تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65357
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65357 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷،۸،۹

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( ویل لکل همزة لمزة ) ۔ ۲ ۔( الذی جمع مالاو عدده ) ۔ ۳ ۔( یحسب انّ ماله اخلده ) ۔

۴ ۔( کلّا لیُنبذنّ فی الحطمةِ ) ۔ ۵ ۔( وما ادراک ما الحطمة ) ۔ ۶ ۔( نار الله الموقدةُ ) ۔

۷ ۔( التی تطّع علی الافئِدة ) ۔ ۸ ۔( انّها علیهم مو صدة ) ۔ ۹ ۔( فی عمدٍ مُمَدّدةٍ ) ۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے

۱ ۔ ہر عیب جو اور تمسخر کرنے والے کے لیے وائے ہے ۔ ۲ ۔ وہی جو مال کو جمع کر کے گنتا رہا، ( جائز و ناجائز کا حساب کیے بغیر)

۳ ۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے اموال اس کے دوام کا سبب بن جائیں گے۔

۴ ۔ جیسا کہ وہ خیال کرتا ہے ایسانہیں ہے ، عنقریب اسے حطمہ( ریزہ ریزہ کرنے والی آگ) میں پھینک دیاجائے گا۔

۵ ۔ اور تو کیا جانے کہ حطمہ کیا ہے ؟ ۶ ۔ خد اکی بھڑکتی ہوئی آگ۔ ۷ ۔ ایسی آگ جو دلوں سے نکلتی ہے ۔

۸ ۔ یہ آگ ان کے اوپر دربستہ صورت میں ہے ۔ ۹ ۔ کشیدہ اور طولانی ستونوں میں ۔

شان نزول

مفسرین کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ اس سورہ کی آیات ” ولید بن مغیرہ“ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پس پشت تو آپ کی غیبت کیا کرتا تھا اور آپ کے سامنے طعن و تشنیع اور استہزاء کیا کرتا تھا۔

اور بعض دوسرے مفسرین نے اسے رو سائے شرک اور اسلام کے جانے پہچانے دوسرے کینہ ور لوگوں مثلا: ” اخنس بن شریق“ و” امیہ بن خلف“ و ” عاص بن وائل“ کے بارے میں سمجھا ہے ۔

لیکن ہم ان شان ہائے نزول کو قبول بھی کرلیں تو بھی آیات کے مفہوم کی عمومیت ختم نہیں ہوتی، بلکہ وہ ان تمام کو شامل ہے جو ان صفات کے حامل ہیں ۔

عیب جوئی اور غیبت کرنے والوں کے لیے وائے ہے ۔

یہ سورہ ایک چھبنے والی تہدید کے ساتھ شروع ہوتا ہے ، فرماتا ہے : ؛” ہر عیب جو اور تمسخراڑانے والے کے لئے وائے ہے “( ویل لکل همزة لمزة ) ۔

وہ لوگ جو زبان کے ڈنگ، ہاتھ اور پاو ں کی حر کات اور چشم و ابرو کے اشاروں سے ، پیٹھ پیچھے اور روبرو دوسروں کا مذاق اڑاتے ہیں ، یاان کی عیب جوئی اور غیبت کرتے ہیں ، یا انہیں طعن و تشنیع اور تہمت کے تیروں کا ہدف بناتے ہیں ۔”ھمزة“ و” لمزة “ دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں(۱)

پہلا ” ھمز“ کے مادہ سے اصل میں ” توڑنے “ کے معنی میں ہے ۔ اور چونکہ عیب جو اور غیبت کرنے والے دوسروں کی شخصیت کو توڑتے ہیں اس لیے ان پر” ھمزہ“ کا اطلاق ہو تا ہے ۔

اور ”لمزة“ ” لمز“ ( بر وزن رمز) کے مادہ سے اصل میں غیبت کرنے اور عیب جوئی کرنے کے معنی میں ہے ۔

اس بارے میں کہ کیا یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں ہیں اور غیبت کرنے والوں اور عیب جوئی کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، یاان دونوں کے درمیان کوئی فرق ہے ؟ مفسرین نے بہت سے احتمال دیے ہیں ، بعض نے انہیں ایک ہی معنی میں لیا ہے اوراس بناء پر ان دونوں کا اکٹھا ذکرتاکید کے لیے ہے ۔

لیکن بعض نے یہ کہا ہے کہ ”ھمزہ“غیبت کرنے والے کے معنی میں ہے اور”لمزہ“ عیب جوئی کرنے کے معنی میں ہے ۔

بعض دوسروں نے ” ھمزہ“ ان اشخاص کے معنی میں سمجھا ہے جو ہاتھ اور سر کے اشارہ سے عیب جوئی کرتے ہیں اور ” لمزہ“ ان اشخاص کے معنی میں جو زبان سے یہ کام انجام دیتے ہیں ۔

اور بعض نے ” پہلے “ کو روبرو عیب جوئی کرنے اور ”دوسرے“ کو پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنے کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔

اور بعض نے پہلے کو آشکار ا عیب جوئی اور دوسرے کو پنہاں اور آنکھ اور آبرو کے اشارہ سے عیب جوئی کے معنی میں سمجھا ہے ۔

اور بعض اوقات یہ کہا گیا ہے کہ یہ دونوں ہی اس شخص کے معنی میں ہیں جو لوگوں کو برے اور چبھنے والے القاب سے یاد کرتا ہے ۔

اور آخر میں ” ابن عباس (رض) “کی ایک روایت میں آیاہے کہ وہ ان دونوں کی تفسیر میں اس طرح کہاکرتے تھے:

هم المشاو ون بالنمیمة، المفرقون بین الاحبة، الناعتون للناس بالعیب “۔

” یہ وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں اور لوگوں میں عیب نکالتے ہیں “۔(۲)

گویا ابن عباس (رض) نے اس بات کا اس حدیث سے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے استفادہ کیا ہے ، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :

” الاانبئکم بشرار کم؟ قالوا : بلی یا رسول الله ( ص) قال: المشاو ون بالنمیمة، المفرقون بین الاحبة ، الباغون للبرآء المعایب

” کیا میں تمہیں شریر ترین افراد کی خبر نہ دوں ؟ انہوں نے کہا : ہاں اے رسول ِ خدا ( ) فرمایا: وہ لوگ جو بہت زیادہ چغل خوری کرتے ہیں ، دوستوں کے درمیان جدائی ڈالٹے ہیں اور پاکیزہ و بے گناہ افراد کے عیوب کی جستجو میں رہتے ہیں ۔(۳)

لیکن ارباب لغت کے کلمات کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ ایک ہی معنی میں ہیں اور ایک وسیع معنی رکھتے ہیں ، جو ہر قسم کی عیب جوئی ، غیبت، طعن و تشنیع اور علائم و اشبات اور زبان کے ذیعے ٹھٹھ کرنے اور مذاق اڑانے اور چغل خوری اور بد گوئی شامل ہے ۔

بہر حال اس گروہ کے بارے میں ” ویل “ کی تعبیر ایک تہدید شدید ہے ۔ اور اصولی طور پر آیات قرآنی نے اس قسم کے افراد کے لیے سخت تنقید اور اعتراض کیا ہے اور ان کے لیے ایسی تعبیریں استعمال کی ہیں کہ ان جیسی کسی بھی گناہ کے لیے نظر نہیں آتیں ۔ مثلاً جب کور دل منافقین کو مومنین کامذاق اڑانے کی بناء پر عذاب الیم کی تہدید کرتا ہے تو فرماتا ہے :استغفرالهم اولاً تستغفرلهم ان تستغفر لهم سبعین مرة فلن یغفر الله لهم : تو ان کے لیے استغفار کر اور چاہے نہ کر، اگر ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا تو بھی خدا انہیں نہیں بخشے گا“۔ (توبہ ۔ ۸۰)

اسی معنی کے مشابہ ، ان منافقین کے بارے میں ، جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا استہزاء کرتے اور ،مذاق اڑاتے تھے، سورہ منافقین کی آیہ ۵ میں آیاہے ۔

اصولی طور پر اسلام کی نظر میں اشخاص کی عزت اور حیثیت بہت ہی محترم ہے ۔ اور ہر وہ کام جو لوگوں کی تحقیر و تذلیل کا سبب ہو بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے آیاہے : ”اذل الناس من اهان الناس “ :” لوگوں میں سب سے زیادہ ذلیل شخص وہ ہے جو لوگوں کی توہین و تذلیل کرے“۔(۴)

ہم نے اس سلسلہ میں سورہ حجرات کی آیہ ۱۱ ، ۱۲ کے ذیل میں ( جلد ۱۲ ص ۴۵۸ پر) زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کے بعد اس قبیح عمل ( عیب جوئی و استہزاء ) کے سر چشمہ کو ( جو عام طور پر مال و دولت سے پیدا ہونے کبر و غرور کے سبب سے ہوتا ہے ) پیش کرتے ہوئے مزید کہتا ہے : ” وہی شخص جو مال کو جمع کر کے گنتا رہا ، ( حلال و حرام کا خیال رکھے بغیر)( الذی جمع مالاو عد ده ) ۔

اسے مال و دولت کے ساتھ اتنی محبت ہے ، کہ وہ ہمیشہ انہیں گنتا رہتا ہے اور درہم و دینار کی چمک اور دوسری قسم کے سکوں سے لذت حاصل کرتا ہے ، اور خوش ہوتا ہے ہر درہم و دینار اس کے لیے ایک بت ہے ، وہ نہ صرف اپنی شخصیت بلکہ تمام شخصیتوں کو انہیں میں منحصر سمجھتا ہے اور یہ ایک طبیعی وفطری امر ہے کہ اس قسم کا گمراہ اور دیوانہ و احمق فقیر و نادار اور مومنین کا ہمیشہ مذاق اڑایا کرتا ہے ۔

” عددہ“ اصل میں ” عد“ کے مادہ سے اسے شمار کرنے اور گننے کے معنی میں ہے ۔ بعض نے یہ احتمال بھی دیا ہے کہ یہ ”عدہ “(بروزن عذہ)کے مادہ سے ہے جو ان اموال کو آمادہ کرنے اور مشکلات اور برے دن کے لیے ذخیرہ کرنے کے معنی میں ہے ۔

اور بعض نے اس کی تفسیر روک رکھنے اور بچانے کے ساتھ بھی کی ہے ۔

لیکن پہلا معنی سب سے زیادہ منا سب ہے ۔

بہر حال یہ آیت ان مال جمع کرنے والوں کے بارے میں ہے جو مال کو ایک وسیلہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک ہدف اور مقصد کے طور پر دیکھتے ہیں اور ا س کے جمع کرنے میں کسی قسم کی قید و شرط نہیں ہیں ۔وہ اسے حلال و حرام اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز کر کے ،شریفانہ طر یقہ سے ،یا پست و رذیلا طریقہ سے ،جمع کرتے ہیں ۔اور صرف اسی کو عظمت و شخصیت کی نشانی سمجھتے ہیں ۔

وہ مال و دولت کو زندگی کی ضروریات کے پورا کرنے کے لیے نہیں چا ہتے ،اور یہی وجہ ہے کہ ان کے مال و دولت میں جتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے ان کی حرص اور طمع بڑ ھتی چلی جاتی ہے ۔ورنہ معقول حدود میں اور جائز طریقہ سے حاصل شدہ مال و دولت نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ بعض اوقات قرآن مجید نے اسے ”فضل اللہ “کے عنوان سے تعبیر کیا ہے ،جہاں فر ماتا ہے :( واتبعوا من فضل الله ) ( جمعہ ۱۰) اور دوسری جگہ اسے خیر سے تعبیر کرتا ہے( کتب علیکم اذا حضراحدکم الموت ان ترک خیرا الو صیة ) :تم پر واجب ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچے تو اگر اس نے کچھ خیر چھوڑی ہے تو اس کے لیے وصیت کرے۔

ایسا مال یقینی طور پر نہ تو طغیان و سر کشی کا باعث ہوتا ہے ، نہ ہی تفا خر کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے استہزاکا موجب ہوتا ہے ،لیکن وہ مال جو معبود بنا کیا گیا ہے اور وہی اصلی ہدف و مقصد بن چکا ہے ،اور وہ اپنے مالکون کو ”قارون “کی طرح طغیان و سرکشی دعوت دیتا ہے ،وہ ننگ و عار ہے ،ذلّت ہے اور مصیبت و نکبت ہے اور خدا سے دوری اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں رہنے کا باعث ہے ۔

عام طور پر اس مال کو زیادہ مقدار میں جمع کرنا بہت زیادہ آلودگیوں کے سوا ممکن نہیں ہے ۔

اس لیے ایک حدیث میں امام علی بن موسٰی رضا علیہ السلام سے آیا ہے ،آپ نے فر مایا :

لا یجتمع المال الابخمس خصال “:بخل شدید ،وامل طویل ،وحرض غالب ،و قطیعةرحم ،وایثارالدنیاعلی الٰاخرة “:

”پانچ خصلتوں کے بغیر مال کسی کے پاس جمع نہیں ہو سکتا ۔(۱) بخل شدید(۲) طویل آرزوئیں(۳) حر ص غالب(۴) قطع رحمی(۵) اور دنیا کو آخرت پر مقدم رکھنا ۔۵

جو لوگ سخی ہوتے ہیں اور لمبی لمبی آرزؤں میں گرفتار نہیں ہوتے ،حلاال و حرام کا خیال رکھتے ہیں ،اپنے اقرباء کی مدد کرتے ہیں ،عام طور پر ایسوں کے پاس مال جمع نہیں ہوتا ان کی آمدنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو ۔

بعد والی آیت میں مزید کہتا ہے :”دولت جمع کرنے والا مال پرست انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے اموال اس کی ہمیشگی کا سبب ہے( یحسب ان ماله اخلده ) ۔(۶)

قابل توجہ بات یہ ہے کہ ”اخلدہ “یہاں ”فعل ماضی “کی صورت میں آیا ہے ،یعنی وہ یہ گمان کرتا ہے ،کہ اس کے اموال نے اسے ایک جاودانی اور دائمی موجود بنا دیا ہے ،نہ تو موت اس کے پاس پھٹک سکتی ہے ،اور نہ ہی بیماریاں اور دنیا کے حوادث اس کے لیے کوئی مشکل پیدا کر سکتے ہیں ،کیونکہ اس کی نظر میں مشکل کشا صرف مال و دولت ہے ،اور یہ مشکل کشا اس کے پاس حاضر ہے ۔یہ تصور کتنا غلط اور خام خیالی ہے ؟اس قدر مال و دولت جو قارون کے قبضہ واختیار میں تھا ،کہ اس کے خزانوں کی چابیاں کئی طاقتور مرد بڑی مشکل سے اُٹھا سکتے تھے ،لیکن عذاب الٰہی کے حملہ کے وقت وہ اس کی موت کو ایک گھڑی کے لیے مئو خر نہ کر سکے اور خدا نے اسے اور اس کے خزانوں کو ایک ہی لمحہ میں مختصر سے زلزلہ کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا“:( فخسفا به و بداره الارض ) (قصص۔ ۸۱)

وہ اموال جن کا کامل نمونہ فراعنہ مصر کے پاس تھا ،لیکن مصداق ”کم تر کوا من جنات وعیون وزروع ومقام کریم و نعمةکانوا فیها فا کهین “:”وہ کتنے زیادہ باغات اور چشمے کھیتیاں اور عمدہ و قیمتی محلات ،اور دوسری فراواں نعمتیں جن میں وہ ناز و نعمت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے ،اپنے پیچھے چھوڑ گئے ۔“(دخان ۔ ۲۵ تا ۲۷) لیکن یہ سب کے سب آسانی کے ساتھ ایک ہی ساعت میں دوسروں کے ہاتھ میں پہنچ گئے :”کذالک و اورثنا قو ماََاٰخرین ،(دخان ۔ ۲۸)

اور اسی لیے کیو نکہ قیامت میں پر دے ہٹ جائیں گے ،اور انہیں اپنی عظیم غلطی کا علم ہو جائے گا ،تو وہ پکار اُٹھیں گے :( ما اغنی عنی ما لیه هلک عنی سلطانیه ) :”میرے مال ودولت نے مجھے ہر گز بے نیاز نہیں کیا ،اور میری قدرت و طاقت و اقتداربھی میرے پاس نہ رہے ۔(حاقہ ۔ ۲۸ ۔ ۲۹)

اصولی طورپر انسان فنا و نیستی سے متنفر ہے ۔اور وہ ہمیشگی اور دام کا طرف دار ہے ،اور یہی اندرونی لگاؤ ہماری معاد کے مباحث میں مدد کرتا ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ انسان ہمیشگی اور دام کے لیے پیدا ہوا ہے ،ور نہ جاوداں ہونے کے ساتھ لگاؤ کی فطری خواہش اس میں نہ ہوتی ۔

لیکن یہ مغرور خود غرض اور دنیا پر ست انسان اپنی ہمیشگی کو ایسے امور میں سمجھنے لگتا ہے جو ٹھیک اس کی فناونیستی کا سبب ہیں ،مثلاََوہ مال و مقام کو ،جو عام طور پر اس کی بقاء کے دشمن ہیں دوام کا ذریعہ شمار کرنے لگتا ہے ۔اس بیان سے واضح ہوگیاکہ مال کے ذریعے دوام اور ہمیشگی کا تصور ،مال کے جمع کرنے کی ایک دلیل ہے اور ان د ل کے اندھوں کی نظر میں مال کاجمع ہو جانا بھی دوسروں پر استہزاء اور تمسخر کرنے کا ایک عامل شمار ہوتا ہے ۔قرآن اس گروہ کے جواب میں فر ماتا ہے :ایسا نہیں ہے جیساکہ وہ گمان کرتا ہے :(کلاّ)۔

بلکہ وہ عنقریب انتہائی ذلت و خواری کے ساتھ پاش پاش کرنے والی آگ میں پھینک دیے جائیں گے ۔“( لینبذنفی الحطمة ) ۔اس کے بعد حطمہ کی اس طرح تفسیر کرتا ہے :”اور تو کیا جانے کہ حطمہ کیا ہے “( وما ادراک ماالحطمة ) ۔

”وہ خدا کی بھڑ کی ہوئی آگ ہے ۔“( نارالله الموقدة ) ۔”وہ آگ جو دلوں سے نکلے گی اور اس کے ابتدائی شعلے دلوں میں ظاہر ہو ں گے ۔“( التی تطلع علی الافئدة ) ۔

( لینبذن ) “”نبذ“(بر وزن سبز)کے مادہ سے ”مفر دات “میں ”راغب“کے قول کے مطابق،اصل میں کسی چیز کو اس کی حقارت اور بے قدری کی وجہ سے دور پھینکنے کے معنی میں ہے ۔

یعنی خدا ان مغرور ،خود خواہ،اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والوں کو اس دن ذلیل اور بے قدر و قیمت موجودات کی صورت میں جہنم کی آگ میں پھینکے گا ،تاکہ وہ اپنے کبرو غرور کا نتیجہ دیکھ لیں ۔

”حطمہ “”حطم “کے مادہ سے مبالغہ کا صیغہ ہے جو کسی چیز کو در ہم برہم کرنے کے معنی میں ہے ،اور یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ بڑی سختی کے ساتھ ان کے اعضاء و جوار ح کو توڑ کر رکھ دے گی ،لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ”حطمہ “ساری جہنم کا نام نہیں ہے ،بلکہ اس کے حد سے زیادہ گرم اور بھڑ کتے ہوئے حصہ کا نام ہے ۔(۷)

اس معنی کو سمجھنا کہ آگ جلانے کے بجائے اعضاء کو توڑدے گی ،شاید گز شتہ زمانوں میں تو مشکل ہو ،لیکن موجودہ زما نہ میں بم کے پھٹنے کی لہروں کی تاثیر کی شدت کا مسئلہ ہم سب پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خو فناک بم کے پھٹنے سے پیدا ہو نے والی لہریں ،نہ صرف انسانوں کو بلکہ لوہے کے محکم گار ڈروں اور عمارتوں کے بڑے بڑ ے ستونوں کو بھی توڑ دیتی ہیں ،یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے ۔

”نار اللہ “(خدا ئی آگ )کی تعبیر اس کی عظمت کی دلیل ہے اور ”مو قدة“کی تعبیر اس کے ہمیشہ کے لیے روشن ہونے کی دلیل ہے ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ آگ دنیا کی آگ کے بر خلاف ،جو پہلے چمڑے کو جلاتی ہے ،اور اس کے بعد بدن کے اندر نفوذ کرتی ہے ،سب سے پہلے دلوں میں شعلہ ور ہوگی اور اندر کو جلائے گی ۔پہلے دل کو جلائے گی پھر دما غ اور ہڈیوں کو اور ا س کے بعدباہر کی طرف سرایت کرے گی ۔

یہ کس قسم کی آگ ہے جس کا پہلا شعلہ انسان کے دل میں ظاہر ہوگا ؟یہ کیسی آگ ہے جو باطن کو ظاہر سے پہلے جلائے گی ؟قیامت کی ہر چیز عجیب و غریب ہے اور اس کا اس جہان کی باتوں کے ساتھ بہت زیادہ فرق ہے ،یہاں تک کہ اس کی جلانے والی آگ کی گر فت میں بھی ایک الگ خا صیت ہے ۔

ایسا کیو ں نہ ہو ؟جب کہ ان کے دل ہی تو کفر اور کبر و نخوت کا مر کز تھے ،اور وہ حبّ ِدنیا اور مال و دولت کی محبت کا محور بنے ہوئے تھے

خد اکے قہر وغضب کی آگ ہر چیز سے پہلے ان کے دلوں پر کیوں مسلط نہ ہو ، جب کہ انہوں نے اس دنیا میں مومنین کے دل کو تمسخر، عیب جوئی، غیبت اور تحقیر و تذلیل کے ساتھ جلا یاتھا ۔ لہٰذا عدالتِ الٰہی کا تقا ضا یہی ہے کہ وہ اپنے اعمال جیسا ہی کیفرِ کردار دیکھیں ۔

اس سورہ کی آخری آیت میں فرماتا ہے :” یہ جلانے والی آگ ان پر دروازہ بند صورت میں ہو گی“۔( انها علیهم مو صدة ) ۔

”موصدة“ ” ایصاد“ کے مادہ سے ، دروازہ بند کرنے اور اس کو محکم کرنے کے معنی میں ہے ، اسی لئے ان کمروں کوجو پہاڑوں کے اندر مال جمع کرنے کے لیے بناتے ہیں ” وصید“ کہتے تھے ۔

حقیقت میں جیسا کہ وہ اپنے اموال کو مضبوط صندوقوں اور در بست خزانوں میں محفوظ کرکے رکھا کرتے تھے ، خدا بھی انہیں دوزخ کے دربست عذاب، میں جس سے خلاصی اور نجات پانے کی کوئی راہ نہ ہوگی، قید کرے گا۔

اور آخر میں فرماتا ہے :

” انہیں کھینچے ہوئے اور طولانی ستونوں میں رکھا جائے گا“( فی عمد ممدّدة ) ۔

”عمد“ ” عمود“ جیسا کہ لکڑی اور لوے کی قطعات( شہتیر) ہوتے ہیں ”ممددة“ کھینچے ہوئے اور طولانی کے معنی میں ہے ۔

مفسرین کی ایک جماعت نے اس تعبیر کو لوہے کی بڑی بڑی میخوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، جن کے ساتھ جہنم کے دروازے محکم طور پر جڑے ہوئے ہوں گے ، اس طرح کہ ان سے نکلنے کی بالکل کوئی راہ نہ ہوگی۔ اس بناء پر یہ گزشتہ آیت پر ایک تاکید ہے جو یہ کہتی ہے کہ جہنم کے دروازوں کو ان پر بند کردیں گے، اور وہ ہر طرف سے محصور ہو کر رہ جائیں گے ۔

بعض نے اسے عذاب و مجازات کے وسائل کی ایک قسم کی طرف اشارہ سمجھا ہے ، اس چیز کے مانند جو ہمارے ہاں ” ہتھکڑی اور بیڑی“ کے ساتھ معروف ہے ، اور لکڑی یا لوہے کا ایک وزنی ٹکڑاہوتا ہے جس میں پاو ں کے ناپ کے برابر دو سوراخ ہوتے ہیں ، اس میں پاو ں کو رکھ دیتے ہیں اور اس کے اوپرسوراخ سے پکڑ کر اس میں تالہ لگادیتے ہیں ۔ اس طرح اس آدمی میں چلنے کی طاقت نہیں رہتی تھی، اور یہ ان شکنجوں کی سزا ہو گی جو وہ بے گناہ لوگوں کو دیاکرتے تھے۔

بعض نے ایک تیسری تفسیر بھی آخری انکشافات کی مدد سے اس کے لیے بیان کی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ جہنم کے جلانے والے شعلے کشیدہ اور طولانی ستونوں کی طرح ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ آخری انکشافات میں ثابت ہوا ہے کہ ریکس( رونٹگن)کی مخصوص شعاعیں ، دوسری شعاعوں کے برخلاف جو مخروطی صورت میں پھیلتی ہیں ، وہ استوانی صورت میں ٹھیک ستون کی طرح منتشرہوتی ہیں ، اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ شعاعیں انسان کے سارے وجود میں نفوذ کرجاتی ہیں ، یہاں تک کہ اس کے دل پر بھی مسلط ہو جاتی ہیں ، اور اسی بناء پر داخلی اعضاء کا ایکسرے لینے کے لیے ا س سے استفادہ کرتے ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنہم کی بھڑکتی ہو ئی آگ سے ایسی شعاعیں اٹھیں گی جو اوپر والی شعاعوں سے ملتی جلتی ہوں گے۔ ۸

لیکن ان تفاسیر میں سب سے زیادہ مناسب وہی پہلی تفسیر ہے ۔ ( البتہ ان تفاسیر میں بعض کی بناء پر ”( فی عمد ممددة ) “ کاجملہ دوزخ کی حالت کو بیان کرتا ہے اور دوسری بعض کی بناء پر دوزخیوں کی حالت کو )

____________________

۱۔مبالغہ کا صیغہ مشہور چھ اوزان کے علاوہ دوسرے اوزان پر بھی آتاہے ، منجملہ ان کے ایک یہی وزن ہے ، جس کی عربی زبان میں نظائر بھی موجود ہیں ، مثلاً: ” ضحکہ“ جو بہت زیادہ ہنسنے والے کے معنی میں ہے ۔

۲۔ ”تفسیر فخر رازی“ جلد ۳۲ ص ۹۲۔

۳۔ ” اصول کافی جلد ۲ باب النمیمة حدیث ۱

۴۔ ” بحار الانوار “ جلد ۷۵ ص ۱۴۲۔

۵۔”نور الثقلین“جلد ۵ ص ۶۶۸حدیث ۷

۶۔”مالہ “ممکن ہے کہ ”مال “ضمیر غائب کی طرف مضاف ہو ،یا ”ما“موصولہ اور اس کے صلہ سے مرکب ہو، ”اخلدہ ‘کا جملہ جو کہ فعل ماضی ہے مضارع کے معنی میں ہے ۔یا خلود کے موجبات واسباب کے معنی میں ہے ۔

۷۔”نور الثقلین “جلد ۳ص۱۷،۱۹حدیث ۶۰،۶۴

۸۔ ” طنفاوی“ زیربحث آیات کے ذیل میں ۔

۱ ۔ کبر و غرور بڑے برے گناہوں کا سرچشمہ ہے

” اپنے آپ کو بڑاخیال کرنا ایسی عظیم بلا ہے جو بہت سے گناہوں کی اصل اور بنیاد قرار پاتی ہے۔ خدا سے غفلت، نعمتوں کا کفران ، عیاشی اور ہوس بازی میں غرق ہونا ، دوسروں کی تحقیر و تذلیل ، مومنین کا مذاق اڑانا ، اسی صفت رذیلہ کے منحوس اور برے اثرات ہیں ۔

کم ظرف لوگ جب کسی مقام و منصب یا کسی اچھی منزل پر پہنچ جاتے ہیں تو وہ ایسے کبر و غرور میں گرفتار ہو جاتے ہیں کہ کسی دوسرے کے لیے کسی قدر و قیمت کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ اور یہی چیز ان کے معاشرے سے جدا ہونے اور معاشرے کے ان سے الگ ہونے کا سبب بن جاتی ہے ۔

وہ اپنے ہی تصورات و خیالات کی دنیا میں ڈوبے رہتے ہیں اور خود کو باقیوں سے علحٰیدہ کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگتے ہیں ، یہاں تک کہ اپنے آپ کو مقربان خدا میں بھی شمار کرنے لگتے ہیں ، اور اسی وجہ سے دوسروں کی عزت و آبروبلکہ ان کی جان تک بھی ان کے نظر میں بے قدر و قیمت ہو جاتی ہے ، اور وہ ” ھمز“ و ” لمز“ یادوسروں کی عیب جوئی اور مذمت میں مشغول ہوجاتے ہیں اور یوں اپنے خیال میں وہ اپنی عظمت میں اضافہ کرتے ہیں ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ بعض روایات میں اس قسم کے افراد کو عقرب( بچھو) سے تشبیہ دی گئی ہے ،اور اگر چہ بچھو کا ڈنک مارنا کسی کینہ کی وجہ سے نہیں ہوتا، لیکن ان کا ڈنک مارنا کینہ پروری کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:” میں نے شب معراج دوزخیوں کے ایک گروہ کر دیکھا کہ ان کے پہلو و ں کے گوشت الگ کرکے انہیں کھلاتے تھے ۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو انہوں نے کہا :

” ھٰو لاء الھمازون من امتک ، المازوں ! “:

” یہ آپ کی امت میں سے عیب جوئی کرنے والے اور استہزاء کرنے والے ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے ، ہم نے سورہ حجرات کی آیات کے ذیل میں اس سلسلہ میں تفصیلی بحث کی ہے ۔

۲ ۔ مال جمع کرنے کی حرص

مال و دولت کے بارے میں افراط و تفریط کے لحاظ سے مختلف نظریے پائے جاتے ہیں ۔ بعض لوگ تو اس کو اتنی جلدی اہمیت دیتے ہیں کہ اسے تمام مشکلات کا حل سمجھتے ہیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس نظریے کے طرف داروں نے اپنے اشعار میں اس سلسلہ میں خوب دادِ سخن دی ہے ، منجملہ ایک شاعر عرب کہتا ہے:

فصا حة سحبان و خط ابن مقلة وحکمة لقمان و زهد بن ادهم

اذا اجتمعت فی المرء و المرء مفلس فلیس له قدر بمقدار درهم

” ( عرب کے معروف فصیح) “ سحبان کی فصاحت “ اور معروف خطاط) ” ابنِ مقلہ کا خط اور ” لقمان “ کی حکمت اور ” ابراہیم بن ادہم “ کا زہد اگر کسی انسان میں جمع ہو جائے اور مفلس و نادار ہو، تو اس کی قدر و قیمت ایک درہم کے برا بر بھی نہیں ہوگی“ !

لہٰذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے اگر یہ گروہ ہمیشہ مال جمع کرنے میں مشغول رہے اور ایک آن کے لیے بھی راحت و آرام سے نہ بیٹھے اور اس کے لیے کسی بھی قید و شرط کا قائل نہ ہو اور حلا ل و حرام ان کی نظر میں یکساں ہو جائے۔

اس گروہ کے نقطہ مقابل میں وہ گروہ ہے جو مال و دولت کے لیے کم سے کم قدر و قیمت کا بھی قائل نہیں ہے ۔ وہ فقر و فاقہ کی تعریف کرتا ہے اور اس کی عظمت و بلندی کا قائل ہے، یہاں تک کہ وہ مال کو تقویٰ اور قرب ِ خدا میں مزاحم سمجھتے ہیں ۔ لیکن دونوں نظر یات کے مقابلہ میں (جو افراط و تفریط رکھتے ہیں ) قرآن مجید اور اسلامی روایات سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مال اچھی چیز ہے ، لیکن چند شرائط کے ساتھ :

پہلی شرط یہ ہے کہ وہ ذریعہ اوروسیلہ ہو نہ کہ ہدف اور مقصد۔

دوسری شرط یہ ہے کہ وہ انسان کو اپنا ” اسیر“ نہ بنائے بلکہ انسان اس کا ” امیر “ ہو ۔

تیسری شرط یہ ہے کہ اسے مشروع اور حلال طریقہ سے حاصل کیا جائے اور وہ رضائے خدا کے لیے صَرف ہو۔

اس قسم کے مال سے محبت نہ صرف یہ کہ وہ دنیا پرستی نہیں ہے ، بلکہ آخرت سے محبت کی ایک دلیل ہے ۔ اسی لیے ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے :

” جس وقت آپ نے ذہب و فضہ( سونا چاندی) پر لعنت کی، تو آپ کے ایک صحابی نے تعجب کیا، اور اس بارے میں سوال کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ”لیس حیث تذهب الیه انما الذهب الذی ذهب بالدین و الفضة الّتی افاضت الکفر “:” (ذہب) سونے سے مراد وہ چیز ہے جو دین کو ختم کردے اور فضہ ( چاندی) سے مراد وہ چیز ہے جو کفر و بے ایمانی کا سر چشمہ بنے“ ۔(۱)

ایک اور حدیث میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے آیا ہے :

” السکر اربع سکرات سکر الشراب و سکر المال ، و سکر النوم ، و سکر الملک“۔

” نشہ اور مستی چار قسم کی ہوتی ہے : ۱ ۔ شراب کی مستی ۔ ۲ ۔ مال کی مستی۔ ۳ ۔ نیند کی مستی ۔ ۴ ۔ اقتدار کی مستی ۔(۲)

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان ، مجھے کچھ وعظ و نصیحت فرمائیے، تو آپ نے فرمایا:

ان کان الحسنات حقاًفالجمع لماذا وان کان الخلف من الله عز و جل حقاً فالبخل لماذا ؟! “:

”اگر حسنات حق ہیں اور ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں تو پھر مال کا جمع کرنا کس لیے؟ ( کیوں اسے راہ خدا میں خرچ نہ کریں ) اور اگر بدلہ دینا اور تلافی کرنا اللہ کی طرف سے حق ہے ، تو بخل کس لیے؟ ۔(۳)

بہت سے لوگ ایسے ہیں جو آخر عمر تک مال جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور انجام کار دوسروں کے لیے چھو ڑجاتے ہیں ۔ ان کا حساب تو انہیں دینا پڑے گا اور اس سے فائدہ دوسرے لوگ اٹھائیں گے۔ اسی لیے ایک حدیث میں آیا ہے کہ لوگوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا ، من اعظم الناس حسرة ؟ : لوگوں میں سب سے زیادہ حسرت و ندامت کس کو ہوگی؟

آپ نے فرمایا:

من رأی ماله فی المیازن غیره و ادخله الله به النار و ادخل وارثه به الجنة

وہ شخص جو اپنے اموال کو دوسروں کے اعمال میں تولنے کی ترازوں میں دیکھے، خدا اسے تو اس کے اموال کی وجہ سے دوزخ میں داخل کرے، اور اس کے وارث کو اس کی وجہ سے جنت میں داخل کرے“۔(۴)

ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آپ نے آیہ” کذالک یرھم اللہ اعمالھم حسرات علیھم“ :( اسی طرح سے خدا ان کے اعمال کو ان کے لیے حسرت بنادے گا) کی تفسیر میں فرمایا:

هو الرجل یدع المال لا ینفقه فی طاعة الله بخلا ثُم یموت فیدعه لمن یعمل به فی طاعة الله او فی معصیه

” یہ اس شخص کے بارے میں ہے جو مال چھوڑ جاتا ہے اور بخل کی وجہ سے اسے راہ خدا میں خرچ کرتا۔ پھر مرجاتا ہے ، اور اسے ایسے شخص کے لیے چھوڑ جاتا ہے جو اسے اللہ کی طاعت یا اس کی معصیت میں خرچ کرتا ہے “۔

اس کے بعد امام نے مزید فرمایا:

” اگر وہ خدا کی اطاعت میں خرچ کرے گاتو وہ اسے دوسرے کی میزان عمل میں دیکھ کر حسرت کرے گا کیونکہ وہ مال تو اس کی ملکیت تھا ، اور اگر وہ خدا کی معصیت و نافرمانی میں صرف کرے گا ، تو وہ گناہ کرنے میں ا س کی تقویت کا سبب بنا( اس پر بھی اسے عقوبت اور حسرت ہو گی)۔(۵)

ہاں ! انسان مال کو مختلف انداز میں استعمال کرتے ہیں ، کبھی تو اس سے ایک خطر ناک بت بنالیتے ہیں ، اور کبھی عظیم سعادت کا وسیلہ ۔

اس گفتگو کو ہم ” ابن عباس (رض) سے منقول ایک پر معنی حدیث پر ختم کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں :

ان اول درهم و دینار ضربا فی الارض نظر الیهما ابلیس فلما عاینهما اخذهما فوضعهما علی عینیه، ثم ضمهما علی صدره، ثم صرخ صرخة، ثم ضمهما الیٰ صدره، ثم قال : انتما قرة عینی! و ثمرة فو اد ماابالی من بنی اٰدم اذا احبوکما“ ان لایعبدوا و ثنا! حسبی من بنی آدم آدم ان یحبوا کما :(۶)

” جب دنیا میں درہم و دینار کا سب سے پہلا سکہ بنا یا گیا تو ابلیس نے ان پر نگاہ کی ، جب انہیں دیکھا تو اس نے ان دونوں کو اٹھالیا اور دونوں کو اپنی آنکھوں پر رکھا ، پھر انہیں سینہ سے لگا لیا ۔ پھر وہ والہانہ طور پر چیخا اور دوبارہ انہیں سینہ سے لگا لیا اور کہنے لگا: تم ( اے درہم و دینار)میری آنکھوں کی روشنی ہو، تم میرے دل کا میوہ ہو۔ اگر انسان تمہیں دوست بنالیں تو میرے لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ بت پرستی نہ کریں ۔ بس میرے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ تم سے محبت کرنے لگیں ، ( کیونکہ تم سب بتوں سے بڑھ کر بت ہو)۔(۷)

خدا وندا ! ہمیں مال و غضب ، دنیا و شہوت کی ہستی سے محفوظ فرما۔

پروردگارا ! ہمیں شیطان کے تسلط اور درہم و دینار کی بندگی سے رہائی عطا فرما۔

بارالٰہا ! جہنم کی آگ سخت توڑ نے والی ہے اور تیرے لطف و کرم کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں ہے ۔ ہمیں اپنے لطف کا مشمول قرار دے۔

آمین یا رب العالمین

____________________

۱۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۱ حدیث ۱۷۔

۲۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔

۳۔ ” توحید صدوق“ مطابق نقل ” نور الثقلین“ جلد ۵ ص ۶۶۸ حدیث۸۔

۴۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔

۵۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔

۶۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۴۲۔ٍ

۷ ۔ ” بحار الانوار“ جلد ۷۳ ص ۱۳۷ حدیث ۳