تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 62551
ڈاؤنلوڈ: 4445


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62551 / ڈاؤنلوڈ: 4445
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱۵،۱۶،۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

۱ ۵ ۔( فلآ اُقسم بالخنس ) ۔

۱۶ ۔( الجوار الکنّس ) ۔

۱۷ ۔( و الیل اذا عسعس ) ۔

۱۸ ۔( و الصبح اذا تنفَّس ) ۔

۱۹ ۔( انّه لقولُ رسول کریم ٍ )

۲۰ ۔( ذی قوةٍ عند ذی العرش مکینٍ )

۲۱ ۔( مطاعٍ ثم امینٍ )

۲۲ ۔( وما صاحبکم بمجنونٍ )

۲۳ ۔( ولقد راٰه بالافق المبین )

۲۴ ۔( وما هو علی الغیب بضنینٍ )

۲۵ ۔( وما هو بقول شیطان رجیم ٍ )

ترجمہ

۱۵ ۔ قسم ہے ان ستاروں کی جو پلٹ آتے ہیں ۔

۱۶ ۔ چلتے ہیں اور نگاہوں سے چھپ جاتے ہیں ۔

۱۷ ۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ پشت پھیرے اور آخر کو پہنچ جائے۔

۱۸ ۔ اور صبح کی جب وہ تنفس کرے۔

۱۹ ۔ کہ یہ قرآن باعظمت بھیجے ہوئے کا کلام ہے ( جبرائیل امین )۔

۲۰ ۔ جو صاحب قدرت ہے اور صاحب عرش خدا کے ہاں بلند مقام کا حامل ہے ۔

۲۱ ۔ فرمانروا اور امین ہے ۔

۲۲ ۔ اور تمہارا ساتھی( پیغمبر) دیوانہ نہیں ہے۔

۲۳ ۔ اس نے اُس کو ( جبرائیل کو)روشن افق میں دیکھا ۔

۲۴ ۔ وہ اس کے بارے میں جسے اس نے وحی سے حاصل کیا ہے بخیل نہیں ہے ۔

۲۵ ۔ یہ قرآن شیطان ِ رجیم کا قول نہیں ہے ۔

وحی الہٰی اس پر نازل ہوئی

پر وردگار عالم گذشتہ آیتوں کے بعد، جو قیامت و معاد اور اس کے مقدمات اور محشر کے عظیم دن کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ، ان آیتوں میں قرآن کی حقانیت اور پیغمبر اسلام کی گفتار کے سچ ہونے کی بحث کو پیش کرتا ہے اور معاد کے بارے میں جو کچھ گزشتہ آیات میں آیا ، حقیقت میں اس کی تائید کرتا ہے اور آگاہی بخشنے والی قسموں کے ساتھ ان مطالب کی تائید کرتا ہے ، پہلے فر ماتا ہے :

” قسم ہے ستاروں کی جولوٹتے ہیں “( فلا اقسم بالخنس ) (۱) اور نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں “( الجوار الکنس ) ۔

”خنس“۔ ” خانس“ کی جمع ہے ” خنس“ ( بر وزن شمس)کے مادہ سے اصل میں انقباض، باز گشت اور پنہاں ہونے کے معنی میں ہے ۔ اور شیطان کو اس لئے خناس کہتے ہیں کہ وہ خود کو چھپائے رکھتا ہے اور جب خدا کا نام لیا جائے تو وہ منقبض ہو جاتا ہے ۔

جیسے کہ حدیث میں آیاہے : (الشیطان یوسوس الی العبد فاذا ذکرالله خنس ) شیطان ہمیشہ خدا کے بندوں کو وسوسہ میں ڈالتا ہے لیکن جس وقت خدا کو یاد کریں تو پلٹ جاتا ہے ۔(۲)

” جوار “۔ ” جاریہ “ کی جمع ہے جس کے معنی تیز رفتار کے ہیں ۔ ” کنس“ کانس کی جمع ہے ۔ ” کنس“ ( بر وزن شمس) کے مادہ سے چھپ جانے کے معنی ہیں ۔ اور کناس ( بر وزن پلاس )پرندوں کے گھونسلوں ، ہر نوں اور دوسرے وحشی جانوروں کے چھپنے کی جگہ کو کہتے ہیں ۔

یہ کہ ان قسموں سے کیا مراد ہے بہت سے مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس سے نظام شمسی کے پانچ ستاروں کی طرف اشارہ ہے جو دور بین کے بغیر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ( عطارد، زہرہ، مریخ ، مشتری، زحل) اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر ہم پے در پے چند راتوں کو آسمان پر نگاہیں لگائیں رکھے تو اس حقیقت کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ آسمان کے ستارے اجتماعی طور پر بتدریج طلوع ہوتے ہیں اور اکھٹے ہی غروب ہو تے ہیں بغیراس کے ان کے فاصلوں میں کوئی تبدیلی رونما ہو۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایسے مروارید ہیں جو ایک سیاہ پارچہ پر معین ومقر فاصلوں پر ٹاکے گئے ہیں ۔

اس پارچہ کو ایک طرف سے اوپر لے جاتے ہیں اور دوسری طرف سے نیچے کھینچتے ہیں ، صرف پانچ ستارے ہیں جو اس قانون کلی سے مستثنیٰ ہیں دوسرے ستاروں کے درمیان چلتے پھرتے رہتے ہیں ، گویا پانچ مروارید ٹکے ہوئے نہیں ہیں ۔

اور پارچے پر آزاد قرار دئے گئے ہیں اور وہ لوٹتے پوٹتے رہتے ہیں ۔

یہ وہی مذکورہ بالا پانچ ستارے ہیں جو نظام شمسی کے خاندان کے ارکان ہیں اور ان کی حرکت قریب ہو نے کی وجہ سے ہمیں محسوس ہوتی ہے ورنہ آسمان کے تمام ستارے ہی اس قسم کی حرکات کے حامل ہیں ۔

لیکن چونکہ وہ ہم سے دور ہیں لہٰذا ہم ان کی حرکات کو محسوس نہیں کرتے۔

پھر اس نکتہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ علماء ہیئت نے ان ستاروں کا نام ” نجوم متحیرہ“ رکھا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی حرکات خط مستقیم پر نہیں ہے اور اس طرح نظر آتا ہے کہ ایک مدت تک سیر کرتے ہیں پھر تھوڑا سا واپس پلٹتے ہیں ، دوبارہ اپنی سیر شروع کردیتے ہیں جس کے اسباب کے بارے میں علم ہیئت میں بہت سے مباحث ہیں ۔

مندرجہ بالاآیات ہو سکتا ہے اس طرف اشارہ ہوں کہ یہ ستارے حرکت رکھتے ہیں( الجوار ) اور اپنی سیر و حرکت میں رجوع و باز گشت رکھتے ہیں ۔( الخنس ) اور انجام کا ر سورج کے طلوع کے وقت پنہاں ہو جاتے ہیں ، ان ہرنوں کی طرح جو راتوں میں بیانوں میں اپنی غذا تلاش کرنے کے لئے پھرتے رہتے ہیں اور صبح کے وقت شکاریوں اور وحشی جانوروں کے خوف سے اپنا کناس اور غار میں مخفی ہوجاتے ہیں ۔( الکنس )

یہ احتمال بھی ہے کہ کنس سے مراد سورج کی شعاو ں میں پوشیدہ ہو نا ہے اس اعتبار سے سورج کے گردش کرتے وقت کبھی اس نقطہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ سورج کے قریب ہوجاتے ہیں اور پھر بالکل نظر نہیں آتے جسے علماء نجوم احتراق سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو ان ستاروں کی وضع کیفیت کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوتا ہے ۔

بعض مفسرین کو ان ستاروں کے آسمان کے برجوں میں قرار پانے کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔

جو ہرنوں کے اپنے ٹھکانوں میں پنہان ہونے سے مشابہت رکھتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ نظام شمسی کے سیارے صرف ان پانچ تک محدود نہیں ہیں اور تین دوسرے سیارے اور انوس ، پلولٹوں اور نپٹون بھی موجود ہیں جو صرف صرف ان دور بینوں سے دیکھے جاسکتے ہیں جو ستاروں کو دکھاتی ہیں اور وہ کرہ ارض کے ساتھ مل کر نظام شمسی کے نوسیّاروں کو تشکیل دیتے ہیں (البتہ یہ نو سیارے ایک یا کئی چاند رکھتے ہیں جن کا حساب اس جمع سے الگ ہے )۔

” جواری “ جو جاریہ کی جمع ہے اور جس کے معنی وہ کشتیاں جو چل رہی ہوں ، ایک لطیف تعبیر ہے جو ان ستاروں کی آسمان کے سمندر میں حرکت اور چلنے کو کشتیوں کے سمندروں اور دریاو ں میں چلنے سے تشبیہ دیتی ہے ۔

بہر حال قرآن مجید گویا یہ چاہتا ہے کہ ان پر معنی اور ایک قسم کے ابہام کی آمیزش رکھنے والی قسموں کے ساتھ افکار انسانی کو بیدار کرے اور انھیں آسمان کے ستاروں کی عظیم فوج اور دستوں کے درمیان جو ان سیاروں کی مخصوص اور استثنائی وضع و کیفیت ہے اس کی طر ف متوجہ کرے تاکہ ان اجرام ِ فلکی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ غور و فکر کے بعد دماغ انسانی اس عظیم دستگاہ کو عالم وجود میں لانے والے کی عظمت سے آشنا ہو۔

بعض مفسرین نے مندرجہ بالا آیات کی کچھ اور تفسیریں بھی کی ہیں لیکن چونکہ وہ قابل ملاحظہ نہیں لہٰذا ان کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے ۔

ایک حدیث میں جو امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہے ، آیاہے کہ آپ نے ان آیات کی تفسیر میں فرمایا:(ی خمسة انجم زحل والمشتری و المریخ و الزهره و عطارد ) وہ پانچ ستارے ہیں زحل ،مشتری، مریخ ،زہرہ اور عطارد۔(۳)

پس دوسری مرتبہ قسم کھا کر فرما تاہے :” قسم ہے رات کی جب وہ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے ۔( و الیل اذاعسعس ) ” عسعس“ ۔ ” عسعسة “ کے مادہ سے اصل میں دقیق اورہلکی تاریکی کے معنی میں ہے اور چونکہ رات کی ابتداء اور انتہا میں تاریکی زیادہ ہلکی ہوتی ہے لہذٰا یہ معنی رات کے پشت پھیرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ اور لفظ ” عسعس“ کا طلاق رات کو گردش کرنے والے ملازمین پر بھی اسی مناسبت سے ہوتا ہے ۔

جیسا کہ ہم نے کہا ہے اگر چہ لفظ مکمل طور پر دو مختلف معانی رکھتا ہے لیکن یہاں بعد میں آنے والی آیت کے قرینے کے پیش نظر جو صبح کی بات کرتی ہے مراد رات کا اختتام ہی ہے اور حقیقت میں اس قسم کے مشابہ ہے جو سورہ مدثر آیت ۳۳ میں آئی ہے( و اللیل اذا ادبر )

اصولی طور پر رات جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ہے جو جسم اور روح کے آرام و سکون کا باعث بھی ہے اور حرارتِ آفتاب کے اعتدال اور موجودات کی زندگی کے جاری رہنے کا سبب بھی ہے لیکن اختتام شب پر انحصار ممکن ہے اس بناء پر ہو کہ وہ روشنی اور نور کی طر ف رخ کئے ہوئے ہے اس سے قطع نظر پر وردگار سے منا جات اور عبادت کرنے کے لئے بہترین وقت ہے اور عالم زندگانی کے آغاز و حرکت کا لمحہ ہے ۔

آخر کار تیسری اور آخری قسم کی جانب رخ کرتے ہوئے فرماتاہے :

” قسم ہے صبح کی جب وہ سانس لے“( و الصبح اذا تنفس ) ۔ کیا عمدہ اور جاذب توجہ تعبیرکی ہے ۔ صبح زندہ موجود سے تشبیہ دی ہے کہ اس کے تنفس یعنی سانس لینے کی ابتداء طلوع سپیدہ سحری سے ہوتی ہے وہ تمام موجودات میں روحِ حیات پھونکتی ہے ، گویا ایک کالے حبشی لشکر کے ہاتھ اور پاو ں کے نیچے اس کا سانس رک گیا تھا اور نور و روشنی کی پہلی شعاع کے چمکنے سے اس سے چنگل سے آزاد ہو کر تازہ سانس لینے لگی ہے ۔

یہ تعبیر اس تعبیر کے مشابہ ہے جو سورہ مدثر میں رات کی قسم کے بعد آئی ہے جس میں فرماتا ہے : ( و الصبح اذا اسفر) ” قسم ہے صبح کی جب وہ اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے ” گویا رات کی تاریکی سیاہ نقاب کے مانند ہے جو صبح کے چہرے پر پڑی ہے ۔ سپیدہ سحر کے وقت نقاب ہٹا کر اپنا نورانی اور حیات افزا چہرہ جو زندگی کی نشانی ہے ساری دنیا کو دکھاتی ہے ۔

بعد والی آیت میں اس چیز کو جس کی خاطر یہ ساری قسمیں کھائی گئیں ہیں پیش کرتے ہو ئے فرماتا ہے :

” یقینا یہ قرآن صاحب عزت اور عظیم بھیجے ہو ئے کاکلام ہے ۔( جبرائیل امین ) جسے وہ خدا کی طرف سے اس کے پیغمبر کی طرف لایا ہے “( انه لقول رسول کریم ) ۔ یہ ان لوگوں کا جواب ہے جو پیغمبر پر اتہام لگاتے تھے کہ قرآن انہی کا بنایا ہو اہے اور اس کو خدا سے منسوب کر دیا گیا ہے ۔

اس آیت میں اور بعد والی آیت میں جبرائیل امین ، جو خداکے پیک وحی ہیں ، ان کے پانچ اوصاف بیان ہوئے ہیں ، جو ہر جامع الشرائط بھیجے جانے والے کے لئے لازمی ہیں ۔

اس کی پہلی توصیف کریم ہو نا ہے جو اس کے وجود کی قدر وقیمت کی طرف اشارہ ہے ، جی ہاں ! وہ خدا وند بزرگ کی طرف سے ہے اور قیمتی وجود جا حامل ہے ۔

اس کے بعد کے دوسرے اوصاف پیش کرتے ہوئے مزید فرماتا ہے : ” وہ صاحب ِ قدر ت ہے اور عرش والے خدا کی بار گاہ میں بلند مقام کا حامل ہے “۔( ذی قوة عند ذی عرش مکین ) (۴)

ذی العرش خد اکی پاک ذات کی طرف اشارہ ہے ، اگر چہ وہ تمام عالم ہستی کا مالک ہے لیکن چونکہ عرش چاہے وہ اس عالم کے معنی میں ہو جو ماورائے طبیعت ہے ، یا خدا کے علم مکنون کے مقام کے معنی میں ہو بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے لہٰذا صاحب عرش کہہ کر اس کی تعریف کی گئی ہے ۔

ذی قوة “ ( صاحب قدرت) کی تعبیر جبرائیل کے بار ے میں اس بناپر ہے کہ اس قسم کے عظیم پیغام کے حصول اور اس کے باریک بینی پر مبنی ابلاغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی رسالت کے حدود میں صاحب قدرت ہو اور بالخصوص ہر قسم کی فراموشی سے مبرا ہو جوابلاغ کی راہ میں حائل ہو۔

مکین اس شخص کے معنوں میں ہے جو صاحب منزلت و مکانت ہو ، بنیادی طور پر ضروری ہے کہ رسول کی شخصیت عظیم ہو تاکہ خدا کی رسالت اور نمائندگی کا فریضہ انجام دے سکے اور مقرب بار گاہ الہٰی ہو ، اور یہ مسلم ہے کہ عند کی تعبیر حضور مکانی کے معنوں میں نہیں ہے ، وہ اس لئے کہ خدا کو ئی مکان نہیں رکھتا۔ اس سے مراد حضور ِ معنوی ہے ۔

چوتھی اور پانچویں توصیف میں کہتا ہے ”وہ فرشتوں کا فرمانروا اور مطاع ہے “( مطاع ثم امین ) ۔ ثَمّ کی تعبیر جو اشارہ بعید کے لئے استعمال ہو تی ہے اس حقیقت کو پیش کرتی ہے کہ پیک وحی ِ الٰہی عالم فرشتگان میں موردِ اطاعت ہے اور ان تمام چیزوں سے قطع نظر پیام الہٰی کے ابلاغ میں انتہائی امین ہے ۔

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ کبھی کبھی جبرائیل امین قرآن کے پہنچانے کے سلسلہ میں فرشتوں کے ایک عظیم گروہ کے ہمراہ آتے تھے اور یقیناً ان کے درمیان مطاع تھے ، یعنی سب فرشتے ان کی اطاعت کرتے تھے اور ایک رسول و سفیر کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تمام ہمراہی اس کی اطاعت کرتے ہوں ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ ان آیات کے موقع پر پیغمبراکرم نے جبرائیل امین سے فرمایا:

مااحسن انثنی علیک ربک :( ذی قوة عند العرش مکین مطاع ثم امین ) فما کانت قوتک؟ وما کانت امانتک؟

تیرے پروردگار نے تیری کیاہی عمدہ تعریف کی ہے کہ فرمایا ہے صاحب قدرت ہے اور صاحبِ عرش خدا کے ہاں قرب رکھتا ہے اور وہاں فرمانرواہے اور امین ہے ۔

لہٰذا اپنی قدرت و امانت کا نمونہ پیش کر ۔

تو جبرائیل نے جواب میں عرض کیا ” میری قدرت کا نمونہ یہ ہے کہ میں قوم لوط کے شہروں کی تباہی پرمامور ہوا وہ چار شہر تھے اور ہر شہر میں چار لاکھ جنگجو افراد موجود تھے ان کی اولاد اس کے علاوہ تھی میں نے ان شہروں کو اٹھا لیا اور میں انہیں آسمان کی طرف لے گیا یہاں تک کے آسمان کے فرشتے ان کے جانوروں کی آواز سننے لگے ۔ پھر انہیں زمین کی طرف لایا اور انہیں زیر و زبر دکریا ۔

” باقی رہا میری امانت نمونہ تو یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں کہ جو مجھے دیا گیا ہو اور اس میں میں نے معمولی ساتجاوز بھی کیا ہو“۔(۵)

اس کے بعد لوگ وہ ناروا نسبت ، جو پیغمبر کی طرف دیتے تھے ، اس کی نفی کرتے ہو ئے فرماتاہے :

تمہارا صاحب دیوانہ نہیں ہے( وماصاحبکم بمجنون ) ۔

” صاحب “ کی تعبیر جو ہمیشہ ساتھ رہنے والے رفیق، دوست اور ہم نشین کے معنی میں ہے علاوہ اس کے کہ پیغمبر تمام لوگوں کے ساتھ اخلاق و تواضع سے پیش آتے تھے اور کبھی کسی کے مقابلہ میں بر تری کا دعوی نہیں رکھتے تھے ۔

اس بات کی طرف اشارہ کہ آپ نے سالہا سال تمہارے درمیان زندگی گذاری اور تمہارے ہم نشین رہے ہیں اور تم نے انہیں عاقل و امین دیکھا ہے اور سمجھا ہے تو اب کس طرح ان کی طرف جنون کی نسبت دیتے ہو ، سوائے اس کے کہ وہ بعثت کے ساتھ ایسی تعلیمات اپنے ہمراہ لائے ہیں جو تمہارے تعصبات ، ہواو ہوس اور کورانہ تقلید کے ساتھ ساز گار نہیں ہیں ۔

لہٰذا اس خیال سے کہ تم اپنے کو ان کے قوانین اور احکامات کی اطاعت سے بچائے رکھو ، اس قسم کے اتہام ان پر لگاتے ہو ۔ ، جنون کا الزام ان تمام الزامات میں سے ایک ہے جو، آیات قرآن کے کے مطابق ، خدا کی طرف سے آئے ہوئے پیغمبروں پر ہٹ دھرم دشمنوں کی طرف سے لگائے گئے ۔

( وکذالک الذین من قبلهم من رسول الا قالوا ساحرا و مجنون )

بات اس طرح ہے کہ ان سے پہلے کوئی پیغمبر کسی قوم کی طرف نہیں بھیجا گیا مگر یہ کہ اس نے کہا کہ یہ ساحر اور جادو گر ہے یا دیوا نہ ہے ۔ ( ذاریات ۔ ۵۲) ۔

ان کی منطق میں عاقل وہ شخص تھا جو فاسد ماحول میں گھل مل جائے اور ویسی ہی خواہشات کی پیروی کرے ۔ جدھر کی ہوا ہو ادھرکو چلے اور ہر اصلاحی و انقلابی تحریک سے بے تعلق رہے ۔اس معیار اور ضابطے کے مطابق دنیا پرستوں کی تاریک نگاہ میں تمام پیغمبر دیوانے تھے ۔

اس کے بعد پیغمبر اسلام نے جبرائیل امین سے ارتباط کی تاکید کے لئے مزید فرماتاہے :”اس نے یقینی طور پر جبرائیل کا واضح اور آشکار افق میں مشاہدہ کیا ہے ،،۔( ولقد راٰه بالافق المبین ) ۔

افق مبین سے مراد وہی افق اعلیٰ اور فرشتوں کو آشکار کرنے والا افق ہے جس میں پیغمبر اکرم نے جبرائیل کا مشاہدہ کیا۔

بعض مفسرین نے سورہ نجم کی آیت ۷ کو جس میں ہے( وهو بالافق اعلیٰ ) اس تفسیر پر شاہد سمجھا ہے لیکن جیسا کہ سورہ نجم کی تفسیر میں ہم بیان کرچکے ہیں ۔

کہ یہ آیت اس سورہ کی باقی آیات کی طرح ایک دوسری حقیقت کو بیان کرتی ہے جو اس کی طرف رجوع کرنے سے واضح ہو گی ۔

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ پیغمبر نے جبرائیل امین کا ان کی اصلی شکل و صورت میں دوبارہ مشاہدہ کیا ۔ایک دفعہ آغاز بعثت میں کہ جبرائیل آنحضرت کے سامنے افق بالا پر ظاہرہوئے اور تمام مشرق و مغرب کو ڈھانپ لیا اور دوسری مرتبہ معراج میں کہ پیغمبر نے انھیں اوپر والے آسمان میں ان کی اصلی صورت میں دیکھا اورمفسرین زیر ِ بحث آیت میں اسی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ۔

یہ احتمال بھی ہے خدا کی مراد ایسا مشاہدہ ہو جو شہود باطنی کے لحاظ سے ہو ۔مزیدوضاحت کے لئے جلد ۲۲ ،ص ۴۸۶ سے آگے سورہ نجم کی آیت ۵ تا ۱۳ کی طرف رجوع فرمائیے۔

اس کے بعد مزید فرماتا ہے :” پیغمبر اس چیزکے بارے میں جو اس نے بطریق وحی عالم غیب سے حاصل کی ہے بخیل نہیں ہے “۔

( وماهو علی الغیب بضنین ) ۔ ہر چیز بے کم و کاست بند گان کے اختیارمیں دے دیتا ہے ۔

وہ بہت سے دوسرے لوگوں کے مانند نہیں کہ جب کسی اہم حقیقت پر دسترس حاصل کرلیتے ہیں تو اس کو چھپانے پر اصرار کرتے ہیں

اور اکثر اس کے بیا ن پر بخل سے کام لیتے ہیں اور بسا اوقات ان معلوم مات کو اپنے ساتھ قبر میں لے جاتے ہیں ۔

پیغمبر ایسے نہیں ہیں وہ پورے جود و سخا کےساتھ ، جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسے تمام ضرورت مندوں کے سامنے بیان کردیتے ہیں حتیٰ کہ انھیں بھی بتا دیتے ہیں جو بلندی اور قرب کے قائل ہی نہیں ہیں اس امید پر کہ شاید ہدایت حاصل کریں اور راہ حق کو حاصل کریں ۔

”ضنین “۔” ضنّہ“ (بروزن منّہ)نفیس اور قیمتی اشیاء کے بارے میں بخل کرنے کے معنی میں ہے اور ایہ ایک عیب ہے جوکبھی کسی پیغمبر میں نہیں ہوتا۔ اور اگر دوسرے افراد اپنے علوم کے بارے میں ایسے عیب کا شکار ہیں تو ہوا کریں ۔ پیغمبر ، جس کے علم کا سر چشمہ علم ِخدا کا بیکراں سمندر ہے ، اس قسم کی باتوں سے مبرا ہے

پرورگارِ عالم مزید فرماتا ہے : ” اور وہ شیطان رجیم کی کہی ہوئی بات نہیں ہے “( وما هوبقول شیطان الرجیم ) ۔

یہ آیات قرآنی ہر گز کاہنوں کی باتوں کی طرح نہیں ہیں جو شیاطین سے تعلق کی وجہ سے معلوم کر لیتے تھے ، اور پھر اس حقیقت کی نشانیاں اس کے کلام سے ظاہر ہیں ۔

اس لئے کہ کاہنوں کی باتیں جھوٹی ہو تی تھیں ۔ ان میں بہت سے شبہات ہوتے تھے اور وہ غلطیوں کی آمیزش سے ملوث ہوتی تھیں ، اور شیطانی میلانات و خواہشات کے گرد گھومتی تھیں ، اس چیزکا قرآن مجید سے کوئی تعلق نہیں

یہ حقیقت میں ان کی تہمت کا جواب ہے ۔ مشرکین کہتے تھے کہ پیغمبر ( معاذ اللہ ) کاہن ہیں اور جو کچھ وہ لائے ہیں انھوں نے شیاطین سے لیا ہے ، حالانکہ شیطانی باتیں گمراہ کن ہو تی ہیں اور قرآنی آیات سراسر نور ِ ہدایت اور روشنی ہیں اور یہ حقیقت قرآنی آیات کو دیکھتے ہی ثابت ہو جاتی ہے ۔

لفظ” رجیم “ اصل میں رجم اور ” رجام “ ( بروزن لجام ) کے مادہ سے پتھر کے معنی میں لیا گیا ہے ۔ اس کے بعد قسم کے بعد ہر قسم کے دور کرنے کے معنی میں آیاہے اور شیطان رجیم سے مراد یہاں یہی معنی ہیں ، یعنی وہ شیطان جو بار گاہ خدا وندی سے نکالا گیاہے

____________________

۱۔ یہ کہ لا اقسم میں ” لا نافیہ ہے یا زائد اور تاکید کے لئے ہے مفسرین نے اس سلسلہ میں کئی بحثیں کی ہیں اور چونکہ سورہ قیامت کی ابتداء میں اسی جلد میں اس عنوان پر ہم بحث کر چکے ہیں لہٰذا تکرار کی ضرورت نہیں ۔

۲۔لساب العرب مادہ خنس۔۳۔ مجمع البیان ، جلد۱۰ ص۴۴۶۔

۴۔ ” مکین “ ۔” مکانت“کے مادہ سے مقام و منزلت کے معنوں میں ہے اور جیسا کہ راغب کے مفردات میں کلمات سے اور دوسرے مفسرین سے معلوم ہوتا ہے یہ اصل میں کون کے مادہ سے اسم مکان ہے ، اس کے بعد کثرت استعمال کی بناپر اسے مادہ فعل کے برابر قرار دیا گیا ہے اور تمکن اس سے مشتق ہوا ہے ، تمسکن کی طرح جو سکون کے مادہ سے ہے ۔۵۔ مجمع البیان، جلد۱۰،ص ۴۴۶۔ یعنی مضمون تفسیر در المنثور میں بھی زیر بحث آیات کے ذیل میں آیاہے ۔

رسول کی شائستگی کی شرطیں رسول کی شائستگی کی شرطیں

پانچ صفتیں جو مندرجہ بالاآیات میں جبرائیل امین کے لئے پیغمبر گرامی اسلام کی طرف خدا کے بھیجے ہو ئے قاصد کے عنوان کے ماتحت آئی ہے ، ان میں سے دو صفتیں ایسی ہیں جو ہر رسول اور فرستادہ خدا میں سلسلہ مراتب کو نظر میں کھتے ہوئے پائی جانی ضروری ہیں ۔

پہلی صفت کرامت اور عمدہ صفات ِنفسی کا حامل ہو نا ہے جو اس کو رسالت جیسے اہم کام کا اہل بنادے ۔

دوسری صفت قدرت کا حامل ہو نا ہے تاکہ اپنے اثر رسالت کو قاطعیت اور توانائی کےساتھ وہ آگے بڑھیں اور ہر قسم کے ضعف وکمزوری سے دور ہوں ۔

اس کے بعد اس ہستی کی بارگاہ میں مقام و منزلت رکھنا جس کی رسالت کو اس نے قبول کیا ہے ( مکین ) تاکہ پیغامات کو اچھی طرح حاصل کرے اور اگر جواب کی ضرورت ہو تو بغیر کسی خوف و خطر کے اس کا ابلاغ کرے ۔

چوتھی صفت یہ کہ اگر امر رسالت اہمیت رکھتا ہوتو اس کے معاون ہو نے چاہئیے جو اس کی مدد کریں ۔ ایسے معاون جو اطاعت گذاراور فرمانبردار ہوں ۔ (مطاع)

آخری اس کا امانتدار ہونا تاکہ وہ لوگ جو اس رسول سے پیغام لیں اس پر اعتماد کریں اور اس کی گفتگو بے کم و کاست اس کا کلام شمار ہو جس کی طرف سے وہ آیاہے

جب یہ پانچوں اصول پورے ہوں تو پھر حق رسالت و پیغمبری ادا ہو گا ۔ اسی لئے ہم پیغمبر اسلام کے حالات و آپ کی تاریخ زندگی میں دیکھتے ہیں کہ آپ اپنے بھیجے ہوئے ایلچیوں کواحتیاط کے ساتھ ، ان افراد میں سے جو ان صفات کو حامل ہوتے تھے ، منتخب کرتے تھے۔ جس کا ایک زندہ نمونہ جناب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ذات ہے اور پیغمبر کی طر ف سورہ برأت کی ابتدائی آیات کی مشرکین مکہ کے سامنے ان خاص حالات میں تبلیغ ہے جس کی تفصیل سورہ برأت میں آچکی ہے ۔

حضرت فرماتے ہیں : (رسولک ترجمان عقلک و کتابک ابلغ ما ینطق عنک ) تیرا بھیجا ہوا تیری عقل کو نمایا ں کرتا ہے اور تیرا خط تیری بات کا نہایت پر گو ناطق ہے ۔(۱)

____________________

۱۔ نہج البلاغہ،کلمات قصار، کلمہ ۳۰۱

آیات ۲۶،۲۷،۲۸،۲۹

۲۶ ۔( فاین تذهبون ) ۔

۲۷ ۔( اِن هو الاّ ذکر للعالمین ) ۔

۲۸ ۔( لمَن شآء منکم اَن یستقیمَ ) ۔

۲۹ ۔( وما تشآ ءُ ونَ اِلا اَن یشآءَ اللهُ ربُّ العالمین َ ) ۔

ترجمہ

۲۶ ۔ پس تم کہاں جارہے ہو۔

۲۷ ۔ یہ قرآن عالمین کے لئے صرف نصیحت ہے ۔

۲۸ ۔ ان لوگوں کے لئے جو چاہتے ہیں کہ نصیحت حاصل کریں ۔

۲۹ ۔ اور تم نہیں چاہتے مگر وہ جو عالمین کا پر وردگار چاہے۔

اے غافلو!کہا جارہے ہو ؟

گذشتہ آیات میں یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے اس لئے کہ اس کے مضامین سے ہویدا ہے کہ یہ شیطانی کلام نہیں ہے بلکہ رحمن کا کلام ہے جو پیک وحی الہٰی کے ذریعہ ، قدرت و امانتِ کلی کے ساتھ اس پیغمبر پر ، جو انتہائی طور پر اعتدال عقلی کا حامل ہے ، نازل ہو اہے ، ایسا پیغمبر جس نے تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا اور جو کچھ اسے تعلیم دی گئی ہے اس نے اسے بے کم و کاست بیان کیا ہے ۔

پروردگار عالم زیر بحث آیات میں مخالفین کو اس عظیم کلام کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے مستحق سرزنش قرار دیتا ہے اور ایک استفہام توبیخی کے ساتھ فرماتا ہے :

” ان حالات میں تم کہاں جا رہے ہو “( فاین تذهبون ) ۔ کیوں راہ راست کو چھوڑ کر بے راہ روی اختیار کرتے ہو اور کیوں اس چراغ ِ فروزاں سے منہ موڑ کر تاریکی کی طرف روادواں ہو۔ کیا تم اس سعادت و سلامتی کے دشمن ہو ؟اس کے بعد مزید فرماتا ہے :

” یہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نصیحت ہی نصیحت ہے “۔( اِنْ هو الاذکر للعالمین ) ۔

سب کو نصیحت کرتا ہے تاکہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور چونکہ ہدایت و تربیت کے لئے فاعل کی صرف فاعلیت ہی کافی نہیں ہے بلکہ قابل کی قابلیت در کار ہے ، لہٰذا بعد میں آنے والی آیت میں مزیدفرماتا ہے :

” قرآن ان لوگوں کے لئے ہدایت کا باعث ہے جو تم میں سے چاہتے ہیں کہ صراط مستقیم اختیار کریں “

( لمن شاء منکم ان یستقیم ) ۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں فرمایا ہے کہ قرآن تمام لوگوں کے لئے نصیحت و بیداری کا سبب ہے اور اس آیت میں صرف ایک گروہ کا ذکر کرتا ہے وہ لوگ جو ہدایت کو قبول کرنے اور راہ راست اختیار کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں ۔

یہ فرق اس بناپر ہے کہ گذشتہ آیت فیض الہٰی کی عمو میت کو بیان کرتی ہے اور یہ آیت اس فیض سے فائدہ اٹھانے کی شرط کو قبول کرتی ہے ، تمام مواہب اور نعمتیں اسی طرح ہیں کہ اصل فیض عام ہیں لیکن اس سے فائدہ اٹھانا ارادہ کی پختگی سے مشروط ہے ۔

انہی معانی کو لئے ہوئے سورہ بقرہ کی آیت ۲ بھی آئی ہے( ذالک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین ) اس کتاب میں کوئی شک و تردد نہیں ہے اور یہ پر ہیز گار روں کے لئے سبب ہدایت ہے ۔

بہر حال یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو بتاتی ہےں کہ خدا نے انسان کو آزاد و مختار پیدا کیا ہے اور راہ حق و باطل کو طے کرنے کا آخری فیصلہ اس کے اختیار میں ہے ۔

یستقیم کی تعبیر جاذبِ توجہ اور عمدہ ہے جو بتاتی ہے کہ اسے راہ مستقیم پر چلائیں اور اگر افراط و تفریط، شیطانی وسوسے اور گمراہ کرنے والے پروپیگنڈے درمیان میں نہ ہوں تو انسان ندائے فطرت کے ذریعہ اس صراط مستقیم پر قدم رکھ سکتاہے ۔

ہمیں معلوم ہے کہ خطِ مستقیم ہمیشہ مقصد کی نزدیک ترین راہ ہوتاہے لیکن چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ انسان کا ارادہ یہ تو ہم پیدا کرے کہ آدمی اس طرح آزاد ہے کہ اس راستے کو طے کرنے میں الہٰی توفیق کی کوئی احتیاج نہیں رکھتا تو بعد میں آنے والی آیت میں ، جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، فرماتا ہے :

” ارادہ نہیں کرتے مگر یہ کہ عالمین اور تمام جہانوں کا پر وردگار ارادہ کرے “

( وماتشاء ون الاان یشاء الله رب العالمین ) ۔ در حقیقت ان دونوں آیات کا مجموعہ اس دقیق و ظریف مسئلہ امرٌ بین الامرین کو بیان کرتاہے ۔ ایک طرف کہتا ہے ارادہ کی پختگی تمہارے اپنے اختیار میں ہے اور دوسری طرف کہتا ہے جب تک خدا نہ چاہے تم ارادہ نہیں کرسکتے ۔یعنی اگر تمہیں مختار و آزاد پیدا کیاگیا ہے تو یہ اختیار و آزادی بھی خدا کی جانب سے ہے ۔ اس نے چاہا ہے کہ تم ایسے رہو ۔

انسان اپنے اعمال میں نہ مجبور ہے نہ سو فیصدی آزاد ہے نہ طریقہ جبر صحیح ہے نہ طریقہ تفویض بلکہ جو کچھ انسان کے پاس ہے وہ جسم و ہوش ، عقل و تونائی، ارادہ کی پختگی کی قوت،وہ سب خدا کی جانب سے ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو ہمیشہ سے ایک طرف تو خالق کا محتاج ونیاز مندبناتی ہے اور دوسری طرف اس کی آزادی اور اختیار کے تقاضے کی بناپر اسے ذمہ داری سونپتی ہے ۔

” رب العالمین “ کی تعبیر اچھی طرح بتاتی ہے کہ مشیت الہٰی بھی انسان اور تمام عالمین کی تربیت ، تکامل اور ارتقاء کی راہ میں دخل رکھتی ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ کوئی گمراہ ہو اور گناہ کر کے اس کے جوار رحمت سے دور ہو ۔ وہ اپنے ربوبیت کے تقاضے سے ان تمام لوگوں کی مدد کرنا چاہتاہے کہ راہ ارتقاء میں قدم رکھیں ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلک جبرکی طرفدارصرف دوسری آیت سے چمٹے ہوئے ہیں جب کہ ممکن ہے کہ تفویض کے طرفدار بھی پہلی آیت سے متوسل ہوں ۔ آیات کو ایک دوسر ے سے جدا کرنا جو عام طورپر پہلے کئے ہوئے غلط فیصلوں کا معلول ہے گمراہی کا سبب ہے ۔

آیات قرآن کو ایک د وسرے کے ساتھ رکھ کر ان کے مجموعہ سے فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ قابل توجہ یہ امر ہے کہ بعض مفسرین نے نقل کیا ہے کہ جب پہلی اآیت ”لمن شاء منکم ان یستقیم“ نازل ہوئی تو ابوجہل نے جو عملی طور پر نظریہ تفویض کا حامی تھا ، کہا بڑااچھا ہو اکہ تمام اختیارات ہمیں دےدئے گئے ہیں ۔ یہی موقع تھا کہ دوسری آیت نازل ہوئی ”( وما تشاء ون الا ان یشاء الله رب العالمین ) “۔(۱)

خدا وندا ! ہم جانتے ہیں کہ راہ مستقیم کو طے کرنا تیری توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اس راہ کو طے کرنے کی توفیق عطا فرما۔پر وردگارا ! ہماری خواہش ہے کہ ہم راہ ہدایت پر چلیں تو بھی ارادہ فرما کہ اس راہ میں ہماری دستگیری فرمائے ۔بار الہٰا ! محشر کا منظر اور تیری داد گاہ عدل و انصاف بہت ہولناک ہے اور ہمارا نامہ اعمال حسنات سے خالی ہے ہمیں اپنے عضو و فضل کی پناہ میں جگہ دے ، نہ کہ میزان عدل و انصاف کے سامنے ۔آمین یا رب العالمین ۔

سورہ تکویر کا اختتام

____________________

۱۔ روح المعانی ، جلد۳۰ص۶۲۔ اور روح البیان، جلد۱۰ ص۳۵۴۔

سورہ انفطار

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۱۹ آیتیں ہیں ۔

سورہ انفطار کے مضامین

یہ سورہ قرآن مجید کے آخری پارے کی بہت سی سورتوں کی مانند قیامت سے متعلق مسائل کے بارے میں ہے اور اس کی آیتوں میں مجموعی طور پر اس تعلق کے پانچ موضوعات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔

۱ ۔ اشراط الساعة یعنی وہ عظیم حوادث جو اس جہان کے اختتام اور قیامت کی ابتداپر رونما ہوں گے ۔

۲ ۔ انسان کی توجہ خدا کی نعمتوں کی طرف جنہوں نے اس کے سارے وجود کو گھیر رکھا ہے ، اور اس کے غرور کو توڑ نے کی جانب ، تاکہ وہ اپنے کو معاد کے لئے تیار کرے ۔

۳ ۔ ان فرشتوں کی طرف اشارہ جو انسانوں کے اعمال کو ثبت کرنے پرمامور ہیں ۔

۴ ۔ قیامت میں نیک و بد لوگوں کی سر نوشت۔

۵ ۔ اس عظیم دن کی سختیوں کا ایک گوشہ ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

ایک حدیث امام صادق علیہ السلا م سے منقول ہے کہ (من قراء هاتین السورتین ” اذا السماء انفطرت“ و اذاالسماء انشقت“ و جعلهما نصب عینه فی صلٰوة الفریضة و النافلة لم یحجبه من الله حجاب و لم یحجزه من الله حاجز و لم یزل ینظر الی الله و ینظر الله الیه حتی یفرغ من حساب الناس )

جو شخص ان دوسورتوں ( سورہ انفطار اور سورہ انشقاق) کی تلاوت کرے اور دونوں کو نماز فریضہ و نافلہ میں اپنا نصب العین بنالے تو کوئی اسے خدا سے محجوب نہیں کرسکے گا اور کوئی چیز اس کے اور خدا وند متعال کے درمیان حائل نہیں ہوگی۔(۱) یقینا سب سے بڑی نعمت بارگاہ خدا وندی میں حضوری ہے اوربندہ کے اور خدا کے درمیان سے حجابوں کا ہٹ جانا اس کے لئے ہے جو ان دونوں سوروں کو اپنے دل و جان کی گہرائیوں میں جگہ دے اور اپنی اس بنیاد پر اصلاح کرے ، نہ یہ کہ صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان، جلد۱۰ ، ص ۴۴۷۔ نور الثقلین ، جلد۵ ،ص۵۲۰( از کتاب ثواب الاعمال