تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65346
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65346 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

سورہ التین

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ اس میں ۸ آیات ہیں ۔

سورہ ” التین “مطالب اور فضیلت

یہ سورہ حقیقت میں انسان کی خلقتِ زیبا، اور اس کے تکامل و ارتقاء اور انحطاط و پستی کے گرد گھومتا ہے اور یہ مطلب سورہ کے شروع میں پرمعنی قسموں کے ساتھ شروع ہوا ہے ، اور انسان کی نجات اور کامیابی کے عوامل کو شمار کرنے کے بعد آخر میں مسئلہ معاد اور خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی تاکید پر ختم ہوتا ہے ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

ایک اور حدیث میں پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و وسلم سے آیاہے :

من قرأها اعطاه الله خصلتین :العادیة و الیقین مادام دی دار الدنیا، فاذا مات اعطاه الله من الاجر بعدد من قرأ هٰذه السورة صیام یومً !“:

”جو شخص اس سورہ کو پڑھے گا جب تک وہ دنیا میں رہے گا خدا اس کو دو نعمتیں عطا کرے گا: سلامتی اور یقین، اور جب دنیا سے رخصت ہوجائے گا، تو ان تمام لوگوں کی تعداد کے برابر جنہوں نے اس سورہ کو پڑھا ہے، ان سب کے ایک دن کے روزہ کا ثواب اجر کے طور پر اسے عطا کرے گا۔“(۱)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و التین و الزیتون ) ۔ ۲ ۔( و طور سینینَ ) ۳ ۔( و هٰذا البلدِ الاَمین ) ۔ ۴ ۔( لقد خلقنا الانسان فیْٓ احسن تقویمٍ )

۵ ۔( ثم رددنٰه اسفل سٰفلین ) ۔ ۶ ۔( الا الذین اٰمنوا و عملوا الصٰلحٰت فلهم اجر غیر ممنونٍ ) ۔

۷ ۔( فما یکذبُک بعدُ بالدیِّن ) ۔ ۸ ۔( الیس اللهُ باَحکم الحٰکمینَ ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ انجیر اور زیتون کی قسم ( یا سر زمینِ شام اور بیت المقدس کی قسم )۔

۲ ۔ اور طور سنین کی قسم ۔ ۳ ۔ اور اس امن والے شہر( مکہ) کی قسم

۴ ۔ کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت اور بہترین نظام میں پیدا کیا ہے ۔

۵ ۔ پھر ہم نے اسے پست ترین مرحلہ کی طرف لوٹا دیا ۔

۶ ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور عملِ صالح بجالائے ، تو ان کے لئے ایسا اجر و ثواب ہے جو منقطع نہ ہوگا۔

۷ ۔ پس ان تمام چیزوں کے باوجود تیرے روزِ جزا کے تکذیب کرنے کا سبب کیاہے ؟ !

۸ ۔ کیا خدا بہترین حکم کرنے والا نہیں ہے ؟

ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے ۔

اس سورہ کے آغاز میں بھی چار پر معنی قسمیں بیان کی گئی ہیں جو بہت ہی اہم معنی کے بیان کا مقدمہ ہیں ۔

فرماتا ہے :” انجیر و تین کی قسم( و التین و الزیتون ) ۔ ” اور طور سینین کی قسم( و طور سینین ) (۱)

اور اس امن و امان والے شہر کی قسم( و هٰذا البلد الامین ) ۔

” تین “ لغت میں انجیر کے معنی میں ہے اور ” زیتون“ وہی معروف زیتون ہے جس سے ایک مفید روغنی مادّہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں کہ کیا اس سے انہیں دو مشہور پھلوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو حد سے زیادہ غذائی اور دوائی خواص کے حامل ہیں ، لیکن بعض کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد وہ دو پہاڑ ہیں جن پر شہر دمشق اور بیت المقدس واقع ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں مقامات بہت سے انبیاء اور خدا کے بزرگ پیغمبروں کے قیا م کی سر زمین ہیں ، اور یہ دونوں قسمیں ، تیسری اور چوتھی قسموں کے ساتھ، جو مقدس سر زمینوں کی قسمیں ہیں ، ہم آہنگ ہیں ۔

اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ان دونوں پہاڑوں کی تین اور زیتون اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ ان میں سے ایک پر انجیر کے درخت اُگتے ہیں اور دوسرے زیتون کے درخت۔

اور بعض نے تین کو آدم علیہ السلام کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ وہ لباس جو آدم علیہ السلام اور حوّانے جنت میں پہناتھا وہ انجیر کے درختوں کے پتوں کا تھا ، اور زیتون کو نوح کے زمانہ کی طرف اشارہ سمجھا ہے، کیونکہ طوفان کے آخری مرحلوں میں نوح نے ایک کبوتر اس مقصد سے چھوڑا تھا تاکہ پانی کے نیچے سے خشکی کے ظاہر ہونے کو معلوم کرے وہ ( کبوتر) زیتون کی ایک شاخ لے کر واپس آیا تو نوح سمجھ گئے کہ طوفان تھم گیا ہے ، اور خشکی پانی کے نیچے سے ظاہر ہو گئی ہے ۔ ( اس لیے زیتون صلح و امنیت کی رمز ہے )۔

بعض تین کو اس مسجد نوح کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں کہ جو کوہ جودی پر تعمیر کی گئی تھی ۔ اور زیتون کو بیت المقدس کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔

ابتدائی نظر میں تو آیت کا ظاہر وہی دو مشہور پھل ہیں ،لیکن بعد والی قسموں کی طرف توجہ کرتے ہوئے دو پہاڑ یا موردِ احترام دو مقدس مراکز ہی مناسب معلوم ہوتے ہیں ۔

اسی لئے ایک حدیث میں پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا کہ خدا نے شہروں میں سے چار شہروں کو منتخب کیا ہے اور ان کے بارے میں فرمایاہے:

( التین و الزیتون و طور سینین وهٰذ البلد الامین ) : ” تین“ مدینہ ہے ، اور ”زیتون “ بیت المقدس“ ، ” طور سینین“ کوفہ ہے اور ”( هٰذا البلد الامین ) “ ” مکہ“(۳)

” طور سینین“ سے مراد ظاہراً وہی ” طورسینا“ ہے جسے مفسرین نے اسی مشہورکوہِ” طور“ کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے جو صحرائے سینا میں ہے ، ، اور وہاں زیتون کے پر بار درخت موجود ہیں ۔

” سینا“ کو بر کتوں والا یا درختوں سے پر یا خوبصورت پہاڑ سمجھتے ہیں ، اور یہ وہی پہاڑ ہے جہاں موسیٰ علیہ السلام مناجات کے وقت گئے تھے ۔

بعض نے اسے کوفہ کے نزدیک سر زمین نجف کا ایک پہاڑبھی سمجھا ہے ۔

اور بعض نے تصریح کی ہے کہ ” سینین“ اور ” سینا“ ایک ہی چیز ہے، اور اس کا معنی پر بر کت ہے ۔

باقی رہا ”هٰذا البلد الامین “ تو یہ یقینا سر زمین مکہ کی طرف اشارہ ہے ، وہ سر زمین جو زمانہ جاہلیت میں بھی منطقہ امن اور حرمِ خدا سمجھی جاتی تھی، اورکوئی شخص وہاں دوسرے پر تعرض کا حق نہیں رکھتا تھا، یہاں تک مجرم اور قاتل بھی جب اس سر زمین میں پہنچ جاتے تھے تو وہ بھی امن میں ہوتے تھے۔

یہ سر زمین اسلام میں حد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، انسان تو رہے ایک اس کے جانور، درخت اور پرندے بھی خصوصیت کے ساتھ امن سے رہنے چائیں ۔(۴)

یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ قرآن مجید میں لفظ” تین “ صرف اسی جگہ استعمال ہوا ہے ۔ جبکہ لفظ زیتون قرآن مجید میں چھ مرتبہ صراحت کے ساتھ آیاہے ، اور ایک دفعہ اشارہ کی صورت میں جہاں فرماتا ہے:

وشجرة تخرج من طور سیناء تنبت بالدهن وصبغ للاٰکلین ،اور وہ درخت جو طور سینا میں اُگا ہے ، اس سے کھانے والوں کے لئے روغن اور سالن فراہم ہوتا ہے ۔ ( مومنون۔ ۲۰)

____________________

ا۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص۵۱۰۔

۲۔ ” بعض نے سینین “ کو” سینہ“ کی جمع سمجھا ہے جو درخت کے معنی میں ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ” طور“ ” پہاڑ“ کے معنی میں ہے ، تو اس کا معنی درختوں سے پُر پہاڑ ہوگا، بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ ” سینین“ ایک زمین کا نام ہے کہ جس پر وہ پہاڑ واقع ہے، بعض نے یہ کہا ہے کہ ” سینین “ پر برکت اور خوبصورت کے معنی میں ہے ، اور یہ اہل حبشہ کی زبان کا لفظ ہے ۔ ( روح المعانی جلد ۳۰ ص ۱۷۳)

۳ ۔ تفسیر نو الثقلین جلد ۵ ص ۶۰۶ حدیث ۴ یہ ٹھیک ہے کہ اس زمانہ میں کوفہ ایک بڑا شہر نہیں تھا ، لیکن اس سر زمین سے دریائے فرات کے گزرنے کی وجہ سے یقینی طور پر بہت سی آبادیاں اس زمانہ میں بھی وہاں بھی موجود تھیں ۔ ( تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے بھی وہاں پر ایک شہر آباد تھا )۔ ( دائرة المعارف مصاحب جلد۲ مادہ کوفہ)۔

۴ ۔لفظ ”امین “ممکن ہے کہ یہاں ” فعیل“ بمعنی ” فاعل“ ہو اور ا س کا معنی ” ذو الامانة“ ہو اور یا ” فعیل“ بمعنی ” مفعول “ ہو ، یعنی وہ سر زمین جس میں لوگ امن میں ہیں ۔

انجیر اور زیتون کا فایده

اب اگر ان دونوں قسموں ( تین و زیتون) کو ان کے ابتدائی معنی پرمحمول کریں ، یعنی معروف انجیر و زیتون پر، توپھر بھی یہ ایک پرمعنی قسم ہے کیونکہ :

” انجیر“ بہت زیادہ غذائی قدر و قیت کا حامل ہے، اور ہر سن و سال کے لئے ایک مقوی اور غذا سے بھر پورنوالہ ہے، جس میں چھلکا ، گٹھلی اور کوئی زائد چیز نہیں ہوتی۔

غذا کے ماہرین کہتے ہیں کہ :انجیر کو بچوں کے لئے طبیعی شکر کے طور پر استعمال کرایا جا سکتا ہے اور ورزش یامحنت مشقت کرنے والے اوربڑھاپے اور کمزوری میں مبتلا لوگ اپنی غذا کے لئے انجیر سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔

کہتے ہیں کہ ” افلاطون“ انجیر کو جذب کرنے والا اور نقصا ن دہ مادّوں کو دفع کرنے والا سمجھا جاتا تھا۔

” جالینوس“ نے انجیر سے پہلوانوں کے لئے ایک خاص قسم کی غذا تیار کی تھی ، روم اور قدیم یونان کے پہلوانوں کو بھی انجیر دئے جاتے تھے ۔

غذا شناس ماہرین کہتے ہیں کہ انجیر میں مختلف قسم کے بہت سے وٹامن اور شکر موجودہے۔ اور بہت سی بیماریوں میں اس سے ایک دوا کے طور پر فائدہ حاصل کیاجاسکتاہے۔ خاص طور پر انجیر اور شہد کو مساوی طور پر مخلوط کر دیں تو زخم معدہ کے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ خشک انجیر کا کھانا دماغ کو تقویت دیتا ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ انجیر میں معدنی عناصر کے وجود کی بناپر جو قوائے بدن اور خون میں اعتدال کا سبب بنتے ہیں انجیر ہر سن و سال او رہر قسم کے حالات میں غذا کے طور پر بہترین پھل ہے ۔

ایک حدیث میں امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے آیا ہے :

التین یذهب بالبخر و یشد الفم و العظم، و ینبت الشعر ویذهب بالداء ولایحتاج معه الی دواء و قال علیه السلام : التین اشبه شیء بنبات الجنة :

” انجیرمنہ کی بدبو کو دور کرتا ہے ، مسوڑھوں اور ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے ، بالوں کو ا ُ گاتاہے درد اور تکلیف کو بر طرف کرتا ہے۔ اور اس کے ہوتے ہوئے کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے۔

اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ انجیر جنت کے پھلوں سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔(۱)(۲)

باتی رہا ” زیتون“ تو اس کے بارے میں غذا شناس اور بڑے بڑے ماہرین جنہوں نے سالہا سال تک پھلوں کے مختلف خواص کامطالعہ کرنے میں اپنی عمریں صر ف کی تھیں ، زیتون اور اس کے تیل کی حد سے زیادہ اہمیت کے قائل ہیں ، اور وہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ جو لوگ ہمیشہ صحیح و سالم رہنا چاہیں انہیں اس حیاتی اکسیر سے فائدہ اٹھانا چاہئیے۔

روغن زیتون انسا ن کے جگر کا پکا اور مخلص دوست ہے ۔ اور گردوں کی بیماریوں ، صفرادی پتھر یوں اور درد گردہ اور درد جگر کو دور کرنے اور خشکی کو رفع کرنے کے لیے بہت ہی مو ثر ہے۔

اسی بناء پر زیتون کے درخت کو قرآن مجید میں شجرہ مبارکہ کہا گیا ہے ۔

روغن زیتون بھی انواع و اقسام کے وٹامن سے سر شار ہے اور اس فاسفورس، سلفر، کیلشیم ،فیرم پوٹا شیم اور منگنز بھی پائی جاتی ہے ۔

وہ مرہم جو روغن زیتون اور لہسن کے ساتھ بنائی جاتی ہے گٹھیا کے دردوں کے لیے ،مفید بتائی جاتی ہے ، پِتّہ کی پتھری روغن زیتون کے کھانے سے ختم ہوجاتی ہے ۔(۳)

ایک روایت میں امیر المومنین علیہ السلام سے آیاہے :

ما افقر بیت یأ تدمون بالخل و الزیت وذالک ادام الانبیاء

” وہ گھر جس میں سرکہ اور زیتون سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے ، وہ کبھی کھانے سے خالی نہ ہوگااور یہ پیغمبروں کی غذا ہے “۔

اور ایک حدیث میں امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے آیاہے :(۴)

نعم الطعام الزیت: یطیب النکهة ویذهب بالبلغم، و یصفی اللون، یشد العصب و یذهب الوصب، ویطفیء الغضب “:

”روغن زیتون ایک اچھی غذا ہے ، منھ کو خوشبودار کرتا ہے ، بلغم کو دور کرتا ہے ، چہرے کے رنگ کو صاف کرتا ہے ۔ او ر تر و تازہ بناتا ہے ، اعصاب کو تقویت دیتا ہے، بیماری، درد اور ضعف کو دور کرتا ہے ، اور غصہ کی آگ کو بجھا تا ہے “۔(۵)

ہم اس بحث کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث کے ساتھ ختم کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا:

کلو الزیت و ادهنوا به فانه من شجرة مبارکة “:

”روغن زیتون کھاو اور بدن پر اس کی مالش کروکیونکہ یہ ایک مبارک درخت سے ہے۔(۶)

اس چار پر معنی قسموں کے ذکر کرنے کے بعد جواب قسم پیش کرتے ہوئے اس طرح فرماتا ہے : ” یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت اور نظام میں پیدا کیا ہے ،،۔( لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ) ۔

” تقویم“کامعنی کسی چیز کو مناسب صورت، معتدل نظام اور شائستہ کیفیت میں لاناہے ۔ اور ا س کے مفہوم کی وسعت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے انسان کو ہرلحاظ سے موزوں اور شائستہ پیدا کیاہے ، جسم کے لحاظ سے بھی ، اور روحانی و عقلی لحاظ سے بھی، کیونکہ اس کے وجود میں ہر قسم کی استعداد رکھی گئی ہے اور اسے ایک بہت ہی عظیم قوس صعودی کو طے کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا ہے ، اور اس کے باوجود کہ انسان ایک ” جرم صغیر“ ہے ، عالم کبیر“ کو اس میں جگہ دی گئی ہے، اسے اس قدر استعدادیں اور شائسگیاں بخشی ہیں وہ ولقد کرمنا بنی اٰدم ”ہم نے بنی آدم کو کرامت و عظمت بخشی ہے “۔ ( سورہ اسراء آیہ ۷۰) کی خلقت کے لائق ہو گیاہے ۔ وہی انسان جس کی خلقت کی تکمیل پر فرماتا ہے :فتبارک اللہ احسن الخالقین ”پس وہ خدا بہت ہی بزرگ و برتر اور برکتوں والا ہے جو بہترین خلق کرنے والا“! لیکن یہی انسان ان تمام امتیازات و اعزازات کے ہوتے ہوئے اگر حق کے راستے سے منحرف ہوجائے تو اس طرح سقوط کرتا ہے کہ ” اسفل السافلین“میں جا پہنچا ہے ، اس لیے بعد والی آیت میں فرماتا ہے : ” پھرہم اس پست ترین مراحل میں لوٹا دیتے ہیں “۔( ثم رددناه اسفل سافلین )

کہتے ہیں کہ ہمیشہ بلند پہاڑوں کے ساتھ بہت ہی گہری گھاٹیاں ہوتی ہیں اور انسان کی اس تکامل و ارتقاء کی قوس صعودی کے ساتھ ہی ایک وحشت ناک قوس نزولی بھی نظر آتی ہے ایسا کیوں نہ ہو کیونکہ وہ ایک ایسا موجود ہے جو ہر قسم کی استعدادیں رکھتا ہے ، اگر وہ ان سے صلاح و درستی کے لئے فائدہ اٹھا ئے تو افتخار کی بلندترین چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور اگر ان تمام استعدادوں کو فساد اور خرابی کی راہ پر ڈال دے تو اس میں عظیم ترین مفسدہ پیدا کردیتا ہے ، اور طبیعی طور پروہ”( اسفل السافلین ) “کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے ۔

لیکن بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے“: مگروہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال ِ صالح انجام دیے ہیں وہ اس سے مستثنٰی ہیں ، کیونکہ ان کے لئے ایسا اجر و ثواب ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے “۔( الا الذین اٰمنوا وعملو الصالحات فلهم اجر غیرممنون ) ۔

”ممنون“ ”من“ کے مادہ سے یہاں ختم ہونے یا کم ہونے کے معنی میں ہے ، اسی بناء پر ” غیر ممنون“ دائمی اور ہرقسم کے نقص سے خالی اجرو ثواب کے معنی میں ہے ۔ اور بعض نے یہ کہا ہے کہ منت و احسان سے خالی مراد ہے ، لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتا ہے ۔

بعض نے ثم رددناہ اسفل سافلینکے جملہ کی بڑھاپے کے دور کے ضعف و ناتوانی اور حد سے زیادہ ہوش کی کمی کے معنی میں تفسیر کی ہے، لیکن اس صورت میں یہ بعد والی آیت کے استثناء کے ساتھ ساز گار نہیں ہے ۔ اس بناء پر قبل و بعد کی آیات کے مجموعہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے وہی پہلی تفسیر ہی درست نظر آتی ہے ۔

بعد والی آیت میں اس ناشکرے اور معاد کے دلائل اور نشانیوں سے بے اعتناء انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کیا سبب ہے کہ تو ان تمام دلائل کے باوجود روزِ جزا کی تکذیب کرتا ہے؟ !( فما یکذبک بعد بالدین ) ۔

ایک طرف تو خود تیرے وجود کی ساخت اور دوسری طرف اس وسیع و عریض عالم کی عمارت اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی تیری خلقت اور اس عظیم جہان کی خلقت کا اصل ہدف نہیں ہوسکتی ۔

یہ سب کچھ وسیع تر اور کامل تر جہان کے لیے ایک مقدمہ ہے اور قرآن کی تعبیر میں ” نشأة اولیٰ“ خود” نشأة اخری کی خبر دیتی ہے ۔ تو پھرانسان متذکر کیوں نہیں ہوتا۔( ولقد علمتم النشأة الاولیٰ فلولا تذکرون ) ۔( واقعہ ۔ ۶۲)(۷)

عالم نباتات ہمیشہ اور نئے سال نئے سرے سے موت و حیات کے منظر کو انسان کی آنکھ کے سامنے مجسم کرتا ہے اور جنینی دَور کی پے در پے خلقتیں ہر ایک معاد اور ایک نئی زندگی شمار ہوتی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجودیہ انسان روز جزاء کا کس طرح انکار کرتا ہے ۔

جو کچھ ہم نے بیان کیاہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں مخاطب نوعِ انسان ہے ، اور یہ احتمال کہ یہاں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

کی ذات مخاطب ہے اور مراد یہ ہے کہ معاد کے دلائل کے باوجود کون شخص یا کون سی چیز تیری تکذیب کرسکتی ہے ، بعید نظر آتاہے ۔

اور یہ بھی واضح ہو گیا کہ ” دین “ سے مراد یہاں آئین و شریعت نہیں ہے، بلکہ وہی جزا اورروزجزا ہے ۔ اس کے بعد والی آیت بھی اسی معنی کی گواہ ہے

جیسا کہ فرماتا ہے : ”کیا خدا بہترین حکم کرنے والا اور فیصلہ کرنے والا نہیں ہے “۔( الیس الله باحکم الحاکمین ) ۔

اور اگر ہم دین کو کل شریعت اور آئین کے معنی میں لیں تو پھر آیت کا مفہوم و معنی اس طرح ہو گا،” کیا خدا کے احکام و فرامین سے سب سے زیادہ حکیمانہ اور قابل یقین نہیں ہیں “؟ یا یہ کہ انسان کے لئے خدا کی خلقت ہر لحاظ سے حکمت ، علم اور تدبیرکے ساتھ آمیختہ ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے پہلا معنی زیادہ مناسب نظر آتاہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ| وسلم سورہ ” و التین “ کی تلاوت فرماتے تھے تو جیسے ہی آیہ” الیس اللہ باحکم حاکمین“ پر پہنچتے تھے تو فرماتے تھے ”( بلی و انا علیٰ ذالک من الشاهدین ) “۔

خدا وندا ! تونے ہماری خلقت کو بہترین صورت میں قرار دیا ہے۔ ہمیں توفیق عطا فرماکہ ہمارا عمل اور ہمارے اخلاق بھی بہترین صورت میں ہوں ۔

بار الٰہا ! ایمان و عملِ صالح کی راہ کو طے کرنا تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہم پر اس راہ میں اپنا لطف و کرم فرما۔

آمین یارب العالمین

____________________

۱۔ ” کافی“ جلد ۶ ص ۳۵۸۔ مرحوم علامہ مجلسی نے بحار الانوار جلد۶۶ ۔ ص ۱۸۴ میں انجیر کے خواص کے بارے میں متعدد روایات نقل کی ہیں ۔

۲۔ ” اولین دانش گاہ و آخرین پیغمبر“ جلد۹ ص ۹۰ سے آگے۔

۳۔ ” ” اولین دانش گاہ و آخرین پیغمبر“ جلد۹ ص ۱۳۰ کے بعد۔

۴۔ ” بحار الانوار“ جلد ۶۶ ص ۱۸۰ حدیث ۶۔

۵۔ ” بحارالانوار“ جلد ۶۶ ص ۱۸۳ حدیث ۲۲۔

۶۔وہی ماخذ ص ۱۸۲ حدیث ۱۶۔

۷ ۔ جلد ۱۳ ص ۳۰۶ سے آگے سورہ واقعہ کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے سات دلیلیں بیان کی گئی ہیں ۔

سورہ العلق

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۱۹ آیات ہیں

سورہ علق کے مطالب اور فضیلت

مفسرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ سورہ وہ پہلا سورہ ہے جو پیغمبر گرامی اسلام پرنازل ہوا اور اس کے مطالب بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں ، اور یہ بات جو بعض نے کہی ہے کہ پہلا سورہ، سورہ ، ” حمد“ یا سورہ” مدثر“ ہے ، یہ بات قطعی مشہور نہیں ہے ۔

یہ سورہ پہلے پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قرائت و تلاوت کا حکم دیتا ہے اور اس کے بعد اس با عظمت انسان کی ایک بے قدر و قیمت قطرہ خون سے خلقت کی بات کرتا ہے ۔

اور بعد کے مرحلہ میں پروردگار کے لطف و کرم کے سائے میں انسان کے تکامل و ارتقاء اور اس کے علم و دانش اور قلم سے آشنائی کے بارے میں بحث ہوتی ہے ۔

اور ا س کے بعد مرحلہ میں ان ناشکرے انسانوں کے بارے میں ، جو ان تمام خدائی نعمتوں اور الطافِ الٰہی کے باوجودسر کشی کی راہ اختیار کرتے ہیں ، گفتگو کرتا ہے ۔

اور آخر میں ان لوگوں کی درد ناک سزا کی طرف اشارہ کرتا ہے جو لوگوں کوہدایت اورنیک اعمال سے روکتے ہیں ۔

اور سورہ کو” سجدہ“ اور بارگاہ ِ پروردگار میں تقرب حاصل کرنے کے حکم پر ختم کرتا ہے ۔

اس سورہ کی قرات کی فضیلت

اس سورہ کی قرأت کی فضیلت کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمایا:

”من قرأ فی یومہ اولیلتہ اقرأ باسم ربک ثم مات فی یومہ اولیلتہ مات شہیداً و بعثہ اللہ شہیداً ، وحیاہ کمن ضرب بسیفہ فی سبیل اللہ مع رسول “۔

” جو شخص دن میں یا رات کو سورہ اقراء باسم ربک پڑھے گا اور وہ اس رات یا دن میں مر جائے گا تو وہ دنیا سے شہید مرے گا اور خدا اسے شہید مبعوث کرے گا اور شہیدوں کی صف میں اسے جگہ دے گا ، اور وہ قیامت میں اس شخص کی مانند ہو گا جس نے را ہ خدا میں پیغمبر اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علہ و آلہ وسلم کی معیت میں شمشیر سے جہاد کیا ہو“۔

یہ سورہ ان مختلف تعبیروں کی مناسبت سے جو اس سورہ کے آغاز میں آئی ہیں سورہ ” علق“ یا سورہ ” اقرأ“ یاسورہ ” قلم “ کے نام سے موسوم ہواہے ۔(۱)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱( اِقرا باسم ربک الذی خلق ) ۔ ۲ ۔( خلق الانسان من علقٍ ) ۳ ۔( اقرا وربک الاکرم ) ۔

۴ ۔( الذی علّم بالقلم ) ۔ ۵ ۔( علّم الانسان مالم یعلم ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ پڑھ اپنے پروردگار کے نام سے جس نے جہان کو پیدا کیا۔ ۲ ۔ وہی جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔

۳ ۔ پڑھ کہ تیرا پروردگار سب سے زیادہ مکرم و باعزت ہے۔ ۴ ۔ وہی جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ۔

۵ ۔ اور انسان کو وہ سب کو کچھ سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

شانَ نزول

جیسا کہ ہم نے سور ہ کے مطالب کی تشریح میں اشارہ کیا ہے کہ اکثر مفسرین کے نظریہ کے مطا بق یہ پہلا سورہ ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرنازل ہواہے ، بلکہ بعض کے قول کے مطابق تو اوپر والی پانچ آیات سب ہی مفسرین کے نزدیک آغاز وحی میں ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں اور ان کامضمون بھی اس معنی کی تاکید کرتاہے ۔

روایات میں آیاہے کہ پیغمبر کوہِ حرا پر گئے ہوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا: اے محمد پڑھو: پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔

جبرئیل نے انہیں آغوش میں لے کر دبایااور پھر دوبارہ کہا:

( اقرأ باسم ربک الذی خلق ) پانچون آیات کے آخر تک ۔

جبرئیل یہ بات کہہ کرپیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظروں سے غائب ہوگئے۔ رسول خدا جو وحی کی پہلی شعاع کو حاصل کرنے کے بعد بہت تھکے ہوئے تھے خدیجہ کے پاس آئے اور فرمایا:” زملونی و دثرونی“: مجھے اڑھا دو اور کوئی کپڑا میرے اوپر ڈال دو تاکہ میں آرام کروں ۔(۲)

”طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خدیجہ سے فرمایا:” جب میں تنہا ہوتا ہوں تو ایک آوازسن کرپریشان ہو جاتا ہوں “۔

حضرت خدیجہ نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر او ربھلائی کے سوا کچھ نہیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ہیں اور صلہ رحم بجالاتے ہیں ، اور جو بات کرتے ہیں اس میں سچ بولتے ہیں ۔

”خدیجہ“ کہتی ہیں : اس واقعہ کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس گئے، ( نوفل خدیجہ کا چچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا)۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ ” ورقہ“ سے بیان کیا۔” ورقہ“ نے کہا: جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ہے َ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔

پیغبراکرم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رہا ہے: ” اے محمد کہو:( بسم الله الرحمن الرحیم )

( الحمدلله رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد و ایاک نستعین اهدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیهم غیر المغضوب علیهم و لاالضّالین ) ۔

اور کہو لاالہ الا اللہ ، اس کے بعدآپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔

”ورقہ“ نے کہا: آپ کو بشارت ہو، پھر بھی آپ کو بشارت ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی ہیں جن کی عیسیٰ بن مریم نے بشارت دی ہے ، آپ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحبِ شریعت ہیں اور پیغمبر مرسل( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ہیں ۔

آج کے بعد بہت جلد جہاد کے لیے مامور ہوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رہا تو میں آپ کے ساتھ ہوکر جہاد کروں گا“!

جب ” ورقہ“ دنیا سے رخصت ہوگیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” میں نے اس روحانی شخص کو بہشت ( برزخی جنت)میں دیکھا ہے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے ہوئے تھا کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی “۔(۳)

یقینی طور پر مفسرین کے بعض کلمات یا تاریخ کی کتابوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کی اس فصل کے بارے میں ایسے ناموزوں مطالب نظر آتے ہیں جو مسلمہ طور پر جعلی ، وضعی، گھڑی ہوئی روایات اور اسرائیلات سے ہیں ، مثلاً یہ کہ پیغمبر نزول وحی کے پہلے واقعہ کے بعد بہت ہی ناراحت ہوئے اور ڈرگئے کہ کہیں یہ شیطانی القاب نہ ہوں ، یاآپ نے کئی مرتبہ اس بات کا پختہ ارادہ کرلیا کہ خود کو پہاڑسے گرادیں ، اور اسی قسم کے فضول اور بے ہودہ باتیں جو نہ تو نبوت کے بلند مقام کے ساتھ ساز گار ہیں اور نہ ہی پیغمبر کی اس عقل اور حد سے زیادہ دانش مندی، مدبریت، صبر و تحمل و شکیبائی، نفس پر تسلط اور اس اعتماد کو ظاہر کرتی ہیں جو جو تاریخوں میں ثبت ہے ۔

ایسادکھائی دیتا ہے کہ اس قسم کی ضعیف ورکیک روایت دشمنان ِ اسلام کی ساختہ و پرداختہ ہیں جن کامقصدیہ تھا کہ اسلام کو بھی موردِ اعتراض قرادے دیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو بھی۔ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے آیات کی تفسیرپیش کرتے ہیں ۔

____________________

۱۔ ” تفسیر بر ہان “ جلد ۴ ص ۴۷۸۔

۲۔ ” ابو الفتوح رازی“ جلد۱۲ ص۹۶، ( تھوڑی تلخیص کے ساتھ ، اسی مطلب کو بہت سے مفسرین عامہ و خاصہ نے بہت سے شاخ و برگ اور پھول بوٹے لگاکر نقل کیاہے، جن میں سے بعض بالکل قابلِ قبول نہیں ہے )۔

۳۔ ” تفسیر مجمع البیان“ جلد۱۰ ص ۵۱۴۔