تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65327
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65327 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

۳ ۔ شب قدر مخفی کیوں رکھی گئی ؟

بہت سے علماء کا نظر یہ یہ ہے کہ سال بھر کی راتوں یا ماہ مبارک رمضان کی راتوں میں شب قدر کا مخفی ہونا اس بناء پر ہے کہ لوگ ان سب راتوں کو اہمیت دیں ۔ جیسا کہ خدا نے اپنی رضا و خوشنودی کی مختلف قسم کی عبادتوں میں پنہاں کررکھا ہے تاکہ لوگ سب عبادتوں اور اطاعتوں کی طرف رخ کریں ۔ او ر اپنے غضب کو معاصی کے درمیان پنہاں رکھا ہے ، تاکہ سب لوگ گناہوں سے پر ہیز کریں ، اپنے دوستوں کو لوگوں سے مخفی رکھا ہے تاکہ سب کا احترام کریں ، اور دعاو ں کی قبولیت کو مختلف دعاو ں میں پنہاں رکھا ہے تاکہ دعاو ں کی طرف رخ کریں ۔

اسم اعظم کو اپنے اسماء میں مخفی رکھا ہے تاکہ تمام اسماء کو بزرگ و عظیم سمجھیں ۔ اور موت کے وقت کو مخفی رکھا ہے تاکہ ہر حالت میں آمادہ وتیار رہیں ۔ اور یہ فلسفہ مناسب نظر آتا ہے ۔

۴ ۔ کیا گزشتہ امتوں میں بھی شب قدر تھی؟

اس سورہ کی آیات کے ظاہر سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ شب قدر منزل ِ قرآن اور پیغمبر اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی۔ بلکہ دنیا کے اختتام تک اس کا ہرسال تکرار ہوتا رہے گا۔

فعل مضارع (تنزل)کی تعبیر، جو استمرار پر دلات کرتی ہے ، اور اسی طرح جملہ اسمیہ ”( سلام هی حتی مطلع الفجر ) “ کی تعبیر بھی ، جو دوام کی نشانی ہے ، اسی معنی کی گواہ ہے ۔

اس کے علاوہ بہت سی روایات بھی ، جو شاید حدِ تواتر میں ہیں ، اس معنی کی تائید کرتی ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ کیا گزشتہ امتوں میں بھی تھی یا نہیں ؟ متعدد روایات کی تصریح یہ ہے کہ یہ امت پر مواہب الٰہیہ میں سے ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا: ”انّ الله وهب لامتی لیلة القدر لم یعطها من کان قبلهم “” خدا نے میری امت کو شب قدر عطا کی ہے ، گزشتہ امتوں میں سے کسی بھی یہ نعمت نہیں ملی تھی“۔(۱)

اوپر والی آیات کی تفسیر میں بعض وارد شدہ روایات اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں ۔

____________________

۱۔ ” در المنثور“ ج۶ ص ۳۷۱۔

۵ ۔ شب قدر ہزار ماہ سے کیسے بر تر ہے ؟

ظاہر ہے کہ اس شب کا ہزار ماہ سے بہتر ہونا اس رات کو بیدار رہنے اور اس کی عبادت کی قدر و قیمت کی وجہ سے ہے ، اور لیلة القدر کی فضیلت اور اس میں عبادت کی فضیلت کی روایات، جو شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں فراوان ہیں ، اس مطلب کی مکمل طور پر تائید کرتی ہیں ۔

اس کے علاوہ اس رات میں قرآن کا نزول اور اس میں برکات اور رحمت الہٰی کا نزول بھی اس بات کا سبب ہے کہ یہ ہزار ماہ سے برتر و بالا تر ہو۔

ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے کہ آپ نے ” علی بن ابی حمزہ ثمالی“ سے فرمایا:شب قدر کی فضیلت کو اکیسویں اور تیئسویں رات میں تلاش کرو، اور ان دونوں راتوں میں سے ہرایک میں ایک سو رکعت نماز بجالاو ۔ اور اگر تم سے ہو سکے تو ان دونوں راتوں کا طلوعِ صبح تک احیاء کرو، اور اس رات غسل کرو“۔ ” ابو حمزہ“ کہتا ہے : میں نے عرض کیا : ” اگر میں کھڑے ہو کر یہ سب نمازیں نہ پڑھ سکوں “۔

آپ نے فرمایا: پھر بیٹھ کر پڑھ لو ۔ میں نے عرض کیا اگر اس طرح بھی نہ پڑھ سکوں ۔ آپ نے فرمایا: پھر بستر میں ( لیٹ کر) پڑھ لو ، اور رات کے پہلے حصہ میں تھوڑا سا سولینے میں بھی کوئی امر مانع نہیں ہے ، اور اس کے بعد عبادت میں مشغول ہو جاو ۔ ماہ رمضان میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور شیاطین طوق و زنجیرمیں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور مومنین کے اعمال مقبول ہوتے ہیں ، ماہ رمضان کتنا اچھا مہینہ ہے ۔

۶ ۔ قرآن شب قدر میں کیوں نازل ہوا؟

کیونکہ شب قدر میں ایک سال کے لیے انسانوں کی سر نوشت ان کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے مطابق مقدر کی جاتی ہے ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انسان اس رات بیدار رہے ۔ اور توبہ اور اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے اور خدا کی بار گاہ میں حاضر ہوکر خود میں اس کی رحمت کے لیے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر لیاقت پیدا کرے ۔

ہاں ! جن لمحات میں ہماری سر نوشت کی تعین ہوتی ہے ان میں انسان کو سویاہوانہیں ہونا چاہئیے ، اور نہ ہی ہر چیز سے غافل او ر بے خبر رہنا چاہئیے کیونکہ اس صورت میں ایک غم ناک سر نوشت ہو جائے گی۔

قرآن چونکہ ایک سر نوشت ساز کتاب ہے ، اور اس میں انسانوں کی سعادت و خوش بختی اور ہدایت کی باتوں کی وضاحت کی گئی ہے ، لہٰذا ضروری ہے کہ سر نوشتوں کی تعین کا پروگرام شب قدر میں نازل ہو۔ قرآن اور شب قدر کے درمیان کتنا خوبصورت رابطہ ہے ، اور ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق اور رشتہ کس قدر پر معنی ہے ؟

۷ ۔ کیا مختلف علاقوں میں ایک ہی شب قدر ہوتی ہے ؟

ہم جانتے ہیں کہ تمام شہروں میں قمری مہینوں کا آغاز یکساں نہیں ہو تااور یہ ممکن ہے کہ ایک علاقہ میں تو آج اول ماہ ہو، اور دوسرے علاقہ میں دوسری تاریخ ہو۔ اس بناء پر شب قدرِ سال میں ایک معین رات نہیں ہو سکتی ، کیونکہ مثال کے طور پر مکہ کی تیئسویں رات ، ایران و عراق میں بائیسویں رات ہو سکتی ہے ، اس طرح اصولی طور پر ہر ایک کی علیٰحدہ شب قدر ہو گی ۔کیا یہ بات اس چیز سے ، جو آیات و روایات سے معلوم ہوتی ہے ، کہ شب قدر ایک معین رات ہے ، ساز گارہے ؟ !

اس سوال کا جواب ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ رات وہی کرہ زمین کے آدھے سایہ کوہی کہتے ہیں ، جو کرہ زمین کے دوسرے حصہ پرپڑتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ سایہ گردش زمین کے ساتھ حرکت میں ہے ، اور اس کا ایک مکمل دورہ چوبیس گھنٹوں میں انجام پاتا ہے ، اس بناء پرممکن ہے کہ شب قدر رات کا زمین کے گرد ایک مکمل دورہ ہو۔ یعنی تاریکی کی چوبیس گھنٹے کی مدت جو زمین کے تمام نقاط کو اپنے سائے کے نیچے لے لے ، وہ شب قدر ہے ، جس کا آغاز ایک نقطہ سے ہوتا ہے ، اور دوسرے نقطہ میں اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ ( غور کیجئے)۔

خدا وندا ! ہمیں اس قسم کی بیداری و آگاہی عطا فرما کہ لیلة القدر کی فضیلت سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں ۔

پروردگارا ! ہماری چشم امید تیرے لطف و کرم پر لگی ہوئی ہے ، ہمارے مقدرات کو اس کے موافق معین فرما۔

بار الٰہا ! ہمیں اس مہینہ کے محرومین میں سے قرار نہ دے کہ جس سے بالاتر کوئی محرومیت نہیں ہے ۔

آمین یا رب العالمین

سورہ بینة

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۸ آیات ہیں ۔

سورہ بینہ کے مطالب

مشہور یہ ہے کہ سورہ بینہ مدینہ میں نازل ہواہے اور اس کے مطالب بھی اسی معنی کی گواہی دیتے ہیں ، کیونکہ اس میں اہل کتاب کے بارے میں بحث ہوئی ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اہل کتاب سے مسلمانوں کا زیادہ تر سرو کار مدینہ میں ہی ہوا ۔

اس سے قطع نظر نماز اور زکوٰة دونوں کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے ، یہ ٹھیک ہے کہ زکوٰة کا شرعی حکم تو مکہ میں ہی ہوگیا تھا، لیکن اس کو قانونی صورت اور وسعت مدینہ میں دی گئی۔

بہر حال یہ سورہ پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے ہمہ گیر ہونے ، اور اس کے روشن و واضح دلائل اور نشانیوں سے آمیختہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایسی رسالت جس کے لیے پہلے سے انتظار کیا جارہا تھا ۔ لیکن جب ان کے پاس یہ رسالت پہنچی تو ایک گروہ نے اس بناء پر کہ ان کے مادی منافع خطرے میں پڑ رہے تھے ، اس کی طرف سے پشت پھیر لی۔

ضمنی طور پر یہ اس حقیقت کو بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ انبیا ء کی دعوت کا اصول ، مثلاً ایمان و توحید و نماز و روزہ ، ایک ایسا اصول ہے جو ثابت او رجاودانی ہے اور یہ تمام آسمانی ادیان میں موجود رہا ہے ۔

اس سورہ کے ایک دوسرے حصہ میں اہل کتاب اور مشرکین کے اسلام کے مقابلہ میں اعترضات کو مشخص کرتا ہے کہ وہ گروہ جو ایمان لے آیا ہے اور اعمال صالح انجام دیتا ہے وہ تو بہترین مخلوق ہے ۔ اور وہ گروہ جس نے کفر ، شرک اور گناہ کی راہ اختیار کرلی ہے ، وہ بد ترین مخلوق شمار ہوتی ہے ۔

اس سورہ کے مختلف نام ہیں ، جو اس کے الفاظ کی مناسبت سے انتخاب ہوئے ہیں ، لیکن ان میں سب سے زیادہ مشہور سورہ”بینة ولم یکن “و” قیمة“ ہیں

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں اس طرح نقل ہوا ہے :۔ ”اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اس سورہ میں کون کون سی بر کتیں ہیں تو وہ اپنے گھر والوں اور مال و منال کو چھوڑ کر اس کی طرف بڑھتے“۔ قبیلہ ” خزاعہ“ کے ایک شخص نے عرض کیا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ! اس کی تلاوت کا اجر و ثواب کیا ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

” کوئی منافق اور وہ لوگ جن کے دل میں شک و شبہ ہے ، اس کی تلاوت نہیں کریں گے ۔خدا کی قسم مقرب فرشتے اس دن سے جب سے سارے آسمان اور زمین پیداہوئے ہیں ، اسے پڑھتے ہیں ، اور اس کی تلاوت میں ایک لمحہ کے لیے بھی سستی نہیں کرتے جو شخص اسے رات کے وقت پڑھے گا ، خدا ایسے فرشتوں کو مامور کرے گا، جو اس کے دین و دنیا کی حفاظت کریں گے، اور اس کے لیے بخشش اور رحمت طلب کریں گے، اور دن کے وقت پڑھے گا تو ان چیزوں کی مقدار میں جنہیں دن روشن کرتا ہے ، اور رات انہیں تاریک بنادیتی ہے ، اسے ثواب دیں گے۔(۱)

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( لم یکن الذین کفروا من اهل الکتاب، و المشرکین منفکین حتی تاتیهم البینة ) ۔

۲ ۔( رسول من الله یتلوا صحفا مطهرة ۳ فیها کتب قیّمة ) ۔

۴ ۔( وما تفرّق الذین اوتوا الکتاب الاَّ من بعد ما جائٓتْهم البینة ) ۔

۵ ۔( ومآ أمروْٓ الا لیعبدوا الله مخلصین له الدِّین حنفآء و یقیموا الصَّلٰوةَ و یو توا الزّکٰوة و ذٰلک دین القیِّمة ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ اہل کتاب اور مشرکین میں کفار ( کہتے تھے ) جب تک ان کے لیے واضح دلیل نہ آجائے وہ اپنے دین سے دستبردار نہیں ہو ں گے۔

۲ ۔ خدا کی طرف ایسا رسول جو پاکیزہ صحیفوں کی تلاوت کرے۔

۳ ۔ اور ان میں صحیح اور قا بل قدر تحریریں ہوں ۔

۴ ۔ لیکن اہل کتاب نے ( خدا کے دین میں ) اختلاف نہیں کیا مگر ان کے پاس واضح دلیل پہنچ جانے کے بعد۔

۵ ۔ حالانکہ انہیں کوئی حکم اس کے سوا نہیں دیا گیا تھا کہ وہ کمال اخلاص کے ساتھ خدا کی عبادت کریں ، شرک سے توحید کی طرف لوٹیں ، نماز قائم کریں اور زکوٰة ادا کریں ، اور یہی مستقیم اور صحیح دین ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۲۱۔

یہ جاودانی دین ہے

سورہ کے شروع میں ظہور اسلام سے پہلے اہل کتاب ( یہود و نصاریٰ ) اور مشرکین عرب کی حالت کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے : وہ اس بات کا دعویٰ کیا کرتے تھے کہ جب تک کوئی واضح دلیل اور مسلمہ پیغمبر ان کے پاس نہ آ جائے ، وہ اپنے دین سے دستبردارنہیں ہو ں گے “۔( لم یکن الالذین کفروا من اهل الکتاب و المشرکین منفکین حتی تأتیهم البینة ) ۔

” ایسا پیغمبر جو خدا کی طرف سے ہو او رپاک و پاکیزہ صحیفوں کو ہمارے سامنے تلاوت کرے“۔ ( رسول من اللہ یتلوا صحفاً مطھرة)۔

ایسے صحیفے جن میں موزوں ، ثابت اور قابل قدر تحریریں ہوں “۔( فیها کتب قیمة ) ۔

ہاں ! وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ظہور سے پہلے اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے ۔ لیکن آپ کے ظہور اور آپ کی کتابِ آسمانی کے نزول کے بعد میدان بدل گیا اور وہ خدا کے دین میں اختلاف کرنے لگ گئے۔ ” اور اہل کتاب نے اختلاف نہیں کیا ، مگر واضح دلیل اور سچا اور آشکار پیغمبر ان کے پاس آجانے کے بعد( وما تفرق الذین اوتوا الکتاب الامن بعد ماجائتهم البینة )

اسی طرح سے اوپر والی آیات اہل کتاب اور مشرکین کے دعوو ں کو بیان کررہی ہیں کہ ابتداء میں تو نہیں یہ اصرار تھا کہ اگر کوئی پیغمبرواضح دلائل کے ساتھ ہمیں دعوت دینے کے لئے آئے گا تو ہم قبول کرلیں گے۔

لیکن اس کے آجانے کے بعد اپنے قول سے پھرگئے اور اس کے مقابلہ میں جنگ و جدال کے لیے کھڑے ہوگئے ، سوائے اس گروہ کے جنہوں نے ایمان کی راہ اختیار کرلی۔

اس بناء پر اوپر والی آیت اسی چیز کے مشابہ ہے جو سورہ بقرہ کی آیہ ۸۹: ولما جاء کتاب من عند اللہ مصدق لمامعھم و کانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جاء ھم ماعرفوا کفروا بہ فلعنة اللہ علی الکافرین:میں آئی ہے یعنی جب خدا کی طرف سے ان کے پاس کتاب آئی جو ان نشانیوں کے موافق تھی جو ان کے پاس تھیں ، اور اس سے پہلے وہ خود کو فتح کی خوش خبری دیا کرتے تھے۔ لیکن جب یہ کتاب اور پیغمبر جسے انہوں نے پہلے سے پہچانا ہواتھا ، ان کے پا س آیا تو وہ کافر ہو گئے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہو۔

ہم جانتے ہیں کہ اہل کتاب اس قسم کے ظہور کا انتظار کررہے تھے ، اور اصولی طور پر، مشرکین عرب بھی ، جو اہل کتاب کو اپنے سے زیادہ عالم اور زیادہ آگاہ سمجھتے تھے، اس پروگرام میں ان کے ساتھ ہم آواز تھے لیکن جب ان کی آرزوئیں پوری ہوگئیں تو انہوں نے اپنے راستہ کو بدل لیا اور مخالفین کی صفوں میں جاملے ۔

مفسرین کی ایک جماعت کا ان آیات کی تفسیر کے بارے میں ایک دوسرا نظریہ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ واقعاً ووہ اپنے ادعا کے مطابق اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوئے، اور اسے نہیں چھوڑا جب تک کہ واضح دلیل ان کے پاس نہ آ گئی۔

لیکن اس بات کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس قسم کی واضح دلیل آجانے کے بعد وہ ایمان لے آئےں گے ۔ حالانکہ بعد والی آیات اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ یہ مطلب اس طرح نہیں تھا ، مگر اس صورت میں کہ یہ کہا جائے کہ اس سے مراد ان میں سے ایک گروہ کا ایمان لانا ہے ، چاہے وہ بالکل قلیل تعداد میں ہی ہوں ، اور اصطلاح کے مطابق یہ ” موجبہ جزئیہ“ کی قبیل ہے ۔

لیکن بہرحال یہ تفسیر بعید نظر آتی ہے ، اور شاید اسی بناء پر ” فخر رازی “ اپنی تفسیر میں پہلی آیت کو قرآنی آیات میں سب سے زیادہ پیچیدہ آیت شمار کرتا ہے ، جو( اس کی نظر میں ) بعد والی آیات سے تضاد رکھتی ہے ۔ اس کے بعد وہ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے چند طریقے بیان کرتا ہے جن میں سے بہترین وہی ہے جو ہم نے اوپر نقل کیا ہے ۔

یہاں ایک تیسری تفسیر بھی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا مشرکین اور اہل کتاب کو ان کی حالت پر نہیں چھوڑے گا ، جب تک کہ ان پر اتمام حجت نہ کردے اور کوئی دلیل ” بینہ“ نہ بھیجے ، اور انہیں راستہ نہ بتا دے ۔ اسی لیے پیغمبر اسلام کو ان کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے ۔

حقیقت میں یہ آیت قاعدہ لطف کی طرف اشارہ ہے جو علم کلام میں بیان کیا جاتا ہے کہ خدا اتمام حجت کے لیے ہر قوم و ملت کے لیے واضح دلائل بھیجے گا۔(۱)

بہر حال ” بینہ“ سے مراد یہاں واضح و روشن دلیل ہے جس کا مصداق دوسری آیت کے مطابق” رسول اللہ “ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات ہے جب کہ آپ کی زبان پر قرآن مجید تھا۔

” صحف“ ” صحیفہ“ کی جمع ہے ، ایسے اوراق کے معنی میں ہے جن پر کوئی چیز لکھتے ہیں ، اور یہاں اسے سے مراد ان اوراق کے مطالب ہیں ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہرگز کوئی چیز اوراق سے نہیں پڑھتے تھے ۔

اور” مطہرہ“ سے مراد ، اس کا ہر قسم کے شرک ، کذب ، دروغ اور باطل سے پاک ہونا ہے اور شیاطینِ جن و انس کے اس میں دخل دینے سے پاک ہے ۔

جیسا کہ سورہ حٰم سجدہ کی آیہ ۴۲ میں آیاہے :لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ:” اس کے پاس کسی قسم کا باطل نہ اس کے سامنے سے آیا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے ۔ ” فیھا کتب قیمة“ کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان صحف آسمانی میں ایسے مطالب لکھے ہوئے ہیں جن میں کسی قسم کا انحراف اور کجی نہیں ۔ اس بناء پر تو ” کتب“ ” مکتوبات کے معنی میں ہے ، یا یہ ان احکام و مقررات کے معنی میں ہے جو خدا کی طرف سے مقررکیے گئے ہیں کیونکہ کتابت تعین حکم کے معنی میں بھی آئی ہے جیسا کہ فرماتا ہے :( کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم ) “۔

” روزہ تمہارے اوپر اسی طرح مقرر کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے والے لوگوں پر مقرر کیا گیا تھا “( بقرہ۔ ۱۸۳)

اور اس طرح ” قیمة“ صاف ومستقیم ، یا محکم و پائیدار، یا قدرو قیمت والا کے معنی میں ہے ، یا یہ سب مفاہیم اس میں جمع ہیں ۔

یہ احتمال بھی دیا گیا ہے کہ چونکہ قرآن میں تمام گزشتہ کے مضامین و مطالب بہت سے اضافات کے ساتھ ہیں ، لہٰذا یہ کہا گیا ہے کہ اس میں گزشتہ کتب قیمة ہیں ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ پہلی آیت میں اہل کتاب کا” مشرکین“ سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ، اور چوتھی آیت میں صرف اہل کتاب کا بیان ہے اور مشرکین کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں کی گئی ، حالانکہ آیت دونوں کی طرف ناظر ہے۔

یہ تعبیرات ظاہراً اس وجہ سے ہیں کہ ان پروگراموں میں اہل کتاب اصل اور بنیادی حیثیت رکھتے تھے اور مشرکین ان کے تابع تھے ۔

یا اس بناء پر کہ اہل کتاب زیادہ لائق مذمت تھے کیونکہ ان میں بہت سے علماء اور دانش مند موجود تھے اور وہ اس لحاظ سے مشرکین کی نسبت بلند سطح پرتھے۔ اس بناء پر ان کی مخالفت زیادہ قبیح اور زیادہ ناپسندیدہ تھی، لہٰذا وہ زیادہ سر زنش کے لائق تھے

اس کے بعد ” اہل کتاب“کو اور ان کے تابع ” مشرکین“ کو ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے :” انہوں نے اس جدید دین میں اختلاف کیوں کیا کہ بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کا فر ہو گئے حالانکہ اس دین میں انہیں اس کے سوا کوئی اور حکم نہیں دیاگیا کہ خدا کی عبادت کریں ، اور اس کی عبادت کو ا س کے غیر کی عبادت سے خالص رکھیں ، اور ہر قسم کے شرک سے باز رکھیں اور توحید کی طرف مائل رہیں ، نماز کو قائم کریں ، اور زکوٰة اداکریں “۔

( وما امروا الا لیعبدوا الله مخلصین له الدین حنفاء و یقیموا الصلوٰة یو توا الزکاة ) “۔(۲)

اس کے بعد فرماتا ہے : ” اور یہ ایک مستقیم و پائیدار دین ہے “( ذٰلک دین القیّمة ) ۔

اس کے بارے میں کہ یہاں ” وما امروا“سے کیا مراد ہے ؟ ایک جماعت نے یہ کہاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اہل کتاب کے اپنے دین میں مسئلہ توحید اور نماز و زکوٰة موجود تھا ،اور یہ ایسے مسائل ہیں جو ثابت ہیں ، لیکن وہ ان احکام کے بھی وفا دار نہیں رہے تھے ۔

دوسرا معنی یہ ہے کہ دین اسلام میں سوائے خالص توحید ، اور نماز و زکوٰة وغیرہ کے اور کوئی حکم نہیں آیا۔ اور یہ ایسے امور ہیں جنہیں وہ سب جانتے تھے ۔ تو پھر وہ ان کو قبول کرنے سے روگردانی کیوں کرتے ہیں ؟ اور ان کو ماننے سے انکار کررہے ہیں ۔

دوسرا معنی زیادہ نزدیک دکھائی دیتا ہے ، کیونکہ گزشتہ آیت کے بعد ، جو دین جدیدکے قبول کرنے میں ان کے اختلاف کرنےکی بات کررہی تھی، مناسب یہی ہے کہ ” امروا“ جدید دین کی طرف ناظر ہو۔ اس سے قطع نظر پہلا معنی صرف اہل کتاب کے بارے میں صادق آتا ہے ، اور مشرکین پر صادق نہیں آتا ، جب کہ دوسرا معنی سب کو شامل ہے۔

بعض مفسرین کے نظریہ کے مطابق” دین“ سے مراد جسے خدا کے لیے خالص کرنا چاہئیے وہی ” عبادت“ ہے ، اور ”( الا لیعبدوا الله ) “ کا جملہ بھی ، جو اس سے پہلے ذکر ہو اہے ، اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔

لیکن احتمال بھی ہے کہ اس سے دین و شریعت کا مجموعہ مراد ہو، یعنی اس بات پر مامور ہوئے تھے کہ خدا کی پرستش کریں اور ہر جہت سے اپنے دین و آئین کو خا لص رکھیں ۔ یہ معنی ” دین “ کے وسیع مفہوم کے ساتھ زیادہ ساز گار ہے ۔ اور بعد والا جملہ ”( و ذٰلک دین القیمة ) “ جو دین وسیع معنی میں پیش کرتا ہے اسی معنی کی تائید کرتا ہے ۔ ” حنفاء“ ” حنیف“ جمع ہے ، جو ” حنف“ ( بر وزن کنف) کے مادہ سے ہے ، اور مفردات“میں ” راغب“ کے قول کے مطابق، گمراہی سے راہ مستقیم کی طرف مائل ہونے کے معنی میں ہے اور عرب ان تمام لوگوں کو جو” حج“ بجا لاتے تھے یا ” ختنہ“ کیا کرتے تھے، ”حنیف“ کہا کرتے تھے ( اور احنف) اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کا پاو ں ٹیڑھا ہو۔

مجموعی طور سے لعنت کی مختلف کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ اصل میں انحراف اورٹیڑھے پن کے معنی میں تھا البتہ قرآن، اور اسلامی روایات میں شرک سے توحید و ہدایت کی طرف انحراف کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔

اس تعبیر کا انتخاب ممکن ہے اصل میں اس بناء پرہو کہ بت پرست معاشرے ہر اس شخص کو جو ان کے دین کو چھوڑ کر توحید کی طرف قدم بڑھاتا تھا، اسے ” حنیف“ ( منحرف ) شمار کرتے تھے ، اور پھر آہستہ آہستہ یہ تعبیر راہ توحید کو طے کرنے والوں کے لئے ایک رائج تعبیر کے عنوان سے پہچانی گئی، اور حقیقت میں اس کا مفہوم ” ضلالت“سے ہدایت کی طرف انحراف تھا ۔ اور اس کا لازمہ ، وہی توحید خالص اور اعتدالِ کامل اور ہر قسم کے افراط و تفریط سے اجتناب ہے ، لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ سب اس نقط کے ثانوی معنوی ہیں ۔

( و ذٰلک دین القیمة )(۲)

کا جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اصول یعنی توحید خالص اور نماز ( خالق کی طرف توجہ ) اور زکوٰة( مخلوق کی طرف توجہ ) تمام ادیان کے ثابت ہونے اور پائیدار اصول ہیں ، بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انسا ن فطرت میں داخل ہیں ۔

کیونکہ ایک طرف تو انسان کی سر نوشت مسئلہ توحید پر اور دوسری طرف سے اس کی فطرت منعم کا شکر ادا کرنے اور اس کی معرفت و شناخت کی دعوت دیتی ہے ، اور تیسری طرف سے روح اجتماعی اور انسان کی مدنیت اسے محروم افراد کی مدد کے لیے پکارتی ہے ۔

اس بناء پر ان احکام و دستورات کی جڑ بنیاد کلی طور پر فطرت کی جملہ گہرائیوں میں موجود ہے ۔ اسی لیے یہ تمام گزشتہ انبیاء اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات میں پائی جاتی ہے۔

آیات ۶،۷،۸،

۶ ۔( انَ الذین کفروا من اهل الکتاب و المشرکین فی نار جهنم خالدین فیها اولٰٓئک هم شر البریّة ) ۔

۷ ۔( انّ الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات اولٰٓئکَ هم خیر البریّة ) ۔ ۸ ۔( جزآو هم عند ربهم جنات عدن تجری من تحتها الانهار خالدین فیهآ ابداً رضیَ الله عنهم و رضو عنه ذٰلک لمن خشی ربّه ) ۔

ترجمہ

۶ ۔ اہل کتاب اور مشرک کفار و دوزخ میں جائیں گے اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے ، وہ بدترین مخلوق ہیں ۔

۷ ۔ یقینی طور سے وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیے ہیں ، وہ ( خدا کی )بہترین مخلوق ہیں ۔

۸ ۔ ان کی جزاء ان کے پروردگار کے یہاں بہشتِ جاودانی کے باغات ہیں ، جس کے درختوں کے نیچے نہریں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی رہیں گے ، خدا بھی ان سے راضی ہے اور وہ بھی خدا سے راضی ہیں ، اور یہ ( بلند مقام) اس شخص کے لیے، جو اپنے پروردگار سے ڈرے۔

____________________

۱۔ اس بات پر توجہ کرنا چاہئیے کہ ” منفکین“ جو” منفک“ کی جمع ہے ، ممکن ہے کہ اسم فاعل ہو، یا اسم مفعول ہو، پہلی اور دوسری تفسیر کی بناء پر اسم فاعل کے معنی دیتا ہے اور تیسری تفسیر کی بناء پر اسم مفعول کا ( غور کیجئے)۔

۲۔”وما امروا “ کا جملہ کہ ” جملہ حالیہ“ ہو یا ” استینافیہ“ ہو اور ”لیعبدوا “ میں لام“ ” لام غرض“ ہو ، اور یہاں اس سے مراد وہ مقصد اور نتیجہ ہو جو بندوں کی طرف لوٹتا ہے ، نہ کہ وہ ہدف و نتیجہ جو خدا کی طرف لوٹے ، جیسا کہ بعض مفسرین نے خیال کیا ہے ۔ اور اسی وجہ سے انہوں نے لام غرض“ کا انکار کیا ہے ۔ اصولی طور پر خدا کے تمام افعال کی کوئی نہ کوئی غرض اور علت ہوتی ہے ، لیکن وہ اغراض ایسے ہوتے ہیں جو بندوں کی طرف لوٹتے ہیں ، اور بعض نے یہاں ” لام “کو” ان“ کے معنی میں سمجھا ہے جیسا کہ ”یرید الله لیبین لکم “ ( نساء:۲۶) میں ہے ۔

۳۔اس بات پرتوجہ رکھنا چاہیئے کہ ” دین القیمة“ اضافت کی صورت میں ہے، وصف کی صورت میں نہیں ہے ۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ ایک ایسا دین ہے جو گزشتہ( مستقیم اور قابل قدر) کتب قیمہ میں آیا ہے، یایہ ایک ایسا دین ہے جس میں اسلام کے مستقیم اور قابل قدر احکام بیان ہوئے ہیں ، اس بناء پر قیمة کا مو نث ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ ” کتب“ یاملت و شریعت کا وصف ہے ( غور کیجئے)