سورہ الکو ثر
یہ سورہ مکّہ میں نازل ہوا ۔ اس میں ۳ آیا ت ہیں ۔
سو رہ کوثر کے مطالب اور اس کی فضیلت
مشہور یہ ہے کہ یہ سورہ” مکّہ “ میں نازل ہوا ہے ۔ لیکن بعض نے اس کے مدنی ہو نے کا احتمال بھی دیا ہے ۔ یہ احتمال بھی د یاگیا ہے کہ سورہ دو بار نازل ہوا ۔ ایک دفعہ مکّہ میں اور دوسری دفعہ مد ینہ میں ، لیکن جو روا یات اس کے شا ن نز ول میں وا رد ہو ئی ہیں وہ اس کے مکّی ہو نے کے مشہور قول کی تا ئید کرتی ہیں ۔
اس سورہ کے شان نزول میں آیا ہے کہ:” عا ص بن وائل“ نے جو مشرکین کے سر دا روں میں سے تھا ، پیغمبر اکر م سے مسجد الحرام سے نکلتے وقت ملاقات کی اور کچھ دیر تک آپ سے با تیں کرتا رہا۔ قر یش کے سر دارو ں کا ایک گروہ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا ۔ انہو ں نے دور سے اس منظر کا مشا ہدہ کیا ۔ جس وقت” عا ص بن وائل “ مسجد میں دا خل ہوا تو انہو ں نے اس سے کہا کہ تو کس سے با تیں کر رہا تھا؟ اس نے کہا : اس”ابتر “ شخص سے۔اس نے اس تعبیر کا اس لیے انتخاب کیا کہ پیغمبر اکرم کے فر زند ” عبد اللہ“ دنیا سے ر خصت ہو چکے تھے۔ اور عرب ایسے آدمی کو جس کے کوئی بیٹا نہ ہو” ابتر“ کہا کر تے تھے یعنی ( بلا عقب۔ مقطوع النسل) لہٰذا قر یش نے پیغمبر اکرم کے فرزند کی و فا ت کے بعد اس لقب کو آنحضرت کے لیے انتخاب کر رکھا تھا ، جس پر یہ سورت نازل ہوئی ، اور پیغمبر اکر کو بہت سی نعمتوں اور کوثر کی بشا رت دی اور ان کے دشمنوں کو ابتر کہا
اس کی وضا حت اس طرح ہے کہ پیغمبر اکرم کے با نو ئے اسلام جنا ب خد یجہ سے دو پسر تھے، ایک قاسم اور دوسرے طاہر جنہیں عبداللہ بھی کہتے تھے ۔ دو نوں ہی مکّہ میں دنیا سے چل بسے اور پیغمبر اکرم کے کوئی بیٹا نہ رہا۔ اس بات نے قر یش کے بد خوا ہو ں کی زبان کھو ل دی، وہ آنحضرت کو” ابتر“ کہنے لگے
وہ اپنی روایت کے مطابق بیٹے کوحد سے زیا دہ اہمیت دیتے تھے، اسے باپ کے پرو گرا موں کو جاری رکھنے والا شمار کرتے تھے اس سانحے کے باعث ان کا خیال یہ تھا کہ پیغمبراکرم کی رحلت کے بعد بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے آپ کے پرو گرام معطل ہوکر رہ جا ئیں گے چناچہ وہ اس بات پر بہت خوش تھے۔
قرآن مجید نازل ہوا اور اس سورہ میں اعجاز آمیز طریقہ سے انہیں جواب دیا اور خبر دی کہ ٓانحضرت کے دشمن ہی ابتر رہیں گے اور اسلام وقرآن کاپروگرام کبھی منقطع نہیں ہوگا ۔ اس سورہ میں جو بشارت دی گئی ہے وہ ایک طرف تو دشمنان اسلام کی امیدوں پر ایک ضرب تھی اور دوسری طرف رسول اللہ کے لئے تسلی خاطر تھی جن کا قلب ِ نازک دل اس قبیح لقب اور دشمنوں کی سازش کو سن ر غمگین اور مکدر ہواتھا ۔
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت
اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے آیاہے :
” من قرائھا سقاہ اللہ من انھار الجنة ، و اعطی من الاجر بعدد کل قربان قربہ العباد فی یوم عید و یقربون من اھل الکتاب و المشرکین “
جو شخص اس کی تلاوت کرے خدا اسے جنت کی نہروں سے سیراب کرے گا اور ہر قربانی کی تعداد میں جو خدا کے بندے عید ( قربان ) کے دن کرتے ہیں ، اور اسی طرح سے وہ قربانیاں کو اہل کتاب اور مشرکین دیتے ہیں ان سب کی تعداد کے برابر اس کو اجر دے گا۔
اس سورہ کا نام ( کوثر) اس کی پہلی آیت سے لیا گیا ہے ۔
آیات ۱،۲،۳،
(
بسم ا لله ارحمن ارحیم
)
۱ ۔(
انا اعطینک الکو ثر
)
۔ ۲ ۔(
فصل لر بک وانحر
)
۔ ۳ ۔(
انا شائنک هو الا بتر
)
۔
تر جمہ
شروع اللہ کے نام سے جو رحیم ہے
۱ ۔ ہم نے تجھے کوثر ( بہت زیادہ خیر و برکت ) عطا کی۔ ۲ ۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھ اور قر بانی دے۔
۳ ۔ یقینا تیرا دشمن ہی ابتر ( اور بلا عقب و مقطوع النسل ) ہے۔
ہم نے تجھے فرا واں خیر و بر کت دی
اس تمام سورے میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ( جیسا کہ سورہ والضحیٰ اور سورہ الم نشر ح میں ہے) اور تینوں سوروں کے اہداف و مقا صد میں سے ایک آنحضرت کے دل کو درد ناک انبوہ حوادث میں تسلی دینا اور دشمنوں کے بار بار لگائے ہوئے زبان کے زخموں کے مقا بلہ میں تشفی بخشنا ہے۔
پہلے فرماتا ہے:” ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا“(
اِنّا اعطینا ک الکوثر
)
” کوثر“ وصف ہے جو کثرت سے لیا گیا ہے، اور فراواں خیر وبرکت کے معنی میں ہے اور” سخی“ افراد کو بھی” کوثر“ کہا جا تا ہے۔
اس بارے میں کہ یہاں کوثر سے کیا مراد ہے، ایک روایت میں آیا ہے کہ جس وقت یہ سورہ نازل ہوا، پیغمبر اکرم منبر پر تشریف لے گئےاور اس سورہ کی تلاوت فرمائی۔ اصحاب نے عرض کیا یہ کیا چیز ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمائی ہے؟ آپ نے فر مایا کہ یہ جنت میں ایک نہر ہے ،جو دودھ سے زیادہ سفید اور قدح( بلور) سے زیادہ صاف ہے، اس کے اطراف میں دُر و یا قو ت کے قبے ہیں
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے آیا ہے کہ آپ نے فر مایا:
” کوثر جنت میں ایک نہر ہے جو خدا نے اپنے پیغمبر کو ان کے فرزند( عبد اللہ جو آپ کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے) کے بدلے میں عطا کی ہے۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد وہی” حوضِ کوثر“ ہے جو پیغمبر سے تعلق رکھتا ہے، اور جس سے مومنین جنت میں داخل ہونے کے وقت سیراب ہو گے۔
بعض نے اس کی نبوت سے تفسیر کی ہے، بعض دوسروں نے قرآن سے، بعض نے اصحاب و انصار کی کثرت سے اور بعض نے کثِر ت اولاد اور ذُریّت سے، جوسب آپ کی دُختر نیک اختر فا طمہ زہرا علیہا السّلام سے وجود میں آئی اور اس قدر بڑھ گئی ہے کہ حساب و شمار سے باہر ہو گئی ہے اور دامنِ قیا مت تک پیغمبر اسلام کے وجود کی یاد گار ہے۔ بعض نے اس کی ”شفا عت“ سے بھی تفسیر کی ہے اور اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے
یہاں تک کہ فخر رازی نے ” کو ثر“ کی تفسیر میں ” پندرہ قول“ نقل کیے ہیں ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اس وسیع معنی کے واضح مصادیق کا بیا ن ہے، کیو نکہ جیسا کہ ہم نے کہا ہے” کوثر“ ” خیر کثیر اور فراداں نعمت“ کے معنی میں ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ خدا وند تعا لیٰ نے پیغمبر اکرم کو بہت ہی زیادہ نعمتیں عطا فر مائی ہیں اور جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ان میں سے ہر ایک اس کے مصاد یق میں سے ایک واضح مصداق ہے اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مصداق ہیں ، جنہیں آیت کی مصداقی تفسیر کے عنوان سے بیان کیا جا سکتا ہے- بہر حال تمام میدانوں میں پیغمبر اکرم کی ذات پر تمام نعمتیں ۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ جنگوں میں آپ کی کامیابیوں میں ،یہاں تک کہ آپ کی اُ مّت کے علماء جو ہر عصر اور ہر زمانہ میں قرآن واسلام کی مشعلِ فروزاں کی پا سداری کر تے ہیں ، اوراسے دنیا کے ہر گوشہ میں لے جاتے ہیں ۔ سب اس خیر کثیر میں شامل ہیں -
اس بات کو نہیں بھولنا چا ہئیے کہ خدا اپنے پیغمبر سے یہ بات اس وقت کہہ رہا ہے کہ ابھی تک اس خیر کثیر کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسی خبر اور پیش گوئی تھی جو مستقبل بعید کے لئے کی جا رہی تھی۔ یہ ایک اعجاز آمیز اور رسو لِ اکرم کی دعوت کی حقا نیت کو بیان کرنے والی خبر ہے۔
اس عظیم نعمت اور خیر فر اداں کے لئے بہت ہی زیا دہ شکر ادا کرنے کی ضرورت ہے، اگر چہ مخلوق کا شکر ادا کرنا خا لق کی نعمت کے حق کو ہر گز ادا نہیں کرتا، بلکہ شکر گزاری کی تو فیق اس کی طرف سے خُود ایک اور نعمت ہے، لہٰذا فرماتا ہے:” اب جب کہ ایسا ہے تو صرف اپنے پرور دگا ر کے لئے نماز پڑھ اور قر بانی دے “(
فصل لربّک وانحر
)
ہاں ! نعمت کا بخشنے والا وہی ہے اسی بناء پر نماز، عبادت اور قر بانی جو ایک قسم کی عبادت ہے، اس کے علاوہ کسی اور کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی خصو صاََ” رب “کے مفہوم کی طرف توجہ کرتے ہوئے، جو نعمتوں کے دوام اور پروردگار کی تد بیر و ربو بیت کو بیان کرتا ہے خلا صہ یہ کہ” عبادت“ خواہ نماز کی صورت میں ، ہو یا قربانی کرنے کی صورت میں وہ رب اور ولی نعمت کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور وہ خدا کی ذاتِ پاک سے وا بستہ ہے
یہ بات مشرکین کے اعمال کے مقابلہ میں جو اپنی نعمتوں کوتو خدا ہی کی طرف سے سمجھتے تھے لیکن سجدہ اور قربانی بتوں کے لئے کر تے تھے بہر حال’ لربّک‘ کی تعبیر عبادات میں قصدِ قر بت کے لازم ہو نے کے مسئلہ پر ایک واضح دلیل ہے بہت سے مفسرین کا نظریہ یہ ہے کہ نماز سے مرادعید قربان کے دن کی نماز ہے اور قربانی کرنا بھی اسی دن ہے لیکن ظاہراََ آ یت کا مفہوم عام اوروسیع اگر چہ عید کے دن کی نماز اور قر بانی بھی اس کا ایک وا ضح مصداق ہے۔ ”وانحر
“” نحر“ کے مادّہ سے، اُو نٹ کو حلال کر نے کے ستاتھ مخصوص ہے۔ یہ بات شاید اس بناء پر ہے کہ قر با نیوں میں سے
اونٹ کی قر بانی سب سے زیاد ہ اہمیت رکھتی تھی۔ اورپہلے پہل مسلمان اس سے زیادہ لگاو رکھتے تھے اور اُونٹ کی قربانی دینا ایثار و قربانی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اوپر والی آیت کے لیے یہاں دو اور تفسیریں بھی بیان کی گئی ہیں ۔
۱ ۔” وانحر “کے جملہ سے مراد نماز کے وقت رُو بقلیہ کھڑا ہو نا ہے، چو نکہ ” نحر“ کا مادّہ گلے والی جگہ کے معنی میں ہے اس کے بعد عربو ں نے اسے ہر چیز کے آمنے سامنے ہونے کے معنی میں استعمال کیا ہے ، لہٰذا وہ کہتے ہیں :” منا زلناتتناحر“یعنی ہمارے گھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں ۔
۲ ۔ اس سے مراد تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا اور گلے اور چہرے کے سامنے لانا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے:” جس وقت یہ سورہ نازل ہوا، تو پیغمبر اکرم نے جبرئیل سے سوال کیا:یہ ”نُحیره
“
جس کے لئے میرے پروردگار نے مجھے مامور کیا ہے، کیا ہے؟” جبرئیل“ نے عرض کیا:
” یہ نحیرہ نہیں ہے، بلکہ خدا نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ جس وقت نماز میں داخل ہو تو تکبیر کہتے وقت اپنے ہاتھو ں کو بلند کریں ، اور اسی طرح جب رکوع کریں ، یا رکوع سے سر اُٹھا ئیں ، یا سجدہ کریں ، اس وقت بھی، کیو نکہ ہماری اور سات آسما نو ں کے فر شتو ں کی نماز اسی طرح کی ہے۔ اور ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے، اور نماز کی زینت ہر تکبیر کے وقت ہاتھوں کو بلند کر نا ہے۔
ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السّلام سے آیا ہے کہ آپ نے اس آیت کی تفسیر میں اپنے دستِ مبارک سے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا:
اس سے مراد یہ ہے کہ نماز کے آغاز میں ہاتھو ں کو اس طرح بلند کرو کہ ان کی ہتھیلیاں رُو بقبلہ ہو“
لیکن پہلی تفسیر سب سے زیادہ مناسب ہے، کیو نکہ اس سے مراد بُت پرستوں کے اعمال کی نفی ہے جو غیر خدا کے لئے عبادت و قربانی کرتے تھے۔ لیکن اس کے با وجود ان تمام روایات اور مطالب کے درمیان جمع کرنا، جو اس سلسلہ میں ہم تک پہنچی ہیں کوئی مانع نہیں ہے۔ خا ص طور سے تکبیرات کے وقت ہاتھ بلند کرنے کے سلسلہ میں تو شیعہ اور اہلِ سنّت کی کتا بوں میں متعدد روایات نقل ہوئی ہے۔ اس طرح سے ایک آیت جا مع مفہو م رکھتی ہے جو ان کو بھی شامل ہے۔
اور اس سورہ کی آخری آیت میں ، اس نسبت کی طرف تو جہ دیتے ہوئے، جو شرک کے سر غنے آنحضرت کی طرف دیتے تھے، فرماتا ہے :” اَ بتر اور بلا عقب و مقطوع النسل نہیں ہے۔ بلکہ تیرا دشمن اَبتر، بلا عقب اور مقطوع النسل رہے گا۔“(
انّا شا نئک هو الابتر
)
” شا نی“ ”شنئان“ ( بر وزن ضربان) کے مادّہ سے عداوت و دشمنی، کِینہ ورزی اور بد خلقی کر نے کے معنی میں ہے اور ” شا نی“ اس شخص کو کہتے ہیں جو اس صفت کا حامل ہو۔
قا بِل تو جہ بات یہ کہ ” ابتر “ اصل میں ” دُم کٹے جا نور“ کے معنی میں ہے، اور دُ شمنانِ اسلام کی طرف سے اس تعبیر کا انتخاب آنحضرت کی ہتک حرمت اور تو ہین کر نے کے لئے تھا۔ اور” شانی “ کی تعبیر اسی و اقعیت کو بیان کرتی ہے کہ وہ اپنی دشمنی میں کم سے کم آداب کی رعا یت تک بھی نہیں کرتے تھے۔ یعنی ان کی عداوت و دشمنی قساوت و ر ذالت سے آمیختہ تھی۔ حقیقت میں قرآن یہ کہتا ہے کہ یہ لقب خود تمہارا ہے نہ کہ پیغمبر اکرم کا۔ دوسری طرف۔ جیسا کہ سو رہ کی شانِ نزول میں بیان کیا گیا ہے۔ قر یش پیغمبر اکرم ، اور اسلام کی بسا ط کے اُلٹ جانے کے انتظار میں تھے، کیو نکہ وہ یہ کہتے تھے کہ آپ کے پیچھے کوئی او لاد نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تو بلا عقب اور بے اولاد نہیں ہے بلکہ تیرے دشمن ہی بلا عقب اور بے اولاد ہیں ۔
۱ ۔ حضرت فاطمہ او ر ”کوثر“
ہم بیان کر چکے ہیں کہ ” کو ثر “ ایک عظیم جا مع ااور وسیع معنی رکھتا ہے۔اوروہ” خِیرکثیر و فراداں ہے“ او ر اس کے بہت زیادہ مصادیق ہیں ۔ لیکن بہت سے بزرگ شیعہ علماء نے واضح ترین مصادیق میں سے ایک مصداق” فا طمہ زہرا“( سلام اللہ علیہا) کے وجود مبارک کو سمجھا ہے۔ چو نکہ آیت کی شانِ نزول سے ظاہر ہے کہ دشمن پیغمبرِاکرم کو ابتر اور بلا عقب ہو نے سے متہم کرتے تھے۔ قرآن ان کی بات کی نفی کے ضمن میں کہتا ہے:” ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا ہے“ اس تعبیر کا مطلب یہی بنتا ہے کہ یہ” خیر کثیر“ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہی ہیں کیو نکہ پیغمبر کی نسل اور ذریت اسی دُخترِ گرامی کے ذر یعے سا رے عالم میں منتشر ہوئی، جو نہ صرف پیغمبر کی جسمانی او لاد تھی بلکہ انہوں نے آپ کے دین اور اسلام کی تمام اقدار کی حفاظت کی اور اسے آنے والوں تک پہچایا۔ نہ صرف اہلِ بیت کے آئمہ معصومین، جن کی اپنی ایک مخصوص حیثیت تھی، بلکہ ہزارہا فرزندانِ فا طمہ عالم میں پھیل گئے، جن میں بڑے بڑے بزرگ علماء مئو لفین،فقہا،محدّ ثین، مفسّرین والا مقام، اور عظیم حکمران ہو گزرے ہیں جنہوں نے ایثار و قر بانی اور فدا کاری کے ساتھ دینِ اسلام کی حفاظت کی کو شش کی۔یہاں پر” فخر رازی“ کی ایک عمدہ بحث ہمارے سامنے آئی ہے جو اُس نے کوثر کی مختلف تفسیروں کے ضمن میں بیان کی ہے:تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورہ ان لوگوں کے ردّ کے عنوان سے نازل ہواہے جو پیغمبر اکرم کی اولاد کے نہ ہونے پر طعن و طنز،اور تنقید و اعتراض کرتے تھے۔ اس بنا ء پر سورہ کا معنی یہ ہوگا کہ خدا آپ کو ایسی نسل دے گا جو زمانئہ دراز تک باقی رہے گیغور تو کرو کہ لوگوں نے اہلِ بیت کے کتنے افراد کو شہید کیا لیکن اس کے با وجود دُنیا اُن سے بھری پڑی ہے جب کہ بنی اُمیہ میں سے( جو اسلام کے دشمن تھے) کوئی قابل ذکر شخص دنیا میں باقی نہیں رہا پھر آنکھ کھول کر دیکھ اور غور کر کہ فاطمہ کی اولاد کے در میان باقر و صادق و رضاو نفسِ ذکیہ /
جیسے کتنے عظیم اور بزرگ علماء ہوئے ہیں
۲ ۔ اس سورہ کا اعجاز
در حقیقت اس سورہ میں تین پیشین گوئیاں ، بیا ن کی گئی ہے ایک طرف پیغمبر کو خیر کثیر عطا کر نے کی خوش خبری دیتی ہے ( اگر چہ ” اعطینا“ فعل ما ضی کی صورت میں ہے لیکن ممکن ہے کہ یہ مضارع مسلّم کی قسم سے ہو، جو ماضی کی صورت میں بیان ہوا ہے) اور یہ خیر کثیر ان تمام فتو حات، کا میا بیوں اورتوفیقات کو شامل ہے جو پیغمبر اکرم کو بعد میں نصیب ہوئی ہے اگر چہ وہ مکہ میں اس سورہ کے نزول کے وقت پیش بینی کے قا بل نہیں تھیں
دوسری طرف یہ سورة اس بات کی خبر دے رہا ہے کہ پیغمبر اکرم بے اولاد، بلا عقب اور مقطوع النسل نہیں ہو گے۔ بلکہ آپ کی نسل اور اولاد بڑی کثرت سے عا لم میں مو جود رہے گی۔
تیسری جانب یہ سورہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ آپ کے دشمن ابتر، بلا عقب اور مقطوع النسل ہو جائیں گے یہ پیش گو ئی بھی پو ری ہو گئی ہے اور آپ کے دشمن اس طرح تتر بتر اور تباہ وبرباد ہوئے کہ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں ہے حالانکہ” بنی اُمیہ“ اور ”بنی عباس“ جیسے قبائل جو پیغمبر اور ان کی اولاد کے مقابلہ میں کھڑے ہو ئے ایک وقت اتنی جمعّیت اور کثرت رکھتے تھے کہ ان کی اولاد شمار میں نہ آئی تھی، لیکن آج اگر اُن میں سے کوئی باقی رہ بھی گیا ہو تو وہ بالکل پہچانا نہیں جات
۳ ۔ خُدا کے لیے جمع کی ضمیر کس لیے ہے؟
قا بل توجہ بات یہ ہے کہ یہاں بھی اور قرآن مجید کی اور بہت سی دوسری آیات میں بھی صیغہ” متکلم مع الغیر“( جمع متکلم) کے ساتھ اپنا ذکر کرتا ہے فرماتا ہے:”ہم“ نے تجھے کوثر عطا کیایہ تعبیر اور اس قسم کی تعبیریں عظمت و قدرت کو بیان کرنے کے لیے ہوتی ہیں کیو نکہ بزرگ اور بڑی ہستیاں جب اپنے بارے میں بات کرتی ہیں ، تووہ صرف اپنے بارے میں ہی نہیں ، بلکہ اپنے ماموریں کا رندو ں کے بارے میں بھی خبر دیتی ہیں ، اور یہ قدرت و عظمت اور ان کے اوامرکے مقابلہ میں فرمانبر داری کرنے والوں سے کنا یہ ہے
زیر بحث آیت میں لفظ ” ان “ بھی اس معنی پرایک دوسری تاکید ہے۔ ” اٰتیناک “ کے بجائے ” اعطیناک“ کی تعبیر اس بات کی دلیل ہے کہ خدا نے پیغمبر کو کو ثر بخش دےا ہے اور عطا کردیا ہے ۔ اور یہ پیغمبر اکرم کے لئے ایک بہت بڑی بشارت ہے کہ کو دشمنوں کی بیہودہ باتوں سے آپ کا قلب مبارک آزردہ نہ ہو ۔ اور آپ کے آہنی عزم میں سستی اور کماور کمزوری پیدا نہ ہونے پائے ۔ اور دشمن یہ جالیں کہ آپ کی تکیہ گاہ وہ خدا ہے ، جو تمام خیرات کا منبع ہے اور اس نے خیر کثیر آپ کو بخش دی ہے ۔
خدا ندا! ہمیں اس خیر کثیر کی بر کات سے جو تو نے اپنے پیغمبر کو مرحمت فرمائی ہے ، بے نصیب نہ کرنا ۔
پروردگارا ! تو جانتا کہ ہم آنحضرت اور آپ کی ذریت طاہرہ کو خلوص دل کو ساتھ دوست رکھتے ہیں ، لہٰذا ہمیں انہیں کے ساتھ محشور کرنا۔
بار الہٰا آنحضرت اور آپ کے دین و ائیں کی بہت بڑی عظمت ہے، اس عظمت و عزت و شوکت میں روز بروز اضافہ فرما۔
سورہ کافرون
یہ مکہ میں نازل ہوا اس میں ۶ آیات ہیں
سورہ کافرون کے مطالب اور اس کی فضیلت
یہ سورہ مکہ میں نازل ہو ا۔ اس کا لب و لہجہ اور اس کے مطالب اس بات کے واضح گواہ ہیں ۔ اسی طرح وہ شانِ نزول جس کی طرف بعد میں اشارہ ہو گا ، اس مدعا پر دوسری دلیل ہے ۔ یہ جو بعض نے اس کے مد نی ہونے کا احتمال دیا ہے ، بہت بعید نظر آتا ہے ۔
سورہ کالب و لہجہ بتاتا ہے کہ یہ سورہ ایسے زمانہ میں نازل ہوا جب مسلمان اقلیت میں تھے اور کفار اکثریت میں پیغمبر پر ان کی طرف سے سخت دباو تھا اور انہیں اصرار تھا کہ کسی طرح سازش کرکے آ پ کو شرک کی طرف کھینچ لیں ۔ پیغمبر نے ان کی اس پیش کش کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا اور انہیں کلی طور پر مایوس کردیا اور ان کے ساتھ الجھے بھی نہیں ۔
یہ بات تمام مسلمانوں کے لئے ایک نمونہ ہے کہ وہ اسلام اور دین کی اساس کے بارے میں دشمن کے ساتھ کسی حالت میں بھی مصالحت نہ کریں اور جب بھی ان کی طرف سے اس قسم کی خواہش کی جائے تو انہیں کامل طور سے مایوس کردیں ۔ اس سورہ میں اس معنی پر خصوصیت کے ساتھ دو مرتبہ تاکید ہوئی ہے کہ ” میں تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کروں گا “ اور یہ تاکیدانہیں مایوس کرنے کے لئے ہے ۔ اسی طر اس بات کی بھی دومرتبہ تاکید ہوئی ہے کہ ” تم بھی ہر گز میرے معبود ، خدا ئے یگانہ کی عبادت نہیں کروگے ۔ “ یہ ان کی ہٹ دھرمی کی ایک دلیل ہے اور اس کا انجام یہ ہے کہ ” میں ہوں اور مریا دین توحید ، اور تم ہو اور تمہارا شرک آلود دین “۔
اس سورہ کی فضیلت
اس سورہ کی فضیلت کے بارے میں بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں ، جو اس کے مطالب کی حد سے زیادہ اہمیت کی ترجمان ہیں ۔
ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
”من قرأ قل یا ایها الکافرون فکأنما قرأ ربع القراٰن و تباعدت عنه مردة الشیاطین ، و برأ من الشرک و لیعافی من الفزع الاکبر
“
” جو شخص ” قل یا ایھا الکافرون “ کو پڑھے گا تو ایسا ہے جیسے اس نے چوتھائی قرآن پرھا ہو، سر کش شیاطین اس سے دور رہیں گے ، وہ شرک سے پاک ہوجائے گا اور”روز قیامت “کی گھبراہٹ سے امان میں ہوگا ۔
” ربع القراٰن “ ( چوتھائی قرآن ) کی تعبیر شاید اس بناء پرہے کہ قرآن کا تقریباً چوتھا حصہ شرک و بت پرستی سے مبارزہ میں ہے اور اس کا نچوڑ اور خلاصہ اس سورہ میں آیا ہے ۔ اور سر کش شیاطین کا دور ہونا اس بناء پر ہے کہ اس سورہ میں مشرکین کی پیش کش کوٹھکرادیا گیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ شرک شیطان کا اہم ترین آلہ ہے ۔
قیامت میں نجات پہلے درجہ میں توحید اور نفی ِ شرک کی مرہونِ منت ہے ، وہی مطلب کے محور پریہ سورہ گردش کرتا ہے ۔
ایک اور حدیث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے آیاہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے کسی ایسی چیز کی تعلیم دیجئے جسے میں سوتے وقت پڑھا کروں ، آپ نے فرمایا:
”اذا اخذت مضجعک فاقرأ قل یاایها الکافرون ثم نم علی خاتمها فانها براء ة من الشرک
“
” جب تو اپنے بستر پر جائے تو سورہ قل یا ایھا الکافرون کو پڑھ ۔ ا سکے بعد سو جا کیونکہ یہ شرک سے بیزاری ہے ۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک روایت میں یہ بھی آیاہے کہ آپ نے ” جبیر بن مطعم “ سے فرمایا:
” کیا تو اس بات کو دوست رکھتا ہے کہ جب تو سفر پر جائے تو زاد راہ اور توشہ کے لحاظ سے اپنے ساتھیوں میں سب سے بہتر ہو“؟َ اس نے عرض کی ہاں ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
ان پانچ سو رتوں کو پڑھا کرو:”قل یا ایها الکافرون
“ و ”اذا جاء نصر الله و الفتح
“ و”قل هو الله احد
“ و ”قل اعوذ برب الفلق
“ و”قل اعوذ برب الناس
“ اور اپنی قرأت کی ابتداء بسم اللہ الرحمن الرحیم “ سے کیاکرو۔
اور ایک حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ” میرے والد کہا کرتے تھے کہ ” قل یا ایھا الکافرون “ ربع قرآن ہے اور جب آپ اس کی قرأت سے فارغ ہوتے تھے فرماتے :” اعبد اللہ وحدہ “ میں صرف خدائے واحد کی عبادت کرتا ہوں ، میں صرف خدائے واحد کی عبادت کرتاہوں ۔
آیات ۱،۲،۳،۴،۵،۶
(
بسم الله الرحمن الرحیم
)
۱ ۔(
قل یا ایها الکافرون
)
۔ ۲ ۔(
لآ اعبد ماتعبدون
)
۔ ۳ ۔(
ولا انتم عابدون مآاعبد
)
۔ ۴ ۔(
ولا انا عابد ما عبدتم
)
۔
۵ ۔(
ولا انتم عابدوں مآاعبد
)
۔ ۶ ۔(
لکم دینکم وَلِیَ دین
)
۔
ترجمہ
شروع اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے
۱ ۔ کہہ دو اے کافرو! ۲ ۔ جن کی تم پرستش کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔
۳ ۔ اور نہ تم ا س کی عبادت کروگے ، جس کی میں پرستش کرتا ہوں ۔ ۴ ۔ اور نہ ہی میں ان کی پرستش کروں گا جن کی تم پرستش کرتے ہو۔
۵ ۔ اور نہ تم اس کی پرستش کروگے جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔
۶ ۔ (اب جب کہ معاملہ اس طرح ہے تو ) تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ۔
شان نزول
روایات میں آیاہے کہ یہ سورہ مشرکین کے سرغنوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ مثلا ً ” ولید بن مغیرہ “”عاص بن وائل “ ” حارث بن قیس “ اور ” امیہ بن خلف “ وغیرہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ اے محمد ! آو تم ہمارے دین کی پیروی کرلو ، ہم بھی تمہارے دین کی پیروی کرلیتے ہیں ، اور ہم تمہیں اپنے تمام امتیازات میں شریک کرلیں گے ، ایک سال تو تم ہمارے خدا و ں کی عبادت کیا کرو اور دوسرے سال ہم تمہارے خدا کی عبادت کیا کریں گے ۔ اگر تمہارا دین بہتر ہے تو ہم اس میں شریک ہو گئے ہیں اور اپنا حصہ اس میں سے لے لیا ۔ اور اگر تمہارا دین ہوتو تم ہمارے دین میں شریک ہو گئے اور تم نے اس میں سے اپنا حصہ لے لیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
” میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ کسی چیز کو اس کا شریک قرار دوں “۔
انہوں نے کہا : کم از کم ہمارے خدا و ں کو چھو ہی لو اور ان سے تبرک حاصل کرلو تو ہم تمہاری بات مان لیں گے اور تمہارے خدا کی پرستش کرنے لگیں گے ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
” میں تو اپنے پروردگار کے حکم کا منتظر ہوں ۔ تو اس موقع پر سورہ ” قل یا ایھا الکافرون “ نازل ہوااور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مسجد الحرام میں آئے اور جب قریش کے سرداروں کی ایک جماعت وہاں جمع تھی ۔ تو آپ نے ان کے سروں کے اوپر کھڑے یہ سورہ آخر تک ان کے سامنے پڑھا۔ جب انہوں ے اس سورہ کے پیام کو سنا تو مکمل طور پر مایوس ہوگئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہ و سلم اور آ پ کے صحابہ کو آزار پہنچا نے لگے “
بت پرست کے ساتھ ہر گز مصالحت نہیں ہو سکتی
اس سورہ کی آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں : ” کہہ دو اے کافرو!(
قل یا ایها الکافرون
)
”تم جن کی پرستش کرتے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا “۔(
لااعبد لا تعبدون
)
” اور نہ ہی تم اس کی پرستش کروگے جس کی میں پرستش کرتا ہوں “۔(
ولا انتم عابدون مااعبد
)
اس طرح اپنی مکمل علیٰحدگی کو مشخص کرتا ہے اور صراحت کے ساتھ کہتا ہے ، ” میں ہر گز کبھی بت پرستی نہیں کروں گا “
اور تم بھی اپنی اس ہٹ دھرمی اور اپنے بڑوں کی اندھی تقلید کے باعث، جس پر تمھیں اصرار ہے ، اور بت پرستوں کی طرف سے جو بکثرت نا جائز منافع تمہیں حاصل ہوتے ہیں اس وجہ سے ہر گز شرک سے خالص خدا پر ستی کی طرف نہیں آسکتے
بت پرستوں کو توحید وبت پرستی میں کس قسم کی مصالحت سے مکمل طور پر مایوس کر نے کے لئے دوبارہ مزید فرماتا ہے: اور نہ ہی میں ہرگز انکی پرستش کروگا جن کی تم پرستش کرتے ہو“(
ولا انا عابد ما عبدتم
)
” نہ ہی تم اس کی پرستش کرو گے جس کی میں عبادت کر تا ہوں “(
ولا انتم عا بدون مااعبد
)
اس بناء ہربت پرستی کے مسئلہ پر بے جا مصالحت کے لئے اصرار نہ کرو، کیو نکہ کہ یہ بات غیر ممکن ہے” اب جب کہ معاملہ اس طرح ہے تو تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے“(
لکم دینکم ولی دین
)
” بہت سے مفسرین نے یہ تصریح کی ہے کہ یہا ں ” کا فرون“ سے مراد مکّہ کے بت پرستوں کے سر غنوں کا ایک خاص گروہ ہے، اس بنا پر ” الکافرون“ پر” الف و لام“ اصطلاح کے مطابق”عہد کا ہے”جمع“ کا نہیں ہے
ممکن ہے کہ اس مطلب پر ان کی دلیل۔ اس چیز کے علاوہ جو شان نزول میں کی جا چکی ہے۔یہ ہو کہ مکہ کے بت پر ستوں میں سے بہت سے آخرکار ایمان لے آئے تھے۔ اس بنا ء پر اگر وہ یہ کہتاہے کہ،” نہ تم میرے معبود کی عبادت کرو گے نہ ہی میں تمہارے معبودوں کی ، تو یقینی طور پر یہ شرک و کفر کے سر غنوں کے اس گروہ کے بارے میں ہے جو آخری عمر تک ہر گز ایمان نہیں لایا، ورنہ فتح مکہ کے مو قع پر بہت سے مشرکین فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے تھےیہاں چند سوالات سامنے آتے ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے
۱ ۔ یہ سورہ ”قل“ ( کہہ دے) کے ساتھ شروع کیوں ہوا؟
کیا یہ بہتر نہیں تھاکہ”قل“ اس کے آغاز میں لائے بغیر” یا ایھاالکافرون“ کہا جا تا؟
دوسرے لفظوں میں پیغمبر کو خدا کے حکم کا اجراء کرنا چا ہیے تھا اور انہیں ”(
یا ایها الکا فرون
)
“ کہنا چا ہیئے تھا، نہ کہ جملہ” قل “کا بھی تکرار کریں
اس سوال کا جواب سورہ کے مضمون کی طرف تو جہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کیو نکہ مشرکین عرب نے پیغمبر کو بتو ں کے سلسلے میں مصالحت کرنے کی دعوت دی تھی،لہٰذا آپ کے لئے اپنی طرف سے اس مطلب کی نفی کر نا ضروری تھا اور یہ کہنا چاہییے تھا کہ میں ہر گز تمھاری بات نہیں ما نو ں گا اور اپنی عبا دت کو شرک سے آلو دہ نہیں کرو ں گا۔ اگر اس سورہ کے آغاز میں لفظ”قل “ نہ ہوتا تو یہ با ت خدا کی بات ہو جاتی اور اس صورت میں ”(
لا اعبد ماتعبدون
)
“( تم جن کی عبا دت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرو ں گا) کا جملہ اور اسی قسم کے دوسرے جملوں کا کوئی مفہوم نہ ہوتا
اس کے علاوہ چونکہ جبرئیل کے پیام میں لفظ”قل“خدا کی ظرف سے تھا ،لہٰذا پیغمبر کی ذمہ داری یہ کہ قرآن کی اصا لت کی حفا ظت کے لیے اسے بعینہ بیان کریں اور خود یہی چیز اس بات کی نشانی وہی کرتی ہے کہ” جبرئیل“ اور اس رسو ل اکرم نے وحی الٰہی کے نقل کرنے میں معمو لی سی بھی تبدیلی نہیں کی اور انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایسے مامور ہیں جو فقط فرما ن الٰہی پر ہی کان دھرتے ہیں جیسا کہ سورہ یو نس کی آیت ۱۵ میں آیا ہے:قل ما یکون لی ان ابّد له من تلقائی نفسی ان اتبع االّا ما یو حٰی الّی
: کہ دیجئے مجھے اس بات کا کوئی حق نہیں ہے کہ قرآن کو اپنی طرف سے بد ل دوں ، میں تو صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی ہوتی ہے
۲ ۔ کیا بت پرست خدا کے منکر تھے؟
ہم جانتے ہیں کہ بت پرستوں کو ہر گز خدا کا انکار نہیں تھا۔ اور قرآن کی صریح آیات کے مطا بق جب ان سے آسمان و زمین کے خالق کے بارے میں پو چھا جاتا تھا تو وہ یہ جواب دیتے تھے کہ وہ خدا ہے:ولئن ساء لتھم من خلق السّما وات والارض لیقولن اللہ( لقمان۔ ۲۵)
تو پھروہ اس سورہ میں یہ کیسے کہتا ہے:” نہ تو میں تیرے معبود کی پرستش کرو ں گا اور نہ ہی تم میرے معبود کی پرستش کرو گے“؟
اس سوال کا جواب بھی اس چیز کی طرف تو جہ کرتے ہوئے واضح ہو جا تاہے کہ بحث مسئلہ خلقت کے بارے میں نہیں ہے بلکہ مسئلہ عبا دت کے بارے میں ہے۔ بت پرست، خالق جہاں خدا ہی کو سمجھتے تھے۔ لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ عبادت بتوں ہی کی کرنی چا ہئیے۔ تاکہ وہ بارگاہِ خدا میں واسطہ بنیں ، یا یہ کہ ہم اصلا اس لا ئق نہیں ہیں کہ خدا کی پرستش کریں ، لہٰذا ہمیں جسمانی بتو ں کی عبادت کرنی چاہئیے۔ اس مو قع پر قرآن ان کے اوہام اور خیا لات پر سرخ لکیر کھینچتے ہوئے ردّ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ عبادت تو صرف خدا ہی کی ہونا چا ہئیے، نہ کہ بتوں کی ہونا چاہئیے اور نہ ہی دونوں کی
۳ ۔یہ تکرار کس لیے ہے؟
اس بارے میں کہ پیغمبر کی طرف سے بتوں کی عبادت کی نفی کی تکرار اور مشرکین کی طرف سے خدا کی عبادت کی نفی کی تکرار کس بنا ء پر ہے، بہت زیادہ اختلاف ہے۔
ایک جماعت کا عقیدہ تو یہ ہے کہ تکرار تا کید اور مشرکین کو مکمل طور پر ما یوس کرنے ، ان کے راستے کو اسلام کے راستے سے جدا کرنے اور یہ ثابت کرنے کے لیے ہے کہ توحید و شرک کے در میان مصالحت کا امکان نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، چو نکہ وہ پیغمبر اکرم کو شرک کی طرف دعوت دینے میں اصرار کے ساتھ تکرار کرتے تھے،لہٰذا قرآن بھی ان کے ردّ کرنے میں تکرار کرتا ہےایک حدیث میں آیا ہے کہ(امام جعفرصادق علیہ السّلام کے زما نے کے ایک زندیق)” ابو شاکردیصانی“ نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی” ابو جعفر احول“( محمّد بن علی نعما نی کوفی معروف بہ مومن طاق) سے ان آیات کے تکرار کی دلیل کے بارے میں سوال کیااور یہ کہا کہ کیا کسی عقل مند آدمی سے یہ بات ممکن ہے کہ اس کے کلام میں اس قسم کی تکرار ہو؟ ابو جعفر احول کے پاس چونکہ اس کا کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں مدینہ پہنچے اور اس سلسلہ میں سوال کیا، تو امام نے فرمایا:” ان آیات کے نزول اور ان میں تکرارکا سبب یہ تھا کہ قریش نے پیغمبر اکرم کے سامنے یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایک سال آپ ہمارے خدا و ں کی پر ستش کریں اور دوسرے سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں گے، اورا سی طرح بعد والے سال میں آپ ہمارے خداؤں کی عبادت کریں اور اس کے اگلے سال ہم آپ کے خدا کی عبادت کریں گے، تو اُوپر والی آیات نا زل ہوئیں اور تمام تجا ویز کی نفی کی“ جب ابو جعفر”احول نے“” ابو شاکر“ کو یہ جواب دیا تو اس نے کہا:”هٰذا ما حمله الا بل من الحجاز
یہ وہ بار ہے جسے اُونٹ حجاز سے اٹھا کر لا ئے ہیں “
(یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تیرا جواب نہیں ہے بلکہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا قو ل ہے):
بعض دوسروں نے یہ کہا ہے کہ تکرار اس بنا ء پر ہے کہ ایک جملہ توحال کے بیان کے لیے ہے اور دوسرا مستقبل کے بیان کے لیے، یعنی میں ہر گز بھی نہ تو حال میں تمہارے معبو دوں کی پر ستش کرو ں گا اور نہ ہی کبھی آئندہ تمہارے معبودوں کی عبا دت کرو ں گا
لیکن ظاہراََ اس تفسیر پر کوئی شا ہد موجود نہیں ہے
ایک تیسری تفسیر بھی اس تکرار کے لیے بیان کی گئی ہے کہ پہلا جملہ تو معبودوں کے اختلاف کو اور دوسرا عبادت کے اختلاف کو بیان کرتا ہےیعنی نہ تو میں ہر گز تمہارے معبودوں کی عبادت کرو ں گا اور نہ ہی میری عبادت تمہاری عبادت کی طرح ہے، کیو نکہ میری عبادت مخلصا نہ ا ور ہر قسم کے شرک سے خا لی ہے
علاوہ ازیں تمہارا بتوں کی عبادت کرنا بڑوں کی اندھی تقلید کی بناء پر ہے ۔لیکن میرا اللہ کی عبادت کرنا تحقیق و شکرانے کے طور پر
لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ تکرارتاکید کے لیے ہے ،جیسا کہ ہم نے اوپر وضا حت کی ہے وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث میں بھی اس کی طرف اشارہ ہوا ہےیہا ں ایک چو تھی تفسیر بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ:” دوسری آیت میں تو یہ فرماتا ہے کہ جن کی تم اب عبادت کر رہے ہو میں ا ن کی عبادت نہیں کروں گااور چو تھی آیت میں فر ماتا ہے کہ” میں نے گز شتہ زما نہ میں بھی کبھی تمہا رے معبوود کی عبا دت نہیں کی ہے چہ جائیکہ اب کرو
یہ فرق اس بات کی طرف تو جہ کرتے ہوئے کہ دوسری آیت میں ” تعبدون“ فعل مضارع کی صورت میں ہے، اور چو تھی آیت میں ”عبد تم“ فعل ماضی کی صورت میں ہے،بعید نظر نہیں آتا
اگر چہ یہ تفسیر صرف دوسری اور چو تھی آیت کے تکرار کو تو حل کرتی ہیں ، لیکن تیسری اور پانچویں آیت اسی طرح اپنی پوری قوّت کے ساتھ باقی رہتی ہے
۴ ۔کیا”(
لکم دینکم
)
۔۔۔۔۔“ کی آیت کا مفہوم بت پرستی کا جواز ہے؟
کبھی یہ خیال کیا گیاہے کہ اس سورہ کی آخری آیت جو یہ کہتی ہے کہ:” تمہارا دین تمہا رے لیے اور میرا دین میرے لیے“ تو اس کا مفہوم وہی ”صلح کل “ یہ ہے اور یہ انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے دین پر بر قرار رہیں کیو نکہ یہ دینِ اسلام کو قبول کرنے پر اصرار نہیں کرتیلیکن یہ خیال انتہائی کمزور اور بے بنیاد ہے کیو نکہ آیات کا لب ولہجہ اچھی طرح سے اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہ تعبیر ایک قسم کی تحقیر و تہدید ہے ،یعنی تمہارا دین خود تمہیں ہی مبارک ہو اور تم جلدی ہی اس کے بُرے انجام کو دیکھ لو گے،جیسا کہ سورہ قصص کی آیہ ۵۵ میں آیا ہے:(
واذا سمعوا اللغو ا عرضواعنه وقالوا لنا اعما لنا ولکم اعما لکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین
)
” مو منین جب کوئی لغو او ربیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے رو گر دا نی کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے اعمال تمہارے لیے تم پر سلام(وداع اور جدائی کا سلام) ہم جا ہلو ں کے طلب گار نہیں ہیں “
قرآن مجید کی سیکڑوں آیتیں اس مفہوم کی گواہ ہیں جو شرک کی ہر صورت میں سر کوبی کرتی ہیں ، اسے ہر کام سے زیادہ قابلِ نفرت سمجھتی ہیں اور اسے نہ بخشا جانے والا گناہ خیال کرتی ہیں علماء نے اس سوال کے دوسرے جواب بھی دیے ہیں مثلاََ یہ کہ آیت میں کچھ محذوف ہےاور تقدیر میں اسطرح ہے: ”لکم جزا ء دینکم ولی جزاء دینی
“” یعنی تمہارے دین کی جزا تمہارے لیے اور میرے دین کی جزا میرے لیے “ دوسرے یہ کہ یہاں ”دین “ جزا ء کے معنی میں ہے اور آیت میں کوئی بھی چیز محذوف نہیں ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی جزا لو گے اور میں اپنی جزا لو ں گا
۵ ۔آپ نے ایک لمحہ کے لیے بھی شرک سے مصالحت نہیں کی۔
اس سورہ میں جو کچھ آیا ہے وہ حقیقت میں اس واقعیت کو بیان کرتا ہے کہ تو حیدو شرک دو متضاد پر وگرام اور مکمل طور پر دو الگ الگ راستے ہیں اور ان میں ایک دوسرے کے ساتھ کسی قسم کی مشابہت نہیں ہے تو حید انسان کو خدا سے مر بوط کرتی ہے،جب کہ شرک اس کوخدا سے بیگانہ کر دیتا ہے
تو حید تمام مرحلوں اور میدانوں میں وحدت ویگانگی کی رمز ہے جب کہ شرک زندگی کے تمام شئون میں تفرقہ او ر پرا گندگی کا سبب ہےتوحید انسان کو عالمِ مادّہ اور جہان اور جہان ِ طبیعت سے بلندی کی طرف لے جاتی ہے اور ماوراء طبیعت میں خدا کے لا متناہی وجود کے ساتھ اس کا رشتہ جوڑ دیتی ہے، جبکہ شرک انسان کو طبیعت کے کنویں میں سر نگو ں کر دیتا ہے اور اس کا رشتہ محدود،کمزور اور فانی مو جو دات کے ساتھ جوڑ دیتا ہے
اسی بنا پرپیغمبراکرم اور تمام انبیاء عظّام نے نہ صرف شرک کے ساتھ مصالحت نہیں کی، بلکہ ان کا پہلا اور اہم ترین پروگرام شرک کے ساتھ مبارزہ کرنا تھا ۔آج بھی راہِ حق کے تمام چلنے والوں اور اس دین کے علماء و مبلغین کو یہی راستہ اور طریقہ اختیار کرنا چا ہیئے اور ہر جگہ اور ہر مقام پر ہر قسم کے شرک اور مشرکین سے ساز باز اور مصالحت سے اپنی برائت اور بیزاری کا اعلان کرنا چاہیئےیہی اسلام کی اصل راہ ہے۔
خدا وندا! ہمیں شرک اور شرک آلودہ افکار واعمال سے دور رکھ۔
پرور دگا ر! ہمارے زمانہ کے مشرکین کے وسوسے بھی خطر ناک ہے ، ہمیں ان کے وام فریب میں گرفتار ہونے سے محفوظ رکھ۔
بارِالہٰا! ہمیں ایسی شجا عت اور صراحت و قاطعیت مر حمت فرما کہ ہم بھی پیغمبراکرم کی طرح ہر قسم کے کفر و شرک کی مصالحت کی پیش و کش کو ردّ کر دیں ۔
آمین یا ربّ العالمین