تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65339
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65339 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

تکاثر و تفاخر کی مصیبت

ان آیات میں پہلے ملامت بھرے لہجہ میں فرماتا ہے : ” تفاخر اور ایک دوسرے پر کثرت رکھنے کے خیال نے تمہیں خدا اور قیامت سے غافل کرکے اپنی طرف مشغول کردیا ہے “۔( الهاکم التکاثر ) ۔

” یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت اور دیدار کے لیے بھی گئے اور تم نے اپنے مردوں کی قبروں کو شمار کیا“( حتی زرتم المقابر ) ۔

آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال دیا گیا ہے کہ ” تکاثر“ اور تفاخر نے انہیں اس طرح سے اپنی طرف مشغول کرلیا ہے کہ وہ قبروں میں وارد ہونے کے لمحہ تک جاری و ساری ہے ۔

لیکن پہلا معنی ” زرتم المقابر“کی تعبیر ، اور اسی طرح شانِ نزول اور نہج البلاغہ کے خطبہ کے ساتھ ، جس کی طرف انشاء اللہ بعدمیں اشارہ ہوگا ، زیادہ ساز گار ہے ۔

( الهاکم ) “ ” لھو“ کے مادہ سے ، چھوٹے چھوٹے کاموں میں مشغول ہوجانا، اور کاموں سے غافل رہنے کے معنی میں ہے ۔ ”راغب“ ” مفردات“ میں کہتا ہے ” لھو“ اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنی طرف مشغول رکھتے ہوئے اس کے اہداف و مقاصد سے باز رکھتی ہے ۔

”تکاثر“ کثرت“ کے مادہ سے ، تفاخراور مباہات اور ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتلانے کے معنی میں ہے ۔(۱)

” زرتم“ ” زیارة“ اور ” زور“ ( بر وزن قول ) کے مادہ سے اصل میں سینہ کے اوپر والے حصہ کے معنی میں ہے اس کے بعد ملاقات کرنے اور روبرو ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اور ” زور“ ( بر وزن قمر) سینہ کے اوپر والے حصہ کے ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ جھوٹ ایک قسم کا حق سے انحراف ہے ، اس لیے اس پر ” زور“ ( بر وزن نور) کا اطلاق ہوتا ہے ۔

” مقابر“ ” مقبرة“ کی جمع ہے جو میت کی قبر کی جگہ کے معنی میں ہے اور یہاں قبروں کی زیارت کرنا یاتو ( بعض تفاسیر کے مطابق) موت سے کنایہ ہے یا شمارکرنے اور فخر و مباہات کرنے کے لیے قبروں کے پاس جانے کے معنی میں ہے (جو اس کی مشہور تفسیر کے مطابق ہے )۔

اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے دوسرا معنی زیادہ صحیح نظر آتاہے اور ا س کے شواہدمیں سے ایک امیر المومنین علی علیہ السلام کا وہ کلام ہے جو اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں آیا ہے ، جو آپ نے ”( الهاکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر ) “ کے بعد فرمایاہے :

یا له مراماً ماابعده؟ وزراً ما اغفله؟ و خطراً ما افظعه ؟ لقد استخلوا ،منهم ای مدّ وتنا و شوهم من مکان بعید افبمصارع اٰبائهم یفخرون ؟

تکاثر و تفاخر کی مصیبت

ان آیات میں پہلے ملامت بھرے لہجہ میں فرماتا ہے : ” تفاخر اور ایک دوسرے پر کثرت رکھنے کے خیال نے تمہیں خدا اور قیامت سے غافل کرکے اپنی طرف مشغول کردیا ہے “۔( الهاکم التکاثر ) ۔

” یہاں تک کہ تم قبروں کی زیارت اور دیدار کے لیے بھی گئے اور تم نے اپنے مردوں کی قبروں کو شمار کیا“( حتی زرتم المقابر ) ۔

آیت کی تفسیر میں یہ بھی احتمال دیا گیا ہے کہ ” تکاثر“ اور تفاخر نے انہیں اس طرح سے اپنی طرف مشغول کرلیا ہے کہ وہ قبروں میں وارد ہونے کے لمحہ تک جاری و ساری ہے ۔

لیکن پہلا معنی ” زرتم المقابر“کی تعبیر ، اور اسی طرح شانِ نزول اور نہج البلاغہ کے خطبہ کے ساتھ ، جس کی طرف انشاء اللہ بعدمیں اشارہ ہوگا ، زیادہ ساز گار ہے ۔

” الھاکم “ ” لھو“ کے مادہ سے ، چھوٹے چھوٹے کاموں میں مشغول ہوجانا، اور کاموں سے غافل رہنے کے معنی میں ہے ۔ ”راغب“ ” مفردات“ میں کہتا ہے ” لھو“ اس چیز کو کہتے ہیں جو انسان کو اپنی طرف مشغول رکھتے ہوئے اس کے اہداف و مقاصد سے باز رکھتی ہے ۔

”تکاثر“ کثرت“ کے مادہ سے ، تفاخراور مباہات اور ایک دوسرے پر اپنی بڑائی جتلانے کے معنی میں ہے ۔(۲)

” زرتم“ ” زیارة“ اور ” زور“ ( بر وزن قول ) کے مادہ سے اصل میں سینہ کے اوپر والے حصہ کے معنی میں ہے اس کے بعد ملاقات کرنے اور روبرو ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اور ” زور“ ( بر وزن قمر) سینہ کے اوپر والے حصہ کے ٹیڑھا ہوجانے کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ جھوٹ ایک قسم کا حق سے انحراف ہے ، اس لیے اس پر ” زور“ ( بر وزن نور) کا اطلاق ہوتا ہے ۔

” مقابر“ ” مقبرة“ کی جمع ہے جو میت کی قبر کی جگہ کے معنی میں ہے اور یہاں قبروں کی زیارت کرنا یاتو ( بعض تفاسیر کے مطابق) موت سے کنایہ ہے یا شمارکرنے اور فخر و مباہات کرنے کے لیے قبروں کے پاس جانے کے معنی میں ہے (جو اس کی مشہور تفسیر کے مطابق ہے )۔

اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے دوسرا معنی زیادہ صحیح نظر آتاہے اور ا س کے شواہدمیں سے ایک امیر المومنین علی علیہ السلام کا وہ کلام ہے جو اس سلسلہ میں نہج البلاغہ میں آیا ہے ، جو آپ نے ” الھاکم التکاثر حتیٰ زرتم المقابر“ کے بعد فرمایاہے :

( یا له مراماً ماابعده؟ وزراً ما اغفله؟ و خطراً ما افظعه ؟ لقد استخلوا ،منهم ای مدّ وتنا و شوهم من مکان بعید افبمصارع اٰبائهم یفخرون؟ ام بعد ید الهلکی یتکاثرون؟ یر تجعون منهم اجساداً خوت، و حرکات سکنت، ولایکونوعبراً احق من ان یکونوا مفتخراً ) !“:

” تعجب ہے وہ مقصد سے کتنے زیادہ دور ہیں اور کیسے غافل زیارت کر نے والے ہیں ؟ اور کیسا موہوم اور رسوا کرنے والا افتخار ہے ؟ ایسے افراد کی بوسیدہ ہڈیوں کی یاد میں بڑے ہوئے ہیں کو سالہا سال سے مٹی ہوچکے ہیں اور وہ یاد بھی کیسی؟ اتنے دور دراز کے فاصلہ پر ایسے لوگوں کی یاد میں پڑے ہیں جو ان کی حالت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی۔ کیا وہ اپنے آباو اجداد کی نابودی کی جگہ پر فخر کرتے ہیں یا اپنے مردوں او رمعدود مین کی تعدا کو شمار کرکے خو د کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں وہ ایسے جسموں کی باز گشت کے خواہاں ہیں جن کا تارد پودر بکھر چکا ہے اور جن کی حرکتیں ختم ہو چکی ہیں ، یہ بوسیدہ جسم اگر عبرت کا باعث ہوں تو وہ اس سے زیادہ سزاوار ہیں کہ جب موجبِ افتخار ہوں “(۳)

یہ خطبہ جس کے صرف ایک حصہ کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے اس قدر ہلادینے والا گویا و صریح ہے کہ ” ابن ابی الحدید معتزلی“ کہتا ہے کہ : میں اس ذات کی قسم کھا تا ہوں جس کی تمام امتیں قسم کھاتی ہیں کہ میں نے پچھلے پچاس سال سے لے کر آج تک اس خطبہ کو ایک ہزار بار پڑھا ہے ، اور ہر بار میرے دل میں ایک نیا لرزہ و خوف اور ایک نئی پند و نصیحت پیدا ہوئی ہے ، اور اس نے میری روح کے اندر ایک شدید اثر چھوڑاہے او رمیرے اعضاء و جوارح لرزنے لگے اور کبھی ایسا نہیں ہوا ، کہ میں اس میں غور و فکر کروں اور اس حال میں اپنے خاندان ، عزیزو ں اور دوستوں کی موت کو یاد نہ کروں ، اور ٹھیک میرے سامنے یہ بات مجسم ہو جاتی تھی کہ میں وحی ہوں جس کی امام نے وضاحت کی ہے ۔

اس سلسلے میں کتنے ہی واعظوں ، خطباء، سخن وروں اور فصیح افراد نے گفتگو کی ہے، اور میں نے انہیں کان لگا کر سنا ہے اور ان کی باتوں میں غور و فکر کیا ہے ، کسیی ایک میں بھی میں نے کلامِ امام والی تاثیر نہیں پائی ۔

یہ تاثیر جو ان کا کلام میرے دل میں چھوڑتا ہے ، یا تو اس کا سر چشمہ اس کا وہ ایمان ہے جو اس کاکہنے والارکھتاہے ، یا اس کے یقین و اخلاص والی نیت اس بات کا سبب بن گئی ہے کہ وہ اس طرح ارواح میں نفوذ کرے اور دلوں میں جاگزیں ہو جائے۔(۴)

” ابن ابی الحدید“ اپنی گفتگو کے ایک اور حصہ میں کہتا ہے :

ینبغی لو اجتمع فصحاء العرب قاطبةفی مجلس و تلی علیهم یسجدوا له ! “:

” یہ خطبہ اس لائق ہے کہ ، اگر فصحائے عرب سب کے سب کسی مجلس میں جمع ہوں اور یہ خطبہ ان کے سامنے پڑھا جائے، تو وہ اس کے سامنے سجدہ کریں “۔

اور اسی مقام پر امیر المومنین علی علیہ السلام کی فصاحت کے بارے میں معاویہ کی گفتگو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ کہتا ہے:

و الله ما سنّ الفصاحة لقریش غیره

” خدا کی قسم قریش کے لیے علی کے سوا کسی نے فصاحت و بلاغت کی بنیاد نہیں رکھی۔

بعد والی آیت میں ان لوگوں کو اس بات کے ساتھ سختی سے تہدید کرتے ہوئے فرماتا ہے :” ایسا نہیں ہے جیسا کہ تم گمان کرتے ہو، اور تم اس کے ذیعے ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرتے ہو۔ تم عنقریب اس موہوم تفاخر کا نتیجہ دیکھ لوگے“۔( کلّا سوف تعلمون ) ۔

پھر دوبارہ مزید تاکید کے لیے کہتاہے :” پھربھی اس طرح نہیں ہے جس طرح تم خیال کرتے ہو۔ عنقریب تم جا ن لو گے“۔( ثم کلّا سوف تعلمون ) ۔

مفسرین کی ایک جماعت نے ان دونوں آیتوں کو ایک ہی مطلب کی تکرار اور تاکید سمجھا ہے اور یہ دونوں ہی سر بستہ طور پر ان عذابوں کی خبر دیتی ہےں جو ان متفاخر مستکبرین کے انتظار میں ہے ۔

جب کہ بعض دوسروں نے پہلی آیت کو عذاب قبر اور عذاب برزخ کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جس سے انسان کی موت کے بعد روبرو ہوگا اور دوسری کو عذاب قیامت کی طرف ۔

ایک اور حدیث میں امیر المومنین علی علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

مازلنا نشک فی عذاب القبرحتیٰ نزلت الهاکم التکاثر، الیٰ قوله کلّا سوف تعلمون، یرید فی القبر، ثم کلا سوف تعلمون بعد البعث

” ہم میں سے ایک گروہ ہمیشہ عذاب قبر کے بارے میں شک کیا کرتا تھا یہاں تک کہ سورہ ”( الهاکم التکاثر ) “ نازل ہوئی ، یہاں تک کہ فرماتا ہے : ” کلا سوف تعلمون “ اس سے مراد عذاب قبر ہے ۔ اس کے بعد فرماتا ہے : ثم کلا سوف تعلمون “ اس سے مراد قیامت کا عذاب ہے “۔(۵)

تفسیر کبیر فخر رازی میں یہ مطلب علی علیہ السلام کے ایک صحابی” زربن جیشن“ سے نقل ہوا ہے ،جو کہتا ہے : ” ہم عذابِ قبرکے بارے میں شک کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ ہم نے علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرماتے ہیں :”یہ آیت عذابِ قبر پر دلیل ہے“۔(۶)

اس کے بعد مزید کہتا ہے : ” ایسا نہیں ہے جیساکہ تم ایک دوسرے پر فخر کرنے والے خیال کرتے ہو۔ اگر تمہارا آخرت پر ایمان ہوتااور علم الیقین کے ساتھ جان لیتے ، تو ہر گز ایسا کام نہ کرتے اور ان باطل مسائل پر فخر و مباھات کرنے سے باز آتے۔( کلا لو تعلمون علم االیقین ) (۷)

پھر دوبارہ تاکید اور مزیدڈرانے کے لیے اضافہ کرتا ہے : تم یقینی طو رپر جہنم کو دیکھو گے“۔( لترون الجحیم ) ۔

”پھر اس میں داخل ہو کر عین الیقین کے ساتھ اس کا مشاہدہ کرو گے“۔( ثم لتر ون ها عین الیقین ) ۔

” پھر اس دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا“۔( ثم لتسئن یومئذ عن النعیم ) ۔

اس دن تمہیں اس بات کی وضاحت کرنی پڑے گی کہ تم نے ان خدا داد نعمتوں کو کس طریقہ سے صرف کیا ہے ؟ اور ان سے تم نے خدا کی اطاعت کے لیے مددلی ہے یا اس کے معصیت کے لیے ، یا ان نعمتوں کو ضائع کرکے ہر گز ا ن کا حق ادا نہیں کیا ہے ؟

____________________

۱۔ فارسی کے روز مرہ کے استعمالات میں ” تکاثر“ دولت جمع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، حالانکہ یہ معنی لغت کی اصل کے اعتبار سے نہیں ہے ، لیکن بعض روایات میں جن کی طرف اشارہ کریں گے، اس قسم کا استعمال ہوا ہے ۔

۲-«نهج البلاغه»، خطبه ۲۲۱.

۳۔۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۱۔

۴۔ ” شرح نہج البلاغہ“ ابن ابی الحدید“ جلد۱۱ ص ۱۵۳۔

۵۔ ” مجمع البیان“ جلد ۱۰ ص ۳۴۔

۶۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۲۲ ص ۷۲۔

۷۔ بعض کا نظر یہ یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر لفظ” کلا“ تاکید کے لیے ہوتا ہے اور ”حقاً“کے معنی میں ہوتا ہے ، یہ بات طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ” العرب تو کد بکلّا و حقّاً“ عرب لفظ کلا اور حقا سے تاکید کرتے ہیں ۔

۱ ۔ تفاخرکا سر چشمہ

اوپر والی آیات سے معلوم ہوتاہے کہ تفاخر او رایک دوسرے پر فخر و مباھات کرنے کے عوامل اصل میں ایک ، وہی خدائی جزاء و سزا کے بارے میں جہالت و نادانی او رمعاد کے بارے میں ایمان کا نہ ہونا ہے

اس کے علاوہ انسان کا اپنی پیدا ئش کے آغاز سے لے کر انجام تک ہی کمزوریوں اور مصیبتوں سے بے خبر رہنا بھی کبر و غرور او رتفاخر کے عوامل میں سے ایک عامل ہے ۔ اسی بناء پر قرآن مجید اس تفاخر و تکا ثر کو توڑنے کے لیے گزشتہ اقوال کی سر گزشت کو مختلف آیات میں بیان کرتا ہے کہ یہ قومیں اتنے امکانات اور فراوان قدرت رکھنے کے باوجود اتنے سادہ عام قسم کے وسائل کے ذیعے کس طرح سے نابود ہو گئیں ۔

ہواو ں کے چلنے سے آسمانی بجلی( صاعقہ) کے کوند نے سے ، زمین کے ایک زلزلہ سے ، حد سے زیادہ بارش کے برسنے سے ، خلاصہ یہ ہے کہ پانی ، ہوا اور مٹی سے او ربعض اوقات ” سجیل“ (کنکریوں ) اور چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے نابود ہو گئے۔

ان حالات میں یہ سب تفاخر و غرور کس لیے ہے ؟

اس بات کے لیے دوسرا عامل وہی ضعف و حقارت کا احساس ہے جو ناکامیوں اور شکستوں سے پیدا ہوتا ہے کہ کچھ افراد اپنی شکستوں کی پر دہ پوشی کے لیے تفاخر ومباھات کی پناہ لیتے ہیں ۔ اسی لیے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :

مارجل تکبّر او تجبّر الا لذته وجد ها فی نفسه

” کو ئی شخص تکبر اور فخر و مباھات نہیں کرتا مگر اس ذلت کی وجہ سے جسے وہ اپنے نفس کے ا ندر پاتا ہے “۔(۱)

لہٰذا جب وہ یہ احساس کرتا ہے کہ وہ حد کمال کو پہنچ گیاہے ، تو پھر وہ تفاخر کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔

ایک اور حدیث میں امام محمد باقر علیہ السلام سے آیا ہے :

ثلاثة من عمل الجاهلیة، الفخر بالانساب، و الطعن فی الاحساب و الاستسقاءُ بالانواء

”تین چیزیں ایسی ہےں جو زمانہ جاہلیت کے عمل میں سے ہیں ، نسب پرفخر کرنا ، لوگوں کی شخصیت اور خاندانی شرافت میں طعن کرنا ستاروں کے ذریعے بارش طلب کرنا(۲)

ایک اور حدیث میں امیر المومنین علیہ السلام سے آیا ہے :

اهلک الناس اثنان: خوف الفقر، و طلب الفخر “دو چیزوں نے لوگوں کو ہلاک کیا : فقر و فاقہ کا خوف( جو انسان کو ہر طریقہ اور ہر ذریعہ سے مال جمع کرنے پر ابھارتا ہے )اور ایک دوسرے پر فخر کرنا۔(۳)

اور حقیقتا ً حرص بخل، دنیا پرستی اور تباہ کرنے والی رقابتوں اور بہت سے اجتماعی مفاسد کے اہم ترین عوامل میں سے ایک یہی فقر و فاقہ کا بلا وجہ خوف او رافراد و قبائل او رامتوں کے درمیان ایک دوسرے پر فخر و مباہات کرنا اور برتری کا اظہار کرنا ہے اسی لیے ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے کہ آپ نے فرمایا:

ما اخشی علیکم الفقر، ولکن اخشی علیکم التکاثر “ ” میں تم پر فقر و فاقہ سے نہیں ڈرتا ، لیکن میں تمہارے تکاثر و تفاخر سے ڈرتا ہوں “(۴)

” تکا ثر“ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے اصل میں تفاخر کے معنی میں ہے ، لیکن بعض اوقات یہ زیادہ طلب اور مال جمع کرنے کے معنی میں بھی آیاہے چنانچہ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے :

التکاثر، ( فی ) الاموال جمعها من غیر حقها، و منها من حقها، و شدّها فی الاوعیة

” تکاثر، غیر شر عی طریقہ سے مال جمع کرنا ، اور اس کا حق ادا نہ کرنا اور اسے صندوقوں اور خزانوں میں جمع کرنا۔(۵)

ہم اس وسیع بحث کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک پر معنی حدیث پر ختم کرتے ہیں ، جو آپ نے ” الھاکم التکاثر“کی تفسیر میں بیان فرمائی ہے :

یقول ابن اٰدم مالی مالی ، ومالک من مالک الامااکلت فافنیت او لبست فابلیت او تصدقت فامضیت ۔

” انسان کہتا ہے : میرا مال ، میرا مال ، حالانکہ تیرا مال تو صرف وہ غذا ہے جو تو کھاتا ہے ، وہ لباس جو تُو پہنتا ہے اور وہ صدقات ہیں جو تو راہ خدا میں دیتا ہے“۔(۶)

اور یہ ایک بہت ہی عمدہ نکتہ ہے کہ اس فراوان مال میں سے ہر شخص کا حصہ ، جسے وہ جمع کرتا ہے ، اور اس کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں کبھی تھوڑی سی دیر کے لیے بھی غور و فکر نہیں کرتا ، اس تھوڑے سے کھانے پینے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ، او رہم جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ اپنی ذات پر خرچ کرتا ہے وہ بہت ہی کم ، حقیر اور نہ ہونے کے برابرہے ۔ اور کیا ہی اچھا ہو کہ وہ راہ خدا میں خرچ کرنے میں اپنا حصہ زیادہ کرے ۔

____________________

۱” اصول کافی“ جلد ۲ ص ۲۳۶ باب الکبر حدیث ۱۷۔

۲۔” بحار الانوار“جلد ۷۳ ص ۲۹۱ ۔

۳۔”بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۲۹۰ حدیث ۱۲۔

۴۔ ” الدر المنثور“ جلد ۶ ص ۳۸۷۔

۵۔ ” نو ر الثقلین “ جلد ۵ ص۶۶۲ حدیث۸

۶۔ ” صحیح مسلم “ ( مطابق نقل مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۵۳۴)

۲ ۔ یقین اور اس کے مراحل

” یقین “ ”شک “ کا نقطہ مقابل ہے ، جیسا کہ علم ، جہالت کا نقطہ مقابل ہے ، او رکسی چیز کے واضح اور ثابت ہونے کے معنی میں آیاہے ، اور اختیار و روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے مطابق ایمان کے اعلیٰ مر حلہ کو یقین کہا جاتا ہے ۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ” ایمان اسلام سے ایک درجہ بالاتر ہے ، اور تقویٰ ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے ، اور یقین تقویٰ سے ایک درجہ بالاتر ہے ۔

اس کے بعد آپ نے فرما یا: ”ولم یقسم بین الناس شیء اقل من الیقین “ ” یقین کی حقیقت اللہ پر توکل کرنا، اللہ کی پاک ذات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، قضائے الٰہی پر راضی رہنا اور اپنے تمام کاموں کا خدا کے سپرد کردینا ہے ۔(۱)

مقام تقویٰ و ایمان و اسلام سے مقام ِ یقین کی بر تری ایک ایسی چیز ہے جس پر دوسری روایات میں بھی تاکید ہو ئی ہے ۔(۲)

ایک دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :

من صحة یقین المرأ المسلم ان لایرضی الناس بسخط الله ، ولا یلومهم علی مالم یو ته الله ان الله بعد له و قسطه جعل الراحة فی الیقین و الرضا و جعل الهم و الحزن فی الشک و السخط :

” مرد مسلمان کے یقین کے صحیح ہونے کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ خدا کو ناراض کرکے لوگوں کو راضی نہ کرے اور جو کچھ خدا نے اسے نہیں دیا اس پر لوگوں کو ملامت نہ کرے( انہیں اپنی محرومیوں کا ذمہ دار نہ ٹھہرائے) خدا نے اپنے عدل و انصاف کی بناء پر راحت و آرام ، یقین و رضا میں رکھا ہے ، اور غم و اندورکو شک اور راضی میں قرار دیا ہے “۔ !

ان تعبیرات اور دوسری تعبیروں سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جب انسان یقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے تو ایک خاص قسم کا سکون و آرام اس کے سارے دل و جان میں سرایت کرجاتا ہے ۔

لیکن اس کے باوجود یقین کے لیے کئی مراتب ہیں جن میں سرایت کرجاتا ہے ۔

لیکن اس کے باوجود یقین کے لیے کئی مراتب ہیں جن کی طرف اوپر والی آیات اور سورہ واقعہ کی آیہ ( انّ ھٰذا لھو حق الیقین ) میں اشار ہ ہوا ہے ، اور وہ تین مرحلہ ہیں ۔(۳)

۱ ۔ علم الیقین : یہ ہے کہ انسان مختلف دلائل سے کسی چیز پر ایمان لائے، اس شخص کے مانند جو دھوئیں کو دیکھ کر آگ کے ہونے پر ایمان لے آتا ہے ۔

۲ ۔ عین الیقین :اس مقام پر حاصل ہو تا ہے جب انسان مشاہدہ کے مرحلہ تک پہنچ جاتا ہے ، او راپنی آنکھ سے مثلاکسی آگ کو دیکھ لے۔

۳ ۔ حق الیقین : اور وہ اس شخص کے مانند ہے جو آگ میں داخل ہوجائے ، اور اس کے سوزش اور حرارت کو لمس کرے، اور یہ یقین کا بالاترین مرحلہ ہے ۔

محقق طوسی اپنی ایک گفتگو میں کہتے ہیں : ”یقین “ وہی پختہ، اور ثابت اعتقاد ہے ، جس کا زوال ممکن نہیں ہے اور حقیقت میں وہ دو علموں سے مرکب ہے ۔ ایک معلوم کے متعلق علم ، اور دوسرا یہ علم کہ اس علم کے خلاف محال ہے ، اور اس کے کئی مراتب ہیں ۔ ” علم الیقین “ و ” عین الیقین “ و ” حق الیقین “(۴)

حقیقت میں پہلا مرحلہ عمومی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا مرحلہ پر ہیز گار وں کے لیے ہے اور تیسرا مرحلہ خواص اور مقربین کے ساتھ مخصوص ہے ۔

اسی سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں صحابہ نے عرض کیا : ہم نے سنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعض اصحاب پانی پر چلتے تھے ؟!آپ نے فرمایا: ”لو کان یقینه اشد من ذالک لمشی علی الهواء

” اگر اس کا یقین اس سے زیادہ پختہ اس سے زیادہ اور محکم ہوتا تو وہ ہوا پر چلتا “ !

مرحوم ” علامہ طباطبائی“ اس حدیث کو ذکر نے کے بعد مزید کہتے ہیں : تمام چیزیں خدا وند سبحان پر یقین اور عالم تکوین کے اسباب کی تاثیرکے استقلال کو محو کرنے کے محور کے گرد گھومتی ہیں ، اس بناء پر انسان کا قدرت مطلقہ الٰہیہ پر اعتقاد و ایمان جتنا زیادہ ہوگا ، اشیاء عالم اسی نسبت سے اس کے سامنے مطیع و منقاد ہو جائیں گی۔(۵)

اور عالم ِ آفرینش میں یقین اور خارق العادت تصرف کے رابطہ کی یہی رمز ہے ۔

____________________

۱” بحا رالانوار “ جلد۷۰ ص ۱۳۸ حدیث۔

۲۔ ” بحا رالانوار “ جلد ۷۰ ص ۱۳۵ ۔ ۱۳۷۔

۳۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۰ ص ۱۴۳۔

۴۔ ” مطابق نقل بحار الانوار“ جلد ۷۰ ص ۱۴۳۔

۵۔ ” المیزان “ جلد ۶ ص ۲۰۰ ( سورہ مائدہ کی آیہ ۱۰۵ کے ذیل میں )

۳ ۔ سب لوگ دوزخ کا مشاہدہ کریں گے

” لترون الجحیم“ کے جملہ کی دو تفسیریں ہیں پہلی یہ کہ اس سے مراد آخرت میں دوزخ کا مشاہدہ کرنا ہے جو کفارکے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور یایہ تمام جن و انس کے لیے عام ہے ، کیونکہ قرآن کی بعض آیات کے مطابق سب کو ہی جہنم کے پاس سے گزرنا پڑے گا۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد اسی عالم دنیا میں شہود قلبی ہے ، اور اس صورت میں یہ جملہ قضیہ شرطیہ کا جواب ہے ، فرماتا ہے : ” اگر تم “ ” علم الیقین “ رکھتے ہوتے تو ” جہنم“ کو اسی عالم میں دل کی آنکھ سے مشاہدہ کرلیتے “ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بہشت و دوزخ اب بھی خلق شدہ موجود ہیں ، اور وجودِ خارجی رکھتی ہیں ۔

لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ پہلی تفسیر بعد والی آیات کے ساتھ ، جو روز قیامت کی بات کررہی ہیں ، زیادہ زیاہ مناسب ہے ، اس بناء پر یہ ایک قطعی اور غیر مشروط قضیہ ہے ۔

۴ ۔ قیامت میں کونسی نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا؟

اس سورہ کی آخری آیت میں آیا ہے کہ یقینی طور پر تم سب سے قیامت کے دن نعمتوں کے بارے میں با ز پرس ہو گی، بعض نے تو یہ کہاہے اس نعمت سے مراد” سلامتی“ ‘ اور ” فراغتِ خاطر‘ ‘ ہے ، اور بعض اسے ” تندرستی“ اور امن و امامن “ سمجھتے ہیں ، اور بعض نے تمام ہی نعمتوں کو اس آیت کا مشمول سمجھا ہے ۔

ایک حدیث میں امیر المو منین علی علیہ السلا م سے آیاہے : ”النعیم الرطب، و الماء البارد

” نعیم سے مراد تازہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی “۔

جب کہ ایک حدیث میں آیاہے کہ ” ابو حنیفہ“ نے ” امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے اس کے سوال کو اسی کی طرف پلٹا کر فرمایا: تیرے نظریہ کے مطابق نعیم سے مراد کیاہے “؟

اس نے عرض کیا : غذا ہے اور کھانا اور ٹھنڈا پانی ہے “۔ آپ نے فرمایا: اگرخدا قیامت کے دن تجھے اپنی بار گاہ میں اس لیے کھڑا کرے کہ وہ ہر اس لقمہ کا جو تونے کھایا ہے ، اور اور ہر اس گھونٹ کاجو تونے پیا ہے ، تجھ سے سوال کرے، پھر تو تجھے وہاں بہت زیادہ دیر تک ٹھہر نا پڑے گا“ ! اس نے عرض کیا : نعیم کیا ہے “؟

آپ نے فرمایا:” وہ ہم اہل بیت ہیں کہ خد انے ہمارے ہی ذریعے اپنے بندوں کو نعمت عطا کی ہے اور ان کے در میان اختلاف کے بعد الفت بخشی ہے ، ان کے دلوں کو ہماری وجہ سے آپس میں جوڑ دیا ہے اور انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنایا جبکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن تھے ۔ اور ہمارے ہی ذریعے انہیں اسلام کی طرف ہدایت کی ہے “۔۔۔۔۔ ہاں ! نعیم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے اہل بیت ہی ہیں “۔(۱)

ان روایات کی تفسیر ، جو ظاہراً مختلف ہیں ، جو تمام مواہب الٰہی کو ، چاہے وہ معنوی ہوں جیسے دین ، ایمان ، اسلام و قرآن اور ولایت یا انواع و اقسام کی انفرادی و اجتماعی نعمتیں ہوں ، ان سب کو شامل ہے ۔

البتہ جو نعمتیں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ، مثلاً نعمتِ ” ایمان و ولایت“ تو ان کے بارے میں زیادہ سوال ہوگا کہ ان کا حق ادا ہوا ہے یانہیں ؟ اور ظاہر اً وہ روایات جو اس آیت کے مادی نعمتوں کے شمول کی نفی کرتی ہیں وہ اس معنی میں ہیں کہ تمہیں اہم تر مصادیق کو چھوڑ کر بہت چھوٹے مصادیق کی طرف نہیں جانا چاہیئے۔ اور حقیقت میں یہ لوگوں کو خدئی ا نعمتوں اور مواہب کے مراتب کے سلسلے میں ایک تنبیہ ہے کہ ان کے لیے ان سے بہت سخت قسم کی باز پرس ہو گی ۔

اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ان نعمتوں کے بارے میں سوال نہ ہو حالانکہ یہ بہت ہی بڑے سر مائے ہیں جو نوع بشر کے اختیار میں دیے گئے ہیں ۔ اور انہیں ان میں سے ہر ایک کی بڑی باریکی کے ساتھ قدر دانی کرناچاہیئے اور ان کا شکر بجا لانا چاہئیے ۔ اور انہیں ان کے صحیح موارد میں صرف کرنا چاہئیے ۔

خدا وندا ! اپنی بے انتہا نعمتوں کو، خصوصاًایمان و ولایت کی نعمت کو ہمیشہ ہمیشہ ہم پر جاری رکھ۔

پر وردگارا ! ہمیں ان نعمتوں کے حق کی ادائیگی کی توفیق مرحمت فرما۔

بار لٰہا ! ہم پر ان عظیم نعمتوں میں اضافہ کرتا رہ ، اور انہیں ہر گز ہم سے سلب نہ کرنا۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱ ۔ ” مجمع البیان “ جلد ۱۰ ص ۵۳۵ ۔

سورہ و العصر

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ اس میں ۳ آیات ہیں ۔

سورہ و العصر کے مطالب

مشہور یہ ہے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا ہے اگر بعض نے مدنی ہونے کا احتمال بھی ظاہرکیاہے لیکن سورہ کی آیات کے چھوٹے چھوٹے مقاطع اور اس کا لب و لہجہ اس کے مکی ہو نے کا شاہد ہے ۔

بہرحال اس سورہ کی جامعیت اس حد تک ہے کہ بعض مفسرین کے قول کے مطابق قرآن کے تمام علوم و مقاصد کا خلاصہ اس سورہ میں موجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس سورہ نے مختصر ہونے کے باوجود انسا کی سعادت و خوش بختی کا ایک مکمل اور جامع پروگرام پیش کیا ہے ۔

سب سے پہلے عصرکی معنی خیز قسم سے شروع ہوتا ہے ، جس کی تفسیر عنقریب پیش کی جائے گی ، اس کے بعد تمام انسانوں کے زیاں کار اور خسارے میں ہونے کی گفتگو ہے جو تدریجی زندگی کی فطرت میں پوشیدہ ہے ۔ اسکے بعد صرف ایک گروہ کو اس اصل کلی سے جدا کرتا ہے ، جو ذیل کی چار خصوصیات والے پروگرام کے حامل ہیں :

۱ ۔ ایمان ۔ ۲ ۔ عمل صالح ۔ ۳ ۔ایک دوسر ے کے حق کی وصیت کے نے والے ۔

۴ ۔ ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرنے والے ، اور حقیقتاًیہ چار اصول اسلام کی اعتقادی و عملی ، اور انفرادی و اجتماعی پروگراموں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہیں ۔

اس سورہ کی فضیلت

اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں آیا ہے :

من قرأ“ و العصر “ فی نوافله بعثه الله یوم القیامة مشروفاً وجهه ضاحکاً سنّة قریرة عینه حتیٰ ید خل الجنة

” جو شخص سورہ ”و العصر“ کو نافلہ نمازوں میں پڑھے گا، خدا اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کا چہرہ نورانی ، لبخنداں ‘ اور اس کی آنکھ خدا کی نعمتوں سے روشن اورٹھنڈی ہوگی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ۱

اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گاکہ یہ سب اعزاز و افتخار اور سرور و شادمانی اس شخص کے لیے ہے ، جو اپنی زندگی میں ان چار اصولوں پر عمل کرے گا، نہ کہ صرف پڑھنے پر ہی قناعت کرے ۔

____________________

۱۔ ” تفسیر مجمع البیان “ جلد۱۰ ص ۵۴۵۔