعون دریائے نیل کی موجوں میں غرق اور دفن ہو گئی( فاغرقنا هم اجمعین ) ( زخرف: ۵۵)

آخری زیر بحث آیت میں ان تمام لوگو ں کو ہشیار اور خبر دار کرنے کے لئے ، جو اس راستہ پر چلتے ہیں جس پر وہ سر کش لوگ چلتے تھے، فرماتا ہے :

” یقینا تیرا پروردگار کمین گاہ میں ہے “( ان ربک لبالمرصاد ) ۔”مرصاد“ رصد کے مادہ سے کسی چیز کی نگہبانی کرنے کے لئے آمادگی کے معنی میں ہے ۔ فارسی میں اسے کمین گاہ کہتے ہیں ۔ یہ لفظ عا طور پر ایسی جگہ استعمال ہوتاہے جہاں کچھ افراد مجبور ہوں کہ کسی گزرگاہ سے گزریں اور کوئی شخص اس گزرگاہ میں ضرب لگانے کے لئے آمادہ و تیار ہو۔

اس ساری گفتگو میں اس طرف اشارہ ہے کہ گمان نہ کرو کہ کوئی شخص عذابِ الہٰی سے بچ کر جاسکتا ہے ۔ سب کچھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور جس وقت وہ ارادہ کرے ان کو سزا دے سکتا ہے اور ان پر عذاب نازل کرسکتا ہے ۔

یہ بات واضح ہے کہ خدا کا کوئی مکان نہیں ہے اور وہ کسی گزرگاہ میں بھی نہیں بیٹھتا ۔ یہ تعبیر اس بات کا کنایہ ہے کہ پروردگار اپنی قدرت کے ذریعہ تمام سر کشوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ ایک حدیث میں حضرت علی علیہ السلالم سے منقول ہے :(ان ربک قادر علیٰ ان یجزی ا هل المعاصی جزائهم ) ” تیرا پر وردگار قدرت و توانائی رکھتا ہے کہ گنہگاروں کو کیفر ِ کردار تک پہنچائے“۔(۹)

ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:(المرصاد قنطرة علی الصراط لایجوز ها عبد بمظلمة عبد ) ” مرصاد ایک پل ہے اس راستہ پر جو جہنم کے اوپر سے گزرتا ہے ۔ جس شخص کی گردن پر کسی مظلوم کا حق ہوگا وہ اس پر سے نہیں گزر سکے گا“۔(۱۰)

یہ حقیت میں ایک واضح مصداق کے بیان کی قسم میں سے ہے اس لئے کہ خدا کی کمین گاہ قیامت اور مشہور پل صراط تک محدود نہیں ہے ۔ خدا تو اس دنیا میں بھی ہر ظالم کی گھات میں ہے اور گزشتہ تینوں اقوام پر نازل ہونے والا عذاب اس کا واضح مصدا ق ہے ۔

” ربک“ ( تیرا پرورگار ) کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ سنت الہٰی تیری امت کی سر کش ، ظالم اور ستمگر قوموں کے بارے میں بھی جاری ہوگی ۔ پیغمبر اور مومنین کے دلوں کی تسکین بھی ہے کہ وہ سمجھ لیں کہ یہ ہٹ دھرم اور کینہ پرور دشمن خدا کی قدرت کے چنگل سے کبھی فرار نہیں کرسکیں گے اور یہ ان لوگوں کے لئے خطرہ کی تنبیہ بھی ہے جو پیغمبر اکرم اور مومنین پر ہر قسم کا ظلم و ستم روارکھتے تھے ۔ انہیں جان لینا چاہیئے کہ وہ لوگ جو ان سے زیادہ صاحب طاقت تھے ، ایک تیز آندھی ، ایک طوفان ، ایک شعلہ اور صیحہ آسمانی کے مقابلہ میں تاب مقاومت نہ لاسکے تو یہ کس طرح سوچتے ہیں کہ اپنے ان غلط اعمال کے باوجود عذابِ الہٰی سے نجات پاسکیں گے ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں : ” جبرائیل امین نے مجھ کو خبر دی ہے کہ جس وقت خدا وند و یکتا اولین و آخرین کی مخلوق کو میدانِ حشر میں جمع کرے گا تو جہنم کو لے آئے گا اور پل صراط کو ، جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہے ، اس پر رکھ دے ۔ اس صراط پر تین پل ہوں گے ۔ پہلے پل پر امانت و رست گاری اور رحمت و محبت ہے ۔ دوسرے پل پر نماز اور تیسرے پل پر پروردگارعالم کا عدل ہوگا ۔ لوگوں کو حکم دیا جائے گاکہ وہ اس پل پر سے گزریں ۔ جنہوں نے امانت اور رحم میں کوتاہی کی ہوگی وہ پہلے پل پر ہی رہ جائیں گے ۔ اس سے گزر گئے تو نماز میں کوتاہی کی ہوگی تو دوسرے پل پر ہی رہ جائیں گے اور اگر اس سے بھی گزر گئے تو اپنے راستے کے آخر میں عدل الہٰی پائیں گے اور( ان ربک لبالمرصاد ) کے یہی معنی ہیں ۔(۱۱)

حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد ات و کلمات میں ہم پڑھتے ہیں (ولئن امهل الله الظالم فلن یفوث اخذه وهو له بالمرصاد مجاز طریقه و بموضع الشجی من مساغ ریقه )

اگر خدا ظالم کو مہلت دے دے تو اس کی سزا ہر گز ختم نہیں ہوگی ۔ وہ ستمگاروں کی گھات میں ہے اور اس طرح ان کے حلق کو اپنے دستِ قدرت میں لئے ہوئے ہے کہ جس وقت چاہے گا اس طرح دبائے گا کہ اس کا لعاب دہن تک گلے سے نیچے نہیں جاسکے گا ۔(۱۲)

____________________

۱۔تفسیر کشاف ، جلد ۴،ص ۷۴۷۔ اس مضمون کو قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے ۔ اسی طرح دوسری تفسیروں میں بھی ہے ۔

۲۔ پہلی تفسیر کی بناء پر ذات کا مو نث ہونا طائفہ و قبیلہ کی بناء پر ہے جو مو نث لفظی ہے ۔

۳۔ ارم غیر منصرف ہے اسی لئے حالتِ جر میں منصوب ہوتاہے ۔

۴۔ ثمود اہل لغت کے لحاظ سے ثمد ( بر وزن نمد) اس تھوڑے سے پانی کے معنی میں جس کا کوئی مادہ نہ ہو اور ثمود ا س شخص کو کہتے ہیں جس سے زیادہ مال کا مطالبہ کریں ، اتنی مقدار جس سے اس کے مال میں نقص پید اہوجائے ، بعض اس لفظ کو عجمی کہتے ہیں ۔ مفردات راغب۔

۵۔جابو ا الصخر بالواد میں باء بظاہر ظرفیت کے معنی رکھتا ہے ۔

۶۔ روح البیان ، جلکد ۲ ص ۴۲۵۔

۷۔ علل الشرائع نور الثقلین کی نقل کے مطابق جلد ۵، ص ۵۷۱ حدیث ۶

۸-«نهج البلاغه»، خطبه ۱۶.

۹۔۔مجمع البیان ،جلد ۴۸۷۔

۱۰۔مجمع البیان ،جلد ۴۸۷۔

۱۱۔ روضہ کافی مطابق نقل نور الثقلین، جلد ۵، ص ۵۷۳۔

۱۲۔ نہج البلاغہ خطبہ ۹۷۔

آیات ۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰

۱۵ ۔( فامّا الانسان اذا ماابتلٰه ربه فاکرمه و نعَّمه فیقول ربیٓ اکرمن ) ۔

۱۶ ۔( و اما اذا ما ابتلٰه فقدر علیه رزقه فیقول ُ ربیٓ اهانن ) ۔

۱۷ ۔( کلَّا بل تکرمونَ الیتیمَ ) ۱۸۔( و لا تحٰٓضّون علیٰ طعام المسکین ) ۔

۱۹ ۔( و تاکلون التّراث اکلا ً لمّا ) ۲۰۔( و تحبِّو ن المال حبّاً جمّاً ) ۔

ترجمہ

۱۵ ۔ لیکن انسان کو خدا جس وقت آز مائش کے لئے عزت دیتا ہے ( اس کا اکرام کرتا ہے ) اور نعمت بخشتا ہے تو ( مغرور ہو جاتاہے ) اور کہتا ہے کہ میرے پر وردگار نے میرا اکرام کیا ہے ۔

۱۶ ۔ لیکن جب امتحان کے لئے اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے اور کہتا ہے میرے پروردگار نے مجھے ذلیل و خوار کیا ہے ۔

۱۷ ۔ایسا نہیں ہے جیسا تم نے خیال کیا ہے بلکہ تم یتیموں کا احترام نہیں کرتے ۔

۱۸ ۔ اور ایک دوسرے کو مساکین و فقراء کو کھانا کھلانے کا شوق نہیں دلاتے ۔

۱۹ ۔ اور میراث کو جائز و ناجائز طریقہ سے جمع کر کے کھاتے ہو۔ ۲۰ ۔ اور مال و دولت کو بہت دوست رکھتے ہو۔

نہ اس کی نعمت کے ملنے پر غرور کرو او رنہ سلب نعمت پر مایوس ہو

گزشتہ آیات کے بعد جو سر کشی کرنے والوں کو خبر دار کر رہی تھیں اور انہیں خدا کے عذاب سے ڈرارہی تھیں ، زیر بحث آیات میں مسئلہ امتحان کو پیش کرتا ہے جو ثواب اور عقاب الہٰی کا معیار ہے اور انسانی زندگی کا اہم مسئلہ شمار ہوتا ہے۔ پہلے فرماتا ہے :

لیکن انسان ، جس وقت اس کا پر وردگار اور اس کی آزمائش کے لئے اس کا اکرام کرے اور نعمت بخشے ، تومغرور ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پر وردگار نے مجھے عزت دی ہے( فاما الانسان اذا ما ابتلاه ربه فاکرمه و نعمه فیقول ربی اکرمن ) وہ نہیں جانتا کہ خدا ئی آز مائش کبھی نعمت کے ذریعہ اور کبھی انواع و اقسام کی مصیبتوں کے ذریعہ ہوتی ہے ۔ نہ نعمت کا حصول سببِ غرور بننا چاہئیے اور نہ مصائب مایوسی او رناامیدی کا سبب بنیں ۔ لیکن یہ کم ظرف انسان دونوں حالتوں میں مقصد آزمائش کو بھول جاتا ہے ، نعمت کے ملنے کے وقت اس طرح خیال کرتا ہے کہ وہ مقرب بارگاہ خدا ہو گیا او ریہ نعمت اس قرب کی دلیل ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ابتداء میں کہتا ہے کہ خدا اسے مورد اکرام قرار دیتا ہے ۔ لیکن آیت کے ذیل میں ہے کہ انسان خود کو مورد اکرام خدا دیکھتا ہے ۔ اس کی مذمت ہورہی ہے ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ پہلا اکرام انعام ہی کے معنی میں ہے اور دوسرا اکرام بار گاہ خدا کے قرب کے معنی میں ہے ، لیکن جس وقت امتحان لینے کے لئے اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے اور کہتا ہے :

” میرے پروردگار نے مجھے ذیل و خوار کر دیا ہے “( و اما اذا ماابتلاه فقدر علیه رزقه فیقول اهانن ) ناامیدی اسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے اور وہ اپنے پروردگار سے رنجیدہ و ناخوش ہوجاتا ہے ۔ وہ اس سے غافل ہے کہ یہ سب چیزیں تو اس کی آزمائش اور امتحان کے ذرائع ہیں ۔ وہ امتحان جو انسان کی پر ورش اور ارتقاء کی رمز ہے او ر اس کے استحقاقِ ثواب کا سبب اور مخالفت کی صورت میں استحقاقِ عذاب کاباعث ہے ۔

یہ دونوں آیتیں خبر دار کرتی ہیں کہ نہ تو نعمت کا ورودتقرب خدا کی دلیل ہے اور نہ اس کا سلب ہوجانا حق سے دوری کی دلیل ۔ یہ تو امتحان کی مختلف صورتیں ہیں کہ خدا اپنی حکمت کے مطابق ہر گروہ کی کسی چیز سے آز مائش کرتاہے۔ یہ کم ظرف انسان ہیں کہ جو کبھی مغرور ہو جاتے ہیں اور کبھی مایوس ہو جاتے ہیں ۔

سورہ حٰم سجدہ کی آیت ۵۱ میں بھی آیاہے :

( و اذا انعمنا علی الانسان اعرض و ناٰ بجانبه و اذا مسه الشر فذودعا ء عریض ) ۔

جس وقت ہم کسی انسان کو نعمت دیتے ہیں تو وہ روگردانی کرتا ہے اور تکبر کرے کے حق سے دور ہو جاتا ہے ، لیکن جب اسے تھوڑی سی تکلیف پہنچے توہمیشہ دعا کرتا ہے اور بے تابی دکھاتا ہے ۔ اسی سورہ ہود کی آیت ۹ میں آیاہے( ولئن اذقنا الا نسان منا رحمة ثم نزعنا ها منه انه لیٴوس کفور ) ۔

جس وقت ہم انسان کو رحمت کا ذائقہ چکھائیں اور اسے چھین لیں تو ناامید و ناشکرا ہو جاتاہے ۔

یہ دونوں آیتیں علاوہ اس کے کہ خدا کی آزمائش کے مسئلہ کو مختلف طریقوں سے بیان کرتی ہیں ، یہ نتیجہ بھی بخشتی ہیں کہ نعمت سے بہرہ ور ہونا یا اس سے محروم ہونا قربِ خدا یا دوری پر وردگار کی دلیل نہیں ہے ، بلکہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایمان و تقویٰ کا معیار ہے ۔

کتنے پیغمبر تھے جو اس دنیا میں انواع و اقسام کے مصائب میں مبتلا رہے ۔ ان کے مقابلہ میں کتنے کافر تھے جو گونا گون نعمتوں سے بہرہ مند تھے ۔ دنیا کی زندگی کا مزاج و طبیعت یہی ہے ۔ اس آیت کے ضمن میں پروردگار ِ عالم ابتلائات اور درد ناک حوادث کے فلسفہ کی طرف ایک سر بستہ اور جمالی اشارہ بھی کرتا ہے ۔ اس کے بعد ان اعمال کی تشریح کرتا ہے جو خدا سے دوری اور عذاب الہٰی کے چنگل میں پھنسنے کا موجب ہیں ۔ فرماتا ہے :

” ایسا نہیں ہے جیسا تم خیال کرتے ہو ( کہ تمہارے اموال پر وردگار کے نزدیک تمہارے قرب منزلت کی دلیل ہیں ، بلکہ تمہارے اعما ل تو تمہاری خدا سے دوری کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں )” تم تو یتیموں کا احترام نہیں کرتے“( کلّا بل لا تکرمون الیتیم ) ۔ ” اور ایک دوسرے کو فقراء و مساکین کو کھانا کھلانے کا شوق نہیں دلاتے“۔( ولا تحاضّون علیٰ طعام المسکین ) ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ یتیموں کو کھانا کھلانے کی بات نہیں کرتا، بلکہ اکرام و احترام کی بات کرتا ہے۔ اس کے لئے یتیموں کے سلسلہ میں صرف بھوک کا مسئلہ در پیش نہیں ہوتا بلکہ اسے احترام سے محرومی کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور وہ یہ احساس کرنے لگتا ہے کہ چونکہ اس کا باپ مرگیاہے ، لہٰذا وہ ذلیل و خوار ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کی عزت کی جائے تاکہ وہ باپ کے نہ ہونے کا احساس نہ کرے۔

اسی لئے اسلامی روایات میں یتیموں سے محبت اور ان پر نوازش کرنے کے مسئلہ کو ایک خاص اہمیت دی گئی ہے ، ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ( مامن عبد یمسح یده علی رأس یتیم رحمة له الاَّ اعطاه الله بکل شعره نوراً یوم القیامة ) کوئی شخص کسی یتیم کے سر پر دست شفقت نہیں پھیرتا مگر یہ کہ خدا ان بالوں کی تعداد کے برابر جو اس کے ہاتھ کے نیچے آتے ہیں ، قیامت میں اسے نور بخشے گا۔(۱)

سورہ ضحیٰ کی آیت ۹ میں بھی آیاہے( فاما الیتیم فلاتقهر ) ” باقی رہا یتیم تو اسے مورد قہر و تحقیر قرار نہ دے“ یہ بالکل اس چیز کے مقابلہ میں ہے جو ایمان و اخلاق سے دور کل کے دور جاہلیت کے معاشرہ کی طرح آج کے معاشرہ میں بھی رواج رکھتی ہے کہ یتیموں کے مال کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنی ملکیت بنایاجاتا ہے اور اس یتیم کو اس طرح تنہا چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ باپ کی غیر موجود گی کا دکھ تلخ ترین شکل میں محسوس کرتا ہے ۔

جو کچھ ہم نے کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یتیموں کا اکرام ان کے مال کی حفاظت تک محدود نہیں ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کیاہے ، بلکہ اس کے ایک واضح ، صاف اور وسیع معنی ہیں جو مال کی حفاظت اور دوسرے امور دونوں کے متقاضی ہیں ۔ ”تحاضون(۲)

کاجملہ حض کے مادہ سے تحریص وترغیب کے معنی میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ صرف مسکین کو کھانا کھلانا ہی کافی نہیں ہے ، بلکہ لوگ ایک دوسرے کو اس کار خیر کے سلسلہ میں شوق دلائیں تاکہ یہ طریق ِ کار معاشرہ کی فضا میں وسعت پیداکرے تعجب کی بات یہ ہے کہ سورہ حاقہ کی آیت ۳۳ ۔ ۳۴ ،میں اس موضوع کو خدا وند ِ عظیم پر ایمان نہ لانے کے برابر بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :( انه کان لایو من با لله العظیم و الا یحض علی طعام المسکین ) وہ خدا ئے عظیم پر ایمان نہیں رکھتا اور دوسروں کو مسکین کو کھانا کھلانے کا شوق نہیں دلاتا۔(۳)

اس کے بعد اس کے تیسرے غلط کام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں موردِ مذمت و ملامت قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے : ” تم میراث کو ( حلال و حرام طریقہ سے جمع کرکے کھاجاتے ہو۔( و تأکلون التراث اکلاً لمّٓا ) ۔(۴)

اس میں شک نہیں کہ اس مال کا کھانا ، جو شرعی میراث کے طور پر کسی شخص کو پہنچے ، برا نہیں ہے ۔ اس بناء پر مندرجہ بالاآیت میں اس کام کی مذمت ہوسکتا ہے کہ ذیل کے امور میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ ہو ۔

پہلی یہ کہ اپنے اور دوسروں کے حق کو جمع کرلیتا ہو، اس لئے کہ ” لم “ کا لفظ اصل میں جمع کے معنی میں ہے اور بعض مفسریں مثلاً زمخشری نے کشاف میں خصوصیت سے اس کی حرام و حلال کے درمیان جمع کرنے سے تفسیر کی ہے ۔ خصوصاً زمانہ جاہلیت کے عربوں کی حالت یہ تھی کہ وہ عورتوں اور بچوں کو میراث سے محروم کردیتے تھے اور ان کا حق خود لے لیتے تھے ۔ ان کا نظریہ تھا کہ میراث انہیں ملنی چاہئیے جو جنگوں ہوں ( اس لئے ان کے ہاتھ جو اموال لگتے تھے ان میں سے بہت سے مال وہ ہوتے تھے جو غارتگری کے نتیجے میں حاصل ہوتے تھے ) لہٰذا وہ صرف ان لوگوں کو حقدار سمجھتے تھے جو غارتگری کے قابل ہوں ۔

دوسرے یہ کہ جب میراث تم تک پہنچتی ہے تو تم فقیر و مسکین ، عزیزوں اور رشتہ داروں اور معاشرہ کے محروم افراد پر بالکل خرچ نہیں کرتے اور جب تم میراث کے مال کے ساتھ ، جو بغیر کسی زحمت و تکلیف کے تمہارے ہاتھ آتا ہے ۔

اس طرح کرتے ہوتو یقین اپنے کمائے ہوئے مال کے بارے میں تو تم زیادہ بخیل اور سخت ہوگے ، جو بہت بڑا عیب ہے ۔

تیسرے یہ کہ میراث اور چھوٹے بچوں کے حقوق کھانا ہے ، اس لئے کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بے ایمان افراد ، اور وہ جو کسی قانون کے پابند نہیں ہوتے ، جب میراث کا مال ان کے ہاتھ لگ جائے تو وہ یتیم اور چھوٹے بچوں کا کوئی لحاظ نہیں کرتے اور چونکہ وہ یتیم اور چھوٹے بچے اپنے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتے ، لہٰذا بے ایمان لوگ اس مال سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، یہ قبیح ترین شرمناک ترین گناہ ہے ۔ ان تینوں تفسیروں کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔(۵)

” اور تم دولت و ثروت کو زیادہ عزیزرکھتے ہو“( و تحبون المال حباً جماً ) (۶)

تم دنیا پرست اور مال و متاع ِ دنیا کے عاشق افراد ہو اور یقینا وہ شخص جو مالِ دنیاسے ایسا لگاو رکھے وہ اس کے جمع کرنے کے وقت جائز و ناجائز ،حلال و حرام کا خیال نہیں رکھتا ۔ اس قسم کا شخص حقوق الہٰی کو بالکل تسلیم نہیں کرتا ، یا ان میں کمی کا مرتکب ہوتا ہے ، جس شخص کو حب دنیا نے گھیر رکھا ہو، اس کے دل میں یاد خدا کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔

اس طرح نعمت و بلا کے ذریعہ انسانوں کی آزمائش کے ذکر کے بعد چار ایسی اہم آزمائشوں کی طرف متوجہ کرتا ہے جن کے بارے میں یہ مجرم گروہ ناکام ہو کر مردود ہوا تھا : یتیموں کے بارے میں یہ آز مائش ، مسکینوں کو کھانا کھلانے آزمائش ، میراث کے حصوں کی جائز و ناجائز طریقہ سے جمع کرنے کی آز مائش اور آخر میں بغیر کسی قید و شرط کے اموال جمع کرنے کی آزمائش ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ تمام آز مائشیں مالی پہلو رکھتی ہیں ، واقعی اگر کوئی شخص مالی آز مائشوں سے عہدہ بر آمد ہو جائے تو پھر اس کے لئے دوسری آزمائشیں آسان ہو جائیں گی ۔ یہ دنیا کا مال ہی ہے جو مشہو قول ” ایمان فلک دادہ بباد“ کے مطابق دنیا میں

ایمان کو خراب کردیتا ہے ۔ آدم کے بیٹے کی عظیم ترین لغزشیں اسی شعبہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔

کچھ لوگ ایسے ہیں جو مال کے ایک حد تک تو امین ہیں ، لیکن جب ان کا پیمانہ پر ہوجائے اور وہ اس حد سے گزر جائیں تو شیطانی وسوسے انہیں خیانت کی طرف کھینچ کرلے جاتے ہیں ۔ سچے مومنین وہ ہیں جو امانت اور صحتِ عمل کاخیال دوسروں کے واجب و مستحب حقوق کے سلسلہ میں مال کی ہر حد میں بغیر کسی قید و شرط کے رکھتے ہیں ۔ اس قسم کے افراد کو ایمان اور تقویٰ زیب نہیں دیتا ہے ۔

مختصر یہ کہ جو افراد ہر حالت میں اور مال کی ہر مقدار کے سلسلہ میں امتحان و آزمائش سے عہدہ برا ہو سکیں ، وہ قابل اعتماد ، متقی ، پر ہیز گار اور عمدہ شخصیت کے حامل ہوتے ہیں اور بہترین دوست و احباب شمار ہوسکتے ہیں ۔ وہ دوسرے معاملات میں بھی ( عام طور پر ) پاک اور عمدہ افراد ہوتے ہیں ۔ مندرجہ بالا آیات جو مالی آزمائشوں تک محدود ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار، جلد ۱۵، ص ۱۲۰( چاپ قدیم )۔

۲۔ تحاضون اصل میں تتحاضون تھا جس کی ایک تاء تخفیف کے لئے حذف ہوگئی ۔

۳۔ طعام اس آیت میں اور زیر بحث آیت میں مصدر ی معنی رکھتا ہے اور اطعام( کھانا کھلانے ) کے معنی میں ہے ۔

۴۔ ” لم “ کے معنی جمع کرنا ہیں اور کبھی ایسا جمع کرنا جس میں اصلاح کا مقصد بھی کا رفرماہو، اس کے معنی میں آتا ہے ۔

۵۔ تراث اصل میں وارث ( تراث ہی وزن پر )تھا اس کی واو تا میں تبدیل ہوگئی ہے ۔

۶۔ جم جیساکہ مصباح اللغة اور مقاییس میں آیا ہے کہ کثیر اور فراوان کے معنی میں اور جمّہ بر وزن جبّہ سے کے آگے کے جمع شدہ بالوں کے معنی میں ہے ۔