تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65347
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65347 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

جس دن انسان اپنے تمام اعمال دیکھے گا

جس طرح سورہ کے مطالب کے بیان میں اشارہ ہوا ہے یہ سورہ اس جہان کے اختتام اور قیامت کے شروع کے بعض ہولناک اور وحشت ناک حوادث کے بیان کے ساتھ شروع ہوا ہے ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے :” جس وقت زمین شدت کے ساتھ ہلنے لگے گی“۔( اذا زلزلت الارض زلزالها ) ۔(۱)

اور اس طرح زیر و زبر ہوگی کہ ” وہ سارے سنگین بوجھ“ جو اس کے اندر ہیں ، باہر نکال کررکھ دے گی “۔( واخرجت الارض اثقالها ) ۔

” زلزالھا“ ( اس زلزلہ) کی تعبیر یا تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس دن سارا کرہ زمین لرزنے لگے گا۔ (عام زلزلوں کے برخلاف جو سب کے سب کسی خاص موضع یا علاقہ میں ہوتے ہیں )۔ اور زلزلہ معہود یعنی زلزلہ قیامت کی طرف اشارہ ہے۔(۲)(۳)

اس بارے میں کہ ” اثقال “ ( سنگین بوجھ) سے کیا مراد ہے ، مفسرین نے متعد د تفاسیر بیان کی ہیں ، بعض نے تو یہ کہا ہے کہ اس سے مراد انسان ہیں جو قیامت کے زلزلہ سے قبروں کے اندر سے باہر اچھل پڑیں گے ، جیسا کہ سورہ انشقاق کی آیہ ۴ میں آیا ہے ۔ ”( القت مافیها وتخلّت )

اور بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ اپنے اندرونی خزانوں کو باہر پھینک دے گی۔ اور بے خبر دنیا پرستوں کے لئے حسرت کا سبب بنے گی۔(۴)

یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد زمین کے اندر بہہنے والے بھاری مواد کو باہر پھینکنا ہے جن کی کچھ مقدار عام طور پر آتش فشانی اور زلزلوں کے وقت باہر نکلتی ہے

عالم کے اختتام پر جو کچھ زمین کے اندر ہے وہ اس زلزلہ عظیم کے بعد باہر آجائے گا ۔

پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اگر ان تفاسیر کے درمیان جمع بھی بعید نہیں ہے ۔

بہرحال اس دن انسان اس اَن دیکھے منظر کو دیکھ کر سخت متوحش ہو گا ، اور کہے گا : ” یہ کیا ہوگیا ہے کہ زمین اس طرح لرز رہی ہے ، اور جو کچھ اس کے اندر تھا اسے باہر پھینک دیا ہے “۔( و قال الانسان مالها ) ۔

اگر چہ بعض نے یہاں انسان کی کافر انسانوں کے ساتھ تفسیر کی ہے ، کیونکہ زمین کے اوضاع و احوال سے تعجب اس دن کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہوگا۔

کیا یہ تعجب ، اور اس سے پیدا ہونے والا سوال”نفخهٴ اولیٰ “ سے مربوط ہے یا ”نفخہ دوم “ سے ؟

ظاہر یہ ہے کہ یہ وہی پہلانفخہ ہے جو اس عالم کے اختتام کا نفخہ ہے ۔کیونکہ یہ زلزلہ عظیم اختتام ِ جہاں پر آئے گا۔

یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ اس سے مراد نفخہ قیامت اور مردوں کے زندہ ہونے اور ان کے زمین سے باہر پھینک دینے کا نفخہ ہے کیونکہ بعد والی آیات بھی سب کی سب نفخہ دوم کے ساتھ مربوط ہیں ۔ لیکن چونکہ قرآن کی آیات میں ان دونوں نفخوں کے حوادث بارھا اکھٹے ذکر ہوئے ہیں ، لہٰذا اختتام جہاں پر وحشت ناک زلزلہ کے بیان کی طرف توجہ کرتے ہوئے پہلی تفسیر زیادہ مناسب نظر آتی ہے ، اور اس صورت میں کے ” اثقال “ سے مراد معدنیات ، خزانے اور اس کے اندر موجود پگھلے ہوئے مواد ہیں ۔ اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ” زمین اس دن اپنی ساری خبریں بیان کرے گی“( یومئذتحدث اخبارها ) ۔

جو خوبیان اور برائیاں ، اور خیر و شر کے اعمال روئے زمین پرواقع ہوئے ہیں ، وہ ان سب کو ظاہر کردے گی۔ اور اس دن انسان کے اعمال کے گواہوں میں سے اہم ترین گواہ یہی زمین ہو گی جس پر ہم اپنے اعمال انجام دیتے ہیں ۔ اور جو ہماری شاہد و ناظر ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:”( اتدرون ما اخبارها ) “؟:”کیا تم جانتے ہو کہ زمین کے اخبار سے یہاں کیا مراد ہے “؟

قالوا: الله و رسوله اعلم “: انہوں نے کہا: خدا اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں “۔

آپ نے فرمایا:اخبارها ان تشهد علی کل عبد و امة بما عملوا علی ظهرها، تقول عمل کذا و کذا، یوم کذا، فهٰذا اخبارها “:

”زمین کے خبر دینے والے سے مراد یہ ہے کہ زمین ہر مرد اور عورت کے اعمال کی ، جو انہوں نے روئے زمین پر انجام دیے ہیں ، خبر دے گی، وہ کہے گی کہ فلاں شخص نے فلاں دن فلاں کام کیا ہے ، یہ ہے زمین کا خبر دینا“۔(۵)

ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرم سے آیا ہے :

حافظوا علی الوضوء و خیر اعمالکم الصلوٰة فتحفظوامن الارض فانّهاامّکم، ولیس فیها احد یعمل خیراً او شراً الا و هی مخبرة به “۔

” وضوء اور اپنے اعمال میں سے بہترین عمل ، نماز کی حفاظت کر، اور زمین کی طرف دیکھتے رہو، کیونکہ وہ تمہاری ماں ہے ، کوئی انسان بھی اچھا یا برا کام انجام نہیں دیتا مگر یہ کہ زمین اس کی خبر دیتی ہے “۔(۶)

ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے : جب کبھی تم بیا بان میں ہو، تو بلند آواز کے ساتھ اذان دو، کیونکہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ”لا یسمعه جن ولا انس ولا حجر الایشهد “کوئی جن و انس، اور پتھرکو کوئی ٹکڑا اسے نہیں سنتا ، مگر یہ کہ( قیامت میں ) اس کے لیے گواہی دے گا“(۷)

کیا واقعاً خدا کے حکم سے زمین کی زبان کھل جائے گی اور وہ بات کرے گی؟ یا اس سے مراد روئے زمین پر انسان کے اعمال کے آثار کا ظاہر ہونا ، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان جو عمل بھی انجام دیتا ہے ، وہ خواہ مخواہ اس کے اطراف میں کچھ آثار چھوڑ تا ہے ۔ چاہے وہ آج ہمارے لیے محسوس نہ ہوں ۔ ٹھیک ایک دوست یا دشمن کی انگلیوں کے انہیں آثار کے مانند، جو دروازے کے قبضہ پر رہ جاتے ہیں ، اور اس دن یہ سب کے سب آثار ظاہر ہو جائیں گے ، اور زمین کا بات کرنا اس عظیم ظہور کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم کسی خواب آلود شخص سے کہتے ہیں ، کہ تیری آنکھیں بتلارہی ہیں کہ تو کل رات سو یا نہیں ہے ۔ یعنی بے خوابی کے آثار اس میں نمایاں ہیں ۔

بہر حال یہ کوئی غیر مانوس بات نہیں ، کیونکہ موجود ہ زمانے میں انسان کے علم و دانش کی پیش رفت کی وجہ سے ایسے آلات ووسائل اختراع ہوچکے ہیں جو ہر جگہ اور ہر لمحہ انسان کی آواز کو گرفت میں لے سکتے ہیں ، یا انسان اور اس کے اعمال و افعال کی تصویریں کھینچ سکتے ہیں ، اور ایک مسلم سند کے عنوان سے اسے عدالت میں پیش کرسکتے ہیں ، اس طرح کہ انکار کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے ۔

اگر لوگ گزشتہ زمان میں زمین کی گواہی سے تعجب کرتے تھے ، تو موجود ہ زمانہ میں ایک پتلی سی ریل ( فیتہ ) یا ( ریکارڈ) ضبط کے کرنے کی مشین جو ایک بٹن کی صورت میں لباس سے ٹکی ہوئی ہوتی ہے ، بہت سے مسائل کو بیان کرسکتی ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک حدیث میں علی علیہ السلام سے آیا ہے کہ آ پ نے فرمایا: ”صلو ا المساجد فی بقاع مختلفة، فان کل بقعة تشهد للمصلی علیها یوم القیامة “” مساجدکے مختلف حصوں میں نماز پڑ ھا کرو، کیونکہ زمین کا ہرٹکڑا ، اس شخص کے لیے جو اس پر نماز پڑھتا ہے ، گواہی دے گا۔(۸)

ایک اور دوسری حدیث میں آیاہے ، کہ امیر المومنین علی علیہ السلام جب بیت المال تقسیم فرماتے تھے، اور وہ خالی ہو جاتا تھا تو ہاں دو رکعت نماز بجالاتے اور فرماتے:”اشهدی انی ملأتک بحق و فرغتک بحق “ ( قیامت کے دن )” گواہی دینا کہ میں نے تجھے حق کے ساتھ پر کیا تھا اور حق کے ساتھ ہی خالی کیاہے “۔(۹)

بعد والی آیت میں مزید فرماتا ہے : یہ اس خبر(نباء) پر ہے کہ تیرے پروردگار نے زمین کی وحی کی ہے “۔( بان ربک اوحٰی لها ) (۱۰)

اور زمین اس فرمان کے اجزاء میں کوتا ہی کرے گی ،” اوحٰی“ کی تعبیر یہاں اس بناء پر ہے کہ اس قسم کی اسرار آمیز گفتگو کرنا زمین کی طبیعت کے خلاف ہے ۔اور یہ چیز ایک وحی الٰہی کے طریقے کے سوا ممکن نہیں ہے ۔

بعض نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ زمین کو وحی کرے گا کہ جو کچھ اس کے اندر ہے وہ باہر پھینک دے۔

لیکن پہلی تفسیر زیادہ صحیح اور مناسب نظر آتی ہے ۔

اس کے بعد فرماتا ہے : ” اس دن لوگ مختلف گروہوں کی صورت میں قبروں سے نکل کر عرصہ محشر میں وارد ہوں گے، تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں ۔( یومئذ یصدر الناس اشتاتاً لیروا اعمالهم ) ۔

” اشتات“ ” شت“ ( بروزن شط) کی جمع ہے ، پراگندہ اور متفرق کے معنی میں ہے ، یہ اختلاف و پراگندگی ممکن ہے اس بناء پر ہو کہ ہر مذہب والے الگ عرصہ محشر میں وارد ہوں گے، یا زمین کے علاقوں میں سے ہر علاقے کے لوگ جدا جدا وارد ہوں گے، یا یہ ہے کہ ہر ایک گروہ تو ہشابشاش، شاد و خندان، حسین و خوبصورت چہروں کے ساتھ آئے گا اور ایک گروہ تیوری چڑھا ئے تیرہ و تاریک چہروں کے ساتھ محشر میں وارد ہوگا ۔

یاہر امت اپنے امام ، رہبر اور پیشوا کے ساتھ ہو گی جیسا کہ سورہ اسراء کی آیہ ۷۱ میں آیا ہے ، : یوم ندعوا کل انا ساس باماھم“: ” اس دن ہم ہر گروہ کو اس کے امام و پیشوا کے ساتھ بلائیں گے ۔ یایہ ہے کہ مو منین ، مو منین ساتھ، اور کفار، کفار کے ساتھ محشور ہوں گے۔ ان تما م تفاسیر کے درمیان جمع بھی پورے طور پر ممکن ہے کیونکہ آیت کا مفہوم وسیع ہے ۔ ” یصدر“ ” صدر“ ( بروزن صبر)کے مادہ سے اونٹوں کے پانی والی جگہ سے نکلنے کے معنی میں ہے ، انبوہ کی صورت میں ہیجان میں آئے ہوئے باہر آتے ہیں ” ورود“ کے بر عکس جو پانی کی جگہ میں داخل ہونے کے معنی میں ہے ۔ اور یہاں مختلف قوموں کے قبروں سے نکلنے اور حساب دینے کے لیے محشر میں آنے سے کنایہ ہے ۔

پہلا معنی گزشتہ آیات کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

( لیروا اعمالهم ) “ ( تاکہ ان کے اعمال انہیں دکھائے جائیں ) کے جملہ سے مراد اعمال کی جزا کا مشاہدہ ہے ۔

یا نامہ اعمال کا مشاہدہ مراد ہے جس میں ہر نیک و بد عمل ثبت ہے ۔

یا مشاہدہ باطنی مراد ہے جس کا معنی ان کے اعمال کی کیفیت کی معرفت و شناخت ہے ۔

یا ” تجسم اعمال “ کی صورت میں خود اعمال کا مشاہدہ مراد ہے ۔

آخری تفسیر ظاہر آیہ کے ساتھ سب سے زیادہ موافق ہے ، اور یہ آیت مسئلہ تجسم اعمال پر روشن ترین آیات میں سے شمار ہوتی ہے کہ ا س دن انسان کے اعمال مناسب صورتوں میں مجسم ہو کر اس کے سامنے حاضر ہو ں گے، اور ان کی ہم نشینی خوشی کا مو جب یا رنج و بلا کا باعث ہوگی۔

اس کے بعد ان دونوں گروہوں مومن و کافر، نیکو کار و بد کار کے انجام کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ” پس جس شخص نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا“۔( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره ) ۔

اور جس شخص نے ذرہ برابر بر اکام کیا ہوگا وہ اسے دیکھے گا“۔( ومن یعمل مثقال ذرة شراً یره )

یہاں بھی مختلف تفسیریں ذکرہوئی ہیں کہ کیا اعمال کی جزا کو دیکھے گا، یا نامہ اعمال کا کا مشاہدہ کرے گا، یا عمل کو۔

ان آیات کا ظاہر بھی قیامت کے دن“ تجسم اعمال“ اور خود عمل کے مشاہدہ کے مسئلہ پر،نئے سرے سے ایک تاکید ہے ، چاہے وہ عمل نیک ہو یا برا، یہاں تک کہ اگر ایک سوئی کے برابر بھی نیک یابرا کام ہوگا تو وہ بھی اپنے کرنے والے کے سامنے مجسم ہوجائے گا، اور وہ اس کا مشاہدہ کرے گا۔

”مثقال “ لغت میں بوجھ اور سنگینی کے معنی میں بھی آیاہے ، اور اس ترازوکے معنی میں بھی جس سے چیزوں کو تولا جاتا ہے ، اور یہاں یہ پہلے معنی میں ہی ہے ۔

”ذرة“ کے لیے بھی لغت اور مفسرین کے کلمات میں مختلف تفسیرں ذکر ہوئی ہیں ، کبھی تو چھوٹی چیونٹی کے معنی میں ، اور کبھی اس گرد و غبار کے معنی میں جو زمین پر ہاتھ رکھ کر اٹھانے کے بعد اس سے چپک جاتا ہے اور کبھی غبار کے ان چھوٹے چھوٹے ذرات کے معنی میں تفسیرہوئی ہے جو فضا میں معلق ہوتے ہیں اور جب سورج کی شعاعیں کسی سوراخ سے تاریک کمرے میں پڑےتیں ہیں تو وہ ظاہر ہو جاتے ہیں ۔

ہم جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں ” ذرہ“ کا ” ایٹم“ پر بھی اطلاق کرتے ہیں ۔ اور ایٹم بم کو ”القنبلة الذریة “ کہتے ہیں ۔

” ایٹم “ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ نہ تو وہ عام آنکھ سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی دقیق ترین خورد بینوں کے کے ذریعے قابل مشاہدہ ہے ، اور صرف اس کے آثار کا ہی مشاہدہ کرتے ہیں ، اور اس کا حجم اور وزن علمی حساب و کتاب کے ذریعے ہی ناپاتولا جاتا ہے ، اور وہ اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ سوئی کی ایک نوک پر لاکھوں کی تعداد میں سما جاتے ہیں ۔

ذرّہ کا مفہوم چاہے جو بھی ہو یہاں مراد سب سے چھوٹا وزن ہے ۔

بہر حال یہ آیت ان آیات میں سے ایک ہے جو آدمی کی پشت میں لرزہ پیدا کردیتی ہےں ، اور اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ اس دن حساب و کتاب حد سے زیادہ دقیق اور حساس ہو گا۔ اور قیامت میں ناپ تول کا ترازو اس قدر ظریف ہوگا، کہ وہ انسان کے چھوٹے سے چھوٹے اعمال کا وزن اور اس کا حساب کرلے گا۔

____________________

۱۔ ”اذا“ یہاں شرطیہ ہے ، اور اس کے بارے میں کہ جزائے شرط کیاہے کئی احتمال دئے گئے ہیں ، بعض اس کی جزا” یو مئذ تحدث اخبارھا“ کو سمجھتے ہیں ، بعض ” یومئذ یصدر الناس اشتاتا “کو، اور بعض نے جزا کو محذوف جانا ہے ۔ اس طرح کہ لوگ یہ سوال کرتے تھے کہ متی الساعة( قیامت کب واقع گی)تو جواب میں فرمایا : جب وہ عظیم زلزلہ آئے گا، یعنی اس وقت قیامت واقع ہوگی۔

۲۔ پہلی صورت میں اضافت عمومی معنی رکھتی ہے اور دوسری صورت میں عہد کے معنی دیتی ہے ۔

۳۔ ”زِلزال“ ”زا“ کی زیر کے ساتھ مصدری معنی دیتا ہے اور زَلزال( زا کی زبر کے ساتھ)اسم مصدرکے معنی دیتا ہے اور یہ وضع عام طور پر ان افعال میں آتی ہے جو مضاعف کی صورت میں استعمال ہوتے ہیں ، مثلاً ”صلصال “ اور” وسواس“۔

۴۔ ” اثقال“ جمع ہے ” ثقل “( بر وزن فکر ) کی جو” بار“ کے معنی میں ہے ، اور بعض نے اسے ”ثقل“ ( بروزن عمل) کی جمع سمجھا ہے جو وسائلِ خانہ یا وسائل مسافر کے معنی میں ہے ، لیکن پہلا معنی زیادہ مناسب ہے ۔

۵۔ ” نور الثقلین“ جلد۵ ص ۶۴۹۔

۶۔ ” مجمع البیان“ جلد ۱ ص ۵۲۶۔

۷۔ وہی مدرک ۔

۸۔” لئالی لاخبار“ جلد ۵ ص ۷۹ چاپ جدید۔

۹۔” لئالی لاخبار“ جلد ۵ ص ۷۹ چاپ جدید۔

۱۰۔ ”بان“ میں ” باء“ سببیت کے لئے ہے اور لھا میں ” لام“ ” الیٰ “ کے معنی میں ہے کہ جیساکہ سورہ” نحل “ کی آیہ ۶۸ میں آیاہے ” و اوحٰی ربک الی النحل“

۱: قیامت کے حساب و کتاب میں دقت اور سخت گیری

نہ صرف اس سورہ کی آخری آیات سے ، بلکہ قرآن کی مختلف آیات سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں اعمال کی حساب رسی میں حد سے زیادہ دقت ار موشگافیاں ہوں گی۔ سورہ لقمان کی آیہ ۱۶ میں آیاہے : یا بنیّ انھا ان تک مثقال حبة من خردل فتکن فی صخرة او فی السماوات اوفی الارض یأت بھا اللہ ان اللہ لطیف خبیر: ” اے بیٹے! اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ( نیک یا بد عمل ہوگا ) اور وہ پتھر کے اندر یا آسمان یا زمین کے کسی گوشہ میں چھپا ہوا ہوگا، تو خدا ( قیامت میں ) حساب رسی کے لیے اسے لے آئے گا ، بے شک خدا لطیف و خبیر ہے ۔

”خردل “ رائی کا دانہ ، جو بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے ، اور وہ چھوٹے ہونے میں صرف ضرب المثل ہے ۔

یہ تعبیر یں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ اس حساب رسی میں چھوٹے چھوٹے کاموں کا بھی محاسبہ ہوگا ۔ ضمنی طور پر یہ آیات اس بات کی تنبیہ کرتی ہیں کہ نہ تو چھوٹے گناہوں کو کم اہمیت شمار کریں ، اور نہ ہی چھوٹے نیک کاموں کو وہ چیز جس کا خدا حساب لے گا ، چاہے کچھ بھی ہو کم اہمیت نہیں ہے ۔

اس لیے بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں ہیں جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعض صحابہ تھوڑے مال کے خرچ کرنے کے سلسلہ میں بے اعتنا تھے، وہ یہ کہتے تھے کہ اجر و ثواب تو ان چیزوں پر دیا جاتا ہے جنہیں ہم دوست رکھتے ہیں ، اور چھوٹی چھوٹی چیزیں ایسی نہیں ہوتیں جن سے ہمیں کچھ لگاو اور محبت ہو، اور اسی طرح سے وہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کے سلسلہ میں بھی بے اعتنا تھے، لہٰذا یہ آیات نازل ہوئیں ، اور انہیں چھوٹی اور کم خیرات کرنے کی بھی ترغیب دی ، اور چھوٹے چھوٹے گناہ کرنے سے ڈرایا۔

۲ ۔ ایک سوال کا جواب

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ان آیات کے مطابق انسان قیامت میں اپنے اعمال ، چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ، چھوٹے ہوں یا بڑے، دیکھے گا۔ یہ معنی آیات ” احباط“ و ”تکفیر“ اور آیات ”عفو“ و ”توبہ“ کے ساتھ کیسے ساز گار ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ آیات ” احباط“ تویہ کہتی ہیں کہ بعض عمل مثلاً ” کفر“ انسان کی تمام نیکیوں کو ختم کردیتا ہے ۔ لئن اشرکت یحبطن عملک ( زمرہ۔ ۶۵) او رآیات” تکفیر“ کے مطابق بعض اوقات نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہے ۔( ان الحسنات یذهبن السیئات ) ( ہود ۱۱۴) اور عفوو توبہ کی آیات یہ کہتی ہیں کہ عفو الٰہی کے سائے میں ۔ یاتوبہ کرنے سے: گناہ محو ہو جاتے ہیں ، یہ سارے مفہوم تمام نیک و بد اعمال کا مشاہدہ کرنے کے مسئلہ کے ساتھ کیسے مطابقت کرتے ہیں ؟

اس سوال کے جواب میں ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنا چاہئیے اور وہ یہ ہے کہ : وہ دو اصول جو اوپر والی آیات میں بیان ہوئے ہیں ۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ انسان اچھے اور برے کام کا ایک ایک ذرہ تک دیکھے گا، ایک قانون کلی کی صورت میں ہے ، اور ہم جانتے ہیں کہ ہر قانون میں کچھ مشتثنیات ہوسکتے ہیں ۔ لہٰذا آیات عفو و توبہ ، اور احباط و تکفیر حقیقت میں اس قانون ِکلی میں استثناء کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ ” احباط“ و ”تکفیر“ کے سلسلہ میں در حقیقت موازنہ اور ایک عجز و انکسار رونما ہوتا ہے ، اور یہ ٹھیک مطالبات اور قرضوں کے مانند ہے ، جن میں ایک دوسرے منہا ہوجاتے ہیں ، جس وقت انسان اس موازنہ کا نتیجہ دیکھتا ہے تو حقیقت میں اس نے اپنے تما م اچھے اور برے اعمال کو دیکھ لیا ہے ۔ یہی بات”عفو“ و ” توبہ“ میں بھی جاری ہے،کیونکہ عفو لیاقت و شائستگی کے بغیر صورت پذیرنہیں ہوتا، اور توبہ خود ایک نیک عمل ہے ۔

بعض نے یہاں ایک اور جواب دیا ہے ، جو صحیح نظر نہیں آتا ، اور وہ یہ ہے کہ کافر اپنے اچھے اعمال کا نتیجہ اسی دنیا میں دیکھ لیں گے ،جیسا کہ مومن اپنے برے اعمال کی سزااسی جہان میں پالیتے ہیں ۔

لیکن ظاہر یہ ہے کہ زیر بحث آیات قیامت کے ساتھ مربوط ہیں نہ کہ دنیاکے ساتھ ، علاوہ از ایں یہ کوئی کلیہ نہیں کہ ہرمومن و کافر اپنے اعمال کا نتیجہ دنیا میں دیکھے۔

۳ ۔ قرآن کی سب سے زیادہ جامع آیات

عبد اللہ بن مسعود (رض)“ سے نقل ہوا ہے کہ قرآن مجید کی سب سے زیادہ محکم آیات” فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یرہ ومن یعمل مثقال ذرة شراً یرہ“ ہی ہیں ۔ اور وہ انہیں ” جامعہ“ سے تعبیر کیا کرتے تھے، اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے مطالب پر گہرا ایمان ، اس بات کے لیے کافی ہے کہ انسان کو راہ حق پر چلائے اور ہر قسم کی فساد و شر سے روکے۔ اسی لیے ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آکرعرض کی:” علمنی مما علمک اللہ “ جو کچھ خدا نے آپ کو تعلیم دی ہے اس میں سے مجھے بھی تعلیم دیجئے۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اپنے اصحاب میں سے ایک کے سپرد کردیا تاکہ و ہ اسے قرآن کی تعلیم دے ۔ اور اس نے اسےسوره اذا زلزلت الارض “ کی آخرتک تعلیم دی ۔ وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہا: میرے لیے تو یہی کافی ہے ۔( اور ایک اور دوسری روایت میں آیاہے کہ اس نے کہا: ”تکفینی هٰذه الاٰیة “ ” یہی ایک آیت میرے لیے کافی ہے )۔ پیغمبر اکرم نے فرما یااسے اس کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ ایک مرد فقیہ ہو گیاہے۔ ( اور ایک روایت کے مطابق آپ نے فرمایا:” رجع فقیھا“ وہ فقیہ ہو کر لوٹاہے )اس کی وجہ بھی واضح ہے، کیونکہ جو شخص یہ جانتا ہوکہ ہمارے اعمال ، چاہے ایک ذرہ کے برابر ہوں ، یا رائی کے ایک دانہ کے برابر، ان کا حساب لیاجائے گا، تو وہ آج ہی سے اپنے حساب و کتاب میں مشغول ہو جائے گا اور اس کا اس تربیت پرسب سے زیادہ اثر ہوگا۔ ۱

اس کے باوجود ” ابو سعید خدری“ سے آیا ہے کہ جس وقت آیہ فمن یعمل نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا: اے رسول خدا کیا میں اپنے تمام اعمال کو دیکھوں گا ؟ آپ نے فرمایا:ہاں میں نے کہا :ان بڑے بڑے کاموں کو ؟ فرمایا: ہاں میں نے کہا : چھوٹے چھوٹے کام بھی ؟ فرمایاہاں ! میں نے کہا وائے ہو مجھ پر ، میری ماں میری عزا میں بیٹھے ، فرمایا :اے ابو سعید! تجھے بشارت ہو، کیونکہ نیکیاں دس گناہ شمار ہوں گی، جو سات سو تک ہو سکتی ہیں اور خدا جس چیز کے لیے چاہے گا اس سے بھی کئی گناہ کردے گالیکن ہرگناہ کے لیے صرف ایک ہی گناہ کی سزا ملے گی، یاخدا معاف کردے گا، اور جان لے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے نجات نہیں پائے گا( مگر یہ کہ خدا کا کرم اس کے شامل حال ہو) میں نے عرض کیا: اے رسول خدا کیا آپ بھی؟ فرمایا: ہاں میں بھی مگر یہ کہ خدا مجھے اپنی رحمت کا مشمول قرار دے ۔ ۲

خدا وندا ! جب تیرا پیغمبر اس عظمت و بزرگی کے باوجود صرف تیری بخشش اور عفو پر دل بستہ ہے تو پھر ہماری حالت تو واضح ہے ۔

پروردگارا !اگر ہمارے اعمال ہماری نجات کا معیار ہوں تو وائے ہے ہماری حالت پر ، اور اگر تیرا کرم ہمارا یار و مدد گار ہو تو پھر خوشا بحال ِما۔

بار الٰہا ! جس دن ہمارے سارے چھوٹے بڑے گناہ ہمارے سامنے مجسم ہوجائیں گے، اس دن کے لیے ہم صرف تیرے ہی لطف و کرم پرنظر رکھے ہوئے ہیں ۔

آمین یارب العالمین

____________________

۱۔ ” تفسیر روح البیان“ جلد۱۰ ص ۴۹۵ ۔ یہی مضمون ” نور الثقلین“ جلد۶۰ میں بھی آیاہے ۔

۲۔”در المنثور“ جلد۶ ص ۳۸۱۔

سورہ العٰدیٰت

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۱۱ آیات ہیں

سورہ و العادیات کے مطالب

اس برے میں کہ یہ سورہ مکہ “ میں نازل ہوا ،یا مدینہ“ میں مفسرین کے در میان شدید اختلاف ہے ۔ بہت سوں نے تو اسے مکی شمار کیا ہے جب کہ ایک جماعت اسے مدنی سمجھتی ہے

آیات کے مقطع کا مختصراور چھوٹا ہونا اور قسموں پر تکیہ ، اور اسی طرح مسئلہ معاد کے بارے میں بیان ایسے قرائن ہیں جو اس کے مکی“ ہونے کی تاکید کرتے ہیں ۔

لیکن دوسری طرف سے اس سورہ کی قسموں کا مضمون ، جہاد کے مسائل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ، جیسا کہ انشاء اللہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا ، اسی طرح وہ روایات جو کہتی ہیں کہ یہ سورہ جنگِ ذات السلاسل“ کے بعد نازل ہوا ہے ۔

( یہ وہ جنگ ہے جو ہجرت کے آٹھویں سال واقع ہوئی تھی، اور اس میں کفار کے بہت سے گروہ قیدی بنائے گئے تھے، اور انہیں محکم رسیوں سے باندھا گیا تھا، لہٰذا اس کانام ذات السلاسل“ ہوگیا ، جس کی تفصیل انشاء اللہ آیات کی تفصیل میں آئے گی)۔

یہ اس سورہ کے مدنی ہونے پر گواہ ہے ، یہاں تک کہ اگر ہم اس سورہ کے آغاز کی قسموں کو حاجیوں کے منیٰ و مشعر کی طرف جانے پر ناظرسجھیں ، تب بھی یہ مدینہ ہی کے ساتھ مناسبت رکھتاہے ۔

یہ ٹھیک ہے کہ مراسم حج اپنی اکثر فروعات کے ساتھ زمانہ جاہلیت کے عربوں میں بھی۔ سنتِ ابراہیمی کی اقتداء کرنے کی وجہ سے رواج رکھتے تھے لیکن وہ خرافات کے ساتھ ایسے آلودہ ہوچکے تھے کہ یہ بات بعید نظر نہیں آتی ہے کہ قرآن نے ان کی قسم کھائی ہو۔

ان تمام جہات کی طرف توجہ کرتے ہوئے ہم اس کے مدنی “ ہونے کو تر جیح دیتے ہیں ہم نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے سورہ کے مطالب بھی واضح ہو گئے ہیں ۔ کہ آغاز میں کچھ بیدار کرنے والی قسموں کا ذکر کرتا ہے ۔ اور ا س کے بعد نوع انسان کی چند کمزوریوں ، مثلاً بخل او ر دنیا پرستی کو درمیان میں لے آتاہے ، اور انجام کار مسئلہ معاد پر ایک مختصراور گویا اشارے اور بندوں پر خدا کے علمی احاطہ پر سورہ کو ختم کرتاہے

اور اس کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں پیغمبر اکرم سے آیاہے :

” من قرأھا اعطی من الاجر عشر حسنات، بعدد من بات بالمزدفلة، و شہد جمعاً:

” جو شخص اس کی تلاوت کرے گا تو ان تمام حاجیوں کی تعداد ( جو عید قربان کی رات ) ” مزدلفہ“ میں توقف کرتے ہیں ، اور وہاں حاضر رہتے ہیں ، دس گنا زیادہ نیکیاں اسے دی جائیں ۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام آیاہے :

من قرأها والعادیات و ادمن قرائتها بعثه الله مع امیر المومنین ( سلام الله علیه) یوم القیامة خاصه، و کان فی حجره ورفقائه :

”جو شخص سورہ والعادیات کو پڑھے گا، اور اس کی مداومت کرے گا ، تو خدا اسے قیامت کے دن خصوصیت کے ساتھ امیر المومنین ( سلام اللہ علیہ ) کے ہمراہ مبعوث کرے گا، اور وہ آپ کی جماعت میں اور آپ کے دوستوں کے دمیان ہوگا۔(۲)

بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ سورہ والعادیات نصف قرآن کے برابر ہے ۔(۳)

یہ بات کہے بغیر ظاہر و واضح ہے کہ یہ تمام فضیلتیں ان لوگوں کے لیے ہیں جو اس کو اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنالیں گے، اور اس کے تمام مطالب و مضامین پر ایمان رکھیں گے اور اس پر عمل کریں گے ۔

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹،۱۰،۱۱

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و العادیات ضبحاً ) ۔ ۲ ۔( فالموریات قدحاً ) ۔ ۳ ۔( فالمغیرات صبحاً ) ۔ ۴ ۔( فاثرن به نقعاً ) ۔ ۵ ۔( فوسطن به جمعاً ) ۔

۶ ۔( انّ الانسان لربه لکنود ) ۔ ۷ ۔( و انّه علیٰ ذلک لشهید ) ۔ ۸ ۔( و انهّ لحب الخیر لشدید ) ۔

۹ ۔( افلایعلم اذا بعثر مافی القبور ) ۔ ۱۰ ۔( وحُصل مافی الصدور ) ۔ ۱۱ ۔( انّ ربهم بهم یومئذٍ لّخبیر ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے

۱ ۔ ان فراٹے بھر تے ہوئے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑوں کی قسم ( جو میدان جہاد کی طرف پیش رفت کرتے ہیں )۔

۲ ۔ اور ان کی قسم جو( اپنے سموں سے پتھروں پر ٹاپ مارتے ہوئے) چنگاریاں نکالتے ہیں ۔

۳ ۔ اور صبح ہوتے ہی دشمن پر یلغار کردیتے ہیں ۔ ۴ ۔ اور اس سے ہر طرف گرد و غبار ہی گرد و غبار کر دیتے ہیں ۔

۵ ۔ اور یکا یک دشمن کے دل بادل میں گھس جاتے ہیں ۔ ۶ ۔ بیشک انسان اپنے پروردگار کی نعمتوں کے سامنے ناشکرا اور بخیل ہے ۔

۷ ۔ اور وہ خود بھی اس معنی پر گواہ ہے ۔ ۸ ۔ وہ مال کے ساتھ شدید لگاو اور محبت رکھتا ہے ۔

۹ ۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ اس دن جو بھی قبروں میں ہیں وہ سب زندہ ہوجائیں گے۔

۱۰ ۔ اور جو کچھ سینوں کے اندر (چھپایاہوا )ہے، وہ آشکار اور ظاہر ہوجائے گا۔ ۱۱ ۔ اس دن ان کا پروردگار ان سے مکمل طور پر باخبر ہے ۔

شان نزول

ایک حدیث میں آیاہے کہ یہ سورہ جنگ ” ذات السلاسل“ کے بعد نازل ہوا، اور اس کا واقعہ اس طرح ہے ۔

ہجرت کے آٹھویں سال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کوخبر ملی کہ بارہ ہزار سوار سر زمین ” یا لیس“ میں جمع ہیں ، اور انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا ہے کہ جب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور علی علیہ السلام کو قتل نہ کریں اور مسلمانوں کی جماعت کومنتشر نہ کردیں آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔

پیغمبراکرم نے اپنے اصحاب کی ایک بہت بڑی جماعت کو بعض صحابہ کی سر گردگی میں اس کی جانب روانہ کیا، لیکن وہ کافی گفتگو کے بعد بغیرکسی نتیجہ کے واپس لوٹ آئے۔

آخر کار پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے علی السلام کو مہا جرین و انصار کے ایک گروہ کثیر کے ساتھ ان سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ بڑی تیزی کے ساتھ دشمن کے علاقہ کی طرف روانہ ہونے اور رات بھرمیں سارا سفر طے کرکے صبحدم دشمن کو اپنے محاصرہ میں لے لیا ۔ پہلے تو ان کے سامنے اسلام کو پیش کیا ۔ جب انہوں نے قبول نہ کیا تو ابھی فضا تاریک ہی تھی کہ ان پر حملہ کردیا اور انہیں درہم برہم کر کے رکھ دیا ، ان میں سے کچھ کو قتل کیا ، ان کی عورتوں کو اسیر کر لیا اور بکثرت مال غنیمت کے طور پر حاصل کیا۔

سورہ ” والعادیات“ نازل ہوئی حالانکہ ابھی سر باز انِ اسلام مدینہ کی طرف لوٹ کر نہیں آئے تھے۔ پیغمبر خدا اس دن نماز صبح کے لیے آئے تو اس سورہ کی نماز میں تلاوت کی ۔ نماز کے بعد صحابہ نے عرض کیا ، یہ تو ایسا سورہ ہے جسے ہم نے آج تک سنا نہیں ہے ۔

فرمایا: ہاں ! علی علیہ السلام دشمنوں پر فتح یاب ہوئے ہیں اور جبرئیل نے گزشتہ رات یہ سورہ لاکر مجھے بشارت دی ہے ۔

کچھ دن کے بعد علی علیہ السلام غنائم اور قیدیوں کے ساتھ مدینہ میں وارد ہوئے۔(۴)

بعض کا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ اس سورہ کے واضح مصادیق میں سے ایک ہے ۔ یہ اس کاشانِ نزول نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ ” جمع “ و مشعر الحرام“ کے ناموں میں سے ایک نام ہے اس بناء پر کہ لوگ وہاں جمع ہو تے ہیں ، یا وہاں نماز مغرب و عشا ء فاصلہ کے بغیر پڑھی جاتی ہے ۔

۲” مجمع البیان “ آغاز سورہ عادیات جلد ۱۰ ص ۴۲۱۔

۳۔۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۲۷۔

۴۔ ” بحار الانوار“ جلد۲۱ ص ۶۶ سے آگے،” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۲۸ اور بعض دوسری کتب تاریخ۔