تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65352
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65352 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،،

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( و العصر ) ۲ ۔( انّ الانسان لفی خسر ) ۔ ۳ ۔( الا الذین اٰمنوا و عملوا ال صالحاتِ و تو اصوبالحق و تواصوا بالصبر ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمن الرحیم

۱ ۔ قسم ہے عصر کی ۔ ۲ ۔ کہ سب انسان خسارے میں ہیں ۔ ۳ ۔ سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیئے ہیں ، ایک دوسرے کو حق کی وصیت و نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر و استقامت کی وصیت کی ۔

نجات کی صرف ایک راہ

اس سورہ کی ابتداء میں ہم ایک نئی قسم سے روبرو ہورہے ہیں ، فرماتا ہے : ” عصر کی قسم “( و العصر ) ۔

” عصر “ کا لفظ اصل میں نچوڑ نے کے معنی میں ہے ، اس کے بعد اس کا وقت عصر پر اطلاق ہونے لگا کیونکہ اس میں زلزلہ کے پروگراموں کو لپیٹ کر مختصر کردیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد یہ لفظ مطلق ” زمانہ “ اور تاریخ بشرکے دور یازمانے کے ایک حصہ ، جیسے ظہور اسلام اور پیغمبر اکرم کے قیام کے زمانے ، اور اسی قسم کے دوسرے زمانوں کے معنی میں استعمال ہواہے ، اسی لیے اس قسم کی تفسیر میں مفسرین نے بہت زیادہ احتمال دیے ہیں ۔

۱ ۔ بعض اس اسے اسی وقت ” عصر “ کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، اس قرینہ سے کہ قرآن کی بعض دوسری آیات میں دن کے آغاز کی قسم کھائی گئی ہے مثلاً: ”( والضحیٰ ) “( ضحیٰ آیہ ۱) یا ”( و الصبح اذااسفر ) “ ( مدثر۔ ۳۴)

یہ قسم اس اہمیت کی بناء پر ہے جو دن کے اس موقع کو حاصل ہے کیونکہ یہ وقت انسانوں کی حیات اور نظام زندگی کے خاتمے کا وقت ہوتا ہے ، دن کے کام اپنے انجام کو پہنچتے ہیں ، پرند و چرند اپنے اپنے آشیانوں اور ٹھکانوں کو لوٹتے ہیں ، سورج افق مغرب میں اپنا سر چھپالیتا ہے اور فضا بتدریج تاریک ہوتی چلی جاتی ہے ۔

یہ اختتام اور تغیر انسان کو خدا کی لایزال قدر ت کی طرف جو اس نظام پر حاکم ہے متوجہ کرتا ہے اور حقیقت میں یہ توحید کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور پروردگار کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے جو قسم کے لائق ہے ۔

۲ ۔بعض دوسروں نے اسے تمام زمانے اور تاریخ بشریت کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جو در سہا ئے عبرت، ہلادینے والے حوادث اور بیدار کرنے والے واقعات سے پر ہے ، اور اسی بناء پر ایسی عظمت رکھتا ہے کہ خدا کی قسم کے لائق ہے ۔

۳ ۔ اور بعض نے زمانہ کے ایک خاص حصہ کو ، جیسے پیغمبر اکرم کے قیام کا زمانہ یا مہدی علیہ السلام کے قیام کا زمانہ ، جو تاریخ بشر میں خصوصیت اور مخصوص عظمت کا حامل ہے ، مراد لیا ہے اورقسم کو اسی کے بارے میں سمجھے ہیں ۔ ۱

۴ ۔ اور بعض اس لفظ کے لغوی ریشہ اور جڑ بنیاد کی طرف بھی خصوصی توجہ دی ہے اور اس قسم کو ان مشکلات اور دشواریوں کے بارے میں سمجھتے ہیں جو انسانوں کی طویل زندگی میں رونما ہوتے ہیں ، انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں ، انہیں خدا ئے عظیم کی یاد دلاتے ہیں اور روحِ استقامت کی پرورش کرتے ہیں ۔

۵ ۔ بعض اسے کامل انسانوں کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں ، جو عالم ہستی اور جہانِ خلقت کا نچوڑ ہیں ۔

۶ ۔ اور آخر میں بعض اسے ” نماز عصر“ کے بارے میں سمجھتے ہیں ، اسی خصوصی اہمیت کی بناء پر جو اسے باقی نمازوں میں حاصل ہے کیونکہ وہ ” صلاة وسطی“ جس کے لیے قرآن میں خاص قسم کی تاکید کی گئی ہے نماز عصر کو سمجھتے ہیں ۔

اگر چہ اوپر والی تفاسیر آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں ، اور ممکن ہے کہ وہ سب ہی آیت کے معنی میں جمع ہوں ، اور ان تمام اہم امور کی قسم کھائی ہو ، لیکن ان سب میں ، سب سے زیادہ مناسب ، عصر کو زمانہ اور تاریخ بشرکے معنی لینا ہی نظر آتا ہے ۔

کیونکہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ قرآن کی قسمیں ہمیشہ اس مطلب کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے اور مسلمہ طور سے انسانوں کی زندگی میں زیان و خسارہ ان کی عمر کے زمانے کے گزرنے کا نتیجہ ہے ، یا پیغمبر خاتم کے قیام کا زمانہ ، کیونکہ اس سورہ میں بیان کیے گئے چار اصولوں کا پروگرام اسی زمانہ میں نازل ہوا ہے ۔

جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے آیاتِ قرآنی کی عظمت اور اس کے مفاہیم کی وسعت اچھی طرح سے واضح ہو گئی ہے کہ ان میں سے ایک ہی لفظ کس حد تک پر معنی اور عمیق و گوناگوں تفاسیر کے لائق ہے ۔

بعد والی آیت میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے جس کے لیے یہ اہم قسم کھائی گئی ہے ، فرماتا ہے :” یقینی طور پر تمام انسان خسارے میں ہیں “( انّ الانسان لفی خسر ) ۔

وہ اپنے وجودی سرمائے کو، خواہ چاہیں یانہ چاہیں ، کھوبیٹھے ہیں ، عمر کی گھڑیاں ، دن ، مہینے اور سال تیزی کے ساتھ گزرتے چلے جاتے ہیں ، معنوی اور مادی قوتیں تحلیل ہوجاتی ہیں اور طاقت و قدرت گھٹتی چلی جاتی ہیں ۔

ہاں ! انسان اس شخص کے مانند ہے جس کے پاس عظیم سرمایہ ہو اور اس کی مرضی اور خواہش کے بغیر اس سرمایہ کا ایک حصہ ہر روز اس سے لے لیتے ہوں ۔ یہ دنیا کی زندگی معین کا مزاج ہے ، ہمیشہ کم ہوتے چلے جانے والا مزاج، ایک دل میں حرکت کرنے کی ایک میں استعداد ہوتی ہے اور جب وہ استعداد اور طاقت ختم ہ وجاتی ہے تو دل خود بخود رک جاتا ہے ، حالانکہ اس میں کوئی عجیب ، بیماری یا علت نہیں ہوتی ، اور یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کہ وہ کسی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی فیل نہ ہو جائے۔ انسانی وجود کے باقی کار خانوں ، اور ا س کی مختلف استعدادوں کے سر مایوں کا بھی یہی حال ہے ۔

” خسر“ ( بر وزن عسر) اور خسران “‘ جیسا کہ ” راغب “ مفردات“ میں کہتا ہے : سرمایہ کے کم ہونے کے معنی میں ہے ۔

کبھی تو اس کی انسان کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی کو نقصان ہو گیا ، اور بعض اوقات خود عمل کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اس کی تجارت میں نقصان ہو گیا ۔ یہ لفظ عام طور پر خارجی سر مایوں مثلاً مال و مقام کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور بعض اوقات اندرونی سر مایوں ، مثلاً صحت و سلامتی ، عقل و ایمان اور ثواب کے لیے استعمال ہوتا ہے ، اور یہ وہی چیز ہے جسے خدا وندعالم نے ” خسران مبین“ (واضح خسارہ) کے عنوان سے ذکر کیا ہے ، جیساکہ فرماتاہے :ان الخاسرین الذین خسروا انفسهم و اهلیهم یوم القیامة الاذالک هوالخسران المبین “واقعی زیاں کار لوگ تو وہ ہیں جو قیامت میں اپنے وجود اور اپنے گھروالوں کے وجود کا سرمایہ ہاتھ سے دے بیٹھیں گے۔ جان لو کہ خسران مبین ( واضح خسارہ) یہی ہے۔ ( زمر۔ ۱۵) ۔(۲)

فخر رازی اس آیات کی تفسیر میں ایک بات نقل کرتاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ بزرگوں میں سے ایک کہتے ہیں کہ اس سورہ کا معنی میں نے ایک برف پوش شخص سے سیکھا ہے جو پکار پکار کر کہہ رہا تھا: ار حموا من یذوب رأس مالہ ارحموا من یذوب رأس مالہ!: اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ پگھلا جا رہا ہے ، اس شخص پر رحم کرو جس کی پونجی پگھل رہی ہے ۔ میں نے اپنے آپ سے یہ کہا ہے معنی ان الانسان لفی خسرکا:اس پر زمانہ گزرتا چلا جا تا ہے اور اسی عمر ختم ہو جاتی ہے ، اور وہ کوئی ثواب حاصل نہیں کرتا ، اور وہ اس حال میں خسارے میں ہے ۔(۳)

بہر حال اسلام کی جہان بینی کے لحاظ سے دنیا ایک بازار، تجارت ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں امام ہادی علی بن محمد التقی علیہ السلام سے آیا ہے :

الدنیا سوق ربح فیها قوم و خسرا ٰخرون

” دنیا ایک بازار ہے جس میں ایک گروہ نے نفع کمایا اور دوسری جماعت خسارے میں رہی“۔(۴)

زیر بحث آیت کہتی ہے کہ اس عظیم بازار میں سبھی لوگ خسارے میں رہتے ہیں ، سوائے ایک گروہ کے جس کا پروگرام بعد والی آیت میں بیان ہوا ہے ۔

ہاں اس عظیم خسارے اور قہری اور جبری نقصان سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے ، صرف ایک ہی راہ ہے جس کی طرف اس سورہ کی آخری آیت میں اشارہ ہوا ہے ، فرماتا ہے : ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اعمال صالح انجام دیے ہیں ، اور ایک دوسرے کو حق کی وصیت اور صبر و استقامت کی نصیحت کرتے ہیں “( الا الذین اٰمنوا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحق و تواصوا ابالصبر ) ۔

دوسرے لفظوں میں جو چیز اس عظیم نقصان کو روک سکتی ہے اور اسے عظیم نفع میں تبدیل کرسکتی ہے ، یہ ہے کہ اس سرمائے کو ہاتھ سے روک دینے کے مقابلہ میں زیادہ گراں بہا اور قیمتی سرمایہ حاصل کرے، جس سے نہ صرف اس سرمایہ کی خالی جگہ پر ہو گی بلکہ اس سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا زیادہ اور بہتر ہوجائے گی ۔

ہر سانس جو انسان لیتا ہے اس سے موت کے زیادہ قریب ہو جاتا ہے ، جیسا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام اپنی اس نورانی عبارت میں فرماتے ہیں : ” نفس المرء خطاہ الیٰ اجلہ“ ” انسان کا سانس موت کی طرف اس کا ایک قدم ہے “ ۵

اس بناء پر انسان کے دل کی ہر حرکت اسے اختتام عمر سے ایک قدم اور زیادہ نزدیک کردیتی ہے۔ اس طرح سے اس قطعی نقصان کے مقابلہ میں کوئی ایسا کام کرنا چاہئیے جس سے خالی جگہ پر ہوجائے۔

ایک گروہ عمر اور زندگی کا نفیس سرمایہ ہاتھ سے دے دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں تھوڑا یا زیادہ مال ، معمولی گھر یا خوبصورت محل فراہم کرلیتا ہے ۔

ایک گروہ اس تمام سرمائے کو ، مقام و منصب تک پہچنے کے لیے ضائع کردیتا ہے ۔

اور کچھ لوگ اسے عیش و نوش اور جلدی گزرجانے والی لذتوں میں صرف کردیتے ہیں ۔

مسلمہ طور سے ان میں سے کوئی سی چیز بھی اس عظیم سر مایہ کی قیمت نہیں ہوسکتی ، اس کی قیمت صرف اور صرف خدا کی رضا اور اس مقام کاقرب ہے ۔

یا جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایاہے :

انه لیس لانفسکم ثمن الاالجنة فلاتبیعوها الا بها

”تمہار ے وجود کی قیمت جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کو اس سے کمتر کسی چیز کے بدلے میں بیچ دو“ ۶

یاجیسا کہ ماہ رجب کی دعا میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیاہے :

خاب الوافدون علی غیرک و خسر المتعرضون الالک

جو تیرے غیر کے پاس جائیں گے وہ مایوس ہو جائیں گے اور تیرے سوا دوسروں کی طرف رجوع کرنے والے خسارے میں رہیں گے ۔

اور قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ” یوم التغابن“ بلا وجہ نہیں ہے جیسا کہ سورہ تغابن کی آیہ ۹ میں آیاہے :” ذالک یوم التغابن“اس دن پتہ چل جائے کہ گھاٹے میں کون لوگ ہیں “۔

حسن مطلب اور لطف مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف تو انسانی وجود کے سر مایوں کا خرید ار خدا وندِ عظیم ہے :”( ان الله اشتری من المومنین ) “‘ ( توبہ۔ ۱۱۱)

دوسری طرف وہ تھوڑے سے سرمایوں کو بھی خرید لیتا ہے :( فمن یعمل مثقال ذرة خیراً یره ) ( زلزال ۔ ۷)

اور تیسری طرف اس کے مقابلہ میں وہ بہت زیادہ قیمت لگاتا ہے ۔ کبھی دس گناہ کبھی سات سو گنا اور کبھی اس سے بھی زیادہ ۔ ” فی کل سنبلة مائة حبة و اللہ یضاعف لمن یشاء“ ( بقرہ۔ ۲۶۱)

اور جیسا کہ دعا میں وارد ہوا ہے ، یا من یقبل الیسیر و یعفو عن الکثیر:” اے وہ خدا جو تھوڑے سے حسنات اور نیکیوں کو بھی قبول کرلیتا ہے اور بہت زیادہ گناہوں کو بخش دیتا ہے “۔

اور چوتھی طرف سے ، باوجود اس کے کہ یہ تمام سرمائے خود اسی انسان کو دیے جاتے ہیں ، وہ اس قدر بزرگوار ہے کہ پلٹ کر انہیں کو زیادہ گراں قیمت پر خرید لیتا ہے ۔

____________________

۱۔ ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ و العصر ان الانسان لفی خسر کی تفسیر میں فرمایا: العصر عصر خروج القائم عصر سے مراد حضرت مہدی ( سلام اللہ علیہ ) کے قیام کا زمانہ ہے ۔ ( نور الثقلین جلد ۵۔ ۶۶۶ حدیث ۵)

۲۔ ” مفرداتِ راغب“ مادہ ”خسر“

۳۔ ” تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص۸۵۔

۴۔ ’ تحف العقول “ ص ۳۶۱( کلمات امام ہادی علیہ السلام )

۵۔ ” نہج البلاغہ“ کلمات قصار جملہ ۷۴۔

۶۔ ” نہج البلاغہ“ کلمات قصار جملہ ۴۵۶۔

خوش بختی کا چار نکاتی پروگرام

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے اس عظیم خسارت کے لیے ایک جامع پروگرام پیش کیا ہے ، جس میں چار اصولوں پرتکیہ ہوا ہے ۔

پہلی اصل: اس پروگرام میں مسئلہ ” ایمان “ ہے جو انسان کی تمام کارکردگیوں کی بنیاد ہے ، کیونکہ انسان کی عملی جد و جہد اس کی فکری و اعتقادی بنیادوں سے سر چشمہ حاصل کرتی ہے ۔ وہ حیوانات کے افعال کی طرح نہیں ہوتیں جن کی حرکات فطری و طبعی اسباب کی بناء پر ہوتی ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں انسان کے اعمال اس کے عقائد و افکار کی ایک مجسم صورت ہوتے ہیں ، اور اسی بناء پر خدا کے تمام انبیاء ہر چیز سے پہلے امتوں کی اعتقادی بنیادوں کی اصلاح کیا کرتے تھے ۔ اور وہ خصوصیت کے ساتھ شرک سے جو انواع و اقسام کے رذائیل ، بد بختیوں اور پراگندگیوں کا سر چشمہ ہے مبارزہ کرتے تھے۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ” ایمان “ یہاں مطلق طور پر ذکر ہوا ہے تاکہ ایمان کے تمام کے تمام پہلوو ں کو شامل کیا جائے یعنی خدا اور اس کی صفات پر ایمان سے لے کر قیامت و حساب و کتاب ، جزا و سزا ، کتب آسمانی ، خدا کے انبیاء اور ان کے اوصیا ء کے ایمان تک ۔

دوسری اصل : میں ایمان کے بار آور اور پر ثمر درخت کے پھل اور نتیجہ کو پیش کرتے ہوئے ”اعمال صالح“ کی بات کرتا ے ۔ کیسی وسیع اور مطالب سے پر تعبیر ہے ، ہاں !” صالحات“ وہی سار ے کے سارے شائستہ اعمال ، نہ صرف عبادات ، نہ صرف انفاق فی سبیل اللہ ، نہ صرف راہِ خدا میں جہاد، نہ صرف علم و دانش کا حصول ، بلکہ ہر وہ شائستہ کام جو تمام میدانوں میں نفوس کے تکامل و ارتقاء ، اخلاق کی پرورش ، قرب الیٰ اللہ اور انسانی معاشرے کی پیش رفت کا وسیلہ ہو۔

یہ تعبیر چھوٹے سے چھوٹے کاموں سے لے کر ۔ جیسے لوگوں کے راستہ سے ایک رکاوٹ ڈالنے والے پتھر کو ہٹا نا ۔ کروڑوں انسانوں کو گمراہی و ضلالت سے نجات دلانے اور دین حق و عدالت کی سارے جہان میں نشرو اشاعت کرنے تک کو شامل ہے ۔

اور اگر ایک حدیث میں ” اعمال صالح“ کی امام جعفر صادق علیہ السلام ، ” مواسات اور دینی بھائیوں سے مساوات کرنے “ سے تفسیر ہوئی ہے ، تو وہ واضح و روشن مصداق کے قبیل سے ہے ۔

ممکن ہے بعض اوقات اعمال صالح بعض غیر مومن انسانوں سے بھی سر زد ہوں ، لیکن مسلمہ طور پر وہ مضبوط و پائیدار اور وسعت رکھنے والے نہیں ہوتے، کیونکہ وہ خدا ئی عمیق اور گہرے اسباب سے سر چشمہ حاصل نہیں کرتے۔ لہٰذا ان میں جامعیت نہیں ہوتی۔

قرآن نے یہاں ” صالحات“ کو خصوصیت کے ساتھ جمع کی صورت میں بیان کیا ہے ، ایسی جمع ہو جو ” الف و لام“کے ساتھ ہے ، اور عموم کے معنی رکھتی ہے ۔ اور یہ اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ ایمان کے بعد اس طبعی و قہری خسارے سے روکنے والا راستہ تمام اعمال صالح کو انجام دیتا ہے نہ صرف ایک یاچند اعمال صالح پر قناعت کرنا، اور واقعاً اگر ایمان عمیق اور گہرے طور پر انسان کے دل میں جاگزیں ہو جائے تو وہ ایسے ہی آثار ظاہر کیا کرتا ہے ۔

ایمان کوئی فکر اور اعتقاد نہیں ہوتا ، جو روح کے گوشوں میں تو موجود ہو لیکن اس میں کسی قسم کی تاثیر موجود نہ ہو ۔ ایمان تو انسان کے سارے وجود کو اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے ۔

ایمان اس پر نور چراغ کے مانند ہے جو کسی کمرے کے اندر روشن ہے ، جو نہ صرف اس کمرے کی فضا کو روشن کرتا ہے بلکہ اس کی روشنی اس کمرے کے تمام دریچوں سے باہر نکلتی ہے اور جو شخص اس کے باہرسے گزرے وہ اچھی طرح سے سمجھ لیتا ہے کہ اس میں ایک پر نور چراغ روشن ہے ۔

اسی طرح سے جب ایمان کا چراغ انسان کے دل کی سرائے میں روشن ہوتا ہے تو اس کا نور انسان کی زبان ، آنکھ ، کان اور ہاتھ پاو ں سے منعکس ہوتا ہے ، ان میں سے ہر ایک کی حرکت بتاتی ہےں کہ دل میں ایک نور موجودہے جس کی شعاعیں با ہر نکل رہی ہیں ۔

اسی بناء پر قرآن کی آیات میں عام طور پر ” عمل صالح“ ” ایمان “کے ساتھ ” لازم و ملزوم “ کے عنوان سے آیا ہے ۔

سورہ نحل کی آیہ ۹۷ میں آیاہے :( من عمل صالحاً من ذکر او انثیٰ وهو مو من فلنحیینه حیٰوة طیبة ) “جو بھی عمل صالح انجام دے ، مردہو یا عورت، لیکن ہوہ صاحبِ ایمان ، تو ہم اسے پاکیزہ حیات کے ساتھ زندہ کریں گے ۔

اور سورہ مومنون کی آیہ ۹۹ ۔ ۱۰۰ میں آیا ہے ، اس عالم سے جدائی کے بعد بدکاروں کو اس بات پر افسوس ہو گا کہ انہوں نے اعمال صالح کیوں انجام نہیں دیے ۔ لہٰذا بہت ہی زیادہ امداد کے ساتھ عملِ صالح کو انجام دینے کے لئے باز گشت کا تقاضا کریں گے:( رب ارجعون لعلی اعمل صالحاً فیماترکت ) “ اور سورہ مومنون کی آیہ ۵۱ میں آیاہے کہ خدا اپنے رسولوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ ” پاک و پاکیزہ چیزیں کھاو اور عمل صالح بجالاو ”( یاایها الرسول کلوا من الطیبات و اعملوا صالحاً )

اور چونکہ ایمان و عمل ِ صالح سوائے اس صورت کے ہرگز جاری نہیں رہتے کہ ایک طرف تو معاشرے میں حق کی طرف دعوت اور اس کی معرفت کے لیے کام کیاجائے اور دوسری طرف سے اس دعوت کی انجام دہی کی راہ میں صبر و استقامت کی دعوت ہو، اس لیے ان دونوں اصولوں کے بعد دوسرے اصولوں کی طرف اشارہ فرماتا ہے ، جو حقیقت میں دو بنیادی اصولوں ” ایمان “اور ” عملِ صالح“ کے اجراء کے ضامن ہیں ۔

تیسری فصل : میں ” تواصی بہ حق “ کے مسئلہ یعنی حق کی طرف سب کو عمومی دعوت دینے کی طرف اشارہ کرتا ہے تاکہ سب لوگ حق کو باطل سے اچھی طرح پہچان لیں اور ہر گز اسے فراموش نہ کریں اور زندگی کی راہ میں اس سے منحرف نہ ہوں ۔

” تواصوا“ ” توا صی “ کے مادہ سے ، جیسا کہ ” راغب“ نے ” مفردات“ میں بیان کیا ہے ، اس معنی میں ہے کہ بعض افراد دوسرے بعض افراد کو نصیحت کریں ۔

اور ”حق “ ” واقعیت“ یا واقعیت سے مطابقت کے معنی میں ہے ۔ کتاب” وجوہ قرآن“ میں قرآن مجید میں اس لفظ کے بارہ معانی اور موارد استعمال ذکر ہوائے ہیں ، مثلاً خدا، قرآن، اسلام ، توحید، عدل ، آشکارہونا، اورواجب ہوناوغیرہ، لیکن وہ سب ہی اسی ریشہ اور جڑ کی طرف لوٹتے ہیں جو ہم نے اوپر بیان کی ہے ۔

بہر حال ”( تواصوا بالحق ) “کا جملہ بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے ، جو امر بہ معروف اور نہی از منکر کو بھی شامل ہے ، اور جاہل کو تعلیم دینے اور اس کو ہدایت کرنے ، غافل کو تنبیہ کرنے ، شوق دلانے اور ایمان و عمل صالح کی تبلیغ کرنے کو بھی ۔

یہ بات ظاہر و واضح ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرتے ہیں انہیں خود بھی حق کا طرفدار اور اس کا عامل ہونا چاہئیے۔

چوتھی اصل : میں ” صبر “ و استقامت اور اس کی نصیحت و وصیت کرنے کا مسئلہ پیش ہوا ہے ، کیونکہ معرفت اور ٓگاہی کے بعد ہر شخص عمل کی راہ میں ہر قدم پر موانع سے روبرو ہوتا ہے ۔ اگر استقامت اور صبر نہ ہوتو وہ ہرگز احقاقِ حق نہیں کرسکتااور کوئی عمل صالح انجام نہیں دے سکتا ، یا اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔

ہاں ! احقاقِ حق ، اور اجراء حق اور معاشرے میں حق کی ادائیگی، ایک عمومی فعالیت اور پختہ و عظیم استقامت یعنی موانع کے مقابلہ میں ڈٹ جانے کے سوا ممکن نہیں ہے ۔

” صبر“ بھی یہاں ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو اطاعت پر صبر کرنے کو بھی شامل ہے ، گناہ پر ابھارنے والی چیزوں پر صبر کرنے ، اور مصائب اور ناگوار حوادث پر صبر کرنے اور توانائیوں ، سر مایوں اور ثمرات کو کھو بیٹھنے کے مقابلہ میں صبر کرنے کو بھی۔ ۱

ان چار اصولوں کے بارے میں جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے اور جو حقیقت میں انسانوں کی زندگی اور سعادت کاجامع ترین پروگرام ہے اس کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہو جاتاہے کہ روایات میں یہ کیوں آیا ہے کہ ” جنب اصحابِ پیغمبر ایک دوسرے کے پاس جاتے تھے ، تو ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے سورہ ” و العصر“ کی تلاوت کیا کرتے تھے، اور اس چھوٹی سی سورت کے عظیم مطالب کو بیان کیا کرتے تھے اور پھر ایک دوسرے کو خدا حافظ کہتے ہو ئے اپنے اپنے کاموں میں لگ جاتے تھے۔ ۲

اور حقیقتاً اگر مسلمان آج بھی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ان چار اصولوں پر عمل پیراہو جائیں ، اور دنیا جہاں کے شریروں کے شر ان سے منقطع ہو جائیں ۔

خدا وندا ! ہمیں صبر و استقامت اور حق و صبر کی ایک دوسرے کو وصیت کرنے کی توفیق مرحمت فرما۔

پروردگارا ! ہم سب خسارے میں ہیں اورا س خسارے کی تلافی تیرے لطف و کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

بار الٰہا ! ہم چاروں احکام پر ، جو تونے اس سورہ میں دیے ہیں ، عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو ہمیں اس کی توفیق عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ہم نے ” صبر کی حقیقت اور اس کے مراحل اور شعبوں کے بارے میں جلد اول میں سورہ بقرہ کی آیہ۱۵۳ کے ذیل میں مفصل بحث کی ہے ۔

۲۔ ” در المنثور“ جلد ص ۳۹۲۔

سورہ ھمزة

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ اس میں ۹ آیات ہیں ۔

سورہ ھمزہ کے مطالب اور فضیلت

یہ سورہ جو مکہ سورتوں میں سے ہے ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو کررہا ہے جو مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور ان کے نزدیک انسانی وجود کی تمام اقدار کا خلاصہ یہی ہے پھر وہ ان لوگوں کو جن کے ہاتھ اس سے خالی ہوتے ہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔

یہ مغرور دولت جمع کرنے والے اور خود پسند حیلہ گر ، بادہ کبر و نخوت سے ایسے مست ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کی تحقیر، عیب جوئی، استہزاء اور غیبت کرنے سے لذت اٹھاتے ہیں اور اس سے تفریح کرتے ہیں ۔

اور سورہ کے آخر میں ان کی دردناک سر نوشت کی بات کرتا ہے کہ وہ کیسی حقارت آمیز صورت میں دوزخ میں پھینکے جائیں گے ، اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہر چیز سے پہلے ان کے دل پرمسلط ہو جائے گی، اور ان کی روح و جان کو ، جو اس سارے کبر و نخوت اور ان سب شرارتوں کا مرکز تھا، آگ میں ڈال دی اجائے گا، بھڑکتی ہوئی دوامی اور طولانی آگ ۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیا ہے :

من قرأ سورة الهمزة اعطی من الاجر عشر حسنات بعددمن استهزأ بمحمد ( ص) و اصحابه “:

” جو شخص اس سورہ کی تلاوت کرے گااسے ان لوگوں کی تعداد سے ، جنہوں نے محمد اور ان کے اصحاب کا مذاق اڑا یا تھا ، دس گناہ حسنات دیے جائیں گے“۔(۱)

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے : ” جو شخص اس کو واجب نمازمیں پڑھے گا ، تو اس سے فقر و فاقہ دور ہوجائے گا، اور روزی اس کا رخ کرے گی اور قبیح اور بری موت اس سے دور ہو جائے گی“۔(۲)

____________________

۱۔ ” مجمع البیان “ جلد ص ۵۳۶۔۲۔ ” مجمع البیان “ جلد ص ۵۳۶۔