تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65359
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65359 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

۲ ۔ زبان کی حیرت انگیزیاں

زبان بھی اپنے جگہ پر انسانی بدن کے بہت ہی حیرت انگیز اعضاء میں سے ہے اور اس کے ذمے بہت ہی سخت ذمہ داریاں ہیں ، وہ غذا کو نگلنے میں مدد دینے کے علاوہ اس کو چبانے میں بھی اہم کام انجام دیتی ہے ، اور بار بار غذا کے لقمہ کودانتوں کی ہتھوڑی کے نیچے دھکیلتی رہتی ہے ، لیکن اس کام کو اتنے ماہرانہ انداز میں انجام دیتی ہے کہ اپنے آپ کو دانتوں کی ضربوں سے محفوظ رکھتی ہے ، حالانکہ ہمیشہ ان کے پاس اور ان سے چمٹی ہوئی رہتی ہے ۔

بعض اوقات اتفاقیہ طور پر کھانے کو چباتے وقت ہم اپنی زبان کو بھی چبالیتے ہیں تو ہماری چیخ نکل جاتی ہے اور ہم یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اگر زبان میں وہ مہارت نہ ہوتی تو ہم پر کتنی مصیبت آن پڑتی ۔

ضمنی طور پر غذا کھانے کے بعد منھ کی فضا اور دانتوں کو پاک و صاف کرتی اور جھاڑدیتی ہے۔

اور ان سب کا موں سے زیادہ اہم بات کرنے کا مسئلہ ، جو زبان کی تیزی کے ساتھ منظم طور پر پے در پے حرکات اور چھ سمتوں میں حرکت کرنے سے انجام پاتا ہے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ خدا نے بات کرنے اور تکلم کے لئے ایک ایسا وسیلہ انسانوں کے اختیار میں دیاہے جو بہت ہی سہل اور آسان ، اور سب کی دسترس میں ہے ، نہ کچھ تھکان ہوتی ہے او رنہ ہی رنج و ملال حاصل ہوتا ہے، اور نہ ہی کچھ خرچ ہوتا ہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ عجیب بات انسان میں گفتگو کرنے کی استعداد کا مسئلہ ہے ، جو انسان کی روح میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور انسان اپنے طرح طرح کے حد سے زیادہ مقاصد کو بیان کرنے کے لئے بے حد مختلف صورتوں میں زیادہ سے زیادہ جملہ بند یاں کرسکتا ہے ۔

اور اس سے بھی زیادہ اہم ، مختلف زبانوں کی وضع کی استعداد ہے ، اور ان ہزاروں زبانوں کے مطالعہ سے جو دنیا میں موجود ہیں ، اس کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے ، واقعاً ” العظمة للہ الواحد القھار !“ ( عظمت و بزر گی واحد و قہار خدا کے لئے ہی ہے )۔

۳ ۔ نجدین کی طرف ہدایت

” نجد“ جیساکہ ہم نے بیان کیا ہے ، بلندی یابلند سر زمین کے معنی میں ہے اور یہاں ” خیر “ و ” شر “ کی راہ مراد ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا :

’ ’یا ایها ا لناس ! هما نجدان : نجد الخیر و نجد الشر فما جعل نجد الشر احب الیکم من نجد الخیر “۔

” اے لوگو! دو بلند سر زمینیں موجود ہیں ، خیر کی سر زمین اور شر کی سر زمین ، اور شر کی سر زمین تمہارے لئے خیر کی سر زمین سے ہر گز زیادہ محبوب قرار دی گئی ۔(۱)

اس میں شک نہیں کہ” تکلیف “ او رمسئولیت ، معرفت و آگاہی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اور اوپر والی آیت کے مطابق خدا نے یہ آگاہی انسانوں کے اختیار میں دے دی ہے ۔

یہ آگاہی تین طریقوں کے انجام پاتی ہے :

۱ ۔ عقلی اسراکات اور استدلال کے طریق سے ۔

۲ ۔ فطرت و وجدان کے طریق سے ، جس میں استدلال کی ضررت نہیں ہوتی ۔

۳ ۔ روح اور انبیاء و اوصیاء کی تعلیمات کے طریق سے اور تکامل کی راہ کو طے کرنے کے لئے انسان کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کی خدا نے ان تین طریقوں میں سے کسی ایک سے یابہت سے موارد میں ان تینوں ہی طریقوں سے اسے تعلیم دی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ ان دونوں راستوں میں کسی ایک کا طے کرنا انسان کی طبیعت او رمزاج کے لئے دوسرے سے زیادہ آسان نہیں ہے اور یہ بات حقیقت میں اس عمومی تصور کی کہ انسان برائیوں کی طرف زیادہ میلان رکھتا ہے اور شر کے راستے کو طے کرنا اس کے لئے زیادہ آسان ہے ، نفی کرتی ہے ۔

اور یہ سچی بات ہے کہ اگر غلط تربیتیں اور فاسد ماحول نہ ہو تو انسان کو نیکیوں کے ساتھ لگاو اور محبت زیادہ ہوتی ہے ۔ اور شاید ” ننجد“ ( بلند سر زمین ) کی تعبیر نیکیوں کے بارے میں اسی بناء پر ہے ، کیونکہ بلند زمینیں بہتر اور زیادہ عمدہ فضا رکھتی ہیں ، اور شرور کے بارے میں تغلیب کی بناء پر ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہاہے کہ یہ تعبیر خیر و شر کے راستہ کے ظاہر ، نمایاں اور آشکار ہونے کی طرف اشارہ ہے ، جس طرح سے مرتفع اور بلند سر زمین مکمل او رپورے طور پر نمایا ں ہوتی ہے ۔(۲)

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۴۹۴ و تفسیر قرطبی جلد ۱ ص ۷۱۵۵۔۲۔ جیسا کہ چاند اور سورج کو ” قمران “ ( دوچاند) کہا جاتا ہے ۔

آیات ۱۱،۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰

۱۱ ۔( فلا اقتحم العقبة ) ۔ ۱۲ ۔( وما ادراک مالعقبة ) ۔ ۱۳ ۔( فکُّ رقبةٍ ) ۔ ۱۴ ۔( اواطعام فی یوم ذی مسغبةٍ ) ۔

۱۵ ۔( یتیماً ذا مقربةٍ ) ۔ ۱۶ ۔( او مسکیناً ذا متربةً )

۱۷ ۔( ثم کان من الذین اٰمنوا و توصوا بالصبر و تواصوا بالمرحمةِ ) ۔

۱۸ ۔( اولٰئِک اصهاب المیمنةِ ) ۔ ۱۹ ۔( و الذین کفروا باٰیاتنا هم اصحاب المشئمةِ ) ۔ ۲۰ ۔( علیهم نارٌ مو صدةٌ ) ۔

تر جمہ

۱۱ ۔ لیکن وہ ( ناشکرا انسان ) اس اہم گھاٹی سے اوپر نہیں گیا ۔

۱۲ ۔ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟ ۱۳ ۔ غلام کو آزاد کرناہے ۔ ۱۴ ۔ یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے ۔

۱۵ ۔ رشتہ داروں میں کسی یتیم کو ۔ ۱۶ ۔ یا خاک پر پڑے ہوئے مسکین کو ۔

۱۷ ۔ پھر اسے ایسے لوگوں میں سے ہونا چاہئیے جو ایمان لائے ہیں او رجو ایک دوسرے کو صبر و شکیبائی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں ۔

۱۸ ۔ وہ اصحاب الیمین ہیں ( اور ان کے نامہ اعمال کو ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے )۔

۱۹ ۔ اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کردیا ، وہ شوم او ربد بخت لوگ ہیں اور ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۲۰ ۔ ان کو آگ نے ہر طرف سے گھیررکھا ہے ،( جس سے بھاگنے کی کوئی راہ نہیں ہے )۔

دشوار گزار گھاٹی

ان عظیم نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد ، جو گزشتہ آیات میں آئی تھیں ، زیر نظر آیات میں نا شکر گزار بندوں کو مورد ِ ملامت و سر زنش قرار دیتاہے ، کہ ان تمام وسائل سعادت کے ہوتے ہوئے انہوں نے نجات کی راہ کیوں طے نہیں کی ، پہلے فرماتا ہے :۔ ” یہ ناشکرا انسان اس عظیم گھاٹی سے اوپر نہیں گیا“۔( فلا اقتحم العقبة ) ۔(۱)

اس بارے میں یہ کہ یہاں عقبہ سے کیا مراد ہے ، بعد والی آیات اس کی تفسیر کرتی ہیں ۔

فرماتاہے : ” تو نہیں جانتاوہ گھاٹی کیاہے “؟ :( و اماادراک مالعقبة )

” غلام کو آزاد کرنا ہے “ ۔( فک رقبة ) ۔

” بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے “۔( او اطعام فی یوم ذی مسغبة ) ۔ ”

” قریبوں میں سے کسی یتیم کو “( یتیماً ذا مقربة ) ۔

” یاخاک پر پڑے ہوئے مسکین کو “( او مسکیناً ذا متربة ) ۔

اس طرح یہ دشوار گزار گھاٹی جس سے گزرنے کے لئے ناشکرے انسانوں نے ہر گز خود تو تیار نہیں کیا ہے ، اعمال ِ خیر کو ایک ایسا مجموعہ ہے جو ارادی طور پر خدمت ِ خلق اور کمزوروں اور ضعیفوں کی مدد کرنے کے گرد گھومتا ہے ، اور ان صحیح اور خالص عقائد کا مجموعہ بھی ہے جن کی طرف بعد والی آیات میں اشارہ ہوا ہے ۔

اور سچ تو یہ ہے ،کہ اس شدید لگاو کو دیکھتے ہوئے جو عام طور سے لوگ مال و ثروت کے ساتھ رکھتے ہیں ، اس دشوار گزار گھاٹی سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اسلام اور ایمان صرف دعویٰ اور باتوں سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ ہر مومن مسلمان کے سامنے ایسی دشوار گزار گھاٹیاں ہیں جن سے یکے بعد دیگرے ، حول و قوة خدا اور روح ایمان و اخلاص سے مدد طلب کر تے ہوئے گزرنا پڑتا ہے ۔

بعض نے یہاں ” عقبہ “ کی تفسیر ہوائے نفس کے معنی میں کی ہے یہاں آیات نے ” عبقہ“ کی تفسیر کی ہے تو اس تفسیر سے مراد اس طرح ہونا چاہئیے کہ اصلی گھاٹی ہوائے نفس کی گھاٹی ہے ، لیکن غلاموں کو آزاد کرنا ، اور مسکینوں کو کھانا کھلانا ، اس سے مبارزہ کرنے کے واضح مصادیق میں سے ہیں ۔

بعض دوسرے مفسرین نے یہ کہاہے کہ اس ” عقبہ “ سے مراد قیامت میں ایک دشوار گزار گھاٹی ہے ، جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث میں آیاہے :

ان امامکم عقبة کو داً لایجوز ها المثقلون ، و انا ارید ان اخفف عنکم لتلک العقبة “۔

” تمہارے سامنے ایک دشوار گزار گھاٹی ہے ، جس سے بھاری بوجھ والے نہیں گزرسکیں گے، اور میں چاہتا ہوں کہ اس گھاٹی سے عبورکرنے کے لئے تمہارے بوجھ کو ہلکا کردوں “(۲)

البتہ حدیث جو پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہے زیر بحث آیت کی تفسیر کے عنوان سے نہیں ہے ، لیکن مفسرین نے اس سے یہی سمجھا ہے ، لیکن ایسا سمجھنا ، اس تفسیر کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو صراحت کے ساتھ آیات میں آئی ہے ، مناسب دکھا ئی نہیں دیتا ، مگر یہ کہ مراد یہ ہو کہ قیامت کی دشوار گزار گھاٹیاں اس جہاں کی سخت اور سنگین اطاعتوں کا تجسم ہیں ، اور ان سے عبور کرنا ان اطاعتوں سے عبور کرنے کی فرع ہے ( غور کیجئے) ۔

یہاں پر” اقتحم “ کی تعبیر جو ” اقتحام “ کے مادہ سے ہے ، قابل توجہ ہے ، جو اصل میں سخت اور خوفناک کام میں داخل ہونے کے معنی میں ہے ۔ ( مفر دات راغب) یا کسی چیز میں داخل ہونا یا اس کے پاس سے شدت و مشقت سے گزرنا ہے ( تفسیر کشاف) اور یہ چیز بتاتی ہے کہ اس گھاٹی سے گزرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اور یہ اس بات پر ایک تاکید ہے جو سورہ کے آغاز میں آئی ہے ، جس میں فرماتا ہے : ” ہم نے انسان کو دکھ اور تکلیف میں پید اکیا ہے ، اور اس کی زندگی بھی دکھ اور رنج و تکلیف سے توأم ہے اور پروردگار کی اطاعت کرنا بھی بہر حال کوئی آسان کام نہیں ہے “۔

امیر المومنین علیہ السلام کے ایک ارشاد میں آیاہے :”ان الجنة حفت بالمکاره و ان النار حفت بالشهوات

” بے شک جنت سختیوں کے درمیان گھری ہوئی ہے ، اور دوزخ شہوات کے درمیان گھری ہوئی ہے ۳

چند قابل ِ توجہ نکات

۱ ۔ ”( فک رقبة ) “ سے مراد ظاہراًوہی غلاموں کو آزاد کرنا ہے ۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک اعرابی پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی ، اے رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے کوئی ایسا عمل تعلیم کیجئے کہ جو مجھے جنت میں داخل کرے ، آپ نے فرمایا:

ان کنت اقصرت الخطبة لقد عرضت المسألة “۔

” اگر چہ تونے بات تو مختصر کی ہے ، لیکن ایک بہت بڑے مطلب کا سوال کیا ہے “ ۔ ( یا یہ کہ اگر چہ تونے مختصر سی بات کی ہے ، لیکن تونے اپنے مقصود کو اچھی طرح سے بیان کیاہے )۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”اعتق النسمة و فک رقبة “ ” غلاموں کو آزادکر اور گردنوں کو ( طوق غلامی سے ) رہائی دے ۔

راوی سوال کرتا ہے ، کیا یہ دونوں چیزیں ایک ہی نہیں ہیں ؟

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” نہیں ! پہلے سے میری مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر آزاد کردے ،اور دوسرے سے میری مراد یہ ہے کہ تو اس کی قیمت کی ادائیگی میں امداد کرے تاکہ وہ آزاد ہوجائے ۔

اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

و الفیء علی ذی الرحم الظالم ، فان لم یکن ذالک فاطعم الجائع ، واسق الظمأن، و امر بالمعروف و انه عن المنکر ، فان لم تطق ذالک فکف لسانک الامن الخیر “۔

” ان رشتہ داروں کی طرف جنہوں نے تجھ سے قطع رحمی کی ہے اور تجھ پر ظلم کیا ہے ، لوٹ جا ( اور ان سے نیکی کر ) اور اگر اس قسم کا کام ممکن نہ ہو تو پھربھوکوں کو کھانا کھلا اور پیاسوں کو پانی پلا،اور ا مر بالمعروف او رنہی از منکر اور اگر تجھ میں اس کام کے کرنے کی بھی طاقت نہیں ہے تو کم از کم اپنی زبان نیکی کے علاوہ کسی چیز کے لئے نہ کھول ،(۴)

۲ ۔ بعض مفسرین نے ”( فک رقبة ) “ کو اپنی گردن کو گناہوں کے بارسے تو بہ کے ذریعہ آزاد کرنے ، یا خود کو اطاعتوں کے ذریعے عذابِ الہٰی سے آزادکرنے کے معنی میں سمجھا ہے ، لیکن ان آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو اس کے بعد آئی ہیں ، اور یتیم و مسکین کے بارے میں وصیت کررہی ہیں ، ظاہراً اس سے مراد وہی غلامی کو آزاد کرنا ہی ہے۔

۳ ۔ ”( مسغبة ) “” سغب“ ( بروزن غضب) کے مادہ سے بھوک کے معنی میں ہے ، اس بناپر ”( یوم ذی مسغبة ) “ بھوک کے دن کے معنی میں ہے ، اگر بھو کے افراد انسانی معاشروں میں رہتے ہیں ،لیکن یہ تعبیر قحط رسانی اور خشک سالی اور اسی قسم کے دنوں میں کھاناکھلانے کی ایک تاکید ہے ، جو اس موضوع کے اہمیت کی بناء پر ہے ، ورنہ تو بھوکوں کو کھاناکھلانا ہمیشہ افضل اعمال سے رہاہے اورہے ۔

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آیاہے :

من اشبع جائعاً فی یوم سغب ادخله الله یوم القیامة من باب من ابواب الجنة لایدخلها الامن فعل مثل مافعل “۔

” جو شخص کسی بھوکے کو قحط کے دنوں میں پیٹ بھرکھانا کھلائے گا تو خدا اس کو قیامت میں جنت کے دروازوں میں سے اس دروازے سے داخل کرے گا جس سے کوئی دوسرا داخل نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے اس جیسا عمل انجام دیا ہوگا ۔(۵)

۴ ۔ ”( مقربة ) “ قرابت اور رشتہ داری کے معنی میں ہے اور یتیم رشتہ داروں کے بارے میں تاکیدبھی ان کی اولویت کی بناپر ہے ، ورنہ تمام یتیموں کو کھانا کھلانا اور ان پر نوازش کرنا چاہئیے۔ یہ جو خاص طور پر اس زمانے میں رشتہ دار یتیموں کے بارے میں زیادہ سخت ذمہ داری رکھتے ہیں ۔

اس سے قطع نظر وہ غلط فائدے، جو خاص طور پر اس زمانے میں رشتہ دار یتیموں کے اموال سے اٹھائے جاتے تھے ، تقاضا کرتے ہیں کہ اس دشوار گزارگھاٹی کے بارے میں ایک خاص قسم کی تنبیہ کی جائے ۔ ابو الفتوح رازی کا نظر یہ یہ ہے کہ ” مقربہ“ ” قرابت کے مادہ سے یہیں ہے ، بلکہ” قرب“ کے مادہ سے ہے اور ایسے یتیموں کی طرف اشارہ ہے جن کے پہلو بھوک کی شدت سے ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔(۶) لیکن یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ۔

۵ ۔ ”( متربة ) “ مصدر میمی ہے ” ترب“ ( بروزن طرب) کے مادہ سے جو اصل میں ” تراب“ بمعنی ” خاک “ سے لیا گیا ہے ۔ اور اس شخص پر بولا جاتا ہے جو فقر و فاقہ کی شدت کی بناء پر خاک نشین ہوگیا ہو ، پھر یہ تاکید اس قسم کے مساکین کے لئے ان کی اولیت کی بناء پر ہے ، ورنہ تمام مساکین کو کھانا کھلانا اعمال حسنہ میں سے ہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے :

” امام علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام جب کھانا کھانا چاہتے تھے تو یہ حکم دیتے تھے کہ ایک بہت بڑی سینی دستر خوان کے پاس رکھ دی جائے ، اور دسترخوان پر جتنے کھانے ہوتے تھے ان میں سے بہترین کھانااٹھا کر اس سینی میں ڈال دیتے تھے اور پھر حکم دیتے تھے کہ وہ حاجت مندوں کو دے دیں ، پھر آپ اس آیت کی تلاوت فرماتے :”( فلا اقتحم العقبة )

اس کے بعد مزید فرماتے: خدا وند تعالیٰ جانتا تھا کہ سب لوگ غلاموں کو آزاد کرنے پر قادرنہیں ہیں لہٰذ ااپنی بہشت کی طرف ایک اور راستہ بھی قرار دیا ہے “۔(۷)

بعد والی آیت میں ، اس تفسیر کو جاری رکھتے ہوئے ، جو اس دشوار گزار گھاٹی کے لئے یہاں فرمائی ہے ، مزید کہتا ہے : ” پھر وہ ایسے لوگوں میں سے ہوجو ایمان لائے ہیں ، اور ایک دوسرے کو صبر و استقامت اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں “۔( ثم کان من الذین اٰمنوا و تواصوا بالصبر و تواصوبالمرحمة ) ۔

اس طرح سے وہ لوگ اس دشوار گزار گھاٹی سے عبور کر لیں گے ، جو صاحب ایمان بھی ہوں اور صبر کی دعوت کرنے اور عواطفِ انسانی جیسے اعلیٰ اخلاق بھی رکھتے ہوں اور انہوں نے غلاموں کو آزاد کرنے میں اور یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے جیسے اعمال صالح بھی انجام دیئے ہوں ۔

یا دوسرے لفظوں میں وہ تین میدانوں ، ایمان ، اخلاق اور عمل میں قدم رکھیں اور اس سے سر بلند و سرفراز ہو کر نکلیں یہی ہیں وہ لوگ جو اس قسم کی دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرلیں گے ۔

” ثم “ ( بعد) کی تعبیر ہمیشہ ہی تاخیر زمانی کے معنی میں نہیں ہوتی کہ اس کلام کا لازمہ یہ ہو کہ پہلے کھانا کھلائیں اور انفاق کریں اس کے بعد ایمان لائیں ، بلکہ اس قسم کے موارد میں ۔ جیسا کہ مفسرین کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے ۔ مقام کی بر تری کے بیان کے لئے ہے کیونکہ مسلمہ طور پر ایمان کا رتبہ ، اور صبر و مرحمت کی وصیت کرنے کا مرتبہ ، حاجت مندوں کی مدد کرنے کے مرتبہ سے بالاتر ہے ، بلکہ اعمال صالح کا سرچشمہ ایمان اور اخلاق ہی ہیں اور ان سب کی جڑ بنیاد اعتقادات اور اعلیٰ اخلاق میں ہی تلاش کرنا چاہئیے ۔

بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ ” ثم “ یہاں تاخیر زمانی کے معنی میں ہے ، کیونکہ بعض اوقات اعمال ِ صالح ایمان کی طرف جھکاو کا سر چشمہ بن جاتے ہیں اور خاص طور پر اخلاق کی بنیادوں کو محکم کرنے میں مو ثر واقع ہوتے ہیں ، کیونکہ انسان کا خلق و خو پہلے ” فعل “ کی صورت میں ہوتا ہے ، اس کے بعد ” حالت“ کی صورت میں اور پھر ” عادت“ بن جاتا ہے اور اس کے بعد وہ ایک ” ملکہ“ کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔

( تواصوا ) “ کی خبر تعبیر جس کا مفہوم ایک دوسرے کو وصیت اور سفارش کرنا ہے ، ایک اہم نکتہ اپنے اندر لیئے ہوئے ہے اور وہ یہ ہے کہ پر وردگار کی اطاعت کی راہ میں صبر و استقامت اور ہوائے نفس سے مبارزہ و مقابلہ جیسے اہم مسائل ، اور اسی طرح اصل محبت و مرحمت کو تقویت دینا معاشرے میں انفرادی صورت میں نہیں ہونے چاہیئے ، بلکہ اسے ایک عمومی صورت میں سارے معاشرے میں جاری ہونا چاہئیے اور سب افراد ہی ایک دوسرے کو اس ” اصول “ کی رعایت و حفاظت کرنے کی وصیت کریں تاکہ اس طریقہ سے اجتماعی تعلقات اور زیادہ محکم سے محکم ہوں ۔

بعض نے کہا ہے کہ ” صبر“ یہاں فرمان خدا کی اطاعت میں استقامت اور اس کے اوامر میں اہتمام کرنے کے معنی میں ہے اور ” مرحمت“ مخلوق ِ خدا کے لئے محبت کی طرف اشارہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خالق و مخلوق سے ارتباط ہی دین کی اساس و بنیاد ہے ، بہر حال صبر و استقامت ہی ہر قسم کی اطاعت و بندگی اور گناہ وعصیان کے ترک کرنے کی اصل و بنیاد ہے ۔ اور ان اوصاف کے آخر میں اس اوصاف کے حاملین کے اوصاف کو اس طرح بیان فرماتا ہے : ” وہ اصحاب یمین ہیں “( اولٰئِک اصهابالمیمنة ) ۔

اور ان کا نامہ اعمال بارگاہ دخدا وندی میں قبول ہونے کی نشانی اور علامت کے طور پر ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ ” میمنہ“ ” یمن “ کے مادہ سے ہے ۔ یعنی وہ صاحبان ِ بر کت ہیں اور ان کا وجود خود ان کے لئے بھی برکت ہے اور معاشرے کے لئے بھی۔

اس کے بعد اس گروہ کے نقطہ مقابل یعنی ان لوگو ں کا بیان کرتے ہوئے ، جو اس دشوار گزار گھاٹی سے نہیں گزرے فرماتاہے :

وہ لوگ جنہوں نے ہماری آیات کا انکار کردیا ، ایسے بد بخت اور شوم ہیں کہ ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا “۔( و الذین کفروا باٰیاتنا هم اصحاب المشئمة ) ۔

اور یہ اس با ت کی نشانی ہے کہ ان کے ہاتھ حسنات اور نیکیوں سے خالی ہے اور ان کا نامہ اعمال سیئات اور برائیوں سے سیاہ ہے ۔

” مشئمة“ ” شوم “ کے مادّہ سے ” میمنة “ کا جو ” یمن “ کے مادہ سے ہے ، نقطہ مقابل ہے ، یعنی یہ کافر گروہ شوم ، بد بخت او رنامبارک افراد ہیں جو اپنی بد بختی کا سبب بھی ہیں اور معاشرے کی بد بختی کا بھی ، لیکن چونکہ قیامت میں بد بخت و شوم ہونا اور مبارک ہونا اس چیز سے پہچانا جائے گا کہ ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں یا دائیں ہاتھ میں ہوگا ، لہٰذا بعض نے اس تفسیر کو اسی وجہ سے پسند کیا ہے ، خصوصاً جب کہ شوم کا مادہ لغت میں بائیں طرف کے جھکاو کے معنی میں بھی آیاہے ۔(۸)

اس سورہ کی آخری آیت میں آخری گروہ کی سزا کی طرف ایک مختصر اور پر معنی اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے : ان کے اوپر آگ ہے ، جو انہیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے ، جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے “۔( علیهم نار مو صدة ) ۔

( موصدة ) “ ”ایصاد “ کے مادہ سے دروازہ کو بند کرنے اور اسے محکم کرنے کے معنی میں ہے ۔ یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ انسان اس کمرے میں جس کی فضا گرم ہو یہ چاہتا ہے کہ اس کے در وازہ کو بند کرنے اور اسے محکم کرنے کے معنی میں ہے ۔ یہ با ت کہے بغیروا ضح ہے کہ انسان اس کمرے میں جس کی فضا گرم ہو یہ چاہتا ہے کہ اس کے دروازوں کو کھول دے ، تاکہ تازہ ہوا آئے اور فضا کی گرمی کو معتدل کردے۔

اب سوچنا چاہئیے کہ دوزخ کی جلانے والی بھٹی میں ، جب کہ تمام دروازے بند ہو جائیں ، کیا حالت پید اہوگی ؟

خدا وندا ! ہمیں اس قسم کی جان گذار عذاب سے اپنے لطف و کرم کی پناہ میں محفوظ رکھنا۔

پروردگارا ! ان گھاٹیوں سے گزرنا جو ہمارے سامنے ہیں ، تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ تو اپنی توفیق کو ہم سے نہ روکنا ۔

بار الہٰا ! ہمیں اصحاب میمنہ کی صف میں جگہ دینا اور نیک اور ابرار لوگوں کے ساتھ محشور فرمانا ۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ظاہر یہ ہے کہ اس جملہ میں ” لا‘ ” نافیہ “اور ” خبریہ “ ہے اور یہ جو بعض نے اسے نفرین یا استفہام کے معنی میں سمجھا ہے ، بہت بعید نظر آتا ہے ۔ وہ واحد اعتراض جو یہاں موجود ہے یہ ہے کہ جب انسان فعل ماضی پر ” لا “ آتا ہے تو عام طور پر اس کا تکرار ہوتا ہے ، جیسا کہ سورہ قیامت کی آیت ۳۱ میں آیاہے کہفلا صدّق و لا صلی :( نہ تو اس نے صدقہ دیا اور نہ ہی نمازپڑھی) جب کہ زیر بحث آیت میں ” لا“ کا تکرار نہیں ہوا، لیکن جیسا کہ مرحوم ” طبرسی“ نے ” مجمع البیان “ میں نقل کیا ہے کہ بعض اوقات یہ تکرار کے بغیر بھی استعمال ہوتا ہے ”فخر رازی “ اور” قرطبی “ نے اپنی تفاسیر میں بعض عربی ادب کے بزرگوں سے نقل کیا ہے کہ اگر ” لا“ لم“ کے معنی میں ہوتو پھر تکرار کی ضرورت نہیں ہے ، یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہاں تقدیر میں تکرار ہوا ہے :فلا اقتحم العقبة ولا فک رقبة ولا اطعام فی یوم ذی مسغبة

۲۔ مجمع البیان جلد۱۰ص ۴۹۵

۳-نهج البلاغه»، خطبه ۱۷۶.

۴۔ ” نو ر الثقلین “ جلد ۵ ص ۵۸۳۔

۵۔” مجمع البیان “جلد۱۰ ص۴۹۵۔

۶۔ ” تفسیر ابو الفتوح رازی ، جلد۱۲ ص۹۶۔

۷۔۔ کافی مطابق نقل تفسیر المیزان ، جلد۲۰ ، ص ۴۲۴۔

۸۔ تفسیر ابو الفتوح رازی جلد ۱۲ ص ۹۷ اور المنجد مادہ ” شأم “ ۔

سورہ الشمس

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔اس کی ۱۵ آیات ہیں ۔

سورہ الشمس اور اس کی فضیلت

یہ سورہ جوحقیقت میں ” تہذیب ِ نفس“ اور دلوں کو آلائشوں اور ناپاکیوں سے پاک کرنے والا سورہ ہے ، اسی معنی کے محور پر گر دش کرتاہے البتہ اس سورہ کے آغاز میں ۔ اس مطلب کوثابت کرنے کے لئے کہ فلاح و رست گاری تہذیبِ نفس کی مرہون منت ہے ، عالم ِخلقت کے گیارہ اہم موضوعات اور خدا کی ذاتِ پاک کی قسم کھائی گئی ہے ۔ اور قرآ ن مجید کی بیشتر قسموں کو مجموعی طور پر اپنے اندر سمو لیا ہے ۔

اور سورہ کے آخر میں باغی اور سر کش قوموں میں سے ایک کا ذکر ” جو تہذیب نفس کو ترک کرنے کی بناء پر ابدی او ر دائمی شقاوت و بد بختی میں ڈوب گئی تھی، اور خدا نے اسے شدید عذاب میں گرفتار کیا تھا ، یعنی قوم ” ثمود “ ۔ بطور نمونہ پیش کرتا ہے ، اور ایک مختصر سے اشارہ کے ساتھ ان لوگوں کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ مختصر سا سورہ بشرکی زندگی کے سر نوشت ساز مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ کو موضوع بناتا ہے اور انسانوں کے لئے اسلام کے قابل قدر نظام کو مشخص کرتاہے ۔

فضیلت تلاوت

یہ سورہ جوحقیقت میں ” تہذیب ِ نفس“ اور دلوں کو آلائشوں اور ناپاکیوں سے پاک کرنے والا سورہ ہے ، اسی معنی کے محور پر گر دش کرتاہے البتہ اس سورہ کے آغاز میں ۔ اس مطلب کوثابت کرنے کے لئے کہ فلاح و رست گاری تہذیبِ نفس کی مرہون منت ہے ، عالم ِخلقت کے گیارہ اہم موضوعات اور خدا کی ذاتِ پاک کی قسم کھائی گئی ہے ۔ اور قرآ ن مجید کی بیشتر قسموں کو مجموعی طور پر اپنے اندر سمو لیا ہے ۔

اور سورہ کے آخر میں باغی اور سر کش قوموں میں سے ایک کا ذکر ” جو تہذیب نفس کو ترک کرنے کی بناء پر ابدی او ر دائمی شقاوت و بد بختی میں ڈوب گئی تھی، اور خدا نے اسے شدید عذاب میں گرفتار کیا تھا ، یعنی قوم ” ثمود “ ۔ بطور نمونہ پیش کرتا ہے ، اور ایک مختصر سے اشارہ کے ساتھ ان لوگوں کی سر نوشت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

حقیقت میں یہ مختصر سا سورہ بشرکی زندگی کے سر نوشت ساز مسائل میں سے ایک اہم ترین مسئلہ کو موضوع بناتا ہے اور انسانوں کے لئے اسلام کے قابل قدر نظام کو مشخص کرتاہے ۔

اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :”من قرأها فکانما تصدق بکل شیء طلعت علیه الشمس و القمر

” جو شخص اس سورہ کو پرھے گا تو گویا اس نے ان تمام چیزوں کو تعداد میں جن پر سورج اور چاند طلوع کرتے ہیں ، صدقہ دیا ہے ۔(۱)

اور مسلّمہ طور پر یہ عظیم فضیلت اس شخص کے لئے ہے ، جو اس چھوٹے سے سورہ کے عظیم مطالب پر دل و جا ن سے عمل کرے اور تہذیب نفس کو اپنا قطعی وظیفہ سمجھے ۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰، ص ۴۹۶۔