تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65331
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65331 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

تقویٰ اور خدائی امدادیں

اس سورہ کے آغاز میں ہم پھر تین فکر انگیز ( مخلوقات اور خالقِ عالم کی ) قسموں کاسامنا کررہے ہیں ، فرماتا ہے : ” قسم ہے رات کی جبکہ وہ سارے جہاں کو ڈھانپ لے “۔( و اللیل اذا یغشیٰ ) ۔

” یغشیٰ “ کی تعبیر ممکن ہے اس بناء پرہوکہ رات کی تاریکی پردہ کی طرح آدھے کرہ زمین پر پڑتی ہے ، اور اسے اپنے نیچے ڈھانپ لیتی ہے ۔

یا اس بناپر کی دن کا چہرہ یا آفتاب ِ عالمتاب کا چہرہ اس کے پہنچ جانے سے ڈھک جاتا ہے ۔ بہرحال یہ رات کی اہمیت اور انسانوں کی زندگی میں اس کے اثرات کی طرف سورج کے اعتدال سے لے کر ، اس کے سائے میں تمام زندہ موجودات کے آرام و سکون اور شب زندہ دار، بیداردل اور آگاہ افراد کے مسئلہ تک ایک اشارہ ہے ۔

اس کے بعد دوسری قسم کو بیان کرتاہے اور مزید کہتا ہے :” اور قسم ہے دن کی جب کہ وہ آشکار و ظاہر ہو “۔( النهار اذا تجلیٰ ) (۱)

اور یہ اس لمحہ کی بات ہے جب سپیدہ صبح رات کے ظلماتی پردہ کو چیر دیتا ہے اور تاریکیوں کو پیچھے دھکیل کر سارے صفحہ آسامانی پر حاکم بن جاتا ہے ۔ اور ہر چیز کو نور اور روشنی میں نہلادیتا ہے۔ وہی نور و روشنی جو حرکت وحیات کی رمز اور تمام زندہ موجودات کی پرورش کا سبب ہے ۔

قرآن مجید میں ” نور“ و ” ظلمت“ کے نظام کے مسئلہ اور ان کی انسانی زندگی پر تاثیر کی طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی، کیونکہ یہ عظیم دائمی نعمتیں پروردگار کی اہم آیات میں سے دوآیتیں ہیں ۔

اس کے بعد آخری قسم کو بیان کرتے ہوئے فرماتاہے : ” اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مذکر و مو نث کی جنس کو پیدا کیا “۔( وماخلق الذکر و الانثیٰ ) ۔

کیونکہ عالم ” انسان “ و حیوان“ اور ” نبات“ میں ان دونوں جنسوں کا وجود ، اور وہ تغیرات جو انعقاد نطفہ سے لے کر تولد تک راہ نما ہوئی ہیں ، اور وہ خصوصیات و صفات جو دونوں جنسوں میں ان کی فعالیتوں اور پروگراموں کی نسبت سے پائی جاتی ہیں اور وہ بہت سے اسرار جو جنسیت کے مفہوم میں چھپے ہوئے ہیں ، یہ سب عظیم عالم ِ آفرینش کی نشانیاں اور آیات ہیں جن کے ذریعے ان کے پیدا کرنے والے سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے ۔

” ما“ ( وہ چیز)کی تعبیر یہاں خدا کے بارے میں اس کی ذات پاک کی حد سے زیادہ عظمت سے کنایہ ہے ، اور یہ وہ ابہام ہے جو اس لحاظ سے یہاں اس طرح حکم فرماہے کہ وہ اسے خیال قیاس و گمان و وہم سے بر تر کردیتا ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” ما“ یہاں مصدر یہ ہے ، تو اس بناء پر اس جملہ کا معنی یہ ہوگا : قسم ہے مذکر ومو نث کی خلقت کی لیکن یہ احتمال بھی ضعیف نظر آتا ہے ۔

حقیقت میں پہلی اور دوسری دو قسمیں آیات آفاقی کی طرف اشارہ ہیں ، اور تیسری قسم آیات انفسی کی طرف اشارہ ہے ۔

آخر کار ان قسموں کے ہدف کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:” زندگی کے لئے تمہاری سعی و کوشش گوناں گوں ہے ۔( انّ سعیکم لشتیٰ ) ۔

ان کوششوں کی سمت ، اور ان کے نتائج بھی مکمل طور پر مختلف اور متفاوت ہیں ، جو اس طرف اشارہ ہے کہ تم بہر حال زندگی میں سکون و آرام سے نہیں رہو گے ، اور یقینی طورپر سعی و کوشش کے لئے ہاتھ پاو ں مارو گے ، اور خدا داد قوتوں اور توانائیوں کو ، جو تمہارے وجود کا سرمایہ ہیں ۔ کسی نہ کسی راستہ میں خرچ کروگے اب تم خود دیکھو گے کے تمہاری سعی و کوشش کس راستے ، کس سمت اور کس نتیجہ کی حامل ہے ؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنے سرمایوں اور صلاحیتوں کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ ڈالو، یا فضول مفت میں ضائع کربیٹھو ۔

” شتی“ ” شتیت“کی جمع ہے جو” شت“( بر وزن شط)کے مادہ سے جمیعت کو پراکندہ کرنے کے معنی میں ہے اور یہاں کیفیت و مقصد حصول اور انکے نتیجہ کے لحاظ سے لوگوں کی کوششوں کے اختلاف کی طرف اشارہ ہے ۔

اس کے بعد لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کرکے ہر ایک کی خصوصیت کو شمار کرتے ہوئے فرماتاہے : ” پس وہ شخص جو راہ خدا میں بخشش کرے اور پرہیزگاری اختیار کرے “۔( فاما من اعطٰی و اتقٰی ) ۔

” اور راہ خد اکی اچھی جزا پر ایمان رکھتا ہو“( صدق بالحسنیٰ ) ۔

” ہم اس کے لئے راستہ کو آسان بنا دیں گے اور بہشت ِ جاوداں کی طرف ہدایت کریں گے۔“( فسنیسره للیسرٰی ) ۔

”اعطٰی“ سے مراد وہی راہ خدا میں خرچ کرنا اور حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔

اور اس کے بعد تقویٰ کے لئے تاکید ممکن ہے کہ پاک نیت ، اور خرچ کرتے وقت قصدِ خالص، اور مشروع طریقہ سے اموال کاحصول اور انہیں مشروع و جائز طریقہ سے خرچ کرنا اور ہر قسم کا احسان جتانے اور اذیت و آزار پہنچانے سے خالی ہونے کے لزوم کی طرف اشارہ ہو کیونکہ ان اوصاف کا مجموعہ تقویٰ کے عنوان میں جمع ہے ۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” اعطیٰ“ مالی عبادتوں کی طرف اشارہ ہے اور” اتقٰی “ باقی تمام عبادتوں کی طرف ، اور واجبات کو انجام دینے اور محرمات کو چھوڑ دینے کی طرف ، لیکن پہلی تفسیر ظاہر آیت کے ساتھ ساز گار ہے، اور شانِ نزول کے ساتھ بھی جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔

( حسنٰی ) “ کی تصدیق (” حسنٰی“ ” احسن“ کی مو نث ہے “ جو زیادہ اچھے کے معنی میں ہے )۔

یہ خدا کی اچھی جزاو ں پرایمان رکھنے کی طرف اشارہ ہے،جیسا کہ شانِ نزول میں بیان ہواہے کہ ” ابو الدحداح“ نے خدا کی جزاو ں پر ایمان رکھتے ہوئے اپنے اموال خرچ کئے ۔ سورہ نساء کی آیہ ۹۵ میں آیا ہے : و کلاً وعد اللہ الحسنٰی :” خد انے ان میں سے ہر ایک کو اچھے اجر اور جزاو ں کا وعدہ دیا ہے ۔ ( اس آیت میں بھی حسنی اچھی جزا کے معنی میں ہے )۔

اور بعض نے اس کی کلمہ لا الہ الاَّاللہ یا شہادتین کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔

لیکن سیاقِ آیات ، شانِ نزول ، اور بہت سی آیاتِ قرآنی میں حسنٰی کا اچھی جزا کے معنی میں ہونے کے ذکر کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔

( فسنیسره للیسری ) “ کا جملہ ممکن ہے توفیق الٰہی ، اور ایسے اشخاص پر امر اطاعت کے آسان کرنے کی طرف اشارہ ہو، یا ان کی طرف جنت کی راہ کھولنے اور تحیت و سلام کے ساتھ ملائکہ اور فرشتوں کے استقبال کرنے ، یا ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہو۔

یہ بات یقینی ہے کہ جو لوگ انفاق و تقویٰ کی را ہ اختیار کرتے ہیں اور عظیم خدائی جزاو ں پر گرم جوشی کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں ، ان کے لئے مشکلات آسان ہوجاتی ہیں او روہ دنیا و آخرت میں ایک خاص قسم کے سکون و آرام کے حامل ہوتے ہیں ۔

ان سب سے قطع نظر ممکن ہے کہ مالی انفاق ابتداء میں انسان کی طبیعت و مزاج کے لئے شاق اور مشکل ہو، لیکن تکرار کرنے اور مسلسل جاری رکھنے سے اس پر راستہ اس طرح آسان ہو جاتا ہے کہ وہ اس سے لذت آٹھا تا ہے ۔

کتنے ہی سخی لوگ ایسے ہیں جو اپنے دسترخوان پر مہمان کی موجودگی میں خوش ہوتے ہیں ، لیکن اس کے برعکس اگر کسی دن ان کے پاس مہمان نہ آئے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور یہ بھی مشکلات آسان کرنے کی ایک قسم ہے۔ اور اس نکتہ سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئیے کہ ا صولی طور پر خدا ئی عظیم جزاو ں پر ایمان ، انسان کے لئے انواع و اقسام کی مشکلات کی بر داشت کو آسان اور سہل بنا دیتا ہے ، نہ صرف مال بلکہ وہ اپنی جان کو بھی اخلاص کے مطابق گزارتا ہے اور عشق شہادت میں میدان جہاد میں شرکت کرتا ہے ، اور اپنی اس قربانی اور ایثار سے لذت حاصل کرتا ہے۔

” یسریٰ “ ”یسر“ کے مادہ سے اصل میں گھوڑے پر زین کسنے ، اسے لگام دینے اور سواری کے لئے آمادہ و تیارکرنے کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد اس کا ہر سہل اور آسان کام کے لئے اطلاق ہواہے۔(۲)

بعد والی آیات میں اس گروہ کے نقطہ مقابل کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” لیکن وہ شخص جو بخل کرے اور اس طریقے سے بے نیازی چاہے“۔( وامامن بخل و استغنٰی ) ہم عنقریب راستوں کو اس پر دشوار اور مشکل بنادیں گے “۔( فسنیسره للعسرٰی ) ۔

” بخل“ یہاں ” اعطاء“ کا نقطہ مقابل ہے ، جو پہلے گروہ ( سعادت مند سختیوں کے گروہ) میں بیان ہوا ہے ۔” و استغنیٰ “ ( بے نیازی چاہے ) یابخل کرنے کے لئے ایک بہانہ ، یا مال جمع کرنے کے لئے ایک وسیلہ ہے ، اور یا یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ خدا ئی جزاو ں سے اپنے آپ کو بے نیاز شمار کرتا ہے ، پہلے گروہ کے بر عکس ، جن کی آنکھ ہمیشہ لطفِ خدا پر لگی رہتی ہے یا وہ اپنے آپ کو خدا کی اطاعت سے بے نیاز سمجھتا ہے ، اور ہمیشہ گناہ میں آلودہ رہتا ہے۔ان تینوں تفاسیر میں سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے۔ اگر چہ تینوں تفاسیر کے درمیان جمع بھی ممکن ہے ۔

” حسنٰی“کی تکذیب سے مراد وہی قیامت کی جزاو ں کا انکار ہے، یا پیغمبروں کے دین و آئین اور نیک روش کا انکار ہے ۔

( فسنیسره للعسری ) “کی تعبیر جو واقعی طور پر دو ظاہر اً متضاد تعبیریں ہیں ( ہم ان کی راہ کو مشکلات کی طرف آسان کردیں گے )۔

فسنیسره للیسریٰ “ کا نقطہ مقابل ہے ، اس طرح سے کہ خدا پہلے گروہ کو تو اپنی تو فیقات کا مشمول قرار دے گا اور ان کے لئے اطاعت و انفاق کی راہ کو طے کرنا آسان بنادے گا تاکہ وہ زندگی کی مشکلات سے رہائی حاصل کرلیں لیکن دوسرے گروہ کی توفیقات سلب ہو گئی ہیں ، لہٰذا ان کے لئے طے کرنا مشکل ہوجاتا ہے ، اور انہیں دنیا و آخرت میں سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اصولی طور پر ان بے ایمان بخیلوں کے لئے نیک اعمال کو انجام دینا ، خصوصاً راہ خدا میں انفاق کرنا سخت اور دشوار کام ہے ، جب کہ پہلے گروہ کے لئے نشاط آور اور ،روح افزا ہے ۔(۳)

اور آخری زیر بحث آیت میں ان دل کے اندھے بخیلوں کو خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے :” جب وہ قبر یا جہنم میں جا گرے گا ، تو اس کے اموال ا س کے کچھ کام نہ آئیں گے “۔( وما یغنی عنه ماله اذا تردّٰی ) ۔

نہ تو وہ ان اموال کو دنیا سے اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے اور اگر وہ گروہ لے بھی جائے تو وہ اس کے جہنم کی آگ میں جانے سے مانع نہیں ہوں گے ۔

”ما“ اس آیت کے آغاز میں ممکن ہے ” نافیہ “ ہو( جیساہم نے او پر بیان کیا ہے ) یا استفہام انکاری کے لئے ہو ، یعنی اس کے اموال قبر یا دوزخ میں جاگرنے کے وقت ا سکو کیا فائدہ دیں ؟

” تردّٰ ی “ ” ردئت“ اور ردٰی “ کے مادہ سے ہلاکت کے معنی میں ہے اور بلندی سے گرنے کے معنی میں بھی آ یا ہے جو ہلاکت کا سبب ہو ۔ بلکہ بعض تو اس کی اصل ہی سقط کے معنی میں سمجھتے ہیں ، ، اور چونکہ جگہ سے گرنا ہلاکت کا سبب ہوتا ہے ، لہٰذا ہلاکت کے معنی میں بھی آیا ہے اور زیر بحث آیت میں ممکن ہے کہ قبر یا دوزخ میں گرنے کے معنی میں ہو یا ہلاکت عذاب کے معنی میں ہو۔

اس طرح قرآن ان آیات میں دو گروہوں کے بارے میں گفتگو گو کرتا ہے ، ایک گروہ مومن ، متقی اور سخی اور دوسرے گروہ بے ایمان ، بے تقویٰ اور بخیل ، اور ان دونوں گروہوں کانمونہ شانِ نزول میں وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

پہلا گروہ تو فیقا ت ِ الہٰی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ، اپنی راہ کو سہولت کے ساتھ طے کرتا ہے، اور جنت اور اس کی نعمتوں کی طرف بڑھا چلا تاجا ہے ، جب کہ دوسراگروہ زندگی میں بے شمار مشکلات میں گھرا ہواہوتا ہے، بہت سال مال جمع کرتا ہے اور یہیں پر چھوڑ کر آگے چلا جاتا ہے ، اور سوائے حسرت، اندوہ و بال اور خدائی عذاب کے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ، اور وہ اس سے کوئی چیز نہیں خرید تے

____________________

۱۔ قابل توجہ بات یہ ہے ” یغشیٰ“ فعل مضارع کی صورت میں ذکر ہوا ہے ، لیکن ” تجلیّٰ“ فعل ماضی کی صورت میں ہے ۔بعض نے کہا ہے : یہ اس بناء پر ہے کہ اس زمانہ میں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا آغاز تھا تو جاہلیت کی تاریکی نے ہر جگہ کو گھیر رکھا تھا ۔ لیکن اس صورت میں ایسی ظلمت و تاریکی کی قسم کھانا کچھ اچھا دکھائی نہیں دیتا ۔ بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ یہ فعل ماضی چونکہ ”اذا“ شرطیہ کے بعد واقع ہواہے : لہٰذا فعل مضارع کا معنی دیتا ہے ، یا یہ اصل میں ” تتجلی“ تھا اور ا سکی ایک ” تاء “ حذف ہوگئی ہے ، لیکن اس صورت میں فعل مونث ہو جائے گا، اور پھر ” نہار“ ( دن ) اس کا فاعل نہیں ہوسکتا بلکہ پھر تقدیر میں اس طرح ہونا چاہئیے۔ ”اذا تجلی الشمس فیه “جب اس میں سورج آشکار و ظاہر ہو)۔

۲۔ ” تفسیر کشاف“ جلد ۴ ، ص ۷۶۲۔

۳۔ ” یسریٰ“ و” عسرٰی“ دونوں مو نث کے صیغہ ہیں ( ان کا مذکر ” الیسر“ و ” اعسر“ و” اعسر“ ہے) اور ان دونوں کا مو نث کے صیغہ کی صورت میں ذکر کرنا تو اس بناء پر ہے کہ ان کا موصوف ( افعال کا مجموعہ ) ہے اور تقدیر میں اس طرح ہوگا ۔ ”فسنیسره الاعمال یسریٰ ۔ او۔ لا اعمال عسری یا تمام مسائل اور زندگی میں پیش آنے والے واقعات میں ، اور اگر اس کا موصوف مفرد ہو تو ممکن ہے کہ ” طریقة“ یا” خلّة“ یا اس قسم کا کوئی لفظ ہو۔

آیات ۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱

۱۲ ۔( انّ علینا للهدیٰ ) ۔ ۱۳ ۔( و انّ لنا للاٰخرة و الاولیٰ ) ۔ ۱۴ ۔( فأنذرتکم ناراً تلظّٰی ) ۔

۱۵ ۔( لایصلٰهآ الاَّ الاشقی ) ۔ ۱۶ ۔( الذی کذّب و تولیّٰ ) ۔ ۱۷ ۔( و سیجنبها الاتقی ) ۔

۱۸ ۔( الذی یُو تی ماله یتزکیّٰ ) ۔ ۱۹ ۔( و ما لاحدٍ عنده من نّعْمَةٍ تُجزٰٓی ) ۔ ۲۰ ۔( الاَّ ابتغآء وجه ربِّه الاعلیٰ ) ۔

۲۱ ۔( وَ لَسوفَ یرضٰی ) ۔

ترجمہ

۱۲ ۔ یقینا ہدایت کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ ۱۳ ۔ اور دنیا و آخرت ہمارے لئے ۔ ۱۴ ۔ اور میں تمہیں شعلہ نکالنے والی آگ سے ڈراتا ہوں ۔

۱۵ ۔ بدبخت ترین لوگوں کے سوا کوئی شخص اس میں داخل نہیں ہوگا۔ ۱۶ ۔وہی شخص جس نے آیاتِ ( خدا کی ) تکذیب کی اور پیٹھ پھیر لی۔

۱۷ ۔ اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والے عنقریب اس سے دور رہیں گے ۔

۱۸ ۔ وہی شخص جو اپنے مال کو ( خدا کی راہ میں ) بخش دیتا ہے تاکہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے ۔

۲۰ ۔ اور کسی شخص کا اس کے پاس کوئی حقِ نعمت نہیں ہے تاکہ وہ ( اس انفاق کے ذریعے ) اس کا بدلہ دے۔ ۲۰: سوائے اپنے بلند و بر تر پر وردگار کی رضا مندی چاہنے کے لئے ۔

۲۱ ۔ اور وہ عنقریب راضی و خوشنود ہوجائے گا۔

انفاق اور جہنم کی آگ سے دوری

گزشتہ آیات میں لوگوں کی دو گرہوں : مومنِ سخاوت منداور ایمان بخیل ،میں تقسیم کرنے ، اور ان میں سے ہر ایک کی سر نوشت بیان کرنے کے بعد زیر بحث آیات میں ، پہلے اس بات کو بیان کرتا ہے کہ ہمارا کام ہدایت کرنا ہے کسی کو مجبور کرنا نہیں ہے ۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مردانہ وار راستہ پر گامزن ہوجاو ۔ علاوہ از این اس راستہ کو طے کرنا خود تمہارے نفع میں ہے اور ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

فرماتا ہے : یقینا ہدایت کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے ۔ “( ان علینا للهدٰی ) ۔

چاہے تکوین ( فطرت و عقل ) کے طریق سے ہدایت ہو، اور چاہے تشریح ( کتاب و سنت) کے طریق سے ہو۔ اس سلسلہ میں جو کچھ ضروری تھا وہ ہم نے بیان کردیا ہے اور اس کا حق اداکردیا ۔

” اور یقینی طورپر آخرت اور دنیا ہماری ہی ملکیت ہے“۔( و ان لنا للاٰخرة و الاولیٰ ) (۱)

ہمیں تمہارے ایمان و اطاعت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، نہ تمہاری اطاعت ہمیں کوئی فائدہ پہنچاتی ہے اور نہ ہی تمہاری نافرمانی سے ہمیں کوئی نقصان پہنچتا ہے ۔ یہ تمام پروگرام تمہارے فائدے کے لئے ہیں اور خود تمہارے لئے ہیں ۔

اس تفسیر کے مطابق یہاں ہدایت ” ارائہ طریق“ کے معنی ہے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ ان دوآیات کا ہدف سخاوت کرنے والے مومنین کو شوق دلانا اور اس معنی پر تاکیدی ہو کہ ہم انہیں مزید ہدایت کا مشمول قرار دیں گے، اور اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی راستہ کو ان پر آسان کردیں گے، اور چونکہ دنیا و آخرت ہمارے ہی ملکیت ہے لہٰذا ہم اس کام کو انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔

یہ ٹھیک ہے کہ زمانہ کے لحاظ سے دنیا آخرت پر مقدم ہے ، لیکن اہمیت اور ہدف اصلی کے لحاظ سے مقصودِ اصلی آخرت ہے ، اور اسی بناء پراسے مقدم رکھا گیا ہے۔

اور چونکہ ہدایت کے شعبوں میں سے ایک خبر دار کرنا اور ڈرانا ہے ، لہٰذا بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے : اب جب کہ یہ بات کہ میں تمہیں اس آگ سے ڈراتاہوں جو شعلہ ور ہوگی “( فانذر تکم ناراً تلظّٰی ) ۔

” تلظّٰی“ ” لظٰی“ ( بر وزن قضا) کے مادہ سے ،خالص شعلہ کے معنی میں ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خالص شعلوں میں کو ہر قسم کے دھوئیں سے خالی ہوں زیادہ گرمی اور حرارت ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات لفظ ”لظٰی“ کاخود بھی اطلاق ہوتا ہے ۔(۲)

اس کے بعد اس گروہ کی طرف ، جو اس بھڑکتی ہوئی اور جلانے والی آگ میں داخل ہوں گے ، اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :” بد بخت ترین آدمی کے سوا اس میں کوئی بھی داخل نہیں ہوگا ۔( لایصلاها الاَّ الاشقی ) ۔

اور شقی کی توصیف میں فرماتا ہے :” وہی شخص جو آیات الٰہی کی تکذیب کرتا ہے اور ان سے پیٹھ پھیر لیتا ہے “۔( الذی کذّب و تولیّٰ ) ۔

اس بناء پر خوش بختی و بد بختی کا معیار وہی کفر و ایمان ہے یا وہ عملی نتائج جو ان دونوں کے ہوتے ہیں ، اور وہ واقعاً جو شخص ہدایت کی ان نشانیوں ، اور ایمان و تقویٰ کے امکانات و وسائل کو نظر انداز کردے تو وہ ” اشقی “ کا مصداق، اور بد بخت ترین شخص ہے ۔

( الذین کذب و تولی ) “ کے جملہ میں ممکن ہے کہ ” تکذیب “ تو کفر کی طرف اشارہ ہو، اور ” تولی“ اعمال صالح کے ترک کرنے کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ کفر کا لازمہ یہی ہے ۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ ترک ایمان کی طرف اشارہ ہوں ۔ اس طرح سے کہ پہلے تو پیغمبر کی تکذیب کرتے ہیں ، اور اس کے بعد پیٹھ پھیر کر ہمیشہ کے لئے اس سے دور ہو جاتے ہیں ۔

بہت سے مفسرین نے یہاں ایک اعتراض پیش کیا ہے اور اس کا جواب دیاہے اور وہ یہ ہے کہ اوپر والی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ جہنم کی آگ کفار کے ساتھ جہنم مخصوص ہے ۔ یہ بات اس چیز کے مخالف ہے جو قرآن کی دوسری آیات اور مجموعہ روایات اسلامی سے معلوم ہوتی ہے کہ گنہگار مومن بھی جہنم کی آگ میں حصہ دار بنیں گے، لہٰذا منحرف گروہوں میں سے بعض نے ، جویہ نظر یہ رکھتے ہیں کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچاتا انہوں نے اپنے مقصود پر ان آیت سے استدلال کیاہے ۔ ( اس گروہ کا نام ” مرجئہ“ ہے۔

اس کے جواب میں دو نکتوں کی طرف توجہ کرانا چاہئیے: پہلا یہ کہ یہاں جہنم میں ورود سے مراد وہی ” خلود“ ہمیشہ رہنا ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ خلود کفار کے ساتھ ہی مخصوص ہے ۔ اس بات کا قرینہ وہ آیات ہیں جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ غیر ِ کفار بھی جہنم میں وارد ہوں گے ۔

دوسرا یہ کہ اوپر والی آیات اور بعد والی آیات یہ کہتی ہیں کہ جہنم کی آگ سے دوری ” اتقی“ ( زیادہ متقی افراد) سے مخصوص ہے ، یعنی مجموعی طور پر وہ یہ چاہتاہے کہ صرف دو گروہوں کی حالت بیان کرے :

۱) بے ایمان بخیل گروہ اور

۲) زیادہ تقویٰ رکھنے والے سخاوت مندمومن ۔

ان دونوں گروہوں میں سے صرف پہلا گروہ جہنم میں وارد ہوگا ، اور دوسرا گروہ بہشت میں داخل ہو گا، اور اس طرح سے تیسرے گروہ یعنی گنہگار مومنین کے بارے میں تو اصلا کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے ۔

دوسرے لفظوں میں یہاں ” حصر“ ” حصر اضافی “ ہے ۔ گویا جنت صرف دوسرے گروہ کے لئے ، اور جہنم کے لئے ، اور جہنم صرف پہلے گروہ کے لئے پیدا کی گئی ہے ، اس بیان سے ایک دوسرے اعتراض کاجواب بھی، زیر بحث آیات اور ان آیندہ آنے والی آیات کے رابطہ سے ہواہے ، جو نجات کو ” اتقی“ سے مخصوص کرتی ہیں ،واضح ہوجاتا ہے

اس کے بعد اس گروہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے جو اس جلانے والی شعلہ ور آگ سے دور ہے ، فرماتاہے :” عنقریب سب سے زیادہ تقویٰ کرنے والا آدمی اس بھڑکتی ہوئی آگ سے دور رکھا جائے گا“۔( و سیجنبها الاتقی ) ۔

وہی آدمی جو اپنے مال کو راہ خدا میں انفاق کرتا ہے اور اس کا مقصد رضائے خدا کا حصول ، تزکیہ نفس ، اور اموال کو پاک کرنا ہوتا ہے ،( الذی یوتی ماله یتزکٰی ) ۔

” یتزکٰی “ کی تعبیر حقیقت میں قصدِ قربت اور نیت ِ خالص کی طرف اشارہ ہے ، چاہے یہ جملہ معنوی و روحانی رشد و نمو کے حصول کے معنی میں ہویا اموال کی پاکیزگی کے حاصل کرنے کے معنی میں ، کیونکہ ” تزکیہ“ ’ نمودینے“ کے معنی میں بھی آیاہے ، اور ” پاک کرنے “ کے معنی میں بھی ، سورہ توبہ کی آیہ ۱۰۳ میں آیا ہے :( خذ من اموالهم صدقة تطهرهم و تزکیهم بها و صل علیهم ان صلاتک سکن لهم ) :”ان کے اموال میں سے زکوٰة وصول کرلے تاکہ اس کے ذریعے تو انہیں پاک کرے اور ان کی پرورش کرے ، اور ( زکوٰة لیتے وقت) اس کے لئے دعا کر کیونکہ تیری دعا ان کے سکون و آرام کا باعث ہے “۔

اس کے بعد ان کے خلوصِ نیت کے مسئلہ پر ، جو وہ خرچ کرنے میں رکھتے ہیں ، تاکید کے لئے مزید فرماتا ہے :” کسی شخص کا اس کے اوپر حقِ نعمت نہیں ہے کہ اس انفاق کے ذریعے اس کی جزا دی جائے “ :(وما لاحد عند ه من نعمة تجزیٰ) بلکہ اس کا مقصد تو اپنے بزرگ و برتر پروردگار کی رضا حاصل کرنا ہے۔( الاابتغاء وجه ربه الاعلیٰ ) ۔

دوسرے لفظوں میں لوگوں کی درمیان بہت سے انفاق ایسے ہوتے ہیں جو ویسے ہی انفاق کا جواب ہوتے ہیں جو طرف مقابل کی طرف سے پہلے سے کئے ہوئے ہوتے ہیں ، البتہ حق شناسی اور احسان کا احسان کے ساتھ جواب دینا ایک اچھا کام ہے ، لیکن اس کا حساب پرہیز گاروں کے مخلصانہ انفاق سے جدا ہے ۔ اوپر والی آیات کہتی ہیں کہ پر ہیز گار مومنوں کا دوسروں پر خرچ کرنا نہ تو ریا کاری کی وجہ سے ہوتا ہے ، اور نہ ہی ان کی سابقہ خدمات کے جواب کے طور پر ، بلکہ اس کا سبب صرف اور صرف خدا کی رضا کا حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہی چیزان انفاقوں کو حد سے زیادہ قدر و منزلت عطا کرتی ہے ۔

” وجہ“ کی تعبیر یہاں ” ذات“ کی معنی میں ہے اور اس سے مراد اس کی پاک ذات کی رضا و خوشنودی ہے ۔

” ربہ الاعلیٰ“ کی تعبیر اس با ت کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ انفاق پوری معرفت کے ساتھ صورت پذیر ہوتا ہے، اور اس حالت میں ہوتا ہے کہ وہ پروردگار کی ربوبیت سے بھی آشنا ہوتا ہے ، اور اس کے مقام ِ اعلیٰ سے بھی باخبر ہوتا ہے ۔

ضمنی طور پر یہ استثناء ہر قسم کی انحرافی نیتوں کی بھی نفی کرتا ہے ،مثلاً نیک نامی، لوگوں کی توجہ مبذول کرنے ، اور معاشرے میں مقام و حیثیت و غیرہ حاصل کرنے کے لئے خرچ کرنا ، کیونکہ اس کا مفہوم ان اموال کے انفاق کامحرک، پر وردگارکی خوشنودی حاصل کرنے میں ہے ۔(۳) انجام کار اس سورہ کی آخری آیت میں اس گروہ کی عظیم و بے نظیر جزاو ں کو پیش کرتے ہوئے ایک مختصر سے جملہ میں فرماتا ہے :” اور ایسا آدمی عنقریب راضی و خوشنود ہوجائے گا“۔( لسوف یرضیٰ ) ۔ہاں ! جس طرح وہ رضائے الٰہی خدا کے لئے کام کرتا ہے ، خدا بھی ا س کو راضی کرے گا، ایسی رضا جو مطلق اور بے مطلق اور بے قید و شرط ہوگی، ایسی رضا جو وسیع و غیر محدود ہوگی ، ایسی پر معنی رضا جس میں تمام نعمتیں جمع ہوگی، ایسی رضاجس کا تصور کرنا بھی آج ہمارے لئے غیرممکن ہے اور وہ کون سی نعمت ہو گی اس سے بر تر بالاتر ہو گی ۔بعض مفسرین نے بھی یہی احتمال دیا ہے کہ ” یرضیٰ“ کی ضمیر خد اکی طرف لوٹتی ہے ، یعنی عنقریب خدا اس گروہ سے راضی ہوجائے گا کہ وہ بھی ایک عظیم و بے نظیر انعام ہے کہ خدائے بزرگ اور پروردگار ِ برتر اس قسم کے بندے سے راضی و خوشنود ہوجائے ۔ وہ بھی ایسی رضا جو مطلق عظیم و بے قید و شرط ہو ، اور یقینی طور پر اس رضائے الٰہی کے پیچھے اس باایمان او رباتقویٰ بندہ کی رضایت ہے ، کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں جیسا کہ سورہ بینہ کی آیہ ۸ میں آیاہے ،( رضی الله عنهم و رضو عنه ) ،یا سورہ فجر کی آیہ ۲۸ میں آیاہے ، راضیة مرضیة ، لیکن تفسیر اول زیادہ مناسب ہے ۔

____________________

۱۔ ” للاٰخرة “ کا ”لام “ اور اسی طرح ( گزشتہ آیت میں ” للھدٰی“ کا ”لام “ ظاہراً لام تاکید ہے جو یہاں ” اسم انّ“ کے اوپر ہے ، اگرچہ عام طور پر خبر کے اوپر داخل ہو اکرتی ہے ، یہ اس بناء پر ہے کہ بعض ادب کی کتابوں کی تصریح کے مطابق جب ” ان ّ“کی خبر مقدم ہو تو اس کے اسم پرلام داخل ہوتی ہے ۔

۲۔ ” تلظی“ اصل میں ” تتلظی“ تھا، دو ”تا“ میں سے ایک ” تا“ تخفیف کے لئے گر گئی ہے ۔

۳۔ ”الابتغاء وجه ربه الاعلیٰ “ کے جملہ میں استثناء ، استثناء منقطع ہے ، البتہ پہلی آیت میں ایک تقدیر ہے جو اس طرح ہے ۔ (وما لاحد عنده من نعمة تجزٰی فلاینفق ماله لنعمة الا ابتغاء وجه ربه الاعلی )ٰ ۔ کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیاجائے لہٰذا وہ اپنا مال کسی احسان کے بدلے میں خرچ نہیں کرتا مگر اپنے بزرگ و بر تر پر وردگار کی خوشنودی کے لئے ۔ یہ احتمال بھی ہے کہ یہ استثناء متصل ہو، ایک محذوف کو نظر نظر میں رکھتے ہوئے اور تقدیر اس طرح ہو:لاینفق لنعمة عنده ولا لغیر ذالک الاابتغاء وجه ربه الاعلی ٰ (غور کیجئے )۔