تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65349
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65349 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے سلسلے میں ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا : ”من قرأ اعطی من الاجرکمن لقی محمداً (ص)مغتماً ففرض عنه

” جو شخص اس سورہ کو پڑھے اس کو اس شخص کا اجر ملے، گا جس نے محمد کو غمگین دیکھا اور آپ کے قلبِ مبارک سے غم و اندوہ کو دور رکیا ہو“۔(۱)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( الم نشرح لک صدرک ) ۔ ۲ ۔( ووضعنا عنک وزرک ) ۔ ۳ ۔( الذیٓ انقض ظهرک ) ۔

۴ ۔( ورفعنالک ذکرک ) ۔ ۵ ۔( فانّ مع العسر یسراً ) ۔ ۶ ۔( انّ مع العسر یسراً ) ۔

۷ ۔( فاذا فرغت فانصب ) ۔ ۸ ۔( و الیٰ ربک فارغب ) ۔

ترجمہ

اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ کیا ہم نے تیرے سینہ کو کشادہ نہیں کیا ؟ ۲ ۔ اور تجھ سے بھاری بوجھ بر طرف نہیں کیا ؟

۳ ۔ اور وہی بوجھ جو تیری پشت کو جھکائے دے رہا تھا۔ ۴ ۔ اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کیا ۔

۵ ۔ اس بناء پر یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔ ۶ ۔ اور یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے ۔

۷ ۔ پس جب تو ایک اہم کام سے فارغ ہو جائے تو دوسری مہم کو شروع کردے۔ ۸ ۔ اور اپنے پروردگار کی طرف توجہ اور رغبت کر۔

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۰۷۔

ہم نے تجھے انواع وا قسام کی نعمتیں عطا کی ہیں ،

آیات کا لب و لہجہ پروردگار کے حد سے زیادہ لطف و محبت، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تسلی و دلداری کے پہلو رکھتا ہے ۔

پہلی آیت میں خدا کی اہم ترین نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” کیا ہم نے تیرے سینہ کو کشادہ نہیں کیا“۔

( الم نشرح لک صدرک ) ۔

”نشرح“ ” شرح“ کے مادہ سے ، مفرادات میں راغب کے قول کے مطابق اصل میں گوشت کے ٹکڑوں کو کشادہ کرنے اور زیادہ نازک اور پتلے ورق بنانے کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ شرح صدر سے مراد نور الٰہی اور خدا داد سکو ن و آرام کے ذریعے اس کوو سیع کرنا ہے ، اور اس کے بعد کہتا ہے : گفتگو اور کلام کی مشکلات کی شرح کرنا، اس کو پھیلانے اور اس کے مخفی معانی کو وضاحت کرنے کے معنی میں ہے ۔ بہر حال اس میں شک نہیں ہے کہ یہاں شرح صدر سے مراد اس کاکنائی معنی ہے۔ اور وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح و فکر کو وسعت دیناہے ، اور یہ وسعت ممکن ہے کہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہو، جو وحی و رسالت کے طریق سے پیغمبر کے وسعتِ علم کو بھی شامل رکھتا ہواور دشمنوں اور مخالفین کی ہٹ دھر میوں اور کارشکنیوں کے مقابلہ میں آ کے تحمل و استقامت میں وسعت و کشادگی کو بھی اپنے اندرلئے ہوئے ہو۔

اسی لئے جب موسیٰ بن عمران علیہ السلام ، فرعون جیسے سر کش کی دعوت پر مامور ہوئے”( اذهب الیٰ فر عون انه طغٰی ) “” فرعون کے پاس جاو کہ وہ سرکش ہو گیا ہے “ ، تو بلا فاصلہ عرض کرتے ہیں :”( ربّ شرح لی صدری ویسرلی امری ) “پر وردگار میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے کام کو آسان کردے“۔ ( طٰہٰ۔ ۲۵ ۔ ۲۶) ۔

دوسرے مقام پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب ہےفا صبر لحکم ربک ولا تکن کصاحب الحوت اب جبکہ یہ حال ہے تو اپنے پروردگار کے حکم کے منتظر رہو ، اور استقامت اور صبر و شکیبائی اختیار کر واور یونس کی طرح نہ ہو ( جو ضروری و لازمی صبر و شکیبائی کو ترک کرنے کی بناء پر ان تمام مشکلات اور تلخیوں میں گرفتار ہواہے)۔( قلم۔ ۴۸)

شرح صدر حقیقت میں ضیق صدر کا نقطہ مقابل ہے جیساکہ سورہ حجر کی آیہ ۹۷ میں آیاہے ۔ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون :” ہم جانتے ہیں کہ تیرا سینہ ان کی ( مغرضانہ) باتوں سے تنگ ہوجاتا ہے “۔ اصولی طور پر کوئی عظیم رہبر شرح صدر کے بغیر مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، اور وہ شخص جس کی رسالت سب سے زیاد ہ عظیم ہے ۔ ( جیسا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تھی )تو اس کا شرح صدر سب سے زیادہ ہو نا چاہئیے ۔ ابتلاو ں کے طوفان اس کی روح کے سمندر کے سکون و آرام کو درہم بر ہم نہ کریں ، اور مشکلات سے اس کے گھٹنے نہ ٹک جائیں ، دشمنوں کی کارشکنیاں اسے مایوس نہ کریں ، پیچیدہ مسائل کے سوالات اسے ہر طرف سے مجبور کرکے لاجواب نہ کردیں ، اور یہ خدا کا رسول اللہ کے لئے ایک عظیم ترین ہدیہ تھا۔

اسی لئے ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

”میں نے اپنے پروردگار سے ایک درخواست کی ،حالانکہ میں چاہتا تھا کہ یہ درخواست نہ کرتا۔ میں نے عرض کیا مجھ سے پہلے پیغمبروں میں سے بعض کو ہوا کے چلنے پر اختیار دیا، بعض مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ خدا نے مجھ سے فرمایا : کیا تو یتیم نہیں تھا تو میں نے تجھے پناہ دی ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں ! فرمایا: کیا تو گمشدہ نہیں تھا ، میں نے تجھے ہدایت کی ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں ! اے میرے پروردگار، فرمایا: کیا میں نے تیرے سینہ کو کشادہ اور تیریپشت کے بوجھ کو ہلکا نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا، ہاں ! اے پروردگار!“(۱)

یہ چیز اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ” شرح صدر“کی نعمت انبیاء کے معجزات سے مافوق تھی، اور واقعاً اگر کوئی شخص پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حالات کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرے اور آپ کے شرح صدر کا اندازہ آپ کی زندگی کے دور کے سخت اور پیچیدہ حوادث سے لگائے ، تو وہ یقین کر لے گاکہ یہ چیز عام طریقہ سے ممکن نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک تائید الٰہی اور توفیقِ ربّانی ہے ۔

اس مقام پر بعض نے یہ کہا ہے کہ اس شرح صدر سے مراد وہی حادثہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بچپن یا جوانی میں پیش آیاتھا کہ آسمان سے فرشتے اترے، آپ کا سینہ شگافتہ کیا، اُن کے دل کو باہر نکال کر اسے پاک و صاف کیا، اور اس کو علم و دانش اور رافت و رحمت سے بھر دیا ۔

یہ بات ظاہر ہے کہ اس حدیث سے مراد جسمانی دل نہیں ہے ، بلکہ روحانی اور پیغمبر کے عزم و ارادہ کی تقویت، اور اس کی ہر قسم کے اخلاقی نقائص، اور وسوسہ شیطانی سے پاک سازی کے لحاظ سے خدائی امدادوں کی طرف ، ایک کنایہ اور اشارہ ہے ۔

لیکن بہر حال ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ زیر بحث آیت خاص طور پر اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، بلکہ اس کا ایک وسیع مفہوم ہے کہ یہ داستان بھی اس کا ایک مصداق شمار ہوسکتی ہے۔

اسی شرح صدر کی بناء پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسالت کی مشکلات کو اعلیٰ ترین صورت میں برداشت کیا اور اس طریقہ میں اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھا یا ۔

اس کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اپنی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت کو بیان کرتے ہوئے مزید کہتا ہے : ” کیا ہم نے تیرے سنگین بوجھ کو اٹھا نہیں لیا “!؟( و وضعنا عنک وزرک ) ۔

” وہی بوجھ جو تیری پشت پر سخت گرانی کررہا تھا“۔( الذی انقض ظهرک ) ۔

”وزر“ لغت میں بوجھ کے معنی میں ہے ۔ ” وزیر“ کا لفظ بھی اسی معنی سے مشتق ہوا ہے چونکہ وہ حکومت کے سنگین بوجھ اپنے کندھے پر اٹھاتا ہے ،اور گناہوں کو بھی اسی معنی پر” وزر“ کہتے ہیں ، کیونکہ وہ گنہگار کے دوش پرایک سنگین بوجھ ہوتا ہے ۔ ” انقض“ ” نقض“ کے مادہ سے ، رسی کی گرہ کوکھولنے کے معنی میں ہے ، یا کسی عمارت کے ایک دوسرے میں گھسے ہوئے حصوں کو الگ کرنے کے معنی میں ہے ، اور” انتقاض“اس آواز کو کہا جاتا ہے جوکسی عمارت کے ٹکڑوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتے وقت کان میں پڑتی ہے ۔ یا کمرکے مہروں کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سنگین بوجھ کے زیر بار آنے کے وقت آتی ہے۔

یہ لفظ عہد و پیمان اور معاہدوں کو توڑنے کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے نقضِ عہد کیا۔

اس طرح اوپر والی آیت یہ کہتی ہے کہ : ” خدا نے وہ سنگین اور کمر توڑ نے والا بوجھ تجھ سے اٹھالیا“۔ یہ کون سا بوجھ جو خدا نے پیغمبر کی پشت سے اٹھالیا ؟ اور اس آلودہ ماحول سے فسادکے آثار کو ختم کرنا ہے ، نہ صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم بلکہ سارے کہ سارے انبیاء کا دعوت کے آغاز میں اس قسم کے عظیم مشکلات سے سامنا رہا ، اور وہ صرف خدائی امدادوں سے ہی ان پر کامیاب ہوتے تھے ، البتہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ماحول اور زمانے کے حالات کئی جہات سے زیادہ سنگین تھے ۔

بعض نے ” وزر“ کی تفسیر آغاز نزول میں ” وحی“ کے بار سنگین کے معنی میں بھی کی ہے ۔

بعض نے مشرکین کی ضلالت و گمراہی اور عناد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ بھی ۔

اور بعض نے ان کی حد سے زیادہ اذیت و آزارسے ۔

اور بعض نے اس غم و اندوہ سے جو آپ کے چچا حضرت ابو ظالب علیہ السلام کی اور آپ کی زوجہ حضرت خدیجہ کی وفات سے پیدا ہواتھا۔

اور بعض نے گناہ سے عصمت و پاکیز گی کے مسئلہ سے تفسیر کی ہے ۔

لیکن ظاہراًوہی پہلی تفسیر زیادہ مناسب ہے اور یہ سب اس کے شاخ و برگ ہیں ۔

اور تیسری نعمت کے بارے میں فرماتاہے :” ہم نے تیرے ذکر کو بلند کیا “۔( ورفعنالک ذکرک ) (۱)

تیرا نام اسلام اور قرآ ن کے ساتھ ہرجگہ پہنچا ، اور اس سے بہتر یہ ہے کہ تیرانام ہر صبح و شام اذان کے گلدستوں پر اور اذان کے وقت اللہ کے نام کے ساتھ لیا جاتاہے ۔ اور تیری رسالت کی شہادت خدا کی توحید و یگانگت کی شہادت کے ساتھ اسلام کا نشان اورا س پاک دین کے قبول ہونے کی دلیل ہے ۔

اس سے بڑھ کر فخر کی بات اور رفعت مقام کا اس سے بالاتر تصور اور کیا ہوگا؟! ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر میں آیاہے کہ آپ نے فرمایا :

” جبرائیل نے مجھ سے کہا ہے کہ خدا وند تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : جس وقت میرانام لیاجاتا ہے تو اس وقت تیرانام بھی میرے ہی ساتھ لیا جاتاہے“۔ (اور تیرے مقام کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے )۔

”لک“ (تیرے لئے ) کی تعبیر اس بات کی تاکید کے لئے ہے کہ ہم نے تیرے نام اور شہرت کو ان تمام کا رشکنیوں اور دشمنیوں کے باوجود بلند کیا۔

یہاں ایک سوال سامنے آتاہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے ، جب کہ اسلام کا پھیلنا اور پیغمبر کے کاندھے سے رسالت کے بوجھ کاہلکا ہونا اور اطراف عالم میں آپ کے نام کا بلند ہونا مدینہ میں ہوا ہے ۔

اس سوال کے جوا ب میں بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی بشارت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے سے دے دی گئی تھی، اور اسی چیز نے آپ کے د ل سے غم و اندوہ کا بوجھ ہٹادیا تھا ۔

اور کبھی یہ کہا ہے کہ یہاں فعل” ماضی“ ” مستقبل“ کامعنی دیتا ہے ، اور یہ آیندہ کے لئے ایک خوشخبری ہے ۔

لیکن حق بات یہ ہے کہ ان امور میں سے بعض، مکہ میں ہی خصوصاً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تیرہ سالہ دور کے آخری حصہ میں ہی ، جب کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں لوگوں کو دعوت دینے میں مشغول تھے، پورے ہوچکے تھے۔ بہت سے لوگوں کے دلوں میں ایمان و اسلام نفوذکرچکا تھا اور مشکلات نسبتاً کم ہوچکی تھیں ، اور پیغمبراکرم کا نام اور کام ہر جگہ پہنچ چکا تھا ، اور آیندہ کی عظیم کامیابیوں کی تمہید فراہم ہو چکی تھی۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” حسان بن ثابت“ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مشہور شاعر ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدح میں اس آیت کے مضمون کی طرف بڑے خوبصورت انداز میں اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :

ضم الالٰه اسم النبی الی اسمه

اذا قال فی الخمس المو ذن اشهد

وشق له من اسمه لیجعله

فذو العرش” محمود“ و هٰذا” محمّد“

” خدا نے پیغمبر کانام اپنے نام کے ساتھ ضم کردیاہے “

جب موذن پانچ مرتبہ اشہدکہتا ہے،

اس نے اپنے نام سے اس کے نام کو مشتق کیا ہے تاکہ اس کا احترام بر قرار رکھے۔

لہٰذا صاحبِ عرش خدا تو ” محمود“ ہے اور وہ ” محمد“ ہے

سیمرغ فہم ہیچکس از انبیاء نرفت

آنجا کہ تو بہ بالِ کرامت پریدہ ای

ہریک بقدرخویش بجائی رسید اند

آنجا کہ جائے نیست بجائی رسیدہ ای

انبیاء میں کسی کابھی طائر فکر وفہم وہاں تک نہیں پہنچا

جہاں آ پ کرامت و بزرگی کے پرو بال سے پہنچے ہیں

ان میں سے ہر ایک اپنی قدر و منزلت کے ایک مقام پرپہنچا ہے

جہاں کسی کے لئے کوئی مقام نہیں ہے آپ اس مقام پر پہنچے ہیں

بعد والی آیت میں اپنے پیغمبر کو اہم ترین بشارت دیتا ہے اور آپ کے قلب پاک میں امید کے انوار کی روشنی پید اکرتا ہے اور فرماتا ہے : ” یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے“۔( فان مع العسر یسراً )

اس کے بعد پھر تاکید کرتا ہے ، یقینا سختی کے ساتھ آسانی ہے “۔( ان مع العسر یسراً ) ۔

غم نہ کھاو یہ مشکلات اور سختیاں ایسی شکل میں باقی نہیں رہیں گی، دشمنوں کی کار شکنیاں ہمیشہ کے لئے جاری نہیں رہیں اور مادی محرومیاں ، اقتصادی مشکلات اور مسلمانوں کا فقر و فاقہ اس صورت میں باقی نہیں رہے گا۔

جو شخص مشکلات کو بر داشت کرتا ہے ، اور طوفان کے مقابلہ میں ڈٹ جاتا ہے ، وہ ایک دن اس کا میٹھا پھل بھی کھاتا ہے ۔ جس دن دشمنوں کی چیخ و پکار بند ہو جائے ، اور ان کی کار شکنیاں ختم ہوجائیں گی، ترقی و تکامل کے راستے صاف صاف ہوجائیں گے اور راہ حق کو طے کرنا آسان ہوجائے گا۔

اگر چہ بعض مفسرین نے ان آیات کو ظہور اسلام کے آغاز میں مسلمانوں کے عمومی فقر و فاقہ کی طرف اشارہ شمار کیاہے لیکن آیا ت کے مفہوم کی وسعت تمام مشکلات کو شامل ہے یہ دونوں آیات اس طرح سے پیش کی گئی ہیں کہ نہ تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ اختصاص رکھتی ہیں اور نہ ہی آپ کے زمانہ سے ، بلکہ یہ ایک قاعدہ کلی کی صورت میں اور سابقہ مباحث کی ایک علت کے طور پر پیش کی گئی ہےں ، یہ تمام مخلص او رمومن اور سعی و کوشش کرنے والے انسانوں کو نوید ہے اور خوش خبری دیتی ہیں کہ ہمیشہ سختیوں کے ساتھ آسانیاں ہوتی ہیں ، یہاں تک کہ ” بعد“ کی تعبیر نہیں کرتا بلکہ ” مع“ ( ساتھ ) کی تعبیر کرتا ہے ، جو ہمراہ ہونے کی علامت ہے ۔

ہاں ! اسی طرح ہے ، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ملی ہوئی ہے اور سختی کے ساتھ سہولت ہے ، یہ دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کےساتھ رہے ہیں اور رہیں گے۔

یہ ایسی نوید اور وعدہ الٰہی ہے ، جو دل کو نور وصفابخشتا ہے ، اور کامیابیوں کا امید وار بناتا ہے ، اور یاس و ناامیدی کے گرد و غبار کو انسان کے صفحہ روح سے صاف کردیتا ہے ۳

ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

و اعلم ان مع العسر یسراً ، و ان مع الصبر النصر، و ان الفرج مع الکرب

” جان لو کہ سختیوں کے ساتھ آسانی ہے ، اور صبر کے ساتھ کامیابی، اور غم و اندوہ کے ساتھ کشائش و خوش حالی ہے “۔(۴)

ایک حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام سے آیاہے :

ایک عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ مجھے کوئی خرچہ نہیں دیتا، جب کہ اس کا شوہر واقعاً تنگ دست تھا، حضرت علی علیہ السلام نے اس کے شوہر کو زندان میں ڈالنے کی بجائے اس کے جواب میں فرمایا:( ان مع العسر یسراً ) ( اور اسے صبر کی تلقین کی)(۵)

ہاں !

صبر و ظفر ہر دو دوستان قدیمند

بر اثر صبر نوبت ظفر آید

”صبر اور کامیابی دونوں قدیمی دو دوست ہیں

صبر کے بعد ہی کامیابی کی نوبت آتی ہے “

اس کے بعد اس سورہ کی اخری آیت میں فرماتاہے ،:” پس جب تم کسی اہم کام سے فارغ ہو جاو تو دوسرے کام میں لگ جاو “( فاذا فرغت فانصب ) ۔

ہر گز کبھی بیکار نہ رہو ، تلاش و کوشش کو نہ چھوڑو، ہمیشہ جد و جہد میں مشغول رہو ، او رہر اہم کا م کے ختم کرنے کے ساتھ ہی دوسرے اہم کام کو شروع کردیا کرو۔

اور ان تمام حالات میں خدا پر بھروسہ رکھو“ اور اپنے پروردگار کی طرف توجہ رکھو“( و الیٰ ربک فارغب ) ۔

اس کی رضا و خوشنودی طلب کراور اس کے قرب و جوار کی طرف جلدی کر۔

جو کچھ بیان کیا گیا اس کے مطابق آیت ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے ، جو مفہوم سے فارغ ہونے اوردوسری مہم کو شروع کرنے کو شامل ہے ، اور تمام کوششوں کا رخ پر وردگار کی طرف کرنے کا حکم دیتی ہے ، لیکن بہت سے مفسرین نے اس آیت کے لئے محدود معانی ذکر کئے ہیں ، جن میں سے ہر ایک کو ا س کے ایک مصداق کے عنوان سے قبول کیا جا سکتا ہے ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مرادیہ ہے کہ تو واجب نماز سے فارغ ہو جائے تو دعا میں مشغول ہوجا، اور خدا سے در خواست کر کہ تیری حاجت کو پورا کردے ۔

یا یہ کہا کہ جب تو فرائض سے فارغ ہو جائے تا نافلہ شب کے لئے کھڑا ہوجا۔

یا یہ کہا کہ جب تو دنیا کے کاموں سے فارغ ہو جائے تو آخرت کے امور ، عبادت اور اپنے پروردگار کی نماز میں مشغول ہو جا۔

یا یہ کہا کہ جب تو واجبات سے فارغ ہو جائے ،توجہاد نفس کے لئے کھڑاہو جا۔

یا یہ کہ جب تو دشمن سے جہاد کرنے سے فارغ ہو جائے تو جہاد نفس کے لئے کھڑا ہو جا ۔

یا یہ کہا کہ جب تو ادائے رسالت سے فارغ ہو جا ئے تو شفاعت کی در خواست کرنے کے لئے کھڑا ہو جا۔

متعدد روایات میں ، جنہیں اہل سنت کے مشہور عالم حافظ” حاکم حسکانی“ نے ” شواہد التنزیل“ میں نقل کیا ہے ، امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح آیاہے کہ آپ نے فرمایا:

یعنی :” جب تو فارغ ہوجائے تو علی علیہ السلام کی ولایت کے لئے نصب کر دے “۔(۶)

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیہ شریفہ میں فراغت کا موضوع معین نہیں ہواہے اور ” فانصب “ ” نصب“کے مادہ سے ( نسب کے وزن پر) تعب اور زحمت کے معنی میں ہے ، یہ آیت ایک ہمہ گیراصل کلی کو بیان کرتی ہے ، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پیغمبر کو کسی ایک مہم کے ختم ہو نے کے بعد آرام سے بیٹھ جانے سے روکے اور انہیں ایک نمونہ اور مثال کے طور پر زندگی میں ہمیشہ مسلسل طور پر سعی و کوشش میں مصروف رہنے کی تلقین کرے ۔

اس معنی کی طرف توجہ کرتے ہوئے واضح ہو جاتاہے کہ اوپر والی تمام تفاسیریں صحیح ہیں ، لیکن ان میں سے ہرایک اس وسیع اور عام معنی کے ایک مصداق کے عنوان سے ہے ۔

اور کای ہی اصلاحی اور مو ثر پروگرام ہے ، جس میں کامیابی اور تکامل و ارتقاء کی رمز چھپی ہوئی ہے ۔ اصولی طور پر بیکار رہنا اور مکمل طور پر فارغ ہوکر بیٹھ رہنا تھکاوٹ، خوشی کے کم ہونے اور سستی و فرسودگی کا سبب ہوتا ہے، اور بہت سے مواقع میں فساد و تباہی اور انواع و اقسام کے گناہوں کا باعث بنتا ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اعداد و شمار اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ تعلیمی اور اداروں کی تعطیلات کے زمانے میں بعض اوقات فتنہ و فساد کی تعداد سات گنا تک پہنچ جاتی ہے ۔

بہر حال یہ سورہ مجموعی طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر خدا کی خاص عنایت اورمصائب و آلام میں تسلی اور رسالت کے کام کی مشکلات اور نشیب و فراز کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک تائید و نصرت کا وعدہ ہے اور ا س کے ساتھ ہی یہ تمام انسانوں اور راہ حق پرچلنے والوں کے ایک امید بخش ، اصلاحی اور حیات آفرین مجموعہ ہے ۔

چند نکات

جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیاہے ، متعدد روایات میں آیاہے کہ ( ایک اہم مصداق کے بیان کے عنوان سے )”( فاذا فرغت فانصب ) “ کی آیت سے مراد کارِ رسالت کی انجام دہی کے بعد امیر المومنین علیہ السلام کو خلافت کے لئے نصب کرناہے

” آلوسی “ ” روح المعانی “ میں بعض امامیہ ( شیعہ ) کی گفتگو کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے ، انہوں نے ” فانصب‘ کو ”ص“ کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے ، بالفرض اگر ایسا ہو بھی تو وہ اس بات کی دلیل نہیں بنتا کہ اس سے علی بن ابی طالب علیہ السلام کو نصب کرنا مراد ہو۔ اس کے بعد وہ زمخشری کی کشاف سے نقل کرتا ہے کہ اگر شیعوں کے لئے اس قسم کی تفسیر ممکن ہو تو ” ناصبی“ ( دشمنانِ علی علیہ السلام ) بھی اس کی نصب کے دستور کے عنوان سے ( بغض علی بن ابی طالب کے معنی میں ) تفسیر کرسکتے ہیں ۔(۷)

کیونکہ ” انصبب“ ( ص کی زبر کے ساتھ) خود کو مشقت میں ڈالنے اور جد جہد کرنے کے معنی میں آیاہے ، جب کہ ” انصب“ (ص کی زیر کے ساتھ ) نصب کرنے ، اوپر جانے اور قائم کرنے کاحکم دینے کے معنی میں ہے ۔

ان مفسرین نے یہ خیال کرلیا ہے کہ شیعہ مسئلہ ولایت پر استدلال کرنے کے لئے آیت کی قرائت کو تبدیل کردیتے ہیں ، حالانکہ اس قسم کی تبدیلی کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ مذخورہ تفسیر کے لئے وہی مشہور اور جانی پہچانی قرائت ہی کافی ہے کیونکہ وہ یہ کہہ رہاہے کہ رسالت کے اہم امر سے فارغ ہو جانے کے بعد دوسرے اہم امر کے لئے جیسا کہ ولایت ہے ، سعی و کوشش کر اور یہ ایک اعتبار سے مکمل طور پر قابل قبول ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں ہیں کہ پیغمبر مشہور حدیثِ غدیر اور دوسری بہت سے احادیث کے مطابق ، جو تمام علماء اسلام کی کتابوں میں آئی ہےں ، ہمیشہ مسلسل طور پر کوشش کرتے رہتے تھے ، لیکن کتنی قابل افسوس اور دکھ دینے ولای بات ہے کہ زمخشری جیسا عالم جو علی علیہ السلام کو پیغمبر کا چوتھا جانشین اور اسلام کا عظیم پیشوا سمجھتا ہے ، یہ کہنے کے لئے تیار ہو گیا کہ ناصبی بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ آیت کو علی بن ابی طالب علیہ السلام کے بغض کے ساتھ تفسیر کریں ، یہ کتنی رکیک اورچبھنے والی تعبیر ہے ؟ وہ بھی ایسے مفسر سے ؟ واقعاً تعصب سے بھی کیسے کیسے گل کھلاتا ہے ؟

۲ ۔ مشہورمعتزلی علام ” ابن ابی الحدید“ ’ نہج البلاغہ“ کی شرح میں “ زبیربن بکار سے جو اس کے قول کے مطابق نہ شیعہ تھا اور نہ معاویہ سے دشمنی رکھتا تھا ، بلکہ علی علیہ السلام سے جدا ہو کر گوشہ گیر ہوگیا تھا ، اور آ پ کے مخالفین سے جاملا تھا ، روایت کی ہے کہ وہ مغیرہ بن شربہ کے بیٹے سے نقل کرتاہے کہ میرا باپ ” مغیرہ“ معاویہ کی عقل اور سمجھ کے بارے میں بہت باتیں کیا کرتا تھا اور اس کے طرز فکر پرحیران ہو اکرتا تھا، لیکن رات وہ ا سکے پاس سے بہت غمگین اور پریشانی کی حالت میں آیا، میں سمجھ گیا کہ کوئی اہم مسئلہ پیش آگیاہے ، میں نے اس سے سوال کیا تو اس نے معاویہ کو سخت بر ابھلا کہنا شروع کردیا جب میں نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا آج رات جب میں اور وہ خلوت میں تھے تو میں نے اس سے کہا ، توجس مقام و مر تبہ کا خواہش مند تھا وہ تونے حاصل کرلیا ہے ۔ اب تو عدل و انصاف اور نیکی کرنے میں کوشش کر ، کیونکہ تیری عمر بھی اب بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ لہٰذا بنی ہاشم کے بارے میں نیکی کر کیونکہ اب تجھے ان سے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ۔ اور یہ بات تیرے لئے نیک نامی کا سبب بن جائے گی۔

تو اس نے جواب میں کہا: ہیہات اب میر ے لئے کون سی نیک نامی باقی رہ جائے گی، خلیفہ اول و دوم نے کتنے کام کئے تو ان کا کون سا نام باقی رہ گیا ، لیکن تم ” ابن ابی کبشہ“ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو دیکھو کہ لوگ اس کان نام ہرروز پانچ مرتبہ گلدستہ اذان پر ”اشهد ان محمداً رسول الله “ کی صورت میں باقی ہیں ، اے بیچارے !اب اس کے بعد کون سا کام باقی رہ گیا ہے ، اور ہمارا کون سا نام باقی رہ جائے گا ، نہیں خدا کی قسم نہیں ، سوائے اس صورت کے کہ یہ حالت بدل جائے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام دفن ہوجائے۔(۸)

لیکن ورفعنالک ذکرک کے مقتضی کے مطابق خدا نے چاہا ہے کہ یہ مبارک نام ساری دنیا ئے تاریخ اور تمام عالم بشریت میں بلند اور مشہورہے ، چاہے دوسرے لوگ پسند کریں ی اپسند نہ کریں ؟ خوش ہوں یا ناخوش ؟اگر ہم ان تعبیرات کو کھول کر دیکھیں تو ان کا کیا معنی ہوگا ؟لا حول ولا قوة الا بالله !

خدا وندا ! ہمارے دل کو حب ذات سے خالی کر دے اور پانے عشق و محبت سے پرکردے ۔

پروردگارا ! تونے خود کووعدہ دیا ہے کہ ہر مشکل کے ساتھ راحت اور آسودگی ہے ، اس زمانہ کے مسلمانوں کو ان عظیم سخت مشکلات سے جو دشمنوں کی طرف سے انہیں پہنچ رہی ہیں ، آسودہ کردے۔

بار الہٰا تیری نعمتیں اور مواہب ہم پر بہت زیادہ ہیں ان کی شکر گزاری کی توفیق مرحمت فرما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۱۸۔

۲ ۔ ” رفع“ کی ” وضع“ کے بعد، اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ، یہاں ایک خاص لطف دیتی ہے ۔

۳ ۔ جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے واضح ہو گیا کہ ” العسر“ میں الف لام جنس کے لئے ہے، اور عہد کے لئے نہیں ہے اور ” یسر“ کا لفظ اگر چہ نکرہ کی صورت میں ذکر ہوا ہے لیکن وہ بھی جنس کے معنی دیتا ہے ،اور ایسے مقام پرنکرہ ہونا عظمت کے بیان کے لئے ہوتا ہے۔

۴ ۔ ” تفسیر نور الثقلین “ صفحہ ۶۰۴ حدیث ۱۱۔ ۱۳۔

۵ ۔ ” تفسیر نور الثقلین “ صفحہ ۶۰۴ حدیث ۱۱۔ ۱۳۔

۶ ۔ شواہد التنزیل جلد۲ ص ۳۴۹ ( احادیث ۱۱۱۶ تا ۱۱۱۹)

۷ ۔ ” روح المعانی “ جلد ۳ ص ۱۷۲۔ ” تفسیر کشاف“ جلد ۴ ص ۷۷۲۔

۸ ۔ شرح نہج البلاغہ جلد۵ ص ۱۲۹۔ ( ابن ابی الحدید) کی عبارت یہا اس طرح ہے :فای عمل یبقی؟ و ای کرم یدوم بعد هٰذا ؟ لا اباً لک ، لا و الله دفناً دفناً “!