تفسیر نمونہ جلد ۱۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 65360
ڈاؤنلوڈ: 5328


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 169 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 65360 / ڈاؤنلوڈ: 5328
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 15

مؤلف:
اردو

آیات ۱،۲،۳،۴،۵

( بسم الله الرحمن الرحیم )

۱ ۔( اذا السّمآء انفطرت )

۲ ۔( و اذاالکواکب ا نتثرت )

۳ ۔( و اذا البحار فجّرت )

۴ ۔( و اذا القبور بُعثرت )

۵ ۔( علمت نفس ماقدّمت و اخّرت )

ترجمہ

خدا کے نام سے جو مہر بان اور بخشنے والا ہے ۔

۱ ۔ جس وقت(کرّاتِ آسمانی )پھٹ جائیں گے ۔

۲ ۔ جس وقت ستارے پراکندہ ہو کر گر پڑیں گے ۔

۳ ۔ اور جس وقت سمندر ایک دوسرے سے مل جائیں گے ۔

۴ ۔ اور جس وقت قبریں زیر و زبر ہو ں گی۔ ( اور مردے خارج ہوں گے )۔

۵ ۔ اس وقت ہر شخص جان لے گا کہ اس نے آگے کیابھیجا ہے اور پیچھے کیا چھوڑا ہے ۔

جس وقت جہان کا نظام زیر و زبر ہو جائے گا ۔

ہم پھر اس سورہ کے آغاز میں بعض ایسے وحشت ناک حوادث کا سامنا کررہے ہیں جو آغازِ قیامت میں سارے جہان کو گھیرلیں گے ۔ پہلے فرماتا ہے :

” جس وقت آسمان میں شگاف پڑجائیں گے “۔( اذا السماء انفطرت ) ۔ اور جس وقت ستارے پراکندہ ہوکر گرنے لگیں گے ۔

( و اذا الکواکب انتثرت ) ۔ عالم بالاکا نظام درہم برہم ہو جائے گااور ہولناک دھماکے سارے آسمان کے کروں کے گھیر لیں گے تمام منظومے اپنے نظام کھو بیٹھیں گے ۔ اور ستارے اپنے مدار سے نکل جائیں گے ، اور شدید تصادم کی وجہ سے ادھر ادھر بکھر جائیں گے۔ اس جہان کی عمر ختم ہو جائے گی اور عام چیزیں ویران ہو جائیں گی تاکہ ان کی ویرانی سے آخرت کا جہاں آباد ہو جائے۔

” انفطرت“ انفطار کے مادہ سے شگافتہ ہونے کے معنوں میں ہے ۔ اس تعبیر کی نظیر بہت سی آیات میں آئی ہے ۔ منجملہ دیگر تعبیرات کہ سورہ انشقاق کی آیت ۱ میں پڑھتے ہیں( اذا السماء انشقت ) اور سورہ مزمل کی آیت ۱۸ میں فرماتا ہے :( السماء منفطربه )

” انتثرت“ اصل میں مادہ نثر ( بروزن نصر) سے پراکندہ کرنے اور ہونے کے معنی میں ہے اور چونکہ ستاروں کا پراکندہ ہونا( گلوبند کی طرح جس کا دھاگہ ٹوٹ جائے) سبب بنتاہے کہ ہر ایک کسی گوشہ میں جاگرے۔

بعض مفسرین نے ستاروں کے سقوط اور ان کے گرنے سے تفسیر کی ہے اور یہ پراکندگی کے معنی کا لازمہ ہے ۔

” کواکب“ کو کب کی جمع عربی زبان میں بہت سے معانی میں آتی ہے دوسرے ستارے بطور عام اور زہرہ ستارہ بطور خاص۔

وہ سفیدی جو آنکھ میں ظاہرہوتی ہے ، بلند گھاس، درخت کا شگوفہ، فولاد کی چمک، زیبا و خوبصورت نوجوان، تلوار، پانی اور کسی جمیعت کا رئیس ۔

لیکن ظاہری طور پراس کے حقیقی معنی وہی درخشاں اور فروزاں ستاروہ ہیں ۔ باقی معانی مجازی شمار ہوتے ہیں جن میں اصلی معانی کی مشابہت پائی جاتی ہے ۔

یہ کہ ستاروں کا پراکندہ ہونا اور آسمانی کواکب کاانفجار اور پھٹنا اور ان کے نظام کا درہم برہم ہونا کن عوامل و اسباب کے زیر اثر رونما ہوگا۔ کیا فطرت کا اعتدال درہم بر ہم ہو جائے گا یا کوئی عظیم مرموز قوت اسے اپنے تحت الشعاع قرار دے گی یا عالم کا عظیم تدریجی انبساط اور پھیلاو موجودہ زمانے میں ماہرین کے نقطہ نظر سے اثبات کے درجہ کو پہنچ گیاہے یہان تک ہوجائے گا کہ جس کے بعد یہ نتیجہ بر آمد ہوگا ۔ کوئی شخص ٹھیک طرح نہیں جانتا ۔

لیکن ہمیں اتنا معلوم ہے کہ جس وقت یہ عظیم آسمانی کرے اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہو گے تو اس وقت کمزور ، ضعیف انسان کا جو حال ہو گا وہ ظاہر ہے ۔

یہ سب کچھ اس جہان کے فنا ہونے کے بارے میں انسان کو خبر دار کرنا ہے اور اسے تنبیہ کرنا ہے تاکہ وہ اس دنیا کو ایسا جاودانی گھر نہ سمجھ بیٹھے جس میں اسے ہمیشہ رہنا ہے ،اس سے دل نہ لگائے اور اس کے لئے ہزار ہا گناہوں سے آلودہ نہ ہو۔

اس کے بعد آسمان سے ہٹ کر زمین کو موضوع بناتاہے اور فرماتاہے :

” جس وقت سمندر اور دریا آپس میں مل جائیں “( اذاالبحارفجرت ) ۔ اگرچہ اس وقت بھی روئے زمین کا سمندر ، سوائے کچھ چھوٹے دریاو ں کے ، ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں لیکن یوں نظر آتا ہے کہ ابتدائے قیامت میں شدید زلزلوں کی بناپر یاپہاڑوں کے پراکندہ ہونے اور سمندرمیں گر پڑنے کی وجہ سے سمندر اس طرح پر ہو جائیں گے کہ پانی تمام خشکیوں کو گھیر لے گا اور سارے دریا ایک وسیع تر سمندر کی شکل اختیار کرلیں گے جیسا کہ سورہ تکویر کی آیت ۶( و اذا البحار سجرت ) کی ایک یہ بھی تفسیر ہے جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں ۔

دوسرا احتمال جو اس آیت کی تفسیر میں اور اسی طرح سورہ تکویر کی آیت ۶ کی تفسیرمیں پیش کیاگیا ہے ، یہ ہے کہ فجرت اور سجرت وہی انفجار یعنی پھٹنا اور جلنا ہے جو تمام سمندروں اور دریاو ں کو آگ کے ایک عظیم ٹکڑے میں تبدیل کردے گا ۔

جیسا کہ ہم نے اشارہ کیاہے پانی دو عناصر سے تشکیل پاتاہے جو دونوں شدید طور پر قابل احتراق یعنی جلنے کے قابل ہے ، اب اگر سمندروں کے پانی کا تجزیہ ہو اور وہ کچھ عوامل و اسباب کے زیر اثر آکسیجن اور ہیڈروجن مین تبدیل ہو جائے تو ایک ہی شعلہ کے زیر اثر سب آگ میں تبدیل ہوجائیں ۔

اس کے بعد قیامت کے دوسرے مرحلے کے بارے میں جو اس جہاں کی تجدیدِ حیات اور مردوں کی زندگی کی تجدید کا مرحلہ ہے فرماتا ہے :

” اور جس وقت قبریں زیر و زبر ہوں “( و اذا القبور بعثرت ) ۔ اورمردے باہر آکر حساب کتاب کے لئے آمادہ ہوں ۔

” بعثرت“ کے معنی زیر و زبر ہونا اورمنتشر ہونا ہے ، راغب مفردات میں بعید نہیں سمجھا کہ یہ لفظ دو الفاظ سے مرکب ہو” بعث“ اور ”اثرت“ اسی لئے دونوں کے معنی اپنے اندر لئے ہوئے ہیں اور نتیجہ زیر و زبر ہونے کے معانی کی صورت میں نکلاہے ۔ ( مثل بسملہ کے جو بسم اللہ سے لیا گیا )۔

بہر حال جو اوپر والی آیات میں آیاہے اس چیزکے مشابہ ہے جو ہم سورہ زلزال میں پرھتے ہیں :( و اخرجت الارض اثقالها ) ” زمین اپنے ذخائر باہرنکالے گی “ ( اس بناپر اس سے مراد زمین دفن شدہ مردے ہوں گے جو اس آیت کی مشہور تفاسیر میں سے ایک ہے )۔ یا اس چیز کے مشابہ ہے جو سورہ نازعات کی آیت ۱۳ اور ۱۴ میں آئی ہے ۔( انماهی زجرة واحد فاذا هم بالساحرة ) ” صرف ایک ہی صحیفہ ہوگا جس کے بعد اچانک سب کے سب صحفہ زمین پر ظاہر ہو ں گے۔

یہ سب تعبیریں بتاتی ہیں کہ مردوں کا زندہ ہونا اور قبروں سے خارج ہونا نہایت تیزی سے ناگہانی طور پر صورت پذیر ہوگا ۔ ان نشانیوں کو بیان کرنے کے بعد جو قیامت سے قبل اور اس کے بعد صورت پذیر ہوں گی آخری بات کو اس طرح بیا ن کرتاہے :

” اس دن ہر شخص جانتا ہے کہ اس نے آگے کیا بھیجا ہے اور پیچھے کیا رکھا ہے “( علمت نفس ماقدمت و اخرت ) ۔ جی ہاں ! اس دن حجابات ہٹ جائیں گے ، غرور اور غفلت کے پردے چاک ہو جائیں گے اور حقائق جہاں چاک ہو جائیں گے اور حقائق جہان آشکارہو جائیں گے ۔ اور چونکہ وہ دن یوم البروز ہے لہٰذا ہر چیز ظاہر ہو جائے گی اور یہ وہی وقت ہے کہ انسا ن اپنے تمام اعمال کو دیکھے گا اور اپنے نیک و بد سے آگاہ ہوگا ، کون سے اعمال وہ آگے بھیج چکا ہے اور کون سے کام ہیں جن کے آثار انکے بعد دنیا میں باقی رہ گئے ہیں اور اس کے نتائج اس تک پہنچے ہیں ۔

خیرات اور صدقہ جاریہ کے مثل ۔اور وہ تعمیرات و آثار جو مقاصد رحمانی یا مقاصد شیطانی کے لئے اس نے بنائی ہیں اور پیچھے جھوڑ گیا ہے یا کتابیں اور دیگر علمی آثار وغیرہ ۔ علمی آثار جو نیک و بد مقاصد کےلئے اس نے اپنے بعد چھوڑے ہیں اور وہ دوسروں کے لئے استفادہ کا باعث بنے ہیں ۔ ایسے نیک و بد سنن و طرق جنہوں نے اقوام و ملل کو اپنی طرف کھینچا ہے یہ ہیں ان کاموں کے نتائج انسان کے بعد اس تک پہنچے ہیں اور جو اوپر والی آیت ہیں ” اخرت“ کا مصداق ہیں ۔

یہ ٹھیک ہے کہ انسان اس دنیا میں بھی اجمالی طور پر اپنے اعمال سے باخبر ہے لیکن بھول جانا اور اپنے اعمال کی پرستش کرنا عام طور پر مانع ہوتا ہے کہ انسان ان سب کو اپنے دل میں جگہ دے اور اپنے اعمال کے آثار کی گہرائی اور عمق سے واقف ہو۔

لیکن اس دن ہر چیز میں انقلاب بر پاہو گاتو انسان کی روح اور جان بھی اس قسم کے انقلاب سے متأثر ہوگی یہ وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اپنے تمام اعمال کا تفصیلی علم حاصل کرے گا بلکہ سورہ آل ِ عمران کی آیت ۳۰( یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضراً و ما عملت من سوءٍ ) سب کو اپنے سامنے حاضر پائے گا ۔

بعض مفسرین نے اس آیت کے لئے اور تفاسیر بھی بیان کی ہیں ۔ منجملہ دیگر تفاسیر سے مراد وہ کام ہیں جنہیں ابتدائے عمر میں مقدم رکھتاتھا اور وہ کام جو اواخر عمر کےلئے چھور رکھے تھے ۔ لیکن پہلی تفسیر ہر جہت سے زیادہ مناسب ہے ۔ نفس سے مراد یہاں نفسوس انسانی میں سے ہر فرد ہے اور اس میں تمام افراد ِ بشر شامل ہیں ۔

وہ آثار جو انسان کے بعد باقی رہ جاتے ہیں

علاوہ اس چیز کے جو اوپر والی آیات میں آئی ہے اسلامی روایت سے اچھی طرح معلوم ہوتاہے کہ ہو سکتاہے کچھ آثار انسا ن کے بعد باقی رہ جائیں جن کی بر کتیں یا برے نتائج سالہا سال تک حتیٰ کہ قیامت تک اس شخص کو پہنچتے رہیں ۔

ایک حدیث امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے :

( لیس یتبع الرجل بعد موته من الاجر الَّا ثلاث خصال : صدقة اجراها فی حیاته فهی بعد موته و سنة هدی سنّها فهی تعمل بها بعد موته وولد صالح یستغفر له )

انسا ن کی موت کے بعد اس کے اعمال کی کتاب بند ہو جاتی ہے اور سزا یا جزا اسے نہیں ملتی لیکن تین طریقوں سے اجر یا سزا مل سکتی ہے ۔ عمارتیں یا مفید چیزیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے وہ اپنی طرف سے بطور یاد گار چھوڑ گیا ہے ، جو اس کے بعد باقی ہیں ، دوسرے ہدایت کرنے والی سنت جسے وہ وجود میں لایاہے اور اس کی موت کے بعد اس پر عمل ہو رہاہے اور تیسرے وہ نیک اور صالح بیٹا جو اس کے لئے استغفار کرتاہے ۔(۱)

ایک دوسری روایت میں یہ چھ امور بیان کئے گئے ہیں جو مومنین کی حالت کے لئے ان کی موت کے بعد مفید ہیں ، نیک بیٹا ، وہ قرآن جس کی وہ تلاوت کرتا تھا ، وہ کنواں جو اس نے کھو دا تھا ، وہ درخت جو اس نے بویا تھا ، پانی مہیا کرنا سنت حسنہ جو اس کے بعد رہ جائے اور مورد ِ توجہ قرار پائے ۔(۲)

بعض روایات میں اس علم و دانش پر جو کسی کی جانب سے لوگوں میں رہ جائے انحصار کیا گیا ہے ۔(۳)

” جو شخص کوئی نیک سنت جاری کرے اور دوسرے اس کی پیروی کریں تو وہ اپنا اجر تو رکھتا ہی ہے اس کے علاوہ ان لوگو ں کے اجر کے برابر بھی جنہوں نے اس کی پیروی کی ہے ، بغیر اس کے کہ ان کی پیروی کرنے والے لوگوں کے اجر میں کوئی کمی ہو ، اور جو شخص بری سنت جاری کرے اور لوگ اس کی پیروی کریں تو اس کا اپنا گناہ تو ہے ہی ، اس کے علاوہ جن لوگوں نے اس کی پیروی کی ہے ان کے گناہوں کے برابر بھی اس کا گناہ ہے ، بغیر اس کے کہ پیروی کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی ہو“۔

یہ وہ مقام تھا جہاں اصحاب پیغمبر میں سے حذیفہ نے آیت ( علمت نفس ماقدمت و اخرت) کی تلاوت کی ۔(۴)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :

(فکیف بکم لو تنا هت بکم الامور و بعثر ت القبور هنالک تبلوا کل نفس مااسلفت و ردوا الیٰ الله مولاهم الحق و ضل عنهم ماکانوا یفترون )

تمہارا کیا حال ہوگا جب تمام امور اختتام پذیرہوں گے ، قبریں زیر و زبر ہوں گی اور تم سب کے سب عرصہ محشر میں قیام پذیر ہوں گے وہاں ہر شخص ہرعمل کو جسے اس نے پہلے انجام دیا ہو گا آزمائے گا اور سب کے سب خدا کی طرف پلٹ جائیں گے جو ان کا حقیقی مولا و سر پرست ہے اور جنہیں جھوٹ موٹ ا سکی مثل قرار دیا تھا ، ان کے دل سے محو ہوجائیں گے ۔(۵)

یہ آیات و روایا ت انسان کی ذمہ داری کی حدود کو ا س کے اعمال کے مقابلہ میں اسلامی نقطہ نظر سے معین کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ کس حد تک ہر انسان اپنے اعمال کے سلسلہ میں جواب دہ ہے ، یہاں تک کہ ممکن ہے کہ ہزار ہا سال گزرنے کے بعد اس کے لئے اچھا اجر حاصل کریں یا اس کے لئے اچھا اجر حاصل کریں یا اس پر لعنت و گناہ کا بوجھ ڈالیں ۔ اس سلسلہ میں جلد ۱ ، ص ۲۰۲ تا ۲۰۴( سورہ نحل کی آیت ۲۵ کے ذیل میں ) پر بھی ہم بحث کر چکے ہیں ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار، جلد ۷۱، ص۲۵۷۔

۲۔ بحار الانوار، جلد ۷۱، ص۲۵۷۔

۳۔منیة المرید۔ ص۱۱۔

۴۔ مجمع البیان ، جلد ۱۰ ، ص۴۴۹۔

۵۔ نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔